آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)0%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 160
مشاہدے: 115256
ڈاؤنلوڈ: 3975

تبصرے:

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115256 / ڈاؤنلوڈ: 3975
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہوجائے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے اہم درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے یہاں بعض کو بیان کررہے ہیں۔

1۔ جسے بھی کوئی حکم دیں اُسے ادب و احترام سے پکاریں۔(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا---)

2۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام صحابہ عادل نہ تھے بلکہ ا ن کے درمیان، فاسق اورمنافق بھی موجود تھے۔( ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق ---)

3۔ ایسے افراد کو رسوا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں جو فتنہ و فساد کا باعث ہوں( ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق) (یہاں فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے)

5۔ فاسق کے علاوہ لوگوں پر اعتماد کرنا اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔

5۔ ناگوار حوادث کا پیش خیمہ دو چیزیں ہیں۔ فاسق کا فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے کوشش کرنا اور مومنین کا جلدی سے اس کی بات پریقین کرلینا۔

6۔ اگرچہ ہمیں تو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم فاسق سے کوئی خبر لیں لیکن فاسق اس بات کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کوئی غلط خبر ہم تک پہنچادے۔(جائکم)

7۔ ہر خبر کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر کوئی اہم خبر ہو تو اس کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ''نبأ'' اہم اور مفید خبر کو کہتے ہیں۔

8۔سادہ لوح ہونا اور جلدی یقین کرلینا ایمان کے موافق نہیں ہے۔

۶۱

(آمَنُوا---فَتَبَیَّنُوا)

9۔ تحقیق کرنے میں دیر نہ کرو۔(فَتَبَیَّنُوا) ''حرف فاء ''جلدی اقدام کرنے کی طرف اشارہ ہے۔

10۔ فاسقین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں جھوٹی خبریں پھیلا کر امن وامان کی صورت حال کو خراب کردیں لہٰذا مومنین کی ذمہ داری ہے کہ بغیر تحقیق کے ان کی کسی بات پر یقین نہ کریں۔( ِنْ جَائَ کُمْ فَتَبَیَّنُوا---)

11۔ کبھی فاسق سچی خبر بھی دیتا ہے اس لیے لازم نہیں کہ اس کی ہر خبر کو جھوٹ کہیں بلکہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کریں۔(فَتَبَیَّنُوا)

12۔ فاسقین کی خبر کی تحقیق کرکے انہیں خبردار کریں اور انہیں اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اسلامی معاشرہ میں اپنی مرضی سے جو جی چاہے کریں۔(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا)

15۔ کسی بھی معاشرہ کو صحیح راستے پر چلانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے اس کا حل تلاش کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں تحقیق اور پھر دوسرے مرحلے میں اقدام کیا جائے۔(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا ---)

15۔ اگر احکام الٰہی کے فلسفہ اور اسرار کو لوگوں کے لیے بیان کیا جائے تو لوگ شوق اور ولولہ کے ساتھ وظیفہ شرعی کو انجام دیتے ہیں۔ خبر فاسق کی تحقیق کا فلسفہ اور راز، اسلامی معاشرہ کو فتنہ و فساد سے بچانا بتایا گیا ہے-(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا)

16۔ فاسق کے خبر دینے کا مقصد اسلامی معاشرہ کے امن عامہ کی صورت حال کو

۶۲

خراب کرنا ہے۔(َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ )

17۔ ایک غیر تحقیق شدہ خبر کسی بھی قوم کی نابودی کا سبب بن سکتی ہے۔(َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا)

18۔ جلد بازی اور بغیر تحقیق کے کوئی اقدام کرنا حماقت اور جہالت ہے۔( تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ )

19۔ احکام الٰہی کی پابندی انسان کو شرمندگی سے بچاتی ہے ۔ لہٰذا احکام الٰہی کی پابندی کریں تاکہ شرمندہ نہ ہوں۔(فَتَبَیَّنُوا ----- نادِمین)

20۔ جو کام سنجیدہ اور مستقل مزاجی پر مبنی نہ ہو اُس کا نتیجہ شرمندگی ہوتا ہے۔( نادِمِین)

فسق کیا ہے اور فاسق کون ہے؟

٭ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو اب یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فاسق کون ہے ؟ اور سچی خبر کو جھوٹی خبر سے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟

٭لغت میں ''فسق'' کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میںجو شخص راہ مستقیم سے جدا ہوجائے اُسے فاسق کہتے ہیں۔ یہ کلمہ عدالت کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے یعنی فاسق ایسے شخص کو کہتے ہیں جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو اور توبہ نہ کرے۔

۶۳

٭کلمہ ''فسق'' مختلف انداز میں ''55'' بار قرآن میں استعمال ہوا ہے من جملہ

1۔ جہاں فکری اور عقیدتی لحاظ سے انحراف پایا جاتا تھا۔ جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کے لیے آیا ہے(انّهم کانو قوماً فاسقین) (1)

2۔ کبھی یہ کلمہ منافق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔(انّ المنافقین هم الفاسقُونَ) (2)

3۔ کبھی فاسق ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کو آزار و اذیت پہنچانتے اور ان کی نافرمانی کرتے تھے۔

جیسا کہ حضرت موسیٰ ـ کی نافرمان قوم بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰ ـ کو ایذا پہنچاتی تھی ان کے بارے میں آیا ہے۔(قَالُوا یٰا مُوسَیٰ اِنَّا کُن ندخلها----- القوم الفاسقین) (3)

5۔ کبھی ان لوگوں کو فاس کہا گیا ہے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔(ومن لم یحکم بما أنزل اللّٰه فاولئک هم الفاسقون) (4)

5۔ کبھی حیلہ گر افراد کو فاسق کہا گیا ہے۔(بما کانوا یفسقون) (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ نمل ، آیت 12

(2)۔ سورئہ توبہ، آیت 67 (3)۔ سورئہ مائدہ، آیت 25۔ 26

(5)۔ سورئہ مائدہ، آیت 57 (5)۔سورئہ اعراف ، آیت 163

۶۴

6۔ کبھی ان لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے جو امر بمعروف اور نہی از منکر جسیے اہم وظیفہ کو ترک کردیتے ہیں۔( َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنْ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا --- بِمَا کَانُوا یَفْسُقُون) (1)

7۔ کبھی ان لوگوں کو جو مال و دولت ، عزیز و اقارب کو جہاد فی سبیل اللہ پر ترجیح دیتے ہیں۔(ِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ --- َحَبَّ --- وَاﷲُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) (2)

8۔ کبھی ایسے افراد کو فاسق کہا جاتا ہے جو شہوت رانی اور جنسی تجاوزات کا شکار ہوں ۔ جیسا کہ حضرت لوط ـکی قوم جو کھلم کھلا اس فعل کو انجام دیتی تھی ان کے لیے آیا ہے۔(رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) (3)

9۔ کبھی حرام چیزوں سے استفادہ کو فِسق کہا گیا ہے۔(حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ---ذَلِکُمْ فِسْق ) (4)

10۔ کبھی ایسے افراد کو فاسق کہا جاتا ہے جو پاکدامن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں۔(یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ---ُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ اعراف، آیت 165 (2)۔ سورئہ توبہ، آیت 23

(3)۔ سورئہ مبارکہ عنکبوت، آیت 35 (5)۔ سورئہ مائدہ، آیت 3

(5)۔ سورئہ مبارکہ نور ، آیت 5

۶۵

فاسق سے رابطہ رکھنا:

٭آیات و روایات مسلمانوں کو فاسق سے دوستی کرنے سے روکتی ہیں۔

امام زین العابدین ـ امام محمد باقر ـ اور امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ فاسق سے ہرگز دوستی نہ کرو اس لیے کہ وہ تمہیں روٹی کے ایک لقمہ یا اس سے بھی کمتر چیز کے عوض بیچ دے گا۔ (یعنی فاسق سے ہرگز وفا نہیں ہے)۔(1)

2۔ حضرت علی ـ سے روایت ہے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔(2)

3۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ایسے فاسق کی غیبت جائز ہے جو علنی طور پر گناہ کرتا ہو۔(3)

5۔ نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ فاسق کی دعوت قبول نہ کرو۔(4)

''تحقیق'' معاشرتی بیماریوں کا علاج:

٭ تاریخ بشر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام ـ کا واسطہ ایسے افراد اور معاشرہ سے رہا ہے جو مختلف قسم کی اجتماعی بیماریوںمیں مبتلا تھا۔ عصر حاضر میں اس قدر علمی اور اقتصادی ترقی اور پیشرفت ہونے کے باوجود وہ تمام بیماریاں اپنی حالت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کافی، ج2، ص 376 (2)۔ وسائل الشیعہ، ج27، ص 395

(3)۔ مستدرک الوسائل، ج1، ص 128 (5)۔ مَن لا یحضر، ج5، ص 3

۶۶

بصورت اتم موجود ہیں۔ وہ بیماریاں درج ذیل ہیں۔

1۔ آباء و اجداد اور بزرگوں کی غلط عادات اور خرافات کی اندھا دُھند تقلید کرنا۔

2۔ جھوٹی سچی پیشگوئیوں، خوابوں، انسانوں اور افواہوں پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنا۔

3۔ علم نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ کرنا، تعریف یا اعتراض کرنا، لکھنا یا کوئی بات کہنا۔ تحقیق ان تمام بیماریوں کے لیے ایک شفا بخش دوا ہے جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔

اگر ہمارے معاشرے کے لوگ ہر کام کو دقّت اور تحقیق کے ساتھ انجام دیں تو معاشرہ میں موجود ان تمام برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ایک ناگوار اورتلخ واقعہ:

جنگ خیبر کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ بن زید کی سربراہی میں مسلمانوں کے ایک دستہ کو اُن یہودیوں کے پاس بھیجا جو فدک کے ایک گاؤں میں آباد تھے۔ تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیںیا پھر کافر ذمی کے شرائط کو قبول کریں۔ مسلمانوں کا پیغام سننے کے بعد مِرداس نامی یہودی اپنے اہل و عیال اور مال کے ساتھ لا اِلہ الّااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہنے کے بعد مسلمانوں کی طرف چلا آیا اور ایک پہاڑ کے زیر سایہ پناہ لے لی۔ اسامہ بن زید یہ سمجھا کہ وہ واقعی مسلمان نہیں ہوا بلکہ خوف کی وجہ سے

۶۷

مسلمان ہوا ہے۔ لہٰذا اُسے قتل کردیا۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے قتل کی خبر سننے کے بعد شدید ناراض ہوئے اور قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ''اے ایمان والو جب تم راہ خدا میں جہاد کے لیے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو۔ اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے۔ کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں(1) ۔ (کہ وہ لوگوں کو بے جا قتل کیے بغیر تمہیں عطا کرسکتا ہے)۔

دِقَّت اور احتیاط سے کام کرنا

اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں دِقت اور احتیاط سے کام کرنے کو ضروری سمجھتا ہے، من جملہ

1۔ اصول دین کے مرحلے میں تقلید کو منع کیا ہے۔ اور ہر ایک سے یہ چاہا ہے کہ اپنی عقل کی مددسے صحیح راہ کا انتخاب کرے۔

2۔ اُمت اسلامیہ کی رہبری اور ریاست کے لیے تمام شرائط کے ساتھ ساتھ عصمت یا عدالت کو ضروری جانا ہے۔

3۔ مرجع تقلید کی شرائط میں بھی علم و عدالت کے ساتھ ساتھ ہوا و ہوس سے دوری

اور زمان شناس ہونے کی شرط کو لازم قرار دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ، نساء 95

۶۸

5۔ قاضی کیلئے علم و عدالت کے ساتھ اس بات پر زور دیا ہے کہ آسودہ زندگی گزارتا ہو تاکہ فقر وفاقہ کی وجہ سے رشوت لینے پر مجبور نہ ہو۔

5۔ تجارت اور لین دین کے معاملات سے متعلق دستاویزات اور اسناد کی تنظیم کے سلسلے میں قرآن کی سب سے بڑی آیت نازل ہوتی ہے جو سورہ بقرہ میں موجود ہے۔ اسلام حتیٰ مردوں کو دفنانے کے سلسلے میں بھی دقت اور احتیاط کاحکم دیتا ہے۔ ایک دفعہ کچھ مسلمانوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی مسلمان مردہ کی قبر نہایت ہی دِقت اور احتیاط سے بنارہے ہیں جب آپ سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: کہ خدا کو یہ پسند ہے کہ مسلمان جو کام بھی کرے نہایت دقت اور احتیاط کے ساتھ اُسے انجام دے۔

قرآن کریم گفتگو کرنے کے متعلق فرماتا ہے کہ درست اورمنطقی بات کرو(قُولوا قُوْلًا سَدِیداً)(١)

اس اجمالی بیان کے بعد اب اسلام میں خبر کی اہمیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

اسلا م میں خبر کی اہمیت

اسلام کے نکتہ نگاہ سے خبر کو خاص اہمیت حاصل ہے من جملہ۔

1۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ''اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے

مت جانا کہ روز قیامت سماعت، بصارت اور قوتِ قلب سب کے بارے میں سوال کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ احزاب، آیت 70

۶۹

جائے گا۔(1)

2۔ قرآن نے ان افراد پر جو بغیر سوچے سمجھے خبروں کو فوراً نشر کرتے ہیں شدید اعتراض کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ''اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فوراً نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹادیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے۔''(2)

یعنی خبروں کو سننے کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولی الامر کے سامنے پیش کرو اور دیکھو کہ وہ کیا کہتے ہیں، اگر وہ تصدیق کردیں تو اس کے بعد نشر کرو۔

3۔ قرآن نے ان لوگوں کے لیے جو افواہیں پھیلا کر لوگوں کو مشوش کرتے ہیں ، سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے۔(3)

5۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران فرمایا: جو میری طرف سے جھوٹی خبریں نقل کرتا ہے وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے اور آئندہ اس کے گھاٹے میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ جو عمدی طور پر مجھ پرجھوٹ باندھے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جو بھی خبر مجھ سے نقل کی جائے تو اُسے قرآن اور میری سنت کی طرف پلٹاؤ اگر ان کے موافق ہو تو قبول کرلینا ورنہ رد کردینا۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ اسرائ، آیت 36

(2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 83

(3)۔ سورئہ مبارکہ احزاب، آیت 60

(5)۔ بحار الانوار، ج2، ص 225

۷۰

5۔ امام جعفر صادق ـ نے اُن افراد پر لعنت کی ہے جو امام محمد باقر ـ کی طرف جھوٹی خبروں کی نسبت دیتے تھے۔ نیز فرمایا: جو خبر بھی ہماری طرف سے نقل کی جائے اگر قرآن اور ہمارے باقی اقوال سے اس کی تائید ہوجائے تو قبول کرنا ورنہ ردّ کردینا۔(1)

6۔ امام رضا ـ سے منقول ہے کہ ہمارے اقوال کی سند قرآن اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے۔(2)

7۔ علوم اسلامی میں سے ایک اہم علم ''علم رجال'' ہے۔ جس کے ذریعہ راویان حدیث کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے اور خبر کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

تحقیق کا طریقہ کار

کسی بھی چیز کے بارے میں تحقیق اور حصول علم اس لیے ضروری ہے تاکہ کوئی بھی کام جاہلانہ اور بے خبری کے عالم میں انجام نہ پائے۔

اسلام نے جو کہ ایک جامع اور کامل دین ہے صحیح کو غیر صحیح سے پہچاننے کے مختلف راستے بیان کیے ہیں، من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار، ج2، ص 250

(2)۔ بحار الانوار، ج2، ص 250

۷۱

1۔ مستند اور مورد قبول کتب کی طرف رجوع۔جیسا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی توریت و انجیل کا حوالہ دیتے تھے۔ کہ میرا نام ان میں بھی موجود ہے۔(مکتوباً عندهم فی التوراة، والانجیل) (1)

2۔ متقی اور پرہیز گار صاحبا ن علم سے سوال۔(فسئلوا اهل الذکر) (2)

3۔ دو عادل کی گواہی۔( ذوا عدلً منکم)(٣)

5۔ ذاتی طور پر صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا۔ جیسا کہ نجاشی نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں کی۔

5۔ قرآئن کی جمع آوری؛ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان مختلف قرآئن (جیسے زمان و مکان کی نوعیت وغیرہ) کی وجہ سے کسی بات کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے مثال کے طور پر اگر ہم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جاننا چاہتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کی۔ بت پرستی کے ماحول میں بت پرستی کے خلاف قیام کیا۔ اور آپ کا لایا ہوا کلام قرآن ہے۔ دوست اور دشمنوں کے درمیان امین اور صادق کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ صاحب حسن خلق ، عفو و درگذر کے پیکر اتم یہاں تک کہ فتح مکہ کے دن بھی درگذشت سے کام لیا۔ آپ کا لایا ہوا دین جامع، اور حق و حقانیت پر استوار و پائیدار ہے۔یہ تمام قرآئنآپ کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ اعراف، آیہ 157

(2)۔ سورئہ مبارکہ نحل، آیت 53۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت 7 (3)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 95

۷۲

6۔ پہلی اور دوسری گفتگو میں موافقت پائی جائے ایک دوسرے کی ضد نہ ہو۔

7۔ اس کی بات دوسروں کی بات کے یکساں ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث سے وہ چیز سمجھا ہے جو اس سے پہلے دوسرے بھی وہی بات سمجھے تھے تو وہ اپنے صحیح سمجھنے پر مطمئن ہوجاتا ہے۔

8۔ کسی خاص آدمی کو تحقیق کے لیے بھیجنا جیسا کہ امیر المومنین ـ فرماتے ہیں ''عینی بالمغرب'' جو شخص مغرب کے علاقہ میں ہے وہ میری طرف سے ناظر ہے۔ اس نے مجھے یہ خبر دی ہے۔

9۔ لوگوں کی معلومات بھی تحقیق کے لیے قابل اعتماد سند ہوسکتی ہیں۔

حضرت علی ـ نے فرمایا:'' بلَّغِنی انَّک--'' لوگوں نے مجھے یہ خبر دی ہے۔

10۔ دوسروں پر اعتماد کرنا: مثال کے طور پر اگر کسی حدیث پر علماء اور مراجع عظام نے اعتماد کرتے ہوئے اُس کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔ یا یہ کہ لوگوں نے کسی شخص کو امام جماعت قرار دیا ہو تو اس قسم کا اعتماد بھی تحقیق کے مرحلہ میں سند کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے۔

11۔ کسی شخص کا ماضی بھی تحقیق کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ آخر میری حقانیت پر کیونکر شک کررہے ہو جبکہ میں نے تمہارے درمیان زندگی گزار ی ہے، تم نے میری زندگی کے تمام حالات دیکھے ہیں۔( فَقَد

۷۳

لَبِثت منکم عُمرًا) (1)

جھوٹ:

جیسا کہ اس آیت میں ہماری بحث ''خبر'' کی تحقیق کے بارے میں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ یہاں جھوٹ کے بارے میں بھی مختصر سی گفتگو کریں۔

٭ جھوٹ نفاق کی ایک قسم ہے اس لیے کہ انسان زبان سے ایک ایسی بات کہتا ہے جس پر وہ دل سے خود بھی یقین نہیں رکھتا ہے۔(یقولون بِأَلْسِنَتهم ما لیسَ فی قلوبِهم) (2)

٭جھوٹ کبھی ایک تہمت کی صورت اختیا ر کرلیتا ہے اس لیے کہ ایک پاکدامن کی طرف غلط نسبت دتیا ہے۔( أرادَ بِأهلِکَ سُوئ) (3)

٭جھوٹ کبھی ایک ''قسم'' کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یعنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔(یَحْلِفُونَ بِاللّٰهِ) (4)

٭جھوٹ کبھی گریہ و زاری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف ـ کے بھائی روتے پیٹتے ہوئے حضرت یعقوب ـ کے پاس آئے کہ حضرت یوسفـ کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔(و جاؤا أباهُم عِشائ یَبکون) (5)

٭جھوٹ کا اظہار ہمیشہ زبان سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس کا اظہار عمل سے کیا

جاتا ہے جیسا کہ حضرت یوسفـ کے بھائی حضرت یوسفـ کی قمیص خون میں تر کرکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ یونس، آیہ 16 (2)۔سورئہ مبارکہ فتح، آیہ 11

(3)۔ سورئہ مبارکہ یوسف، آیت 25 (5)۔ سورئہ مبارکہ توبہ، آیت 75 (5)۔ سورہ مبارکہ یوسف: 16

۷۴

لائے اور اپنی بات کو عملی جامہ کے ذریعہ بیان کیا۔( بِدَمٍ کَذِب) (1)

٭اسلام نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔(2)

٭جھوٹ اکثر برائیوں کی جڑ ہے۔(3)

٭جھوٹ انسان کے ایمان کا مزہ چھکنے میں رُکاوٹ(4) اور بے ایمانی کا باعث ہے۔(5)

٭امام محمد باقر ـ نے فرمایا کہ جھوٹ سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔

٭جھوٹوں سے دوستی مت کرو اس لیے کہ ان کی دوستی سراب کی مانند ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ یوسف، آیت 18 (2)۔ کافی، ج2، ص 338

(3)۔کافی، ج2، ص 337 (5)۔ کافی، ج2، ص 350

(5)۔ کافی، ج3، ص 339

۷۵

آیت نمبر 7 اور 8

وَاعْلَمُوا َنَّ فِیکُمْ رَسُولَ اﷲِ لَوْ یُطِیعُکُمْ فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ وَزَیَّنَهُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (٧) فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَةً وَاﷲُ عَلِیم حَکِیم(٨)

ترجمہ:

اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے لیکن خدا نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے۔ اور کفر، فسق اور معصیت کو تمہارے لیے ناپسندیدہ قرار دے دیا ہے اور درحقیقت یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (7) یہ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا بھی ہے۔ اور صاحب حکمت بھی ہے۔(8)

نکات:

گزشتہ آیت میں یہ بات گذری ہے کہ ایک شخص (ولید بن عتبہ) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لوگوں سے آکر یہ جھوٹ کہہ دیا کہ بنی مصطلق کے لوگ ہم سے جنگ کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ اور وہ اس

۷۶

بات کی بھی توقع رکھتے تھے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی حمایت کریں۔ اچانک آیت نازل ہوئی کہ خبردار پہلی بات یہ ہے کہ جب بھی فاسق خبر لائے تو پہلے اس کی تحقیق کرو پھر اقدام کرو۔ دوسری بات یہ کہ لوگوں کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تابع فرمان ہونا چاہیے نہ یہ کہ الٰہی نمائندہ فاسق کی جھوٹی خبر کے نتیجے میں لوگوں میں ابھرنے والے جذبات اور جوش و خروش کا تابع ہو۔

O ہم روایات میں اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچاننے کا معیار مومنین سے آپ کا رابطہ اور تعلق ہے۔ اگر صاحبان ایمان آپ کے نزدیک محبوب ہوں توآپ حق پر ہیں اور اگر گناہگار لوگ محبوب ہوں تو پھر آپ حق پر نہیں ہیں۔(1)

O روایات کی روشنی میں اسی آیت میں(حَبَّبَ الیکم الایمان) ایمان سے مراد حضرت علی ابن ابی طالبـ ہیں اور کفر، فسق اور معصیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اہل بیت٪ کے خلاف جنگ کی۔(2)

Oامام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو شخص صرف کھانے پینے کی چیزوں کو خدا کی نعمت سمجھے۔ اُس کا عمل کم اور اس کا عذاب نزدیک ہے۔

O ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص نیکیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت کو نعمت نہ سمجھے اس نے کفران نعمت کیا ہے اس کا عمل اکارت اور اس کی ہر کوشش بے کار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔کافی، ج2، ص 126 (2)۔ کافی، ج1، ص 526

۷۷

O رشد و ترقی خدا کا ایک تحفہ ہے جو انبیاء کو عطا کیا گیا ہے۔(وَ آتینا ابرَاهِیمَ رُشْدَه') (1) انبیاء کا کام بھی لوگوں کو رشد و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔(یَا قوم اتّبِعُونَ أَهْدِیکم سَبِیلَ الرّشَاد!) (2) انبیاء کرام خود بھی ہمیشہ رشد و ترقی کی راہ کی تلاش میں رہتے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ ـ صحراء و بیابان میں حضرت خضر ـ کی تلاش میں جاتے ہیں۔ تاکہ رشد و ترقی کی راہ کو پالیا جائے۔(هل اتّبعک علی أنْ تُعلّمَن ممّا عُلمتُ رُشْدًا) (3) ایمان رشد و ترقی کا پیش خیمہ ہے(و لیومنوا بی لعلّهم یرشدون) (4) اس کے علاوہ کتب آسمانی کو بھی رشد و ترقی کا وسیلہ بیان کیا گیا ہے(یَهْدِی الی الرُّشد) (5) بہرحال قرآن میں رشد و ترقی سے مراد معنوی رشد و ترقی ہے اور یہ انسان کی کوتاہ فکری ہے کہ وہ فقط دنیاوی ترقی کو رشد و ترقی سمجھتا ہے۔

O اگر کسی معاشرے کی ریاست و رہبری، معصوم یا عادل شخص کے پاس نہ ہوتو وہ حاکم استبدادیت کا شکار ہوسکتا ہے۔ کہ جس میں رشد و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا

ہے۔(وَمَا أَمَرُ فِرْعَون بِرَشید) (6) لیکن اگر حاکم وقت معصوم یا امام عادل ہو تو

معاشرہ کی رُشد و ترقی کی راہ کھلی ہوتی ہے۔(ُوْلَئِکَ هُم الرَّاشِدُونَ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت 51 (2)۔ سورئہ مبارکہ غافر، آیت 38

(3)۔سورئہ مبارکہ کہف، آیت 66 (5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ، آیت 186

(5)۔ سورئہ مبارکہ جن، آیت2 (6)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت 97

۷۸

پیغامات:

1۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ شرمندہ نہ ہوں تو انبیاء کی طرف رجوع کریں گزشتہ آیت کے آخر میں ندامت اور شرمندگی کے بارے میں بحث تھی اور اب اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر ندامت اور شرمندگی سے بچنا چاہتے ہو تو موجود پیغمبروں کی طرف رجوع کرو۔(نادمین- واعلموا ان فیکم رسول اللّٰه)

2۔ انبیاء کرام اور رہبران الٰہی کا ہونا معاشرہ کے لیے ایک امتیاز ہے۔''فیکم رسول اللّٰه'' کہا ہے نہ''رسول الله منکم''

3۔ رہبر اور حاکم کا وجود لوگوں کی دسترسی میں ہونا چاہیے اور لوگوں کو بھی اس سے خوب استفادہ کرنا چاہیے۔(َأنَّ فِیکُمْ رَسُولَ اﷲِ)

5۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ لوگوں سے مشورہ لیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس بات کی توقع رکھنا کہ پیغمبر لوگوں کی اطاعت کرے یہ غلط ہے۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ --- لَعَنِتُّم---)

5۔ لوگوں کی تمام مشکلات انبیاء سے دوری اور خواہشات نفسانی کی پیروی کی وجہ سے ہیں۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ --- لَعَنِتُّم---)

6۔ رہبر اور حاکم عصر کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ اگر فتنہ و فساد ، اور لوگوں کی مختلف آراء اس کے ارادہ اور اس کی رائے پر اثر انداز ہو کر اُسے مست کردیں تو معاشرہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ لَعَنِتُّم) ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرہ کے حاکم اور رہبر کی رأی کو سست کردیا جائے جیسا کہ قرآن

۷۹

میں ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔(و دّوا ما عَنْتم---) (1)

7۔ بعض موارد پر انعطاف ضروری ہے۔(فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْر)

8۔ جہاں پر خدا اور رسول کا حکم معلوم نہ ہوسکے وہاں مشورہ کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے ہم خیال اور ہم فکر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے (فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْر) لہٰذا اس قسم کی مثال موجود ہے جہاں لوگوں سے مشورہ کرنا مشکلات کا سبب نہ بنا۔

9۔ مذہب کی طرف مائل ہونا ایک فطری عمل ہے جوخداوند عالم نے انسان کی سرشت میں رکھا ہے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ---) (روایات میں ہے کہ حق ، اولیاء خدا، اور مومنین سے محبت کرنا خداوند متعال کے خاص لطف میں سے ہے۔

10۔ محبت ایمان سے ہے۔ لیکن جبر اور سینہ زوری ایمان نہیں ہے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَان ---)

11۔ ایمان دل کی زینت اور خوبصورتی کا نام ہے(و زَیّنَه فی قلوبکم) جس طرح پہاڑ، دریا، معادن، پھول، آبشاریں، اور جو کچھ زمین پر ہے سب زمین کی زینت اور خوبصورتی ہیں(اِنّا جَعَلْنَا ما علی الارض زینة لها) (بے شک انسان کے معنوی کمالات اس کی زینت اور خوبصورتی ہیں اور مادّی جلوے سب زمین کی زینت ہیں۔

12۔ تولیٰ اور تبریٰ ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ اگر ہمیں ایمان سے محبت ہے تو کفر و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 118

۸۰