آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)50%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127995 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہوجائے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے اہم درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے یہاں بعض کو بیان کررہے ہیں۔

۱۔ جسے بھی کوئی حکم دیں اُسے ادب و احترام سے پکاریں۔(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا---)

۲۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام صحابہ عادل نہ تھے بلکہ ا ن کے درمیان، فاسق اورمنافق بھی موجود تھے۔( ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق ---)

۳۔ ایسے افراد کو رسوا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں جو فتنہ و فساد کا باعث ہوں( ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق) (یہاں فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے)

۵۔ فاسق کے علاوہ لوگوں پر اعتماد کرنا اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔

۵۔ ناگوار حوادث کا پیش خیمہ دو چیزیں ہیں۔ فاسق کا فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے کوشش کرنا اور مومنین کا جلدی سے اس کی بات پریقین کرلینا۔

۶۔ اگرچہ ہمیں تو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم فاسق سے کوئی خبر لیں لیکن فاسق اس بات کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کوئی غلط خبر ہم تک پہنچادے۔(جائکم)

۷۔ ہر خبر کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر کوئی اہم خبر ہو تو اس کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ''نبأ'' اہم اور مفید خبر کو کہتے ہیں۔

۸۔سادہ لوح ہونا اور جلدی یقین کرلینا ایمان کے موافق نہیں ہے۔

۶۱

(آمَنُوا---فَتَبَیَّنُوا)

۹۔ تحقیق کرنے میں دیر نہ کرو۔(فَتَبَیَّنُوا) ''حرف فاء ''جلدی اقدام کرنے کی طرف اشارہ ہے۔

۱۰۔ فاسقین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں جھوٹی خبریں پھیلا کر امن وامان کی صورت حال کو خراب کردیں لہٰذا مومنین کی ذمہ داری ہے کہ بغیر تحقیق کے ان کی کسی بات پر یقین نہ کریں۔( ِنْ جَائَ کُمْ فَتَبَیَّنُوا---)

۱۱۔ کبھی فاسق سچی خبر بھی دیتا ہے اس لیے لازم نہیں کہ اس کی ہر خبر کو جھوٹ کہیں بلکہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کریں۔(فَتَبَیَّنُوا)

۱۲۔ فاسقین کی خبر کی تحقیق کرکے انہیں خبردار کریں اور انہیں اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اسلامی معاشرہ میں اپنی مرضی سے جو جی چاہے کریں۔(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا)

۱۵۔ کسی بھی معاشرہ کو صحیح راستے پر چلانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے اس کا حل تلاش کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں تحقیق اور پھر دوسرے مرحلے میں اقدام کیا جائے۔(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا ---)

۱۵۔ اگر احکام الٰہی کے فلسفہ اور اسرار کو لوگوں کے لیے بیان کیا جائے تو لوگ شوق اور ولولہ کے ساتھ وظیفہ شرعی کو انجام دیتے ہیں۔ خبر فاسق کی تحقیق کا فلسفہ اور راز، اسلامی معاشرہ کو فتنہ و فساد سے بچانا بتایا گیا ہے-(فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا)

۱۶۔ فاسق کے خبر دینے کا مقصد اسلامی معاشرہ کے امن عامہ کی صورت حال کو

۶۲

خراب کرنا ہے۔(َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ )

۱۷۔ ایک غیر تحقیق شدہ خبر کسی بھی قوم کی نابودی کا سبب بن سکتی ہے۔(َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا)

۱۸۔ جلد بازی اور بغیر تحقیق کے کوئی اقدام کرنا حماقت اور جہالت ہے۔( تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ )

۱۹۔ احکام الٰہی کی پابندی انسان کو شرمندگی سے بچاتی ہے ۔ لہٰذا احکام الٰہی کی پابندی کریں تاکہ شرمندہ نہ ہوں۔(فَتَبَیَّنُوا ----- نادِمین)

۲۰۔ جو کام سنجیدہ اور مستقل مزاجی پر مبنی نہ ہو اُس کا نتیجہ شرمندگی ہوتا ہے۔( نادِمِین)

فسق کیا ہے اور فاسق کون ہے؟

٭ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو اب یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فاسق کون ہے ؟ اور سچی خبر کو جھوٹی خبر سے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟

٭لغت میں ''فسق'' کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میںجو شخص راہ مستقیم سے جدا ہوجائے اُسے فاسق کہتے ہیں۔ یہ کلمہ عدالت کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے یعنی فاسق ایسے شخص کو کہتے ہیں جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو اور توبہ نہ کرے۔

۶۳

٭کلمہ ''فسق'' مختلف انداز میں ''۵۵'' بار قرآن میں استعمال ہوا ہے من جملہ

۱۔ جہاں فکری اور عقیدتی لحاظ سے انحراف پایا جاتا تھا۔ جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کے لیے آیا ہے(انّهم کانو قوماً فاسقین) (۱)

۲۔ کبھی یہ کلمہ منافق کے لیے استعمال ہوتا ہے۔(انّ المنافقین هم الفاسقُونَ) (۲)

۳۔ کبھی فاسق ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کو آزار و اذیت پہنچانتے اور ان کی نافرمانی کرتے تھے۔

جیسا کہ حضرت موسیٰ ـ کی نافرمان قوم بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰ ـ کو ایذا پہنچاتی تھی ان کے بارے میں آیا ہے۔(قَالُوا یٰا مُوسَیٰ اِنَّا کُن ندخلها----- القوم الفاسقین) (۳)

۵۔ کبھی ان لوگوں کو فاس کہا گیا ہے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔(ومن لم یحکم بما أنزل اللّٰه فاولئک هم الفاسقون) (۴)

۵۔ کبھی حیلہ گر افراد کو فاسق کہا گیا ہے۔(بما کانوا یفسقون) (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ نمل ، آیت ۱۲

(۲)۔ سورئہ توبہ، آیت ۶۷ (۳)۔ سورئہ مائدہ، آیت ۲۵۔ ۲۶

(۵)۔ سورئہ مائدہ، آیت ۵۷ (۵)۔سورئہ اعراف ، آیت ۱۶۳

۶۴

۶۔ کبھی ان لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے جو امر بمعروف اور نہی از منکر جسیے اہم وظیفہ کو ترک کردیتے ہیں۔( َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنْ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا --- بِمَا کَانُوا یَفْسُقُون) (۱)

۷۔ کبھی ان لوگوں کو جو مال و دولت ، عزیز و اقارب کو جہاد فی سبیل اللہ پر ترجیح دیتے ہیں۔(ِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ --- َحَبَّ --- وَاﷲُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) (۲)

۸۔ کبھی ایسے افراد کو فاسق کہا جاتا ہے جو شہوت رانی اور جنسی تجاوزات کا شکار ہوں ۔ جیسا کہ حضرت لوط ـکی قوم جو کھلم کھلا اس فعل کو انجام دیتی تھی ان کے لیے آیا ہے۔(رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ) (۳)

۹۔ کبھی حرام چیزوں سے استفادہ کو فِسق کہا گیا ہے۔(حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ---ذَلِکُمْ فِسْق ) (۴)

۱۰۔ کبھی ایسے افراد کو فاسق کہا جاتا ہے جو پاکدامن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں۔(یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ---ُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ ) (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ اعراف، آیت ۱۶۵ (۲)۔ سورئہ توبہ، آیت ۲۳

(۳)۔ سورئہ مبارکہ عنکبوت، آیت ۳۵ (۵)۔ سورئہ مائدہ، آیت ۳

(۵)۔ سورئہ مبارکہ نور ، آیت ۵

۶۵

فاسق سے رابطہ رکھنا:

٭آیات و روایات مسلمانوں کو فاسق سے دوستی کرنے سے روکتی ہیں۔

امام زین العابدین ـ امام محمد باقر ـ اور امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ فاسق سے ہرگز دوستی نہ کرو اس لیے کہ وہ تمہیں روٹی کے ایک لقمہ یا اس سے بھی کمتر چیز کے عوض بیچ دے گا۔ (یعنی فاسق سے ہرگز وفا نہیں ہے)۔(۱)

۲۔ حضرت علی ـ سے روایت ہے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔(۲)

۳۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ایسے فاسق کی غیبت جائز ہے جو علنی طور پر گناہ کرتا ہو۔(۳)

۵۔ نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ فاسق کی دعوت قبول نہ کرو۔(۴)

''تحقیق'' معاشرتی بیماریوں کا علاج:

٭ تاریخ بشر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام ـ کا واسطہ ایسے افراد اور معاشرہ سے رہا ہے جو مختلف قسم کی اجتماعی بیماریوںمیں مبتلا تھا۔ عصر حاضر میں اس قدر علمی اور اقتصادی ترقی اور پیشرفت ہونے کے باوجود وہ تمام بیماریاں اپنی حالت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کافی، ج۲، ص ۳۷۶ (۲)۔ وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص ۳۹۵

(۳)۔ مستدرک الوسائل، ج۱، ص ۱۲۸ (۵)۔ مَن لا یحضر، ج۵، ص ۳

۶۶

بصورت اتم موجود ہیں۔ وہ بیماریاں درج ذیل ہیں۔

۱۔ آباء و اجداد اور بزرگوں کی غلط عادات اور خرافات کی اندھا دُھند تقلید کرنا۔

۲۔ جھوٹی سچی پیشگوئیوں، خوابوں، انسانوں اور افواہوں پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنا۔

۳۔ علم نہ ہونے کی صورت میں فیصلہ کرنا، تعریف یا اعتراض کرنا، لکھنا یا کوئی بات کہنا۔ تحقیق ان تمام بیماریوں کے لیے ایک شفا بخش دوا ہے جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔

اگر ہمارے معاشرے کے لوگ ہر کام کو دقّت اور تحقیق کے ساتھ انجام دیں تو معاشرہ میں موجود ان تمام برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ایک ناگوار اورتلخ واقعہ:

جنگ خیبر کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ بن زید کی سربراہی میں مسلمانوں کے ایک دستہ کو اُن یہودیوں کے پاس بھیجا جو فدک کے ایک گاؤں میں آباد تھے۔ تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیںیا پھر کافر ذمی کے شرائط کو قبول کریں۔ مسلمانوں کا پیغام سننے کے بعد مِرداس نامی یہودی اپنے اہل و عیال اور مال کے ساتھ لا اِلہ الّااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کہنے کے بعد مسلمانوں کی طرف چلا آیا اور ایک پہاڑ کے زیر سایہ پناہ لے لی۔ اسامہ بن زید یہ سمجھا کہ وہ واقعی مسلمان نہیں ہوا بلکہ خوف کی وجہ سے

۶۷

مسلمان ہوا ہے۔ لہٰذا اُسے قتل کردیا۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے قتل کی خبر سننے کے بعد شدید ناراض ہوئے اور قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ''اے ایمان والو جب تم راہ خدا میں جہاد کے لیے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو۔ اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تو مومن نہیں ہے۔ کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں(۱) ۔ (کہ وہ لوگوں کو بے جا قتل کیے بغیر تمہیں عطا کرسکتا ہے)۔

دِقَّت اور احتیاط سے کام کرنا

اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں دِقت اور احتیاط سے کام کرنے کو ضروری سمجھتا ہے، من جملہ

۱۔ اصول دین کے مرحلے میں تقلید کو منع کیا ہے۔ اور ہر ایک سے یہ چاہا ہے کہ اپنی عقل کی مددسے صحیح راہ کا انتخاب کرے۔

۲۔ اُمت اسلامیہ کی رہبری اور ریاست کے لیے تمام شرائط کے ساتھ ساتھ عصمت یا عدالت کو ضروری جانا ہے۔

۳۔ مرجع تقلید کی شرائط میں بھی علم و عدالت کے ساتھ ساتھ ہوا و ہوس سے دوری

اور زمان شناس ہونے کی شرط کو لازم قرار دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ، نساء ۹۵

۶۸

۵۔ قاضی کیلئے علم و عدالت کے ساتھ اس بات پر زور دیا ہے کہ آسودہ زندگی گزارتا ہو تاکہ فقر وفاقہ کی وجہ سے رشوت لینے پر مجبور نہ ہو۔

۵۔ تجارت اور لین دین کے معاملات سے متعلق دستاویزات اور اسناد کی تنظیم کے سلسلے میں قرآن کی سب سے بڑی آیت نازل ہوتی ہے جو سورہ بقرہ میں موجود ہے۔ اسلام حتیٰ مردوں کو دفنانے کے سلسلے میں بھی دقت اور احتیاط کاحکم دیتا ہے۔ ایک دفعہ کچھ مسلمانوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی مسلمان مردہ کی قبر نہایت ہی دِقت اور احتیاط سے بنارہے ہیں جب آپ سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: کہ خدا کو یہ پسند ہے کہ مسلمان جو کام بھی کرے نہایت دقت اور احتیاط کے ساتھ اُسے انجام دے۔

قرآن کریم گفتگو کرنے کے متعلق فرماتا ہے کہ درست اورمنطقی بات کرو(قُولوا قُوْلًا سَدِیداً)(١)

اس اجمالی بیان کے بعد اب اسلام میں خبر کی اہمیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

اسلا م میں خبر کی اہمیت

اسلام کے نکتہ نگاہ سے خبر کو خاص اہمیت حاصل ہے من جملہ۔

۱۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ''اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے

مت جانا کہ روز قیامت سماعت، بصارت اور قوتِ قلب سب کے بارے میں سوال کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ احزاب، آیت ۷۰

۶۹

جائے گا۔(۱)

۲۔ قرآن نے ان افراد پر جو بغیر سوچے سمجھے خبروں کو فوراً نشر کرتے ہیں شدید اعتراض کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ''اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فوراً نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹادیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے۔''(۲)

یعنی خبروں کو سننے کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولی الامر کے سامنے پیش کرو اور دیکھو کہ وہ کیا کہتے ہیں، اگر وہ تصدیق کردیں تو اس کے بعد نشر کرو۔

۳۔ قرآن نے ان لوگوں کے لیے جو افواہیں پھیلا کر لوگوں کو مشوش کرتے ہیں ، سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے۔(۳)

۵۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران فرمایا: جو میری طرف سے جھوٹی خبریں نقل کرتا ہے وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہے اور آئندہ اس کے گھاٹے میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ جو عمدی طور پر مجھ پرجھوٹ باندھے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جو بھی خبر مجھ سے نقل کی جائے تو اُسے قرآن اور میری سنت کی طرف پلٹاؤ اگر ان کے موافق ہو تو قبول کرلینا ورنہ رد کردینا۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ اسرائ، آیت ۳۶

(۲)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۸۳

(۳)۔ سورئہ مبارکہ احزاب، آیت ۶۰

(۵)۔ بحار الانوار، ج۲، ص ۲۲۵

۷۰

۵۔ امام جعفر صادق ـ نے اُن افراد پر لعنت کی ہے جو امام محمد باقر ـ کی طرف جھوٹی خبروں کی نسبت دیتے تھے۔ نیز فرمایا: جو خبر بھی ہماری طرف سے نقل کی جائے اگر قرآن اور ہمارے باقی اقوال سے اس کی تائید ہوجائے تو قبول کرنا ورنہ ردّ کردینا۔(۱)

۶۔ امام رضا ـ سے منقول ہے کہ ہمارے اقوال کی سند قرآن اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے۔(۲)

۷۔ علوم اسلامی میں سے ایک اہم علم ''علم رجال'' ہے۔ جس کے ذریعہ راویان حدیث کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے اور خبر کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

تحقیق کا طریقہ کار

کسی بھی چیز کے بارے میں تحقیق اور حصول علم اس لیے ضروری ہے تاکہ کوئی بھی کام جاہلانہ اور بے خبری کے عالم میں انجام نہ پائے۔

اسلام نے جو کہ ایک جامع اور کامل دین ہے صحیح کو غیر صحیح سے پہچاننے کے مختلف راستے بیان کیے ہیں، من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار، ج۲، ص ۲۵۰

(۲)۔ بحار الانوار، ج۲، ص ۲۵۰

۷۱

۱۔ مستند اور مورد قبول کتب کی طرف رجوع۔جیسا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی توریت و انجیل کا حوالہ دیتے تھے۔ کہ میرا نام ان میں بھی موجود ہے۔(مکتوباً عندهم فی التوراة، والانجیل) (۱)

۲۔ متقی اور پرہیز گار صاحبا ن علم سے سوال۔(فسئلوا اهل الذکر) (۲)

۳۔ دو عادل کی گواہی۔( ذوا عدلً منکم)(٣)

۵۔ ذاتی طور پر صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا۔ جیسا کہ نجاشی نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں کی۔

۵۔ قرآئن کی جمع آوری؛ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان مختلف قرآئن (جیسے زمان و مکان کی نوعیت وغیرہ) کی وجہ سے کسی بات کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے مثال کے طور پر اگر ہم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جاننا چاہتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کی۔ بت پرستی کے ماحول میں بت پرستی کے خلاف قیام کیا۔ اور آپ کا لایا ہوا کلام قرآن ہے۔ دوست اور دشمنوں کے درمیان امین اور صادق کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ صاحب حسن خلق ، عفو و درگذر کے پیکر اتم یہاں تک کہ فتح مکہ کے دن بھی درگذشت سے کام لیا۔ آپ کا لایا ہوا دین جامع، اور حق و حقانیت پر استوار و پائیدار ہے۔یہ تمام قرآئنآپ کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ اعراف، آیہ ۱۵۷

(۲)۔ سورئہ مبارکہ نحل، آیت ۵۳۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت ۷ (۳)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت ۹۵

۷۲

۶۔ پہلی اور دوسری گفتگو میں موافقت پائی جائے ایک دوسرے کی ضد نہ ہو۔

۷۔ اس کی بات دوسروں کی بات کے یکساں ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث سے وہ چیز سمجھا ہے جو اس سے پہلے دوسرے بھی وہی بات سمجھے تھے تو وہ اپنے صحیح سمجھنے پر مطمئن ہوجاتا ہے۔

۸۔ کسی خاص آدمی کو تحقیق کے لیے بھیجنا جیسا کہ امیر المومنین ـ فرماتے ہیں ''عینی بالمغرب'' جو شخص مغرب کے علاقہ میں ہے وہ میری طرف سے ناظر ہے۔ اس نے مجھے یہ خبر دی ہے۔

۹۔ لوگوں کی معلومات بھی تحقیق کے لیے قابل اعتماد سند ہوسکتی ہیں۔

حضرت علی ـ نے فرمایا:'' بلَّغِنی انَّک--'' لوگوں نے مجھے یہ خبر دی ہے۔

۱۰۔ دوسروں پر اعتماد کرنا: مثال کے طور پر اگر کسی حدیث پر علماء اور مراجع عظام نے اعتماد کرتے ہوئے اُس کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔ یا یہ کہ لوگوں نے کسی شخص کو امام جماعت قرار دیا ہو تو اس قسم کا اعتماد بھی تحقیق کے مرحلہ میں سند کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے۔

۱۱۔ کسی شخص کا ماضی بھی تحقیق کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ آخر میری حقانیت پر کیونکر شک کررہے ہو جبکہ میں نے تمہارے درمیان زندگی گزار ی ہے، تم نے میری زندگی کے تمام حالات دیکھے ہیں۔( فَقَد

۷۳

لَبِثت منکم عُمرًا) (۱)

جھوٹ:

جیسا کہ اس آیت میں ہماری بحث ''خبر'' کی تحقیق کے بارے میں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ یہاں جھوٹ کے بارے میں بھی مختصر سی گفتگو کریں۔

٭ جھوٹ نفاق کی ایک قسم ہے اس لیے کہ انسان زبان سے ایک ایسی بات کہتا ہے جس پر وہ دل سے خود بھی یقین نہیں رکھتا ہے۔(یقولون بِأَلْسِنَتهم ما لیسَ فی قلوبِهم) (۲)

٭جھوٹ کبھی ایک تہمت کی صورت اختیا ر کرلیتا ہے اس لیے کہ ایک پاکدامن کی طرف غلط نسبت دتیا ہے۔( أرادَ بِأهلِکَ سُوئ) (۳)

٭جھوٹ کبھی ایک ''قسم'' کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یعنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔(یَحْلِفُونَ بِاللّٰهِ) (۴)

٭جھوٹ کبھی گریہ و زاری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف ـ کے بھائی روتے پیٹتے ہوئے حضرت یعقوب ـ کے پاس آئے کہ حضرت یوسفـ کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔(و جاؤا أباهُم عِشائ یَبکون) (۵)

٭جھوٹ کا اظہار ہمیشہ زبان سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس کا اظہار عمل سے کیا

جاتا ہے جیسا کہ حضرت یوسفـ کے بھائی حضرت یوسفـ کی قمیص خون میں تر کرکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ یونس، آیہ ۱۶ (۲)۔سورئہ مبارکہ فتح، آیہ ۱۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ یوسف، آیت ۲۵ (۵)۔ سورئہ مبارکہ توبہ، آیت ۷۵ (۵)۔ سورہ مبارکہ یوسف: ۱۶

۷۴

لائے اور اپنی بات کو عملی جامہ کے ذریعہ بیان کیا۔( بِدَمٍ کَذِب) (۱)

٭اسلام نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے۔(۲)

٭جھوٹ اکثر برائیوں کی جڑ ہے۔(۳)

٭جھوٹ انسان کے ایمان کا مزہ چھکنے میں رُکاوٹ(۴) اور بے ایمانی کا باعث ہے۔(۵)

٭امام محمد باقر ـ نے فرمایا کہ جھوٹ سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔

٭جھوٹوں سے دوستی مت کرو اس لیے کہ ان کی دوستی سراب کی مانند ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ یوسف، آیت ۱۸ (۲)۔ کافی، ج۲، ص ۳۳۸

(۳)۔کافی، ج۲، ص ۳۳۷ (۵)۔ کافی، ج۲، ص ۳۵۰

(۵)۔ کافی، ج۳، ص ۳۳۹

۷۵

آیت نمبر ۷ اور ۸

وَاعْلَمُوا َنَّ فِیکُمْ رَسُولَ اﷲِ لَوْ یُطِیعُکُمْ فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ وَزَیَّنَهُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (٧) فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَةً وَاﷲُ عَلِیم حَکِیم(٨)

ترجمہ:

اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے لیکن خدا نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے۔ اور کفر، فسق اور معصیت کو تمہارے لیے ناپسندیدہ قرار دے دیا ہے اور درحقیقت یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (۷) یہ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا بھی ہے۔ اور صاحب حکمت بھی ہے۔(۸)

نکات:

گزشتہ آیت میں یہ بات گذری ہے کہ ایک شخص (ولید بن عتبہ) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور لوگوں سے آکر یہ جھوٹ کہہ دیا کہ بنی مصطلق کے لوگ ہم سے جنگ کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ اور وہ اس

۷۶

بات کی بھی توقع رکھتے تھے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی حمایت کریں۔ اچانک آیت نازل ہوئی کہ خبردار پہلی بات یہ ہے کہ جب بھی فاسق خبر لائے تو پہلے اس کی تحقیق کرو پھر اقدام کرو۔ دوسری بات یہ کہ لوگوں کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تابع فرمان ہونا چاہیے نہ یہ کہ الٰہی نمائندہ فاسق کی جھوٹی خبر کے نتیجے میں لوگوں میں ابھرنے والے جذبات اور جوش و خروش کا تابع ہو۔

O ہم روایات میں اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچاننے کا معیار مومنین سے آپ کا رابطہ اور تعلق ہے۔ اگر صاحبان ایمان آپ کے نزدیک محبوب ہوں توآپ حق پر ہیں اور اگر گناہگار لوگ محبوب ہوں تو پھر آپ حق پر نہیں ہیں۔(۱)

O روایات کی روشنی میں اسی آیت میں(حَبَّبَ الیکم الایمان) ایمان سے مراد حضرت علی ابن ابی طالبـ ہیں اور کفر، فسق اور معصیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اہل بیت٪ کے خلاف جنگ کی۔(۲)

Oامام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو شخص صرف کھانے پینے کی چیزوں کو خدا کی نعمت سمجھے۔ اُس کا عمل کم اور اس کا عذاب نزدیک ہے۔

O ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص نیکیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت کو نعمت نہ سمجھے اس نے کفران نعمت کیا ہے اس کا عمل اکارت اور اس کی ہر کوشش بے کار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔کافی، ج۲، ص ۱۲۶ (۲)۔ کافی، ج۱، ص ۵۲۶

۷۷

O رشد و ترقی خدا کا ایک تحفہ ہے جو انبیاء کو عطا کیا گیا ہے۔(وَ آتینا ابرَاهِیمَ رُشْدَه') (۱) انبیاء کا کام بھی لوگوں کو رشد و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔(یَا قوم اتّبِعُونَ أَهْدِیکم سَبِیلَ الرّشَاد!) (۲) انبیاء کرام خود بھی ہمیشہ رشد و ترقی کی راہ کی تلاش میں رہتے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ ـ صحراء و بیابان میں حضرت خضر ـ کی تلاش میں جاتے ہیں۔ تاکہ رشد و ترقی کی راہ کو پالیا جائے۔(هل اتّبعک علی أنْ تُعلّمَن ممّا عُلمتُ رُشْدًا) (۳) ایمان رشد و ترقی کا پیش خیمہ ہے(و لیومنوا بی لعلّهم یرشدون) (۴) اس کے علاوہ کتب آسمانی کو بھی رشد و ترقی کا وسیلہ بیان کیا گیا ہے(یَهْدِی الی الرُّشد) (۵) بہرحال قرآن میں رشد و ترقی سے مراد معنوی رشد و ترقی ہے اور یہ انسان کی کوتاہ فکری ہے کہ وہ فقط دنیاوی ترقی کو رشد و ترقی سمجھتا ہے۔

O اگر کسی معاشرے کی ریاست و رہبری، معصوم یا عادل شخص کے پاس نہ ہوتو وہ حاکم استبدادیت کا شکار ہوسکتا ہے۔ کہ جس میں رشد و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا

ہے۔(وَمَا أَمَرُ فِرْعَون بِرَشید) (۶) لیکن اگر حاکم وقت معصوم یا امام عادل ہو تو

معاشرہ کی رُشد و ترقی کی راہ کھلی ہوتی ہے۔(ُوْلَئِکَ هُم الرَّاشِدُونَ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت ۵۱ (۲)۔ سورئہ مبارکہ غافر، آیت ۳۸

(۳)۔سورئہ مبارکہ کہف، آیت ۶۶ (۵)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ، آیت ۱۸۶

(۵)۔ سورئہ مبارکہ جن، آیت۲ (۶)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت ۹۷

۷۸

پیغامات:

۱۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ شرمندہ نہ ہوں تو انبیاء کی طرف رجوع کریں گزشتہ آیت کے آخر میں ندامت اور شرمندگی کے بارے میں بحث تھی اور اب اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر ندامت اور شرمندگی سے بچنا چاہتے ہو تو موجود پیغمبروں کی طرف رجوع کرو۔(نادمین- واعلموا ان فیکم رسول اللّٰه)

۲۔ انبیاء کرام اور رہبران الٰہی کا ہونا معاشرہ کے لیے ایک امتیاز ہے۔''فیکم رسول اللّٰه'' کہا ہے نہ''رسول الله منکم''

۳۔ رہبر اور حاکم کا وجود لوگوں کی دسترسی میں ہونا چاہیے اور لوگوں کو بھی اس سے خوب استفادہ کرنا چاہیے۔(َأنَّ فِیکُمْ رَسُولَ اﷲِ)

۵۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ لوگوں سے مشورہ لیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس بات کی توقع رکھنا کہ پیغمبر لوگوں کی اطاعت کرے یہ غلط ہے۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ --- لَعَنِتُّم---)

۵۔ لوگوں کی تمام مشکلات انبیاء سے دوری اور خواہشات نفسانی کی پیروی کی وجہ سے ہیں۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ --- لَعَنِتُّم---)

۶۔ رہبر اور حاکم عصر کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ اگر فتنہ و فساد ، اور لوگوں کی مختلف آراء اس کے ارادہ اور اس کی رائے پر اثر انداز ہو کر اُسے مست کردیں تو معاشرہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے۔(لَوْ یُطِیعُکُمْ لَعَنِتُّم) ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرہ کے حاکم اور رہبر کی رأی کو سست کردیا جائے جیسا کہ قرآن

۷۹

میں ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔(و دّوا ما عَنْتم---) (۱)

۷۔ بعض موارد پر انعطاف ضروری ہے۔(فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْر)

۸۔ جہاں پر خدا اور رسول کا حکم معلوم نہ ہوسکے وہاں مشورہ کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے ہم خیال اور ہم فکر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے (فِی کَثِیرٍ مِنْ الَْمْر) لہٰذا اس قسم کی مثال موجود ہے جہاں لوگوں سے مشورہ کرنا مشکلات کا سبب نہ بنا۔

۹۔ مذہب کی طرف مائل ہونا ایک فطری عمل ہے جوخداوند عالم نے انسان کی سرشت میں رکھا ہے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ---) (روایات میں ہے کہ حق ، اولیاء خدا، اور مومنین سے محبت کرنا خداوند متعال کے خاص لطف میں سے ہے۔

۱۰۔ محبت ایمان سے ہے۔ لیکن جبر اور سینہ زوری ایمان نہیں ہے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَان ---)

۱۱۔ ایمان دل کی زینت اور خوبصورتی کا نام ہے(و زَیّنَه فی قلوبکم) جس طرح پہاڑ، دریا، معادن، پھول، آبشاریں، اور جو کچھ زمین پر ہے سب زمین کی زینت اور خوبصورتی ہیں(اِنّا جَعَلْنَا ما علی الارض زینة لها) (بے شک انسان کے معنوی کمالات اس کی زینت اور خوبصورتی ہیں اور مادّی جلوے سب زمین کی زینت ہیں۔

۱۲۔ تولیٰ اور تبریٰ ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ اگر ہمیں ایمان سے محبت ہے تو کفر و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۱۸

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160