آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)25%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 128015 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

فسق اور معصیت سے نفرت ہونی چاہیے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۳۔ دل سے انکار کرنا اور برا سمجھنا انسان کے طغیانگر اور باغی ہونے کا پیش خیمہ ہے ابتداء میں ارشاد فرمایا''الکفر'' اور پھر فرمایا:الفسوق والعصیان-

۱۵۔ کفر انسانی فطرت سے ہٹنے کا نام ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۵۔ کفر، فِسق اور معصیت ایمان کی آفات ہیں(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۶۔ برائیوں سے نفرت ایک فطری عمل ہے(کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ---) اور یہ نفرت انسان کی ترقی اور پیشرفت کے لیے اصل اساس ہے۔(ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ )

۱۷۔ جو لوگ کفر، فسق اور معصیت سے نفرت نہیں کرتے وہ معنوی ترقی اور پیش رفت نہیں کر پاتے(کَرَّهَ --- ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ)

۱۸۔ نعمتوں کا انحصار فقط مادّی چیزوںپر نہیں ہے بلکہ ایمان سے محبت اور کفر، فسق اور معصیت سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے(حَبَّبَ---کَرَّهَ ---فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

۱۹۔ ایمان کی طرف مائل ہونا بھی لطف خداوندی ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ --

۸۱

-فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

ایمان اور علم کا تعلق:

ایمان اور علم ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایمان کا درجہ علم سے بڑ اہے اس لیے کہ ایمان کا تعلق محبت سے ہے۔ جیسا کہ ولی، سردار، حاکم، بادشاہ اور سلطان جیسا نہیں ہے اور اسی طرح خمس، زکاة اور دوسری مالیات کی طرح نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ایک مومن انسان بہت سی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ لیکن اُن میں سے ہر ایک سے محبت نہیں کرتا ہے مثال کے طور پر پہاڑوں کی بلندی سمندروں کی گہرائی۔ گزشتہ حکومتوں کی مدت اور اسی طرح ہزاروں مسائل کا علم رکھتا ہے۔ نیز بہت سی چیزوں کی تعداد سے آگاہ ہے لیکن اُن سب سے محبت نہیں کرتا۔ لیکن جس چیز کی بنیاد خدا کے ایمان اور اعتقاد پر استوار ہے اِس سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت اور یہ عشق خدا کی طرف سے ایک ہدیہ ہے۔ جو انسان کی فطرت میں اُسے عطا کیا گیا ہے۔ کفار درحقیقت اپنی ہٹ دھرمی سے اپنی فطرت کو تبدیل کرلیتے ہیں۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ)

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بات خمس اور زکاة کی آتی ہے تو اس میں ایک قسم کی قداست اور پاکیزگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس کا تعلق خدا پر اعتقاد اس کے انتخاب اور اس کے قرب سے ہے۔ اس لیے مالیات تمام لوگ ادا تو کرتے ہیں مگر مالیات کے لینے والے سے بحث نہیں کرتے لیکن خمس و زکات ادا کرنے والے لوگ جب اپنی مرجع تقلید کو اس کی ادائیگی کرتے ہیں تو اُس سے نہایت محبت کرتے ہیں۔

۸۲

آیت نمبر ۹

وَِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَِنْ بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الُْخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ فَِنْ فَائَتْ فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ -

ترجمہ:

اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک، دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکات:

اس سورئہ کا آغاز آداب معاشرت سے ہوا ہے۔

الف: خدا اور رسول سے ملاقات کے آداب، ان پر سبقت نہ لینا(لا تقدموا)

ب: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کا طریقہ (ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرنا)

ج: فاسق سے پیش آنے کا طریقہ اور یہ کہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کرنا۔

۸۳

د: باغی اور سرکش سے سختی کے ساتھ پیش آنا۔

ھ: مومن کے ساتھ محبت و پیار اور نرم مزاجی کے ساتھ پیش آنا (آنے والی آیات میں)

O حدیث میں ہے کہ اپنے مومن بھائی کی خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو مدد کرو اور اس کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم نہ کرنے دو اور اگر مظلوم ہو تو اس کا حق لینے میں اس کی مدد کرو۔(۱)

O مسلمانوں کو حکومت ، قدرت ، تعلیم و تربیت،اتحاد، نشرو اشاعت و تبلیغ گویا زندگی کے ہر شعبہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے ورنہ ہم آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں عالمی دہشت گردوں اور ظالموں سے بدلہ نہیں لے سکتے اگر ظالم اور باغی کو کیفر کردار تک پہنچانا واجب ہے تو اس کا مقدمہ یعنی اسلامی حکومت کی تشکیل بھی واجب ہے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ ایمان، لڑائی اورجھگڑے کے مانع نہیں ہے لیکن مومنین کے درمیان کبھی کبھار نہایت مختصر مدت کے لیے پیش آتا ہے ۔ اور دوام نہیں رکھتا اس لیے کہ کلمہ''اقْتَتلُوا''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص ۲۱۲

۸۴

اسی بات کی طرف اشارہ ہے اِس لیے کہ اگر اُن کے درمیان لڑائی اور جھگڑا دائمی ہوتا تو کلمہ''یقتلون'' استعمال ہوتا ۔

۲۔ نصیحت کے آداب میں سے ہے کہ برائی کی نسبت براہ راست مخاطب کی طرف نہ دیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ اے مومنین آپ لوگ ایسے نہیں ہیں''اقْتَتلُوا''

۳۔ جنگ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور صرف دو گروہ تک محدود نہیں رہتی۔ اسی لیے فرمایا ہے''اقْتَتلُوا'' جمع کا صیغہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کلمہ''اقْتَتلا'' استعمال ہوتا۔

۵۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے مشکلات کی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور ہرگز لاپروائی نہیں کرنی چاہیے۔

۵۔ دوستی اور صلح کرانے میںجلدی کرنی چاہیے اور بغیر کسی تاخیر کے اقدام کرنا چاہیے۔کلمہ ''فاصلحوا'' میں حرف فاء جلدی اور عدم تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔

۶۔ اگر دو گرہوں میں سے ایک تجاوز اور سرکشی کرے تو سب کو فورا ًاس کے خلاف جمع ہوجانا چاہیے(فَِنْ بَغَتْ ---- فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۷۔ اگر امن و آمان اورعدالت کے قیام کی خاطر باغی افراد کے قتل کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان کا خون مباح ہے اور انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے(فَِنْ بَغَتْ -- فَقَاتِلُوا---)

۸۔ تجاوز گری اور بغاوت کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے (فَِنْ بَغَتْ ---

۸۵

فَقَاتِلُوا)اسلامی نکتہ نظر کے مطابق سرکش اور باغی کو ہرگز مہلت اور فرصت نہیں دینی چاہیے۔

۹۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ، ٹال مٹول، سھل انگاری اور سستی سے کام نہ لیں(فقاتلوا) میں فاء فوری انجام دینے کی طرف اشارہ ہے۔

۱۰۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس کے اہل و عیال کو ایذاء نہیں پہنچانی چاہیے بلکہ خود اس شخص کو سزا دینی چاہیے(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۱۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی قسم کی رعایت نہ کریں۔ باغی اپنا جاننے والا ہو یا غیر(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۲۔ مسلمانوں کا قیام ایک مقدس ہدف رکھتا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی)

۱۳۔ جنگ ہدف کے حصول تک جاری رہے گی۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲ) کسی گھنٹے، دن اور مہینے کی قید نہیں ہے۔ جیسا کہ بیمار کا ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے جانا صحت یابی تک جاری رہنا چاہیے۔

۱۵۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں نہ تو ذاتی، قومی، گروہی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انتقام یا خودنمائی، اور غم و غصہ کم کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک خاص ہدف پایا جاتا ہے اور وہ باغی کا راہ راست پر آنا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ)

۱۵۔ اگر باغی سرکش راہ راست پر آنا شروع ہوجائے تو اس کے خلاف جنگ کو روک دیا جائے۔ اس لیے کہ جنگ روکنے کی یہ شرط نہیں کہ باغی صد در صد راہ

۸۶

راست پر آچکا ہو(حَتَّی تَفِیئَ )

۱۶۔ لڑائی جھگڑے کے دوران اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ خطا کار اور باغی کون ہے تو پھر ایسے میں فتنہ و فساد کو ختم کرکے صلح و صفائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ باغی اور خطا کار فلاں گروہ ہے تو پھر صلح و صفائی مظلوم کا دفاع کرتے ہوئے اس انداز میں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو اپنا حق مل جائے(فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ)

۱۷۔ مسلمانوں کا وظیفہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدل جاتا ہے کبھی اس کا وظیفہ جنگ اور کبھی صلح و صفائی ہے اس آیت میں دوبار کلمہ اصلحوا آیا ہے نیز کلمہ''قاتلوا '' بھی آیا ہے۔

۱۸۔ دو گروہ کے درمیان صلح و صفائی کیلئے جنگ میںجتنا بھی نقصان ہو وہ باغی سے لیا جائے گا۔ ''بالعدل'' حضرت امیر المومنین ـ سے منقول ہے کہ جو امت قوی اور قدرت مند سے ضعیف اور کمزور کا حق نہ لے سکے اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے۔(۱)

۱۹۔ جہاں بھی کوتاہیوں لغزشوں اور غضب و غرائز کی بھرمار ہو تو وہاں مسلسل وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔(بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا --- یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۰۔ ایسی اصلاح قابل تعریف و تمجید ہے جس میں صاحب حق کو اپنا حق مل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کافی، ج۵، ص ۵۶

۸۷

جائے۔ ورنہ وہ زبردستی کی خاموشی ، ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے(اصلحوا --- اقسطوا)

۲۱۔ جہاں بھی بات مشکلات کے تحمل کی ہو۔ وہاں دیرینہ اور پرانی محبت سے فائدہ اٹھانا چاہے(ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۲۔ وہ لوگ خدا کے محبوب قرار پاتے ہیں جو عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ورنہ عدل و انصاف کے بغیر مدمقابل کو خاموش کردینا خدا کی محبت کا سبب نہیں ہے۔(یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ)

نمونے:

٭وہ آیت جس کی تلاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔

جنگ جمل کے دوران جب جنگ کی آگ بھڑکنا ہی چاہتی تھی تو حضرت علی ـ نے انہیں جنگ شروع کرنے سے روکا۔ عائشہ کے طرفداروں نے امام ـ کے روکنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو امام علی ـ نے خدا کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی کہ لوگ ان کی بات نہیں سن رہے او ان کی نافرمانی کررہے ہیں ایسے میں آپ نے قرآن ہاتھ میں لیا اور کہا کہ کون ہے جو اس آیت(وان طائفتان من المومنین---) کو لوگوں کے سامنے جاکر تلاوت کرے۔ مسلم مجاشعی نامی شخص آیا اور کہا میں لوگوں کے سامنے اس آیت کی تلاوت کروں گا۔ امام ـ نے فرمایا: کہ تیرے ہاتھ کاٹ کر تجھے شہید کردیا جائے گا تو اس نے جواب دیا''هذا قلیل فی ذاتِ اللّٰه'' یعنی خدا کی راہ میں تو یہ

۸۸

کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے قرآن لیا اور عائشہ کے لشکر کے سامنے آکر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ تاکہ جنگ و خونریزی نہ ہو ایسے میں اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ دیا۔ تو اس نے قرآن الٹے ہاتھ میں لیا اور جب اس کا الٹا ہاتھ کاٹ دیا تو قرآن کو دانتوں میں لے لیا اور آخر کار عایشہ کے لشکریوں نے اُسے شہید کردیا۔ حضرت علی ـ نے اُس کی شہادت کے بعد حملہ کا فرمان جاری کیا۔(۱)

جی ہاں ابتداء میں قرآن کے ذریعہ تبلیغ اور اتمام حجت کرنی چاہیے اس کے بعد شجاعت اور بہادری کے ساتھ ہدف کے حصول تک آخری سانس تک لڑتے رہنا چاہیے۔

عدالت:

جیسا کہ اس آیت میں تین مرتبہ عدالت سے متعلق گفتگو موجود ہے۔(فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطوا انّ اللّٰه یحب المقسطین) اس لیے مناسب ہے کہ یہاں عدالت کے بارے میں مختصر سی بحث کی جائے۔

۱۔ انسان کی خلقت اور پیدائش حق و عدالت کے تحت ہے۔''بالعدل قامت السّموات'' (۲)

۲۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہ تھا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں(یقوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۳۲، ص ۱۷۵ (۲)۔ بحار، ج۳۳، ص ۵۹۳

۸۹

الناس بالقسط) (۱)

۳۔ عدالت زندگی اور ظلم موت ہے۔''العدل حیاة والجور ممات'' (۲)

۵۔ ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا ستر سال کی ایسی عبادت سے افضل ہے کہ جس میں دن بھر روزہ اور رات کو شب بیداری کی ہو۔(۳)

۵۔ عادل رہبر کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔(۴)

۶۔ اگر لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو خدا کی طرف سے رزق و برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔(۵)

۷۔ امام موسیٰ کاظم ـ سے مروی ہے کہ اگر تمام لوگ عدل سے کام لیں تو سب کے سب بے نیاز ہوجائیں گے۔(۶) نیز فرمایا کہ عدالت شہد سے زیادہ شیرین ہے۔

۸۔ امام موسیٰ کاظم ـ نے اس آیت(یحیی الارض بعد موتها) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خداوند مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا۔ یعنی خداوند ایسے افراد کو مبعوث کرے گا کہ جو عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور زمین عدل و انصاف کے قیام سے زندہ ہوجائے گی۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ حدید، آیت ۲۵

(۲)۔ آثار الصادقین ،ج۱۲، ص ۵۳۰ (۳)۔ جامع السادات، ج۲، ص ۲۲۳

(۵)۔وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۱۰۸ (۵)۔کافی، ج۳، ص ۵۶۹

(۶)۔ کافی، ج۱، ص ۵۵۱ (۷)۔ کافی، ج۷، ص ۲۷۵

۹۰

۹۔ حضرت فاطمہ زہرا ٭ سے منقول ہے کہ عدالت دلوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہے۔(۱)

(جی ہاں لوگ فقر و فاقہ کے ساتھ تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر نا انصافی اور بے عدالتی کو برداشت نہیں کرپاتے اور جلد ہی غم و غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں)

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت

عام طور سے عدالت یعنی قانون کی پابندی اور بے عدالتی یعنی قانون کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اگر کسی کی نظر میں خود قانون ہی کی کوئی اہمیت نہ ہو تو پھر وہ کس طرح اس پر عمل کرسکتا ہے۔

ایسا قانون جو خود ہم انسانوں نے بنایا ہو۔ ایسا قانون جو ہر روز تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایسا قانون جس سے شخصی اور قومی مفادات وابستہ ہیں۔ ایسا قانون جو غیر پختہ افکار، محدود اطلاعات ، ہوا و ہوس ملک اور قوم پرستی ، خوف اور خواہشات نفسانی کا نتیجہ ہے۔

ایسا قانون جو ہر زمان و مکان کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر طاقتور اُسے اپنے حق میںبدل دیتا ہے۔ ایسا قانون کے جس کے بنانے والے خود اُس پر بہت سے اعتراض اور اس کے نقائص بیان کرتے ہیں اور وہ خود بھی اُس پر عمل نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص ۵۶۷

۹۱

کیا یہ قوانین انسان کو پاکیزگی اور قداست عطا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کے لیے عزت ، شرافت فراہم کرسکتے ہیں کیا اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی ظلم اور بے انصافی ہے؟

لیکن وہ قوانین جو انسان کے پیدا کرنے والے کے علم و حکمت اور لطف و کمال کا نتیجہ ہیں۔ جنکا لانے والا معصوم اور خود سب سے پہلے اُن قوانین پر عمل کرنے والا ہے۔ ایسا قانون جو کسی بھی ذات ، قدرت اور گروہ سے متاثر نہیں ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی پاکیزگی کرامت اور قدرت کا باعث ہے ایسے قانون پر عمل کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خلاف ورزی ظلم اور خلاف عدالت ہے۔

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ

عقیدہ توحید میں عدل ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ ہر مسلمان خداوند عالم کو عادل، ہرچیز کو منظم اور خدا کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت انسان تمام انسانوں کی ابتداء خاک اور انتہا قیامت میں خداوند متعال کی عدالت میں حاضر ہونا جانتا ہے۔

ادیان الٰہی کے نکتہ نگاہ سے تمام انبیاء کرام کے آنے کا مقصد قیام عدل ہے۔ آخری امام حضرت امام زمانہ ـ کے انتظار کے عقیدہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ قیامت پر یقین ایک ایسا عقیدہ

۹۲

ہے جو اس بات پر استوار ہے کہ زمین کا ہر خشک و تر مکمل نظم و ضبط کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ خداکی طرف سے برگزیدہ انبیاء و رسل اپنے آپ کو عادل اور عدالت کا قائم کرنے والا کہلواتے ہیں۔

جی ہاں عقائد، انسان میں عدالت کے قیام کا بہترین پیش خیمہ ہیں لیکن جو اس کائنات کو لاوارث اور بے نظم سمجھتا ہو خلقت اور مخلوق کو حادثہ کا نتیجہ سمجھتا ہو اور موت کو نیستی و نابودی تصور کرتا ہو، پوری دنیا کو بغیر ہدف کے اور عبث تصور کرتا ہو ایسے آدمی کے پاس عدالت کے قیام کے لیے کوئی مقدمہ فراہم نہیں ہے۔

جی ہاں یہ ممکن ہے کہ چند ایک روز کے لیے معاشرتی دباؤ یا جرائم اور قانونی سزاؤں سے بچنے یاپھر لوگوں کی جانب محبت اور کسب نظر کی وجہ سے خطا نہ کرے اور عارضی طور پر کچھ عرصے کے لیے عدل و انصاف سے کام لے۔ لیکن یہی شخص کیوں کہ کائنات اور موجودہ اشیاء کو عبث اور بغیر ہدف کے سمجھتا ہے اور اسی مادّی نظریے کی وجہ سے عدالت کو دل سے قبول نہیں کرتا ہے۔

عدل کی وسعت:

عدالت اسلام کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ خدا کی توحید کے بعد اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرجع تقلید، امام جمعہ و جماعت، قاضی اور بیت المال کے خزانچی میں بھی عادل ہونے کی شرط ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اسلام کے ہر قانون میں عدالت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اور ہر مرحلہ اور مسئلہ میں ہر قسم کی افراط و تفریط سے روکا گیا ہے من جملہ۔

۹۳

۱۔ عبادت میں عدالت۔ یہاں تک کہ احادیث کی کتب میں ایک باب بعنوان ''الاقتصاد فی العبادة'' موجود ہے جس میں اُن روایات کو بیان کیا گیا ہے جو عبادت میں میانہ روی کو بیان کرتی ہیں۔

۲۔ کام کاج اور تفریح میں عدالت۔

۳۔ غیض و غضب اور محبت میں عدالت۔

۵۔ دوست اور دشمن دونوں کے لیے عدالت۔

۵۔ ملامت و سرزنش اور تعریف و تمجید میں عدالت۔

۶۔ پیداوار اور استعمال میں عدالت۔

۷۔ بیت المال کی تقسیم بندی اور وصیت میں عدالت۔

۸۔ اہل و عیال اور دوست احباب کے درمیان عدالت۔

۹۔ قضاوت اور فیصلہ کے دوران عدالت۔

۱۰۔ قصاص میں عدالت۔

۱۱۔ جنگ میں عدالت۔

۱۲۔ حیوانات کے ساتھ برتاؤ میں عدالت۔ یہاں تک کہ امام علی ـ زکات کی جمع آوری کرنے والے شخص سے یہ فرماتے ہیں کہ زکات میں ملے ہوئے جانوروں پر سواری میں بھی عدالت سے کام لینا۔(۱) مثال کے طور پر اگر زکات میں چار اونٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ نہج البلاغہ، مکتوب ۲۵

۹۴

ملے اور تم دو گھنٹے سفر میں ہو تو ہر اونٹ پر آدھا گھنٹہ سوار ہونا۔ ایک اور مقام پر آپ ـفرماتے ہیں کہ اگر کوئی حاجی جلدی مکہ پہنچنے کی وجہ سے اپنے جانور کو حد سے زیادہ تھکا دے تو اس کی گواہی مسائل حقوقی میں قبول نہ کرو اس لیے کہ اس نے اپنے جانور پر ظلم کیا ہے۔(۱)

بہرحال اسلام کی ہر چیز میں عدالت سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر مسجد میں کسی مقام پر کوئی بچہ بیٹھا ہوا ہو اور آپ اُسے اٹھا کر وہاں نماز ادا کریں تو ایسی صورت میں نماز میں اشکال ہے۔(۲)

نمونے:

٭قرآن کریم نے اہل حجاز کو۔ جو اپنے کو دوسروں سے برتر اور جدا تصور کرتے تھے۔ حکم دیا کہ اُسی طرح حج ادا کرو جس طرح دوسرے لوگ حج ادا کرتے ہیں(آفیضوا من حیث افاض النّاس) (۳)

جب بھی ثروت مند افراد انبیاء سے یہ چاہتے تھے کہ وہ فقراء کو اپنی بارگاہ سے نکال دیں تو یہی جواب سنتے تھے(مأ انٰا بِطَارد الّذین اٰمنوا) (۴)

٭پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری سفر میں تمام لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: تمام مسلمان چاہے وہ کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں برابر ہیں۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔وسائل الشیعہ،کتاب الحج (۲)۔ توضیح المسائل (۳)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۹۹

(۵)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت ۲۹ (۵)۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۵۸

۹۵

بعض سیاستدان اور مصلحت پسند افراد نے مولائے کائنات حضرت علی ـ سے عرض کیا کہ فقراء اور غلاموں کا حصہ ان کے حصے سے الگ کرکے قوم کے بڑے لوگوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ تاکہ حکومت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں اور وہ کسی قسم کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اور وہ معاویہ سے ملحق نہ ہوں۔ تو آپ نے فرمایا:کہ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں انہیں خراج (ٹیکس) ادا کروں ہرگز ایسا نہ ہوگا جس کا دل چاہے رُکے اور جس کا دل چاہے چلا جائے۔(۱) نیز امام ـ ہی نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں فرمایا تھا کہ مجھے سے پہلے بیت المال سے جتنا بھی پیسہ بے جا مصرف ہوا ہے۔ وہ سب واپس بیت المال میں پلٹا دیا جائے گا چاہے اس پیسے سے غلام خریدے گئے ہوں یا بطور مہر ادا کیا گیا ہو۔(۲)

٭حضرت علی ـ نے فرمایا:کہ جب میں اپنے ذاتی مال کو بغیر مساوات کے تقسیم نہیں کرسکتا تو پھر خدا کے مال (بیت المال) کو کس طرح مساوات کے بغیر تقسیم کروں۔(۳)

٭پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو سب سے پہلے جہنم میں جائے گا۔ وہ حاکم ہے جو عدل و انصاف سے کام نہ لے۔(۴)

٭اگر کسی شخص کے زیر کفالت دس افراد ہوں اور وہ ان کے درمیان عدالت سےکام نہ لے تو وہ قیامت میں اس طرح محشور کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پیر بندھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص ۱۰۷ (۲)۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵

(۳)۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۶ (۵)۔ میزان الحکمہ

۹۶

ہوئے ہونگے۔(۱)

یہ وہ چند نکات تھے جو مجھ جیسے طالب علم کے لیے آیت سے کشف ہوئے ہیں۔ انسان قربان جائے ایسی کتاب کے جس کے ہر کلمہ میں ایک ایسا درس پوشیدہ ہے کہ جس کی تازگی اور شادابی کو زمین و زمان کی تبدیلی نہیں چھین سکتی ہے تاکہ اور بہتر انداز سے اس کتاب کو سمجھا جاسکے آپ سے گزارش ہے کہ ایک ایسی سطر لکھیں جس کے ہر کلمہ میں صحیح، منطقی اور ایسے جاویدان نکات پوشیدہ ہوں جن سے رہتی دنیا تک استفادہ ہوتا رہے !!

٭پروردگارا: تجھے قرآن کے ہر کلمہ کا واسطہ کہ ہمیں ہدایت کے بعد لغزشوں سے دوچار نہ فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ۔ میزان الحکمہ

۹۷

آیت نمبر ۱۰

ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فََصْلِحُوا بَیْنَ َخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی جیسے ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔

٭اس آیت میں مومنین کے رابطے کو دو بھائیوں کی مانند پیش کیا گیا ہے اور اس تعبیر میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

الف: دو بھائی دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے بازو ہوتے ہیں۔

ب: دو بھائیوں کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔

ج: آج کے دور میں آپس کے تعلق اور روابط کے لیے دوست ، ہم شہر، ہم وطن جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مگر اسلام نے اس رابطے کے اظہار کے لیے بھائی کا لفظ استعمال کیا ہے جوان سب سے زیادہ مفید اور گہرے معنی رکھتا ہے۔

د: دو بھائیوں کی دوستی باہمی ہوتی ہے۔

ھ: حدیث میں دو دینی بھائیوں کی دوستی کو دو ہاتھوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہاتھ دھوتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ محجة البیضائ

۹۸

٭ اس آیت میں اور اس سے قبل آیت میں مجموعی طور پر کلمہ ''أصلحوا'' تین بار آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام صلح و آشتی پر کتنی توجہ دیتا ہے۔

٭مسلمانوں کے آپس میں جھگڑنے سے تلخ حوادث رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپس میں ناراضگی، سوئِ ظن، غلط پروپیگنڈا، انتقام جوئی، اور فتنہ و فساد زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے اِن آیات میں ان جملوں ۔أصلحوا، أقسطوا، یحب المقسطین، اِخوة، اخویکم، اتّقوا، ترحمون، کے ذریعہ جنگوں سے حاصل شدہ زخموں پر مرہم رکھا ہے۔

پیغامات:

۱۔ اخوت و برادری کا راز فقط ایمان میں پوشیدہ ہے ۔ (معاشی، سیاسی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی مسائل کے ذریعہ لوگوں میں اخوت و برادری کی روح پیدا نہیں کی جاسکتی )(انّما المومنون الاخوة)

جان گرگان و سگان از ھم جدااست

متحد جان ھای شیران خدا است

ترجمہ :بھیڑیوں اور کتوں کا اتحاد ممکن نہیں البتہ خدا کے شیروں کا اتحاد ممکن ہے۔

۲۔ اخوت و برادری کی بنیاد پر ایمان ہے اور زمان و مکان ، عمر اور پیشہ کی پابند نہیں ہے۔( انّما المومنون الاخوة)

۳۔ کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے پر برتر نہ سمجھے''اخوة'' البتہ والدین اولاد پر

۹۹

برتری رکھتے ہیں لیکن بھائیوں کے درمیان مساوات ہے۔

۵۔ صلح و آشتی کے لیے محبت آمیز، نفسیاتی اور تعمیری گفتگو کرنی چاہیے۔''اِخْوة فَاصلِحُوا''

۵۔ صلح و آشتی کرانا ہر مسلمان پر واجب ہے اور کسی خاص گروہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔''فَاصلِحُوا''

۶۔ صلح کرانے والا بھی دونوں گروہوں کا بھائی ہے۔ بَینْ أخوّیکم

۷۔ صلح و آشتی کرانے میں کچھ آفات بھی ہیں لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔''فاصلحوا--- واتقوا'' (صلح و آشتی کرانے کی بعض آفات یہ ہیں۔ خودنمائی، توقع، ظلم و ستم اور احسان جتانا وغیرہ۔

۸۔ ایسا معاشرہ جو جنگ و جدل میں مصروف ہوجائے رحمت خدا سے محروم رہتا ہے۔''فاصلحوا --- واتقوا --- ترحمون''

۹۔ صلح و صفائی رحمت الٰہی کے نزول کا پیش خیمہ ہے۔''فاصلحوا --- ترحمون''

اخوت و برادری:

اسلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل جڑ سے شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طو پر قرآن مجید میں ہے(انّ العزة للّٰه جمیعًا) (۱) تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ یونس، آیت ۶۵

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160