آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130069 / ڈاؤنلوڈ: 5441
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

فسق اور معصیت سے نفرت ہونی چاہیے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۳۔ دل سے انکار کرنا اور برا سمجھنا انسان کے طغیانگر اور باغی ہونے کا پیش خیمہ ہے ابتداء میں ارشاد فرمایا''الکفر'' اور پھر فرمایا:الفسوق والعصیان-

۱۵۔ کفر انسانی فطرت سے ہٹنے کا نام ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۵۔ کفر، فِسق اور معصیت ایمان کی آفات ہیں(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۶۔ برائیوں سے نفرت ایک فطری عمل ہے(کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ---) اور یہ نفرت انسان کی ترقی اور پیشرفت کے لیے اصل اساس ہے۔(ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ )

۱۷۔ جو لوگ کفر، فسق اور معصیت سے نفرت نہیں کرتے وہ معنوی ترقی اور پیش رفت نہیں کر پاتے(کَرَّهَ --- ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ)

۱۸۔ نعمتوں کا انحصار فقط مادّی چیزوںپر نہیں ہے بلکہ ایمان سے محبت اور کفر، فسق اور معصیت سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے(حَبَّبَ---کَرَّهَ ---فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

۱۹۔ ایمان کی طرف مائل ہونا بھی لطف خداوندی ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ --

۸۱

-فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

ایمان اور علم کا تعلق:

ایمان اور علم ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایمان کا درجہ علم سے بڑ اہے اس لیے کہ ایمان کا تعلق محبت سے ہے۔ جیسا کہ ولی، سردار، حاکم، بادشاہ اور سلطان جیسا نہیں ہے اور اسی طرح خمس، زکاة اور دوسری مالیات کی طرح نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ایک مومن انسان بہت سی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ لیکن اُن میں سے ہر ایک سے محبت نہیں کرتا ہے مثال کے طور پر پہاڑوں کی بلندی سمندروں کی گہرائی۔ گزشتہ حکومتوں کی مدت اور اسی طرح ہزاروں مسائل کا علم رکھتا ہے۔ نیز بہت سی چیزوں کی تعداد سے آگاہ ہے لیکن اُن سب سے محبت نہیں کرتا۔ لیکن جس چیز کی بنیاد خدا کے ایمان اور اعتقاد پر استوار ہے اِس سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت اور یہ عشق خدا کی طرف سے ایک ہدیہ ہے۔ جو انسان کی فطرت میں اُسے عطا کیا گیا ہے۔ کفار درحقیقت اپنی ہٹ دھرمی سے اپنی فطرت کو تبدیل کرلیتے ہیں۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ)

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بات خمس اور زکاة کی آتی ہے تو اس میں ایک قسم کی قداست اور پاکیزگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس کا تعلق خدا پر اعتقاد اس کے انتخاب اور اس کے قرب سے ہے۔ اس لیے مالیات تمام لوگ ادا تو کرتے ہیں مگر مالیات کے لینے والے سے بحث نہیں کرتے لیکن خمس و زکات ادا کرنے والے لوگ جب اپنی مرجع تقلید کو اس کی ادائیگی کرتے ہیں تو اُس سے نہایت محبت کرتے ہیں۔

۸۲

آیت نمبر ۹

وَِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَِنْ بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الُْخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ فَِنْ فَائَتْ فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ -

ترجمہ:

اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک، دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکات:

اس سورئہ کا آغاز آداب معاشرت سے ہوا ہے۔

الف: خدا اور رسول سے ملاقات کے آداب، ان پر سبقت نہ لینا(لا تقدموا)

ب: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کا طریقہ (ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرنا)

ج: فاسق سے پیش آنے کا طریقہ اور یہ کہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کرنا۔

۸۳

د: باغی اور سرکش سے سختی کے ساتھ پیش آنا۔

ھ: مومن کے ساتھ محبت و پیار اور نرم مزاجی کے ساتھ پیش آنا (آنے والی آیات میں)

O حدیث میں ہے کہ اپنے مومن بھائی کی خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو مدد کرو اور اس کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم نہ کرنے دو اور اگر مظلوم ہو تو اس کا حق لینے میں اس کی مدد کرو۔(۱)

O مسلمانوں کو حکومت ، قدرت ، تعلیم و تربیت،اتحاد، نشرو اشاعت و تبلیغ گویا زندگی کے ہر شعبہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے ورنہ ہم آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں عالمی دہشت گردوں اور ظالموں سے بدلہ نہیں لے سکتے اگر ظالم اور باغی کو کیفر کردار تک پہنچانا واجب ہے تو اس کا مقدمہ یعنی اسلامی حکومت کی تشکیل بھی واجب ہے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ ایمان، لڑائی اورجھگڑے کے مانع نہیں ہے لیکن مومنین کے درمیان کبھی کبھار نہایت مختصر مدت کے لیے پیش آتا ہے ۔ اور دوام نہیں رکھتا اس لیے کہ کلمہ''اقْتَتلُوا''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص ۲۱۲

۸۴

اسی بات کی طرف اشارہ ہے اِس لیے کہ اگر اُن کے درمیان لڑائی اور جھگڑا دائمی ہوتا تو کلمہ''یقتلون'' استعمال ہوتا ۔

۲۔ نصیحت کے آداب میں سے ہے کہ برائی کی نسبت براہ راست مخاطب کی طرف نہ دیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ اے مومنین آپ لوگ ایسے نہیں ہیں''اقْتَتلُوا''

۳۔ جنگ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور صرف دو گروہ تک محدود نہیں رہتی۔ اسی لیے فرمایا ہے''اقْتَتلُوا'' جمع کا صیغہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کلمہ''اقْتَتلا'' استعمال ہوتا۔

۵۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے مشکلات کی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور ہرگز لاپروائی نہیں کرنی چاہیے۔

۵۔ دوستی اور صلح کرانے میںجلدی کرنی چاہیے اور بغیر کسی تاخیر کے اقدام کرنا چاہیے۔کلمہ ''فاصلحوا'' میں حرف فاء جلدی اور عدم تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔

۶۔ اگر دو گرہوں میں سے ایک تجاوز اور سرکشی کرے تو سب کو فورا ًاس کے خلاف جمع ہوجانا چاہیے(فَِنْ بَغَتْ ---- فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۷۔ اگر امن و آمان اورعدالت کے قیام کی خاطر باغی افراد کے قتل کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان کا خون مباح ہے اور انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے(فَِنْ بَغَتْ -- فَقَاتِلُوا---)

۸۔ تجاوز گری اور بغاوت کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے (فَِنْ بَغَتْ ---

۸۵

فَقَاتِلُوا)اسلامی نکتہ نظر کے مطابق سرکش اور باغی کو ہرگز مہلت اور فرصت نہیں دینی چاہیے۔

۹۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ، ٹال مٹول، سھل انگاری اور سستی سے کام نہ لیں(فقاتلوا) میں فاء فوری انجام دینے کی طرف اشارہ ہے۔

۱۰۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس کے اہل و عیال کو ایذاء نہیں پہنچانی چاہیے بلکہ خود اس شخص کو سزا دینی چاہیے(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۱۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی قسم کی رعایت نہ کریں۔ باغی اپنا جاننے والا ہو یا غیر(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۲۔ مسلمانوں کا قیام ایک مقدس ہدف رکھتا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی)

۱۳۔ جنگ ہدف کے حصول تک جاری رہے گی۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲ) کسی گھنٹے، دن اور مہینے کی قید نہیں ہے۔ جیسا کہ بیمار کا ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے جانا صحت یابی تک جاری رہنا چاہیے۔

۱۵۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں نہ تو ذاتی، قومی، گروہی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انتقام یا خودنمائی، اور غم و غصہ کم کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک خاص ہدف پایا جاتا ہے اور وہ باغی کا راہ راست پر آنا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ)

۱۵۔ اگر باغی سرکش راہ راست پر آنا شروع ہوجائے تو اس کے خلاف جنگ کو روک دیا جائے۔ اس لیے کہ جنگ روکنے کی یہ شرط نہیں کہ باغی صد در صد راہ

۸۶

راست پر آچکا ہو(حَتَّی تَفِیئَ )

۱۶۔ لڑائی جھگڑے کے دوران اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ خطا کار اور باغی کون ہے تو پھر ایسے میں فتنہ و فساد کو ختم کرکے صلح و صفائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ باغی اور خطا کار فلاں گروہ ہے تو پھر صلح و صفائی مظلوم کا دفاع کرتے ہوئے اس انداز میں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو اپنا حق مل جائے(فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ)

۱۷۔ مسلمانوں کا وظیفہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدل جاتا ہے کبھی اس کا وظیفہ جنگ اور کبھی صلح و صفائی ہے اس آیت میں دوبار کلمہ اصلحوا آیا ہے نیز کلمہ''قاتلوا '' بھی آیا ہے۔

۱۸۔ دو گروہ کے درمیان صلح و صفائی کیلئے جنگ میںجتنا بھی نقصان ہو وہ باغی سے لیا جائے گا۔ ''بالعدل'' حضرت امیر المومنین ـ سے منقول ہے کہ جو امت قوی اور قدرت مند سے ضعیف اور کمزور کا حق نہ لے سکے اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے۔(۱)

۱۹۔ جہاں بھی کوتاہیوں لغزشوں اور غضب و غرائز کی بھرمار ہو تو وہاں مسلسل وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔(بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا --- یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۰۔ ایسی اصلاح قابل تعریف و تمجید ہے جس میں صاحب حق کو اپنا حق مل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کافی، ج۵، ص ۵۶

۸۷

جائے۔ ورنہ وہ زبردستی کی خاموشی ، ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے(اصلحوا --- اقسطوا)

۲۱۔ جہاں بھی بات مشکلات کے تحمل کی ہو۔ وہاں دیرینہ اور پرانی محبت سے فائدہ اٹھانا چاہے(ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۲۔ وہ لوگ خدا کے محبوب قرار پاتے ہیں جو عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ورنہ عدل و انصاف کے بغیر مدمقابل کو خاموش کردینا خدا کی محبت کا سبب نہیں ہے۔(یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ)

نمونے:

٭وہ آیت جس کی تلاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔

جنگ جمل کے دوران جب جنگ کی آگ بھڑکنا ہی چاہتی تھی تو حضرت علی ـ نے انہیں جنگ شروع کرنے سے روکا۔ عائشہ کے طرفداروں نے امام ـ کے روکنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو امام علی ـ نے خدا کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی کہ لوگ ان کی بات نہیں سن رہے او ان کی نافرمانی کررہے ہیں ایسے میں آپ نے قرآن ہاتھ میں لیا اور کہا کہ کون ہے جو اس آیت(وان طائفتان من المومنین---) کو لوگوں کے سامنے جاکر تلاوت کرے۔ مسلم مجاشعی نامی شخص آیا اور کہا میں لوگوں کے سامنے اس آیت کی تلاوت کروں گا۔ امام ـ نے فرمایا: کہ تیرے ہاتھ کاٹ کر تجھے شہید کردیا جائے گا تو اس نے جواب دیا''هذا قلیل فی ذاتِ اللّٰه'' یعنی خدا کی راہ میں تو یہ

۸۸

کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے قرآن لیا اور عائشہ کے لشکر کے سامنے آکر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ تاکہ جنگ و خونریزی نہ ہو ایسے میں اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ دیا۔ تو اس نے قرآن الٹے ہاتھ میں لیا اور جب اس کا الٹا ہاتھ کاٹ دیا تو قرآن کو دانتوں میں لے لیا اور آخر کار عایشہ کے لشکریوں نے اُسے شہید کردیا۔ حضرت علی ـ نے اُس کی شہادت کے بعد حملہ کا فرمان جاری کیا۔(۱)

جی ہاں ابتداء میں قرآن کے ذریعہ تبلیغ اور اتمام حجت کرنی چاہیے اس کے بعد شجاعت اور بہادری کے ساتھ ہدف کے حصول تک آخری سانس تک لڑتے رہنا چاہیے۔

عدالت:

جیسا کہ اس آیت میں تین مرتبہ عدالت سے متعلق گفتگو موجود ہے۔(فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطوا انّ اللّٰه یحب المقسطین) اس لیے مناسب ہے کہ یہاں عدالت کے بارے میں مختصر سی بحث کی جائے۔

۱۔ انسان کی خلقت اور پیدائش حق و عدالت کے تحت ہے۔''بالعدل قامت السّموات'' (۲)

۲۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہ تھا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں(یقوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۳۲، ص ۱۷۵ (۲)۔ بحار، ج۳۳، ص ۵۹۳

۸۹

الناس بالقسط) (۱)

۳۔ عدالت زندگی اور ظلم موت ہے۔''العدل حیاة والجور ممات'' (۲)

۵۔ ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا ستر سال کی ایسی عبادت سے افضل ہے کہ جس میں دن بھر روزہ اور رات کو شب بیداری کی ہو۔(۳)

۵۔ عادل رہبر کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔(۴)

۶۔ اگر لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو خدا کی طرف سے رزق و برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔(۵)

۷۔ امام موسیٰ کاظم ـ سے مروی ہے کہ اگر تمام لوگ عدل سے کام لیں تو سب کے سب بے نیاز ہوجائیں گے۔(۶) نیز فرمایا کہ عدالت شہد سے زیادہ شیرین ہے۔

۸۔ امام موسیٰ کاظم ـ نے اس آیت(یحیی الارض بعد موتها) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خداوند مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا۔ یعنی خداوند ایسے افراد کو مبعوث کرے گا کہ جو عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور زمین عدل و انصاف کے قیام سے زندہ ہوجائے گی۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ حدید، آیت ۲۵

(۲)۔ آثار الصادقین ،ج۱۲، ص ۵۳۰ (۳)۔ جامع السادات، ج۲، ص ۲۲۳

(۵)۔وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۱۰۸ (۵)۔کافی، ج۳، ص ۵۶۹

(۶)۔ کافی، ج۱، ص ۵۵۱ (۷)۔ کافی، ج۷، ص ۲۷۵

۹۰

۹۔ حضرت فاطمہ زہرا ٭ سے منقول ہے کہ عدالت دلوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہے۔(۱)

(جی ہاں لوگ فقر و فاقہ کے ساتھ تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر نا انصافی اور بے عدالتی کو برداشت نہیں کرپاتے اور جلد ہی غم و غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں)

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت

عام طور سے عدالت یعنی قانون کی پابندی اور بے عدالتی یعنی قانون کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اگر کسی کی نظر میں خود قانون ہی کی کوئی اہمیت نہ ہو تو پھر وہ کس طرح اس پر عمل کرسکتا ہے۔

ایسا قانون جو خود ہم انسانوں نے بنایا ہو۔ ایسا قانون جو ہر روز تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایسا قانون جس سے شخصی اور قومی مفادات وابستہ ہیں۔ ایسا قانون جو غیر پختہ افکار، محدود اطلاعات ، ہوا و ہوس ملک اور قوم پرستی ، خوف اور خواہشات نفسانی کا نتیجہ ہے۔

ایسا قانون جو ہر زمان و مکان کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر طاقتور اُسے اپنے حق میںبدل دیتا ہے۔ ایسا قانون کے جس کے بنانے والے خود اُس پر بہت سے اعتراض اور اس کے نقائص بیان کرتے ہیں اور وہ خود بھی اُس پر عمل نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص ۵۶۷

۹۱

کیا یہ قوانین انسان کو پاکیزگی اور قداست عطا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کے لیے عزت ، شرافت فراہم کرسکتے ہیں کیا اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی ظلم اور بے انصافی ہے؟

لیکن وہ قوانین جو انسان کے پیدا کرنے والے کے علم و حکمت اور لطف و کمال کا نتیجہ ہیں۔ جنکا لانے والا معصوم اور خود سب سے پہلے اُن قوانین پر عمل کرنے والا ہے۔ ایسا قانون جو کسی بھی ذات ، قدرت اور گروہ سے متاثر نہیں ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی پاکیزگی کرامت اور قدرت کا باعث ہے ایسے قانون پر عمل کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خلاف ورزی ظلم اور خلاف عدالت ہے۔

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ

عقیدہ توحید میں عدل ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ ہر مسلمان خداوند عالم کو عادل، ہرچیز کو منظم اور خدا کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت انسان تمام انسانوں کی ابتداء خاک اور انتہا قیامت میں خداوند متعال کی عدالت میں حاضر ہونا جانتا ہے۔

ادیان الٰہی کے نکتہ نگاہ سے تمام انبیاء کرام کے آنے کا مقصد قیام عدل ہے۔ آخری امام حضرت امام زمانہ ـ کے انتظار کے عقیدہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ قیامت پر یقین ایک ایسا عقیدہ

۹۲

ہے جو اس بات پر استوار ہے کہ زمین کا ہر خشک و تر مکمل نظم و ضبط کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ خداکی طرف سے برگزیدہ انبیاء و رسل اپنے آپ کو عادل اور عدالت کا قائم کرنے والا کہلواتے ہیں۔

جی ہاں عقائد، انسان میں عدالت کے قیام کا بہترین پیش خیمہ ہیں لیکن جو اس کائنات کو لاوارث اور بے نظم سمجھتا ہو خلقت اور مخلوق کو حادثہ کا نتیجہ سمجھتا ہو اور موت کو نیستی و نابودی تصور کرتا ہو، پوری دنیا کو بغیر ہدف کے اور عبث تصور کرتا ہو ایسے آدمی کے پاس عدالت کے قیام کے لیے کوئی مقدمہ فراہم نہیں ہے۔

جی ہاں یہ ممکن ہے کہ چند ایک روز کے لیے معاشرتی دباؤ یا جرائم اور قانونی سزاؤں سے بچنے یاپھر لوگوں کی جانب محبت اور کسب نظر کی وجہ سے خطا نہ کرے اور عارضی طور پر کچھ عرصے کے لیے عدل و انصاف سے کام لے۔ لیکن یہی شخص کیوں کہ کائنات اور موجودہ اشیاء کو عبث اور بغیر ہدف کے سمجھتا ہے اور اسی مادّی نظریے کی وجہ سے عدالت کو دل سے قبول نہیں کرتا ہے۔

عدل کی وسعت:

عدالت اسلام کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ خدا کی توحید کے بعد اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرجع تقلید، امام جمعہ و جماعت، قاضی اور بیت المال کے خزانچی میں بھی عادل ہونے کی شرط ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اسلام کے ہر قانون میں عدالت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اور ہر مرحلہ اور مسئلہ میں ہر قسم کی افراط و تفریط سے روکا گیا ہے من جملہ۔

۹۳

۱۔ عبادت میں عدالت۔ یہاں تک کہ احادیث کی کتب میں ایک باب بعنوان ''الاقتصاد فی العبادة'' موجود ہے جس میں اُن روایات کو بیان کیا گیا ہے جو عبادت میں میانہ روی کو بیان کرتی ہیں۔

۲۔ کام کاج اور تفریح میں عدالت۔

۳۔ غیض و غضب اور محبت میں عدالت۔

۵۔ دوست اور دشمن دونوں کے لیے عدالت۔

۵۔ ملامت و سرزنش اور تعریف و تمجید میں عدالت۔

۶۔ پیداوار اور استعمال میں عدالت۔

۷۔ بیت المال کی تقسیم بندی اور وصیت میں عدالت۔

۸۔ اہل و عیال اور دوست احباب کے درمیان عدالت۔

۹۔ قضاوت اور فیصلہ کے دوران عدالت۔

۱۰۔ قصاص میں عدالت۔

۱۱۔ جنگ میں عدالت۔

۱۲۔ حیوانات کے ساتھ برتاؤ میں عدالت۔ یہاں تک کہ امام علی ـ زکات کی جمع آوری کرنے والے شخص سے یہ فرماتے ہیں کہ زکات میں ملے ہوئے جانوروں پر سواری میں بھی عدالت سے کام لینا۔(۱) مثال کے طور پر اگر زکات میں چار اونٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ نہج البلاغہ، مکتوب ۲۵

۹۴

ملے اور تم دو گھنٹے سفر میں ہو تو ہر اونٹ پر آدھا گھنٹہ سوار ہونا۔ ایک اور مقام پر آپ ـفرماتے ہیں کہ اگر کوئی حاجی جلدی مکہ پہنچنے کی وجہ سے اپنے جانور کو حد سے زیادہ تھکا دے تو اس کی گواہی مسائل حقوقی میں قبول نہ کرو اس لیے کہ اس نے اپنے جانور پر ظلم کیا ہے۔(۱)

بہرحال اسلام کی ہر چیز میں عدالت سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر مسجد میں کسی مقام پر کوئی بچہ بیٹھا ہوا ہو اور آپ اُسے اٹھا کر وہاں نماز ادا کریں تو ایسی صورت میں نماز میں اشکال ہے۔(۲)

نمونے:

٭قرآن کریم نے اہل حجاز کو۔ جو اپنے کو دوسروں سے برتر اور جدا تصور کرتے تھے۔ حکم دیا کہ اُسی طرح حج ادا کرو جس طرح دوسرے لوگ حج ادا کرتے ہیں(آفیضوا من حیث افاض النّاس) (۳)

جب بھی ثروت مند افراد انبیاء سے یہ چاہتے تھے کہ وہ فقراء کو اپنی بارگاہ سے نکال دیں تو یہی جواب سنتے تھے(مأ انٰا بِطَارد الّذین اٰمنوا) (۴)

٭پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری سفر میں تمام لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: تمام مسلمان چاہے وہ کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں برابر ہیں۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔وسائل الشیعہ،کتاب الحج (۲)۔ توضیح المسائل (۳)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۹۹

(۵)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت ۲۹ (۵)۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۵۸

۹۵

بعض سیاستدان اور مصلحت پسند افراد نے مولائے کائنات حضرت علی ـ سے عرض کیا کہ فقراء اور غلاموں کا حصہ ان کے حصے سے الگ کرکے قوم کے بڑے لوگوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ تاکہ حکومت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں اور وہ کسی قسم کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اور وہ معاویہ سے ملحق نہ ہوں۔ تو آپ نے فرمایا:کہ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں انہیں خراج (ٹیکس) ادا کروں ہرگز ایسا نہ ہوگا جس کا دل چاہے رُکے اور جس کا دل چاہے چلا جائے۔(۱) نیز امام ـ ہی نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں فرمایا تھا کہ مجھے سے پہلے بیت المال سے جتنا بھی پیسہ بے جا مصرف ہوا ہے۔ وہ سب واپس بیت المال میں پلٹا دیا جائے گا چاہے اس پیسے سے غلام خریدے گئے ہوں یا بطور مہر ادا کیا گیا ہو۔(۲)

٭حضرت علی ـ نے فرمایا:کہ جب میں اپنے ذاتی مال کو بغیر مساوات کے تقسیم نہیں کرسکتا تو پھر خدا کے مال (بیت المال) کو کس طرح مساوات کے بغیر تقسیم کروں۔(۳)

٭پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو سب سے پہلے جہنم میں جائے گا۔ وہ حاکم ہے جو عدل و انصاف سے کام نہ لے۔(۴)

٭اگر کسی شخص کے زیر کفالت دس افراد ہوں اور وہ ان کے درمیان عدالت سےکام نہ لے تو وہ قیامت میں اس طرح محشور کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پیر بندھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص ۱۰۷ (۲)۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵

(۳)۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۶ (۵)۔ میزان الحکمہ

۹۶

ہوئے ہونگے۔(۱)

یہ وہ چند نکات تھے جو مجھ جیسے طالب علم کے لیے آیت سے کشف ہوئے ہیں۔ انسان قربان جائے ایسی کتاب کے جس کے ہر کلمہ میں ایک ایسا درس پوشیدہ ہے کہ جس کی تازگی اور شادابی کو زمین و زمان کی تبدیلی نہیں چھین سکتی ہے تاکہ اور بہتر انداز سے اس کتاب کو سمجھا جاسکے آپ سے گزارش ہے کہ ایک ایسی سطر لکھیں جس کے ہر کلمہ میں صحیح، منطقی اور ایسے جاویدان نکات پوشیدہ ہوں جن سے رہتی دنیا تک استفادہ ہوتا رہے !!

٭پروردگارا: تجھے قرآن کے ہر کلمہ کا واسطہ کہ ہمیں ہدایت کے بعد لغزشوں سے دوچار نہ فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ۔ میزان الحکمہ

۹۷

آیت نمبر ۱۰

ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فََصْلِحُوا بَیْنَ َخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی جیسے ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔

٭اس آیت میں مومنین کے رابطے کو دو بھائیوں کی مانند پیش کیا گیا ہے اور اس تعبیر میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

الف: دو بھائی دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے بازو ہوتے ہیں۔

ب: دو بھائیوں کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔

ج: آج کے دور میں آپس کے تعلق اور روابط کے لیے دوست ، ہم شہر، ہم وطن جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مگر اسلام نے اس رابطے کے اظہار کے لیے بھائی کا لفظ استعمال کیا ہے جوان سب سے زیادہ مفید اور گہرے معنی رکھتا ہے۔

د: دو بھائیوں کی دوستی باہمی ہوتی ہے۔

ھ: حدیث میں دو دینی بھائیوں کی دوستی کو دو ہاتھوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہاتھ دھوتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ محجة البیضائ

۹۸

٭ اس آیت میں اور اس سے قبل آیت میں مجموعی طور پر کلمہ ''أصلحوا'' تین بار آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام صلح و آشتی پر کتنی توجہ دیتا ہے۔

٭مسلمانوں کے آپس میں جھگڑنے سے تلخ حوادث رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپس میں ناراضگی، سوئِ ظن، غلط پروپیگنڈا، انتقام جوئی، اور فتنہ و فساد زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے اِن آیات میں ان جملوں ۔أصلحوا، أقسطوا، یحب المقسطین، اِخوة، اخویکم، اتّقوا، ترحمون، کے ذریعہ جنگوں سے حاصل شدہ زخموں پر مرہم رکھا ہے۔

پیغامات:

۱۔ اخوت و برادری کا راز فقط ایمان میں پوشیدہ ہے ۔ (معاشی، سیاسی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی مسائل کے ذریعہ لوگوں میں اخوت و برادری کی روح پیدا نہیں کی جاسکتی )(انّما المومنون الاخوة)

جان گرگان و سگان از ھم جدااست

متحد جان ھای شیران خدا است

ترجمہ :بھیڑیوں اور کتوں کا اتحاد ممکن نہیں البتہ خدا کے شیروں کا اتحاد ممکن ہے۔

۲۔ اخوت و برادری کی بنیاد پر ایمان ہے اور زمان و مکان ، عمر اور پیشہ کی پابند نہیں ہے۔( انّما المومنون الاخوة)

۳۔ کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے پر برتر نہ سمجھے''اخوة'' البتہ والدین اولاد پر

۹۹

برتری رکھتے ہیں لیکن بھائیوں کے درمیان مساوات ہے۔

۵۔ صلح و آشتی کے لیے محبت آمیز، نفسیاتی اور تعمیری گفتگو کرنی چاہیے۔''اِخْوة فَاصلِحُوا''

۵۔ صلح و آشتی کرانا ہر مسلمان پر واجب ہے اور کسی خاص گروہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔''فَاصلِحُوا''

۶۔ صلح کرانے والا بھی دونوں گروہوں کا بھائی ہے۔ بَینْ أخوّیکم

۷۔ صلح و آشتی کرانے میں کچھ آفات بھی ہیں لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔''فاصلحوا--- واتقوا'' (صلح و آشتی کرانے کی بعض آفات یہ ہیں۔ خودنمائی، توقع، ظلم و ستم اور احسان جتانا وغیرہ۔

۸۔ ایسا معاشرہ جو جنگ و جدل میں مصروف ہوجائے رحمت خدا سے محروم رہتا ہے۔''فاصلحوا --- واتقوا --- ترحمون''

۹۔ صلح و صفائی رحمت الٰہی کے نزول کا پیش خیمہ ہے۔''فاصلحوا --- ترحمون''

اخوت و برادری:

اسلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل جڑ سے شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طو پر قرآن مجید میں ہے(انّ العزة للّٰه جمیعًا) (۱) تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ یونس، آیت ۶۵

۱۰۰

جواب دیجئے

۱_ ہمارے چوتھے امام کا کیا نام ہے آپ(ع) کے والداور والدہ کا کیا نام ہے ؟

۲_ والد کی شہادت کے بعد انکے مشن کو کس طرح عیاں فرماتے تھے؟

۳_ زین العابدین اور سجاّد کے معنی بتلاؤ اور آپ(ع) کو ان دو ناموں سے کیوں یادکیا جاتا تھا؟

۴_ آپ کی عمر مبارک کتنی تھی کس دن اور کس سال آپ(ع) نے وفات پائی ؟

۵_ آپ کو کہاں دفن کیا گیا ؟

۶_ تم اس وقت تک چار اماموں کے حالات زندگی پڑھ چکے ہوانکے نام ترتیب وار بیان کرو؟

۱۰۱

دوسرا سبق

اللہ سے راز و نیاز

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کررہا تھا کہ ایک خوبصورت جوان کو دیکھا کہ خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹا ہوا رورہا ہے اور اپنے خالق سے راز و نیاز کی باتیں کررہا ہے _ اور کہہ رہا ہے _

پروردگار تمام آنکھیں سوچکی ہیں سورج غروب ہوچکا ہے _ ستارے آسمان پر ظاہر ہوچکے ہیں لیکن اے ساری دنیا کے مالک تو ہمیشہ زندہ اور پایندہ ہے_ اور جہاں اور جہان میں رہنے والوں کے لئے انتظام کررہاہے _ پرودگار: بادشاہوں نے اپنے محلوں کے دروازے مضبوطی سے بندکرلئے ہیں اور اس پر پہرہ دار بٹھادیئے ہیں لیکن تیرے گھر کا دروازہ ہمیشہ تمام لوگوں کے لئے کھلا ہوا ہے اور تو بیماروں کی شفا اور مظلوموں کی مدد کے لئے حاضر و آمادہ ہے _

اے خدائے مہربان اور تمام جہانوں کے محبوب یہ ناتوان اور کمزور بندہ رات کی تاریکی میں تیری چوکھٹ پر حاضر ہوا ہے شاید تو اس پر نگاہ کرم فرمائے _

ائے خدا تو اندھیری رات میں بیچاروں کی فریادرسی کرتا ہے _ اے خدا گرفتار لوگوں کو قید و بند سے نجات دیتا ہے _ اے خدا تو اپنے بندوں کی سختی اور دشواری میں مدد کرتا ہے _ اے خدا تو درندوں کو شفاء دیتا ہے _ پروردگار: تیرے مہمان تیرے گھر کے اطراف میں سوچکے ہیں لیکن اے قادر صرف تیری ذات ہے کہ جسے نیند نہیں آتی اور جہاں اور جہاں میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے : پروردگار:

۱۰۲

میں آج رات تیرے گھر آیا ہوں اور تجھے پکارتا ہوں کیوں کہ تو نے خود فرمایا ہے کہ مجھے ہی پکارو خدایا تجھے اس محترم گھر کی قسم میری روتی آنکھوں پر رحم فرما _ پروردگار اگر تیرے گھر نہ آئیں تو کس کے گھر جائیں اور کس سے امیدوابستہ کریں _

وہ آدمی کہتا ہے کہ '' اس آدمی کی یہ گفتگو جو اپنے خدا سے وجد کی حالت میں کررہا تھا مجھے بہت پسند آئی میں اس کے نزدیک گیا کہ دیکھوں وہ کون ہے _ میں نے دیکھا کہ امام زین العابدین حضرت سجاد ہیں کہ جو اس طرح سے مناجات کر رہے ہیں'':

۱۰۳

پہلا سبق

پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

امام محمد باقر علیہ السلام ستاون(۵۷) ہجری تیسری صفر کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد امام زین العابدین (ع) اور والدہ ماجدہ فاطمہ دختر امام حسن علیہ السلام تھیں امام زین العابدین(ع) نے اللہ تعالی کے حکم سے اور پیغمبر کی وصیت کے مطابق اپنے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معيّن کیا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دوسرے اماموں کی طرح علم و دانش میں بے نظیر تھے بڑے بڑے علماء اور دانشمند آپ(ع) کے علم سے استفادہ کرتے تھے اور اپنی علمی مشکلات آپ سے بیان کرتے تھے _ امام محمد باقر علیہ السلام لوگوں کو دین کے احکام کی تعلیم دیتے تھے اور ان کو زندگی کے آداب بتلاتے تھے _ لوگوں کی تعلیم و تربیت اورراہنمائی میں بہت کوشش فرماتے تھے آپ نے اپنی زندگی میں ہزاروں احادیث اور علمی مطالب لوگوں کو بتلائے جو آج ہم تک پہنچ چکے ہیں _

آپ کا علم و فضل اتنا زیادہ تھا کہ آپ (ع) کو باقر العلوم کہا جاتا تھا ، یعنی مختلف علوم کو بیان کرنے والا _

امام محمد باقر علیہ السلام ستاون '' ۵۷'' سال زندہ رہے اور ایک سو چودہ ہجری'' ۱۱۴'' سات ذی الحجہ کو مدینہ منورہ میں شہید کردیئےئے

۱۰۴

آپ (ع) کے جسد مبارک کو بقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام زین العابدین (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا _

۱۰۵

دوسرا سبق

امام(ع) سے سیکھیں

ایک مرد جو اپنے آپ کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا کہتا تھا کہ میں ایک دن کھیتوں اور باغ سے گذر رہا تھا _ گرمی کا زمانہ تھا _ سورج تیزی سے چمک رہا تھا _ ہوا بہت گرم تھی میں نے ایک قومی آدمی کو دیکھا کہ وہ زراعت کے کام میں مشغول ہے اس سے پسینہ ٹپک رہا میں نے سوچا یہ کون انسان ہے جو اس گرمی میں دنیا کی طلب میں کوشش کررہا _ کون ہے جو اس قدر دنیا کے ماں کا طلب گار ہے اور خود کو تکلیف میں مبتلا کررکھا ہے _ میں اس کے نزدیک گیا لیکن وہ اپنے کام میں مشغول رہا _ مجھے یہ دیکھ کر بیحد تعجب ہوا کہ وہ امام باقر علیہ السلام ہیں یہ شریف انسان دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے کیوں اپنے آپ کو اتنی زحمت دے رہے ہیں _ کیوں دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں _ ضروری ہے کہ اسے نصیحت کروں اور اس روش سے اسے روکوں _ زیادہ نزدیک ہوا اور سلام کیا _ امام علیہ السلام کی سانس پھولی ہوئی تھی اسی حالت میں آپ نے سلام کا جواب دیا _ اور اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا _ میں نے کہا کہ کیا یہ آپ (ع) کی شایان شان ہے کہ اس گرمی میںدنیا کی طلب میں اپنی آپ کو زحمت میں ڈالیں _ کیا درست ہے کہ اس گرمی میں مال دنیا حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں _ اگر آپ (ع) کی موت اس حالت میں ہوجائے تو خدا کو کیا جواب دیں گے ؟ امام محمد باقر علیہ السلام نے میری طرف ایک نگاہ کی اور فرمایا اگر میری موت اس حالت میں آجائے تو میں اللہ کی اطاعت اور

۱۰۶

اس کی عبادت میں دنیا سے جاؤں گا _ میں نے سخت تعجب سے کہا کہ کیا اس حالت میں موت اطاعت خدا ہوگی؟ امام(ع) نے بہت با ادب لہجے اور نرم انداز میں فرمایا _ ہاں اطاعت خدا میں _ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ کی اطاعت فقط نماز و روزہ ہے نہیں _ ایسا نہیں _ میں صاحب عیال ہوں زندگی کے لئے مصارف چاہئیں _ ضروری ہے کہ کام کروں اور محنت کروں تا کہ لوگوں کا محتاج نہ بنوں اور اپنی زندگی کو خود چلا سکوں اور غریبوں کی مدد کر سکوں اگر کام نہیں کروں گا تو میرے پاس پیسہ نہ ہوگا اور پھر اچھے کاموں میں شرکت نہیں کر سکوں گا اگر گناہ کی حالت میں دنیا سے جاؤں تو اللہ تعالی کے نزدیک شرمسار ہوں گا لیکن اب میں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی حالت میں ہوں؟

خداوند عالم نے حکم دیا ہے کہ اپنی زندگی کا بوجھ دوسروں پرمت ڈالو_ اور حلال روزی کمانے کے لئے کوشش کرو _ لہذا یہ کام اور میری کوشش خداوند عالم کی اطاعت ہے نہ دنیا پرستی '' اور نہ دنیا کی محبّت ''

وہ آدمی کہتا ہے کہ '' میں اپنی پر نادم ہواور امام علیہ السلام سے معذرت طلب کی اور عرض کیا کہ مجھے معاف کردیجئے میں چاہتا تھا کہ آپ کو نصیحت کروں _ لیکن میں خود نصیحت اور راہنمائی کا محتاج نظر آیا _ آپ (ع) نے مجھے نصیحت کی ہے اور میری راہنمائی فرمائی ہے _ اس کے بعد ندامت سے سر جھکائے وہاں سے چل پڑا_

۱۰۷

جواب دیجئے

۱_ امام محمد باقر (ع) کس سال کی دن او رکہاں پیدا ہوئے؟

۲_ آپ (ع) کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ کس نے آپ(ع) کو امامت کیلئے معین فرمایا؟

۴_ باقر العلوم کا کیا مطلب ہے آپ کو یہ لقب کیوں دیا گیا ؟

۵_ امام محمد باقر (ع) کتنے سال زندہ رہے اور کس سال اور کس دن وفات پائی اور کہاں دفن ہوئے ؟

۶_ وہ آدمی جو خود کو زاہد اور تارک دنیا سمجھتا تھا اسے دوسرے پر کیوں شبہ ہوا؟

۷_ امام (ع) کی تعلیم کیسی ہوتی ہے اور امام کا علم و فضل کیسا ہوتا ہے ؟ کیا کوئی دوسرا آدمی امام(ع) کو تعلیم دے سکتا ہے ؟

۸_ امام محمد باقر(ع) کس لئے کام کرتے تھے اور ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے _ اللہ تعالی کا زندگی بسر کرنے کے لئے کیا حکم ہے ؟

۹_ حلال روزی کمانے کے لئے کام کرنا کیا ہے ؟

۱۰_ اس واقعہ سے اور امام کے فرمان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ہم امام (ع) کے اخلاق اور کردار کی کس طرح پیروی کریں ؟

۱۰۸

پہلا سبق

چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق (ع)

امام جعفر صادق علیہ السلام تراسی ''۸۳'' ہجری سترہ''۱۷'' ربیع الاول کو پیدا ہوئے _ آپ(ع) کے والد گرامی امام محمد باقر علیہ السلام اور والد ماجدہ فاطمہ تھیں _ امام محمد باقر علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام کی وصیت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام کو لوگوں کا امام و پیشوا معيّن کیا اور لوگوں کو آپ (ع) سے متعارف کرایا _ امام جعفر صادق علیہ السلام کو دین کی تبلیغ اور احکام قرآنی کے بیان کرنے کا زیادہ موقع ملا تھا کیونکہ آپ(ع) کے زمانے کے حاکم جنگوں میں مشغول تھے اور انہوں نے امام (ع) کی راہ میں بہت کم مزاحمت کی تھی _ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سے فائدہ اٹھا یا _ دین کی تعلیم اوراسلام کی اشاعت میں بہت زیادہ کوشاں ہوئے _ لوگوں کو اسلام کے اعلی اخلاق اور عقائد سے آشنا کیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد مختلف علوم میں آپ(ع) سے درس لیتے تھے آپ (ع) کے شاگرد چار ہزار تھے __ انہوں نے بہت گراں مایہ کتابیں تحریر کیں ہیں _

آپ(ع) نے مسلمان ، شیعہ اور حقیقی شیعہ کی علامتیں بیان فرمائی ہیں اسی لئے مذہب شیعہ کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے _ امام جعفر صادق علیہ السلام پیسٹھ ''۶۵'' سال زندہ رہے اور ایک سو اڑتالیس ہجری پچیس '' ۲۵'' شوال کو مدینہ میں شہید

۱۰۹

ہوئے آپ (ع) کے جسم مبارک کو بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا _ اللہ تعالی کا آپ(ع) پر ہمیشہ سلام ہو _

۱۱۰

دوسرا سبق

ذخیرہ اندوزی کی مذمّت

پہلے زمانے میں ہر گھر میں تنور ہوتا تھا اور چکی بھی ہوتی تھی ہر آڈمی روٹی کیلئے گندم مہیا کرتا اور اسے گھرلاتا تھا اور عورتیں گندم چکی میں پیس کرروٹی پکاتی تھیں جو مالدار ہوتے دہ سال کے مصرف کے لئے گندم خرید کر گھر میں ذخیرہ کرلیتے تھے _ ایک سال گندم کم ہوگیا جسکے نیتجہ میں اسکی قیمت بہت بڑھ گئی _ لوگوں کو ڈر ہوا کہ کہیں گندم نایاب نہ ہوجائے اور بھوکار ہنا پڑے جس کے پاس جتنے گیہوں تھے اسے محفوظ کرلیا اور جن کے پاس گندم نہ تھے اس نے بھی سال بھر کے مصرف کے لئے مہنگے خرید کر ذخیرہ کر لئے _ صرف غریب لوگ مجبور تھے کہ اپنی ضرورت کے گندم ہر روز خرید تے اور اگر انہیں گندم نہ ملتے تو بھوکے رہ جاتے _ امام جعفر صادق علیہ السلام کے خادم کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو گندم کی کمیابی کا علم ہوچکا تھا _ آپ نے مجھے بلایا اور مجھ سے پوچھا'' کیا اس سال گھر میں گندم موجود ہے'' میں خوش تھا کہ ایسے سال کے لئے میں نے کافی گندم خرید رکھا تھا اوراما م جعفر صادق علیہ السلام کے خانوادے کو بھوک سے نجات دلوادی ہے _ میں منتظر تھا کہ امام مجھے شاباش کہیں گے اور سوچ رہا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجھ سے فرمائیں گے کہ تم نے کتنا اچھا کیا _ گندم کو محفوظ رکھنا اور اگر ہوسکتے تو اور گندم خرید لینا _ لیکن میری امید کے خلاف امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: گندم کو گندم کے بازار میں لے جاؤ اور بیچ دو _ میں نے تعجب کیا اور پریشانی میں عرض کیا ، کیا گندم کو فروخت

۱۱۱

کردوں؟ مدینہ میں گندم نایاب ہے اگر اسے فروخت کرڈالا تو پھر مہيّا نہیں کر سکوں گا اور اس وقت بھوکا رہنا ہوگا

لیکن امام علیہ السلام نے مصمم ارادے سے دوبارہ فرمایا: وہی کرو جو میں نے کہا ہے _ جتنی جلدی ہو سکے گندم کو لوگوں کے اختیار میں دے دو _ میں گندم بازار لے گیا اور بہت سستی قیمت میں لوگوں کے ہاتھ فروخت کرڈالے جب گھر واپس آکر امام علیہ السلام کو اطلاع دی تو امام علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ آج سے ہمارے گھر کے لئے روٹی آدھی گندم کی اور آدھی جوکی ہر روز بازار سے خریداکرو_ اگر گندم اور جو بازار میں موجود ہوا تو ہم روٹی پکائیں گے اور اگر موجود نہ ہوا تو غریب لوگوں کی طرح جو گندم ذخیرہ نہیں کر سکتے زندگی گذاریں گے _ ایسے زمانہ میں ہمیں زیب نہیں دیتا کہ مسلمانوں کی خوراک کو گھرمیں ذخیرہ کرلیں _ میں یہ کر سکتا تھا کہ اپنے خاندان کے لئے پورے سال کا مصرف کرلوں لیکن یہ کام میں نے نہیں کیا _ آج سے گھر کے لئے روٹی ہر روز مہيّا کریں گے تا کہ ہمارا کردار فقیروں کے لئے مدد کا باعث ہو اور زندگی بسر کرنے میں اللہ تعالی کے فرمان کی اطاعت بھی ہوجائے _

جواب دیجئے

۱_ شیعہ مذہب کو کیوں مذہب جعفری کہا جاتا ہے ؟

۲_ اما م جعفر صادق (ع) کے کتنے شاگر د تھے اور انہوں نے کیا یادگار یں چھوڑی ہیں؟

۳_ امام جعفر صادق (ع) نے کتنے سال عمر پائی اور اپنے والد کے سامنے کتنے سال زندہ رہے ؟

۱۱۲

۴_ امام علیہ السلام کو دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کس وجہ سے زیادہ آزادی حاصل ہوئی تھی؟

۵_ جب امام (ع) کے والد کا انتقال ہوا تو امام جعفر صادق (ع) کی کتنی عمر تھی؟

۶_ امام صادق علیہ السلام کو کہاں دفن کیا گیا _ آپ (ع) کے پہلو میں تین امام اور بھی ہیں ان کے نام بتایئے

۷_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے خادم سے کیا فرمایا اور کیوں حکم دیا کہ گندم کو بیچ ڈالے؟

۸_ امام (ع) کے اس کردار کی ہم کیسے پیروی کر سکتے ہیں _ تنگدستی کے عالم میں مسلمانوں کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

۱۱۳

پہلا سبق

ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

امام موسی کاظم (ع) ۷ صفر المظفر سنہ ۱۲۸ ھ کو پیدا ہوئے _ آپ (ع) کے والد کا نام امام جعفر صادق (ع) اور والدہ کا نام حمیدہ تھا _ امام جعفر صادق (ع) نے اللہ تعالی کے حکم اور پیغمبر (ص) کی وصیت کے مطابق اپنے بعد امام موسی کاظم (ع) کو لوگوں کا امام اور پیشوا معین کیا اور لوگوں کو اس سے آگاہ فرمایا

امام موسی کاظم (ع) عالم اور متقی انسان تھے آپ (ع) کا علم و فضل آسمانی اور اللہ کی طرف سے تھا آپ (ع) کی عبادت اور زہد اتنا تھا کہ آپ(ع) کو عبد صالح یعنی نیک بندہ کہا جاتا تھا _ آپ (ع) بہت صابر و شاکر تھے _ مصائب کو برداشت کرتے تھے اور لوگوں کی غلطیوں کو درگزر کردیتے تھے اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے آپ(ع) سے ایسی ناشائستہ حرکت کرتا جو غصہ کا موجب ہوتا تھا _ تو آپ (ع) غصہ کوپی جاتے تھے اور محبت و مہربانی سے اس کی رہنمائی فرماتے تھے _ اسی لئے آپ(ع) کو کاظم ''یعنی غصّہ پی جانے والا'' کہا جاتا تھا _ حضرت امام موسی کاظم (ع) پچیس سال اس دنیا میں زندہ رہے اور اپنی امامت کے زمانے کو صبر و شکر کے ساتھ گزاردیا آپ(ع) لوگوں کی دستگیری اور راہنمائی فرماتے میں مشغول رہے _ ۵ رجب سنہ ۱۸۳ ھ کو بغداد میں شہید کردیئےئے _ خدا اور فرشتوں کا آپ (ع) پر ہمیشہ سلام اور درود ہو _

۱۱۴

دوسرا سبق

ہدایت امام

ایک فقیر و نادار شخص کاشتکاری کرتا تھا _ جب بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کو دیکھتا آپ (ع) سے گستاخی کرتا اور انکو گالیاں دیتا تھا ہر روز امام علیہ السلام اور آپ (ع) کے دوستوں کو تنگ کرتا تھا _ امام موسی کاظم علیہ السلام برابر اپنا غصہ پی جاتے تھے _ اور اس کی اذیت اور گالیوں کا جواب نہ دیتے تھے_ لیکن آپ (ع) کے دوست اس شخص کی بے ادبی اور گستاخی سے سخت آزردہ خاطر ہوتے _ ایک دن جب اس آدمی نے حسب معمول اپنی زبان بدگوئی کے لئے کھولی تو امام علیہ السلام کے دوستوں نے ارادہ کرلیا کہ اسے سزا دینگے اور اتنا ماریں گے مرجائے تا کہ اس کی بدزبانی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے اور اس دنیا میں بھی اپنے کئے کا نتیجہ بھگت جائے امام موسی کاظم علیہ السلام کو ان کے ارادے کا علم ہو گیا _ آپ (ع) نے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا _ اور فرمایا اے میرے دوستو صبرکرومیں خود اسے ادب سکھاؤں گا _ چنددن گذر گئے اور اس شخص کی ناشائستہ حرکت میں فرق نہ آیا امام علیہ السلام کے اصحاب اسکے اس رویہ سے بہت ناراض تھے لیکن جب وہ ارادے کرتے کہ اسے خاموش کریں تو آپ (ع) انہیں روک دیتے تھے اور فرماتے تھے دوستو صبر کرو: میں خود اسے نصیحت کروں گا _ ایک دن امام موسی کاظم علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ آدمی کہاں ہے _ دوستوں نے کہا _ شہر کے باہر اپنی زمین پر زراعت کرنے میں مشغول ہے _ امام موسی کاظم علیہ السلام سوار ہوئے اور اس کی طرف چلے

اس نے جب امام کو آتے دیکھا تو اپنے بیلچے کو زمین میں گاڑکرہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا

۱۱۵

ہوگیا _ وہ اپنی زبان بدگوئی کے لئے کھولنا چاہتا تھا کہ امام علیہ السلام اترے اور اس کی طرف بڑھے ، مہربانی سے سلام کیا اور نہایت نرمی سے ہنس کر اس سے گفتگو شروع کی _ آپ (ع) نے کہا تم تھک تو نہیں گے رہو _ تمہاری زمین کتنی سرسبز و شاداب ہے _ اس سے کتنی آمدنی ہوتی ہے _ اور کاشت کرنے پر کتنا خرچ ہوتا ہے _ وہ امام علیہ السلام کی تہذیب اور خوش اخلاقی سے تعجب میں پڑگیا اور کہنے لگا ایک سو طلائی سكّہ : امام علیہ السلام نے پوچھا کہ تم کو اس زمین کی پیدا وار سے کس قدر آمدنی کی توقع ہے _ اس نے سوچ کرکہا: دو سو طلائی سكّے _ امام (ع) نے ایک تھیلی نکالی اور اس کودی اور فرمایا کہ تجھے اس سے بھی زیادہ آمدنی ہوگی جب اس مرد نے اپنے برے کردار اور اذیت اور آزارکے مقابلے میں یہ اخلاق دیکھا تو بہت شرمندہ ہوا اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا : کہ میں برا انسان تھا اور آپ کو تکلیف دیتا تھا _ لیکن آپ (ع) بلند پایہ اور بزرگ انسان کے فرزند ہیں _ آپ (ع) نے مجھ سے اچھائی کی ہے اور میری مدد فرمائی ہے _ میں گذارش کرتا ہوں کہ :

آپ مجھے معاف کریں _ امام علیہ السلام نے مختصر کلام کے بعد اس کو خدا حافظ کہا اور مدینہ کی طرف پلٹ آئے اس کے بعد جب بھی وہ مرد امام علیہ السلام کو دیکھتا تھا با ادب سلام کرتا تھا امام (ع) اور آپ کے دوستوں کا احترام کرتا اور کہتا تھا : کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ کس طرح آزار اور گالیاں دینے والا انسان اس قدر باادب اور مہربان ہوگیا ہے _ شاید انہیں یہ علم ہی نہ تھا کہ امام علیہ السلام نے اس کی کس طرح تربیت کی تھی

۱۱۶

ان سوالوں اور ان کے جوابات کو اپنی کاپیوں میں لکھو:

۱_ کاظم (ع) کے کیا معنی ہیں _ حضرت امام موسی (ع) کو کیون کاظم کہا جاتا ہے ؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) کس دن کس مہینے اور کس سال پیدا ہوئے ؟

۳_ آپ کے والد اور والدہ کا کیا نام تھا؟

۴_ آپ کا کوئی اور لقب تھا اور وہ کیوں آپ کو دیا گیا ؟

۵_ امام (ع) نے اس کاشتکاری کی کس طرح تربیت کی؟

۶_ امام (ع) کے دوست اس مرد کی کس طرح تربیت کرنا چاہتے تھے اور امام علیہ السلام نے انہیں کیا فرمایا؟

۷_ وہ آدمی امام(ع) کے حق میں کیا کہا کرتا تھا؟

۸_ جب آپ (ع) سے کوئی برائی کرتا تھا تو آپ اس سے کیا سلوک کرتے تھے؟

۹_ اگر کوئی جہالت کی وجہ سے تم سے بد سلوکی کرے تو تم اس کی کس طرح تربیت کروگے ؟

۱۰_ جب تم کو غصّہ آتا ہے تو کیا اپنا غصہ پی جاتے ہو؟

۱۱۷

پانچواں حصّہ

فروع دین

۱۱۸

پہلا سبق

پاکیزگی

ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ص) نے ایک آدمی کو دیکھا کہاس کا سر اور چہرہ گردو غبار سے اٹا ہوا ہے بال میلے کچیلے ہیں ہاتھ منہ دھویا نہیں ہے اور لباس گنداہے پیغمبر اسلام اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا: کہ ایسی زندگی کیوں گذارتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ پاکیزگی دین کا جزو ہے _ مسلمان کو ہمیشہ صاف و ستھرارہنا چاہیئے اور اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرنا چاہئے _

سوالات

۱_ ہمارے پیغمبر (ص) اس آدمی کو دیکھ کر کیوں ناراض ہوئے ؟

۲_ آپ (ع) نے اس سے کیا فرمایا؟

۳_ تم اپنے لباس کو دیکھو کہ کیا صاف ستھرا ہے ؟

۴_ اپنے ہاتھوں کو دیکھو کیا صاف ہیں اور ناخن کیسے ہیں؟

۵_ تم اپنے دانتوں کو کتنی بار صاف کرتے ہو ؟

۵_ تمہارے سب سے صاف ستھرے دوست کا کیا نام ہے ؟

۱۱۹

دوسرا سبق

ہمیشہ پاکیزہ رہیں

ہم سب جانتے ہیں کہ ناپاک اور گندی چیزیں ہماری سلامتی کے لئے مضرہیں اور ہمیں ان سے دور رہنا چاہیئے _ مثلاً انسان کا پیشاب اور غلاظت کثیف اور گندی ہوتی ہیں اسلام نے ان دونوں کو نجس اور ناپاک قرار دیا ہے اسلام کہتا ہے : کہ اگر بدن یا لباس ان دو سے ملوث ہوجائے تو اسے پانی سے دھوئیںتا کہ پاک ہوجائے _ نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس پاک ہونا چاہیے_ نجس غذا کا کھانا حرام اور گناہ ہے _ اسلام کہتا ہے : کہ جب پائخانہ جاتے ہو تو اس طرح بیٹھو کہ پیشاب کا قطرہ بھی تمہارے لباس اور بدن پر نہ پڑسکے _ کیونکہ پیشاب کا قطرہ اگر چہ بہت ہی معمولی کیوں نہ ہو بدن اور لباس کو آلودہ اور نجس کردیتا ہے _ پیشاب کے نکلنے کی جگہ کو پانی سے دھونا چاہیتے یعنی دو یا تین دفعہ اس جگہ پانی ڈالیں تا کہ پاک ہوجائے _ پائخانہ کرنے کے بعد اس جگہ ( مقعد) کو پانی یا کاغذ یا تین عدد ڈھیلے سے دھوئیں دائیں ہاتھ سے پانی ڈالیں اور بائیں ہاتھ سے دھوئیں _ پائخانہ سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ کو پانی اور صابوں سے دھوئیں تا کہ اچھی طرح پاک و پاکیزہ ہوجائے _ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب کرنا حرام اور گناہ ہے بیٹھ کر بیشاب کرنا چاہیئے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں کہ کھڑے ہوکر کنویں کے کنارے ، میوہ دار درخت کے نیچے پیشاب نہ کرو _ دین اسلام پاکیزگی والا دین ہے اور پاکیزگی دین کا جزو ہے _ مسلمان بچّہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے بدن اور لباس کو پاک رکھے اور خود ہمیشہ پاکیزہ رہے _

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160