آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)50%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130088 / ڈاؤنلوڈ: 5444
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

فسق اور معصیت سے نفرت ہونی چاہیے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۳۔ دل سے انکار کرنا اور برا سمجھنا انسان کے طغیانگر اور باغی ہونے کا پیش خیمہ ہے ابتداء میں ارشاد فرمایا''الکفر'' اور پھر فرمایا:الفسوق والعصیان-

۱۵۔ کفر انسانی فطرت سے ہٹنے کا نام ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۵۔ کفر، فِسق اور معصیت ایمان کی آفات ہیں(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۶۔ برائیوں سے نفرت ایک فطری عمل ہے(کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ---) اور یہ نفرت انسان کی ترقی اور پیشرفت کے لیے اصل اساس ہے۔(ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ )

۱۷۔ جو لوگ کفر، فسق اور معصیت سے نفرت نہیں کرتے وہ معنوی ترقی اور پیش رفت نہیں کر پاتے(کَرَّهَ --- ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ)

۱۸۔ نعمتوں کا انحصار فقط مادّی چیزوںپر نہیں ہے بلکہ ایمان سے محبت اور کفر، فسق اور معصیت سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے(حَبَّبَ---کَرَّهَ ---فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

۱۹۔ ایمان کی طرف مائل ہونا بھی لطف خداوندی ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ --

۸۱

-فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

ایمان اور علم کا تعلق:

ایمان اور علم ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایمان کا درجہ علم سے بڑ اہے اس لیے کہ ایمان کا تعلق محبت سے ہے۔ جیسا کہ ولی، سردار، حاکم، بادشاہ اور سلطان جیسا نہیں ہے اور اسی طرح خمس، زکاة اور دوسری مالیات کی طرح نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ایک مومن انسان بہت سی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ لیکن اُن میں سے ہر ایک سے محبت نہیں کرتا ہے مثال کے طور پر پہاڑوں کی بلندی سمندروں کی گہرائی۔ گزشتہ حکومتوں کی مدت اور اسی طرح ہزاروں مسائل کا علم رکھتا ہے۔ نیز بہت سی چیزوں کی تعداد سے آگاہ ہے لیکن اُن سب سے محبت نہیں کرتا۔ لیکن جس چیز کی بنیاد خدا کے ایمان اور اعتقاد پر استوار ہے اِس سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت اور یہ عشق خدا کی طرف سے ایک ہدیہ ہے۔ جو انسان کی فطرت میں اُسے عطا کیا گیا ہے۔ کفار درحقیقت اپنی ہٹ دھرمی سے اپنی فطرت کو تبدیل کرلیتے ہیں۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ)

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بات خمس اور زکاة کی آتی ہے تو اس میں ایک قسم کی قداست اور پاکیزگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس کا تعلق خدا پر اعتقاد اس کے انتخاب اور اس کے قرب سے ہے۔ اس لیے مالیات تمام لوگ ادا تو کرتے ہیں مگر مالیات کے لینے والے سے بحث نہیں کرتے لیکن خمس و زکات ادا کرنے والے لوگ جب اپنی مرجع تقلید کو اس کی ادائیگی کرتے ہیں تو اُس سے نہایت محبت کرتے ہیں۔

۸۲

آیت نمبر ۹

وَِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَِنْ بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الُْخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ فَِنْ فَائَتْ فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ -

ترجمہ:

اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک، دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکات:

اس سورئہ کا آغاز آداب معاشرت سے ہوا ہے۔

الف: خدا اور رسول سے ملاقات کے آداب، ان پر سبقت نہ لینا(لا تقدموا)

ب: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کا طریقہ (ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرنا)

ج: فاسق سے پیش آنے کا طریقہ اور یہ کہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کرنا۔

۸۳

د: باغی اور سرکش سے سختی کے ساتھ پیش آنا۔

ھ: مومن کے ساتھ محبت و پیار اور نرم مزاجی کے ساتھ پیش آنا (آنے والی آیات میں)

O حدیث میں ہے کہ اپنے مومن بھائی کی خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو مدد کرو اور اس کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم نہ کرنے دو اور اگر مظلوم ہو تو اس کا حق لینے میں اس کی مدد کرو۔(۱)

O مسلمانوں کو حکومت ، قدرت ، تعلیم و تربیت،اتحاد، نشرو اشاعت و تبلیغ گویا زندگی کے ہر شعبہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے ورنہ ہم آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں عالمی دہشت گردوں اور ظالموں سے بدلہ نہیں لے سکتے اگر ظالم اور باغی کو کیفر کردار تک پہنچانا واجب ہے تو اس کا مقدمہ یعنی اسلامی حکومت کی تشکیل بھی واجب ہے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ ایمان، لڑائی اورجھگڑے کے مانع نہیں ہے لیکن مومنین کے درمیان کبھی کبھار نہایت مختصر مدت کے لیے پیش آتا ہے ۔ اور دوام نہیں رکھتا اس لیے کہ کلمہ''اقْتَتلُوا''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص ۲۱۲

۸۴

اسی بات کی طرف اشارہ ہے اِس لیے کہ اگر اُن کے درمیان لڑائی اور جھگڑا دائمی ہوتا تو کلمہ''یقتلون'' استعمال ہوتا ۔

۲۔ نصیحت کے آداب میں سے ہے کہ برائی کی نسبت براہ راست مخاطب کی طرف نہ دیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ اے مومنین آپ لوگ ایسے نہیں ہیں''اقْتَتلُوا''

۳۔ جنگ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور صرف دو گروہ تک محدود نہیں رہتی۔ اسی لیے فرمایا ہے''اقْتَتلُوا'' جمع کا صیغہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کلمہ''اقْتَتلا'' استعمال ہوتا۔

۵۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے مشکلات کی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور ہرگز لاپروائی نہیں کرنی چاہیے۔

۵۔ دوستی اور صلح کرانے میںجلدی کرنی چاہیے اور بغیر کسی تاخیر کے اقدام کرنا چاہیے۔کلمہ ''فاصلحوا'' میں حرف فاء جلدی اور عدم تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔

۶۔ اگر دو گرہوں میں سے ایک تجاوز اور سرکشی کرے تو سب کو فورا ًاس کے خلاف جمع ہوجانا چاہیے(فَِنْ بَغَتْ ---- فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۷۔ اگر امن و آمان اورعدالت کے قیام کی خاطر باغی افراد کے قتل کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان کا خون مباح ہے اور انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے(فَِنْ بَغَتْ -- فَقَاتِلُوا---)

۸۔ تجاوز گری اور بغاوت کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے (فَِنْ بَغَتْ ---

۸۵

فَقَاتِلُوا)اسلامی نکتہ نظر کے مطابق سرکش اور باغی کو ہرگز مہلت اور فرصت نہیں دینی چاہیے۔

۹۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ، ٹال مٹول، سھل انگاری اور سستی سے کام نہ لیں(فقاتلوا) میں فاء فوری انجام دینے کی طرف اشارہ ہے۔

۱۰۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس کے اہل و عیال کو ایذاء نہیں پہنچانی چاہیے بلکہ خود اس شخص کو سزا دینی چاہیے(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۱۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی قسم کی رعایت نہ کریں۔ باغی اپنا جاننے والا ہو یا غیر(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۲۔ مسلمانوں کا قیام ایک مقدس ہدف رکھتا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی)

۱۳۔ جنگ ہدف کے حصول تک جاری رہے گی۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲ) کسی گھنٹے، دن اور مہینے کی قید نہیں ہے۔ جیسا کہ بیمار کا ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے جانا صحت یابی تک جاری رہنا چاہیے۔

۱۵۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں نہ تو ذاتی، قومی، گروہی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انتقام یا خودنمائی، اور غم و غصہ کم کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک خاص ہدف پایا جاتا ہے اور وہ باغی کا راہ راست پر آنا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ)

۱۵۔ اگر باغی سرکش راہ راست پر آنا شروع ہوجائے تو اس کے خلاف جنگ کو روک دیا جائے۔ اس لیے کہ جنگ روکنے کی یہ شرط نہیں کہ باغی صد در صد راہ

۸۶

راست پر آچکا ہو(حَتَّی تَفِیئَ )

۱۶۔ لڑائی جھگڑے کے دوران اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ خطا کار اور باغی کون ہے تو پھر ایسے میں فتنہ و فساد کو ختم کرکے صلح و صفائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ باغی اور خطا کار فلاں گروہ ہے تو پھر صلح و صفائی مظلوم کا دفاع کرتے ہوئے اس انداز میں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو اپنا حق مل جائے(فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ)

۱۷۔ مسلمانوں کا وظیفہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدل جاتا ہے کبھی اس کا وظیفہ جنگ اور کبھی صلح و صفائی ہے اس آیت میں دوبار کلمہ اصلحوا آیا ہے نیز کلمہ''قاتلوا '' بھی آیا ہے۔

۱۸۔ دو گروہ کے درمیان صلح و صفائی کیلئے جنگ میںجتنا بھی نقصان ہو وہ باغی سے لیا جائے گا۔ ''بالعدل'' حضرت امیر المومنین ـ سے منقول ہے کہ جو امت قوی اور قدرت مند سے ضعیف اور کمزور کا حق نہ لے سکے اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے۔(۱)

۱۹۔ جہاں بھی کوتاہیوں لغزشوں اور غضب و غرائز کی بھرمار ہو تو وہاں مسلسل وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔(بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا --- یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۰۔ ایسی اصلاح قابل تعریف و تمجید ہے جس میں صاحب حق کو اپنا حق مل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کافی، ج۵، ص ۵۶

۸۷

جائے۔ ورنہ وہ زبردستی کی خاموشی ، ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے(اصلحوا --- اقسطوا)

۲۱۔ جہاں بھی بات مشکلات کے تحمل کی ہو۔ وہاں دیرینہ اور پرانی محبت سے فائدہ اٹھانا چاہے(ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۲۔ وہ لوگ خدا کے محبوب قرار پاتے ہیں جو عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ورنہ عدل و انصاف کے بغیر مدمقابل کو خاموش کردینا خدا کی محبت کا سبب نہیں ہے۔(یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ)

نمونے:

٭وہ آیت جس کی تلاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔

جنگ جمل کے دوران جب جنگ کی آگ بھڑکنا ہی چاہتی تھی تو حضرت علی ـ نے انہیں جنگ شروع کرنے سے روکا۔ عائشہ کے طرفداروں نے امام ـ کے روکنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو امام علی ـ نے خدا کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی کہ لوگ ان کی بات نہیں سن رہے او ان کی نافرمانی کررہے ہیں ایسے میں آپ نے قرآن ہاتھ میں لیا اور کہا کہ کون ہے جو اس آیت(وان طائفتان من المومنین---) کو لوگوں کے سامنے جاکر تلاوت کرے۔ مسلم مجاشعی نامی شخص آیا اور کہا میں لوگوں کے سامنے اس آیت کی تلاوت کروں گا۔ امام ـ نے فرمایا: کہ تیرے ہاتھ کاٹ کر تجھے شہید کردیا جائے گا تو اس نے جواب دیا''هذا قلیل فی ذاتِ اللّٰه'' یعنی خدا کی راہ میں تو یہ

۸۸

کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے قرآن لیا اور عائشہ کے لشکر کے سامنے آکر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ تاکہ جنگ و خونریزی نہ ہو ایسے میں اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ دیا۔ تو اس نے قرآن الٹے ہاتھ میں لیا اور جب اس کا الٹا ہاتھ کاٹ دیا تو قرآن کو دانتوں میں لے لیا اور آخر کار عایشہ کے لشکریوں نے اُسے شہید کردیا۔ حضرت علی ـ نے اُس کی شہادت کے بعد حملہ کا فرمان جاری کیا۔(۱)

جی ہاں ابتداء میں قرآن کے ذریعہ تبلیغ اور اتمام حجت کرنی چاہیے اس کے بعد شجاعت اور بہادری کے ساتھ ہدف کے حصول تک آخری سانس تک لڑتے رہنا چاہیے۔

عدالت:

جیسا کہ اس آیت میں تین مرتبہ عدالت سے متعلق گفتگو موجود ہے۔(فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطوا انّ اللّٰه یحب المقسطین) اس لیے مناسب ہے کہ یہاں عدالت کے بارے میں مختصر سی بحث کی جائے۔

۱۔ انسان کی خلقت اور پیدائش حق و عدالت کے تحت ہے۔''بالعدل قامت السّموات'' (۲)

۲۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہ تھا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں(یقوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۳۲، ص ۱۷۵ (۲)۔ بحار، ج۳۳، ص ۵۹۳

۸۹

الناس بالقسط) (۱)

۳۔ عدالت زندگی اور ظلم موت ہے۔''العدل حیاة والجور ممات'' (۲)

۵۔ ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا ستر سال کی ایسی عبادت سے افضل ہے کہ جس میں دن بھر روزہ اور رات کو شب بیداری کی ہو۔(۳)

۵۔ عادل رہبر کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔(۴)

۶۔ اگر لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو خدا کی طرف سے رزق و برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔(۵)

۷۔ امام موسیٰ کاظم ـ سے مروی ہے کہ اگر تمام لوگ عدل سے کام لیں تو سب کے سب بے نیاز ہوجائیں گے۔(۶) نیز فرمایا کہ عدالت شہد سے زیادہ شیرین ہے۔

۸۔ امام موسیٰ کاظم ـ نے اس آیت(یحیی الارض بعد موتها) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خداوند مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا۔ یعنی خداوند ایسے افراد کو مبعوث کرے گا کہ جو عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور زمین عدل و انصاف کے قیام سے زندہ ہوجائے گی۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ حدید، آیت ۲۵

(۲)۔ آثار الصادقین ،ج۱۲، ص ۵۳۰ (۳)۔ جامع السادات، ج۲، ص ۲۲۳

(۵)۔وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۱۰۸ (۵)۔کافی، ج۳، ص ۵۶۹

(۶)۔ کافی، ج۱، ص ۵۵۱ (۷)۔ کافی، ج۷، ص ۲۷۵

۹۰

۹۔ حضرت فاطمہ زہرا ٭ سے منقول ہے کہ عدالت دلوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہے۔(۱)

(جی ہاں لوگ فقر و فاقہ کے ساتھ تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر نا انصافی اور بے عدالتی کو برداشت نہیں کرپاتے اور جلد ہی غم و غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں)

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت

عام طور سے عدالت یعنی قانون کی پابندی اور بے عدالتی یعنی قانون کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اگر کسی کی نظر میں خود قانون ہی کی کوئی اہمیت نہ ہو تو پھر وہ کس طرح اس پر عمل کرسکتا ہے۔

ایسا قانون جو خود ہم انسانوں نے بنایا ہو۔ ایسا قانون جو ہر روز تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایسا قانون جس سے شخصی اور قومی مفادات وابستہ ہیں۔ ایسا قانون جو غیر پختہ افکار، محدود اطلاعات ، ہوا و ہوس ملک اور قوم پرستی ، خوف اور خواہشات نفسانی کا نتیجہ ہے۔

ایسا قانون جو ہر زمان و مکان کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر طاقتور اُسے اپنے حق میںبدل دیتا ہے۔ ایسا قانون کے جس کے بنانے والے خود اُس پر بہت سے اعتراض اور اس کے نقائص بیان کرتے ہیں اور وہ خود بھی اُس پر عمل نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص ۵۶۷

۹۱

کیا یہ قوانین انسان کو پاکیزگی اور قداست عطا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کے لیے عزت ، شرافت فراہم کرسکتے ہیں کیا اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی ظلم اور بے انصافی ہے؟

لیکن وہ قوانین جو انسان کے پیدا کرنے والے کے علم و حکمت اور لطف و کمال کا نتیجہ ہیں۔ جنکا لانے والا معصوم اور خود سب سے پہلے اُن قوانین پر عمل کرنے والا ہے۔ ایسا قانون جو کسی بھی ذات ، قدرت اور گروہ سے متاثر نہیں ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی پاکیزگی کرامت اور قدرت کا باعث ہے ایسے قانون پر عمل کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خلاف ورزی ظلم اور خلاف عدالت ہے۔

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ

عقیدہ توحید میں عدل ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ ہر مسلمان خداوند عالم کو عادل، ہرچیز کو منظم اور خدا کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت انسان تمام انسانوں کی ابتداء خاک اور انتہا قیامت میں خداوند متعال کی عدالت میں حاضر ہونا جانتا ہے۔

ادیان الٰہی کے نکتہ نگاہ سے تمام انبیاء کرام کے آنے کا مقصد قیام عدل ہے۔ آخری امام حضرت امام زمانہ ـ کے انتظار کے عقیدہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ قیامت پر یقین ایک ایسا عقیدہ

۹۲

ہے جو اس بات پر استوار ہے کہ زمین کا ہر خشک و تر مکمل نظم و ضبط کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ خداکی طرف سے برگزیدہ انبیاء و رسل اپنے آپ کو عادل اور عدالت کا قائم کرنے والا کہلواتے ہیں۔

جی ہاں عقائد، انسان میں عدالت کے قیام کا بہترین پیش خیمہ ہیں لیکن جو اس کائنات کو لاوارث اور بے نظم سمجھتا ہو خلقت اور مخلوق کو حادثہ کا نتیجہ سمجھتا ہو اور موت کو نیستی و نابودی تصور کرتا ہو، پوری دنیا کو بغیر ہدف کے اور عبث تصور کرتا ہو ایسے آدمی کے پاس عدالت کے قیام کے لیے کوئی مقدمہ فراہم نہیں ہے۔

جی ہاں یہ ممکن ہے کہ چند ایک روز کے لیے معاشرتی دباؤ یا جرائم اور قانونی سزاؤں سے بچنے یاپھر لوگوں کی جانب محبت اور کسب نظر کی وجہ سے خطا نہ کرے اور عارضی طور پر کچھ عرصے کے لیے عدل و انصاف سے کام لے۔ لیکن یہی شخص کیوں کہ کائنات اور موجودہ اشیاء کو عبث اور بغیر ہدف کے سمجھتا ہے اور اسی مادّی نظریے کی وجہ سے عدالت کو دل سے قبول نہیں کرتا ہے۔

عدل کی وسعت:

عدالت اسلام کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ خدا کی توحید کے بعد اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرجع تقلید، امام جمعہ و جماعت، قاضی اور بیت المال کے خزانچی میں بھی عادل ہونے کی شرط ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اسلام کے ہر قانون میں عدالت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اور ہر مرحلہ اور مسئلہ میں ہر قسم کی افراط و تفریط سے روکا گیا ہے من جملہ۔

۹۳

۱۔ عبادت میں عدالت۔ یہاں تک کہ احادیث کی کتب میں ایک باب بعنوان ''الاقتصاد فی العبادة'' موجود ہے جس میں اُن روایات کو بیان کیا گیا ہے جو عبادت میں میانہ روی کو بیان کرتی ہیں۔

۲۔ کام کاج اور تفریح میں عدالت۔

۳۔ غیض و غضب اور محبت میں عدالت۔

۵۔ دوست اور دشمن دونوں کے لیے عدالت۔

۵۔ ملامت و سرزنش اور تعریف و تمجید میں عدالت۔

۶۔ پیداوار اور استعمال میں عدالت۔

۷۔ بیت المال کی تقسیم بندی اور وصیت میں عدالت۔

۸۔ اہل و عیال اور دوست احباب کے درمیان عدالت۔

۹۔ قضاوت اور فیصلہ کے دوران عدالت۔

۱۰۔ قصاص میں عدالت۔

۱۱۔ جنگ میں عدالت۔

۱۲۔ حیوانات کے ساتھ برتاؤ میں عدالت۔ یہاں تک کہ امام علی ـ زکات کی جمع آوری کرنے والے شخص سے یہ فرماتے ہیں کہ زکات میں ملے ہوئے جانوروں پر سواری میں بھی عدالت سے کام لینا۔(۱) مثال کے طور پر اگر زکات میں چار اونٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ نہج البلاغہ، مکتوب ۲۵

۹۴

ملے اور تم دو گھنٹے سفر میں ہو تو ہر اونٹ پر آدھا گھنٹہ سوار ہونا۔ ایک اور مقام پر آپ ـفرماتے ہیں کہ اگر کوئی حاجی جلدی مکہ پہنچنے کی وجہ سے اپنے جانور کو حد سے زیادہ تھکا دے تو اس کی گواہی مسائل حقوقی میں قبول نہ کرو اس لیے کہ اس نے اپنے جانور پر ظلم کیا ہے۔(۱)

بہرحال اسلام کی ہر چیز میں عدالت سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر مسجد میں کسی مقام پر کوئی بچہ بیٹھا ہوا ہو اور آپ اُسے اٹھا کر وہاں نماز ادا کریں تو ایسی صورت میں نماز میں اشکال ہے۔(۲)

نمونے:

٭قرآن کریم نے اہل حجاز کو۔ جو اپنے کو دوسروں سے برتر اور جدا تصور کرتے تھے۔ حکم دیا کہ اُسی طرح حج ادا کرو جس طرح دوسرے لوگ حج ادا کرتے ہیں(آفیضوا من حیث افاض النّاس) (۳)

جب بھی ثروت مند افراد انبیاء سے یہ چاہتے تھے کہ وہ فقراء کو اپنی بارگاہ سے نکال دیں تو یہی جواب سنتے تھے(مأ انٰا بِطَارد الّذین اٰمنوا) (۴)

٭پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری سفر میں تمام لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: تمام مسلمان چاہے وہ کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں برابر ہیں۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔وسائل الشیعہ،کتاب الحج (۲)۔ توضیح المسائل (۳)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۹۹

(۵)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت ۲۹ (۵)۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۵۸

۹۵

بعض سیاستدان اور مصلحت پسند افراد نے مولائے کائنات حضرت علی ـ سے عرض کیا کہ فقراء اور غلاموں کا حصہ ان کے حصے سے الگ کرکے قوم کے بڑے لوگوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ تاکہ حکومت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں اور وہ کسی قسم کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اور وہ معاویہ سے ملحق نہ ہوں۔ تو آپ نے فرمایا:کہ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں انہیں خراج (ٹیکس) ادا کروں ہرگز ایسا نہ ہوگا جس کا دل چاہے رُکے اور جس کا دل چاہے چلا جائے۔(۱) نیز امام ـ ہی نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں فرمایا تھا کہ مجھے سے پہلے بیت المال سے جتنا بھی پیسہ بے جا مصرف ہوا ہے۔ وہ سب واپس بیت المال میں پلٹا دیا جائے گا چاہے اس پیسے سے غلام خریدے گئے ہوں یا بطور مہر ادا کیا گیا ہو۔(۲)

٭حضرت علی ـ نے فرمایا:کہ جب میں اپنے ذاتی مال کو بغیر مساوات کے تقسیم نہیں کرسکتا تو پھر خدا کے مال (بیت المال) کو کس طرح مساوات کے بغیر تقسیم کروں۔(۳)

٭پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو سب سے پہلے جہنم میں جائے گا۔ وہ حاکم ہے جو عدل و انصاف سے کام نہ لے۔(۴)

٭اگر کسی شخص کے زیر کفالت دس افراد ہوں اور وہ ان کے درمیان عدالت سےکام نہ لے تو وہ قیامت میں اس طرح محشور کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پیر بندھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص ۱۰۷ (۲)۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵

(۳)۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۶ (۵)۔ میزان الحکمہ

۹۶

ہوئے ہونگے۔(۱)

یہ وہ چند نکات تھے جو مجھ جیسے طالب علم کے لیے آیت سے کشف ہوئے ہیں۔ انسان قربان جائے ایسی کتاب کے جس کے ہر کلمہ میں ایک ایسا درس پوشیدہ ہے کہ جس کی تازگی اور شادابی کو زمین و زمان کی تبدیلی نہیں چھین سکتی ہے تاکہ اور بہتر انداز سے اس کتاب کو سمجھا جاسکے آپ سے گزارش ہے کہ ایک ایسی سطر لکھیں جس کے ہر کلمہ میں صحیح، منطقی اور ایسے جاویدان نکات پوشیدہ ہوں جن سے رہتی دنیا تک استفادہ ہوتا رہے !!

٭پروردگارا: تجھے قرآن کے ہر کلمہ کا واسطہ کہ ہمیں ہدایت کے بعد لغزشوں سے دوچار نہ فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ۔ میزان الحکمہ

۹۷

آیت نمبر ۱۰

ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فََصْلِحُوا بَیْنَ َخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی جیسے ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔

٭اس آیت میں مومنین کے رابطے کو دو بھائیوں کی مانند پیش کیا گیا ہے اور اس تعبیر میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

الف: دو بھائی دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے بازو ہوتے ہیں۔

ب: دو بھائیوں کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔

ج: آج کے دور میں آپس کے تعلق اور روابط کے لیے دوست ، ہم شہر، ہم وطن جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مگر اسلام نے اس رابطے کے اظہار کے لیے بھائی کا لفظ استعمال کیا ہے جوان سب سے زیادہ مفید اور گہرے معنی رکھتا ہے۔

د: دو بھائیوں کی دوستی باہمی ہوتی ہے۔

ھ: حدیث میں دو دینی بھائیوں کی دوستی کو دو ہاتھوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہاتھ دھوتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ محجة البیضائ

۹۸

٭ اس آیت میں اور اس سے قبل آیت میں مجموعی طور پر کلمہ ''أصلحوا'' تین بار آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام صلح و آشتی پر کتنی توجہ دیتا ہے۔

٭مسلمانوں کے آپس میں جھگڑنے سے تلخ حوادث رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپس میں ناراضگی، سوئِ ظن، غلط پروپیگنڈا، انتقام جوئی، اور فتنہ و فساد زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے اِن آیات میں ان جملوں ۔أصلحوا، أقسطوا، یحب المقسطین، اِخوة، اخویکم، اتّقوا، ترحمون، کے ذریعہ جنگوں سے حاصل شدہ زخموں پر مرہم رکھا ہے۔

پیغامات:

۱۔ اخوت و برادری کا راز فقط ایمان میں پوشیدہ ہے ۔ (معاشی، سیاسی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی مسائل کے ذریعہ لوگوں میں اخوت و برادری کی روح پیدا نہیں کی جاسکتی )(انّما المومنون الاخوة)

جان گرگان و سگان از ھم جدااست

متحد جان ھای شیران خدا است

ترجمہ :بھیڑیوں اور کتوں کا اتحاد ممکن نہیں البتہ خدا کے شیروں کا اتحاد ممکن ہے۔

۲۔ اخوت و برادری کی بنیاد پر ایمان ہے اور زمان و مکان ، عمر اور پیشہ کی پابند نہیں ہے۔( انّما المومنون الاخوة)

۳۔ کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے پر برتر نہ سمجھے''اخوة'' البتہ والدین اولاد پر

۹۹

برتری رکھتے ہیں لیکن بھائیوں کے درمیان مساوات ہے۔

۵۔ صلح و آشتی کے لیے محبت آمیز، نفسیاتی اور تعمیری گفتگو کرنی چاہیے۔''اِخْوة فَاصلِحُوا''

۵۔ صلح و آشتی کرانا ہر مسلمان پر واجب ہے اور کسی خاص گروہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔''فَاصلِحُوا''

۶۔ صلح کرانے والا بھی دونوں گروہوں کا بھائی ہے۔ بَینْ أخوّیکم

۷۔ صلح و آشتی کرانے میں کچھ آفات بھی ہیں لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔''فاصلحوا--- واتقوا'' (صلح و آشتی کرانے کی بعض آفات یہ ہیں۔ خودنمائی، توقع، ظلم و ستم اور احسان جتانا وغیرہ۔

۸۔ ایسا معاشرہ جو جنگ و جدل میں مصروف ہوجائے رحمت خدا سے محروم رہتا ہے۔''فاصلحوا --- واتقوا --- ترحمون''

۹۔ صلح و صفائی رحمت الٰہی کے نزول کا پیش خیمہ ہے۔''فاصلحوا --- ترحمون''

اخوت و برادری:

اسلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل جڑ سے شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طو پر قرآن مجید میں ہے(انّ العزة للّٰه جمیعًا) (۱) تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ یونس، آیت ۶۵

۱۰۰

زیادہ مہم ہے یہی وجہ ہے کہ بعض فقہائ کا کہنا ہے کہ اگر بعض مستحبات شیعوں کا شعار ہوں تو انہیں ترک کردینا چاہیے(۱)

قبر کو ہموار کرنے کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ سنّت یہ کہ قبر ہموار ہو لیکن افضل یہ ہے کہ ہموار نہ ہو اس لئے کہ یہ شیعوں کا شعار ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس سنّت کو چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کی مخالفت ہوسکے(۲)

اسی طرح پیغمبر کے علاوہ باقی انبیائ پر صلوات بھیجنا ،(۳) باقی انبیا ئ پر سلام بھیجنا،(۴) عمامہ باندھنے کا طریقہ(۵) .کیا یہ اسلام و پیغمبر سے انحراف اور ان کی مخالفت کرنا نہیں ہے ؟

اور کہیں اسی وجہ سے تو ہم اذان میں حضرت علی (رض) کے خدا کے ولی ہونے کی گواہی سے نہیں بھاگتے ہیں کہ وہ شیعوں کا شعار بن چکا ہے ؟

۔صحابہ کرام (رض) اور تابعین(رح) کا پاؤں کا مسح کرنا

سوال ۱۴۲: کیا یہ صحیح ہے کہ بہت سارے صحابہ کرام(رض) وتابعین وضو میں پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے اور بعض تو اسے واجب سمجھتے تھے ؟ جیسے حضرت علی (رض) ، عبداللہ بن عباس ،عکرمہ ، انس بن مالک ، شعبی ، حسن بصری ، ابو جعفر محمد باقر رضی اللہ عنہ(۶)

____________________

۱۔منہاج السّنۃ ۲: ۳۴۱.ومن هنا ذهب من ذهب من الفقهائ الی ترک بعض المستحبات اذا صارت شعارا لهم

۲۔ المجموع نووی ۵: ۹۲۲؛ ارشاد السّاری ۲: ۸۶۴

۳۔تفسیر کشاف ۳: ۱۴۵

۴۔ فتح الباری ۱۱: ۲۴۱

۵۔شرح المواہب اللدنیۃ ۵: ۳۱

۶۔المحلّیٰ ۲: ۶۵؛تفسیر کبیر ۱۱: ۱۶۱؛ مغنی ۱: ۲۳۱

۱۰۱

جیسا کہ ابن حزم ، فخر رازی اور ابن قدامہ وغیرہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ ہم پاؤں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور جو نہ دھوئے اس کے وضو کو باطل سمجھتے ہیں؟

انس بن مالک جو دس سال تک حضور علیہ الصلّاۃ والسّلام کے خادم رہے اور حضرت علی(رض) تیس سال تک آپ(ص) کے ساتھ ساتھ رہے .کیا یہ دونوں جلیل القدر صحابی جھوٹ اور غلط کام پر اصرار کر رہے ہیں؟!

۔الصّلاة خیر من النّوم حضرت عمر (رض) کی بدعت

سوال۱۴۳:کیا یہ حقیقت ہے کہ اذان میںالصّلاة خیر من النوم حضڑت عمر (رض) کی ایجاد کردہ بدعت ہے جبکہ پیغمبر کے زمانہ میں یہ جملہ اذان میں موجود نہیں تھا ؟

جیسا کہ امام ابن حزم ، امام مالک او رامام قرطبی نے واضح طور پر کہا ہے:

۱ ۔ امام مالک:انّ المؤذن جائ الی عمر بن الخطاب یؤذنه، لصلاة الصبح فوجده، نائما فقال :الصّلاة خیر من النوم فأمره، أن یجعلها فی ندائ الصبح (۱)

مؤذن حضرت عمر (رض) کو صبح کی نماز کے لئے بیدار کرنے آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں کہا : نماز نیند سے بہتر ہے .پس عمر (رض) نے اسے حکم دیا کہ جملہ آج کے بعد صبح کی اذان میں کہا جائے

۲ ۔امام ابن حزم :الصّلاة خیر من النوم ،ولانقول بهذا أیضا لأنّه، لم یأت عن رسول الله (۲)

ہمالصلاة خیر من النوم نہیں کہتے اس لئے کہ یہ جملہ آنحضرت سے نقل نہیں ہوا۔

۔اذان میں حاکم وقت پر سلام کرنا

سوال ۱۴۴: کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارے مذہب میں اذان میں حی علی الصلاۃ سے پہلے’’السّلام علیک ایّھاالأمیر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،، کہنا جائز ہے ؟ جیسا کہ حلبی ، سرخسی اور دوسرے علمائ نے لکھاہے:

۱ ۔ سرخسی :قد روی عن أبی یوسف رحمة الله أنّه، قال: لا بأس بأن یخصّ الأمیر

____________________

۱۔موطأ ۱: ۲۷

۲۔المحلّی ۳: ۱۶۱

۱۰۲

بالتثویب فیأتی بابه، فیقول : السّلام أیّها الامیر ورحمة الله وبرکاته، ،حی ّعلی الصلاة مرّتین حیّ علی الفلاح مرّتین ، الصلاة یرحمک ا للہ(۱)

۲ ۔حلبی :عن أبی یوسف : لاأری بأسا أن یقول المؤذن السّلام علیک أیّهاالأمیر ورحمة الله وبرکاته، ،حیّ علی الصّلاة ،حیّ علی الفلاح ،الصّلاة یرحمک الله لاشتغال الأمرائ بمصالح المسلمین أی ولهذا کان مؤذن عمر بن عبدالعزیز رضی الله عنه یفعله، (۲)

اگر ہمارے مذہب میں کسی جملے کااذان میں اضافہ کرنا جائز ہے جو پیغمبر کے زمانہ مبارک میں نہ تھا تو پھر ہم شیعوں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اذان میں ’’أشھد أنّ علیّا ولیّ اللہ ،، کیوں کہتے ہیں جبکہ یہ جملہ اذان میں نہیں تھا ؟

۔حمار یعفور کا کلام کرنا

سوال ۱۴۵: کیا یہ بھی صحیح ہے کہ حمار یعفور کا پیغمبر سے باتیں کرنے والا قصّہ ہماری کتب میں بھی موجود ہے.(۳) ؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس قصّہ کے شیعوں کی کتاب کافی کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے ان کی اس پوری کتاب کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ وہ خود بھی اس قصّہ والی روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں؟

۔قرآن کو جلانا جائز ہے ؟

سوال۱۴۶: کیا یہ صحیح ہے کہ ہماری حدیث کی کتب میں بیان ہوا ہے کہ قرآن کو زمین پر رکھنا جائز نہیں جبکہ اسے جلادینا جائز ہے ؟ جیسا کہ ابن ابی داؤد نے اسی باب سے ایک مکمل باب کھولا ہے:’’ حرق

____________________

۱۔المبسوط ۱: ۱۳۱

۲۔سیرۃ الحلبیہ ۳: ۴۰۳؛الھدایۃ فی شرح البدایۃ ۱: ۲۴؛ جامع صغیر ۱: ۸۳؛ تاریخ دمشق ۰۶: ۰۴؛شرح زرقانی ۱: ۵۱۲؛ تنویر الھوالک ۱: ۱۷؛ الذخیرۃ ۲:۷۴؛مواہب الجلیل ۱: ۱۳۴؛ الطبقات الکبرٰی ۵:۴۳۳اور ۹۵۳

۳۔حیاۃ الحیوان ۱: ۵۵۳؛ تاریخ دمشق ۴: ۲۳۲؛ البدایۃ والنھایۃ ۲:۹۳

۱۰۳

المصحف اذا استغنی عنه،،، اور پھر لکھا ہے: انّه، لم یر بأسا أن یحرق الکتب وقال : انّما المائ والنّار خلقان من خلق الله تعالٰی (۱)

جب قرآن کی ضرورت نہ ہو تو اسے جلادینا

۔حضرت عائشہ (رض) کی بکری کا قرآن کھا جانا

سوال ۱۴۷: کیا یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید کا کچھ حصّہ حضرت عائشہ (رض) کی بکری کھا گئی تھی اور اب اس کا نام و نشان تک نہیں ہے ؟جیسا کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں :

زنا کار کو سنگسار کرنے اور جوان کی رضاع والی آیت قرآن کا حصّہ تھی اور ایک ورق پر لکھی ہوئی تھی جب پیغمبر کی وفات ہوئی تو ہم ان کے سوگ میں مشغول تھے کہ اتنے بکری آئی اور اس نے ان آیات کو کھا لیا :

لقد نزلت آیة الرّجم والرّضاع الکبیر عشرا ،ولقد کان فی صحیفة تحت سریری فلمّا مات رسول الله وتشاغلنا بموته دخل داجن فأکلها (۲)

۔حضرت عمر (رض) کا تحریف قرآن کا فتوٰی

سوال ۱۴۸: کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض) قرآن کے قائل تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ آیت رجم گم ہوچکی ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) سورہ احزاب کے دوتہائی گم ہوجانے کی قائل تھیں ؟ اور حضرت موسٰی اشعری قرآن کی دو سورتوں بنام خلع و حفد کے گم ہو جانے کے قائل تھے ؟ کیا اس قسم کے دعوؤں کا معنٰی یہ نہیں ہے کہ قرآن میں تحریف ہو چکی ہے اور وہ پورا قرآن اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہے؟

کیا ہم عیسائیوں اور یہودیوں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تورات و انجیل میں تو تحریف واقع ہوئی ہے لیکن قرآن محفوظ ہے ؟ !

اور پھر کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے بڑے تحریف قرآن کے قائل ہیں جبکہ ہم یہ تہمت شیعوں پر

____________________

۱۔کتاب المصاحف ۲: ۶۶۶،طبع دارالبشائر

۲۔سنن ابن ماجہ ۱: ۶۲۶

۱۰۴

لگاتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے علمائ تحریف قرآن کی نفی پر کئی ایک کتب تألیف کر چکے ہیں؟

۱ ۔ حضرت عمر (رض) نے منبر پر کہا :

انّ الله قد بعث محمّدا بالحقّ وأنزل علیه الکتاب ، فکان ممّا أنزل الله آیة الرّجم فقرأنا ها وعقلناها ووعیناها ، فلذا رجم رسو ل الله ، ورجمنا بعده، فأخشٰی ان طال بالنّاس زمان أن یقول قائل : والله ما نجد آیة الرّجم فی کتاب الله فیضلّوا بترک فریضة أنزلها الله ، والرّجم فی کتاب الله حقّ علی من زنی اذا أحصن من الرّجال ...ثمّ انّ کنّا نقرأ فیما نقرأ من کتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائکم فانّه، کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم (۱)

سیوطی نے حضرت عمر (رض) سے یوں نقل کیا ہے :اذا زنی الشیخ والشیخةفارجموهما البتة نکالا من الله والله عزیز حکیم (۲)

۲ ۔ حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں:

کانت سورةنقرأ فی زمن النّبی مأتی آیة ، فلمّا کتب عثمان المصاحف لم نقدر منها الاّ هو الآن (۳)

۳ ۔ ابو موسٰی اشعری : انہوں نے ایک دن کوفہ والوں سے کہا: ہم پیغمبر کے زمانہ میں ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو سورہ برائت کے برابر تھی جو ابھی بھول گئی ہے مگر یہ کہ اس میں سے فقط ایک آیت مجھے یاد ہے:

____________________

۱۔صحیح بخاری ۸: ۶۲؛صحیح مسلم ۵: ۶۱۱؛ مسنداحمد ۱: ۷۴

۲۔الاتقان ۱:۱۲۱

۳۔ الاتقان ۲: ۰۴

۱۰۵

لوکان لابن آدم وادیان من مال لابتغی وادیا ثالثا ولایمل الجوف ابن آدم الاّالتّراب

وہی کہتے ہیں : سورہ سبّح کی طرح کی ایک اور سورہ بھی موجود تھی جو مجھے بھول گئی ہے اور اس کی ایک ہی آیت اب ذہن میں ہے او روہ یہ ہے :

یاأیّها الّذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون ،فتکتب شهادة فی أعناقهم فتسأ لون عنها یوم القیامة (۱)

۴ ۔نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں:

کان فیما انزل من القرآن : عشر رضعات معلومات یحرّمن ،ثمّ نسجن معلومات ،فتوفٰی رسو ل الله وهنّ فیما یقرئ من القرآن (۲)

۵ ۔مسلمہ بن مخلد انصاری فرماتے ہیں:

أخبرونی بآیتین فی القرآن لم یکتبا فی المصحف فلم یخبروه، ، وعندهم سعد بن مالک ، فقال ابن مسلمه : انّ الّذین آمنوا وهاجروا وجاهدوا فی سبیل الله بأموالهم وأنفسهم آلا أبشروا أنتم المفلحون والّذین آووهم ونصروهم وجادلوا عنهم القوم الّذین غضب الله علیهم أولئک لا تعلم نفس ما أخفی لهم من قرّة أعین جزائ بما کانوا یعلمون (۳)

۶ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم ۳ : ۰۰۱

۲۔صحیح مسلم ۴: ۷۶۱

۳۔الاتقان ۲: ۲۴۔۱۴۔۰۴

۱۰۶

قرآن کی بہت سی آیات گم ہوچکی ہیں لیقولنّ أحدکم قد أخذت القرآن کلّہ وما یدریہ ماکلّہ، ؟ قد ذھب منہ، قرآن کثیر ولیقل قدأخذت منہ ما ظھر(۱)

کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے پورا قرآن حاصل کر لیا ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ پورا قرآن کس قدر تھا کیونکہ اس کا بہت زیادہ حصہ ضائع ہو چکا ہے .بلکہ اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ میں نے جوقرآن موجود ہے اس میں سے حاصل کر لیا ہے

۷ ۔نیز حضرت عائشہ (رض) کے مصحف میں یوں ذکر ہوا ہے :

انّ الله وملائکته یصلّون علی النبی یاأیّهاالّذین آمنوا صلّوا علییه وسلّمو ا تسلیما وعلی الّذین یصلّون الصفّوف الاوّل (۲)

۔حضرت عائشہ (رض) کا ماتم کرنا

سوال ۱۴۹: کیا یہ بھی صحیح ہے کہ سب سے پہلے ماتم اور عزاداری کرنے والی حضرت عائشہ(رض) تھیں ؟اس لئے کہ وہ فرماتی ہیں:

عن عبّاد : سمعت عائشة تقول: مات رسول الله ثمّ وضعت رأسه، علی وسادة وقمت ألتدم أی أضرب صدری مع النّسائ وأضرب وجهی (۳)

پیغمبر کی وفات ہوئی تو میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا اور دوسری عورتوں کے ہمراہ اپنا سراور منہ پیٹنا شروع کیا

اسی طرح شام میں بنو سفیان کی عورتوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اپنا سینہ پیٹا .جیسا کہ ابن عبد ربہ، اندلسی لکھتے ہیں:

____________________

۱۔الاتقان ۲: ۲۴۔۱۴۔۰۴

۲۔ حوالہ سابق

۳۔السیرۃ النبویۃ ۴: ۵۰۳

۱۰۷

قالت فاطمة : فدخلت الیهنّ فماوجدت فیهنّ سفیانیة الاّ ملتدمة تبکی (۱)

۔شامیوں کا ایک سال تک حضرت عثمان(رض) کی عزاراری کروانا

سوال ۱۵۰: کیا یہ درست ہے کہ حضرت عثما ن (رض) کی شہادت پر شامیوں نے ایک سال تک عزاداری اور گریہ کیا؟ اگر یہ درست ہے کہ ُمردے پر گریہ کرنا جائز نہیں ہے تو پھر حضرت معاویہ (رض) کے سامنے کیوں ایک سال تک عزاداری و گریہ ہوتا رہا اور انہوں نے روکاہی نہیںبلکہ ان کی حمایت بھی کی ؟جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے:

نصب معاویة القمیص علی منبر دمشق والأصابع معلقة فیه والآلیٰ رجال من أهل الشّام لایأتون النسائ ، ولا یمسّون الغسل الاّ من حلم ،ولا ینامون علی فراش حتٰی یقتلوا قتلة عثمان او نفنی أرواحهم وبکوه، سنة(۲)

حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عثمان(رض) کی قمیص اور ان کی انگلیاں منبر پر لٹکا دیں .اور کچھ شامیوں نے یہ قسم کھائی کہ جب تک عثمان(رض) کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لیں یا خود نہ مارے جائیں تب تک نہ تو آرام سے سوئیں گے اور نہ ہی اپنی بیویوں کے پاس جائیں گے .اور پھر ایک سال تک ان پر گریہ کیا

کیا وجہ ہے کہ ان میت پر رونے والوں پر کسی عالم دین نے کفر یا شرک کا فتوٰی نہیں لگایا جبکہ حضرت حسین (رض) پر رونے والوں کے کفر وشرک کے فتوے آئے دن جاری کئے جاتے ہیں ؟ کیا یہ اہل بیت پیغمبر سے بغض وعناد کی علامت نہیں تو او ر کیا ہے؟ !

۔ہمارے نزدیک عورت کا مقام

سوال ۱۵۰: کیا ہمارے مذہب میں عورت کا مقام کتّے ، گدھے اور خنزیر کے برابرہے ؟ جیسا کہ ہماری

____________________

۱۔العقد الفرید ۴: ۳۸۳

۲۔تاریخ الاسلام ( الخلفائ) : ۲۵۴

۱۰۸

کتب میں درج ہے کہ نماز پڑھتے وقت سامنے کوئی چیز رکھ دو تاکہ اگر عورت ، گدھا یا اونٹ سامنے سے گذرے تو نماز کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے:

قال : والظُّعن یمرّون بین یدیه : المرأة والحمار والبعیر (۱)

حضرت ابو ہریرہ (رض) کہتے ہیں:

یقطع الصّلاة المرأة والحمار والکلب (۲)

نمازی کے سامنے سے عورت ، گدھے یا کتّے کے گذرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے.

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں :

یقطع الصلاة الکلب الأسود والحمار والمرأة (۳)

کالا کتّا ، گدھا اور عورت نماز کو باطل کردیتے ہیں.

عکرمہ کہتے ہیں:

یقطع الصّلاة الکلب والمرأة والخنزیر والحمار والیهودی والنصرانی والمجوسی (۴)

کتّا ، عورت ، خنزیر ، گدھا ، یہودی ، نصرانی اور مجوسی نماز کو باطل کردیتے ہیں.

کیا اسلام میں عورت کا یہی مقام ہے کہ اسے کتّے ،خنزیر اور گدھے کے برابر قرار دیاجائے ؟ کیا یہ انسانی کرامت کی توہین نہیں ہے؟!!

____________________

۱۔السنن الکبرٰی ۳: ۶۶۱اور ۴: ۵۵۳؛ مصنّف ابن ابی شیبہ ۱: ۵۱۳

۲۔صحیح مسلم ۱: ۵۴۱؛ المحلّٰی ۴: ۸

۳۔المحلّیٰ ۴: ۱۱، مسئلہ یقطع صلاۃ المصلّی ، طبع دارالآفاق الجدیدۃ بیروت

۴۔المحلّیٰ ۴: ۱۱؛ مصنّف ابن ابی شیبہ ۱: ۵۱۳

۱۰۹

آخر میں استاد محترم سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اگرچہ یہ سوالات آپ کے لئے انتہائی معمولی ہیں لیکن ان کا جواب عنایت فرمائیںگے تاکہ یوں نوجوان نسل کی خدمت ہو سکے اور انہیں ہر طرح کے فکری واعتقادی انحراف سے بچایا جا سکے

.انشاء الله

والسّلام علیکم ورحمة الله وبرکاته،

۱۱۰

فہرست

سخن ناشر ۴

چند سوال ۵

خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ۶

۔حضرت ابوبکر (رض) کا پچاس لوگوں کے بعد اسلام لانا ۶

۔خالد بن سعید کا حضرت ابوبکر (رض) سے پہلے اسلام لانا ۶

۔حضرت ابو بکر (رض) کاجنگوں میں کردار ۷

۔یار غار کونا ۷

۔علی(رض) کے بغیر اجماع ملعون ہے ۹

۔حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت اجماع یاشورٰی سے ۹

۔مہاجرین وانصار کاخلیفہ اول (رض) کی خلافت کی مخالفت کرنا ۱۰

حضرت علی (رض) کا بیعت نہ کرنا ۱۰

۔حضرت علی(رض) کی نظر میں شیخین کی حکومت ۱۱

امام بخاری کی احادیث میں ردُّوبدل کی مہارت ۱۲

۔حضرت علی(رض) کے قتل کی سازش ۱۲

کیا امامت اصول دین میں سے ہے ۱۲

۔کون افضل ؟ پیغمبر(ص) یا ابوبکر(رض) ۱۳

۔احادیث رسول (ص) کا نذر آتش کرنا ۱۴

حضرت ابوبکر و عمر (رض)کے تعلقات ۱۴

خلیفہ دو م رضی اللہ عنہ۔ ۱۵

۱۱۱

خلیفہ دوم کا اپنے ایمان میں شک کرنا ۱۵

۔کیا حضور (ص) نے خود کشی کرنا چاہی ۱۵

۔کیا حضرت عمر (رض) کند ذہن تھے ۱۶

۔حضرت عمر(رض) کی خلافت پر لوگوں کااعتراض ۱۶

۔کیا حضرت عمر (رض) حکم تیمم نہیں جانتے تھے ۱۶

کیا حضرت عمر (رض) اور ان کے فرزند کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے ۱۷

حضرت ابو ہریرہ(رض) چور تھے ۱۸

کیاحضرت عمر(رض) کا امّ کلثوم سے عقد نہیں ہوا ۱۸

۔چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے لشکر کو کمانڈ کرنا ۲۰

۔کیا حضرت علی(رض) ،حضرت عمر(رض) سے متنفر تھے ۲۰

۔حضرت عمر (رض) وحفصہ (رض) کا تورات سے لگاؤ ۲۱

۔توہین رسالت (ص) کاجرم ۲۲

۔حضرت عمر(رض) کاوصیت رسول (ص) کی مخالفت کرنا ۲۳

۔حضرت عمر(رض) کا کعب الاحبار یہودی سے تعلق ۲۳

۔فتوحات اسلام کا مقصد ۲۴

۔حضرت عمر(رض) کتنے باادب تھے ۲۴

۔تدوین احادیث پر پابندی ۲۵

۔نام پیغمبر (ص) رکھنے پر پابندی ۲۶

حضرت علی(رض) اور اہل بیت رسول(رض) ۲۸

۔کعبہ میں حضرت علی(رض) کی ولادت ۲۸

۱۱۲

۔حدیث منزلت صحیح ترین حدیث ۲۸

۔ولایت علی(رض) کا انکار ۲۹

۔کیا پہلے اوردوسرے خلیفہ (رض) مقام پرست تھے ۲۹

۔کیاصدیق حضرت علی(رض) کا لقب ہے ۲۹

۔علی(رض) نام کے بچوں کا قتل کردینا ۳۰

۔کیا خلفائ نے بھی اپنے کسی بچے کا نام علی(رض) رکھا ۳۰

۔کیا علی(رض) کے فضائل ذکر کرنے کی سزاپھانسی ہے ۳۱

۔کیا علی(رض) پر لعنت کروا نا بنو امیہ کا کام تھا ۳۱

رسول خدا (ص) کے بھائی پر لعنت کرنے سے انکار کردیا ۳۲

۔کیا امام مالک اور امام زہری بنوامیہ کے ہوادار تھے ۳۲

۔کیا امام ذہبی علی(رض) کے فضائل تحمل نہیں کرپاتے تھے ۔ ۳۳

کیا امام بخاری حضرت علی(رض) کو چوتھا خلیفہ نہیں مانتے تھے ۳۴

کیا بنوامیہ نے شائع کیا کہ علی(رض) چوتھا خلیفہ نہیں ہے ۳۵

۔ابن تیمیہ کا چوتھے خلیفہ کے خلاف سازش ۳۵

۔کیا امام احمد بن حنبل کے نزدیک خلافت علی(رض) کی مخالفت کرنے والاگدھاہے ۳۶

کیا حضرت علی(رض) کے فضائل تمام صحابہ سے زیادہ تھے ۳۷

کیا حدیث غدیر چھپانے والے بیماری میں مبتلا ہو گئے ۳۷

۔کیا حضرت علی (رض) کے فرزند ،پیغمبر(ص) کے فرزند تھے ۳۸

۔کیا حضرت علی (رض) جانشین پیغمبر (ص) تھے ۳۹

۔کیا امام بخاری نے حدیث غدیر کو مخفی رکھا ۳۹

۱۱۳

۔کیا حضرت معاویہ(رض) کی مخالفت جرم ہے ۴۱

۔سفیان ثوری کاحضرت علی(رض) سے کینہ رکھنا ۴۱

۔ہمارا حضرت فاطمہ(رض) کی مخالفت کرنا ۴۲

حضرت عائشہ(رض) اور دیگر امہات المؤمنین(رض) ۴۳

۔کیا ازواج پیغمبر(ص)دوگروہ میں بٹی ہوئی تھیں ۴۳

۔حضرت عائشہ(رض) پہلے سے شادی شدہ تھیں ۴۴

۔امام حسن (رض) کا جنازہ دفن نہ ہونے دینا ۴۴

۔ابن زبیر کاحضرت عائشہ(رض) کو گمراہ کرنا ۴۵

۔حضرت عائشہ (رض) کا حضور(ص) کی توہین کرنا ۴۵

۔جوان کا رضاعی بھائی بن سکنا ۴۶

۔مصحف حضرت عائشہ(رض) ۴۸

۔ صحابہ کرام(رض)کا حضرت عائشہ(رض) پر زناکی تہمت لگانا ۴۸

۔امّ المؤمنین کا بیس ہزار اولادکو قتل کروادینا ۴۸

۔بعض امّہات المؤمنین کا مرتدہوجانا ۴۹

۔حضرت عمر (رض) کا نبی (ص) کی بیوی کو طلاق دینا ۴۹

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ۵۱

۔پیغمبر (ص) نے فقط عبداللہ بن سلام کو جنّت کی بشارت دی ۵۱

۔کیا بعض صحابہ کرام(رض) منافق تھے ۵۱

۔کیا حضرت عثمان (رض) کے قاتل صحابہ کرام (رض) تھے ۵۲

۔کیا ہم صحابہ کرام (رض) کو گالیاں دیتے ہیں ۵۳

۱۱۴

۔کیا صحابہ کرام(رض) ، پیغمبر (ص) کو قتل کردینے میں ناکام ہو گئے ۵۴

۔کیا بعض صحابہ کرام (رض) خارجی تھے ۵۵

۔کیا حضرت ابوبکر وعمر (رض) کے فضائل جھوٹ ہیں ۵۶

۔کیا حضرت ابو ہریرہ (رض) چور تھے ۵۷

۔ کیا ابوہریرہ(رض) کی روایات مردود ہیں ۵۷

۔حضرت ابوہریرہ(رض) کا توہین آمیز روایات نقل کرنا ۵۹

۔کیا عشرہ مبشرہ والی حدیث جھوٹی ہے ۶۰

۔اصحاب عشرہ مبشرہ میں تناقض ۶۱

۔خطبہ جمعہ سے نام پیغمبر(ص) کا حذف کردینا ۶۱

۔آل رسول (رض) کو جلادینے کی سازش ۶۲

۔پیغمبر(ص) کا ناحق لوگوں کو گالیاں دینا ۶۲

۔پیغمبر(ص) نے کن دو کو لعنت کی ۶۴

۔صحابہ کرام (رض) کا یہودیوں سے پناہ دینے کی درخواست کرنا ۶۴

۔حضرت عمر(رض) کا اپنے بارے میں شک ۶۴

۔کیاصحابہ کرام (رض) ایک دوسرے کو گالیاں دیا کرتے ۶۴

۔کیا صحابہ کرام (رض) میں فقط کچھ اہل فتوٰی تھے ۶۵

۔اہل مدینہ اور صحابہ کرام (رض) کا قبر پیغمبر (ص) سے توسّل ۶۶

حضرت امیر معاویہ(رض) اور بنو امیہ ۶۷

۔حضرت معاویہ (رض) کا حقانیت علی(رض) کا اعتراف ۶۷

۔کیاحضرت معاویہ(رض) کے چار باپ تھے ۶۷

۱۱۵

۔کیا حضرت معاویہ(رض) شراب پیا کرتے ۶۸

۔حضرت معاویہ (رض) کو جانشین مقرر کرنے کاحق نہ تھا ۶۸

۔حضرت معاویہ(رض) کاغیر مسلم اس دنیا سے گذر جانا ۶۹

۔منبر پر ریح کا خارج کرنا ۷۰

۔ حضرت معاویہ(رض) کے تمام تر فضائل کا جھوٹا ہونا ۷۰

۔مامون عباسی کا حضرت معایہ (رض) کو گالیاں دلوانا ۷۲

۔قتل عثمان (رض) کی تہمت ایک سیاسی کھیل تھا ۷۲

۔بنو امیہ کا قبر رسول (ص) کی زیارت سے روکنا ۷۲

۔بنو امیہ عجمی مسیحی تھے ۷۴

۔ امیر معاویہ اور اہل مدینہ کے قتل کی سازش ۷۴

یزید کا اہل مدینہ کے قتل کا دستور صادر کرنا ۷۵

۔یزید اور ناموس مدینہ کی بے حرمتی ۷۶

شیعہ ۷۷

۔عامر شعبی کے شیعوں پر تہمت لگانے کی وجہ ۷۷

۔مذہب شیعہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں وجود میں آیا ۷۷

۔صحابہ کرام(ص) بھی شیعہ تھے ۷۹

۔عام لوگ بھی علم غیب رکھتے ہیں ۷۹

۔مُردوں کا اسی دنیا میں دوبارہ زندہ ہونا ۸۰

۔علمائے سلف تقیہ کیا کرتے ۸۱

۔قبر زہری و بخاری پر روضوں کا بنایا جانا ۸۲

۱۱۶

فقہائ ومحدثین سلف ۸۳

۔چوتھی اور پانچویں صدی میں مذاہب اربعہ کا وجود میں آنا ۔ ۸۳

امام یحیٰی بن معین کا نامحرم عورتوں کو چھیڑنا ۔ ۸۳

۔ہمارے بعض علمائ حرام زادے تھے ۸۴

۔ہم حنفیوں کا مقام تو حیوان کے برابر ہے ۸۵

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۸۶

۔پست ترین بچہ ۸۶

۔امام ابوحنیفہ(رح) نصرانی پیدا ہوئے ۸۶

۔امام اعظم (رح) کی رائے مردود ہے ۸۶

۔امام اعظم(رح) علم حدیث سے ناآشنا تھے ۸۷

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ۸۸

۔امام بخاری احادیث میں تبدیلی کے ماہر تھے ۔ ۸۸

امام بخاری ناصبی تھے ۸۸

۔ایک گائے کا دودھ پینے سے بہن بھائی بن جانا ۸۹

۔امام بخاری اور زہری سے احادیث کا لینا ۔ ۸۹

بخاری کی احادیث میں اختلاف ۔ ۹۰

شیطان کا وحی میں نفوذ ۹۱

۔امام بخاری کا بعض صحابہ کرام (رض) سے احادیث نقل نہ کرنا ۹۱

۔امام بخاری کا علم رجال سے آگاہ نہ ہونا ۔ ۹۲

امام بخاری کے بعض اساتیذ نصرانی تھے ۹۲

۱۱۷

۔صحیح بخاری اور اسرائیلیات ۹۳

سنّت اور بدعت ۹۴

۔حدیث ثقلین کی صحیح عبارت ۹۴

۔ہماری کتب میں خرافات ۹۴

۔ صحابہ کرام (رح) اور تابعین کا متعہ کرنا ۔ ۹۵

پیغمبر (ص) اور صحابہ کرام(رح) کا پتھر اور مٹی پر سجدہ کرنا ۹۶

۔حنبلی تحریف قرآن کے قائل ۹۷

۔عورت کی دُبر میں جماع کرنا ۹۷

۔لوگوں کا متعہ حرام قرار دینے پر اعتراض ۔ ۹۸

نماز تراویح حضرت عمر(رض) کی بدعت ۔ ۹۸

بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا بنو امیہ کی بدعت ۔ ۹۹

بنو امیہ کا سنّت پیغمبر (ص) کی مخالفت کرنا ۔ ۱۰۰

سلف اور مستحبات ۱۰۰

۔صحابہ کرام (رض) اور تابعین(رح) کا پاؤں کا مسح کرنا ۱۰۱

۔ الصّلاة خیر من النّوم حضرت عمر (رض) کی بدعت ۱۰۲

۔اذان میں حاکم وقت پر سلام کرنا ۱۰۲

۔حمار یعفور کا کلام کرنا ۱۰۳

۔قرآن کو جلانا جائز ہے ؟ ۱۰۳

۔حضرت عائشہ (رض) کی بکری کا قرآن کھا جانا ۱۰۴

۔حضرت عمر (رض) کا تحریف قرآن کا فتوٰی ۱۰۴

۱۱۸

۔حضرت عائشہ (رض) کا ماتم کرنا ۱۰۷

۔شامیوں کا ایک سال تک حضرت عثمان(رض) کی عزاراری کروانا ۱۰۸

۔ہمارے نزدیک عورت کا مقام ۱۰۸

۱۱۹

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160