آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127993 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

فسق اور معصیت سے نفرت ہونی چاہیے۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۳۔ دل سے انکار کرنا اور برا سمجھنا انسان کے طغیانگر اور باغی ہونے کا پیش خیمہ ہے ابتداء میں ارشاد فرمایا''الکفر'' اور پھر فرمایا:الفسوق والعصیان-

۱۵۔ کفر انسانی فطرت سے ہٹنے کا نام ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۵۔ کفر، فِسق اور معصیت ایمان کی آفات ہیں(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ ---کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْر---)

۱۶۔ برائیوں سے نفرت ایک فطری عمل ہے(کَرَّهَ ِلَیْکُمْ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ---) اور یہ نفرت انسان کی ترقی اور پیشرفت کے لیے اصل اساس ہے۔(ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ )

۱۷۔ جو لوگ کفر، فسق اور معصیت سے نفرت نہیں کرتے وہ معنوی ترقی اور پیش رفت نہیں کر پاتے(کَرَّهَ --- ُوْلَئِکَ هُمُ الرَّاشِدُونَ)

۱۸۔ نعمتوں کا انحصار فقط مادّی چیزوںپر نہیں ہے بلکہ ایمان سے محبت اور کفر، فسق اور معصیت سے نفرت ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے(حَبَّبَ---کَرَّهَ ---فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

۱۹۔ ایمان کی طرف مائل ہونا بھی لطف خداوندی ہے(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ --

۸۱

-فَضْلًا مِنْ اﷲِ وَنِعْمَة)

ایمان اور علم کا تعلق:

ایمان اور علم ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایمان کا درجہ علم سے بڑ اہے اس لیے کہ ایمان کا تعلق محبت سے ہے۔ جیسا کہ ولی، سردار، حاکم، بادشاہ اور سلطان جیسا نہیں ہے اور اسی طرح خمس، زکاة اور دوسری مالیات کی طرح نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ایک مومن انسان بہت سی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ لیکن اُن میں سے ہر ایک سے محبت نہیں کرتا ہے مثال کے طور پر پہاڑوں کی بلندی سمندروں کی گہرائی۔ گزشتہ حکومتوں کی مدت اور اسی طرح ہزاروں مسائل کا علم رکھتا ہے۔ نیز بہت سی چیزوں کی تعداد سے آگاہ ہے لیکن اُن سب سے محبت نہیں کرتا۔ لیکن جس چیز کی بنیاد خدا کے ایمان اور اعتقاد پر استوار ہے اِس سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت اور یہ عشق خدا کی طرف سے ایک ہدیہ ہے۔ جو انسان کی فطرت میں اُسے عطا کیا گیا ہے۔ کفار درحقیقت اپنی ہٹ دھرمی سے اپنی فطرت کو تبدیل کرلیتے ہیں۔(حَبَّبَ ِلَیْکُمْ الِْیمَانَ)

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بات خمس اور زکاة کی آتی ہے تو اس میں ایک قسم کی قداست اور پاکیزگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس کا تعلق خدا پر اعتقاد اس کے انتخاب اور اس کے قرب سے ہے۔ اس لیے مالیات تمام لوگ ادا تو کرتے ہیں مگر مالیات کے لینے والے سے بحث نہیں کرتے لیکن خمس و زکات ادا کرنے والے لوگ جب اپنی مرجع تقلید کو اس کی ادائیگی کرتے ہیں تو اُس سے نہایت محبت کرتے ہیں۔

۸۲

آیت نمبر ۹

وَِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَِنْ بَغَتْ ِحْدَاهُمَا عَلَی الُْخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ فَِنْ فَائَتْ فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ -

ترجمہ:

اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک، دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آجائے پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کرو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

نکات:

اس سورئہ کا آغاز آداب معاشرت سے ہوا ہے۔

الف: خدا اور رسول سے ملاقات کے آداب، ان پر سبقت نہ لینا(لا تقدموا)

ب: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کا طریقہ (ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرنا)

ج: فاسق سے پیش آنے کا طریقہ اور یہ کہ اس کی دی ہوئی خبر کی تحقیق کرنا۔

۸۳

د: باغی اور سرکش سے سختی کے ساتھ پیش آنا۔

ھ: مومن کے ساتھ محبت و پیار اور نرم مزاجی کے ساتھ پیش آنا (آنے والی آیات میں)

O حدیث میں ہے کہ اپنے مومن بھائی کی خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو مدد کرو اور اس کی مدد یہ ہے کہ اُسے ظلم نہ کرنے دو اور اگر مظلوم ہو تو اس کا حق لینے میں اس کی مدد کرو۔(۱)

O مسلمانوں کو حکومت ، قدرت ، تعلیم و تربیت،اتحاد، نشرو اشاعت و تبلیغ گویا زندگی کے ہر شعبہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہونا چاہیے ورنہ ہم آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں عالمی دہشت گردوں اور ظالموں سے بدلہ نہیں لے سکتے اگر ظالم اور باغی کو کیفر کردار تک پہنچانا واجب ہے تو اس کا مقدمہ یعنی اسلامی حکومت کی تشکیل بھی واجب ہے۔

پیغامات:

اس آیت سے بہت سے درس لیے جاسکتے ہیں ہم اُن میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ ایمان، لڑائی اورجھگڑے کے مانع نہیں ہے لیکن مومنین کے درمیان کبھی کبھار نہایت مختصر مدت کے لیے پیش آتا ہے ۔ اور دوام نہیں رکھتا اس لیے کہ کلمہ''اقْتَتلُوا''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص ۲۱۲

۸۴

اسی بات کی طرف اشارہ ہے اِس لیے کہ اگر اُن کے درمیان لڑائی اور جھگڑا دائمی ہوتا تو کلمہ''یقتلون'' استعمال ہوتا ۔

۲۔ نصیحت کے آداب میں سے ہے کہ برائی کی نسبت براہ راست مخاطب کی طرف نہ دیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ اے مومنین آپ لوگ ایسے نہیں ہیں''اقْتَتلُوا''

۳۔ جنگ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور صرف دو گروہ تک محدود نہیں رہتی۔ اسی لیے فرمایا ہے''اقْتَتلُوا'' جمع کا صیغہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کلمہ''اقْتَتلا'' استعمال ہوتا۔

۵۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے مشکلات کی چارہ جوئی کرنی چاہیے اور ہرگز لاپروائی نہیں کرنی چاہیے۔

۵۔ دوستی اور صلح کرانے میںجلدی کرنی چاہیے اور بغیر کسی تاخیر کے اقدام کرنا چاہیے۔کلمہ ''فاصلحوا'' میں حرف فاء جلدی اور عدم تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔

۶۔ اگر دو گرہوں میں سے ایک تجاوز اور سرکشی کرے تو سب کو فورا ًاس کے خلاف جمع ہوجانا چاہیے(فَِنْ بَغَتْ ---- فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۷۔ اگر امن و آمان اورعدالت کے قیام کی خاطر باغی افراد کے قتل کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان کا خون مباح ہے اور انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے(فَِنْ بَغَتْ -- فَقَاتِلُوا---)

۸۔ تجاوز گری اور بغاوت کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے (فَِنْ بَغَتْ ---

۸۵

فَقَاتِلُوا)اسلامی نکتہ نظر کے مطابق سرکش اور باغی کو ہرگز مہلت اور فرصت نہیں دینی چاہیے۔

۹۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ، ٹال مٹول، سھل انگاری اور سستی سے کام نہ لیں(فقاتلوا) میں فاء فوری انجام دینے کی طرف اشارہ ہے۔

۱۰۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اس کے اہل و عیال کو ایذاء نہیں پہنچانی چاہیے بلکہ خود اس شخص کو سزا دینی چاہیے(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۱۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی قسم کی رعایت نہ کریں۔ باغی اپنا جاننے والا ہو یا غیر(فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی)

۱۲۔ مسلمانوں کا قیام ایک مقدس ہدف رکھتا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی)

۱۳۔ جنگ ہدف کے حصول تک جاری رہے گی۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲ) کسی گھنٹے، دن اور مہینے کی قید نہیں ہے۔ جیسا کہ بیمار کا ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے جانا صحت یابی تک جاری رہنا چاہیے۔

۱۵۔ باغی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں نہ تو ذاتی، قومی، گروہی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انتقام یا خودنمائی، اور غم و غصہ کم کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک خاص ہدف پایا جاتا ہے اور وہ باغی کا راہ راست پر آنا ہے۔(حَتَّی تَفِیئَ ِلَی َمْرِ اﷲِ)

۱۵۔ اگر باغی سرکش راہ راست پر آنا شروع ہوجائے تو اس کے خلاف جنگ کو روک دیا جائے۔ اس لیے کہ جنگ روکنے کی یہ شرط نہیں کہ باغی صد در صد راہ

۸۶

راست پر آچکا ہو(حَتَّی تَفِیئَ )

۱۶۔ لڑائی جھگڑے کے دوران اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ خطا کار اور باغی کون ہے تو پھر ایسے میں فتنہ و فساد کو ختم کرکے صلح و صفائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ پتہ چل جائے کہ باغی اور خطا کار فلاں گروہ ہے تو پھر صلح و صفائی مظلوم کا دفاع کرتے ہوئے اس انداز میں ہونی چاہیے کہ مظلوم کو اپنا حق مل جائے(فََصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ)

۱۷۔ مسلمانوں کا وظیفہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدل جاتا ہے کبھی اس کا وظیفہ جنگ اور کبھی صلح و صفائی ہے اس آیت میں دوبار کلمہ اصلحوا آیا ہے نیز کلمہ''قاتلوا '' بھی آیا ہے۔

۱۸۔ دو گروہ کے درمیان صلح و صفائی کیلئے جنگ میںجتنا بھی نقصان ہو وہ باغی سے لیا جائے گا۔ ''بالعدل'' حضرت امیر المومنین ـ سے منقول ہے کہ جو امت قوی اور قدرت مند سے ضعیف اور کمزور کا حق نہ لے سکے اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے۔(۱)

۱۹۔ جہاں بھی کوتاہیوں لغزشوں اور غضب و غرائز کی بھرمار ہو تو وہاں مسلسل وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔(بِالْعَدْلِ وََقْسِطُوا --- یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۰۔ ایسی اصلاح قابل تعریف و تمجید ہے جس میں صاحب حق کو اپنا حق مل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کافی، ج۵، ص ۵۶

۸۷

جائے۔ ورنہ وہ زبردستی کی خاموشی ، ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے(اصلحوا --- اقسطوا)

۲۱۔ جہاں بھی بات مشکلات کے تحمل کی ہو۔ وہاں دیرینہ اور پرانی محبت سے فائدہ اٹھانا چاہے(ِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ )

۲۲۔ وہ لوگ خدا کے محبوب قرار پاتے ہیں جو عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ورنہ عدل و انصاف کے بغیر مدمقابل کو خاموش کردینا خدا کی محبت کا سبب نہیں ہے۔(یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ)

نمونے:

٭وہ آیت جس کی تلاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔

جنگ جمل کے دوران جب جنگ کی آگ بھڑکنا ہی چاہتی تھی تو حضرت علی ـ نے انہیں جنگ شروع کرنے سے روکا۔ عائشہ کے طرفداروں نے امام ـ کے روکنے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو امام علی ـ نے خدا کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی کہ لوگ ان کی بات نہیں سن رہے او ان کی نافرمانی کررہے ہیں ایسے میں آپ نے قرآن ہاتھ میں لیا اور کہا کہ کون ہے جو اس آیت(وان طائفتان من المومنین---) کو لوگوں کے سامنے جاکر تلاوت کرے۔ مسلم مجاشعی نامی شخص آیا اور کہا میں لوگوں کے سامنے اس آیت کی تلاوت کروں گا۔ امام ـ نے فرمایا: کہ تیرے ہاتھ کاٹ کر تجھے شہید کردیا جائے گا تو اس نے جواب دیا''هذا قلیل فی ذاتِ اللّٰه'' یعنی خدا کی راہ میں تو یہ

۸۸

کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے قرآن لیا اور عائشہ کے لشکر کے سامنے آکر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ تاکہ جنگ و خونریزی نہ ہو ایسے میں اس کا سیدھا ہاتھ کاٹ دیا۔ تو اس نے قرآن الٹے ہاتھ میں لیا اور جب اس کا الٹا ہاتھ کاٹ دیا تو قرآن کو دانتوں میں لے لیا اور آخر کار عایشہ کے لشکریوں نے اُسے شہید کردیا۔ حضرت علی ـ نے اُس کی شہادت کے بعد حملہ کا فرمان جاری کیا۔(۱)

جی ہاں ابتداء میں قرآن کے ذریعہ تبلیغ اور اتمام حجت کرنی چاہیے اس کے بعد شجاعت اور بہادری کے ساتھ ہدف کے حصول تک آخری سانس تک لڑتے رہنا چاہیے۔

عدالت:

جیسا کہ اس آیت میں تین مرتبہ عدالت سے متعلق گفتگو موجود ہے۔(فاصلحوا بینهما بالعدل و اقسطوا انّ اللّٰه یحب المقسطین) اس لیے مناسب ہے کہ یہاں عدالت کے بارے میں مختصر سی بحث کی جائے۔

۱۔ انسان کی خلقت اور پیدائش حق و عدالت کے تحت ہے۔''بالعدل قامت السّموات'' (۲)

۲۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہ تھا کہ لوگ عدل و انصاف سے کام لیں(یقوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۳۲، ص ۱۷۵ (۲)۔ بحار، ج۳۳، ص ۵۹۳

۸۹

الناس بالقسط) (۱)

۳۔ عدالت زندگی اور ظلم موت ہے۔''العدل حیاة والجور ممات'' (۲)

۵۔ ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا ستر سال کی ایسی عبادت سے افضل ہے کہ جس میں دن بھر روزہ اور رات کو شب بیداری کی ہو۔(۳)

۵۔ عادل رہبر کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔(۴)

۶۔ اگر لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو خدا کی طرف سے رزق و برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔(۵)

۷۔ امام موسیٰ کاظم ـ سے مروی ہے کہ اگر تمام لوگ عدل سے کام لیں تو سب کے سب بے نیاز ہوجائیں گے۔(۶) نیز فرمایا کہ عدالت شہد سے زیادہ شیرین ہے۔

۸۔ امام موسیٰ کاظم ـ نے اس آیت(یحیی الارض بعد موتها) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: خداوند مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا۔ یعنی خداوند ایسے افراد کو مبعوث کرے گا کہ جو عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور زمین عدل و انصاف کے قیام سے زندہ ہوجائے گی۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ حدید، آیت ۲۵

(۲)۔ آثار الصادقین ،ج۱۲، ص ۵۳۰ (۳)۔ جامع السادات، ج۲، ص ۲۲۳

(۵)۔وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۱۰۸ (۵)۔کافی، ج۳، ص ۵۶۹

(۶)۔ کافی، ج۱، ص ۵۵۱ (۷)۔ کافی، ج۷، ص ۲۷۵

۹۰

۹۔ حضرت فاطمہ زہرا ٭ سے منقول ہے کہ عدالت دلوں کے لیے آرام و سکون کا باعث ہے۔(۱)

(جی ہاں لوگ فقر و فاقہ کے ساتھ تو زندگی گزار سکتے ہیں مگر نا انصافی اور بے عدالتی کو برداشت نہیں کرپاتے اور جلد ہی غم و غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں)

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت

عام طور سے عدالت یعنی قانون کی پابندی اور بے عدالتی یعنی قانون کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اگر کسی کی نظر میں خود قانون ہی کی کوئی اہمیت نہ ہو تو پھر وہ کس طرح اس پر عمل کرسکتا ہے۔

ایسا قانون جو خود ہم انسانوں نے بنایا ہو۔ ایسا قانون جو ہر روز تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ایسا قانون جس سے شخصی اور قومی مفادات وابستہ ہیں۔ ایسا قانون جو غیر پختہ افکار، محدود اطلاعات ، ہوا و ہوس ملک اور قوم پرستی ، خوف اور خواہشات نفسانی کا نتیجہ ہے۔

ایسا قانون جو ہر زمان و مکان کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر طاقتور اُسے اپنے حق میںبدل دیتا ہے۔ ایسا قانون کے جس کے بنانے والے خود اُس پر بہت سے اعتراض اور اس کے نقائص بیان کرتے ہیں اور وہ خود بھی اُس پر عمل نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص ۵۶۷

۹۱

کیا یہ قوانین انسان کو پاکیزگی اور قداست عطا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کے لیے عزت ، شرافت فراہم کرسکتے ہیں کیا اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی ظلم اور بے انصافی ہے؟

لیکن وہ قوانین جو انسان کے پیدا کرنے والے کے علم و حکمت اور لطف و کمال کا نتیجہ ہیں۔ جنکا لانے والا معصوم اور خود سب سے پہلے اُن قوانین پر عمل کرنے والا ہے۔ ایسا قانون جو کسی بھی ذات ، قدرت اور گروہ سے متاثر نہیں ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی پاکیزگی کرامت اور قدرت کا باعث ہے ایسے قانون پر عمل کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کی خلاف ورزی ظلم اور خلاف عدالت ہے۔

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ

عقیدہ توحید میں عدل ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ ہر مسلمان خداوند عالم کو عادل، ہرچیز کو منظم اور خدا کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت انسان تمام انسانوں کی ابتداء خاک اور انتہا قیامت میں خداوند متعال کی عدالت میں حاضر ہونا جانتا ہے۔

ادیان الٰہی کے نکتہ نگاہ سے تمام انبیاء کرام کے آنے کا مقصد قیام عدل ہے۔ آخری امام حضرت امام زمانہ ـ کے انتظار کے عقیدہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ قیامت پر یقین ایک ایسا عقیدہ

۹۲

ہے جو اس بات پر استوار ہے کہ زمین کا ہر خشک و تر مکمل نظم و ضبط کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ خداکی طرف سے برگزیدہ انبیاء و رسل اپنے آپ کو عادل اور عدالت کا قائم کرنے والا کہلواتے ہیں۔

جی ہاں عقائد، انسان میں عدالت کے قیام کا بہترین پیش خیمہ ہیں لیکن جو اس کائنات کو لاوارث اور بے نظم سمجھتا ہو خلقت اور مخلوق کو حادثہ کا نتیجہ سمجھتا ہو اور موت کو نیستی و نابودی تصور کرتا ہو، پوری دنیا کو بغیر ہدف کے اور عبث تصور کرتا ہو ایسے آدمی کے پاس عدالت کے قیام کے لیے کوئی مقدمہ فراہم نہیں ہے۔

جی ہاں یہ ممکن ہے کہ چند ایک روز کے لیے معاشرتی دباؤ یا جرائم اور قانونی سزاؤں سے بچنے یاپھر لوگوں کی جانب محبت اور کسب نظر کی وجہ سے خطا نہ کرے اور عارضی طور پر کچھ عرصے کے لیے عدل و انصاف سے کام لے۔ لیکن یہی شخص کیوں کہ کائنات اور موجودہ اشیاء کو عبث اور بغیر ہدف کے سمجھتا ہے اور اسی مادّی نظریے کی وجہ سے عدالت کو دل سے قبول نہیں کرتا ہے۔

عدل کی وسعت:

عدالت اسلام کا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ خدا کی توحید کے بعد اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرجع تقلید، امام جمعہ و جماعت، قاضی اور بیت المال کے خزانچی میں بھی عادل ہونے کی شرط ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اسلام کے ہر قانون میں عدالت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اور ہر مرحلہ اور مسئلہ میں ہر قسم کی افراط و تفریط سے روکا گیا ہے من جملہ۔

۹۳

۱۔ عبادت میں عدالت۔ یہاں تک کہ احادیث کی کتب میں ایک باب بعنوان ''الاقتصاد فی العبادة'' موجود ہے جس میں اُن روایات کو بیان کیا گیا ہے جو عبادت میں میانہ روی کو بیان کرتی ہیں۔

۲۔ کام کاج اور تفریح میں عدالت۔

۳۔ غیض و غضب اور محبت میں عدالت۔

۵۔ دوست اور دشمن دونوں کے لیے عدالت۔

۵۔ ملامت و سرزنش اور تعریف و تمجید میں عدالت۔

۶۔ پیداوار اور استعمال میں عدالت۔

۷۔ بیت المال کی تقسیم بندی اور وصیت میں عدالت۔

۸۔ اہل و عیال اور دوست احباب کے درمیان عدالت۔

۹۔ قضاوت اور فیصلہ کے دوران عدالت۔

۱۰۔ قصاص میں عدالت۔

۱۱۔ جنگ میں عدالت۔

۱۲۔ حیوانات کے ساتھ برتاؤ میں عدالت۔ یہاں تک کہ امام علی ـ زکات کی جمع آوری کرنے والے شخص سے یہ فرماتے ہیں کہ زکات میں ملے ہوئے جانوروں پر سواری میں بھی عدالت سے کام لینا۔(۱) مثال کے طور پر اگر زکات میں چار اونٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ نہج البلاغہ، مکتوب ۲۵

۹۴

ملے اور تم دو گھنٹے سفر میں ہو تو ہر اونٹ پر آدھا گھنٹہ سوار ہونا۔ ایک اور مقام پر آپ ـفرماتے ہیں کہ اگر کوئی حاجی جلدی مکہ پہنچنے کی وجہ سے اپنے جانور کو حد سے زیادہ تھکا دے تو اس کی گواہی مسائل حقوقی میں قبول نہ کرو اس لیے کہ اس نے اپنے جانور پر ظلم کیا ہے۔(۱)

بہرحال اسلام کی ہر چیز میں عدالت سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر مسجد میں کسی مقام پر کوئی بچہ بیٹھا ہوا ہو اور آپ اُسے اٹھا کر وہاں نماز ادا کریں تو ایسی صورت میں نماز میں اشکال ہے۔(۲)

نمونے:

٭قرآن کریم نے اہل حجاز کو۔ جو اپنے کو دوسروں سے برتر اور جدا تصور کرتے تھے۔ حکم دیا کہ اُسی طرح حج ادا کرو جس طرح دوسرے لوگ حج ادا کرتے ہیں(آفیضوا من حیث افاض النّاس) (۳)

جب بھی ثروت مند افراد انبیاء سے یہ چاہتے تھے کہ وہ فقراء کو اپنی بارگاہ سے نکال دیں تو یہی جواب سنتے تھے(مأ انٰا بِطَارد الّذین اٰمنوا) (۴)

٭پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے آخری سفر میں تمام لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: تمام مسلمان چاہے وہ کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں برابر ہیں۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔وسائل الشیعہ،کتاب الحج (۲)۔ توضیح المسائل (۳)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۹۹

(۵)۔ سورئہ مبارکہ ہود، آیت ۲۹ (۵)۔ سفینة البحار، ج۲، ص ۳۵۸

۹۵

بعض سیاستدان اور مصلحت پسند افراد نے مولائے کائنات حضرت علی ـ سے عرض کیا کہ فقراء اور غلاموں کا حصہ ان کے حصے سے الگ کرکے قوم کے بڑے لوگوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ تاکہ حکومت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں اور وہ کسی قسم کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اور وہ معاویہ سے ملحق نہ ہوں۔ تو آپ نے فرمایا:کہ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں انہیں خراج (ٹیکس) ادا کروں ہرگز ایسا نہ ہوگا جس کا دل چاہے رُکے اور جس کا دل چاہے چلا جائے۔(۱) نیز امام ـ ہی نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں فرمایا تھا کہ مجھے سے پہلے بیت المال سے جتنا بھی پیسہ بے جا مصرف ہوا ہے۔ وہ سب واپس بیت المال میں پلٹا دیا جائے گا چاہے اس پیسے سے غلام خریدے گئے ہوں یا بطور مہر ادا کیا گیا ہو۔(۲)

٭حضرت علی ـ نے فرمایا:کہ جب میں اپنے ذاتی مال کو بغیر مساوات کے تقسیم نہیں کرسکتا تو پھر خدا کے مال (بیت المال) کو کس طرح مساوات کے بغیر تقسیم کروں۔(۳)

٭پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو سب سے پہلے جہنم میں جائے گا۔ وہ حاکم ہے جو عدل و انصاف سے کام نہ لے۔(۴)

٭اگر کسی شخص کے زیر کفالت دس افراد ہوں اور وہ ان کے درمیان عدالت سےکام نہ لے تو وہ قیامت میں اس طرح محشور کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پیر بندھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص ۱۰۷ (۲)۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵

(۳)۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۶ (۵)۔ میزان الحکمہ

۹۶

ہوئے ہونگے۔(۱)

یہ وہ چند نکات تھے جو مجھ جیسے طالب علم کے لیے آیت سے کشف ہوئے ہیں۔ انسان قربان جائے ایسی کتاب کے جس کے ہر کلمہ میں ایک ایسا درس پوشیدہ ہے کہ جس کی تازگی اور شادابی کو زمین و زمان کی تبدیلی نہیں چھین سکتی ہے تاکہ اور بہتر انداز سے اس کتاب کو سمجھا جاسکے آپ سے گزارش ہے کہ ایک ایسی سطر لکھیں جس کے ہر کلمہ میں صحیح، منطقی اور ایسے جاویدان نکات پوشیدہ ہوں جن سے رہتی دنیا تک استفادہ ہوتا رہے !!

٭پروردگارا: تجھے قرآن کے ہر کلمہ کا واسطہ کہ ہمیں ہدایت کے بعد لغزشوں سے دوچار نہ فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ۔ میزان الحکمہ

۹۷

آیت نمبر ۱۰

ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ ِخْوَة فََصْلِحُوا بَیْنَ َخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی جیسے ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔

٭اس آیت میں مومنین کے رابطے کو دو بھائیوں کی مانند پیش کیا گیا ہے اور اس تعبیر میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

الف: دو بھائی دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے بازو ہوتے ہیں۔

ب: دو بھائیوں کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔

ج: آج کے دور میں آپس کے تعلق اور روابط کے لیے دوست ، ہم شہر، ہم وطن جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مگر اسلام نے اس رابطے کے اظہار کے لیے بھائی کا لفظ استعمال کیا ہے جوان سب سے زیادہ مفید اور گہرے معنی رکھتا ہے۔

د: دو بھائیوں کی دوستی باہمی ہوتی ہے۔

ھ: حدیث میں دو دینی بھائیوں کی دوستی کو دو ہاتھوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہاتھ دھوتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ محجة البیضائ

۹۸

٭ اس آیت میں اور اس سے قبل آیت میں مجموعی طور پر کلمہ ''أصلحوا'' تین بار آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام صلح و آشتی پر کتنی توجہ دیتا ہے۔

٭مسلمانوں کے آپس میں جھگڑنے سے تلخ حوادث رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپس میں ناراضگی، سوئِ ظن، غلط پروپیگنڈا، انتقام جوئی، اور فتنہ و فساد زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے اِن آیات میں ان جملوں ۔أصلحوا، أقسطوا، یحب المقسطین، اِخوة، اخویکم، اتّقوا، ترحمون، کے ذریعہ جنگوں سے حاصل شدہ زخموں پر مرہم رکھا ہے۔

پیغامات:

۱۔ اخوت و برادری کا راز فقط ایمان میں پوشیدہ ہے ۔ (معاشی، سیاسی، نسلی، جغرافیائی اور تاریخی مسائل کے ذریعہ لوگوں میں اخوت و برادری کی روح پیدا نہیں کی جاسکتی )(انّما المومنون الاخوة)

جان گرگان و سگان از ھم جدااست

متحد جان ھای شیران خدا است

ترجمہ :بھیڑیوں اور کتوں کا اتحاد ممکن نہیں البتہ خدا کے شیروں کا اتحاد ممکن ہے۔

۲۔ اخوت و برادری کی بنیاد پر ایمان ہے اور زمان و مکان ، عمر اور پیشہ کی پابند نہیں ہے۔( انّما المومنون الاخوة)

۳۔ کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے پر برتر نہ سمجھے''اخوة'' البتہ والدین اولاد پر

۹۹

برتری رکھتے ہیں لیکن بھائیوں کے درمیان مساوات ہے۔

۵۔ صلح و آشتی کے لیے محبت آمیز، نفسیاتی اور تعمیری گفتگو کرنی چاہیے۔''اِخْوة فَاصلِحُوا''

۵۔ صلح و آشتی کرانا ہر مسلمان پر واجب ہے اور کسی خاص گروہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔''فَاصلِحُوا''

۶۔ صلح کرانے والا بھی دونوں گروہوں کا بھائی ہے۔ بَینْ أخوّیکم

۷۔ صلح و آشتی کرانے میں کچھ آفات بھی ہیں لہٰذا احتیاط سے کام لینا چاہیے۔''فاصلحوا--- واتقوا'' (صلح و آشتی کرانے کی بعض آفات یہ ہیں۔ خودنمائی، توقع، ظلم و ستم اور احسان جتانا وغیرہ۔

۸۔ ایسا معاشرہ جو جنگ و جدل میں مصروف ہوجائے رحمت خدا سے محروم رہتا ہے۔''فاصلحوا --- واتقوا --- ترحمون''

۹۔ صلح و صفائی رحمت الٰہی کے نزول کا پیش خیمہ ہے۔''فاصلحوا --- ترحمون''

اخوت و برادری:

اسلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل جڑ سے شروع ہوتا ہے۔ مثال کے طو پر قرآن مجید میں ہے(انّ العزة للّٰه جمیعًا) (۱) تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ یونس، آیت ۶۵

۱۰۰

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160