معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 104
مشاہدے: 27627
ڈاؤنلوڈ: 2060


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27627 / ڈاؤنلوڈ: 2060
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معارف اسلامی کورس

( عقائد، احکام،اخلاق )

( 1 )

ترتیب و تدوین

سیّد نسیم حیدر زیدی

۱

فہرست

پیشگفتار 5

حصہ اوّل 8

( عقائد ) 8

درس نمبر1 9

( خدا کی پہچان ) 9

درس نمبر 2 12

( خدا کے صفات ) 12

درس نمبر 3 16

( صفات سلبیہ ) 16

درس نمبر4 20

( توحید ) 20

درس نمبر 5 24

( عدل ) 24

دوسری دلیل : 25

درس نمبر6 27

( نبوت ) 27

درس نمبر 7 31

( نبی کے شرائط ) 31

درس نمبر8 35

( آخری نبی ) 35

۲

درس نمبر9 38

( امامت ) 38

درس نمبر10 42

( قیامت ) 42

( حصہ دوم ) 45

( احکام ) 45

درس نمبر11 46

( تقلید ) 46

درس نمبر 12 49

( نجاسات ) 49

( مطہرات ) 49

درس نمبر 13 51

( وضو ) 51

( غسل ) 51

( تیمم کا طریقہ ) 53

درس نمبر 14 55

( نماز ) 55

درس نمبر51 59

( نماز پڑھنے کا طریقہ ) 59

درس نمبر 16 64

( نماز کے ارکان ) 64

۳

درس نمبر 17 67

( روزہ ) 67

درس نمبر18 70

( زکوٰة ) 70

( خمس ) 71

درس نمبر 19 73

( حج ) 73

( جہاد ) 74

درس نمبر 20 76

( امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) 76

حصہ سوم 79

( اخلاق ) 79

درس نمبر 21 80

( اخلاق ) 80

درس نمبر22 83

( ایمان اور عمل میں اخلاص ) 83

درس نمبر 23 87

( ماہ رمضان اور روزہ ) 87

درس نمبر 24 90

( انفاق اور صدقہ ) 90

درس نمبر25 99

( امانت اور امانت داری ) 99

۴

پیشگفتار

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت کچھ سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی ، انسان کی عقل اچھے اور برے ، غلط اور صحیح ، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے ،اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔ ان سوالات میں سے کچھ کا تعلق ''اصول دین ''سے ہوتا ہے ،کچھ کا تعلق ''فروع دین ''سے اور کچھ کا تعلق'' اخلاق '' سے ہوتا ہے

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں صحیح تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب نوجوان ''معارف اسلامی ''سے نا آگاہ ہیں جسکی وجہ سے بعض ایسے خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائدکا حصہ سمجھتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور پھر وہ ان ہی باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری ،پھر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے چلے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں ، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذہب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں ، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے ، غلط و صحیح میں تمیز نہیں دے پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی

۵

بسر کرتے ہیں ، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں ، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت نوجوانوں کو صحیح معارف اسلامی سے آگاہ کریں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں ، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں ، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب معارف اسلامی کورس کے عنوان سے دو جلدوں میں دو مختلف سطحوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کیلئے ترتیب دی گئی ہے ، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بھرپور توجہ رکھی گئی ہے ۔

1۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اختصار کے سبب صرف ضروری حوالوں پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔

2۔حتیٰ الامکان لکھنے میں علمی اصطلاحوں سے گریز کیا گیا ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لئے تھکاو ٹ کا سبب نہ بنے ۔

4۔ مشکوک و مخدوش ، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ 5۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر

۶

واجب ہے ، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں عقائد ،احکام اور اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اختصارکے پیش نظر صرف چیدہ چیدہ مطالب کو بیان کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس ناچیزکوشش کو قبول فرمائے۔ اور تمام ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے جھنوں نے اس کوشش میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا۔ طالب دعا

سید نسیم حیدر زیدی

۷

حصہ اوّل

( عقائد )

۸

درس نمبر1

( خدا کی پہچان )

خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رہا ہے ، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی ہے مثال کے طور پر اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس کا بنانے والا ، کوئی ضرور ہوگا ، کسی کے خیال میں بھی یہ نہیں آتا کہ یہ خودبخود تیار ہو گیا ہوگا ۔

اگر ہم میز پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے تویہ دیکھ کر ہمیں اطمینان سا ہوجاتاہے کہ ہماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا ، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ہے اگر کوئی کہے جناب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ہی اس پر رواں ہو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ہیں تو ہم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات کوغیر معقول قرار دینگے ۔آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نہیں ہوتا ہے ، اور اس کی تلاش ہر شخص کو ہوتی ہے ، اب میں آپ سے سوال کروں کہ کیا یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ہوگئی ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے ، اتنی بڑی اور منظم دنیا رواں دریا ، چمکتے ہوئے ستارے اور دمکتا ہوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا ، فصلوں کی تبدیلی ، درختوں کے شباب ، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نہیں ہو سکتا ۔

۹

دنیا میں نظم و ترتیب :

اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو اوراس میںرہنے والوںکیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراہم ہوں تو ہماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ ہر لحاظ سے منظم عمارت خود بخود وجود میں نہیں آئی ہو گی ۔ بلکہ اس کابنانے اور سنوارنے والا کوئی با ہوش مدبر ہے ،جس نے اسے نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ہے ۔

اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا گیا ہے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتہا باقی نہ رہے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گہرا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ہے جس سے ہمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نہیں آئی ہیں ۔

بلکہ پیدا کرنے والے نے بہت ہی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ہے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گہرا رابطہ پیدا کر سکے ؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نہیں ہے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ہے ؟ کیا طبیعت کے بس میں ہے جو انسان کے منھ میں ایسے غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ہمیشہ تروتازہ بنا رہے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ہر لقمہ اور ہر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ہے خود بخود بن جائے گی ؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ہیں خود بخود خلق ہوئے ہیں ؟وہ کونسی چیز ہے جو بڑے غدود(لوزالمعدہ) کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیّال اور

۱۰

غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکائو کرے ؟ کیا انسان کے اعضاء پنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ہیں ؟وہ کیا چیز ہے جو دل کو مجبور کرتی ہے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین ( Protein ) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پہنچائے ؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ہے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھے ہوئے ہے ۔

سوالات:

1۔خدا کو پہچاننے کا طریقہ بیان کریں ؟

2۔ اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں کس بات کا یقین ہوتا ہے ؟

3۔اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو تو ہماری عقل کیا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو تی ہے؟

۱۱

درس نمبر 2

( خدا کے صفات )

خدا کے صفات : اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

( 1 ) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

( 2 ) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔

صفات ثبوتیہ :

ہر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اہمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کے کامل ہونے کو بیان کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے ، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کہتے ہیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم وغیرہ

ان صفات کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ہیں ،اگر ہم دو آدمیوں میں علم و جہل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ہیں کہ جاہل کے مقابلے میں عالم پُر اہمیت اور فائدہ بخش ہے ، لہٰذا یہ عالم ،جاہل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پہلو رکھتا ہے لہذا ہم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ہے ، اور ایسے ہی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پرصفات جمالیہ کی حقیقت و برتری کھل کر روشن ہوجائیگی اور یہ تمام صفا ت خدا کے لئے ثابت ہیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک سادہ سی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں ۔

۱۲

خداوند عالم نے تمام کمالات ،خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کمالات خوداس کے پاس موجود نہ ہو اگر اس کے پاس نہ ہوںتو دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے ( فاقد الشیء لا یعطی الشی ئ) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ہیں ، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ہے، جب تک چراغ روشن نہ ہو ، دوسروں کو روشن نہیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ہو دوسری چیزوں کو تر نہیں کر سکتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ : خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ہیں :

1۔ قدرت : خدا قادر ہے یعنی جس کام کو انجام دینا چاہے انجام دیتا ہے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نہیں ہے ا

2۔ علم : خدا عالم ہے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ہے ۔

3۔ حیات : خدا زندہ وحی ہے اور اپنی حیات میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

4۔ ارادہ : خدا مرید ہے یعنی اپنے کاموں کو خود اپنے قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے 5۔ بصیر ہے: خداوند عالم دیکھنے والا ہے تما م پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

6۔ سمیع ہے : خدا سننے والا ہے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ہے کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔

7۔ قدیم و ابدی ہے : قدیم یعنی ہمیشہ سے ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے ابدی یعنی

ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

۱۳

8۔ متکلم ہے : حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کہتے ہیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ہیں ۔

یاد دہانی :

چونکہ ہم ناقص ہیںاس لئے ہم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نہیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ہیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ہیں دیکھنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے آنکھ کے محتاج ہیں، چلنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی پائوں کے نیازمند ہیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ہے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نہیں ہے ، خداوند عالم قادر مطلق ہے ،بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے ، بغیر کان کے سنتا ہے ، بغیر اعضا وجوارح ( جسم و جسمانیت سے خالی ) کے تمام کام کو انجام دیتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں : (1) صفات ذاتیہ (2) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ : ان صفات کو کہا جاتا ہے جو ہمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ہیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نہیں ہے ، ان کو صفات ذاتیہ کہتے ہیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پہلے ،قادر ہے چاہے کسی چیز کو نہ پیدا کرے ، ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا موجودات رہیں یا نہ رہیں ، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ہیں ، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نہیں

۱۴

ہو سکتی ہے ،اس لئے کہ وہ عین ذات ہے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ہونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ہے ۔

صفات فعلیہ :ان صفات کو کہتے ہیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ہیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا ، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کہا گیا ، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ہوا ، جب بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کہلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

سوالات:

1۔صفات ثبوتیہ کن صفات کو کہتے ہیں ؟

2۔صفات ثبوتیہ کی کتنی قسمیں ہیں ہرایک کی وضاحت کیجئے ؟

3۔ آنے والی صفات میں سے صفات ثبوتیہ فعلیہ جدا کیجئے ،عالم ،خالق ،ستّار ،غفّار ،کریم ،حی ،قادر

۱۵

درس نمبر 3

( صفات سلبیہ )

ہر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ہے اسے صفات سلبیہ کہتے ہیں ،خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نہیں پایا جاتا ہے ، لہذا ہر وہ صفت جو خدا کے نقص یا عیب پر دلالت کرے اسے خدا سے دور رکھنا ضروری ہے

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ہیں :

( 1 ) خدا مرکب نہیں ہے :ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے ، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے ، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی

( 2 ) خدا جسم نہیں رکھتا : اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں ، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے ، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔اوردوسرے یہ کہ ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے ، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

۱۶

( 3 ) خدا مرئی نہیں : خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے ، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

( 4 ) خدا جاہل نہیں ہے : جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا ، خدا ہر چیز کا عالم ہے ، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے ، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم ہرعیب و نقص سے پاک ہے۔

( 5 ) خدا عاجز و مجبور نہیں : پہلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ہے کہ خدا ہر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نہیں ہے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ہے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ہے۔

( 6 ) خدا محل حوادث نہیں : خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نہیں ہے جیسے کمزوری ، پیری ،جوانی اس میں نہیں پائی جاتی ہے ، اس کو بھوک ،پیاس، غفلت اور نیند نیزتھکاوٹ وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا ، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ہیں اور پہلے گذر چکا ہے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ہے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نہیں ہے ۔

( 7 ) خدا کا شریک نہیں : اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

( 8 ) خدا مکان نہیں رکھتا : خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نہیں ہے ۔

٭سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے

۱۷

ہیں ؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ہے ، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ہے ۔

٭مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گھر کیوں کہتے ہیں ؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ہوتی ہے ، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ہے جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گھر کہا ہے ورنہ خدا ہر جگہ و ہر طرف موجود ہے ،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ) (1) پس تم جس جگہ بھی اپنا رخ کر لو توسمجھوکہ وہیں خدا موجود ہے۔

( 9 ) خدا محتاج نہیں : خداوند عالم کسی شی کا محتاج نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کی ذات ہر ارعتبار سے کامل و تام ہے اس میں نقص اور کمی موجود نہیں ہے جو کسی چیز کا محتاج ہو اور اگر محتاج ہے تو پھر واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

٭کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

جئسا کہ عرض کیا ہے کہ خدا کی ذات ناقص نہیں ہے جو وہ ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے ، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ہمیشہ آباد رہنے والی جنت کے لائق ہو جائے ۔

( 10 ) خدا ظالم نہیں : اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ بقرہ آیت 115۔

۱۸

سوالات:

1۔صفات سلبیہ کی تعریف کیجئے ؟

2۔کوئی بھی پانچ صفات سلبیہ بیان کیجئے ؟

3۔اگر خدا مکان نہیں رکھتا تو پھر دعا کے وقت ہاتھوں کوآسمان کی طرف کیوںاٹھاتے ہیں ؟

4۔کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

۱۹

درس نمبر4

( توحید )

ا ﷲتبارک و تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے ، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ہے اس لیے کہ اگر دو خدا ( یا اس سے زیادہ ) ہوتے تو چند حالتیں ممکن ہیں ۔

پہلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ہے ، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ہیں ۔

پہلی حالت : دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ( یعنی ہر چیز دو دفعہ خلق ہوئی ہے ) اس کا باطل ہونا واضح ہے ۔ چونکہ ہر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نہیں ہے ۔

دوسری حالت : ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد ( شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ہے ، یعنی ہر موجود دو خدا کی مخلوق ہو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ہوں یہ احتمال بھی باطل ہے ۔

کیونکہ یا توتنہا موجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پہلے گذرچکی ہے کہ خدا عاجز و محتاج نہیں ہوتا ۔یا یہ کہ دونوں خلق پر قادر ہیں لیکن پھر بھی دونوں

۲۰