معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )50%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31291 / ڈاؤنلوڈ: 3050
سائز سائز سائز

معارف اسلامی کورس

( عقائد، احکام،اخلاق )

( ۱ )

ترتیب و تدوین

سیّد نسیم حیدر زیدی

۱

فہرست

پیشگفتار ۵

حصہ اوّل ۸

( عقائد ) ۸

درس نمبر۱ ۹

( خدا کی پہچان ) ۹

درس نمبر ۲ ۱۲

( خدا کے صفات ) ۱۲

درس نمبر ۳ ۱۶

( صفات سلبیہ ) ۱۶

درس نمبر۴ ۲۰

( توحید ) ۲۰

درس نمبر ۵ ۲۴

( عدل ) ۲۴

دوسری دلیل : ۲۵

درس نمبر۶ ۲۷

( نبوت ) ۲۷

درس نمبر ۷ ۳۱

( نبی کے شرائط ) ۳۱

درس نمبر۸ ۳۵

( آخری نبی ) ۳۵

۲

درس نمبر۹ ۳۸

( امامت ) ۳۸

درس نمبر۱۰ ۴۲

( قیامت ) ۴۲

( حصہ دوم ) ۴۵

( احکام ) ۴۵

درس نمبر۱۱ ۴۶

( تقلید ) ۴۶

درس نمبر ۱۲ ۴۹

( نجاسات ) ۴۹

( مطہرات ) ۴۹

درس نمبر ۱۳ ۵۱

( وضو ) ۵۱

( غسل ) ۵۱

( تیمم کا طریقہ ) ۵۳

درس نمبر ۱۴ ۵۵

( نماز ) ۵۵

درس نمبر۵۱ ۵۹

( نماز پڑھنے کا طریقہ ) ۵۹

درس نمبر ۱۶ ۶۴

( نماز کے ارکان ) ۶۴

۳

درس نمبر ۱۷ ۶۷

( روزہ ) ۶۷

درس نمبر۱۸ ۷۰

( زکوٰة ) ۷۰

( خمس ) ۷۱

درس نمبر ۱۹ ۷۳

( حج ) ۷۳

( جہاد ) ۷۴

درس نمبر ۲۰ ۷۶

( امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) ۷۶

حصہ سوم ۷۹

( اخلاق ) ۷۹

درس نمبر ۲۱ ۸۰

( اخلاق ) ۸۰

درس نمبر۲۲ ۸۳

( ایمان اور عمل میں اخلاص ) ۸۳

درس نمبر ۲۳ ۸۷

( ماہ رمضان اور روزہ ) ۸۷

درس نمبر ۲۴ ۹۰

( انفاق اور صدقہ ) ۹۰

درس نمبر۲۵ ۹۹

( امانت اور امانت داری ) ۹۹

۴

پیشگفتار

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت کچھ سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی ، انسان کی عقل اچھے اور برے ، غلط اور صحیح ، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے ،اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔ ان سوالات میں سے کچھ کا تعلق ''اصول دین ''سے ہوتا ہے ،کچھ کا تعلق ''فروع دین ''سے اور کچھ کا تعلق'' اخلاق '' سے ہوتا ہے

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں صحیح تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب نوجوان ''معارف اسلامی ''سے نا آگاہ ہیں جسکی وجہ سے بعض ایسے خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائدکا حصہ سمجھتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور پھر وہ ان ہی باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری ،پھر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے چلے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں ، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذہب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں ، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے ، غلط و صحیح میں تمیز نہیں دے پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی

۵

بسر کرتے ہیں ، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں ، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت نوجوانوں کو صحیح معارف اسلامی سے آگاہ کریں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں ، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں ، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب معارف اسلامی کورس کے عنوان سے دو جلدوں میں دو مختلف سطحوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کیلئے ترتیب دی گئی ہے ، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بھرپور توجہ رکھی گئی ہے ۔

۱۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اختصار کے سبب صرف ضروری حوالوں پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔

۲۔حتیٰ الامکان لکھنے میں علمی اصطلاحوں سے گریز کیا گیا ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لئے تھکاو ٹ کا سبب نہ بنے ۔

۴۔ مشکوک و مخدوش ، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ ۵۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر

۶

واجب ہے ، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں عقائد ،احکام اور اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اختصارکے پیش نظر صرف چیدہ چیدہ مطالب کو بیان کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس ناچیزکوشش کو قبول فرمائے۔ اور تمام ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے جھنوں نے اس کوشش میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا۔ طالب دعا

سید نسیم حیدر زیدی

۷

حصہ اوّل

( عقائد )

۸

درس نمبر۱

( خدا کی پہچان )

خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رہا ہے ، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی ہے مثال کے طور پر اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس کا بنانے والا ، کوئی ضرور ہوگا ، کسی کے خیال میں بھی یہ نہیں آتا کہ یہ خودبخود تیار ہو گیا ہوگا ۔

اگر ہم میز پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے تویہ دیکھ کر ہمیں اطمینان سا ہوجاتاہے کہ ہماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا ، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ہے اگر کوئی کہے جناب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ہی اس پر رواں ہو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ہیں تو ہم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات کوغیر معقول قرار دینگے ۔آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نہیں ہوتا ہے ، اور اس کی تلاش ہر شخص کو ہوتی ہے ، اب میں آپ سے سوال کروں کہ کیا یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ہوگئی ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے ، اتنی بڑی اور منظم دنیا رواں دریا ، چمکتے ہوئے ستارے اور دمکتا ہوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا ، فصلوں کی تبدیلی ، درختوں کے شباب ، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نہیں ہو سکتا ۔

۹

دنیا میں نظم و ترتیب :

اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو اوراس میںرہنے والوںکیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراہم ہوں تو ہماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ ہر لحاظ سے منظم عمارت خود بخود وجود میں نہیں آئی ہو گی ۔ بلکہ اس کابنانے اور سنوارنے والا کوئی با ہوش مدبر ہے ،جس نے اسے نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ہے ۔

اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا گیا ہے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتہا باقی نہ رہے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گہرا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ہے جس سے ہمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نہیں آئی ہیں ۔

بلکہ پیدا کرنے والے نے بہت ہی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ہے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گہرا رابطہ پیدا کر سکے ؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نہیں ہے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ہے ؟ کیا طبیعت کے بس میں ہے جو انسان کے منھ میں ایسے غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ہمیشہ تروتازہ بنا رہے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ہر لقمہ اور ہر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ہے خود بخود بن جائے گی ؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ہیں خود بخود خلق ہوئے ہیں ؟وہ کونسی چیز ہے جو بڑے غدود(لوزالمعدہ) کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیّال اور

۱۰

غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکائو کرے ؟ کیا انسان کے اعضاء پنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ہیں ؟وہ کیا چیز ہے جو دل کو مجبور کرتی ہے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین ( Protein ) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پہنچائے ؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ہے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھے ہوئے ہے ۔

سوالات:

۱۔خدا کو پہچاننے کا طریقہ بیان کریں ؟

۲۔ اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں کس بات کا یقین ہوتا ہے ؟

۳۔اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو تو ہماری عقل کیا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو تی ہے؟

۱۱

درس نمبر ۲

( خدا کے صفات )

خدا کے صفات : اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

( ۱ ) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

( ۲ ) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔

صفات ثبوتیہ :

ہر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اہمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کے کامل ہونے کو بیان کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے ، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کہتے ہیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم وغیرہ

ان صفات کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ہیں ،اگر ہم دو آدمیوں میں علم و جہل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ہیں کہ جاہل کے مقابلے میں عالم پُر اہمیت اور فائدہ بخش ہے ، لہٰذا یہ عالم ،جاہل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پہلو رکھتا ہے لہذا ہم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ہے ، اور ایسے ہی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پرصفات جمالیہ کی حقیقت و برتری کھل کر روشن ہوجائیگی اور یہ تمام صفا ت خدا کے لئے ثابت ہیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک سادہ سی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں ۔

۱۲

خداوند عالم نے تمام کمالات ،خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کمالات خوداس کے پاس موجود نہ ہو اگر اس کے پاس نہ ہوںتو دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے ( فاقد الشیء لا یعطی الشی ئ) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ہیں ، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ہے، جب تک چراغ روشن نہ ہو ، دوسروں کو روشن نہیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ہو دوسری چیزوں کو تر نہیں کر سکتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ : خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ہیں :

۱۔ قدرت : خدا قادر ہے یعنی جس کام کو انجام دینا چاہے انجام دیتا ہے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نہیں ہے ا

۲۔ علم : خدا عالم ہے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ہے ۔

۳۔ حیات : خدا زندہ وحی ہے اور اپنی حیات میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

۴۔ ارادہ : خدا مرید ہے یعنی اپنے کاموں کو خود اپنے قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے ۵۔ بصیر ہے: خداوند عالم دیکھنے والا ہے تما م پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

۶۔ سمیع ہے : خدا سننے والا ہے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ہے کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔

۷۔ قدیم و ابدی ہے : قدیم یعنی ہمیشہ سے ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے ابدی یعنی

ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

۱۳

۸۔ متکلم ہے : حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کہتے ہیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ہیں ۔

یاد دہانی :

چونکہ ہم ناقص ہیںاس لئے ہم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نہیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ہیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ہیں دیکھنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے آنکھ کے محتاج ہیں، چلنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی پائوں کے نیازمند ہیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ہے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نہیں ہے ، خداوند عالم قادر مطلق ہے ،بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے ، بغیر کان کے سنتا ہے ، بغیر اعضا وجوارح ( جسم و جسمانیت سے خالی ) کے تمام کام کو انجام دیتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) صفات ذاتیہ (۲) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ : ان صفات کو کہا جاتا ہے جو ہمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ہیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نہیں ہے ، ان کو صفات ذاتیہ کہتے ہیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پہلے ،قادر ہے چاہے کسی چیز کو نہ پیدا کرے ، ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا موجودات رہیں یا نہ رہیں ، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ہیں ، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نہیں

۱۴

ہو سکتی ہے ،اس لئے کہ وہ عین ذات ہے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ہونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ہے ۔

صفات فعلیہ :ان صفات کو کہتے ہیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ہیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا ، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کہا گیا ، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ہوا ، جب بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کہلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

سوالات:

۱۔صفات ثبوتیہ کن صفات کو کہتے ہیں ؟

۲۔صفات ثبوتیہ کی کتنی قسمیں ہیں ہرایک کی وضاحت کیجئے ؟

۳۔ آنے والی صفات میں سے صفات ثبوتیہ فعلیہ جدا کیجئے ،عالم ،خالق ،ستّار ،غفّار ،کریم ،حی ،قادر

۱۵

درس نمبر ۳

( صفات سلبیہ )

ہر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ہے اسے صفات سلبیہ کہتے ہیں ،خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نہیں پایا جاتا ہے ، لہذا ہر وہ صفت جو خدا کے نقص یا عیب پر دلالت کرے اسے خدا سے دور رکھنا ضروری ہے

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ہیں :

( ۱ ) خدا مرکب نہیں ہے :ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے ، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے ، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی

( ۲ ) خدا جسم نہیں رکھتا : اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں ، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے ، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔اوردوسرے یہ کہ ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے ، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

۱۶

( ۳ ) خدا مرئی نہیں : خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے ، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

( ۴ ) خدا جاہل نہیں ہے : جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا ، خدا ہر چیز کا عالم ہے ، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے ، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم ہرعیب و نقص سے پاک ہے۔

( ۵ ) خدا عاجز و مجبور نہیں : پہلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ہے کہ خدا ہر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نہیں ہے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ہے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ہے۔

( ۶ ) خدا محل حوادث نہیں : خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نہیں ہے جیسے کمزوری ، پیری ،جوانی اس میں نہیں پائی جاتی ہے ، اس کو بھوک ،پیاس، غفلت اور نیند نیزتھکاوٹ وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا ، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ہیں اور پہلے گذر چکا ہے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ہے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نہیں ہے ۔

( ۷ ) خدا کا شریک نہیں : اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

( ۸ ) خدا مکان نہیں رکھتا : خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نہیں ہے ۔

٭سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے

۱۷

ہیں ؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ہے ، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ہے ۔

٭مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گھر کیوں کہتے ہیں ؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ہوتی ہے ، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ہے جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گھر کہا ہے ورنہ خدا ہر جگہ و ہر طرف موجود ہے ،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ) (۱) پس تم جس جگہ بھی اپنا رخ کر لو توسمجھوکہ وہیں خدا موجود ہے۔

( ۹ ) خدا محتاج نہیں : خداوند عالم کسی شی کا محتاج نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کی ذات ہر ارعتبار سے کامل و تام ہے اس میں نقص اور کمی موجود نہیں ہے جو کسی چیز کا محتاج ہو اور اگر محتاج ہے تو پھر واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

٭کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

جئسا کہ عرض کیا ہے کہ خدا کی ذات ناقص نہیں ہے جو وہ ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے ، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ہمیشہ آباد رہنے والی جنت کے لائق ہو جائے ۔

( ۱۰ ) خدا ظالم نہیں : اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورۂ بقرہ آیت ۱۱۵۔

۱۸

سوالات:

۱۔صفات سلبیہ کی تعریف کیجئے ؟

۲۔کوئی بھی پانچ صفات سلبیہ بیان کیجئے ؟

۳۔اگر خدا مکان نہیں رکھتا تو پھر دعا کے وقت ہاتھوں کوآسمان کی طرف کیوںاٹھاتے ہیں ؟

۴۔کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

۱۹

درس نمبر۴

( توحید )

ا ﷲتبارک و تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے ، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ہے اس لیے کہ اگر دو خدا ( یا اس سے زیادہ ) ہوتے تو چند حالتیں ممکن ہیں ۔

پہلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ہے ، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ہیں ۔

پہلی حالت : دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ( یعنی ہر چیز دو دفعہ خلق ہوئی ہے ) اس کا باطل ہونا واضح ہے ۔ چونکہ ہر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نہیں ہے ۔

دوسری حالت : ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد ( شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ہے ، یعنی ہر موجود دو خدا کی مخلوق ہو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ہوں یہ احتمال بھی باطل ہے ۔

کیونکہ یا توتنہا موجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پہلے گذرچکی ہے کہ خدا عاجز و محتاج نہیں ہوتا ۔یا یہ کہ دونوں خلق پر قادر ہیں لیکن پھر بھی دونوں

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مجبور ہوئے اور یوں انہوں نے عمار کو چھوڑ دیا_ اس کے بعد وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض کیا '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ جب تک میں نے مجبور ہوکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا نہیں کہا اور ان کے معبودوں کی تعریف نہیں کی تب تک انہوں نے مجھے نہیں چھوڑا'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے عمار تیری قلبی کیفیت کیسی ہے؟'' عرض کیا ''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرا دل تو ایمان سے لبریز ہے''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''پس کوئی حرج نہیں بلکہ اگر وہ دوبارہ تمہیں مجبور کریں توتم پھر وہی کہو جو وہ چاہیں_ بے شک خدانے تیرے بارے میں یہ آیت نازل کی ہے( الا من اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) مگرجس پر جبر کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان سے لبریز ہو_(۱)

تقیہ کتاب وسنت کی روشنی میں

۱_حضرت عمار کا قصہ اور اس کے بارے میں آیات کا نزول، جان ومال کا خوف در پیش ہونے کی صورت میں تقیہ کے جواز کی دلیل ہے_

۲_علاوہ ازیں خدا کا یہ ارشاد بھی جواز تقیہ کی دلیل ہے( ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شی الا ان تتقوا منهم تقاة ) (۲) یعنی جو بھی ایسا کرے (یعنی کفار کو اپنا ولی بنائے) اس کاخدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں_(۳)

۳_نیز یہ آیت بھی تقیہ کو ثابت کرتی ہے( قال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانه اتقتلون رجلا ان یقول ربی الله ) (۴) یعنی آل فرعون کے ایک شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا کہا: ''کیا تم ایک شخص کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ خدائے واحد کا اقرار کرتا ہے''_ اس آیت کو منسوخ قرار دینا غلط اور بے دلیل ہے بلکہ اس کا منسوخ نہ ہونا ثابت ہے، جیساکہ جناب

___________________

۱_ سورہ نحل، آیت ۱۰۶ ، رجوع کریں: حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۰، تفسیر طبری ج ۴ ص ۱۱۲ اور حاشیہ پر تفسیر نیشاپوری اور بہت سی دیگر کتب_

۲_ سورہ آل عمران، آیت ۲۸_ ۳_ تقیہ کے متعلق مزید مطالعہ کے لئے: احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۹ ، تقویة الایمان ص ۳۸ ، صحیح بخاری مطبوعہ میمنہ ج ۴ ص ۱۲۸ اور دیگر متعلقہ کتب ۴_ سورہ غافر، آیت ۲۸_

۶۱

یعقوب کلینی نے عبداللہ بن سلیمان سے نقل کیا ہے کہ سلیمان نے کہا:'' میں نے ابوجعفر (امام باقرعليه‌السلام ) سے سنا جبکہ آپ کے پاس عثمان اعمی نامی ایک بصری بیٹھا تھا ، جب اس نے کہا کہ حسن بصری کا قول ہے ''جو لوگ علم کو چھپاتے ہیں ان کے شکم کی ہوا سے اہل جہنم کواذیت ہوگی''_ تو آپ نے فرمایا:''اس صورت میں تو مومن آل فرعون تباہ ہوجائے گا، جب سے خدانے حضرت نوحعليه‌السلام کو مبعوث کیا علم مستور چلا آرہا ہے _حسن دائیں بائیں جس قدر چاہے پھرے خدا کی قسم علم سوائے یہاں کے کہیں اور پایا نہ جائے گا''_(۱) مذکورہ آیت سے امامعليه‌السلام کا استدلال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے منسوخ نہ ہونے پرعلماء کا اتفاق تھا_رہی سنت نبوی تو اس سے ہم درج ذیل دلائل کا ذکر کریں گے_

سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تقیہ

۱_ جناب ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' عنقریب تمہارے اوپر ایسے حاکم مسلط ہوں گے جو نماز کا حلیہ بگاڑدیں گے_ اگر تم ان کے زمانے میں رہے تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھتے رہو لیکن ان کے ساتھ بھی بطور نافلہ نماز پڑھ لیا کرو ...''(۲) اور اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث(۳)

۲) مسیلمہ کذاب کے پاس دو آدمی لائے گئے اس نے ایک سے کہا :''کیاتم جانتے ہو کہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہوں''_ اس نے جواب دیا: '' اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ''_مسیلمہ نے اسے قتل کردیا پھر دوسرے سے کہا تو اس نے جواب دیا:'' تم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں اللہ کے نبی ہو ''_یہ سن کر مسلیمہ نے اسے چھوڑ دیا_ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' پہلا شخص اپنے عزم ویقین پر قائم رہا لیکن دوسرے نے اس راہ کو اختیار کیا جس کی خدا نے اجازت دی ہے پس اس پر کوئی عقاب نہیں''_(۴)

___________________

۱_ اصول کافی ص ۴۰،۴۱ (منشورات المکتبة الاسلامیة )نیز وسائل جلد ۱۸ص ۸_

۲_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۵۹_

۳_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۰، ۱۶۸_

۴_ محاضرات الادباء ، راغب اصفہانی ج ۴ص ۴۰۸اور ۴۰۹ ، احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۱۰ اور سعد السعود ص ۱۳۷_

۶۲

۳) سہمی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے روایت کی ہے''لا دین لمن لا ثقة له'' (۱) بظاہر یہاں لفظ ثقہ کی بجائے لفظ تقیہ مناسب اور درست ہے یعنی جو تقیہ نہیں کرتا وہ دین نہیں رکھتا جیساکہ شیعوں کی اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں(۲) _

۴) حضرت عمار یاسر کا معروف واقعہ اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمار سے فرمانا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی گذشتہ عمل کا تکرار کرو یہ بات احادیث وتفسیر کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے اور اسی مناسبت سے آیت( من کفر بالله بعد ایمانه ، الاّ من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ) (۳) نازل ہوئی تھی_

۵) نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بذات خود تقیہ فرمانا کیونکہ آپ تین یا پانچ سالوں تک خفیہ تبلیغ کرتے رہے جو سب کے نزدیک مسلمہ اور اجماعی ہے اور کسی کیلئے شک کی گنجائشے نہیں اگر چہ کہ ہم نے وہاں بتایا تھا کہ حقیقت امر صرف یہی نہیں تھا_

۶) اسلام کفار کو بعض حالات میں اجازت دیتا ہے کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں یا قتل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں_ واضح ہے کہ یہ بھی تقیہ کی ترغیب ہے کیونکہ اس قسم کے حالات میں قبول اسلام جان کی حفاظت کیلئے ہی ہوسکتا ہے پختہ عقیدہ کی بناپر نہیں_اسلامی معاشرے میں اس امید کے ساتھ منافقین کو رہنے کی اجازت دینا اور ان کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کے مطابق سلوک کرنا کہ وہ اسلام کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوجائے گا بھی اسی طرح ہے _

۷) فتح خیبر کے موقع پر حجاج بن علاط نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا :'' مکہ میں میرا کچھ مال اور رشتہ دار ہیں اور میں انہیں وہاں سے لے آنا چاہتا ہوں _ پس اگر مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہنا بھی پڑا تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت ہوگی؟'' تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے اجازت دے دی کہ جو کچھ کہے کہہ سکتا ہے(۴)

___________________

۱_ تاریخ جرجان ص ۲۰۱ _

۲_ ملاحظہ ہو : کافی (اصول) ج۲ ص ۲۱۷ مطبوعہ آخندی، وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۴۶۵اور میزان الحکمت ج۱۰ ص ۶۶۶ و ۶۶۷_

۳_ سورہ نمل آیت ۱۰۶اور ملاحظہ ہو فتح الباری ج۱۲ ص ۲۷۷ و ۲۷۸_

۴_ دراسات فی الکافی و الصحیح ص ۳۳۸ از سیرہ حلبیہ_

۶۳

تاریخ سے مثالیں

۱) ایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا: ''کیا میں حکام کو زکوة دوں''؟ ابن عمر نے کہا : ''اسے فقراء اورمساکین کے حوالے کرو'' راوی کہتا ہے کہ پس حسن نے مجھ سے کہا : ''کیا میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ جب ابن عمر خوف محسوس نہیں کرتا، تو کہتا ہے زکوة فقیروں اور مسکینوں کو دو''_(۱)

۲) علماء نے دعوی کیا ہے کہ انس بن مالک نے رکوع سے قبل قنوت والی حدیث کو اپنے زمانے کے بعض حکام سے تقیہ کی بناپر روایت کیا ہے(۲)

۳) عباس بن حسن نے اپنے محرروں اور خاص ندیموں سے مکتفی کے مرنے کے بعد خلافت کے اہل آدمی کے متعلق مشورہ لیا تو ابن فرات نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ ہر کسی سے علیحدگی میں مشورہ کرے تا کہ اس کی صحیح رائے معلوم ہوسکے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں ہوسکتا ہے تقیہ کرتے ہوئے وہ اپنی رائے پیش نہ کرسکا ہو اور دوسروں کا ساتھ دیا ہو اس بات پر اس نے کہا : ''سچ کہتے ہو'' _ پھر اس نے ویسا ہی کیا جیسا ابن فرات نے کہا تھا(۳)

۴) بیعت عقبہ میں جناب رسول خدا اور جناب حمزہ نے تقیہ فرمایا تھا جس کے متعلق روایتیں علیحدہ فصل میں بیان ہوں گی_

۵) ایوب سے مروی ہے کہ میں جب بھی حسن سے زکوة کے بارے میں سوال کرتاتو کبھی وہ یہ کہتا حکام کو دے دو اور کبھی کہتا ان کو نہ دو_ مگر یہ کہا جائے کہ حسن کی جانب سے یہ تردید اس بارے میں شرعی مسئلہ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے تھی(۴)

۶) محمد بن حنفیہ کے ایک خطبے میں یوں بیان ہوا ہے، امت سے جدا نہ ہونا ان لوگوں (بنی امیہ) سے تقیہ کے ذریعے سے بچتے رہو ، اور ان سے جنگ نہ کرو،راوی نے کہا :''ان سے تقیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟'' کہا :''جب وہ بلائیں تو ان کے پاس حاضری دینا_یوں خدا تجھ سے نیز تیرے خون اور تیرے دین سے ان

___________________

۱_ المصنف عبدالرزاق ج ۴ص ۴۸ _

۲_ ملاحظہ ہو : المحلی ج۴ ص ۱۴۱_ ۳_ الوزراء صابی ص ۱۳۰_

۴_ مصدر سابق_

۶۴

کے شر کو دور رکھے گا اور تجھے خدا کے مال سے حصہ بھی ملے گا جس کے تم زیادہ حقدار ہو ''_(۱)

۷) مالک سے محمد بن عبداللہ بن حسن کے ساتھ خروج کرنے کے بارے میں سوال ہوا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ہم نے ابوجعفر المنصور کی بیعت بھی کررکھی ہے مالک نے کہا :'' تم نے مجبوراً بیعت کی تھی اور جسے مجبور کیا جائے اسکی قسم (بیعت) کی کوئی حیثیت نہیں''(۲)

۸) قرطبی نے شافعی اور کوفیوں سے نقل کیا ہے کہ قتل کا خطرہ ہونے کی صورت میں تقیہ جائزہے_ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے_(۳)

۹) حذیفہ کی روایت ہے کہ ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں تھے_ انہوں نے فرمایا: '' مجھے گن کربتاؤ اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟'' حذیفہ کا کہنا ہے کہ ہم نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہماری طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہے؟ جبکہ ہم ابھی بھی چھ سوسے سات سو کے درمیان ہیں'' تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' تمہیں کیا خبر کل کلاں تم آزمائشے میں مبتلا ہوجاؤ'' حذیفہ کہتا ہے کہ بعد میں ہم ایسی سخت آزمائشے میں مبتلا ہوئے کہ حتی کہ ہم میں سے ہر کوئی چھپ کر نماز پڑھتا تھا_(۴) یہی حذیفہ حضرت علیعليه‌السلام کی بیعت کے صرف چالیس دن بعد فوت ہوا اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس بیعت سے قبل پچھلے دور میں مؤمنین سخت دباؤ کا شکار تھے_ جو لوگ شرعی حکومت پر قابض تھے وہ دین اور دینداروں کے خلاف اپنے دل میں پرانا کینہ رکھتے تھے اور جس چیز کا تھوڑا سا تعلق بھی دین کے ساتھ ہوتا تھا اس کا مذاق اڑایا کرتے اور اس کے خلاف محاذ آرائی کرتے تھے_

۱۰) تمام اہل حدیث اور ان کے بڑے بڑے علماء نے تقیہ کرتے ہوئے قرآن کے مخلوق ہونے کی تصدیق کی حالانکہ وہ اس کے قدیم ہونے کے قائل تھے فقط امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے انکار کیا(۵) بلکہ امام احمد نے بھی تقیہ کیا چنانچہ جب وہ پھندے کے پاس پہنچا تو کہا : ''میں کوئی بات زبان پر نہ

___________________

۱_ طبقات ابن سعد ج ۵ص ۷۰ _ ۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۸۳نیز طبری ج ۳ص ۲۰۰ مطبوعہ یورپ_

۳_ تفسیر قرطبی ج ۱۰ص ۱۸۱ _ ۴_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۹۱ _ صحیح بخاری مطبوعہ ۱۳۰۹ھ ج ۲ ص ۱۱۶و مسند احمد ج ۵ ص ۳۸۴_

۵_ تجارب الامم مطبوعہ ہمراہ العیون و الحدائق ص ۴۶۵ _

۶۵

لاؤںگا'' نیز جب حاکم وقت نے اس سے کہا:'' قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو'' تو جواب دیا: '' قرآن کلام الہی ہے'' پوچھا گیا ''کیا قرآن مخلوق ہے''؟ جواب دیا: ''میں بس اتنا کہتا ہوں کہ اللہ کا کلام ہے''_(۱) بلکہ یعقوبی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جب امام احمد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو بولے : '' میں ایک انسان ہوں جس نے کچھ علم حاصل تو کیا ہے لیکن اس بارے میں مجھے کچھ علم نہیں ہے '' _اس مناظرے اور چند کوڑے کھانے کے بعد اسحق بن ابراہیم مناظرے کے لئے دوبارہ آیا اور اس سے کہا : '' اب کچھ باقی رہ گیا ہے جسے تو نہ جانتاہو؟''کہا : '' ہاں باقی ہے'' _ کہا : ' ' پس یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جنہیں تو نہیں جانتا_ حالانکہ امیر المؤمنین (حاکم وقت) نے تجھے اچھی طرح سکھا دیا ہے '' _ کہا : '' پھر میں بھی امیرالمؤمنین کے فرمان کا قائل ہوگیا ہوں '' پوچھا: '' قرآ ن کے مخلوق ہونے کے متعلق ؟'' کہا : '' جی ہاں خلق قرآن کے متعلق '' کہا : ''پھر یا د رکھنا'' پھر اسے آزاد کرکے گھر کو جانے دیا(۲) _

حالانکہ امام احمد خودکہتے ہیں کہ جو فقط یہ کہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اور مزید کچھ نہ کہے تو وہ واقفی اور ملعون ہے_(۳)

خوارج کے مقابلے میں ابن زبیر نے بھی تقیہ سے کام لیا(۴) اسی طرح شعبی اور مطرف بن عبداللہ نے حجاج سے تقیہ کیا اور عرباض بن ساریہ اور مؤمن الطاق نے بھی خوارج سے اور صعصعہ بن صوحان نے معاویہ سے تقیہ کیا(۵)

خلق قرآن کے مسئلے میں اسماعیل بن حماد اور ابن مدینی نے بھی تقیہ کیا، ابن مدینی قاضی ابو داؤد معتزلی کی مجلس میں حاضر رہتا اور اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا_ نیز احمد بن حنبل اور اس کے اصحاب کی حمایت کرتا تھا_(۶)

۱۱_ مدینہ پر بسربن ابی ارطاة کے غارتگرانہ حملہ کے موقع پر جابربن عبداللہ انصاری نے ام المومنین

___________________

۱_ تاریخ طبری ج ۷ص ۲۰۱نیز آثار جاحظ ص ۲۷۴و مذکرات الرمانی ص ۴۷_

۲_ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۴۷۲_ ۳_ بحوث مع اھل السنة و السلفیہ ص ۱۲۲،۱۲۳ از الرد علی الجھمیة (ابن حنبل) در کتاب الدومی ص۲۸ _

۴_ ملاحظہ ہو العقد الفرید ابن عبدربہ ج۲ ص ۳۹۳_ ۵_ العقد الفرید ج ۲ ص ۴۶۴ و ص ۴۶۵ اور ملاحظہ ہو : بہج الصباغہ ج ۷ ص ۱۲۱_

۶_ رجوع کریں لسان المیزان ج ۱ص ۳۳۹اور ۴۰۰متن اور حاشیہ ملاحظہ ہو_

۶۶

حضرت ام سلمہ کی خدمت میں شکایت کی :'' مجھے قتل ہونے کا خوف ہے اور یہ بیعت ایک گمراہ شخص کی بیعت ہے اس موقع پر میں کیا کروں''؟ تو انہوں نے فرمایا : '' اس صورت میں تم اس کی بیعت کرلو کیونکہ اصحاب کہف کو بھی اسی تقیہ نے صلیب پہننے اور دوسرے شہریوں کے ساتھ عید کی محفلوں میں شریک ہونے پر مجبور کردیا تھا''(۱)

۱۲_ حضرت امام حسنعليه‌السلام کے مسموم ہونے کے بعد جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسینعليه‌السلام سے معاویہ کے خلاف قیام کرنے کا مطالبہ کیا تو آپعليه‌السلام نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا_ البتہ اس معاملے میں آپ کے اور بھی اہداف تھے جو معاویہ کے خلاف پوری زندگی قیام نہ کرنے کے اپنے شہید بھائی کے موقف کے ہماہنگ تھے_ اس بارے میں ملاحظہ فرمائیں اخبار الطوال ص ۲۲۰تا۲۲۲_

۱۳_ حسن بصری کا قول ہے کہ تقیہ روز قیامت تک ہے_(۲)

۱۴_ بخاری کا کہنا ہے:'' جب کسی آدی کو اپنے ساتھی کے قتل و غیرہ کا ڈر ہو اور اس کے متعلق یہ قسم کھائے کہ یہ میرا بھائی ہے _ تو اس پر کوئی بھی حد یا قصاص و غیرہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ظالم کے مقابلے میں اس کی حمایت کر رہا ہو تا ہے_ ظالم شخص اسے چھوڑکر قسم کھانے والے کے ساتھ جھگڑتا ہے جبکہ اسے کچھ نہیں کہتا_ اسی طرح اگر اس سے یہ کہا جائے کہ یا تو تم شراب پیو ، مردار کھاؤ ، اپنا غلام بیچو، قرض کا اقرار کرو یا کوئی چیز تحفہ دویا کوئی معاملہ ختم کردو و گر نہ تمہارے باپ یا تمہارے مسلمان بھائی کو قتل کردیں گے تو اسے ان چیزوں کے ارتکاب کی اجازت ہے ...'' یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :'' نخعی کا قول ہے کہ اگر قسم لینے والا ظالم ہے تو قسم اٹھانے والے کی نیت پر منحصر ہے اور اگر قسم لینے والا مظلوم ہے تو پھر اس کی نیت پر منحصر ہوگا ''(۳)

۱۵_ یہاں تک کہ مغیرہ بن شعبہ کا حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق عیب جوئی کے بارے میں یہ دعوی ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرتا تھا کیونکہ صعصعہ سے کہتا ہے:'' یہ بادشاہ ہمارے سروں پر مسلط ہوچکا ہے اور ہمیں لوگوں کے سامنے آپعليه‌السلام کی عیب جوئی کرنے پر مجبور کرتا ہے ، ہمیں بھی اکثر اوقات اس کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں

___________________

۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹۸_ ۲) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ مطبوعہ المیمنیہ_

۳) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ ، صحیح بخاری کی '' کتاب الاکراہ'' کا مطالعہ بہت مفید ہوگا کیونکہ اس میں تقیہ کے متعلق بہت مفید معلومات ہیں_

۶۷

کے شر سے دور رہنے کے لئے بطور تقیہ ایسی بات کہنی پڑتی ہے _ اگر تم حضرتعليه‌السلام کی فضیلت بیان کرنا بھی چاہتے ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان اور اپنے گھروں میں چھپ کر کرو ...''(۱)

۱۶_ ابن سلام کہتا ہے :'' رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے نماز کو وقت پر پڑھنے کا اور پھر بطور نافلہ ان حکام کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا جو نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھتے ہیں''(۲)

۱۷_ خدری نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق اپنے موقف میں وہ تقیہ سے کام لیتا تھا_ تا کہ بنی امیہ سے اس کی جان بچی رہے اور اس نے آیت( ادفع بالتی هی احسن السیئة ) سے استدلال کیا ہے(۳) اسی طرح بیاضی کی '' الصراط المستقیم'' ج ۳ ص ۲۷ تا ۷۳ میں ایسے کوئی واقعات ذکر ہوئے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں_

بہرحال اس مسئلے کی تحقیق کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے یہاں جتنا عرض کیا گیا ہے شاید کافی ہو_

تقیہ ایک فطری، عقلی، دینی اور اخلاقی ضرورت

تقیہ کا جواز اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع اور لچک دار دین ہے اور ہر قسم کے حالات سے عہدہ برا ہوسکتا ہے_ اگر اسلام خشک اور غیرلچک دار ہوتا یااس میں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے کی گنجائشے نہ ہوتی تو لازمی طورپر نت نئے واقعات سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتا _بنابریں خدانے تقیہ کو جائز قرار دیکر مشکل اور سنگین حالات میں اپنے مشن کی حفاظت اس مشن کے پاسبان (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کی حفاظت کے ذریعے کی_ اس کی بہترین مثال خفیہ تبلیغ کا وہ دور ہے جس میں حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب، بعثت کے ابتدائی دور سے گزرے_

جب دین کے لئے قربانی دینے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ دین کے ایک وفادار سپاہی کو ضائع کرنے

___________________

۱_ تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۱۲_

۲_ تہذیب تاریخ دمش ج ۶ ص ۲۰۵_

۳_ سلیم بن قیس ص ۵۳ مطبوعہ مؤسسہ البعثة قم ایران_

۶۸

کی وجہ سے الٹا دین کا نقصان بھی ہو تو تب دین اسلام کے پاسبانوں کی حفاظت کے لئے دین میں لچک کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے _ یوں بہت سے موقعوں پر اسلام کی حفاظت اس کے ان وفادار اور نیک سپاہیوں کی حفاظت کے زیر سایہ ہوتی ہے جوبوقت ضرورت اس کی راہ میں قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیں پس تقیہ کا اصول انہی لوگوں کی حفاظت کیلئے وضع ہوا ہے_

رہے دوسرے لوگ جنہیں اپنے سواکسی چیزکی فکر ہی نہیں ہوتی تو، تقیہ کے قانون کی موجودگی یا عدم موجودگی ان کیلئے مساوی ہے تقیہ اسلام کے محافظین کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ اس طریقے سے خود اسلام کی حفاظت ہوسکے تقیہ نفاق یا شکست کا نام نہیں کیونکہ اسلام کے یہ محافظین تو ہمیشہ قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیںاور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ معاویہ کے دورمیں خاموش رہنے والے حسینعليه‌السلام وہی حسینعليه‌السلام تھے جنہوں نے یزید کے خلاف اس نعرے کے ساتھ قیام کیا:

ان کان دین محمد لم یستقم

الا بقتلی فیا سیوف خذینی

یعنی اگر دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلاح میرے خون کے بغیر نہیں ہوسکتی ، تو اے تلوارو آؤ اور مجھے چھلنی کر دو_

پس جس طرح یہاں ان کا قیام دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھا بالکل اسی طرح وہاں ان کی خاموشی بھی فقط دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھی_ اس نکتے کے بارے میں ہم نے حلف الفضول کے واقعے میں گفتگو کی ہے_

یوں واضح ہوا کہ جب حق کی حفاظت کیلئے قربانی کی ضرورت ہوتو اسلام اس کو لازم قراردیتا ہے اوراس سے پہلوتہی کرنے والوں سے کوئی رو رعایت نہیں برتتا_

علاوہ برایں اگر اسلام کے قوانین خشک اورغیر لچک دار ہوں توبہت سے لوگ اس کو خیر باد کہہ دیں گے بلکہ اس کی طرف بالکل رخ ہی نہیں کریں گے_ وحشی وغیرہ کے قبول اسلام کے بارے میں ہم بیان کریں گے کہ بعض لوگ اسلئے مسلمان ہوتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو قتل نہیں کرتے _

بنابریں واضح ہے کہ اسلام کے اندر موجود اس نرمی اور لچک کی یہتوجیہ صحیح نہیں ہے کہ یہ قانون دین میں

۶۹

دی گئی ایک سہولت ہے تاکہ بعض لوگوں کیلئے قبول اسلام کوآسان بنایاجاسکے بلکہ اسے تو اسلام ومسلمین کی حفاظت کا باعث سمجھنا چاہئے بشرطیکہ اس سے اسلام کے اصولوں کو نقصان نہ پہنچتا ہو بلکہ ترک تقیہ کی صورت میں قوت اور وسائل کابے جا ضیاع ہوتا ہو اور یہی امر تقیہ اور نفاق کے درمیان فرق کا معیار ہے لیکن بعض لوگ تقیہ کو جائز سمجھنے والوں پر نفاق جیسے ناجائزاور ظالمانہ الزام لگانے میں لطف محسوس کرتے ہیں_

ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس قبیلہ ثقیف کے افراد آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ کچھ مدت کیلئے ان کو بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دی جائے نیز ان پر نماز فرض نہ کی جائے (کیونکہ وہ اسے اپنے لئے گراں سمجھتے تھے) اس کے علاوہ انہیں اپنے ہاتھوں سے بت توڑنے کا حکم نہ دیاجائے تو اسی معیار کی بناپریہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضورنے آخری بات تو مان لی لیکن پہلی دو باتوں کو رد کردیا_(۱) اسی طرح انہوں نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ انہیں زنا، شراب سود اور ترک نماز کی اجازت دی جائے(۲) انہیں بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے رد کردیااور اس بات کا لحاظ نہ کیا کہ یہ قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے اسلام کو تقویت ملے گی اور دشمن کمزور ہوں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو جنہوں نے سال ہا سال بتوں کی پوجا کی تھی مزید ایک سال تک بت پرستی کی مہلت کیوں نہ دی؟ جس کے نتیجے میں وہ اسلام سے آشنا اور قریب ترہوجاتے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا مطالبہ ٹھکرادیا حتی کہ ایک لمحے کیلئے بھی آپ نے ان کو اس بات کی اجازت نہ دی، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر جائز وناجائز وسیلے سے اپنے اہداف تک پہنچنے کے قائل نہ تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسیلے کو بھی ہدف کاایک حصہ سمجھتے تھے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں_

___________________

۱_ یہاں سے پتہ چلا کہ ''جبلہ ابن ایھم'' سے قصاص لینے پر اصرار میں عمر کی پالیسی کامیاب نہ تھی_ کیونکہ وہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اپنی قوم کا حاکم تھا_ اس نے ابھی اسلام کی عظمت اور ممتاز خوبیوں کو نہیں سمجھا تھا_ حضرت عمر کو چاہئے تھا کہ وہ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر اس مسئلے کو کسی آسان تر طریقے سے حل کرتے_

۲_ سیرہ نبویہ دحلان ( حاشیہ سیرہ حلبیہ پر مطبوع) ج۳ ص ۱۱ ، المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۲۳۶ ، تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۱۳۵ تا ۱۳۷ اور ترک نماز کے متعلق ملاحظہ ہو : الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۲۸۴ ، اسی طرح سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۴ ص ۱۸۵ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۴ ص ۵۶ اور البدایہ والنہایہ ج۵ ص ۳۰_

۷۰

لیکن اس کے مقابل اگر کوئی بالفرض آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے حرمتی کرتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف کردیتے تھے بشرطیکہ اسے یہ احساس ہوجاتا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس سے درگذر کیاہے_ لیکن اگر وہ شخص اپنے غلط عمل کو صحیح سمجھتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی صورت میں بھی اسے معاف نہیں فرماتے_

خلاصہ(۱) یہ کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو پھر انہیں دشمنوں کے ساتھ سخت لڑائی لڑنے کاحق نہیں جس میں وہ خود ہلاک ہوجائیں یاان کے ختم ہونے سے عقیدہحق بھی ختم ہوجائے کیونکہ دین اور نظریات وعقائد کو اس قسم کے مقابلے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ کبھی کبھی الٹا نقصان پہنچتا ہے _ نیز اگرحق کا دفاع ایسی قربانی دینے سے پرہیز پر موقوف ہو جو حق کے مٹنے کا باعث ہو، عقل وفکر سے بیگانہ ہو یا وحشیانہ طرز عمل کے ساتھ ہو، نیز ایک نظریاتی جنگ کیلئے مطلوبہ شرائط سے خالی ہو تو پھر اس قربانی سے احتراز کرنا چاہیئے_

یہ بات اسلام کی عظمت، جامعیت اور حقائق زندگی کے ساتھ اس کی ہماہنگی کی ایک اور دلیل ہے_

___________________

۱_ یہ خلاصہ علامہ سید محمد حسین فضل اللہ کے فرمودات سے ماخوذ ہے _ مراجعہ ہو: مفاہیم الاسلامیہ عامہ حصہ ۸ ص ۱۲۷_

۷۱

دوسری فصل

ہجرت حبشہ اور اس سے متعلقہ بحث

۷۲

راہ حل کی تلاش:

قریش نے ان مسلمانوں کو ستانے کا سلسلہ جاری رکھا جن کی حمایت کرنے والا کوئی قبیلہ نہ تھا_ مسلمانوں کیلئے یونہی بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا_ان ستم زدہ لوگوں کیلئے ایک ایسی سرزمین کی ضرورت تھی جو ان کی امیدوں کا مرکزہوتی، ان کو مشکلات کامقابلہ کرنے میں مدد دیتی اور جہاں وہ مشرکین کی طرف سے قسم قسم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے زیادہ قابل بن سکتے_ یوں وہ ان مشرکین کا مقابلہ کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے خداؤں سے ما فوق خدا اور اپنی حاکمیت سے برتر حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا_ نیز اطاعت وتسلیم کے بجائے ہٹ دھرمی اور عناد کی روش اپنائی تھی_

دوسری طرف سے اس پر مشقت و پرآلام صورتحال پر باقی رہنے کی صورت میں قبول اسلام کی جانب لوگوں کی رغبت میں کمی آجاتی کیونکہ اسلام قبول کرنے کا نتیجہ خوف، دہشت اور تکالیف وآلام میں مبتلا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا_

تیسرا پہلو یہ کہ قریش کے تکبر اور ان کی خود پسندانہ طاقت پر کم از کم نفسیاتی طور پر ایسی کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی ، کہ وہ سمجھ جا ئیں کہ دین کا مسئلہ ان کے تصورات اور ان کی طاقت کی حدود سے مافوق چیز ہے اور ان کو زیادہ سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے_

ان حقائق کے پیش نظر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا_ ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی لیکن حاکم نیشابوری کے مطابق ہجرت حبشہ جناب ابوطالب کی وفات کے بعد ہوئی(۱)

___________________

۱_ مستدرک حاکم ج۲ص ۶۲۲_

۷۳

حالانکہ جناب ابوطالب کی وفات بعثت کے دسویں سال ہوئی _ شاید وہ ایک اور ہجرت کے متعلق بتانا چاہتے ہوں جسے کچھ مسلمانوں نے اس موقع پر انجام دیا یا شاید کچھ لوگ صلح کے متعلق سن کر واپس پلٹے ہوں اور اچانک برعکس صورت حال دیکھ کر دوبارہ ہجرت کرگئے ہوں _ لیکن ہمارے پاس ایسے کوئی قرائن بھی نہیں ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ یہ واقعہ وفات جناب ابوطالب کے بعد پیش آیا_

حبشہ کے انتخاب کی وجہ

ہجرت کیلئے حبشہ کا انتخاب کیوں ہوا؟ اس رازکی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یوں اشارہ فرمایا ''یقینا وہاں ایک ایسا بادشاہ موجود ہے جس کی حکومت کے زیر سایہ کسی پر ظلم نہیں ہوتا''_ حبشہ سچائی کی سرزمین ہے اور وہ (بادشاہ) مانگنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے_ اس انتخاب کی علت بالفاظ دیگر یہ تھی کہ:

۱) اس صورت میں قریش پر ضروری ہوجاتا کہ وہ اپنے اقتدار، بت پرستی اور انحرافی افکار کے لئے خطرہ سمجھنے والے دین پر اول و آخر اپنے مکمل تسلط اور اختیار کو باقی رکھنے کے لئے مسلمانوں کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں_

۲) قریش کو تجارتی اور اقتصادی روابط کے سبب روم اور شام میں اثر و رسوخ حاصل تھا ،بنابریں ان سرزمینوں کی طرف ہجرت کرنے کی صورت میں قریش کیلئے مسلمانوں کو لوٹانا یاکم از کم آزار پہنچانا آسان ہوجاتا_ خصوصا اس حالت میں جب ان ملکوں کے حکمران کسی قسم کے اخلاقی یا انسانی اصولوں کے پابند نہ تھے اور ان کو ظلم وستم سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہ تھی خاص کر ان مسلمانوں کے اوپر جن کا دین ان کے ذاتی مفادات اور اقتدار کیلئے خطرہ اور چیلنج تھا_

رہا یمن یا دوسرے عرب قبائل کا مسئلہ تو وہ ظالم اور جابر ایرانی بادشاہوں کے زیر تسلط تھے_ کہتے ہیں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بعض قبائل کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے حمایت چاہی تو انہوں نے قبول کیا لیکن کسری نے قبول نہ کیا_واضح رہے کہ کسری کے ہاں پناہ تلاش کرناملک روم میں پناہ ڈھونڈنے سے کم خطر ناک نہ تھا_ بالخصوص اس حالت میں جب کہ کسری دیکھ رہا تھا کہ یہ عرب شخص جلدہی اس کے ملک سے قریب علاقے میں خروج کرے گا اور اس کی دعوت اس کے ملک میں بھی سرایت کرجائے گی_

۷۴

نیز یہ دعوت اپنے لئے تراشے گئے ناجائز امتیازی حقوق پر اثر انداز ہوگی( جیساکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن اوراہداف سے ظاہر تھا) _اس کے علاوہ وہ طبیعة عربوں کو حقیر سمجھتا تھا اور ان کیلئے کسی عزت واحترام کا قائل نہ تھا_

۳) قریش کو مختلف عرب قبائل کے اندر کافی اثر و نفوذ حاصل تھا حتی ان قبائل کے درمیان بھی جو ایران وروم کے زیر اثر تھے جیساکہ اس کتاب کے اوائل میں مذکوربعض معروضات سے واضح ہے_

۴)مذکورہ باتوں کے علاوہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حبشہ میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا_ ان حقائق کے پیش نظر ہم ہجرت کیلئے حبشہ کے انتخاب کی وجہ سمجھ سکتے ہیں_ حبشہ کا علاقہ ایران، روم اور قریش کے اثر و رسوخ سے خارج تھا _قریش وہاں گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہوکر نہیں پہنچ سکتے تھے قریش بحری جنگ سے بھی نا آشنا تھے_ بنابریں مسلمانوں نے (جو قریش کی طاقت و جبروت کے سامنے کمزور تھے ) ہجرت کیلئے حبشہ کی راہ لی

آخر میں ہم ارض حبشہ کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے ارشاد (حبشہ صدق وصفا کی سرزمین ہے) سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ حبشہ میں بعض قبیلے فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور صدق وخلوص سے میل جول رکھتے تھے_ پس اس مسلمان مہاجر گروہ کا وہاں ان لوگوں کے ساتھ آسودگی کے ساتھ رہنا اور میل جول رکھنا ممکن تھا، خاص طور پر جب یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ اس مملکت میں وہ انحرافات اور غلط افکار وعقائدنہیں پائے جاتے تھے جو روم اور ایران میں پائے جاتے تھے کیونکہ یہ ممالک غیر انسانی نظریات وافکار اور منحرف عقائد وادیان سے کافی حد تک آلودہ ہوچکے تھے لیکن حبشہ کی سرزمین ان آلودگیوں سے دور تھی _

اس لئے کہ وہاں نت نئے دین نہیں ابھرتے تھے اور نہ ہی وہاں روم اور ایران کی مقدار میں دانشمند اور فلاسفر تھے اس لئے وہ دوسرے ممالک کی بہ نسبت فطرت اور حق سے زیادہ قریب تھی لیکن فطرت کی بالادستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ممالک کسی بھی انحراف سے خالی ہیں _ کیونکہ وہاں انحرافات کا وجود بھی طبیعی امر ہے جبکہ یہ کہنا کہ وہاں فطرت کا راج ہے بالکل اس طرح ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں شہر کے لوگ مؤمن ہیں ،

۷۵

بہادر ہیں یا سخی ہیں _ کیونکہ یہ بات اس شہر میں کافروں، منافقوں ، بزدلوں یابخیلوں کے وجود سے مانع نہیں ہے _ اور واضح سی بات ہے کہ اگر مسلمان کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرتے جہاں فطرت کی بالادستی نہ ہوتی اور وہاں کا فرمانروا ظلم سے پرہیز نہ کرتا تو وہاں بھی ان کے لئے زندگی مشکل ہوجاتی اور ان کی ہجرت کا کوئی زیادہ فائدہ اور بہتر اثر نہ ہوتا_

حبشہ کا سفر

مسلمانوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضرت ام سلمہ سے منقول ایک روایت کے مطابق وہ مختلف گروہوں کی شکل میں وہاں گئے(۱) کہتے ہیں کہ پہلے دس مردوں اور چارعورتوں نے عثمان بن مظعون کی سرکردگی میں ہجرت کی(۲) اس کے بعد دیگر مسلمان بھی چلے گئے یہاں تک کہ بچوں کے علاوہ کل بیاسی مرداور اگر حضرت عمار یاسر بھی ان میں شامل ہوں تو تراسی مرد اور انیس عورتیں حبشہ پہنچ گئے_

لیکن ہم صرف ایک ہی مرتبہ کی ہجرت کے قائل ہیں جس میںسب نے حضرت جعفر بن ابوطالب کی سرکردگی میں حبشہ کی طرف ایک ساتھ ہجرت کی تھی _اس قافلے میں حضرت جعفر طیارعليه‌السلام کے علاوہ بنی ہاشم میں سے کوئی نہ تھا _البتہ ممکن ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت احتیاط کے پیش نظر افراد مختلف گروہوں کی شکل میں خارج ہوئے ہوں لیکن ہجرت ایک ہی مرتبہ ہوئی تھی کیونکہ شاہ حبشہ کے نام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کاخط بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے جسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن امیہ الضمری کے ساتھ روانہ کیا تھا ، اس خط میں مکتوب ہے:

'' البتہ میں نے آپ کی طرف اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابوطالب کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے

___________________

۱_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۲ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۰ ازالصفوة و المنتہی_

۲_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۵، سیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۵، البدایہ و النہایة ج ۳ص ۶۷، السیرة الحلبیة ہ ج ۱ص ۳۲۴ (جس میں کہا گیا ہے کہ ابن محدث نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصریح کی ہے) نیز تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۸۸_

۷۶

ساتھ بھیجا ہے، جب وہ پہنچ جائیں تو ان کو وہاں ٹھہرانا ...''(۱)

یہی بات ابوموسی سے مروی روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جعفربن ابوطالب کے ہمراہ نجاشی کے ملک کی طرف چلے جائیں_(۲) اگرچہ خود ابو موسی کی ہجرت مشکوک ہے جس کا تذکرہ آئندہ ہوگا_

جعفر سردار مہاجرین :

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت جعفر طیار کی حبشہ کی طرف ہجرت قریش کی جانب سے سختیوں اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے نہیں تھی_ کیونکہ قریش حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی شان و شوکت سے ڈرتے تھے اور بنی ہاشم اور خاص کر ان کا لحاظ کرتے تھے_ حضرت جعفر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صرف مہاجرین کا سردار اور ان کا سرپرست بنا کر بھیجاتھا تا کہ وہ انہیں اس نئے معاشرے میں جذب ہوجانے سے بچاسکے، جس طرح کہ ابن جحش کی صورتحال تھی کہ وہ حبشہ میں نصرانی ہوگیا تھا_

حبشہ کا پہلا مہاجر

کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ سب سے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بارے میں فرمایاکہ وہ حضرت لوطعليه‌السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی_(۳) یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سب سے پہلے خارج ہوئے_(۴)

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۳، بحارالانوار ج ۱۸ص ۴۱۸، اعلام الوری ص ۴۵_۴۶از قصص الانبیاء_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۰ نے ابو نعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے اور سیرت نبویہ (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از ابن اسحاق، السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص۲۸۹ _

۴_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۴، نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از بیہقی نیر السیرة الحلبیة ج ۱ ص۲۲۳ _

۷۷

لیکن ہمیں اس بارے میں شک ہے کیونکہ اگر مراد یہ ہو کہ وہ گھروالوں کے ساتھ ہجرت کرنے والے پہلے آدمی تھے تویہ بات واضح رہے کہ سب سے پہلے اپنے گھروالوں کے ساتھ ابوسلمہ نے ہجرت کی تھی جیساکہ نقل ہوا ہے_(۱) اور اگر مراد یہ ہو کہ وہ بذات خود سب سے پہلے خارج ہوئے تو عرض ہے کہ خود انہی نقل کرنے والوںکے بقول سب سے پہلے خارج ہونے والے شخص حاطب بن عمر تھے(۲) یا سلیط بن عمرو(۳) نیز ابوسلمہ کے بارے میں بھی اسی قسم کا قول موجود ہے_

ابوموسی نے حبشہ کی جانب ہجرت نہیں کی

امام احمد نے (حسن و غیرہ کی سند کے ساتھ) اوردوسروں نے بھی روایت کی ہے کہ ابوموسی اشعری حبشہ کی طرف پہلی بار ہجرت کرنے والوں میں شامل ہے_(۴) لیکن بظاہر یہ بات یا تو غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا راوی نے عمداً غلط بیانی کی ہے کیونکہ ابوموسی ہجرت کے ساتویں سال مدینے میں مسلمان ہوا تھا_ کہتے ہیں کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے پاس جانے کیلئے نکلے لیکن ان کی کشتی نے انہیں حبشہ پہنچادیا اور وہ حبشہ کے مہاجرین کے ساتھ ساتویں ہجری میں مدینہ آئے(۵) اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ہجرت مدینہ کے بعد کا واقعہ ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مکہ آنے کیلئے چلتے اور پندرہ سال حبشہ میں ٹھہرتے بظاہر ابوموسی اشعری مہاجرین حبشہ کے ساتھ واپسی کے راستے میںآن ملے تھے کیونکہ عسقلانی نے کہا ہے : '' اس کی کشتی جناب

___________________

۱_ الاصابة ج ۲ص ۳۳۵نیز رجوع کریں ج ۴ص ۴۵۹اور ۴۵۸نیز الاستیعاب (حاشیہ الاصابہ پر) ج ۲ص ۳۳۸از مصعب الزبیری و تہذیب الاسماء و اللغات ج ۲ص ۳۶۲واسد الغابة ج ۳ص ۱۹۶از ابی عمر و ابن منزہ اور السیرة الحلبیہ ج ۱ص ۳۲۳ _

۲_ الاصابة ج ۱ ص ۳۰۱ اور السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۲۳_

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳ _

۴_ رجوع کریں: سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۷، ۶۹، ۷۰ نے ابن اسحاق، احمد اور ابونعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے_ السیرة النبویة( ابن کثیر) ج ۲ص ۷اور ص ۹، فتح الباری ج۷ص ۱۴۳، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴ از طبرانی اور نیز حلیة الاولیاء ج ۱ ص۱۱۴ _

۵_ رجوع کریں السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۴اور البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۱_

۷۸

جعفر بن ابوطالب کی کشتی سے ملی اور وہ سب اکٹھے آئے''(۱)

مہاجرین کے ساتھ عمر کا رویہ

کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہجرت حبشہ کی تیاری میں مصروف تھے تو حضرت عمر نے ان کو دیکھا یوں ان کا دل پسیجا اور وہ محزون ہوئے(۲) لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ وہ لوگ تو خاموشی سے چھپ کر نکلے تھے_ ان میں سے بعض پیدل تھے اور بعض سواریہاں تک کہ ساحل سمندر تک پہنچ گئے، وہاں انہوں نے ایک کشتی دیکھی اور جلدی سے اس میں سوار ہوگئے_ ادھر قریش ان کے تعاقب میں ساحل تک پہنچے لیکن وہاں کسی کو نہیں پایا_(۳) اس کے علاوہ حضرت عمرکی وہ سخت گیری اور قساوت بھی ملحوظ رہے جس کی نسبت (ہجرت حبشہ سے قبل اور ہجرت حبشہ کے بعد) ان کی طرف دی جاتی ہے اور یہ بات مذکورہ بالاقول کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے_

حضرت ابوبکر نے ہجرت نہیں کی

کہتے ہیں کہ جب مکے میں بچے ہوئے مسلمانوں پر سختیوں میں اضافہ ہوا اور حضرت ابوبکر کیلئے مکے میں زیادہ تکالیف کے سبب جینا دوبھر ہوگیا، تو وہ وہاں سے نکل گئے اور حبشہ کی راہ لی اس وقت بنی ہاشم شعب ابوطالب میں محصور تھے_ جب وہ ''برک الغماد'' کے مقام پر پہنچے (جو مکہ سے پانچ دن کے فاصلے پر یمن کی جانب واقع ہے) تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ کی ان سے ملاقات ہوگئی ،یہ لوگ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ

___________________

۱_ الاصابہ ج۲ ص ۳۵۹_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹از ابن اسحاق، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴، مستدرک الحاکم ج ۳ص ۵۸، الطبرانی اور السیرة الحلبیہج ۱ص ۳۲۳اور ۳۲۴ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۴، تاریخ الخمیس ج۱ص ۲۸۸اور ۲۸۹از المنتقی، الطبری ج ۲ص ۶۹البدء و التاریخ ج ۴ص ۱۴۹و اعلام الوری ص ۴۳ ویعقوبی ج ۲ص ۲۹اور ابن قیم کی زاد المعاد ج ۲ص ۴۴_

۷۹

کے حلیف تھے_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟'' وہ بولے :''میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے چنانچہ میرا ارادہ ہے کہ میں دنیا میں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کروں''_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر تم جیسوں کو نکالانہیں کرتے، تم محروموں کی مدد کرتے ہو''_ یہاں تک کہ کہا:'' اب لوٹ جاؤ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں'' یوں حضرت ابوبکر ابن دغنہ کے ساتھ واپس ہوئے، ابن دغنہ نے رات کو قریش کے بزرگوں کے ہاں جاکر بتایا کہ اس نے حضرت ابوبکر کو پناہ دی ہے قریش نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کیا کہ وہ اپنے رب کی اعلانیہ عبادت نہ کریں بلکہ اپنے گھر میں عبادت کیا کریں_

لیکن حضرت ابوبکر نے کچھ عرصے بعد بنی جمح کے ہاں اپنے پڑوس میں ایک مسجد تعمیر کی وہاں وہ نمازیں پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے، مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کی تلاوت سننے کیلئے جمع ہوتے تھے حتی کہ ازدحام کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے اوپر گر پڑتے تھے_ حضرت ابوبکر کی آواز سریلی اور ان کا چہرہ خوبصورت تھا_مشرکین نے ابن دغنہ سے اس مسئلے میں استفسار کیا چنانچہ ابن دغنہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور امان کی شرائط کو نبھانے کا مطالبہ کیا لیکن حضرت ابوبکر نے اس کی امان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا_(۱)

ہمارے نزدیک یہ بات مشکوک ہے کیونکہ اس سے قطع نظر کہ :

ا_ جناب ابوبکر کو قوم سے نکال دیئے جانے کا مطلب ان کی ہجرت نہیں ہے لیکن ان کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتاہے_

۲_ یہ روایت فقط حضرت عائشہ سے مروی ہے اور خود یہ ایک عجیب بات ہے اسلئے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں لہذا ان امور کی تمام جزئیات کو درک نہیں کرسکتی تھیں لیکن اگر ہم فرض

___________________

۱_ رجوع کریں السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۲۷،۱۲۸، و سیرت ابن ہشام ج۲ص ۱۲،۱۳، شرح نہج البلاغہ ج ۱۳ص ۲۶۷، المصنف ج ۵ص ۳۸۵،۳۸۶، البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۴،۹۵ اور تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۱۹و ۳۲۰میں مذکور ہے کہ یہ بعثت کے تیرہویں سال کا واقعہ ہے_ نیز رجوع کریں حیات الصحابہ جلد ۱ص ۲۷۶،۲۷۷نے بخاری ص ۵۵۲سے نقل کیا ہے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104