معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 104
مشاہدے: 27824
ڈاؤنلوڈ: 2128


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27824 / ڈاؤنلوڈ: 2128
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شریک ہو کر موجودات کو وجود میں لاتے ہیں یہ بھی باطل ہے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ہوتے ہوئے پھر بھی تنہا کسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ہیں :

الف: یا دونوں بخل کر رہے ہیں کہ آدھہ آدھہ کام کررہے ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ زیادہ خرچ نہ ہو ۔ توبخل و کنجوسی خدا کی ذات کے لئے مناسب نہیں ہے۔

ب: یا دونوں آپس میں ڈرتے ہیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رہے ہیں۔ تو یہ ، شانِ خدا کے بر خلاف ہے کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ متأثر و عاجز نہیں ہو سکتا ہے ۔

ج: یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ہیں ۔

اسکا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں کہ جو مجبور ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا

دوسری دلیل :

اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پہلا خدا اپنی خلق کی ہوئی چیز کا دفاع کر سکتا ہے ؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ہے ؟ اگر پہلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ہے تو دوسرا خدا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

نتیجہ :

ہم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی ہو اس کو ناتوان ، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ہیں ، ہم فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کو لائق عبادت جانتے ہیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اور کے لئے جھکتے ہیں ہم آزاد ہیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نہیں کرتے اور کسی کی بے حد و

۲۱

انتہا تعریف نہیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ہیں ۔

ہم انبیاء اور ائمہ کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ہے ، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ہے ، ان کے احکام و قوانین ہمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رہے ہیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا ہے ، ہم انبیاء و ائمہ کے مرقد پر جاتے ہیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ہیں ،لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ہیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ہیں ،اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پہنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں ، ہم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاہنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ہیں ، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔

۲۲

سوالات:

1۔ توحید کے کیا معنی ٰ ہیں ؟

2۔خدا کی توحید پر کوئی ایک دلیل پیش کریں ؟

3۔ہم انبیاء اور ائمہ کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی کیوںکرتے ہیں ؟

۲۳

درس نمبر 5

( عدل )

خداوند عالم عادل ہے یعنی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے تمام کاموںمیں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ہے اچھے کام کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے ، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جہنم میں نہیں ڈالے گا ، اس مطلب پر دو دلیلیں پیش خدمت ہیں پہلی دلیل :

جو شخص ظلم کرتا ہے یا برے کام کو انجام دیتا ہے اس کی صرف تین صورتیںہوسکتی ہیں

(1) یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نہیں ہے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ہے۔

( 2 ) یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ہے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے چونکہ اس کے پاس وہ نہیں ہوتی اس لئے اان کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ہے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اوراپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس طرح وہ ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ہے اور چونکہ خود قوی ہے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ہے ۔

( 3 ) یا ظلم و زیادتی سے آگاہی رکھتا ہے اس کو ان چیزوں کی ضرورت بھی نہیں ہے ، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لہو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ہے۔

۲۴

عموما ًہر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں ، لیکن خداوند عالم کی ذات ان تمام امور سے منزہ اور پاکیزہ ہے ، وہ ظلم و ستم نہیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے وہ ہر چیز سے مطلقا بے نیاز ہے ، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نہیں ہے ، اس سے لغو و بیہودہ کام بھی صادر نہیںہوتے اس لئے کہ وہ حکیم ہے ،اس کے پاس صرف عدالت ہی عدالت موجود ہے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔

دوسری دلیل :

ہماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کہتی ہے اور تمام صاحبان عقل کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے ، اس بنا پر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو تمام صاحبان عقل براسمجھیں اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ہوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے وہ خود ان غلط کاموں کو انجام دے ؟ !

البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ تمام لوگ ہر جہت سے برابر نہیں ہیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنی ، بد صورت و خوبصورت ، خوش فہم و نا فہم ، صحت مندو بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔

بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ہوتی ہیں ، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا

۲۵

دروازہ کھلا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ہے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتا ، انسان کی کوشش اور محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ، ہر فرد کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ہوئے ہیں ۔

سوالات:

1۔عدل کی تعریف کیجئے ؟

2۔خدا کے عادل ہونے پر کوئی دلیل پیش کیجئے ؟

3۔اگر خدا عادل ہے تو تمام لوگ ہر جہت سے برابرکیوں نہیں ہیں؟

۲۶

درس نمبر6

( نبوت )

خداوند عالم کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے احکام کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرے اس مطلب پر تین دلائل پیش کررہے ہیں ۔

پہلی دلیل : اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ہدف یہ نہیں ہے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رہے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ہر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ہے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ہوگی !(1) جب کہ خدائے تبارک و تعالیٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرّا ہے۔

انسان ، خداوند عالم کی بہترین و افضل ترین مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ

ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعلیٰ مرتبہ پر پہونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بہترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء

کیساتھ دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مؤمنون (23) آیت 115( اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ ) کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہمارے حضور میں لوٹا کر نہیں لائے جائوگے ۔

۲۷

تاریکی سے نکالیں ، یہ وہی احکام ہیں انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدھارتے ہیں، لوگوں کو زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ہیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ہیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پہونچاتے ہیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ہے ؟ ہر گز ممکن نہیں ، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ہے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات کے بارے میں کافی اور کامل معلومات نہیں رکھتی ہے ۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا ، قانون تو بے شمار بنتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ہو جاتے ہیں ۔

دوسری دلیل : خود انسان کی طبیعت میں خود خواہی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ہوتی ہے ۔

اگر چہ بعض اوقات ا نسان یہ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ہوائے نفس اور خود خواہی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ہو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ہوں اور ہر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رہا ہو لیکن کہیں نہ کہیں طبیعت اور

۲۸

خواہش نفسانی تو غلبہ کر ہی لیتی ہے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ہو جاتا ہے ۔

تیسری دلیل : قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نہیں رکھتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ہیں وہ انسان کی فلاح اور بہبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ہیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ہے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ہے جو اس دنیا اور اس میں موجود تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ہے،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نہیں، وہی ہے جو بلندی کی راہ اور ہلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اوران کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو ۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں خداوند عالم حکیم ہے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراہی کے سمندر میں نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کرے ۔

انبیا ،اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کے ممتاز فرد ہوتے ہیں جو خدا سے جس وقت چاہیں رابطہ پیدا کر سکتے ہیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اس طرح کے رابطے کو ''وحی'' کہتے ہیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کہتے ہیں ، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی

۲۹

حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔

سوالات:

1۔نبوت سے کیا مراد ہے ؟

2۔انبیاء کے مبعوث کرنے پر کوئی ایک دلیل پیش کریں ؟

3۔وحی کی تعریف کیجئے ؟

۳۰

درس نمبر 7

( نبی کے شرائط )

1۔عصمت :

نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے یعنی نبی کے پاس ایسی قدرت و طاقت موجود ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے گناہ کے ارتکاب اور ہر طرح کی خطا و غلطی اور نسیان سے محفوظ رہ سکیں تاکہ خداوند عالم کے احکام جو انسان کی ہدایت کے لئے بنائے گئے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہونچا سکیں ۔

اگرنبی خود گناہ کا مرتکب ہو جائے اور اپنے قول کے برخلاف عمل کرنے لگے تو اس کی بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گی یعنی وہ اپنے اس فعل سے اپنی ہی باتوں کا قلع قمع اور اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو برائی اور خدا کی نافرمانی کی طرف راہنمائی کر نے لگے گا ، جب کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی تبلیغ زبان کی تبلیغ سے زیادہ مؤثر ہے اگر نبی غلطی و نسیان سے محفوظ نہ رہ سکے تو لوگوں کے دلوں سے اسکی محبوبیت اور اس کا بھروسہ ختم ہوجائے گا اور اس کی باتوں کی معاشرے کے سامنے کوئی اہمیت و عزت نہ رہیگی ۔

2۔علم :

نبی کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ قوانین جو انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے لازم و ضروری ہیں اس سے خوب واقف ہو ، اور ہر وہ مطالب و موضوع جو راہنمائی و تبلیغ کے لئے کارساز ہیں اس کا کماحقہ علم رکھتا ہو تاکہ انسان کی فلاح اور بلندی کے

۳۱

حصول کے لئے خاص پروگرام لوگوں کے اختیار میں دے سکے اور راہ مستقیم (سیدھا راستہ) جو فقط ایک راستہ ہے اور اس کے سوا کوئی راستہ نہیں، اس راہ کے عظیم اجزا کو باہم اور دقیق ملاکر لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔

3۔ معجزہ :

یعنی نبی کا اپنے دعویٰ نبوت کے اثبات میں ایسے کام کا انجام دینا جس سے تمام لوگ عاجز ہوں چونکہ نبی عادت کے خلاف کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے اور نظروں سے اوجھل دنیا اور اللہ کی ذات سے رابطہ رکھتا ہے اور معارف و علوم کو اسی سے حاصل کرتا ہے اور تمام احکام کو اسی کی طرف نسبت دیتا ہے تو ضروری ہے کہ نبی ایسے کام کو اپنے مدعیٰ کے لئے انجام دے جس سے اس زمانے کے تمام افراد عاجز ہوں اور دعویٰ چونکہ غیبی ہے لہذا معجزہ بھی عادت کے بر خلاف ہونا چاہیے تاکہ اس امر غیبی کو ثابت کر سکے ایسے کام کو معجزہ کہتے ہیں۔

خلاصہ چونکہ نبی خدا سے رابطے کا دعویٰ کرتا ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے ہم مثل کام کو انجام دے تاکہ لوگ اس کی بات پر یقین کریں مخفی نہ رہے کہ انبیاء کے تمام پروگرام اسباب و علل کے دائرے ہی میں انجام پاتے ہیں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ، معجزہ سے کام لیتے ہیں ۔

نبی کو پہچاننے کا طریقہ :

پہلا راستہ :

ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔

۳۲

دوسرا راستہ :

وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے ۔

قرآن مجید نے انبیاء کے لئے مختلف معجزات کو بیان کیا ہے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انبیاء کے معجزات پر بھی یقین رکھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدہا ہونااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نہیں ہے، انبیاء کی تعداد :

حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں جس میں سب سے پہلے حضرت آدم اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں(1)

انبیاء کے اقسام :بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں لیکن تبلیغ پر مامور نہیں ہوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نہیں آئے تھے ، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ متعدد انبیاء مختلف شہروں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔

اولو العزم انبیاء : حضرت نوحعلیہ السلام ، حضرت ابراہیمعلیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، یہ صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحار الانوار، ج11، ص 30 ۔

۳۳

شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں، ان کو اولو العزم پیغمبر بھی کہا جاتا ہے۔

بعض انبیاء صاحب کتاب تھے : حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ،حضرت

موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد (ص) ، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نہیں تھے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔(1)

سوالات:

1۔نبی کے شرائط بیان کیجئے ؟

2۔نبی کو پہچاننے کا طریقہ بیان کیجئے ؟

3۔انبیاء کی تعداد بیان کیجئے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحار الانوار، ج1 ص61 ۔

۳۴

درس نمبر8

( آخری نبی )

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) اللہ کے آخری نبی ہیں آپ کی امت مسلمان کہلاتی ہے۔ آپکے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہے ۔قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ہے(1)

آنحضرت(ص) اس وقت مبعوث برسالت ہوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رہی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ چاہتے تو بہترین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ہمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی (ص) اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔جو قرآن کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے ۔

قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ۔ وہ بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ہے ۔

حالاتِ زندگی:آپ (ص) کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک

عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی ، آنحضرت (ص) بچپنے سے ہی با

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) احزاب (33) آیت 40 ۔

۳۵

ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین (ص) کہتے تھے ، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ عمل تھے کبھی آپ (ص) سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نہیں گئی کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتے اور برے کاموں سے دوری،لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مہربانی سے پیش آتے آپ جو کہتے اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ہر طرف سے اسلام کے گرویدہ ہونے لگے قرآن مجید نے آپکے اخلاق کی ان الفاظ میں ستائش کی ہے ۔(انک لعلی ٰ خلق عظیم ) ''آپ اخلاق کے اعلی ٰ درجے پر فائز ہیں ''

ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے ، تیرہ سال مکہ میں ر ہ کر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاہری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ہوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور آنحضرت کو اذیت اورمسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت (ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ہو کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آہستہ آہستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شہر سب سے پہلے اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔ آنحضرت (ص) اس مقدس شہر میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راہنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رہے اور آخر کارہمارے نبی (ص) ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ہجرت کے گیارہویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شہر مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ہوئے ۔ آپ (ص) نے اپنے بعد اللہ کے حکم سے مسلمانوں کی ہدایت کے لیے دو

۳۶

گرانبہا چیزوں کو چھوڑا ،ارشاد فرمایا : ''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضّلوا بعدی ولن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض'' میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسری میری عترت جو میرے اھل بیت ہیں جب تک ان سے وابستہ رہو گے گمراہ نہیں ہونگے اوور یہ دونوں(قرآن اور میری عترت )ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں ''

سوالات:

1۔کیا آپ (ص)کے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھناضروری ہے ؟

2۔آخری نبی کے مختصر حالات زندگی بیان کیجئے ؟

3۔قرآن نے آپکے اخلاق کے بارے میں میں کیا ارشاد فرمایا ہے ؟

4۔آپ (ص) نے اپنے بعد لوگوں کی ھدایت کے لیے کیا ارشاد فرمایا ؟

۳۷

درس نمبر9

( امامت )

جیسا کہ گزشتہ درس میں یہ بیان ہوا ہے کہ خداوند عالم پر انبیاء کا لوگوں کی سعادت و نیک بختی کے لئے قانون کے ساتھ بھیجنا ضروری ہے، ایسے ہی رسول کے بعد ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو رسول کے لائے ہوئے دستوالعمل کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پہنچائے ، یعنی دین کی حفاظت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی امور کو انجام دے تاکہ انسان کے لئے کمال و سعادت کی راہیںہمیشہ ہموار رہیں، اوراللہ اور اس کے بندوںکے درمیان ایک لمحہ کے لئے بھی فاصلہ و جدائی نہ ہو سکے ایسے شخص کو امام اور خلیفۂ رسول(ص) کہتے ہیں۔

تمام ائمہ اطہار نبی کے علوم کے محافظ اور انسان کی کامل ترین فرد اور نمونہ عمل اور اسلام کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں خود کامل اور سعادت کی راہوں میں سیر کرتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

امام کے صفات :

1عصمت :

نبی کی طرح امام کا بھی احکام دین اور اس کی تبلیغ و ترویج میں خطا و غلطی، سہو و نسیان سے منزہ ہونا ضروری ہے ، تاکہ دینی احکام کسی کمی اور زیادتی کے بغیر کامل طور پر اس کے پاس موجود رہیں اور لوگوں کو سیدھے راستے پر چلنے اور حق تک پہنچنے کا جو فقط ایک

۳۸

راستہ ہے اس کو مخدوش نہ ہونے دے ، پس امام کا گناہوں سے محفوظ رہنا اور جو کچھ کہے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے قول کی اہمیت اور ، بات کا بھرم باقی رہے اور لوگوں کا اعتماد اس سے زائل نہ ہو مختصر یہ کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے

2علم :

امام کا دین کے تمام احکام سے واقفیت اور ہر وہ مطالب جو لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کے لئے سزاوار ہیں اس کا جاننا ضروری ہے تاکہ انسان کے لئے سعادت و ہدایت کی شاہ راہ ہمیشہ کھلی رہے ۔ اس لئے کہ ناواقف انسان لوگوں کی رہنمائی نہیں کرسکتا ۔

امام کی پہچان :

امام کو دو راستوں سے پہچانا جا سکتا ہے :

پہلا راستہ : نبی یا امام خود اپنے بعد آنے والے امام کی پہچان بیان کرے اور لوگوں کے درمیان اپنے جانشین کے عنوان سے مشخص کرے ، جیسا کہ پیغمبراسلام (ص) نے اپنے بعد مقام غدیر اور کئی دوسرے مقامات پر حضرت علی (ع) کی امامت کا اعلان کیا ،اگر خود امام یا نبی اس فریضہ کو انجام نہ دیں تو لوگ امام کو معین نہیں کر سکتے اس لئے کہ عصمت اور اعلمیت کے مصداق کو فقط خدا یا اس کے نمائندے ہی جانتے ہیں اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں دی گئی ہے ۔

دوسرا راستہ : (معجزہ) اگر امام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چیزوں کی نشان دہی کرے تو اس کی امامت ثابت ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ اپنے امامت کے دعوے میں جھوٹا ہے تو سوال یہ ہے کہ خدا نے معجزہ سے اس کی مدد کیوں فرمائی ؟

۳۹

امام اور نبی میں فرق :

امام اور نبی میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ہے ۔

پہلا : نبی دین اور اس کے احکام کو لانے والے ہوتے ہیں ، لیکن امام اس کا محافظ اور معاشرے میں اس کو اجرا کرنے والا ہوتا ہے ۔

دوسرا : نبی یا پیغمبر (ص) شریعت،اور احکام کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں نیز نبی کا رابطہ خدا سے براہ راست ہوتا ہے ، لیکن امام چونکہ شریعت لانے والے نہیںہوتے اس لئے احکام ان کے لئے وحی کی صورت میں نہیں آتے،بلکہ وہ احکام کو نبی سے دریافت کرتے ہیں اور نبی کے علم میں ہدایت و راہنمائی کے عنوان سے دخالت رکھتے ہیں ۔

اماموں کی تعداد :

ہم گزشتہ بحث میں یہ ثابتکر چکے ہیں کہ رسول(ص) کے لئے امام کا معین کرنا نہایت ضروری ہے اس لئے کہ خدا اور رسول(ص) کے علاوہ عصمتِ باطنی سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا ہے اگررسول یہ کام انجام نہ دے تو اسکا مطلب یہ کہ وہ دین کو ناقص چھوڑ کر جارہا ہے ، ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے مسلمانوں کے لئے اپنا جانشین معین فرمایا ہے ، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خلیفۂ بلا فصل کو معین کیا ہے بلکہ اماموں کی تعداد( بارہ ہوں گی) اور بعض روایات میں ان کے اسمائے گرامی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

حضور اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے : میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ ہونگے ان کا پہلا شخص علی اور آخری مہدی موعود ہوگا ،

۴۰