معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )33%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31287 / ڈاؤنلوڈ: 3050
سائز سائز سائز

معارف اسلامی کورس

( عقائد، احکام،اخلاق )

( ۱ )

ترتیب و تدوین

سیّد نسیم حیدر زیدی

۱

فہرست

پیشگفتار ۵

حصہ اوّل ۸

( عقائد ) ۸

درس نمبر۱ ۹

( خدا کی پہچان ) ۹

درس نمبر ۲ ۱۲

( خدا کے صفات ) ۱۲

درس نمبر ۳ ۱۶

( صفات سلبیہ ) ۱۶

درس نمبر۴ ۲۰

( توحید ) ۲۰

درس نمبر ۵ ۲۴

( عدل ) ۲۴

دوسری دلیل : ۲۵

درس نمبر۶ ۲۷

( نبوت ) ۲۷

درس نمبر ۷ ۳۱

( نبی کے شرائط ) ۳۱

درس نمبر۸ ۳۵

( آخری نبی ) ۳۵

۲

درس نمبر۹ ۳۸

( امامت ) ۳۸

درس نمبر۱۰ ۴۲

( قیامت ) ۴۲

( حصہ دوم ) ۴۵

( احکام ) ۴۵

درس نمبر۱۱ ۴۶

( تقلید ) ۴۶

درس نمبر ۱۲ ۴۹

( نجاسات ) ۴۹

( مطہرات ) ۴۹

درس نمبر ۱۳ ۵۱

( وضو ) ۵۱

( غسل ) ۵۱

( تیمم کا طریقہ ) ۵۳

درس نمبر ۱۴ ۵۵

( نماز ) ۵۵

درس نمبر۵۱ ۵۹

( نماز پڑھنے کا طریقہ ) ۵۹

درس نمبر ۱۶ ۶۴

( نماز کے ارکان ) ۶۴

۳

درس نمبر ۱۷ ۶۷

( روزہ ) ۶۷

درس نمبر۱۸ ۷۰

( زکوٰة ) ۷۰

( خمس ) ۷۱

درس نمبر ۱۹ ۷۳

( حج ) ۷۳

( جہاد ) ۷۴

درس نمبر ۲۰ ۷۶

( امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) ۷۶

حصہ سوم ۷۹

( اخلاق ) ۷۹

درس نمبر ۲۱ ۸۰

( اخلاق ) ۸۰

درس نمبر۲۲ ۸۳

( ایمان اور عمل میں اخلاص ) ۸۳

درس نمبر ۲۳ ۸۷

( ماہ رمضان اور روزہ ) ۸۷

درس نمبر ۲۴ ۹۰

( انفاق اور صدقہ ) ۹۰

درس نمبر۲۵ ۹۹

( امانت اور امانت داری ) ۹۹

۴

پیشگفتار

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت کچھ سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی ، انسان کی عقل اچھے اور برے ، غلط اور صحیح ، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے ،اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔ ان سوالات میں سے کچھ کا تعلق ''اصول دین ''سے ہوتا ہے ،کچھ کا تعلق ''فروع دین ''سے اور کچھ کا تعلق'' اخلاق '' سے ہوتا ہے

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں صحیح تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب نوجوان ''معارف اسلامی ''سے نا آگاہ ہیں جسکی وجہ سے بعض ایسے خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائدکا حصہ سمجھتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور پھر وہ ان ہی باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری ،پھر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے چلے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں ، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذہب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں ، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے ، غلط و صحیح میں تمیز نہیں دے پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی

۵

بسر کرتے ہیں ، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں ، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت نوجوانوں کو صحیح معارف اسلامی سے آگاہ کریں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں ، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں ، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب معارف اسلامی کورس کے عنوان سے دو جلدوں میں دو مختلف سطحوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کیلئے ترتیب دی گئی ہے ، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بھرپور توجہ رکھی گئی ہے ۔

۱۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اختصار کے سبب صرف ضروری حوالوں پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔

۲۔حتیٰ الامکان لکھنے میں علمی اصطلاحوں سے گریز کیا گیا ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لئے تھکاو ٹ کا سبب نہ بنے ۔

۴۔ مشکوک و مخدوش ، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ ۵۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر

۶

واجب ہے ، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں عقائد ،احکام اور اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اختصارکے پیش نظر صرف چیدہ چیدہ مطالب کو بیان کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس ناچیزکوشش کو قبول فرمائے۔ اور تمام ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے جھنوں نے اس کوشش میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا۔ طالب دعا

سید نسیم حیدر زیدی

۷

حصہ اوّل

( عقائد )

۸

درس نمبر۱

( خدا کی پہچان )

خدا وند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظم طریقہ سے چلا رہا ہے ، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی ہے مثال کے طور پر اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس کا بنانے والا ، کوئی ضرور ہوگا ، کسی کے خیال میں بھی یہ نہیں آتا کہ یہ خودبخود تیار ہو گیا ہوگا ۔

اگر ہم میز پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا ہے تویہ دیکھ کر ہمیں اطمینان سا ہوجاتاہے کہ ہماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا ، اور اس پر اپنے آثار چھوڑ گیا ہے اگر کوئی کہے جناب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ہی اس پر رواں ہو گیا اوراس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ہیں تو ہم اس کی باتوں پر تعجب کریں گے اور اس کی بات کوغیر معقول قرار دینگے ۔آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نہیں ہوتا ہے ، اور اس کی تلاش ہر شخص کو ہوتی ہے ، اب میں آپ سے سوال کروں کہ کیا یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا (بنانے والے) کرنے والے کے پیدا ہوگئی ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے ، اتنی بڑی اور منظم دنیا رواں دریا ، چمکتے ہوئے ستارے اور دمکتا ہوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا ، فصلوں کی تبدیلی ، درختوں کے شباب ، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نہیں ہو سکتا ۔

۹

دنیا میں نظم و ترتیب :

اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو اوراس میںرہنے والوںکیلئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیںبھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پرفراہم ہوں تو ہماری عقل فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ ہر لحاظ سے منظم عمارت خود بخود وجود میں نہیں آئی ہو گی ۔ بلکہ اس کابنانے اور سنوارنے والا کوئی با ہوش مدبر ہے ،جس نے اسے نہایت ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنایا ہے ۔

اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا گیا ہے غور و فکر کریں تو تعجب کی انتہا باقی نہ رہے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گہرا تعلق اور رابطہ پایا جاتا ہے جس سے ہمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں، خود بخود وجود میں نہیں آئی ہیں ۔

بلکہ پیدا کرنے والے نے بہت ہی تدبیر اور ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مد نظر رکھنے کے بعد خلق فرمایا ہے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گہرا رابطہ پیدا کر سکے ؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نہیں ہے انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اورمناسب خلق کر سکتی ہے ؟ کیا طبیعت کے بس میں ہے جو انسان کے منھ میں ایسے غدود رکھے جس سے انسان کا منھ ہمیشہ تروتازہ بنا رہے؟ کیا چھوٹی زبان (کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ہر لقمہ اور ہر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ہے خود بخود بن جائے گی ؟ کیا یہ معدہ کے غدود جو غذا کے لئے ہاضم بنتے ہیں خود بخود خلق ہوئے ہیں ؟وہ کونسی چیز ہے جو بڑے غدود(لوزالمعدہ) کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیّال اور

۱۰

غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکائو کرے ؟ کیا انسان کے اعضاء پنے فائدہ کا خود خیال رکھتے ہیں ؟وہ کیا چیز ہے جو دل کو مجبور کرتی ہے کہ وہ رات ودن اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین ( Protein ) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پہنچائے ؟ ہاں، خداوند عالم کی ذات ہے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظم رکھے ہوئے ہے ۔

سوالات:

۱۔خدا کو پہچاننے کا طریقہ بیان کریں ؟

۲۔ اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو ہمیں کس بات کا یقین ہوتا ہے ؟

۳۔اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظم اور با ترتیب بنی ہوئی ہو تو ہماری عقل کیا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو تی ہے؟

۱۱

درس نمبر ۲

( خدا کے صفات )

خدا کے صفات : اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے

( ۱ ) صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

( ۲ ) صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔

صفات ثبوتیہ :

ہر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اہمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کے کامل ہونے کو بیان کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے ، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کہتے ہیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم وغیرہ

ان صفات کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ہیں ،اگر ہم دو آدمیوں میں علم و جہل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ہیں کہ جاہل کے مقابلے میں عالم پُر اہمیت اور فائدہ بخش ہے ، لہٰذا یہ عالم ،جاہل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پہلو رکھتا ہے لہذا ہم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ہے ، اور ایسے ہی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پرصفات جمالیہ کی حقیقت و برتری کھل کر روشن ہوجائیگی اور یہ تمام صفا ت خدا کے لئے ثابت ہیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک سادہ سی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں ۔

۱۲

خداوند عالم نے تمام کمالات ،خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کمالات خوداس کے پاس موجود نہ ہو اگر اس کے پاس نہ ہوںتو دوسروں کو کیسے دے سکتا ہے ( فاقد الشیء لا یعطی الشی ئ) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ہیں ، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ہے، جب تک چراغ روشن نہ ہو ، دوسروں کو روشن نہیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ہو دوسری چیزوں کو تر نہیں کر سکتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ : خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ہیں :

۱۔ قدرت : خدا قادر ہے یعنی جس کام کو انجام دینا چاہے انجام دیتا ہے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نہیں ہے ا

۲۔ علم : خدا عالم ہے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ہے ۔

۳۔ حیات : خدا زندہ وحی ہے اور اپنی حیات میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

۴۔ ارادہ : خدا مرید ہے یعنی اپنے کاموں کو خود اپنے قصد و ارادہ سے انجام دیتا ہے ۵۔ بصیر ہے: خداوند عالم دیکھنے والا ہے تما م پیدا ہونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

۶۔ سمیع ہے : خدا سننے والا ہے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ہے کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔

۷۔ قدیم و ابدی ہے : قدیم یعنی ہمیشہ سے ہے اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے ابدی یعنی

ہمیشہ رہے گا اس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

۱۳

۸۔ متکلم ہے : حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کہتے ہیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ہیں ۔

یاد دہانی :

چونکہ ہم ناقص ہیںاس لئے ہم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نہیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ہیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ہیں دیکھنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے آنکھ کے محتاج ہیں، چلنے کی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی پائوں کے نیازمند ہیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ہے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نہیں ہے ، خداوند عالم قادر مطلق ہے ،بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے ، بغیر کان کے سنتا ہے ، بغیر اعضا وجوارح ( جسم و جسمانیت سے خالی ) کے تمام کام کو انجام دیتا ہے ۔

صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) صفات ذاتیہ (۲) صفات فعلیہ

صفات ذاتیہ : ان صفات کو کہا جاتا ہے جو ہمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ہیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نہیں ہے ، ان کو صفات ذاتیہ کہتے ہیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔

خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پہلے ،قادر ہے چاہے کسی چیز کو نہ پیدا کرے ، ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا موجودات رہیں یا نہ رہیں ، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ہیں ، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نہیں

۱۴

ہو سکتی ہے ،اس لئے کہ وہ عین ذات ہے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ہونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ہے ۔

صفات فعلیہ :ان صفات کو کہتے ہیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ہیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا ، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کہا گیا ، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ہوا ، جب بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کہلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

سوالات:

۱۔صفات ثبوتیہ کن صفات کو کہتے ہیں ؟

۲۔صفات ثبوتیہ کی کتنی قسمیں ہیں ہرایک کی وضاحت کیجئے ؟

۳۔ آنے والی صفات میں سے صفات ثبوتیہ فعلیہ جدا کیجئے ،عالم ،خالق ،ستّار ،غفّار ،کریم ،حی ،قادر

۱۵

درس نمبر ۳

( صفات سلبیہ )

ہر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ہے اسے صفات سلبیہ کہتے ہیں ،خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نہیں پایا جاتا ہے ، لہذا ہر وہ صفت جو خدا کے نقص یا عیب پر دلالت کرے اسے خدا سے دور رکھنا ضروری ہے

صفات سلبیہ یا جلالیہ یہ ہیں :

( ۱ ) خدا مرکب نہیں ہے :ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے ، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے ، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی

( ۲ ) خدا جسم نہیں رکھتا : اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں ، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے ، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔اوردوسرے یہ کہ ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے ، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔

۱۶

( ۳ ) خدا مرئی نہیں : خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے ، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔

( ۴ ) خدا جاہل نہیں ہے : جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا ، خدا ہر چیز کا عالم ہے ، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے ، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم ہرعیب و نقص سے پاک ہے۔

( ۵ ) خدا عاجز و مجبور نہیں : پہلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ہے کہ خدا ہر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نہیں ہے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ہے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ہے۔

( ۶ ) خدا محل حوادث نہیں : خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نہیں ہے جیسے کمزوری ، پیری ،جوانی اس میں نہیں پائی جاتی ہے ، اس کو بھوک ،پیاس، غفلت اور نیند نیزتھکاوٹ وغیرہ کا احساس نہیں ہوتا ، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ہیں اور پہلے گذر چکا ہے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ہے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نہیں ہے ۔

( ۷ ) خدا کا شریک نہیں : اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔

( ۸ ) خدا مکان نہیں رکھتا : خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نہیں ہے ۔

٭سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے

۱۷

ہیں ؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ہے ، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ہے ۔

٭مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گھر کیوں کہتے ہیں ؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ہوتی ہے ، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ہے جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گھر کہا ہے ورنہ خدا ہر جگہ و ہر طرف موجود ہے ،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ) (۱) پس تم جس جگہ بھی اپنا رخ کر لو توسمجھوکہ وہیں خدا موجود ہے۔

( ۹ ) خدا محتاج نہیں : خداوند عالم کسی شی کا محتاج نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کی ذات ہر ارعتبار سے کامل و تام ہے اس میں نقص اور کمی موجود نہیں ہے جو کسی چیز کا محتاج ہو اور اگر محتاج ہے تو پھر واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

٭کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

جئسا کہ عرض کیا ہے کہ خدا کی ذات ناقص نہیں ہے جو وہ ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے ، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ہمیشہ آباد رہنے والی جنت کے لائق ہو جائے ۔

( ۱۰ ) خدا ظالم نہیں : اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورۂ بقرہ آیت ۱۱۵۔

۱۸

سوالات:

۱۔صفات سلبیہ کی تعریف کیجئے ؟

۲۔کوئی بھی پانچ صفات سلبیہ بیان کیجئے ؟

۳۔اگر خدا مکان نہیں رکھتا تو پھر دعا کے وقت ہاتھوں کوآسمان کی طرف کیوںاٹھاتے ہیں ؟

۴۔کیا خدا ہماری عبادتوںکا محتاج ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ اسکی عبادت کریں ؟

۱۹

درس نمبر۴

( توحید )

ا ﷲتبارک و تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے ، اس کے علاوہ کوئی خالق اور پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس نے کسی کی مدد سے خلق کیا ہے اس لیے کہ اگر دو خدا ( یا اس سے زیادہ ) ہوتے تو چند حالتیں ممکن ہیں ۔

پہلی حالت یہ کہ دونوں نے (دنیا) موجودات کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ، دوسری حالت یہ کہ ایک دوسرے کی مدد سے دنیا کو خلق کیا ہے ، تیسری حالت یہ کہ دونوں نے دنیا کو دو حصوں میں خلق کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی خدائی میں دخالت کرتے ہیں ۔

پہلی حالت : دونوں نے دنیا کو مستقل علیحدہ علیحدہ خلق کیا ہے ( یعنی ہر چیز دو دفعہ خلق ہوئی ہے ) اس کا باطل ہونا واضح ہے ۔ چونکہ ہر ایک شخص میں ایک وجود سے زیادہ وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے ایک سے زیادہ خدا کا تصور نہیں ہے ۔

دوسری حالت : ان دونوں خدا نے ایک دوسرے کی مدد ( شرکت) سے موجودات کو خلق کیا ہے ، یعنی ہر موجود دو خدا کی مخلوق ہو اور دونوں آدھے آدھے برابر کے شریک ہوں یہ احتمال بھی باطل ہے ۔

کیونکہ یا توتنہا موجودات کو خلق کرنے سے عاجز و مجبور تھے تو یہ بحث پہلے گذرچکی ہے کہ خدا عاجز و محتاج نہیں ہوتا ۔یا یہ کہ دونوں خلق پر قادر ہیں لیکن پھر بھی دونوں

۲۰

شریک ہو کر موجودات کو وجود میں لاتے ہیں یہ بھی باطل ہے کیونکہ دو فاعل کسی کام پر قادر ہوتے ہوئے پھر بھی تنہا کسی کام کو انجام نہ دیں اس میں چند صورتیں ممکن ہیں :

الف: یا دونوں بخل کر رہے ہیں کہ آدھہ آدھہ کام کررہے ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ زیادہ خرچ نہ ہو ۔ توبخل و کنجوسی خدا کی ذات کے لئے مناسب نہیں ہے۔

ب: یا دونوں آپس میں ڈرتے ہیں اور اس ڈر کی بنا پر کم خرچ کر رہے ہیں۔ تو یہ ، شانِ خدا کے بر خلاف ہے کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ متأثر و عاجز نہیں ہو سکتا ہے ۔

ج: یا دونوں مجبوراً آپس میں شریک ہیں ۔

اسکا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں کہ جو مجبور ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا

دوسری دلیل :

اگر خدا کسی موجود کو پیدا کرے اور دوسرا اس موجود کو تباہ کرنے کا ارادہ کرے تو کیا پہلا خدا اپنی خلق کی ہوئی چیز کا دفاع کر سکتا ہے ؟ اور دوسرے کے شر سے اس کو محفوظ رکھ سکتا ہے ؟ اگر پہلا اپنی موجودہ چیز کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا، اور اگر یہ دفاع کر سکتا ہے تو دوسرا خدا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ عاجز ہے اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا ہے ۔

نتیجہ :

ہم خدا کو ایک اور لا شریک موجودات کو خلق کرنے والا جانتے ہیں اور اس کے علاوہ جو بھی ہو اس کو ناتوان ، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار کرتے ہیں ، ہم فقط اللہ تبارک و تعالیٰ کو لائق عبادت جانتے ہیں کسی دوسرے کے لئے سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی اور کے لئے جھکتے ہیں ہم آزاد ہیں اپنی آزادی کو کسی کے حوالے نہیں کرتے اور کسی کی بے حد و

۲۱

انتہا تعریف نہیں کرتے اور چاپلوسی کو عیب جانتے ہیں ۔

ہم انبیاء اور ائمہ کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نے ان کو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار دیا ہے ، یعنی ان کے احترام و اتباع کو واجب قرار دیا ہے ، ان کے احکام و قوانین ہمیشہ خدا کے احکام کی روشنی میں رہے ہیں اور ان لوگوں نے کبھی بھی زیادتی اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا ہے ، ہم انبیاء و ائمہ کے مرقد پر جاتے ہیں اور ان کے مزار و روضہ کا احترام کرتے ہیں ،لیکن یہ پرستش اور ان کی بندگی کے عنوان سے نہیں بلکہ خدا کی بارگاہ میں بلند مقام اور پاکیزگی و بزرگی کا خیال رکھکران کی تکریم کرتے ہیں اور ان کے روضہ کی تعمیر اور ان کی فداکاری و جانثاری و قربانیوں کی قدر دانی کرتے ہیں ،اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زحمت و مشقت کو برداشت کرے اور اس کے احکام و پیغام و ارشاد کو لوگوں تک پہنچائے، تو نہ اس دنیا میں بھلایا جائے گا اور نہ آخرت میں ، ہم ان مقدس اللہ کے بندوں،پاک سیرت نمائندوں اور اس کے خاص چاہنے والوں کے حرم میں خداوند ذوالجلال کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنی حاجت کی قبولیت اور رازونیاز کرتے ہیں ، اور اپنی دعا و مناجات میں ان مقدس بزرگوں کی ارواح طیباہ کو خدا کے حضور میں واسطہ و وسیلہ قرار دیتے ہیں ۔

۲۲

سوالات:

1۔ توحید کے کیا معنی ٰ ہیں ؟

2۔خدا کی توحید پر کوئی ایک دلیل پیش کریں ؟

3۔ہم انبیاء اور ائمہ کا احترام اور ان کے بیان کئے گئے احکام کی پیروی کیوںکرتے ہیں ؟

۲۳

درس نمبر 5

( عدل )

خداوند عالم عادل ہے یعنی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس سے کوئی بُرا کام صادر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے تمام کاموںمیں حکمت اور مصلحت پائی جاتی ہے اچھے کام کرنے والوں کو بہترین جزا دے گا کسی چیز میں جھوٹ اور وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے ، کسی کو بے گناہ اور بے قصور جہنم میں نہیں ڈالے گا ، اس مطلب پر دو دلیلیں پیش خدمت ہیں پہلی دلیل :

جو شخص ظلم کرتا ہے یا برے کام کو انجام دیتا ہے اس کی صرف تین صورتیںہوسکتی ہیں

(1) یا وہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف نہیں ہے اس وجہ سے ظلم و زیادتی انجام دیتا ہے۔

( 2 ) یاوہ اس کام کی اچھائی اور برائی سے واقف و آگاہ ہے لیکن جو چیزیں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے چونکہ اس کے پاس وہ نہیں ہوتی اس لئے اان کو لینے کے لئے ان پر ظلم کرتا ہے تا کہ ان کے اموال کو لے کر فائدہ اٹھائے اوراپنے عیب و نقص (کمی) کو پورا کرے اس طرح وہ ان کے حقوق کو ضائع و برباد کرتا ہے اور چونکہ خود قوی ہے اس لئے کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ہے ۔

( 3 ) یا ظلم و زیادتی سے آگاہی رکھتا ہے اس کو ان چیزوں کی ضرورت بھی نہیں ہے ، بلکہ انتقام اور بدلہ یا لہو و لعب کے لئے ایسا کام انجام دیتا ہے۔

۲۴

عموما ًہر ظلم و ستم کرنے والے انھیں اسباب کی وجہ سے ان کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں ، لیکن خداوند عالم کی ذات ان تمام امور سے منزہ اور پاکیزہ ہے ، وہ ظلم و ستم نہیں کرتا اس لئے کہ جہالت و نادانی اس کے لئے قابل تصور نہیں ہے، اور وہ تمام چیزوں کی اچھائی اور برائی کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے وہ ہر چیز سے مطلقا بے نیاز ہے ، اس کو کسی کام اور کسی چیز کی ضرورت و حاجت نہیں ہے ، اس سے لغو و بیہودہ کام بھی صادر نہیںہوتے اس لئے کہ وہ حکیم ہے ،اس کے پاس صرف عدالت ہی عدالت موجود ہے ظلم و ستم کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔

دوسری دلیل :

ہماری عقل، ظلم و ستم کو ناپسند اور برا کہتی ہے اور تمام صاحبان عقل کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی لوگوں پر ظلم و ستم نیز برے کاموں کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے ، اس بنا پر کیسے ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو تمام صاحبان عقل براسمجھیں اور ناپسند کریں اور خدا اپنے بھیجے ہوئے خاص بندوں کو ان کاموں سے منع کرے وہ خود ان غلط کاموں کو انجام دے ؟ !

البتہ سماج اور معاشرے میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ تمام لوگ ہر جہت سے برابر نہیں ہیں، بلکہ بعض ان میں فقیر اور بعض غنی ، بد صورت و خوبصورت ، خوش فہم و نا فہم ، صحت مندو بیمار وغیرہ ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔

بعض اشخاص پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں یہ تمام کی تمام چیزیں بعض اسباب اور علتوں کی بنا پر انسان کے اوپر عارض ہوتی ہیں ، کبھی یہ اسباب طبعی علتوں کی بنیاد پر اور کبھی خود انسان ان میں دخالت رکھتا ہے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود خدا کے فیض کا

۲۵

دروازہ کھلا ہوا ہے اور ہر شخص اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق اس سے فیض حاصل کرتا ہے خداوند عالم کسی بھی شخص کو اس کی قدرت و طاقت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتا ، انسان کی کوشش اور محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ، ہر فرد کی ترقی کے لئے تمام حالات و شرائط میں راستے کھلے ہوئے ہیں ۔

سوالات:

1۔عدل کی تعریف کیجئے ؟

2۔خدا کے عادل ہونے پر کوئی دلیل پیش کیجئے ؟

3۔اگر خدا عادل ہے تو تمام لوگ ہر جہت سے برابرکیوں نہیں ہیں؟

۲۶

درس نمبر6

( نبوت )

خداوند عالم کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے احکام کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرے اس مطلب پر تین دلائل پیش کررہے ہیں ۔

پہلی دلیل : اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ہدف یہ نہیں ہے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رہے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ہر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ہے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ہوگی !(1) جب کہ خدائے تبارک و تعالیٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرّا ہے۔

انسان ، خداوند عالم کی بہترین و افضل ترین مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ

ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعلیٰ مرتبہ پر پہونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بہترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔

لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء

کیساتھ دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراہی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مؤمنون (23) آیت 115( اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ ) کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہمارے حضور میں لوٹا کر نہیں لائے جائوگے ۔

۲۷

تاریکی سے نکالیں ، یہ وہی احکام ہیں انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدھارتے ہیں، لوگوں کو زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ہیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ہیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پہونچاتے ہیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ہے ؟ ہر گز ممکن نہیں ، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ہے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات کے بارے میں کافی اور کامل معلومات نہیں رکھتی ہے ۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا ، قانون تو بے شمار بنتے رہتے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ہیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ہو جاتے ہیں ۔

دوسری دلیل : خود انسان کی طبیعت میں خود خواہی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ہے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ہوتی ہے ۔

اگر چہ بعض اوقات ا نسان یہ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ہوائے نفس اور خود خواہی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ہو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ہوں اور ہر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رہا ہو لیکن کہیں نہ کہیں طبیعت اور

۲۸

خواہش نفسانی تو غلبہ کر ہی لیتی ہے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ہو جاتا ہے ۔

تیسری دلیل : قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نہیں رکھتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ہیں وہ انسان کی فلاح اور بہبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ہیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ہے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ہے جو اس دنیا اور اس میں موجود تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ہے،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ہوئے ہے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نہیں، وہی ہے جو بلندی کی راہ اور ہلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہوں اوران کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو ۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں خداوند عالم حکیم ہے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراہی کے سمندر میں نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کرے ۔

انبیا ،اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کے ممتاز فرد ہوتے ہیں جو خدا سے جس وقت چاہیں رابطہ پیدا کر سکتے ہیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاہیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اس طرح کے رابطے کو ''وحی'' کہتے ہیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کہتے ہیں ، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی

۲۹

حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔

سوالات:

1۔نبوت سے کیا مراد ہے ؟

2۔انبیاء کے مبعوث کرنے پر کوئی ایک دلیل پیش کریں ؟

3۔وحی کی تعریف کیجئے ؟

۳۰

درس نمبر 7

( نبی کے شرائط )

1۔عصمت :

نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے یعنی نبی کے پاس ایسی قدرت و طاقت موجود ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے گناہ کے ارتکاب اور ہر طرح کی خطا و غلطی اور نسیان سے محفوظ رہ سکیں تاکہ خداوند عالم کے احکام جو انسان کی ہدایت کے لئے بنائے گئے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہونچا سکیں ۔

اگرنبی خود گناہ کا مرتکب ہو جائے اور اپنے قول کے برخلاف عمل کرنے لگے تو اس کی بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گی یعنی وہ اپنے اس فعل سے اپنی ہی باتوں کا قلع قمع اور اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو برائی اور خدا کی نافرمانی کی طرف راہنمائی کر نے لگے گا ، جب کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی تبلیغ زبان کی تبلیغ سے زیادہ مؤثر ہے اگر نبی غلطی و نسیان سے محفوظ نہ رہ سکے تو لوگوں کے دلوں سے اسکی محبوبیت اور اس کا بھروسہ ختم ہوجائے گا اور اس کی باتوں کی معاشرے کے سامنے کوئی اہمیت و عزت نہ رہیگی ۔

2۔علم :

نبی کے لئے ضروری ہے کہ ہر وہ قوانین جو انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے لازم و ضروری ہیں اس سے خوب واقف ہو ، اور ہر وہ مطالب و موضوع جو راہنمائی و تبلیغ کے لئے کارساز ہیں اس کا کماحقہ علم رکھتا ہو تاکہ انسان کی فلاح اور بلندی کے

۳۱

حصول کے لئے خاص پروگرام لوگوں کے اختیار میں دے سکے اور راہ مستقیم (سیدھا راستہ) جو فقط ایک راستہ ہے اور اس کے سوا کوئی راستہ نہیں، اس راہ کے عظیم اجزا کو باہم اور دقیق ملاکر لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔

3۔ معجزہ :

یعنی نبی کا اپنے دعویٰ نبوت کے اثبات میں ایسے کام کا انجام دینا جس سے تمام لوگ عاجز ہوں چونکہ نبی عادت کے خلاف کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے اور نظروں سے اوجھل دنیا اور اللہ کی ذات سے رابطہ رکھتا ہے اور معارف و علوم کو اسی سے حاصل کرتا ہے اور تمام احکام کو اسی کی طرف نسبت دیتا ہے تو ضروری ہے کہ نبی ایسے کام کو اپنے مدعیٰ کے لئے انجام دے جس سے اس زمانے کے تمام افراد عاجز ہوں اور دعویٰ چونکہ غیبی ہے لہذا معجزہ بھی عادت کے بر خلاف ہونا چاہیے تاکہ اس امر غیبی کو ثابت کر سکے ایسے کام کو معجزہ کہتے ہیں۔

خلاصہ چونکہ نبی خدا سے رابطے کا دعویٰ کرتا ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے ہم مثل کام کو انجام دے تاکہ لوگ اس کی بات پر یقین کریں مخفی نہ رہے کہ انبیاء کے تمام پروگرام اسباب و علل کے دائرے ہی میں انجام پاتے ہیں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ، معجزہ سے کام لیتے ہیں ۔

نبی کو پہچاننے کا طریقہ :

پہلا راستہ :

ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔

۳۲

دوسرا راستہ :

وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے ۔

قرآن مجید نے انبیاء کے لئے مختلف معجزات کو بیان کیا ہے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انبیاء کے معجزات پر بھی یقین رکھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدہا ہونااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نہیں ہے، انبیاء کی تعداد :

حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں جس میں سب سے پہلے حضرت آدم اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں(1)

انبیاء کے اقسام :بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں لیکن تبلیغ پر مامور نہیں ہوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نہیں آئے تھے ، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ متعدد انبیاء مختلف شہروں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔

اولو العزم انبیاء : حضرت نوحعلیہ السلام ، حضرت ابراہیمعلیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، یہ صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحار الانوار، ج11، ص 30 ۔

۳۳

شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں، ان کو اولو العزم پیغمبر بھی کہا جاتا ہے۔

بعض انبیاء صاحب کتاب تھے : حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ،حضرت

موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد (ص) ، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نہیں تھے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔(1)

سوالات:

1۔نبی کے شرائط بیان کیجئے ؟

2۔نبی کو پہچاننے کا طریقہ بیان کیجئے ؟

3۔انبیاء کی تعداد بیان کیجئے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحار الانوار، ج1 ص61 ۔

۳۴

درس نمبر8

( آخری نبی )

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) اللہ کے آخری نبی ہیں آپ کی امت مسلمان کہلاتی ہے۔ آپکے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہے ۔قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ہے(1)

آنحضرت(ص) اس وقت مبعوث برسالت ہوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رہی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ چاہتے تو بہترین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ہمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی (ص) اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔جو قرآن کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے ۔

قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ۔ وہ بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ہے ۔

حالاتِ زندگی:آپ (ص) کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک

عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی ، آنحضرت (ص) بچپنے سے ہی با

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) احزاب (33) آیت 40 ۔

۳۵

ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین (ص) کہتے تھے ، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ عمل تھے کبھی آپ (ص) سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نہیں گئی کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتے اور برے کاموں سے دوری،لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مہربانی سے پیش آتے آپ جو کہتے اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ہر طرف سے اسلام کے گرویدہ ہونے لگے قرآن مجید نے آپکے اخلاق کی ان الفاظ میں ستائش کی ہے ۔(انک لعلی ٰ خلق عظیم ) ''آپ اخلاق کے اعلی ٰ درجے پر فائز ہیں ''

ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے ، تیرہ سال مکہ میں ر ہ کر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاہری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ہوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور آنحضرت کو اذیت اورمسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت (ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ہو کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آہستہ آہستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شہر سب سے پہلے اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔ آنحضرت (ص) اس مقدس شہر میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راہنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رہے اور آخر کارہمارے نبی (ص) ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ہجرت کے گیارہویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شہر مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ہوئے ۔ آپ (ص) نے اپنے بعد اللہ کے حکم سے مسلمانوں کی ہدایت کے لیے دو

۳۶

گرانبہا چیزوں کو چھوڑا ،ارشاد فرمایا : ''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضّلوا بعدی ولن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض'' میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسری میری عترت جو میرے اھل بیت ہیں جب تک ان سے وابستہ رہو گے گمراہ نہیں ہونگے اوور یہ دونوں(قرآن اور میری عترت )ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں ''

سوالات:

1۔کیا آپ (ص)کے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھناضروری ہے ؟

2۔آخری نبی کے مختصر حالات زندگی بیان کیجئے ؟

3۔قرآن نے آپکے اخلاق کے بارے میں میں کیا ارشاد فرمایا ہے ؟

4۔آپ (ص) نے اپنے بعد لوگوں کی ھدایت کے لیے کیا ارشاد فرمایا ؟

۳۷

درس نمبر9

( امامت )

جیسا کہ گزشتہ درس میں یہ بیان ہوا ہے کہ خداوند عالم پر انبیاء کا لوگوں کی سعادت و نیک بختی کے لئے قانون کے ساتھ بھیجنا ضروری ہے، ایسے ہی رسول کے بعد ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو رسول کے لائے ہوئے دستوالعمل کو بغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پہنچائے ، یعنی دین کی حفاظت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی امور کو انجام دے تاکہ انسان کے لئے کمال و سعادت کی راہیںہمیشہ ہموار رہیں، اوراللہ اور اس کے بندوںکے درمیان ایک لمحہ کے لئے بھی فاصلہ و جدائی نہ ہو سکے ایسے شخص کو امام اور خلیفۂ رسول(ص) کہتے ہیں۔

تمام ائمہ اطہار نبی کے علوم کے محافظ اور انسان کی کامل ترین فرد اور نمونہ عمل اور اسلام کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں خود کامل اور سعادت کی راہوں میں سیر کرتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

امام کے صفات :

1عصمت :

نبی کی طرح امام کا بھی احکام دین اور اس کی تبلیغ و ترویج میں خطا و غلطی، سہو و نسیان سے منزہ ہونا ضروری ہے ، تاکہ دینی احکام کسی کمی اور زیادتی کے بغیر کامل طور پر اس کے پاس موجود رہیں اور لوگوں کو سیدھے راستے پر چلنے اور حق تک پہنچنے کا جو فقط ایک

۳۸

راستہ ہے اس کو مخدوش نہ ہونے دے ، پس امام کا گناہوں سے محفوظ رہنا اور جو کچھ کہے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے قول کی اہمیت اور ، بات کا بھرم باقی رہے اور لوگوں کا اعتماد اس سے زائل نہ ہو مختصر یہ کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے

2علم :

امام کا دین کے تمام احکام سے واقفیت اور ہر وہ مطالب جو لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کے لئے سزاوار ہیں اس کا جاننا ضروری ہے تاکہ انسان کے لئے سعادت و ہدایت کی شاہ راہ ہمیشہ کھلی رہے ۔ اس لئے کہ ناواقف انسان لوگوں کی رہنمائی نہیں کرسکتا ۔

امام کی پہچان :

امام کو دو راستوں سے پہچانا جا سکتا ہے :

پہلا راستہ : نبی یا امام خود اپنے بعد آنے والے امام کی پہچان بیان کرے اور لوگوں کے درمیان اپنے جانشین کے عنوان سے مشخص کرے ، جیسا کہ پیغمبراسلام (ص) نے اپنے بعد مقام غدیر اور کئی دوسرے مقامات پر حضرت علی (ع) کی امامت کا اعلان کیا ،اگر خود امام یا نبی اس فریضہ کو انجام نہ دیں تو لوگ امام کو معین نہیں کر سکتے اس لئے کہ عصمت اور اعلمیت کے مصداق کو فقط خدا یا اس کے نمائندے ہی جانتے ہیں اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں دی گئی ہے ۔

دوسرا راستہ : (معجزہ) اگر امام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چیزوں کی نشان دہی کرے تو اس کی امامت ثابت ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ اپنے امامت کے دعوے میں جھوٹا ہے تو سوال یہ ہے کہ خدا نے معجزہ سے اس کی مدد کیوں فرمائی ؟

۳۹

امام اور نبی میں فرق :

امام اور نبی میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ہے ۔

پہلا : نبی دین اور اس کے احکام کو لانے والے ہوتے ہیں ، لیکن امام اس کا محافظ اور معاشرے میں اس کو اجرا کرنے والا ہوتا ہے ۔

دوسرا : نبی یا پیغمبر (ص) شریعت،اور احکام کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں نیز نبی کا رابطہ خدا سے براہ راست ہوتا ہے ، لیکن امام چونکہ شریعت لانے والے نہیںہوتے اس لئے احکام ان کے لئے وحی کی صورت میں نہیں آتے،بلکہ وہ احکام کو نبی سے دریافت کرتے ہیں اور نبی کے علم میں ہدایت و راہنمائی کے عنوان سے دخالت رکھتے ہیں ۔

اماموں کی تعداد :

ہم گزشتہ بحث میں یہ ثابتکر چکے ہیں کہ رسول(ص) کے لئے امام کا معین کرنا نہایت ضروری ہے اس لئے کہ خدا اور رسول(ص) کے علاوہ عصمتِ باطنی سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا ہے اگررسول یہ کام انجام نہ دے تو اسکا مطلب یہ کہ وہ دین کو ناقص چھوڑ کر جارہا ہے ، ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے مسلمانوں کے لئے اپنا جانشین معین فرمایا ہے ، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خلیفۂ بلا فصل کو معین کیا ہے بلکہ اماموں کی تعداد( بارہ ہوں گی) اور بعض روایات میں ان کے اسمائے گرامی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

حضور اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے : میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ ہونگے ان کا پہلا شخص علی اور آخری مہدی موعود ہوگا ،

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104