معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۱

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )33%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 104

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31290 / ڈاؤنلوڈ: 3050
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مجبور ہوئے اور یوں انہوں نے عمار کو چھوڑ دیا_ اس کے بعد وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض کیا '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ جب تک میں نے مجبور ہوکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا نہیں کہا اور ان کے معبودوں کی تعریف نہیں کی تب تک انہوں نے مجھے نہیں چھوڑا'' _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے عمار تیری قلبی کیفیت کیسی ہے؟'' عرض کیا ''یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ میرا دل تو ایمان سے لبریز ہے''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''پس کوئی حرج نہیں بلکہ اگر وہ دوبارہ تمہیں مجبور کریں توتم پھر وہی کہو جو وہ چاہیں_ بے شک خدانے تیرے بارے میں یہ آیت نازل کی ہے( الا من اکره وقلبه مطمئن بالایمان ) مگرجس پر جبر کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان سے لبریز ہو_(۱)

تقیہ کتاب وسنت کی روشنی میں

۱_حضرت عمار کا قصہ اور اس کے بارے میں آیات کا نزول، جان ومال کا خوف در پیش ہونے کی صورت میں تقیہ کے جواز کی دلیل ہے_

۲_علاوہ ازیں خدا کا یہ ارشاد بھی جواز تقیہ کی دلیل ہے( ومن یفعل ذلک فلیس من الله فی شی الا ان تتقوا منهم تقاة ) (۲) یعنی جو بھی ایسا کرے (یعنی کفار کو اپنا ولی بنائے) اس کاخدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں_(۳)

۳_نیز یہ آیت بھی تقیہ کو ثابت کرتی ہے( قال رجل مؤمن من آل فرعون یکتم ایمانه اتقتلون رجلا ان یقول ربی الله ) (۴) یعنی آل فرعون کے ایک شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا کہا: ''کیا تم ایک شخص کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ خدائے واحد کا اقرار کرتا ہے''_ اس آیت کو منسوخ قرار دینا غلط اور بے دلیل ہے بلکہ اس کا منسوخ نہ ہونا ثابت ہے، جیساکہ جناب

___________________

۱_ سورہ نحل، آیت ۱۰۶ ، رجوع کریں: حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۱۴۰، تفسیر طبری ج ۴ ص ۱۱۲ اور حاشیہ پر تفسیر نیشاپوری اور بہت سی دیگر کتب_

۲_ سورہ آل عمران، آیت ۲۸_ ۳_ تقیہ کے متعلق مزید مطالعہ کے لئے: احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۹ ، تقویة الایمان ص ۳۸ ، صحیح بخاری مطبوعہ میمنہ ج ۴ ص ۱۲۸ اور دیگر متعلقہ کتب ۴_ سورہ غافر، آیت ۲۸_

۶۱

یعقوب کلینی نے عبداللہ بن سلیمان سے نقل کیا ہے کہ سلیمان نے کہا:'' میں نے ابوجعفر (امام باقرعليه‌السلام ) سے سنا جبکہ آپ کے پاس عثمان اعمی نامی ایک بصری بیٹھا تھا ، جب اس نے کہا کہ حسن بصری کا قول ہے ''جو لوگ علم کو چھپاتے ہیں ان کے شکم کی ہوا سے اہل جہنم کواذیت ہوگی''_ تو آپ نے فرمایا:''اس صورت میں تو مومن آل فرعون تباہ ہوجائے گا، جب سے خدانے حضرت نوحعليه‌السلام کو مبعوث کیا علم مستور چلا آرہا ہے _حسن دائیں بائیں جس قدر چاہے پھرے خدا کی قسم علم سوائے یہاں کے کہیں اور پایا نہ جائے گا''_(۱) مذکورہ آیت سے امامعليه‌السلام کا استدلال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے منسوخ نہ ہونے پرعلماء کا اتفاق تھا_رہی سنت نبوی تو اس سے ہم درج ذیل دلائل کا ذکر کریں گے_

سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تقیہ

۱_ جناب ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ حضور کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' عنقریب تمہارے اوپر ایسے حاکم مسلط ہوں گے جو نماز کا حلیہ بگاڑدیں گے_ اگر تم ان کے زمانے میں رہے تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھتے رہو لیکن ان کے ساتھ بھی بطور نافلہ نماز پڑھ لیا کرو ...''(۲) اور اس سے ملتی جلتی دیگر احادیث(۳)

۲) مسیلمہ کذاب کے پاس دو آدمی لائے گئے اس نے ایک سے کہا :''کیاتم جانتے ہو کہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہوں''_ اس نے جواب دیا: '' اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ''_مسیلمہ نے اسے قتل کردیا پھر دوسرے سے کہا تو اس نے جواب دیا:'' تم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں اللہ کے نبی ہو ''_یہ سن کر مسلیمہ نے اسے چھوڑ دیا_ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' پہلا شخص اپنے عزم ویقین پر قائم رہا لیکن دوسرے نے اس راہ کو اختیار کیا جس کی خدا نے اجازت دی ہے پس اس پر کوئی عقاب نہیں''_(۴)

___________________

۱_ اصول کافی ص ۴۰،۴۱ (منشورات المکتبة الاسلامیة )نیز وسائل جلد ۱۸ص ۸_

۲_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۵۹_

۳_ مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۰، ۱۶۸_

۴_ محاضرات الادباء ، راغب اصفہانی ج ۴ص ۴۰۸اور ۴۰۹ ، احکام القرآن جصاص ج۲ ص ۱۰ اور سعد السعود ص ۱۳۷_

۶۲

۳) سہمی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے روایت کی ہے''لا دین لمن لا ثقة له'' (۱) بظاہر یہاں لفظ ثقہ کی بجائے لفظ تقیہ مناسب اور درست ہے یعنی جو تقیہ نہیں کرتا وہ دین نہیں رکھتا جیساکہ شیعوں کی اہل بیتعليه‌السلام سے مروی روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں(۲) _

۴) حضرت عمار یاسر کا معروف واقعہ اور حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمار سے فرمانا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی گذشتہ عمل کا تکرار کرو یہ بات احادیث وتفسیر کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے اور اسی مناسبت سے آیت( من کفر بالله بعد ایمانه ، الاّ من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ) (۳) نازل ہوئی تھی_

۵) نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بذات خود تقیہ فرمانا کیونکہ آپ تین یا پانچ سالوں تک خفیہ تبلیغ کرتے رہے جو سب کے نزدیک مسلمہ اور اجماعی ہے اور کسی کیلئے شک کی گنجائشے نہیں اگر چہ کہ ہم نے وہاں بتایا تھا کہ حقیقت امر صرف یہی نہیں تھا_

۶) اسلام کفار کو بعض حالات میں اجازت دیتا ہے کہ وہ اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں یا قتل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں_ واضح ہے کہ یہ بھی تقیہ کی ترغیب ہے کیونکہ اس قسم کے حالات میں قبول اسلام جان کی حفاظت کیلئے ہی ہوسکتا ہے پختہ عقیدہ کی بناپر نہیں_اسلامی معاشرے میں اس امید کے ساتھ منافقین کو رہنے کی اجازت دینا اور ان کے ساتھ اسلامی بھائی چارے کے مطابق سلوک کرنا کہ وہ اسلام کے ساتھ تعاون کریں گے اور ان کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوجائے گا بھی اسی طرح ہے _

۷) فتح خیبر کے موقع پر حجاج بن علاط نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا :'' مکہ میں میرا کچھ مال اور رشتہ دار ہیں اور میں انہیں وہاں سے لے آنا چاہتا ہوں _ پس اگر مجھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا بھلا کہنا بھی پڑا تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت ہوگی؟'' تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے اجازت دے دی کہ جو کچھ کہے کہہ سکتا ہے(۴)

___________________

۱_ تاریخ جرجان ص ۲۰۱ _

۲_ ملاحظہ ہو : کافی (اصول) ج۲ ص ۲۱۷ مطبوعہ آخندی، وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۴۶۵اور میزان الحکمت ج۱۰ ص ۶۶۶ و ۶۶۷_

۳_ سورہ نمل آیت ۱۰۶اور ملاحظہ ہو فتح الباری ج۱۲ ص ۲۷۷ و ۲۷۸_

۴_ دراسات فی الکافی و الصحیح ص ۳۳۸ از سیرہ حلبیہ_

۶۳

تاریخ سے مثالیں

۱) ایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا: ''کیا میں حکام کو زکوة دوں''؟ ابن عمر نے کہا : ''اسے فقراء اورمساکین کے حوالے کرو'' راوی کہتا ہے کہ پس حسن نے مجھ سے کہا : ''کیا میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ جب ابن عمر خوف محسوس نہیں کرتا، تو کہتا ہے زکوة فقیروں اور مسکینوں کو دو''_(۱)

۲) علماء نے دعوی کیا ہے کہ انس بن مالک نے رکوع سے قبل قنوت والی حدیث کو اپنے زمانے کے بعض حکام سے تقیہ کی بناپر روایت کیا ہے(۲)

۳) عباس بن حسن نے اپنے محرروں اور خاص ندیموں سے مکتفی کے مرنے کے بعد خلافت کے اہل آدمی کے متعلق مشورہ لیا تو ابن فرات نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ ہر کسی سے علیحدگی میں مشورہ کرے تا کہ اس کی صحیح رائے معلوم ہوسکے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں ہوسکتا ہے تقیہ کرتے ہوئے وہ اپنی رائے پیش نہ کرسکا ہو اور دوسروں کا ساتھ دیا ہو اس بات پر اس نے کہا : ''سچ کہتے ہو'' _ پھر اس نے ویسا ہی کیا جیسا ابن فرات نے کہا تھا(۳)

۴) بیعت عقبہ میں جناب رسول خدا اور جناب حمزہ نے تقیہ فرمایا تھا جس کے متعلق روایتیں علیحدہ فصل میں بیان ہوں گی_

۵) ایوب سے مروی ہے کہ میں جب بھی حسن سے زکوة کے بارے میں سوال کرتاتو کبھی وہ یہ کہتا حکام کو دے دو اور کبھی کہتا ان کو نہ دو_ مگر یہ کہا جائے کہ حسن کی جانب سے یہ تردید اس بارے میں شرعی مسئلہ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے تھی(۴)

۶) محمد بن حنفیہ کے ایک خطبے میں یوں بیان ہوا ہے، امت سے جدا نہ ہونا ان لوگوں (بنی امیہ) سے تقیہ کے ذریعے سے بچتے رہو ، اور ان سے جنگ نہ کرو،راوی نے کہا :''ان سے تقیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟'' کہا :''جب وہ بلائیں تو ان کے پاس حاضری دینا_یوں خدا تجھ سے نیز تیرے خون اور تیرے دین سے ان

___________________

۱_ المصنف عبدالرزاق ج ۴ص ۴۸ _

۲_ ملاحظہ ہو : المحلی ج۴ ص ۱۴۱_ ۳_ الوزراء صابی ص ۱۳۰_

۴_ مصدر سابق_

۶۴

کے شر کو دور رکھے گا اور تجھے خدا کے مال سے حصہ بھی ملے گا جس کے تم زیادہ حقدار ہو ''_(۱)

۷) مالک سے محمد بن عبداللہ بن حسن کے ساتھ خروج کرنے کے بارے میں سوال ہوا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ہم نے ابوجعفر المنصور کی بیعت بھی کررکھی ہے مالک نے کہا :'' تم نے مجبوراً بیعت کی تھی اور جسے مجبور کیا جائے اسکی قسم (بیعت) کی کوئی حیثیت نہیں''(۲)

۸) قرطبی نے شافعی اور کوفیوں سے نقل کیا ہے کہ قتل کا خطرہ ہونے کی صورت میں تقیہ جائزہے_ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے_(۳)

۹) حذیفہ کی روایت ہے کہ ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں تھے_ انہوں نے فرمایا: '' مجھے گن کربتاؤ اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟'' حذیفہ کا کہنا ہے کہ ہم نے عرض کیا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہماری طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہے؟ جبکہ ہم ابھی بھی چھ سوسے سات سو کے درمیان ہیں'' تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' تمہیں کیا خبر کل کلاں تم آزمائشے میں مبتلا ہوجاؤ'' حذیفہ کہتا ہے کہ بعد میں ہم ایسی سخت آزمائشے میں مبتلا ہوئے کہ حتی کہ ہم میں سے ہر کوئی چھپ کر نماز پڑھتا تھا_(۴) یہی حذیفہ حضرت علیعليه‌السلام کی بیعت کے صرف چالیس دن بعد فوت ہوا اور یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس بیعت سے قبل پچھلے دور میں مؤمنین سخت دباؤ کا شکار تھے_ جو لوگ شرعی حکومت پر قابض تھے وہ دین اور دینداروں کے خلاف اپنے دل میں پرانا کینہ رکھتے تھے اور جس چیز کا تھوڑا سا تعلق بھی دین کے ساتھ ہوتا تھا اس کا مذاق اڑایا کرتے اور اس کے خلاف محاذ آرائی کرتے تھے_

۱۰) تمام اہل حدیث اور ان کے بڑے بڑے علماء نے تقیہ کرتے ہوئے قرآن کے مخلوق ہونے کی تصدیق کی حالانکہ وہ اس کے قدیم ہونے کے قائل تھے فقط امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے انکار کیا(۵) بلکہ امام احمد نے بھی تقیہ کیا چنانچہ جب وہ پھندے کے پاس پہنچا تو کہا : ''میں کوئی بات زبان پر نہ

___________________

۱_ طبقات ابن سعد ج ۵ص ۷۰ _ ۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۸۳نیز طبری ج ۳ص ۲۰۰ مطبوعہ یورپ_

۳_ تفسیر قرطبی ج ۱۰ص ۱۸۱ _ ۴_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۹۱ _ صحیح بخاری مطبوعہ ۱۳۰۹ھ ج ۲ ص ۱۱۶و مسند احمد ج ۵ ص ۳۸۴_

۵_ تجارب الامم مطبوعہ ہمراہ العیون و الحدائق ص ۴۶۵ _

۶۵

لاؤںگا'' نیز جب حاکم وقت نے اس سے کہا:'' قرآن کے بارے میں کیا کہتے ہو'' تو جواب دیا: '' قرآن کلام الہی ہے'' پوچھا گیا ''کیا قرآن مخلوق ہے''؟ جواب دیا: ''میں بس اتنا کہتا ہوں کہ اللہ کا کلام ہے''_(۱) بلکہ یعقوبی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جب امام احمد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو بولے : '' میں ایک انسان ہوں جس نے کچھ علم حاصل تو کیا ہے لیکن اس بارے میں مجھے کچھ علم نہیں ہے '' _اس مناظرے اور چند کوڑے کھانے کے بعد اسحق بن ابراہیم مناظرے کے لئے دوبارہ آیا اور اس سے کہا : '' اب کچھ باقی رہ گیا ہے جسے تو نہ جانتاہو؟''کہا : '' ہاں باقی ہے'' _ کہا : ' ' پس یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جنہیں تو نہیں جانتا_ حالانکہ امیر المؤمنین (حاکم وقت) نے تجھے اچھی طرح سکھا دیا ہے '' _ کہا : '' پھر میں بھی امیرالمؤمنین کے فرمان کا قائل ہوگیا ہوں '' پوچھا: '' قرآ ن کے مخلوق ہونے کے متعلق ؟'' کہا : '' جی ہاں خلق قرآن کے متعلق '' کہا : ''پھر یا د رکھنا'' پھر اسے آزاد کرکے گھر کو جانے دیا(۲) _

حالانکہ امام احمد خودکہتے ہیں کہ جو فقط یہ کہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اور مزید کچھ نہ کہے تو وہ واقفی اور ملعون ہے_(۳)

خوارج کے مقابلے میں ابن زبیر نے بھی تقیہ سے کام لیا(۴) اسی طرح شعبی اور مطرف بن عبداللہ نے حجاج سے تقیہ کیا اور عرباض بن ساریہ اور مؤمن الطاق نے بھی خوارج سے اور صعصعہ بن صوحان نے معاویہ سے تقیہ کیا(۵)

خلق قرآن کے مسئلے میں اسماعیل بن حماد اور ابن مدینی نے بھی تقیہ کیا، ابن مدینی قاضی ابو داؤد معتزلی کی مجلس میں حاضر رہتا اور اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا_ نیز احمد بن حنبل اور اس کے اصحاب کی حمایت کرتا تھا_(۶)

۱۱_ مدینہ پر بسربن ابی ارطاة کے غارتگرانہ حملہ کے موقع پر جابربن عبداللہ انصاری نے ام المومنین

___________________

۱_ تاریخ طبری ج ۷ص ۲۰۱نیز آثار جاحظ ص ۲۷۴و مذکرات الرمانی ص ۴۷_

۲_ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۴۷۲_ ۳_ بحوث مع اھل السنة و السلفیہ ص ۱۲۲،۱۲۳ از الرد علی الجھمیة (ابن حنبل) در کتاب الدومی ص۲۸ _

۴_ ملاحظہ ہو العقد الفرید ابن عبدربہ ج۲ ص ۳۹۳_ ۵_ العقد الفرید ج ۲ ص ۴۶۴ و ص ۴۶۵ اور ملاحظہ ہو : بہج الصباغہ ج ۷ ص ۱۲۱_

۶_ رجوع کریں لسان المیزان ج ۱ص ۳۳۹اور ۴۰۰متن اور حاشیہ ملاحظہ ہو_

۶۶

حضرت ام سلمہ کی خدمت میں شکایت کی :'' مجھے قتل ہونے کا خوف ہے اور یہ بیعت ایک گمراہ شخص کی بیعت ہے اس موقع پر میں کیا کروں''؟ تو انہوں نے فرمایا : '' اس صورت میں تم اس کی بیعت کرلو کیونکہ اصحاب کہف کو بھی اسی تقیہ نے صلیب پہننے اور دوسرے شہریوں کے ساتھ عید کی محفلوں میں شریک ہونے پر مجبور کردیا تھا''(۱)

۱۲_ حضرت امام حسنعليه‌السلام کے مسموم ہونے کے بعد جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسینعليه‌السلام سے معاویہ کے خلاف قیام کرنے کا مطالبہ کیا تو آپعليه‌السلام نے ان کا مطالبہ مسترد کردیا_ البتہ اس معاملے میں آپ کے اور بھی اہداف تھے جو معاویہ کے خلاف پوری زندگی قیام نہ کرنے کے اپنے شہید بھائی کے موقف کے ہماہنگ تھے_ اس بارے میں ملاحظہ فرمائیں اخبار الطوال ص ۲۲۰تا۲۲۲_

۱۳_ حسن بصری کا قول ہے کہ تقیہ روز قیامت تک ہے_(۲)

۱۴_ بخاری کا کہنا ہے:'' جب کسی آدی کو اپنے ساتھی کے قتل و غیرہ کا ڈر ہو اور اس کے متعلق یہ قسم کھائے کہ یہ میرا بھائی ہے _ تو اس پر کوئی بھی حد یا قصاص و غیرہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ظالم کے مقابلے میں اس کی حمایت کر رہا ہو تا ہے_ ظالم شخص اسے چھوڑکر قسم کھانے والے کے ساتھ جھگڑتا ہے جبکہ اسے کچھ نہیں کہتا_ اسی طرح اگر اس سے یہ کہا جائے کہ یا تو تم شراب پیو ، مردار کھاؤ ، اپنا غلام بیچو، قرض کا اقرار کرو یا کوئی چیز تحفہ دویا کوئی معاملہ ختم کردو و گر نہ تمہارے باپ یا تمہارے مسلمان بھائی کو قتل کردیں گے تو اسے ان چیزوں کے ارتکاب کی اجازت ہے ...'' یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :'' نخعی کا قول ہے کہ اگر قسم لینے والا ظالم ہے تو قسم اٹھانے والے کی نیت پر منحصر ہے اور اگر قسم لینے والا مظلوم ہے تو پھر اس کی نیت پر منحصر ہوگا ''(۳)

۱۵_ یہاں تک کہ مغیرہ بن شعبہ کا حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق عیب جوئی کے بارے میں یہ دعوی ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرتا تھا کیونکہ صعصعہ سے کہتا ہے:'' یہ بادشاہ ہمارے سروں پر مسلط ہوچکا ہے اور ہمیں لوگوں کے سامنے آپعليه‌السلام کی عیب جوئی کرنے پر مجبور کرتا ہے ، ہمیں بھی اکثر اوقات اس کی پیروی کرتے ہوئے ان لوگوں

___________________

۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹۸_ ۲) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ مطبوعہ المیمنیہ_

۳) صحیح بخاری ج ۴ ص ۱۲۸ ، صحیح بخاری کی '' کتاب الاکراہ'' کا مطالعہ بہت مفید ہوگا کیونکہ اس میں تقیہ کے متعلق بہت مفید معلومات ہیں_

۶۷

کے شر سے دور رہنے کے لئے بطور تقیہ ایسی بات کہنی پڑتی ہے _ اگر تم حضرتعليه‌السلام کی فضیلت بیان کرنا بھی چاہتے ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان اور اپنے گھروں میں چھپ کر کرو ...''(۱)

۱۶_ ابن سلام کہتا ہے :'' رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے نماز کو وقت پر پڑھنے کا اور پھر بطور نافلہ ان حکام کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا جو نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھتے ہیں''(۲)

۱۷_ خدری نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے متعلق اپنے موقف میں وہ تقیہ سے کام لیتا تھا_ تا کہ بنی امیہ سے اس کی جان بچی رہے اور اس نے آیت( ادفع بالتی هی احسن السیئة ) سے استدلال کیا ہے(۳) اسی طرح بیاضی کی '' الصراط المستقیم'' ج ۳ ص ۲۷ تا ۷۳ میں ایسے کوئی واقعات ذکر ہوئے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں_

بہرحال اس مسئلے کی تحقیق کیلئے کافی وقت کی ضرورت ہے یہاں جتنا عرض کیا گیا ہے شاید کافی ہو_

تقیہ ایک فطری، عقلی، دینی اور اخلاقی ضرورت

تقیہ کا جواز اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام ایک جامع اور لچک دار دین ہے اور ہر قسم کے حالات سے عہدہ برا ہوسکتا ہے_ اگر اسلام خشک اور غیرلچک دار ہوتا یااس میں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے کی گنجائشے نہ ہوتی تو لازمی طورپر نت نئے واقعات سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتا _بنابریں خدانے تقیہ کو جائز قرار دیکر مشکل اور سنگین حالات میں اپنے مشن کی حفاظت اس مشن کے پاسبان (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کی حفاظت کے ذریعے کی_ اس کی بہترین مثال خفیہ تبلیغ کا وہ دور ہے جس میں حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب، بعثت کے ابتدائی دور سے گزرے_

جب دین کے لئے قربانی دینے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ دین کے ایک وفادار سپاہی کو ضائع کرنے

___________________

۱_ تاریخ الامم و الملوک ج ۴ ص ۱۲_

۲_ تہذیب تاریخ دمش ج ۶ ص ۲۰۵_

۳_ سلیم بن قیس ص ۵۳ مطبوعہ مؤسسہ البعثة قم ایران_

۶۸

کی وجہ سے الٹا دین کا نقصان بھی ہو تو تب دین اسلام کے پاسبانوں کی حفاظت کے لئے دین میں لچک کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے _ یوں بہت سے موقعوں پر اسلام کی حفاظت اس کے ان وفادار اور نیک سپاہیوں کی حفاظت کے زیر سایہ ہوتی ہے جوبوقت ضرورت اس کی راہ میں قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیں پس تقیہ کا اصول انہی لوگوں کی حفاظت کیلئے وضع ہوا ہے_

رہے دوسرے لوگ جنہیں اپنے سواکسی چیزکی فکر ہی نہیں ہوتی تو، تقیہ کے قانون کی موجودگی یا عدم موجودگی ان کیلئے مساوی ہے تقیہ اسلام کے محافظین کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ اس طریقے سے خود اسلام کی حفاظت ہوسکے تقیہ نفاق یا شکست کا نام نہیں کیونکہ اسلام کے یہ محافظین تو ہمیشہ قربانی دینے کیلئے آمادہ رہتے ہیںاور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ معاویہ کے دورمیں خاموش رہنے والے حسینعليه‌السلام وہی حسینعليه‌السلام تھے جنہوں نے یزید کے خلاف اس نعرے کے ساتھ قیام کیا:

ان کان دین محمد لم یستقم

الا بقتلی فیا سیوف خذینی

یعنی اگر دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اصلاح میرے خون کے بغیر نہیں ہوسکتی ، تو اے تلوارو آؤ اور مجھے چھلنی کر دو_

پس جس طرح یہاں ان کا قیام دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھا بالکل اسی طرح وہاں ان کی خاموشی بھی فقط دین اور حق کی حفاظت کے لئے تھی_ اس نکتے کے بارے میں ہم نے حلف الفضول کے واقعے میں گفتگو کی ہے_

یوں واضح ہوا کہ جب حق کی حفاظت کیلئے قربانی کی ضرورت ہوتو اسلام اس کو لازم قراردیتا ہے اوراس سے پہلوتہی کرنے والوں سے کوئی رو رعایت نہیں برتتا_

علاوہ برایں اگر اسلام کے قوانین خشک اورغیر لچک دار ہوں توبہت سے لوگ اس کو خیر باد کہہ دیں گے بلکہ اس کی طرف بالکل رخ ہی نہیں کریں گے_ وحشی وغیرہ کے قبول اسلام کے بارے میں ہم بیان کریں گے کہ بعض لوگ اسلئے مسلمان ہوتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو قتل نہیں کرتے _

بنابریں واضح ہے کہ اسلام کے اندر موجود اس نرمی اور لچک کی یہتوجیہ صحیح نہیں ہے کہ یہ قانون دین میں

۶۹

دی گئی ایک سہولت ہے تاکہ بعض لوگوں کیلئے قبول اسلام کوآسان بنایاجاسکے بلکہ اسے تو اسلام ومسلمین کی حفاظت کا باعث سمجھنا چاہئے بشرطیکہ اس سے اسلام کے اصولوں کو نقصان نہ پہنچتا ہو بلکہ ترک تقیہ کی صورت میں قوت اور وسائل کابے جا ضیاع ہوتا ہو اور یہی امر تقیہ اور نفاق کے درمیان فرق کا معیار ہے لیکن بعض لوگ تقیہ کو جائز سمجھنے والوں پر نفاق جیسے ناجائزاور ظالمانہ الزام لگانے میں لطف محسوس کرتے ہیں_

ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس قبیلہ ثقیف کے افراد آئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ کچھ مدت کیلئے ان کو بتوں کی پوجا کرنے کی اجازت دی جائے نیز ان پر نماز فرض نہ کی جائے (کیونکہ وہ اسے اپنے لئے گراں سمجھتے تھے) اس کے علاوہ انہیں اپنے ہاتھوں سے بت توڑنے کا حکم نہ دیاجائے تو اسی معیار کی بناپریہاں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضورنے آخری بات تو مان لی لیکن پہلی دو باتوں کو رد کردیا_(۱) اسی طرح انہوں نے یہ درخواست بھی کی تھی کہ انہیں زنا، شراب سود اور ترک نماز کی اجازت دی جائے(۲) انہیں بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے رد کردیااور اس بات کا لحاظ نہ کیا کہ یہ قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے اسلام کو تقویت ملے گی اور دشمن کمزور ہوں گے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو جنہوں نے سال ہا سال بتوں کی پوجا کی تھی مزید ایک سال تک بت پرستی کی مہلت کیوں نہ دی؟ جس کے نتیجے میں وہ اسلام سے آشنا اور قریب ترہوجاتے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کا مطالبہ ٹھکرادیا حتی کہ ایک لمحے کیلئے بھی آپ نے ان کو اس بات کی اجازت نہ دی، کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر جائز وناجائز وسیلے سے اپنے اہداف تک پہنچنے کے قائل نہ تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسیلے کو بھی ہدف کاایک حصہ سمجھتے تھے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں_

___________________

۱_ یہاں سے پتہ چلا کہ ''جبلہ ابن ایھم'' سے قصاص لینے پر اصرار میں عمر کی پالیسی کامیاب نہ تھی_ کیونکہ وہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اپنی قوم کا حاکم تھا_ اس نے ابھی اسلام کی عظمت اور ممتاز خوبیوں کو نہیں سمجھا تھا_ حضرت عمر کو چاہئے تھا کہ وہ صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر اس مسئلے کو کسی آسان تر طریقے سے حل کرتے_

۲_ سیرہ نبویہ دحلان ( حاشیہ سیرہ حلبیہ پر مطبوع) ج۳ ص ۱۱ ، المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۲۳۶ ، تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۱۳۵ تا ۱۳۷ اور ترک نماز کے متعلق ملاحظہ ہو : الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۲۸۴ ، اسی طرح سیرہ نبویہ ابن ہشام ج ۴ ص ۱۸۵ ، سیرہ نبویہ ابن کثیر ج۴ ص ۵۶ اور البدایہ والنہایہ ج۵ ص ۳۰_

۷۰

لیکن اس کے مقابل اگر کوئی بالفرض آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے حرمتی کرتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاف کردیتے تھے بشرطیکہ اسے یہ احساس ہوجاتا کہ اس نے گناہ کیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس سے درگذر کیاہے_ لیکن اگر وہ شخص اپنے غلط عمل کو صحیح سمجھتا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی صورت میں بھی اسے معاف نہیں فرماتے_

خلاصہ(۱) یہ کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو پھر انہیں دشمنوں کے ساتھ سخت لڑائی لڑنے کاحق نہیں جس میں وہ خود ہلاک ہوجائیں یاان کے ختم ہونے سے عقیدہحق بھی ختم ہوجائے کیونکہ دین اور نظریات وعقائد کو اس قسم کے مقابلے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ کبھی کبھی الٹا نقصان پہنچتا ہے _ نیز اگرحق کا دفاع ایسی قربانی دینے سے پرہیز پر موقوف ہو جو حق کے مٹنے کا باعث ہو، عقل وفکر سے بیگانہ ہو یا وحشیانہ طرز عمل کے ساتھ ہو، نیز ایک نظریاتی جنگ کیلئے مطلوبہ شرائط سے خالی ہو تو پھر اس قربانی سے احتراز کرنا چاہیئے_

یہ بات اسلام کی عظمت، جامعیت اور حقائق زندگی کے ساتھ اس کی ہماہنگی کی ایک اور دلیل ہے_

___________________

۱_ یہ خلاصہ علامہ سید محمد حسین فضل اللہ کے فرمودات سے ماخوذ ہے _ مراجعہ ہو: مفاہیم الاسلامیہ عامہ حصہ ۸ ص ۱۲۷_

۷۱

دوسری فصل

ہجرت حبشہ اور اس سے متعلقہ بحث

۷۲

راہ حل کی تلاش:

قریش نے ان مسلمانوں کو ستانے کا سلسلہ جاری رکھا جن کی حمایت کرنے والا کوئی قبیلہ نہ تھا_ مسلمانوں کیلئے یونہی بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا_ان ستم زدہ لوگوں کیلئے ایک ایسی سرزمین کی ضرورت تھی جو ان کی امیدوں کا مرکزہوتی، ان کو مشکلات کامقابلہ کرنے میں مدد دیتی اور جہاں وہ مشرکین کی طرف سے قسم قسم کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے زیادہ قابل بن سکتے_ یوں وہ ان مشرکین کا مقابلہ کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے خداؤں سے ما فوق خدا اور اپنی حاکمیت سے برتر حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا_ نیز اطاعت وتسلیم کے بجائے ہٹ دھرمی اور عناد کی روش اپنائی تھی_

دوسری طرف سے اس پر مشقت و پرآلام صورتحال پر باقی رہنے کی صورت میں قبول اسلام کی جانب لوگوں کی رغبت میں کمی آجاتی کیونکہ اسلام قبول کرنے کا نتیجہ خوف، دہشت اور تکالیف وآلام میں مبتلا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا_

تیسرا پہلو یہ کہ قریش کے تکبر اور ان کی خود پسندانہ طاقت پر کم از کم نفسیاتی طور پر ایسی کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی ، کہ وہ سمجھ جا ئیں کہ دین کا مسئلہ ان کے تصورات اور ان کی طاقت کی حدود سے مافوق چیز ہے اور ان کو زیادہ سنجیدہ ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے_

ان حقائق کے پیش نظر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا_ ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی لیکن حاکم نیشابوری کے مطابق ہجرت حبشہ جناب ابوطالب کی وفات کے بعد ہوئی(۱)

___________________

۱_ مستدرک حاکم ج۲ص ۶۲۲_

۷۳

حالانکہ جناب ابوطالب کی وفات بعثت کے دسویں سال ہوئی _ شاید وہ ایک اور ہجرت کے متعلق بتانا چاہتے ہوں جسے کچھ مسلمانوں نے اس موقع پر انجام دیا یا شاید کچھ لوگ صلح کے متعلق سن کر واپس پلٹے ہوں اور اچانک برعکس صورت حال دیکھ کر دوبارہ ہجرت کرگئے ہوں _ لیکن ہمارے پاس ایسے کوئی قرائن بھی نہیں ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ یہ واقعہ وفات جناب ابوطالب کے بعد پیش آیا_

حبشہ کے انتخاب کی وجہ

ہجرت کیلئے حبشہ کا انتخاب کیوں ہوا؟ اس رازکی طرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے یوں اشارہ فرمایا ''یقینا وہاں ایک ایسا بادشاہ موجود ہے جس کی حکومت کے زیر سایہ کسی پر ظلم نہیں ہوتا''_ حبشہ سچائی کی سرزمین ہے اور وہ (بادشاہ) مانگنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے_ اس انتخاب کی علت بالفاظ دیگر یہ تھی کہ:

۱) اس صورت میں قریش پر ضروری ہوجاتا کہ وہ اپنے اقتدار، بت پرستی اور انحرافی افکار کے لئے خطرہ سمجھنے والے دین پر اول و آخر اپنے مکمل تسلط اور اختیار کو باقی رکھنے کے لئے مسلمانوں کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں_

۲) قریش کو تجارتی اور اقتصادی روابط کے سبب روم اور شام میں اثر و رسوخ حاصل تھا ،بنابریں ان سرزمینوں کی طرف ہجرت کرنے کی صورت میں قریش کیلئے مسلمانوں کو لوٹانا یاکم از کم آزار پہنچانا آسان ہوجاتا_ خصوصا اس حالت میں جب ان ملکوں کے حکمران کسی قسم کے اخلاقی یا انسانی اصولوں کے پابند نہ تھے اور ان کو ظلم وستم سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہ تھی خاص کر ان مسلمانوں کے اوپر جن کا دین ان کے ذاتی مفادات اور اقتدار کیلئے خطرہ اور چیلنج تھا_

رہا یمن یا دوسرے عرب قبائل کا مسئلہ تو وہ ظالم اور جابر ایرانی بادشاہوں کے زیر تسلط تھے_ کہتے ہیں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بعض قبائل کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے حمایت چاہی تو انہوں نے قبول کیا لیکن کسری نے قبول نہ کیا_واضح رہے کہ کسری کے ہاں پناہ تلاش کرناملک روم میں پناہ ڈھونڈنے سے کم خطر ناک نہ تھا_ بالخصوص اس حالت میں جب کہ کسری دیکھ رہا تھا کہ یہ عرب شخص جلدہی اس کے ملک سے قریب علاقے میں خروج کرے گا اور اس کی دعوت اس کے ملک میں بھی سرایت کرجائے گی_

۷۴

نیز یہ دعوت اپنے لئے تراشے گئے ناجائز امتیازی حقوق پر اثر انداز ہوگی( جیساکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن اوراہداف سے ظاہر تھا) _اس کے علاوہ وہ طبیعة عربوں کو حقیر سمجھتا تھا اور ان کیلئے کسی عزت واحترام کا قائل نہ تھا_

۳) قریش کو مختلف عرب قبائل کے اندر کافی اثر و نفوذ حاصل تھا حتی ان قبائل کے درمیان بھی جو ایران وروم کے زیر اثر تھے جیساکہ اس کتاب کے اوائل میں مذکوربعض معروضات سے واضح ہے_

۴)مذکورہ باتوں کے علاوہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حبشہ میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا_ ان حقائق کے پیش نظر ہم ہجرت کیلئے حبشہ کے انتخاب کی وجہ سمجھ سکتے ہیں_ حبشہ کا علاقہ ایران، روم اور قریش کے اثر و رسوخ سے خارج تھا _قریش وہاں گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہوکر نہیں پہنچ سکتے تھے قریش بحری جنگ سے بھی نا آشنا تھے_ بنابریں مسلمانوں نے (جو قریش کی طاقت و جبروت کے سامنے کمزور تھے ) ہجرت کیلئے حبشہ کی راہ لی

آخر میں ہم ارض حبشہ کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے ارشاد (حبشہ صدق وصفا کی سرزمین ہے) سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ حبشہ میں بعض قبیلے فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور صدق وخلوص سے میل جول رکھتے تھے_ پس اس مسلمان مہاجر گروہ کا وہاں ان لوگوں کے ساتھ آسودگی کے ساتھ رہنا اور میل جول رکھنا ممکن تھا، خاص طور پر جب یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ اس مملکت میں وہ انحرافات اور غلط افکار وعقائدنہیں پائے جاتے تھے جو روم اور ایران میں پائے جاتے تھے کیونکہ یہ ممالک غیر انسانی نظریات وافکار اور منحرف عقائد وادیان سے کافی حد تک آلودہ ہوچکے تھے لیکن حبشہ کی سرزمین ان آلودگیوں سے دور تھی _

اس لئے کہ وہاں نت نئے دین نہیں ابھرتے تھے اور نہ ہی وہاں روم اور ایران کی مقدار میں دانشمند اور فلاسفر تھے اس لئے وہ دوسرے ممالک کی بہ نسبت فطرت اور حق سے زیادہ قریب تھی لیکن فطرت کی بالادستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ممالک کسی بھی انحراف سے خالی ہیں _ کیونکہ وہاں انحرافات کا وجود بھی طبیعی امر ہے جبکہ یہ کہنا کہ وہاں فطرت کا راج ہے بالکل اس طرح ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں شہر کے لوگ مؤمن ہیں ،

۷۵

بہادر ہیں یا سخی ہیں _ کیونکہ یہ بات اس شہر میں کافروں، منافقوں ، بزدلوں یابخیلوں کے وجود سے مانع نہیں ہے _ اور واضح سی بات ہے کہ اگر مسلمان کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کرتے جہاں فطرت کی بالادستی نہ ہوتی اور وہاں کا فرمانروا ظلم سے پرہیز نہ کرتا تو وہاں بھی ان کے لئے زندگی مشکل ہوجاتی اور ان کی ہجرت کا کوئی زیادہ فائدہ اور بہتر اثر نہ ہوتا_

حبشہ کا سفر

مسلمانوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضرت ام سلمہ سے منقول ایک روایت کے مطابق وہ مختلف گروہوں کی شکل میں وہاں گئے(۱) کہتے ہیں کہ پہلے دس مردوں اور چارعورتوں نے عثمان بن مظعون کی سرکردگی میں ہجرت کی(۲) اس کے بعد دیگر مسلمان بھی چلے گئے یہاں تک کہ بچوں کے علاوہ کل بیاسی مرداور اگر حضرت عمار یاسر بھی ان میں شامل ہوں تو تراسی مرد اور انیس عورتیں حبشہ پہنچ گئے_

لیکن ہم صرف ایک ہی مرتبہ کی ہجرت کے قائل ہیں جس میںسب نے حضرت جعفر بن ابوطالب کی سرکردگی میں حبشہ کی طرف ایک ساتھ ہجرت کی تھی _اس قافلے میں حضرت جعفر طیارعليه‌السلام کے علاوہ بنی ہاشم میں سے کوئی نہ تھا _البتہ ممکن ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت احتیاط کے پیش نظر افراد مختلف گروہوں کی شکل میں خارج ہوئے ہوں لیکن ہجرت ایک ہی مرتبہ ہوئی تھی کیونکہ شاہ حبشہ کے نام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کاخط بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے جسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن امیہ الضمری کے ساتھ روانہ کیا تھا ، اس خط میں مکتوب ہے:

'' البتہ میں نے آپ کی طرف اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابوطالب کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے

___________________

۱_ السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۲ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۹۰ ازالصفوة و المنتہی_

۲_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۵، سیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۵، البدایہ و النہایة ج ۳ص ۶۷، السیرة الحلبیة ہ ج ۱ص ۳۲۴ (جس میں کہا گیا ہے کہ ابن محدث نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصریح کی ہے) نیز تاریخ الخمیس ج ۱ص ۲۸۸_

۷۶

ساتھ بھیجا ہے، جب وہ پہنچ جائیں تو ان کو وہاں ٹھہرانا ...''(۱)

یہی بات ابوموسی سے مروی روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جعفربن ابوطالب کے ہمراہ نجاشی کے ملک کی طرف چلے جائیں_(۲) اگرچہ خود ابو موسی کی ہجرت مشکوک ہے جس کا تذکرہ آئندہ ہوگا_

جعفر سردار مہاجرین :

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت جعفر طیار کی حبشہ کی طرف ہجرت قریش کی جانب سے سختیوں اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے نہیں تھی_ کیونکہ قریش حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی شان و شوکت سے ڈرتے تھے اور بنی ہاشم اور خاص کر ان کا لحاظ کرتے تھے_ حضرت جعفر کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے صرف مہاجرین کا سردار اور ان کا سرپرست بنا کر بھیجاتھا تا کہ وہ انہیں اس نئے معاشرے میں جذب ہوجانے سے بچاسکے، جس طرح کہ ابن جحش کی صورتحال تھی کہ وہ حبشہ میں نصرانی ہوگیا تھا_

حبشہ کا پہلا مہاجر

کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ سب سے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بارے میں فرمایاکہ وہ حضرت لوطعليه‌السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی_(۳) یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سب سے پہلے خارج ہوئے_(۴)

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۳، بحارالانوار ج ۱۸ص ۴۱۸، اعلام الوری ص ۴۵_۴۶از قصص الانبیاء_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۰ نے ابو نعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے اور سیرت نبویہ (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۱ _

۳_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از ابن اسحاق، السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص۲۸۹ _

۴_ سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۴، نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۶از بیہقی نیر السیرة الحلبیة ج ۱ ص۲۲۳ _

۷۷

لیکن ہمیں اس بارے میں شک ہے کیونکہ اگر مراد یہ ہو کہ وہ گھروالوں کے ساتھ ہجرت کرنے والے پہلے آدمی تھے تویہ بات واضح رہے کہ سب سے پہلے اپنے گھروالوں کے ساتھ ابوسلمہ نے ہجرت کی تھی جیساکہ نقل ہوا ہے_(۱) اور اگر مراد یہ ہو کہ وہ بذات خود سب سے پہلے خارج ہوئے تو عرض ہے کہ خود انہی نقل کرنے والوںکے بقول سب سے پہلے خارج ہونے والے شخص حاطب بن عمر تھے(۲) یا سلیط بن عمرو(۳) نیز ابوسلمہ کے بارے میں بھی اسی قسم کا قول موجود ہے_

ابوموسی نے حبشہ کی جانب ہجرت نہیں کی

امام احمد نے (حسن و غیرہ کی سند کے ساتھ) اوردوسروں نے بھی روایت کی ہے کہ ابوموسی اشعری حبشہ کی طرف پہلی بار ہجرت کرنے والوں میں شامل ہے_(۴) لیکن بظاہر یہ بات یا تو غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا راوی نے عمداً غلط بیانی کی ہے کیونکہ ابوموسی ہجرت کے ساتویں سال مدینے میں مسلمان ہوا تھا_ کہتے ہیں کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے پاس جانے کیلئے نکلے لیکن ان کی کشتی نے انہیں حبشہ پہنچادیا اور وہ حبشہ کے مہاجرین کے ساتھ ساتویں ہجری میں مدینہ آئے(۵) اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ہجرت مدینہ کے بعد کا واقعہ ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مکہ آنے کیلئے چلتے اور پندرہ سال حبشہ میں ٹھہرتے بظاہر ابوموسی اشعری مہاجرین حبشہ کے ساتھ واپسی کے راستے میںآن ملے تھے کیونکہ عسقلانی نے کہا ہے : '' اس کی کشتی جناب

___________________

۱_ الاصابة ج ۲ص ۳۳۵نیز رجوع کریں ج ۴ص ۴۵۹اور ۴۵۸نیز الاستیعاب (حاشیہ الاصابہ پر) ج ۲ص ۳۳۸از مصعب الزبیری و تہذیب الاسماء و اللغات ج ۲ص ۳۶۲واسد الغابة ج ۳ص ۱۹۶از ابی عمر و ابن منزہ اور السیرة الحلبیہ ج ۱ص ۳۲۳ _

۲_ الاصابة ج ۱ ص ۳۰۱ اور السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۲۳_

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۳ _

۴_ رجوع کریں: سیرة ابن ہشام ج ۱ص ۳۴۷، البدایة و النہایة ج ۳ص ۶۷، ۶۹، ۷۰ نے ابن اسحاق، احمد اور ابونعیم کی الدلائل سے نقل کیا ہے_ السیرة النبویة( ابن کثیر) ج ۲ص ۷اور ص ۹، فتح الباری ج۷ص ۱۴۳، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴ از طبرانی اور نیز حلیة الاولیاء ج ۱ ص۱۱۴ _

۵_ رجوع کریں السیرة النبویة (ابن کثیر) ج ۲ص ۱۴اور البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۱_

۷۸

جعفر بن ابوطالب کی کشتی سے ملی اور وہ سب اکٹھے آئے''(۱)

مہاجرین کے ساتھ عمر کا رویہ

کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہجرت حبشہ کی تیاری میں مصروف تھے تو حضرت عمر نے ان کو دیکھا یوں ان کا دل پسیجا اور وہ محزون ہوئے(۲) لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ وہ لوگ تو خاموشی سے چھپ کر نکلے تھے_ ان میں سے بعض پیدل تھے اور بعض سواریہاں تک کہ ساحل سمندر تک پہنچ گئے، وہاں انہوں نے ایک کشتی دیکھی اور جلدی سے اس میں سوار ہوگئے_ ادھر قریش ان کے تعاقب میں ساحل تک پہنچے لیکن وہاں کسی کو نہیں پایا_(۳) اس کے علاوہ حضرت عمرکی وہ سخت گیری اور قساوت بھی ملحوظ رہے جس کی نسبت (ہجرت حبشہ سے قبل اور ہجرت حبشہ کے بعد) ان کی طرف دی جاتی ہے اور یہ بات مذکورہ بالاقول کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے_

حضرت ابوبکر نے ہجرت نہیں کی

کہتے ہیں کہ جب مکے میں بچے ہوئے مسلمانوں پر سختیوں میں اضافہ ہوا اور حضرت ابوبکر کیلئے مکے میں زیادہ تکالیف کے سبب جینا دوبھر ہوگیا، تو وہ وہاں سے نکل گئے اور حبشہ کی راہ لی اس وقت بنی ہاشم شعب ابوطالب میں محصور تھے_ جب وہ ''برک الغماد'' کے مقام پر پہنچے (جو مکہ سے پانچ دن کے فاصلے پر یمن کی جانب واقع ہے) تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ کی ان سے ملاقات ہوگئی ،یہ لوگ قریش کے قبیلہ بنی زہرہ

___________________

۱_ الاصابہ ج۲ ص ۳۵۹_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ص ۷۹از ابن اسحاق، مجمع الزوائد ج ۶ص ۲۴، مستدرک الحاکم ج ۳ص ۵۸، الطبرانی اور السیرة الحلبیہج ۱ص ۳۲۳اور ۳۲۴ _

۳_ السیرة الحلبیة ج ۱ص ۳۲۴، تاریخ الخمیس ج۱ص ۲۸۸اور ۲۸۹از المنتقی، الطبری ج ۲ص ۶۹البدء و التاریخ ج ۴ص ۱۴۹و اعلام الوری ص ۴۳ ویعقوبی ج ۲ص ۲۹اور ابن قیم کی زاد المعاد ج ۲ص ۴۴_

۷۹

کے حلیف تھے_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر کہاں کا ارادہ ہے؟'' وہ بولے :''میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے چنانچہ میرا ارادہ ہے کہ میں دنیا میں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کروں''_ ابن دغنہ نے کہا:'' اے ابوبکر تم جیسوں کو نکالانہیں کرتے، تم محروموں کی مدد کرتے ہو''_ یہاں تک کہ کہا:'' اب لوٹ جاؤ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں'' یوں حضرت ابوبکر ابن دغنہ کے ساتھ واپس ہوئے، ابن دغنہ نے رات کو قریش کے بزرگوں کے ہاں جاکر بتایا کہ اس نے حضرت ابوبکر کو پناہ دی ہے قریش نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کیا کہ وہ اپنے رب کی اعلانیہ عبادت نہ کریں بلکہ اپنے گھر میں عبادت کیا کریں_

لیکن حضرت ابوبکر نے کچھ عرصے بعد بنی جمح کے ہاں اپنے پڑوس میں ایک مسجد تعمیر کی وہاں وہ نمازیں پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے، مشرکین کی عورتیں اور بچے ان کی تلاوت سننے کیلئے جمع ہوتے تھے حتی کہ ازدحام کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے اوپر گر پڑتے تھے_ حضرت ابوبکر کی آواز سریلی اور ان کا چہرہ خوبصورت تھا_مشرکین نے ابن دغنہ سے اس مسئلے میں استفسار کیا چنانچہ ابن دغنہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور امان کی شرائط کو نبھانے کا مطالبہ کیا لیکن حضرت ابوبکر نے اس کی امان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا_(۱)

ہمارے نزدیک یہ بات مشکوک ہے کیونکہ اس سے قطع نظر کہ :

ا_ جناب ابوبکر کو قوم سے نکال دیئے جانے کا مطلب ان کی ہجرت نہیں ہے لیکن ان کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتاہے_

۲_ یہ روایت فقط حضرت عائشہ سے مروی ہے اور خود یہ ایک عجیب بات ہے اسلئے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں لہذا ان امور کی تمام جزئیات کو درک نہیں کرسکتی تھیں لیکن اگر ہم فرض

___________________

۱_ رجوع کریں السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ص ۱۲۷،۱۲۸، و سیرت ابن ہشام ج۲ص ۱۲،۱۳، شرح نہج البلاغہ ج ۱۳ص ۲۶۷، المصنف ج ۵ص ۳۸۵،۳۸۶، البدایة و النہایة ج ۳ص ۹۴،۹۵ اور تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۱۹و ۳۲۰میں مذکور ہے کہ یہ بعثت کے تیرہویں سال کا واقعہ ہے_ نیز رجوع کریں حیات الصحابہ جلد ۱ص ۲۷۶،۲۷۷نے بخاری ص ۵۵۲سے نقل کیا ہے_

۸۰

برتائو ، لوگوں کے ساتھ میل محبت ، اللہ سے محبت رکھنا ، ان تمام صفات کاحصول ہر مسلمان پر واجب ہے ۔

برے صفات : ان صفات کو کہتے ہیں جو انسان کی پستی اور ذلت کا سبب واقع ہوتے ہیں جیسے تکبر ( اپنے کو بڑا سمجھنا ) خود پسندی ، ظلم و ستم ، اللہ پر بھروسہ نہ رکھنا ، لوگوں کو پست شمار کرنا ، لوگوںکا برا چاہنا ، خدا سے راضی نہ رہنا ، کینہ و حسد، ناشکری ، چغلخوری ، غصب کرنا ، غصہ کرنا ، لالچ ، جس چیز کا مستحق نہیں اس کی خواہش کرنا ، طمع ، کنجوسی ، دیکھاوے کے لئے کام کرنا ، منافقت ، دوسرے کے مال میں خیانت ، فضول خرچی کرنا ، دین اور ناموس میں بے حیائی ، بے غیرتی ، صلۂ رحم کا ترک کرنا ، والدین کو اذیت و رنج پہنچانا ، پڑوسیوں کو تنگ کرنا ، لوگوں کے ساتھ برا سلوک ،بد گوئی ، چاپلوسی ، منصب کی خواہش ، عیب تلاش کرنا ، لمبی خواہش وغیرہ

ہر مسلمان کیلئے بری خصلتوںسے پرہیز کرنا ضروری ہے

اخلاقیات ، دین اسلام کا ایک اہم جز ہے اور اسلام نے اخلاقی مسائل پر بہت توجہ دی ہے ، حضرت رسول(ص) خدا نے نفس کے ساتھ جہاد (جنگ) کرنے کو سب سے بڑا جہاد کہا ہے(۱) آنحضرت (ص) نے فرمایا : میں مبعوث برسالت ہوا ہوں تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں(۲) کیونکہ انسان کے تمام کام خود اس کے نفس ہی سے صادر ہوتے ہیں اس لئے سب سے پہلے اس کی اصلاح اوراسے پاک کرنے کی کوشش کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، کتاب الجہاد، ص ۱۲۲ ۔ (۲)۔ المحجة البیضائ، فیض کاشانی، ج۲،ص ۳۱۲ ۔

۸۱

سوالات:

۱۔ اخلاق کی تعریف کیجئے ؟

۲۔ اچھے صفات کسے کہتے ہیں ؟

۳۔ برے صفات کی تعریف کیجئے ؟

۸۲

درس نمبر۲۲

( ایمان اور عمل میں اخلاص )

اخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے ہر کام کو چاہے وہ عبادی ہو یا عملی ،ظاہری ہو یا باطنی،روحانی ہو یا مادی،دینی ہو یا دنیاوی سب کے سب صرف خدا کے لئے انجام دے ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات ،مال و دولت کے حصول،شہرت و عزت،لالچ وحرص کے لئے کوئی کام نہیں کرتا۔ اخلاص تلوار کے مانند ہے کہ جو بھی رکاوٹ اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کو کاٹ کر پھینک دیتی ہے۔قرآن میںلفظ اخلاص کا استعمال تو نہیں ہوا ہے لیکن اس کے مشتقات قرآن میںبار بار استعمال ہوئے ہیں جو اخلاص کی اہمیت کو بتانے کے لئے کافی ہیں۔ارشاد رب العزت ہے ۔( وَمَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ- حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوالزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَة) (۱)

'' اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ خدا کی عبادت کریں اور اس عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھیں اور نماز قائم کریں اور زکا ادا کریں اور یہی سچا اور مستحکم دین ہے۔ ''

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا :(وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٭اِلَّاعِبَادَاللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ٭) (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ بینہ ،آیت ۵ (۲)سور ہ صافات ،آیت ۳۹،۴۰

۸۳

'' اور تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق ہی بدلہ دیا جائے گاعلاوہ اللہ کے مخلص بندوں کے کہ ان کے لئے معین رزق ہے۔ ''

اسی طرح سے قرآن نے ریا اور شرک کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اورشرک کو گناہ عظیم قرار دیا ہے پس ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اخلاص کا نہ ہونا بھی ایک طرح کا شرک شمار ہوتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہم دکھاوے کے لئے عمل کرتے رہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے رہیں ۔اگر ہم نماز کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کریں کہ لوگ ہمیں دیکھیں اور بہت نمازی سمجھیں یا نماز اول وقت پڑھیں تاکہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں یا نماز کو لوگوں کو سنانے کے لئے بہت ہی بنا کر اور اس انداز میں پڑھیں کہ ہم بہت بڑے قاری ہیں تو یہ سب عمل ریا کاری شمار ہوتے ہیں اور نماز کے بطلان کے ساتھ ساتھ گناہ کا بھی باعث ہوتے ہیں۔یہی باتیں ساری عبادات پرلاگو ہوتی ہیں یعنی ہر وہ عمل جو غیر خدا کو متوجہ کرنے کے لئے کیا جائے وہ باطل ہے اور گناہ کا باعث ہے۔

ارشاد ہوتا ہے :( وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآئَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَه' قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًا) (۱)

'' اور جو لوگ اپنے اموال کو لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس کا شیطان ساتھی ہو جائے وہ بدترین ساتھی ہے۔ ''

اگر قرآن ریا اور دکھاوے کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہا ہے تو دوسری طرف اخلاص کے ساتھ راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کو بھی بشارت دے رہا ہے کہ انہوںنے جو بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورہ نسا،آیت ۳۸

۸۴

راہ خدا میں خرچ کیا ہے خداوند انکو اس کا دگنا اجر عطا کرے گا۔ارشاد ہوتا ہے :

( مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فَیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ امنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنمبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ- وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ- وَاللّٰهُ وَاسِع عَلِیْم )(۱)

'' جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سوسو دانے ہوں اور خدا جس کو چاہتا ہے اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔ ''

اگر ہم خداوند عالم کے علم و قدرت کی طرف متوجہ رہیں اور یہ جان لیں کہ ساری عزت اور قدرت ،مال و دولت ، رزق و روزی خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے تو ہم ہرگز عزت و قدرت اور مال و دولت کے حاصل کرنے کے لئے غیر کے سامنے سرنگوں نہیں ہو نگے،اور ہم اس طرف بھی متوجہ رہیں کہ ہر چیز اسی کے حکم سے خلق ہو تی ہے اور اسی کے حکم سے فنا ہوتی ہے،حضرت مریم کے لئے سوکھے پیڑ سے کھجور پیدا کرنے والا وہی ہے اور حضرت ابراہیم کے لئے آگ کو گلزار کرنے والا بھی وہی ہے تو ہم کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھلائیں گے ۔ لیکن افسوص یہ ہے کہ ہم زبان سے تو اس کے خالق و قادر، عالم و رازق ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل میں اس سے کوسوں دور ہیں ۔

روایات میں بھی اخلاص کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ:افضل ترین عمل وہ ہے جو صرف خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ بقرہ ،آیت ۲۶۱

۸۵

کے لئے انجام دیا جائے ۔(۱)

امام باقر علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ:اگر کوئی چالیس دن تک اپنے عمل میں اخلاص قائم رکھے تواس کے قلب و زبان سے حکمت کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔(۲)

نیز حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : اگر مومن اپنے کو صرف خدا کے لئے مخصوص کر لے تو خداونداس کو ایسی قدرت عطا کرتا ہے کہ جس کے ذریعہ سے اس کی ہیبت سبھی پر طاری ہو جاتی ہے حتی کہ حشرات اور درندے بھی اس سے ڈرتے ہیں اور کوئی بھی اس کو نقصان پہنچانے کی جرئت نہیں کرتاہے۔(۳)

سوالات:

۱۔ اخلاص سے کیا مراد ہے؟

۲۔اخلاص کے بارے میں قرآن کی کوئی آیت بیان کیجئے ؟

۳۔ریا کاری سے کیا مراد ہے اور قرآن نے اس کی کس طرح مذمت کی ہے ؟

۴۔ اخلاص کے بارے میں امام باقر علیہ السلام کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) غرر الحکم (۲) الکافی (۳) کنز العمال

۸۶

درس نمبر ۲۳

( ماہ رمضان اور روزہ )

ماہ رمضان المبارک رحمت و فضیلت کا مہینہ ہے رمضان المبارک کی خاص فضیلت یہ ہے کہ اس میں عظیم ترین آسمانی کتاب قرآن کریم کا نزول ہواہے اورصرف اسی مہینہ کا نام قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے یہ وہ با برکت مہینہ ہے جس میں مسلمان خود کو معبود برحق کی بارگاہ میں پاتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق روزہ کے ذریعہ سے اپنے اندر تقوی اور پرہیزگاری کی راہ ہموار کر تے ہیں ۔روزہ کی اہمیت خداوند عالم کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ خداوند عالم حدیث قدسی میں ارشاد فرما رہا ہے:روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجر دوں گا۔یعنی خداوند متعال اس کے ثواب کو براہ راست عطاکرتا ہے۔(۱)

قرآن کی نظر میں روزہ :

(یٰآَیُّهَآ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن) ''ا ے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جا۔''(۲)

پھر ارشاد ہوتا ہے :

( اَیَّامًا مَعْدُوْدٰتٍ- فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّة مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ-

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ،(۲)سورہ بقرہ آیت۱۸۳

۸۷

( اَیَّامًا مَعْدُوْدٰتٍ- فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّة مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ- وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَه'فِدْیَة طَعَامُ مِسْکِيْنٍ- فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْر لَّه'- وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)(۱)

'' یہ روزے صرف چند دن کے ہیں لیکن اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں (روزے) رکھ لے گا اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بنا پر روزے نہیں رکھ سکتے ہیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگر اپنی طرف سے زیادہ نیکی کر دیں تو اور بہتر ہے ،لیکن روزہ رکھنا بہر حال تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم صاحبان علم و خبر ہو۔ ''

روزہ روایات کی نظر میں :

٭حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :یہ وہ مہینہ ہے جو خدا وند عالم کی نظر میں دیگر تمام مہینوں سے افضل ہے ،نگاہ الہی میں اس مہینہ کی تمام راتوں کو بہترین رات ،تمام دنوں کو بہترین دن اور تمام لمحات کو بہترین لمحوں کی حیثیت حاصل ہے جس میں تمہیں لطف کرامت خداوندی سے مالا مال کیا گیا ہے ۔ اس مہینہ میں تمہاری ہر سانس تسبیح و ذکر الہی کا ثواب رکھتی ہے اور تمہاری نیند کو بھی عبادت و بندگئی معبود کا اجر حاصل ہے ۔(۲)

٭حضرت امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: ماہ مبارک رمضان میں روزہ عذاب الہی سے نجات کا باعث ہوتا ہے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ بقرہ آیت ۱۸۴(۲)(فضائل الاشہر الثلاثہ ،شیخ صدوق ،(۳)نہج البلاغہ

۸۸

٭حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا ہے: کہ روزہ کی تکمیل زکو فطرہ کی ادائیگی سے ہوتی ہے جس طرح کہ نماز کی تکمیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود سلام بھیجنے سے ہوتی ہے۔

روزہ وہ بہترین عبادت ہے جسے پرور دگار نے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمد نے مشکلات میں اسی زریعہ سے کام لیا ہے ،یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمد علیہم السلام نے روزہ کی نذر کر لی اور وفائے نذر میں روزے رکھ لئے تو پرور دگار نے پورا سورہ دہر نازل کر دیا۔آل محمدکو ماننے والے کسی حال میں روزہ سے غافل نہیں ہو سکتے ،اور صرف ماہ رمضان میں ہی نہیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سہارا بنائیں گے۔

آخر میں ہم بارگاہ معبود میں دعا گو ہیں کہ ہمیں اس با برکت مہینہ کی نعمتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،ہمارے دلوں کو اس کے لئے آمادہ کردے کہ ہم حقیقی معنوں میں اس کی بندگی کر سکیں اور اپنے قلوب کو گناہ و معاصیت سے دور رکھ سکیں الہی اس با برکت مہینہ کو ہماری مغفرت کاوسیلہ قرار دے ۔ آمین یا رب العالمین۔

سوالات:

۱۔روزہ کے بارے میں قرآن سے کوئی آیت بیان کیجئے ؟

۲۔حضرت رسول اکرم (ص)نے ماہ رمضان کی فضیل کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے؟ ۳۔حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی نظر میں روزہ کی تکمیل کس چیز سے ہوتی ہے ۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ (۲)تفسیر قرآن علامہ جوادی

۸۹

درس نمبر ۲۴

( انفاق اور صدقہ )

راہ خدا میں خرچ کرنا

احکامات اسلامی میں سے ایک حکم کہ جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ انفاق ،صدقہ دینا یعنی راہ خدا میں خرچ کرنا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن مجیدنے بہت سی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ کیاہے اور اس امر کے انجام دینے کی تاکید فرمائی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی ابتدائی آیات ہی میں خداوند عالم پرہیز گاروں کی ایک صفت" انفاق" کو قرار دے رہا ہے ارشاد الہی ہوتا ہے"اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ پرہیزگاروں کے لئے راہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں(۱)

روایات میں بھی صدقہ دینے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اور اس کے بہت زیادہ فائدے بیان کئے گئے ہیں۔پیغمبر اکرم کاارشادہے :صدقہ شیطان کی کمر کو توڑ دیتا ہے۔(۲)

حضرت امام جعفر صادق(ع) نے ارشاد فرمایا:پیغمبر اکرم نے ارشاد فرمایا:لوگ تین گروہ میں تقسیم ہو گئے ہیں کچھ لوگ محتاج ہیں ،کچھ لوگ انفاق کرتے ہیں اور راہ خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورہ بقرہ آیت ۲۔۳ (۲)سفینة البحار

۹۰

میں خرچ کرتے ہیں ،اور کچھ لوگ راہ خدا میں خرچ کرنے سے خودداری کرتے ہیں ،انمیں سے بہترین وہ ہیں جو انفاق کرتے ہیں ۔

صدقہ و خیرات دینے کے آداب :

٭ جب بھی آپ کے ذہن میں راہ خدا میں خرچ کرنے اور صدقہ دینے کا خیال آئے تو آپ جلد سے جلد اس کام کو انجام دیں کیونکہ شیطان آپ کو بہکا سکتا ہے۔جبکہ صدقہ شیطان کو آپ سے دور کرتا ہے ۔

٭فضیلت والے دنوں مانند روز جمعہ،روز عید غدیر،ایام ولادت ائمہ معصومین ،ماہ ذی الحجہ،ماہ رمضان میں صدقہ دینا چاہئے۔جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : میرے والد ہمیشہ روز جمعہ صدقہ دیتے تھے اور فرماتے تھے روز جمعہ صدقہ دینے کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ روز جمعہ دوسرے ایام پر برتری رکھتا ہے۔(۱)

٭ جو کچھ بھی انفاق کریں یا صدقہ دیں وہ بہترین مال یا بہترین چیزوں میں سے ہو ۔جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے"اے ایمان والو اپنی پاک کمائی اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہیں خداکی راہ میں خرچ کرو اور برے مال کو خدا کی راہ میںدینے کا قصد بھی نہ کرو(۲)

٭صدقہ دینے کے بعد کسی پر احسان نہیں جتا نا چاہیے ورنہ ہم کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گاجیسا کہ ارشاد الہی ہو رہا ہے"اے صاحبان ایمان اپنی خیرات کو احسان جتانے اور سائل کو ایذا دینے کی وجہ سے اس شخص کی طرح اکارت مت کرو جو اپنا مال محض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) بحارالانوار(۲) سورہ بقرہ

۹۱

لوگوں کے دکھانے کے واسطے خرچ کرتا ہے اور خدا و روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتا،تو اس کی خیرات کی مثل اس چکنی چٹان کی سی ہے جس پر کچھ خاک پڑی ہوئی ہو پھر اس پر زورو شور کا پانی برسے اور اس مٹی کوبہا کر چکناچپڑا چھوڑ جائے اسی طرح ریا کار افراداپنی اس خیرات یا اسکے ثواب میں سے جو انہوںنے کی ہے کسی چیز پر قبضہ نہیں پائیں گے۔۔۔"(۱)

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:"جو شخص اپنے مومن بھائی کے ساتھ نیکی کرتا ہے اور پھر اس پر احسان جتاتا ہے تو خداوند اس کے اس عمل کو ساقط کر دیتا ہے" یعنی قبول نہیں کرتا ہے۔

٭مستحق کی مددکرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آ پ کے اس عمل سے اس کی ذلت نہ ہو ،جو کچھ بھی دیں اس طرح دیں کہ جیسے آپ کسی کو ہدیہ دے رہے ہیں ۔ کوشش کریں کہ سائل کو آپ کے دروازے پر آنا نہ پڑے بلکہ آپ خود اس کے دروازے پر جا کر اس کی مدد کریں۔"اسحاق بن عمار کا بیان ہے : امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے سوال کیا اے اسحاق!اپنی زکوہ کے مال کو کس طرح ادا کرتے ہو ؟اسحاق نے کہا :لوگ میرے گھر پر آتے ہیں اور زکوہ کا مال لے جاتے ہیں ۔ حضرت نے فرمایا اے اسحاق میری نظر میں تم نے ان کو ذلیل و رسوا کیا ہے ۔۔۔"(۲)

٭جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرے اس کو اہمیت نہ دے اور یہ نہ سوچے کے اس نے اس عمل سے خدا کو راضی کر لیا ہے کیونکہ یہ امر باعث غرور ہوگا اور غرور اجر کو ضائع کر دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ بقرہ ،(۲)وسائل الشیعہ

۹۲

٭ اگر قدرت رکھتا ہے تو اس قدر فقیر کو عطا کرے کہ اس کی مشکل حل ہو جائے اور اس کو در در بھٹکنا نہ پڑے۔

٭ یہ کہ انفاق و صدقہ دیتے وقت تواضع اور انکساری سے پیش آئیں اور فقیر کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: سائل کو حقارت اور خفت کے ساتھ نہ پکارو اور اس کوبہترین طریقہ سے پکارو

٭سائل کو اس کے سوال کرنے سے پہلے عطا کرنا چاہئے ۔کیونکہ سوال کرنے کے بعد جو عطا کیا جاتا ہے وہ سائل کی عزت و آبرو کی قیمت کے مانند ہے۔(۱)

٭جب بھی آپ فقیر کو کچھ عطا کریں اس سے طلب دعا کریں کیونکہ فقیر کی دعا اس کے حق میں مستجاب ہوتی ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :"جب کس فقیر کی مدد کرو تو اس سے طلب دعا کرو کیونکہ اس کی دعا تمہارے حق میں مستجاب ہوتی ہے"(۲)

صدقہ و خیرات لینے کے آداب :

٭جس چیز کی ضرورت نہیں ہے اس کا سوال نہ کرے اور جو کچھ بھی لے اس میں اسراف نہ کرے اور اپنی ضرورت کے مطابق ہی لے۔

٭جب بھی کچھ ملے تو خدا کا شکر ادا کرے اور خیرات کرنے والے کا حق پہچانے اور اس کے لئے دعا کرے۔

٭جتنی مقدار میں بھی اس کو دیا جائے اس کو کم شمار نہ کرے اور دینے والے کی مذمت نہ کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ،(۲)فروع کافی

۹۳

٭جو لوگ حرام و حلال کا پاس نہیں کرتے ان سے کچھ نہ لے۔

٭سب کے سامنے سوال کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔

٭جو کچھ بھی ملے اس کا اظہار نہ کرے تاکہ اس کی آبرو باقی رہے مگر یہ کہ اظہار کی غرض شکر گزاری ہو۔

صدقہ دینے کے فائدے :

٭ غضب خداوندی کوخاموش کرتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :صدقہ دینے سے غضب خداوندی سے نجات ملتی ہے۔(۱)

٭مریض کی شفاکا باعث ہوتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :اپنے مریضو ںکاعلاج صدقہ کے ذریعہ سے کرو۔

ایک شخص امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پریشانیوں کو بیان کیا کہ میر خاندان میں دس افرد ہیں اور وہ سب کے سب مریض ہو گئے ہیں ،آپ نے فرمایا ان کا علاج صدقہ دینے سے کروکیونکہ کو ئی چیز صدقہ سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچاتی میرے نزدیک مریض کے لئے صدقہ سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں ہے۔

٭روزی حاصل ہوتی ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :صدقہ کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرو۔

٭فقر کو برطرف کرتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند محمدسے سوال کیا کہ نان و نفقہ میں سے کتنا اضافی مال تمہارے پاس ہے فرمایا ۴۰ دینار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)معراج السعادہ،

۹۴

امام(ع) نے فرمایا اس کو صدقہ میں دے دو محمد نے فرمایا ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ،امام (ع) نے فرمایا:کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک کنجی ہے اور روزی کی کنجی صدقہ ہے۔

حضرت امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں: نیکی کرنے اور صدقہ دینے سے فقر دور ہوتا ہے۔

٭طول عمر کا باعث ہوتا ہے:-حضرت امام محمدباقر علیہ السلام فرماتے ہیں: صدقہ عمر کے طولانی ہونے کا باعث ہوتا ہے۔

٭ بری اور ناگہانی موت سے بچاتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاارشادہے : صدقہ بری اور ناگہانی موت سے مانع ہوتا ہے۔

٭گناہوں کو ختم کرتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :کہ رات میں صدقہ دینا غضب الہی سے نجات کا باعث ہوتا ہے اور گناہانان کبیرہ کو بھی ختم کرتا ہے۔

٭ قیامت کے حساب و کتاب کو آسان بناتا ہے:-حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے :کہ صدقہ دینے سے روز قیامت کے حساب و کتاب میں آسانی ہوجاتی ہے۔

٭ ایام کی نحوست کو برطرف کرتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :کہ ہر وہ شخص جو کہ صدقہ کے ساتھ دن کی شروعات کرے گا تو خداوند عالم اس دن کی نحوست اور برائیوں کو اس سے دور کر دیگا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بحار الانوار،

۹۵

٭شہروںکو آباد کرتاہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایاہے : صدقہ دینے اور صلہ رحم سے شہر آباد ہوتے ہیں۔

٭ صدقہ بغیر واسطہ کے خداوند عالم تک پہنچتا ہے:حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:ہر چیز کے حصول کے لئے خداوند عالم نے ملک کو قراردیاہے مگر صدقہ سیدھے خداوند کے ہاتھوں میں جاتاہے۔ بحار الانوار،

٭ شر و بدی کے ستر دروںکو بند کرتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاارشاد ہے: کہ صدقہ دینے سے شر و بدی کے ستر باب بند ہوجاتے ہیں۔یعنی صدقہ انسان کی حفاظت کرتا ہے۔

٭ قرض کی ادائیگی کا باعث ہوتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:صدقہ انسان کے قرض کو ادا کرتاہے ۔

٭قضاالہی کو برطرف کرتا ہے:-حضرت اما م علی علیہ السلام نے فرمایا: صدقہ قضاآسمانی کو برطرف کرتا ہے

٭ مشکلات کو حل کرتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:اگر تمہارے لئے کوئی مشکل پیش آئے تو کوئی چیز صدقہ کے عنوان سے جو پہلافقیر تم کو ملے اسے دے دو خداوندعالم تم سے اس مشکل کو دور فرمادیگا۔

٭پاداش اخروی کا باعث ہوتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو بھی صدقہ دیتا ہے تو خداوندعالم ہر درہم کے مقابلہ میں کو ہ احد کے برابر جنت میں اس کو اجر عطا کرے گا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بحار الانوار

۹۶

٭شیطان کی کمر کو شکستہ کرتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کہ صدقہ شیطان کی کمر کو توڑ دیتا ہے یعنی شیطان کو بے بس کر دیتا ہے(۱)

٭ موت کی تا خیر کا باعث ہوتا ہے:-حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اے'' میسر''کئی بار تمہاری موت کا وقت قریب آیا لیکن خداوند عالم نے صدقہ کی بنا پر اس کو تم سے دور کردیا ۔

٭قیامت کی گرمی میں سائبان ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کی زمین آفتاب کی تپش سے جل رہی ہوگی لیکن مومن کے اوپر سائبان ہوگا کیونکہ اس نے جو صدقہ دنیا مین دیا ہو گا وہ سائبان کی شکل میںگرمی سے اس کی حفاظت کر ے گا۔

٭ زیادتی مال کا باعث ہوتا ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاارشاد ہے : کہ صدقہ دو کیونکہ صدقہ دینے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔(۲)

٭ جزام اور برص کے مرض سے انسان کو نجات دیتاہے:-صدقہ سترطرح کی بلاں سے انسان کو نجات بخشتا ہے جن میں سے جذام اور برص قابل ذکر ہیں(۳)

٭بہترین ذخیرہ ہے:-حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے : صدقہ

تمہارے لئے بھترین مال اور بھترین ذخیرہ ہے۔

٭جہنم کی آگ کے لئے سپر ہے:-حضرت اما م علی علیہ السلام نے فرمایا: صدقہ انسان کو جھنم کی آگ سے بچاتا ہے۔(۴)

٭محافظ ایمان ہے:-حضرت اما م علی علیہ السلام نے فرمایا:اپنے ایمان کی حفاظت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سفینةالبحار(۲) بحار الانوار (۳) کنز العمال (۴)وسائل الشیعہ

۹۷

صدقہ کے ذریعہ کرو۔(۱) صدقہ دینے کے بہت سے فائدے روایات میں ذکر ہوئے ہیںجن کا شماراختصار کی بنا پر نہیں کیا گیاہے،بعض فوائد یہ ہیں: حیوانات اور درندوں کے شر سے بچاتاہے،انسان کی دولت کی حفاظت کرتا ہے،دس راتوں کی مستحب نمازوں سے افضل ہے،فایدہ مند تجارت ہے،خداوند اس کا بدلہ ضرور دیتا ہے۔وغیرہ وغیرہ۔

سوالات:

۱۔صدقہ کی اہمیت کے بارے میں کوئی دو روایات بیان کیجئے ؟

۲۔ صدقہ و خیرات دینے کے آداب میں سے کوئی پانچ آداب ذکر کیجئے ؟

۳۔ صدقہ و خیرا ت لینے کے آداب میں سے کوئی پانچ آداب ذکر کیجئے ؟

۴۔صدقہ دینے کے کوئی پانچ فائدے بیان کیجئے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ،حکمت

۹۸

درس نمبر۲۵

( امانت اور امانت داری )

احکام اسلامی میں سے ایک حکم امانت داری ہے ۔کیونکہ ایک مضبوط و سالم معاشرہ کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد کا ہونا لازم و ضروری ہے۔اسی لئے صرف اسی معاشرے کو خوشبخت و سعادت مند سمجھنا چاہئے جس کے افراد کے درمیان مکمل رشتہ اتحاد و اطمینان پایا جاتا ہو ،لیکن اگر معاشرے کے افراد اپنے عمومی فرائض کی سرحدوں کو پار کر لیںاور دوسروں کے حقوق کے ساتھ خیانت کرنے لگیں تو وہیں سے معاشرے کے زوال کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔اسی لئے قرآن و حدیث میںامانتداری کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:''اے ایمان والو! خدا اور رسول اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے بھی ہو۔(۱)

قرآن مومنین کے صفات میں سے ایک صفت "امانت داری "کو قرار دیتے ہوئے فرما تاہے: "اور جو مومنین اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں ۔۔۔ درحقیقت یہی وارثان جنت ہیں(۲)

دوسری جگہ ارشاد الہی ہو رہا ہے:"بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو ''(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انفال (۲)سورہ مومنون (۳)سورہ نسا،

۹۹

آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :"لفظ امانت عام ہے وہ مال ہو یا علم یاراز یا احکام دین یا کوئی اورشے جس کو خدا نے بندے کے پاس رکھوادیا ہے اس کا اہل تک پہچانا ضروری ہے اور خیانت کرنا حرام ہے۔ اسی لئے رسول امین ،خدا سے قرآن و اہلبیت(ع)لائے اورامت کے حوالے کر گئے، اپنے ساتھ واپس لے کر نہیں گئے ۔ "

لیکن افسوس یہ کہ امت نے اس امانت کا پاس نہیں کیابلکہ آپ اور اسلام کی تمام نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ کے بعداہلبیت(ع) کے ساتھ ایسا برتا کیا کہ قلم بھی اس کی عکاسی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ لعن اللہ علی الظالمین۔

روایات میں امانت اور امانت داری کی بہت تاکید کی گئی ہے اور خیانت کرنے والے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:جو بھی امانت میں خیانت کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(۱)

دوسری جگہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے: "جو شخص بھی امانت کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا ہے و ہ دین بھی نہیں رکھتا ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:"جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔(۲)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: " فقط لوگوں کے طولانی رکوع اور سجود پر نگاہ نہ کرو کیونکہ ممکن ہے یہ کام و ہ عادتا کرنے لگے ہوں اور اگر ترک کریں گے تو انکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مشکو الانوار،(۲)بحار الانوار

۱۰۰

101

102

103

104