معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29642
ڈاؤنلوڈ: 2176


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29642 / ڈاؤنلوڈ: 2176
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

درس نمبر17 ( روزہ )

روزہ کی تعریف :

اسلام کے واجبات اور انسان کی خود سازی کے سالانہ پروگرام میں سے ایک، روزہ ہے، اذان صبح سے مغرب تک حکم خدا کو بجالانے کے لئے کچھ کام انجام دینے (جن کی وضاحت بعدمیں آئے گی)سے پرہیز کرنے کو روزہ کہتے ہیں، احکام روزہ سے آگاہ ہونے کے لئے پہلے اس کی اقسام کو جاننا ضروری ہے۔

روزہ کی اقسام :

1۔واجب 2۔حرام 3۔مستحب 4۔مکروہ

واجب روزے :

درج ذیل روزے واجب ہیں :

1۔ ماہ مبارک رمضان کے روزے 2 ۔قضا روزے 3۔کفار ے کے روزے۔

4۔نذرکی بنا پر واجب ہونے والے روزے۔

5ایام اعتکاف میں تیسرے دن کا روزہ

6۔ باپ کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہوتے ہیں۔

بعض حرام روزے :

٭ عید فطر( اول شوال) کو روزہ رکھنا۔

۱۰۱

٭ عید قربان ( 10ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

مستحب روزے :

حرام اور مکروہ روزہ کے علاوہ سال کے تمام ایام، میں روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ بعض مستحب روزوں کی زیادہ تاکید اور سفارش کی گئی ہے۔

جن میں سے چند حسب ذیل ہیں :

٭ ہر جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھنا۔

٭ عید مبعث کے دن (27 ماہ رجب) کو روزہ رکھنا۔

٭ عید غدیر(18ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

٭ عید میلاد النبی (17 ربیع الاول) کو روزہ رکھنا۔

مکروہ روزے :

٭ مہمان کا میزبان کی اجازت کے بغیر مستجی روزہ رکھنا۔

٭ مہمان کا میزبان کے منع کرنے کے باوجود مستجی روزہ رکھنا ۔

٭ فرزند کا باپ کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ رکھنا۔

٭ عاشورہ کے دن کا روزہ۔

روزہ کی نیت :

1۔ روزہ ایک عبادت ہے اسے خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے بجالانا چاہئے۔

2۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔

3۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیںڈالنا چاہئے۔البتہ مستحب روزہ کے لیے دن میں کسی بھی وقت جب روزہ

۱۰۲

کاخیال آئے نیت کرسکتا ہے ۔

4۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔

مبطلات روزہ : روزہ دار کوصبح کی اذان سے لیکر مغرب کی اذان تک بعض کاموں کو انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔اوراگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، ایسے کاموں کو'' مبطلات روزہ'' کہتے ہیں ۔مبطلات روزہ حسب ذیل ہیں :

1۔کھانا پینا۔ 2۔غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا۔ 3۔ قے کرنا۔

4۔ مباشرت کرنا 5۔استمناء (یعنی کوئی ایسا کام کرے جس سے اسکی منی باہر نکل آئے) 6۔ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا۔7۔سرکا پانی میں ڈبونا

8۔ خدا، رسول اور معصومین (ع) پر جھوٹ باندھنا

9۔حقنہ لینا (مقعد کے ذریعہ بہنے والی چیزوں کو اندر لینا )

بعض مبطلات روزہ کے احکام

کھانا اور پینا :

1۔ اگر روزہ دار عمداً کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

2۔ اگر کوئی شخص اپنے دانتوں میں موجود کسی چیز کو نگل جائے، تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

3۔تھوک کو نگل جانا روزہ کو باطل نہیں کرتاخواہ زیادہ کیوں نہ ہو۔

۱۰۳

4۔ اگر روزہ دار بھولے سے ( نہیں جانتا ہوکہ روزے سے ہے ) کوئی چیز کھائے یاپیئے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔

انجکشن لگوانا :

انجکشن لگوانا، اگر غذا کے بدلے نہ ہو، روزہ کو باطل نہیں کرتا اگرچہ عضو کوبے حس بھی کردے۔

غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا :

1۔ اگر روزہ دار غلیظ غبار کو حلق تک پہنچائے، تو اس کاروزہ باطل ہو جائے گا، خواہ یہ غبار کھانے کی چیز ہو جیسے آٹا یا کھانے کی چیز نہ ہو جیسے مٹی۔

2۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا :

٭ غبار غلیظ نہ ہو۔

٭ حلق تک نہ پہنچے(صرف منہ کے اندر داخل ہوجائے )

٭ بے اختیار حلق تک پہنچ جائے۔

٭ یاد نہ ہو کہ روزہ سے ہے۔

٭ شک کرے کہ غلیظ غبار حلق تک پہنچایا نہیں۔

3۔بنابراحتیاط واجب سگریٹ پینے سے روزہ بطل ہو جاتا ہے ۔

قے کرنا :

1۔ اگر روزہ دار عمداً قے کرے،اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہو توبھی اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

2۔ اگر روزہ دار کو یاد نہیں ہے کہ روزہ سے ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ

۱۰۴

باطل نہیں ہے۔

جماع کرنا :

اگرکوئی شخص روزہ کی حالت میں جماع کرے چاہے اسکی منی نہ نکلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے ۔

استمنائ :

1۔ اگر روزہ دار ایسا کام کرے جس سے منی نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا

2۔اگر بے اختیار منی نکل آئے مثلاً احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا

اذان صبح تک جنابت پر باقی رہنا :

اگرکوئی شخص ماہ رمضان میں عمداًحالت جنابت میں اذان صبح تک باقی رہے اور غسل نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے

پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونا۔

1۔ اگر روزہ دار عمداً اپنے پورے سر کو پانی میںڈبودے، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

2۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہے :

٭ بھولے سے سر کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

سرکے ایک حصہ کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ نصف سرکو ایک دفعہ اور دوسرے نصف کو دوسری دفعہ پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ اچانک پانی میں گرجائے۔

٭ دوسرا کوئی شخص زبردستی اس کے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ شک کرے کہ آیا پورا سر پانی کے نیچے گیا ہے کہ نہیں ۔

۱۰۵

سوالات :

1۔ مندرجہ ذیل دنوں میں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے :

دسویں محرم، دسویں ذی الحجہ، نویں ذی الحجہ، ، پہلی شوال۔

2۔ کیا مہمان میزبان کی اجازت کے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے؟

3 روزہ کی حالت میں خلال کرنے اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟

4۔ کیا روزے کی حالت میںچنگم چبانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟

5۔ کسی شخص کو پانی پیتے وقت یاد آئے کہ روزہ سے ہے، اس کی تکلیف کیا ہے اور اس کے روزہ کا کیا

حکم ہے؟

6۔ سگریٹ پینا مبطلات روزہ کی کون سی قسم ہے؟

7۔ روزہ کی حالت میں تیرنا کیا حکم رکھتاہے؟

۱۰۶

درس نمبر18 ( روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ )

قضا روزہ :

اگر کوئی شخص روزہ کو اس کے وقت میں نہ رکھ سکے، اسے کسی دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہئے، لہٰذا جو روزہ اس کے اصل وقت کے بعد رکھا جاتاہے اسے '' قضا روزہ'' کہتے ہیں۔

روزہ کا کفارہ

کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے :

٭ ایک غلام آزاد کرنا۔

٭ اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ 31 روز مسلسل روزہ رکھے۔

٭ 60 فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد طعام دینا۔

جس پر روزہ کا کفارہ واجب ہوجائے''اسے چاہئے مندرجہ بالا تین چیزوں میں سے کسی ایک کو انجام دے۔ چونکہ آجکل'' غلام'' فقہی معنی میںنہیں پایا جاتا،لہٰذا دوسرے یا تیسرے امور انجام دیئے جائیں اگر ان میں سے کوئی ایک اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہوسکے فقیر کو کھانا کھلائے اور اگر کھانا نہیں کھلا سکتا ہو تو اس کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔

۱۰۷

درج ذیل مواردمیں روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے :

1۔ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بجالانا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک یا

چند روز روزہ رکھے۔

2۔ ماہ رمضان میں تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو، مثلاً پانی پی لے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

3۔ کوئی یہ کہے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور روزہ دار اس پر یقین کرکے ایسا کوئی کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو اور بعد میں معلوم ہوکہ صبح ہوچکی تھی۔

4۔ اگر ماہ رمضان کے دن تاریکی کی وجہ سے یقین کرلے کہ مغرب ہوگئی ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب نہیں ہوئی تھی ۔

اگربغیر کسی عذر شرعی کے عمداً ماہ رمضان المبارک کا روزہ نہ رکھے یا عمداً روزہ کو باطل

کرے، تو قضا وکفار دونوں واجب ہیں

روزہ کی قضا اور کفارہ کے احکام

1۔ روزہ کی قضاکو فورا انجام دینا ضروری نہیں ہے، لیکن احتیاط واجب کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالائے۔

2۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو انسان کسی بھی ماہ رمضان کے قضا روزے پہلے رکھ سکتا ہے ۔

البتہ اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا ًآخری ماہ رمضان کے 10 روزے قضا ہوں اور اگلے ماہ رمضان تک دس ہی دن باقی رہ چکے ہوںتو پہلے اسی آخری رمضان کے قضا روزے رکھے۔

۱۰۸

3۔ انسان کو کفارہ بجالانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اسے فورا ًانجام دے۔

4۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوا ہو، اسے چند برسوں تک بجانہ لائے تو اس پر کوئی چیز

اضافہ نہیں ہوتی۔

5۔ اگر کسی عذر کے سبب جیسے سفر میں روزہ نہ رکھے ہوں۔اور رمضان المبارک کے بعد عذر برطرف ہوا ہونیز اگلے رمضان تک عمدا قضا نہ کرے، تو قضا کے علاوہ، ہر دن کے عوض، فقیر کو ایک مد طعام بھی دے۔

6۔ اگر کوئی شخص اپنے روزہ کو کسی حرام کام کے ذریعہ، جیسے استمناء سے باطل کرے، تو احتیاط مستحب کی بناپر اسے مجموعی طورپر کفارہ دینا ہے، یعنی اسے ایک بندہ آزاد کرنا، دو مہینے روزہ رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلاناہے۔ اگر تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ

ہو ںتو ان تینوں میں سے جس کسی کو بھی بجالاسکے کافی ہے۔

درج ذیل موارد میں نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ :

1۔ بالغ ہونے سے پہلے نہ رکھے ہوئے روزے۔

2۔ایک نومسلمان کے ایام کفر کے روزے، یعنی اگر ایک کا فرمسلمان ہوجائے، تو اس کے گزشتہ روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔

3۔ اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد بھی اس کی قضا نہ بجالاسکتا ہو۔تو ہر دن کے لئے ایک مد (تقریباً تین پاؤ)طعام فقیر کو دیدے

۱۰۹

سوالات :

1۔ روزہ کی قضا اور اس کے کفارہ میں کیا فرق ہے۔؟

2۔ رمضان المبارک کے قضا روزوں کا وقت بیان کیجئے۔

3۔ روزہ کے کفارہ کا وقت بیان کیجئے۔

4۔ اگر کوئی اگلے سال کے رمضان تک قضا روزے نہ بجالاسکے تو اس کا فرض کیا ہے؟

5۔ جوشخص بوڑھاہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

۱۱۰

درس نمبر19 ( خمس )

مسلمانوں کے اقتصادی فرائض میں سے ایک فریضہ ''خمس'' کا ادا کرنا ہے، اس طرح کہ بعض مقامات میں اپنے مال کا ایک پنجم حصہ ایک خاص صورت میں خرچ کرنے کے لئے اسلامی حاکم کو دینا چاہئے۔

خمس سات چیزوں پر واجب ہے :

1۔جو کچھ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ بچ جائے (کسب کار کانفع )

2۔ معدن 3۔ خزانہ 4۔جنگی غنائم 5۔ وہ جواہرات جو سمندر کی تہہ سے نکالے جاتے ہیں۔ 6۔حلال مال جو حرام کے ساتھ مخلوط ہوچکا ہو۔

7۔وہ زمین جسے کافر ذمی ایک مسلمان سے خریدے۔

خمس ادا کرنا بھی نمازو روزہ کی طرح واجبات میں سے ہے اورتمام بالغ اورعاقل اگر مذکورہ سات موارد میں سے ایک کے ،ما لک ہوں تو اس پر عمل کرنا چاہئے

جس طرح شرعی فریضہ کے آغاز پرہرکوئی نمازو روزہ کی فکر میں ہوتا ہے اسے خمس وزکات ادا کرنے اور دیگرواجبات کی فکر میں بھی ہونا چاہئے لہٰذا ضرورت کی حد تک

ان کے مسائل سے آشنائی ضروری ہے، چنانچہ ہم یہاں پر خمس کے سات موارد میں سے صرف ایک کے بارے میں وضاحت کریں گے جس سے معاشرے کے لوگ

۱۱۱

زیادہ دوچار ہیں ، اور وہ سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر خمس ہے :

اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں درج ذیل دوسوالوں کے جواب پر غور کرنا چاہئے :

1۔ سال کے خرچ سے کیا مراد ہے؟

2۔ کیا خمس کا سال قمری، یاشمسی مہینوںسے حساب ہوتا ہے اور اس کا آغاز کس وقت ہے؟

سال کا خرچہ :

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو پورے کرنے کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔

اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کا ایک پنجم حصہ خمس کے عنوان سے ادا کرے اور باقی 4 حصہ اپنے لئے بچت کرے۔

لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیںجو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :

٭ خوارک وپوشاک ٭ گھر کا سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔

٭ گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔ ٭ مہانوں کا خرچہ۔

٭ شادی بیاہ کا خرچ۔ ٭ ضروری اور لازم کتابیں۔ ٭ زیارت کا خرچ

۱۱۲

٭ انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں

٭ اداکیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔

خمس کا سال :

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزے رکھنے چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ مال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتدائ :

٭ کسان کے لئے ۔۔۔۔ پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔

٭ ملازم کے لئے ۔۔۔۔ پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔

٭ مزدورکے لئے ۔۔۔۔ پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔

دوکاندار کے لئے ۔۔۔۔۔ پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔

٭ جومال مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل ہوجائے، اس پر خمس نہیں ہے :

1۔وراثت میں ملا ہوامال۔ 2خواتین کا مہریہ 3۔بخشی گئی چیز(ہبہ)۔

4۔ حاصل کئے گئے انعامات۔ 5۔ جو کچھ انسان کو عیدی کے طور پر ملتاہے۔

6۔ وہ مال جو کسی کو خمس، زکات یا صدقہ کے طور پر دیا جاتاہے 7۔ وہ چیزیں جو وقف شدہ ہوں ۔

۱۱۳

خمس نہ دینے کے نتائج :

1۔جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے، اس میں ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں، یعنی اس کے کھانے کو نہیں کھایا جاسکتا، جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اور اس پیسے سے کوئی چیز نہیں خریدی جاسکتی ہے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو۔

2۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے (حاکم شرع کی اجازت کے بغیر) کاروبار کیا جائے تو اس کار وبارکا 15معاملہ باطل ہے۔

3۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے پانی لے کر غسل کرے تو وہ غسل باطل ہے۔

4۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے مکان خریدا جائے، تو اس مکان میں نماز پڑھنا باطل ہے۔

مصرف خمس :

خمس کے مال کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، اس کا نصف سہم امام زمان علیہ السلام ہے اور اسے مجتہد جامع الشرائط جس کی انسان تقلید کرتا ہے یا اس کے وکیل کو دیا جاتا

ہے دوسرے نصف کو بھی مجتہد جامع الشرائط یا اس کی اجازت سے ضروری شرائط کے حامل سادات کو دیا جائے۔

خمس کے محتاج سید کے شرائط :

٭ غریب ہو یا ابن السبیل ہو، اگرچہ اپنے شہر میں غریب ومحتاج نہ ہو۔

٭ شیعہ اثنا عشری ہو۔

٭ کھلم کھلا گناہ کا مرتکب نہ ہو ( احتیاط واجب کی بناپر) اور اسے خمس دینا گناہ انجام دینے میں مددکا سبب نہ ہو۔

۱۱۴

٭ احتیاط واجب کی بناء پران افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات اس (خمس لینے والے) کے ذمہ ہوں، جیسے بیوی بچے۔

سوالات:

1۔ کس قسم کے جواہرات پر خمس نہیں ہے ؟

2۔ کسب وکار کے منافع کی وضاحت کیجئے؟

3۔ سالِ خمس کا آغاز کس وقت ہوتا ہے؟

4شادی وخوشی کے موقع پر دیئے جانے والے تحفہ پر خمس ہے یا نہیں ؟

5۔ مصرف خمس کی وضاحت کیجئے؟

۱۱۵

درس نمبر20 حصہ اوّل

( جہاداور دفاع )

چونکہ خورشید اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام مکاتب ومذاہب ؛باطل، منسوخ اور ناقابل قبول قرار پائے ہیں لہٰذا تمام انسانوں کو دین اسلام کے پروگرام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونا چاہئے، اگر چہ وہ اسے تحقیق اور آگاہی کے ساتھ قبول کرنے میں آزاد ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے جانشینوں نے ابتداء میںاسلام کے نجات بخش پروگراموں کی لوگوں کے لئے وضاحت فرمائی اور انھیں اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی جنہوں نے اسلام کے پروگراموں اور احکام سے روگردانی کی ، وہ غضب الٰہی اور مسلمانوں کی شمشیر قہرسے دوچار ہوئے ۔ اسلام کی ترقی کے لئے کوشش اور اس کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں سے مقابلہ کو ''جہاد'' کہتے ہیں۔اسلام کی ترقی کے لئے اس قسم کا اقدام ایک خاص ٹیکنیک اور طریقہ کار کا حامل ہے اور یہ صرف پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے جانشینوں۔ (جو ہر قسم کی لغزش اور خطاء سے مبّرا ہیں)کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور معصومین علیہم السلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ا ورہمارے زمانہ میں کہ یہ امام معصوم کی غیبت کادورہے، واجب نہیں ہے جہاد کی اس قسم کوجہاد ابتدائی کہتے ہیں لیکن دشمنوں سے مقابلہ کی دوسری قسم کانام جہاد دفاعی'' ہے۔یہ تمام مسلمانوں کا مسلم حق ہے کہ ہر زمان ومکان میں دنیا کی کسی بھی جگہ میں اگر

۱۱۶

دشمنوں کے حملہ کا نشانہ بنیں یا ان کا مذہب خطرہ میں پڑے تو اپنی جان اور دین کے تحفظ کے لئے دشمنوں سے لڑیں اورانہیں نابود کردیں۔ ہم اس سبق میںاس واجب الٰہی یعنی''جہاد دفاعی'' کے احکام واقسام سے آشنا ہوںگے۔

اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع :

٭ اگر دشمن اسلامی ممالک پر حملہ کرے۔

٭ یا مسلمانوں کے اقتصادی یا عسکری ذرائع پر تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے۔

٭ یا اسلامی ممالک پر سیاسی تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے ۔

تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر ممکن صورت میں ، دشمنوں کے حملہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیںاور ان کے منصوبوں کی مخالفت کریں۔

جان اور ذاتی حقوق کا دفاع :

1۔ مسلمانوں کی جان اور ان کا مال محترم ہے، اگر کسی نے ایک مسلمان، یا اس سے وابستہ افراد، جیسے، بیٹے، بیٹی، باپ ، ماں اور بھائی پر حملہ کیا تو دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے،اگرچہ یہ عمل حملہ آورکوقتل کرنے پر تمام ہوجائے۔

2۔ اگر چور کسی کے مال کو چرانے کے لئے حملہ کردے، دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے۔

3۔ اگر کوئی نامحرموں پر نگاہ کرنے کے لئے دوسروں کے گھروں میں جھانکے تو اسے اس کام سے روکنا واجب ہے، اگرچہ اس کی پٹائی بھی کرنا پڑے۔

۱۱۷

سوالات:

1۔''جہاد'' اور'' دفاع'' میں کیا فرق ہے۔؟

2۔ دفاع کی قسمیں بیان کیجئے اور ہر ایک کے لئے ایک مثال بیان کیجئے؟

3۔ کس صورت میں چور کے ساتھ مقابلہ واجب ہے؟

۱۱۸

حصہ دوم : ( امربالمعروف ونہی عن المنکر )

ہر انسان معاشرے میں انجام پانے والے برے اور ترک کئے جانے والے نیک کاموں کے بارے میں ذمہ دارہے ، اس لئے اگر کوئی واجب کام ترک ہوجائے یا کوئی حرام کام انجام پائے تو اس کے مقابلے میں خاموشی اور لاتعلقی جائز نہیں ہے، اور معاشرے کے تمام لوگوں کو ''واجب''کام کی انجام دہی اور '' حرام'' کام کوروکنے کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اس عمل کو '' امر بالمعروف اور'' نہی عن المنکر'' کہتے ہیں ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :

٭ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعض بیانات میں آیا ہے :

٭ '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' اہم ترین واجبات میں سے ہے۔

٭ دینی واجبات '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' کے سبب مستحکم وپائیدار ہوتے ہیں ۔

٭'' امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' ضروریات دین میں سے ہے،جو اس سے انکار کرے، وہ کافر ہے۔

٭ اگر لوگ'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' کو ترک کریں، تو برکت ان سے اٹھا لی جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی۔

معروف ومنکر کی تعریف :

احکامِ دین میں تمام واجبات ومستحبات کو '' معروف'' اور تمام محرمات ومکروہات کو'' منکر ''

۱۱۹

کہا جاتا ہے، لہٰذا سماج کے لوگوں کو واجب ومستحب کام انجام دینے کی ترغیب دلانا امر ''بالمعروف'' اور انھیں حرام ومکر وہ کام کی انجام دہی سے روکنا '' نہی عن المنکر'' ہے۔

امر بہ معروف ونہی ازمنکرکی حدود : امر بہ معروف اور نہی از منکر کرنا لوگوں میں سے کسی خاص گروہ یا کسی خاص جماعت پر منحصر نہیں ہے ۔اور تمام لوگوں پر جو شرائط کے حامل ہوں ،پر واجب ہے حتیٰ زوجہ اور بیٹے پر واجب ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ اسکے شوہر یا والدین کسی واجب کو ترک کر رہے ہیں یا حرام کا ارتکاب کر رہے ہیں تو شرائط کی موجود گی میں انھیں امر بہ معروف اور نہی ازمنکر کریں ۔

امر بہ معروف ونہی ازمنکرکے شرائط :

'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' چند شرائط کی بناء پر واجب ہے اور ان شرائط کے نہ ہونے کی صورت میں ساقط ہے یعنی واجب نہیںہے اور یہ شرائط حسب ذیل ہیں :

1۔امرونہی کرنے والے کوجاننا چاہئے کہ جو کام کوئی فردانجام دیتا ہے وہ حرام ہے اور جسے ترک کرتا ہے ،وہ واجب ہے، لہٰذا جو شخص حرام کام کی تشخیص نہ دے سکتا ہو کہ حرام ہے یا نہیں اس پر نہی کرنا واجب نہیں ہے۔

2۔امرونہی کرنے والے کو احتمال دینا چاہئے کہ اس کا امر ونہی مؤثر ہوگا، لہٰذا اگر جانتاہو کہ مؤثر نہیں ہے یا اس میں شک کرتا ہو، تو اس پر امرونہی کرنا واجب نہیں ہے۔

3۔ گناہگار اپنے کام کو جاری رکھنے پر اصرار کرتاہو، لہٰذا اگر معلوم ہوجائے کہ گناہگار گناہ کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پھرسے اس کام کو انجام نہیں دے گا یا اس کام کو

پھرسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوگا، تو امرونہی واجب نہیں ہے ۔

۱۲۰