معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29648
ڈاؤنلوڈ: 2177


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29648 / ڈاؤنلوڈ: 2177
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

4۔ امر ونہی کرنے والے کے لئے ، امرو نہی کرنا اپنے رشتہ داروں اور دوست یا ہمراہوں، دیگر مومنین کی جان ومال اور آبرو کے لئے قابل توجہ ضررونقصان کا سبب نہ بنے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مراحل :

امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے چند مراحل ہیں اور اگر سب سے نچلے مرحلے پر عمل کرنے سے نتیجہ نکلے تو بعد والے مرحلہ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مراحل حسب ذیل ہیں :

پہلا مرحلہ : گناہگار کے ساتھ ایسا برتائوکیا جائے کہ وہ سمجھ لے کہ اس کا سبب اس کا گناہ میں مرتکب ہوناہے مثلا اس سے منہ موڑلے یا ترش روئی سے پیش آئے یا آنا جانا بند کردے۔

دوسرا مرحلہ :زبان سے امر ونہی کرنا:یعنی واجب تر ک کرنے والے کو حکم دیدے کہ واجب بجالائے اور گناہگار کو حکم دیدے کہ گناہ کو ترک کرے۔

تیسر امرحلہ : طاقت کا استعمال: منکر کو روکنے اور واجب انجام دینے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا،مثلاً حائل ہوجانا، فرد کا راستہ روک لینا ،ہاتھ سے ہتھیا وغیرہ چھین لینا ،بند کردینا،تھپڑمارنا وغیرہ

۱۲۱

سوالات:

1۔ معروف ومنکر میں سے ہر ایک کی پانچ مثالیں بیان کیجئے؟

2۔کس صورت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے؟

3۔ اگر کوئی کسی گانے کو سن رہا ہواور ہم نہیں جانتے وہ غناہے یا نہیں ؟تو کیا اس کو منع کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ اور کیوں ؟

4۔ گناہ گارکو کس صورت میں زخمی کرنا جائز ہے، دومثال سے واضح کیجئے؟

۱۲۲

حصہ سؤم ( آداب واخلاق )

۱۲۳

درس نمبر 21 ( عبادت اور عبودیت )

عبادت کیا ہے ؟

ہماری تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے (و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون)(1) ''میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ''

ہم لوگ جو بھی کام انجام دیتے ہیں اگر رضائے پروردگار کی خاطر ہو تو وہ عبادت ہے چاہے وہ کام علم حاصل کرنا ، شادی کرنا یالوگوں کی خدمت کرنا ہو اور یااپنی یا معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر ہو ۔ جو چیز کسی کام کو عبادت بناتی ہے وہ انسان کی مقدس نیت ہے جس کو قرآن مجید کی زبان میں '' صبغة اللہ ''( 2) کہتے ہیں یعنی جس میں خدائی رنگ و بو پائی جائے ۔

فطرت و عبادت :

ہمارے کچھ کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں اور بعض کام فطرت کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔ جو کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ وہ کسی اہمیت کے حامل ہوں جیسے ورزش کی عادت اور ممکن ہے وہ کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں ، جیسے چائے پینے ،اور

سگریٹ پینے کی عادت، لیکن اگر کوئی کام فطری ہو یعنی فطرت اور اس پاک سرشت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ ذاریات آیہ 56. (2)۔بقرہ آیہ 138.

۱۲۴

کی بنا پر ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہر بشر کے اندر ودیعت کی ہے تو ایسا ہر کام اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔عادت پر فطرت کی فوقیت یہ ہے کہ فطرت میں زمان ، مکان، جنسیت، نسل اورسن و سال مؤثر نہیں ہوتے ۔ ہر انسان اس جہت سے کہ انسان ہے فطرت رکھتا ہے جیسے اولاد سے محبت،کسی خاص نسل یازمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے بچے کو چاہتا ہے(1) لیکن لباس اور غذا جیسی چیزیں عادات میں شامل ہیں جن میںزمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض جگہوں پر کچھ رسم و رواج مو جودہیں لیکن دوسری جگہ پر وہی رسم و رواج نہیں پائے جاتے ہیں۔

عبادت و پرستش بھی ایک فطری امر ہے اسی لئے جتنی بھی قدیم ، خوبصورت اور مضبوط عمارتیں دیکھنے میں آتی ہیں وہ عبادت گا ہیں ، مسجدیا مندر اور چرچ وغیرہ ہیں یا پھر آتش کدے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ عبادت و پرستش کے انواع و اقسام میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو خود معبود میں فرق ؛ یعنی پتھر ، لکڑی اور بت کی عبادت سے لے کر خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت تک۔ اسی طرح عبادت کے طریقوں میں فرق

--------------------------

(1)۔ سوال: اگر بچے سے محبت کرنا فطری چیز ہے تو پھر کیوں بعض زمانوں ، جیسے دورجاہلیت میں لو گ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ؟ جواب : فطری مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں جیسے اولاد سے محبت فطری ہے اسی طرح حفظ آبرو بھی فطری ہے ۔عرب کے جاہل لڑکی، کو ذلت کاباعث سمجھتے تھے چونکہ جنگوں میں عورتیں اسیر ہوتی تھیں اور ان سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا آبرو کے

تحفظ کے لئے اپنی لڑکیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے ۔ دور جانے کی بات نہیں ہے مال اور جان دونوں سے محبت کرنا فطرت ہے لیکن کچھ لوگ مال کو جان پر اور کچھ لوگ جان کو مال پر قربان کر دیتے ہیں لہٰذا لڑکی کو آبرو پر قربان کرنا اولا د سے محبت کی فطرت کے منافی نہیں ہے۔

۱۲۵

ہے جیسے ناچنے ، مٹکنے سے لے کر اولیاء اللہ کی انتہائی عمیق و لطیف مناجات تک فرق پایا جاتا ہے ۔ انبیاء کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگوں کے اندر خدا کی عبادت و پرستش کی روح پھو نکیںبلکہ انکا اصل مقصد معبو د سے متعلق تصور اور عبادت کے طریقے کو صحیح کرنا تھا ۔

مساجد ، گرجا گھروں اور مندر وغیرہ کی عمارتوں میں اتنا زیادہ پیسہ لگانا ، اپنے وطن کے

پرچم کو مقدس سمجھنا ، اپنی قوم کے بزرگوں اور بڑی شخصیتوں کی قدر کرنا ، لوگوں کے کمالات و فضائل کی تعریف کرنا حتی اچھی چیزوں سے رغبت ہو نایہ سب انسان کے وجود میں روحِ عبادت کے جلوے ہیں ۔

جو لوگ خدا کی عبادت نہیں کرتے ہیں وہ بھی مال و اقتدار یا بیوی ، بچوں،سندا ور ڈگری یا فکر و قانون اوراپنے مکتب فکر یا اپنی راہ و روش کی پوجا کرتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس راہ میں اتنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ دل دے بیٹھتے ہیں اور جانفشانی پر تیار رہتے ہیں ۔ اپنی پوری ہستی کو اپنے معبودپر فدا کر دیتے ہیں ۔ خدا کی عبادت انسان کی فطرت کی گہرا ئیوں میں شامل ہے ، چاہے انسان اس سے غافل ہی ہو جیسے مولاناروم کہتے ہیں :

'' انسان اپنی فطرت کی طرف اس طرح رغبت رکھتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں سے ، جبکہ اس کا راز وہ نہیں جانتا''۔

خدائے حکیم نے جس رغبت اور چا ہت کو پیکر انسان میں قرار دیا ہے اس کی تکمیل و تشفی کے اسباب و وسائل بھی فراہم کئے ہیں ۔ اگر انسان کو پیاس لگے تواس کے لئے

پانی پیدا کیا ، اگر انسان کو بھوک لگے تو غذا بھی موجود ہے ۔ اگر خداوند عالم نے انسان میں جنسی خو اہش کو رکھا تو اس کے لئے شریک حیات کو بھی خلق کیا،اگر خدا نے قوت

۱۲۶

شامّہ دی تو اس کے لئے اچھی خوشبوئیں بھی پیدا کیں ۔

انسان کے متعددجذبات میں سے ایک گہرا جذبہ یہ ہے کہ وہ لا متناہی چیز سے رغبت رکھتا ہے ، کمال سے عشق کرتا ہے اور بقاء کو دوست رکھتا ہے ۔ اور ان فطری رجحانات کی تکمیل ، خداوند متعال سے رابطہ اور اس کی پرستش کے ذریعہ ہوتی ہے ،نماز و عبادت ؛ کمال کے سر چشمہ انسان کا ارتباط ، محبوب واقعی سے اُنس اور اس کی قدرت لا متناہی میں احساس امنیت کرنا ہے ۔

رضائے الٰہی محور عبادت ہے :

جس طرح سے آسمانی کرات اور کرہ ارضی مختلف ( وضعی و انتقالی ) حرکات کے باوجود ہمیشہ ایک ثابت مدار رکھتے ہیں اسی طرح عبادت بھی ہے اپنی مختلف شکلوںکے با وجود ایک ثابت مدار رکھتی ہے اور وہ رضائے الہی ہے ۔ اگرچہ زمان و مکان اور انفرادی و اجتماعی شرائط اس مدار میں انجام پانے والی حرکتوں کو معین کرتے ہیں ۔ جیسے سفر میں چار رکعتی نماز دو رکعت ہو جاتی ہے اور بیماری میں نماز پڑھنے کی شکل بدل جاتی ہے لیکن دو رکعتی یا قصر نماز ، نماز ہے یہ بھی یاد خداا ور رضائے پروردگار کوانجام دینے کے لئے ہوتی ہے ۔(واقم الصلاة لذکری)(1)

عبادت کا جذبہ :

عبادت روح کی غذا ہے ۔ سب سے اچھی غذا وہی ہوتی ہے جو بدن میں جذب ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ14

۱۲۷

جائے (یعنی بدن کے لئے سود مند ثابت ہو ) نیز بہترین عبادت وہ ہے جو روح میں جذب ہو جائے یعنی خوشی اور حضور قلب کے ساتھ انجام پائے ۔ زیادہ کھانا اچھی بات نہیں ہے بلکہ سود مند غذا کھانا ضروری ہے ۔

پیغمبر اکرم (ص)،جابر بن عبد اللہ انصاری سے ارشاد فرماتے ہیں :

'' خدا کا دین مستحکم و استوار ہے اس کی نسبت نرم رویہ اختیار کرو ۔(لہٰذا جس وقت روحی اعتبار سے آمادہ نہ ہو اس وقت عبادت کو اپنے اوپر بوجھ نہ بناؤ )کہ تمہارا نفس اللہ کی عبادت سے نفرت کرنے لگے ۔ ''(1)

رسول اکرم (ص) کی دوسری حدیث میں ہے :

'' کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جو عبادت سے عشق کرتا ہے اور اپنے محبوب کی طرح عبادت کو گلے لگاتا ہے۔''(2)

عبادت سکون کا باعث ہے :

آپ بڑے بڑے سرکش ، سرمایہ داروں اور صاحبان علم و صنعت کو پہچانتے ہیں لیکن کیا ان سب کے یہاں قلبی سکون کا سراغ ملتا ہے ؟ !

کیا اہل مغرب کے پاس روحانی ا ور نفسیاتی سکون موجود ہے ؟

کیا قدرت و صنعت اور مال و ثروت آج کے انسان کو صلح و دوستی اوردلی اطمینان و

سکون عطا کرسکے ہیں ؟ لیکن خدا کی عبادت و اطاعت سے خدا کے اولیاء کو ایسی کیفیت

و حالت حاصل ہوتی ہے کہ کسی بھی حالت میں یہ لوگ مضطرب او رپریشان نہیں ہوتے

-----------------------------

(1)۔ بحار الانوار جلد 71 صفحہ 212.

۱۲۸

عبادت کا ما حصل :

عبادت ؛ نصرت و الطاف الہی کے حصول کا ذریعہ ہے :

( واعبد ربک حتی یاتیک الیقین )(1 )

اس قدر عبادت کرو کہ درجہ ٔ یقین پر فائز ہوجاؤ ۔

حضرت موسیٰ ـ آسمانی کتاب توریت کو حاصل کرنے کے لئے چالیس رات دن کوہِ طور پر مناجات میں مشغول رہے اور پیغمبر گرامی اسلام (ص) وحی کو حاصل کرنے کے لئے ایک طولانی مدت تک غار حرا میں عبادت کرتے رہے ۔ روایتوں میں آیا ہے : ''مَن اخلص العبادة للہ اربعین صباحا ظھرت ینابیع الحکمةمن قلبہ علی لسانہ''(2)

جو شخص بھی چالیس رات دن اپنے تمام کاموں کو عبادت و خلوص کا رنگ دے تو پروردگار عالم حکمت کے چشمے اس کے دل اورزبان پر جاری کر دیتا ہے ۔

جی ہاں خلوص دل سے عبادت وہ یونیورسٹی ہے جو چالیس روز کے اندر تعلیم سے فارغ ہونے و الوں کو ایسا حکیم بناتی ہے جو حکمت کو الٰہی سر چشمہ سے حاصل کرکے اسے دوسروں کی طرف منتقل کرتے رہتے ہیں ۔

--------------------------

(1)۔ حجر آیہ 99 (2)۔ بحار الانوار جلد 53 صفحہ 326.

۱۲۹

سوالات :

1۔عبادت کیا ہے ؟

2۔ فطرت اور عادت میں کیا فرق ہے ؟

3۔1گر بچے سے محبت کرنا فطری چیز ہے تو پھر کیوں دورجاہلیت میں لو گ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ؟

4۔عبادت کا محور کیا چیز ہے؟

5۔عبادت کا ماحصل بیان کیجئے ؟

۱۳۰

درس نمبر 22

( تقویٰ اور پرہیز گاری )

تقویٰ کیا ہے ؟

اپنے کو گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ رکھنا اور ہلاک کنندہ آفات و بلائوں سے حفظ کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو قرآن کریم اور دینی تعلیمات نے ''تقویٰ'' کے عنوان سے یاد کیا ہے۔

تقویٰ اس حالت کا نام ہے جو گناہوں سے اجتناب اور عبادت خدا سے حاصل ہوتی ہے اور تقویٰ دینی اقدار و معنوی زیبائی میں ایک خاص عظمت رکھتا ہے۔

صرف متقی افراد ہی میں ہدایت الٰہی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور جنت بھی صرف اور صرف اہل تقویٰ کے لئے آمادہ کی گئی ہے :

(ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیهِ هُدًی لِلْمُتَّقِینَ) .(1)

'' یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے.یہ

صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے''۔

(وَاُزْلِفَتْ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ) .(2)

'' اور جنت بھی صرف اور صرف اہل تقویٰ کے لئے آمادہ کی گئی ہے ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ بقرہ آیت 2 (2)سورۂ شعراء آیت 90.

۱۳۱

حضرت رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے :

''لَوْاَنَّ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ کانَتا رَتْقاً عَلیٰ عَبْدٍ ثُمَّ اتَّقَی اللّٰهَ لَجَعَلَ اللّٰهُ لَهُ مِنْهُما فَرَجاً وَمَخْرَجاً'' ۔(1)

'' اگر کسی بندہ پر زمین و آسمان کے دروازے بند ہوجائیں ، لیکن اگر وہ بندہ تقویٰ الٰہی اختیار کرے تو خدا اس کے لئے زمین و آسمان کے دروازے کھول دیتاہے''۔

تقویٰ کے آثار و برکات :

1۔ تقویٰ ہدایت قبول کرنے کا پیش خیمہ ہے( هُدیً للمتقین) (2)

2۔ خداوند عالم صاحبان تقویٰ کو علم عطا کرتا ہے۔(واتقوا للّٰه و یُعَلمکم اللّٰهُ (3)

3۔ تقویٰ رحمت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔(واتقو اللّٰه لَعَلْکم تُرْحمون) (4)

4۔ تقویٰ اعمال کے قبول ہونے کا وسیلہ ہے ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ خداوند عالم فقط صاحبان تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ہے-( انّما یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ-) (5)

5۔ تقویٰ کے باعث انسان کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جس کا اُسے خیال بھی نہیں ہوتا ( ویَرْزُقُه' من حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ)(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)عدة الداعی ص305،فصل فی خواص متفرقة ؛بحار الانوار ج67،ص285،باب 56،حدیث8 (2)۔ سورئہ بقرہ، آیت 2 (3)۔سورئہ بقرہ، آیت 282 (4)۔ سورئہ انعام، آیت 155 (5)۔ سورئہ مائدہ، آیت 27 (6)۔ سورئہ طلاق، آیت 3

۱۳۲

6۔ اللہ تعالیٰ نے صاحبان تقویٰ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ بے یار ومددگار نہیں رہیں گے( وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَه' مَخْرَجًا) (1)

7۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمایت اور غیبی امداد صاحبان تقویٰ پر نثار کردیتا ہے۔(وَ اعْلَمُوا انّ اللّٰهَ مَعَ المتقینَ ) (2)

8۔ تقویٰ قیامت کے خطرات سے محفوظ رہنے (3) اور عاقبت بالخیر کا ذریعہ ہے( والعاقبة للمتقین) (4)

تقویٰ میں مؤثر عوامل :

تقویٰ کے آثار و برکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اب ہم ان عوامل کا ذکر

کرتے ہیں جو متقی اور پرہیز گار بننے میں انسان کی مدد کرتے ہیں۔

1۔ مبدأ و معاد پر ایمان رکھنے سے انسان کا گناہوں کے مقابلے میں بیمہ ہوجاتا ہے۔ جس قدر اس کا ایمان قوی ہوگا، تقویٰ بھی اتنا ہی پائیدار ہوگا۔

2۔ عمومی نظارت (امر بالمعروف اور نہی از منکر) معاشرے میں تقویٰ کے رشد کا باعث

بنتی ہے۔

3۔ خاندان کی تربیت، 4۔ لقمہ حلال کا حصول،

5۔ اپنی ذمہ داری کو دیانتداری سے ادا کرنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ طلاق، آیت 2 (2)۔ سورئہ توبہ آیت 36 اور 123

(3)۔ سورئہ مریم، آیت 72 (4)۔ سورئہ اعراف ، آیت 128

۱۳۳

6۔ دوستوں (بیوی، ہم پیشہ، ہمسایہ، اور ہم جماعت افراد) کے ساتھ اچھا برتاؤ۔

7۔ صحیح پیشہ کا انتخاب، (8 ) ۔ با تقویٰ افراد کو دوست رکھنا

یہ سب ایسے عوامل ہیں جو تقویٰ میں مؤثر ہیں۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میںا ہل تقویٰ کی نشانیاں :

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اہل تقویٰ کے کچھ نشانیاں بیان کی ہیں، منجملہ :

صداقت،ادائے امانت، وفائے عہد، عجز و بخل میں کمی، صلہ رحم، کمزوروں پر رحم، ، خوبی کرنا، اخلاق حسنہ، بردباری میں وسعت، اس علم پر عمل جس کے ذریعہ خدا کے قریب

ہوجائے، اور اس کے بعد فرمایا: خوش نصیب ہیں یہ افراد، کیونکہ ان کی آخرت سعادت بخش نیک اور اچھی ہوگی۔(1)

کیا تقویٰ محدودیت ہے؟

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ تقویٰ محدودیت اور قید خانہ ہے ۔ جبکہ تقویٰ تو ایک قلعہ اور حصار ہے۔ قید خانے اور قلعے کے درمیان فرق یہ ہے کہ قید خانے کو باہر

سے تالا لگایا جاتا ہے جو ایک زبردستی کی محدودیت ہے۔ جو انسان کی آزادی سے سازگار نہیں ہے لیکن قلعے کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔ اور پھر خود اُسے اندر سے تالا لگاتا ہے۔ تاکہ حوادث روزگار سے محفوظ رہ سکے۔ آپ خود بتائیں جب ہم پاؤں میں جوتا پہنتے ہیں تو ہم پاؤں کو محدود کرتے ہیں یا محفوظ؟ پس ہر محدودیت بری نہیں ہوتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر عیاشی ج2،ص213،حدیث50؛ بحار الانوار ،ج67،ص 282،باب 56،حدیث2.

۱۳۴

اور ہر آزادی اہم نہیں ہوتی۔

اسی طرح ہر وسعت کی اہمیت نہیں جیسا کہ سرطان کے جراثیم جو بدن میں پھیل جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر عقب نشینی، اور پہلے والی حالت پر واپس پلٹنا برا نہیں۔ مریض ڈاکٹر کیپاس اس لیے جاتا ہے کہ وہ اسے پہلے والی حالت پر واپس لے آئے۔ اس کا ہدف بیماری سے پہلے والی حالت کی طرف پلٹنا ہے۔ اس کا یہ واپس آنا اہمیت رکھتا ہے۔ تقویٰ امن و امان کے حصول کا نام ہے۔ جو عورتیں اور لڑکیاں آزادی کے نام پر مختلف انداز میں لوگوں کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں اگر چند منٹ (فقط چند

منٹ) کے لیے غور وفکر کریں چاہے وہ مسلمان نہ بھی ہوں تب بھی علم و عقل ان کو عفت و پاکیزگی کی دعوت دے گی۔

بدحجابی یا بے حجابی مندرجہ ذیل مسائل کو ایجاد کرتی ہے۔

1۔ لوگ بے حجاب خواتین کی نسبت سوء ظن رکھتے ہیں۔

2۔ لوگ بے حجاب خواتین کو اغوا کرنے کی سازشیں کرتے ہیں۔

3۔ بے پردہ خواتین کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

4۔ نوجوان نسل کو روحی طور پر بد اندیشی اور کج فکری کی کھلی دعوت ملتی ہے۔

5۔ بے پردگی سے خواتین خود نمائی اور فضول خرچی کی طرف راغب ہوجاتی ہیں۔

6۔ بے پردگی طالب علموں کے درس و مطالعہ میں فکری تمرکز کو ختم کردیتی ہے۔

7۔ بے بضاعت افراد کو شرمندہ کرتی ہے ۔ جو اس قسم کے لباس خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

۱۳۵

8۔ بے پردگی اقتصادی حالت کو ابتر بنادیتی ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کام محنت سے انجام نہیں دیئے جاتے اور ہمیشہ ہوس بازی کا بازار گرم رہتا ہے۔

9۔ ایسی خواتین اور لڑکیوں کو ناکام کرنا جو اپنی شکل و صورت پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔

10۔ والدین کو حیران و پریشان رکھنا۔ 11۔ بد قماش افراد کو راضی کرنا۔

12۔ منفی رقابت کا پیدا ہونا۔ 13۔ گھر سے فرار کرنا۔

14۔ ناجائز اولاد کا دنیا میں آنا۔ 15۔ ایڈز جیسے امراض کا پیدا ہونا۔

16۔ سقط حمل، خودکشی، قتل وکشتار، حادثات وغیرہ جیسے مسائل کا وجود میں آنا اور یہ سب عدم تقویٰ اور بے حجابی کے مسائل ہیں۔ 17۔ روحی اور نفسیاتی امراض کا زیادہ ہونا۔

اسی لیے شاید قرآن میں تقویٰ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور امام جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر خطبہ میں تقویٰ کے مسائل بیان کرے۔

قرآن کریم کم مقدار تقویٰ پر قناعت نہیں کرتا اور فرماتا ہے:(فَا تَّقُوا اللّٰه مَا اسْتَطَعتُمْ) (1) جہاں تک ممکن ہو تقویٰ اختیار کرو۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:( وَ اتّقُوا اللّٰه حَقَّ تُقٰاتِه) (2) جس طرح تقویٰ کا حق ہے اُسی طرح اُسے اختیار کرو۔

البتہ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھی ہم کسی گناہ میں گرفتار ہوجائیں تو ہم نماز، توبہ اور اپنے پروردگار سے مدد طلب کرکے گناہوں کی دلدل سے نکل سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ تغابن، آیت 16 (2) سورہ آل عمران آیت 102

۱۳۶

سوالات :

1۔تقویٰ کیا ہے ؟

2۔ تقویٰ کے کوئی بھی پانچ آثار بیان کیجئے ؟

3۔تقویٰ میں کیا عوامل مؤثر ہیں ؟

4۔حضتر علی کی نگاہ میں اہل تقویٰ کی کیا نشانیاں ہیں ؟

5۔کیا تقویٰ محدودیت ہے؟

۱۳۷

درس نمبر 23 ( نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری )

خدا وندمتعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت ومحبت اور عنایت کی بنا پر انسان کو ایسی نعمتوں سے سرفراز ہونے کا اہل قرار دیا جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یہاں تک کہ مقرب فرشتوںکو بھی نہیں نوازا۔

انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتیں اس طرح موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیدا ہوتا ہے او ردنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں 12اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے :

1۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت۔ 2۔ حصول نعمت کا راستہ۔

3۔ نعمت پر توجہ ۔ 4۔نعمت پر شکر۔

5۔نعمت پر ناشکری سے پرہیز۔ 6۔نعمتوں کا بے شمار ہونا۔

7۔نعمت کی قدر کرنے والے۔ 8۔نعمتوں میں اسراف کرنا۔

9۔نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا10۔نعمت چھن جانے کے اسباب و علل۔

11۔اتمام ِنعمت ۔ 12۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام۔

آئیے اب ہم قرآن مجید کے بیان کردہ ان عظیم الشان بارہ نکات کی طرف توجہ کرتے

۱۳۸

ہیں :

1۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت :

زمین و آسمان کے در میان پائی جانے والی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انسان کو فائدہ پہنچارہی ہیں۔

پہاڑ، جنگل، صحرا، دریا، درخت و سبزے، باغ، چشمے، نہریں، حیوانات اور دیگر زمین پر پائی جانے والی بہت سی مخلوقات ایک طرح سے انسان کی زندگی کی مشین کو چلانے میں اپنی اپنی کارکردگی میں مشغول ہیں۔

خداوندعالم کی نعمتیں اس قدر وسیع ، زیادہ، کامل اور جامع ہیں کہ انسان کو عاشقانہ طور پر اپنی آغوش میں لیئے ہوئے ہیں، اور ایک مہربان اور دلسوز ماں کی مانند ،انسان کے رشد

و نمو کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔

انسان کو جن ظاہری و باطنی نعمتوں کی ضرورت تھی خداوندعالم نے اس کے لئے پہلے سے ہی تیار کررکھی ہے، اور اس وسیع دسترخوان پر کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بیان ہوتا ہے :

( َلَمْ تَرَوْا أنَّ اﷲَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأرْضِ وأسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً...) .(1)

'' کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تمہارے لئے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو مکمل فرمایااور لوگوں میں

بعض ایسے بھی ہیں جو علم ہدایت اور روشن کتا ب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ٔ لقمان آیت 20.

۱۳۹

کرتے ہیں ''.

2۔ حصول نعمت کا راستہ :

رزق کے حصول کے لئے ہر طرح کا صحیح کام اور صحیح کوشش کرنا؛ بے شک خداوندعالم کی عبادت اور بندگی ہے؛ کیونکہ خدائے مہربان نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اپنے بندوں کو زمین کے آباد کرنے اور حلال روزی حاصل کرنے، کسب معاش، جائز تجارت اورخرید و فروخت کا حکم دیا ہے، اور چونکہ خداوندعالم کے حکم کی اطاعت کرنا عبادت و بندگی لہٰذا اس عبادت و بندگی کا اجر و ثواب روز قیامت ]ضرور[ ملے گا۔

قرآن مجید اس مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَاْکُلُوا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِإ لاَّ أنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ).(1)

'' اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو۔مگر یہ کہ باہمی رضامندی سے معاملہ کرلو ''.

( یَاَیُّهَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْأرْضِ حَلاَلًا طَیِّبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إنَّهُ لَکُمْ عَدُوّ مُبِین) .(2)

'' اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و پاکیزہ ہے اسے استعمال کرو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تمہاراکھلا دشمن ہے ''.

بہر حال خداوندعالم کی طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ہیںاگر ان جائز اور شرعی طریقوں سے روزی حاصل کی گئی ہے اور اس میں اسراف و تبذیر سے خرچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ نساء آیت 29. (2)سورۂ بقرہ آیت168.

۱۴۰