معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29636
ڈاؤنلوڈ: 2175


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29636 / ڈاؤنلوڈ: 2175
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وہ راضی نہ بھی ہو۔ مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر کو مریض کی بیماری کی تفصیلات بتائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے مریض راضی نہ بھی ہو۔

3۔ جس شخص کی غیبت ہورہی ہے اُسے معین کریں لیکن اگر یوں کہیں کہ بعض لوگ یوں ہیں اور سننے والے اُن بعض لوگوں کو نہ پہچان سکیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

4۔ کبھی غیبت تو نہیں ہوتی ہے لیکن بات تحقیر اور بدکاری کی اشاعت تک پہنچ جاتی ہے تو یہ بھی حرام ہے۔

سوالات

1۔غیبت کے کوئی بھی پانچ آثار بیان کیجئے ؟

2۔غیبت کرنے کی پانچ وجوہات بیان کیجئے ؟

3۔غیبت سننے والے کی کیا ذمہ داری ہے ؟

4۔غیبت ترک کرنے کے طریقے بیان کریں؟

۱۸۱

درس نمبر29 ( گناہ اور اس کے آثار )

ہر انسان ذاتی طور پر اور باطنی لحاظ سے پاک و سالم اس دنیا میں آتا ہے۔

حرص، حسد، بخل، ریاکاری، فسق و فجور او ردیگر گناہ انسان کی ذات میںنہیںہوتے ۔ حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت ہے :

(کُلُّ مَولودٍ یولد عَلَی فِطْرَةِ السْلَامِ، حَتّی یَکُونَ ابواه یهودانه وینصِّرانه) (1)

'' ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے،مگر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں .''

منحرف استاد، منحرف معاشرہ اور منحرف سماج، انسان کی گمراہی میں بہت زیادہ موثر ہوتے ہیں۔

چنانچہ انسان انھیں اسباب کی بنا پر فکری و عملی اور اخلاقی لحاظ سے گمراہ ہوجاتا ہے ، اور گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے،

کیا کیاچیزیں گناہ ہیں ؟

حضرت امام صادق علیہ السلام ' کے کلام میں درج ذیل چیزوں کو گناہوں کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بحار الانوارج2813؛باب 11،حدیث 22.

۱۸۲

'' واجبات الٰہی کا ترک کرنا، حقوق الٰہی جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، جہاد، حج، عمرہ، وضوء ،

غسل، عبادت ِشب، کثرت ذکر، کفارہ قسم، مصیبت میں کلمہ استرجاع(انا ﷲ و انا الیه راجعون) وغیرہ کہنے سے غفلت کرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال میں کوتاہی

ہونے کے بعد ان سے روگردانی کرنا۔، معصیت الٰہی کی طرف رغبت رکھنا، بری چیزوں کو اپنانا، شہوات میں غرق ہونا،، غرض یہ کہ عمدی یا غلطی کی بنا پر ظاہری اور مخفی طور پر معصیت خدا کرنا۔کسی کا ناحق خون بہانا، والدین کا عاق ہونا، قطع رحم کرنا، میدان جنگ سے فرار کرنا، باعفت شخص پر تہمت لگانا، ناجائز طریقہ سے یتیم کا مال کھانا، جھوٹی گواہی دینا، حق کی گواہی سے کترانا، دین فروشی، ربا خوری، خیانت، مال حرام ،جادو، غیب کی باتیں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرک، ریا، چوری، شراب خوری، کم تولنا اور کم ناپنا، ، کینہ و دشمنی، منافقت ، عہد و پیمان توڑدینا، خوامخواہ الزام لگانا،فریب اور دھوکہ دینا، اہل ذمہ سے کیا ہوا عہدو پیمان توڑنا، قسم، غیبت کرنایا سننا، چغلی کرنا، تہمت لگانا، دوسروں کی عیب تلاش کرنا، دوسروں کو بُرا بھلا کہنا، دوسروں کو بُرے ناموںسے پکارنا، پڑوسی کو اذیت پہچانا، دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباہات کرنا، گناہوں پر اصرار کرنا، ظالموں کا ہمنوا بننا، تکبر کرنا غرور سے چلنا، حکم دینے میں ستم کرنا، غصہ کے عالم میں ظلم کرنا، کینہ و حسد رکھنا، ظالموںکی مدد کرنا، دشمنی اور گناہ میں مدد کرنا، اہل و عیال اور مال کی تعداد میں کمی کرنا، لوگوں سے بدگمانی کرنا، ہوائے نفس کی اطاعت کرنا، شہوت پرستی ،برائیوں کا حکم دینا، نیکیوں سے روکنا، زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا، حق کا انکار کرنا، ناحق کاموں میں ستمگروں سے مدد لینا، دھوکا دینا، کنجوسی کرنا، نہ جاننے والی چیز کے بارے میں گفتگو کرنا، خون پینا، سور کا گوشت کھانا، مردار یا

۱۸۳

غیر ذبیحہ جانور کا گوشت کھانا،حسد کرنا، کسی پر تجاوز کرنا، بری چیزوں کی دعوت دینا، خدا

کی نعمتوں پر مغرور ہونا، خودغرضی دکھانا، احسان جتانا، قرآن کا انکار کرنا، یتیم کو ذلیل کرنا، سائل کو دھتکارنا، قسم توڑنا، جھوٹی قسم کھانا، دوسروں کی ناموس اور مال پر ہاتھ

ڈالنا، برا دیکھنا ،برا سننا اور برا کہنا، کسی کو بری نظر سے چھونا، دل میں بُری بُری باتیں سوچنااور جھوٹی قسم کھانا۔۔۔''۔(1)

گناہوں کے برے آثار :

قرآن مجید کی آیات اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں گناہوںکے برُے آثارنمایاں ہوتے ہیں کہ اگر گناہگار اپنے گناہوں سے توبہ نہ کرے تو بے شک ان کے برے آثار میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

1۔دائمی جھنم :

( بَلَی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَةً وَأحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَاُوْلَئِکَ أصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ).(2)

'' یقینا جس نے کوئی برائی کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا ، تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ''۔

2۔ اعمال کی بربادی :

( قُلْ هَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأخْسَرِینَ أعْمَالًا٭ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُونَ أنَّهُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا ٭ اُولَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) بحار الانوار ج 94، ص 328 باب 2

(2)سورۂ بقرہ آیت81.

۱۸۴

فَحَبِطَتْ أعْمَالُهُمْ فَلاَنُقِیمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا). ( 1 )

'' اے پیغمبر کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں اطلا ع دیں جو اپنے اعمال میں

بدترین خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی ٔ دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ

خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجا م دیں رہے رہیں،یہی وہ لوگ ہیںجنھوں نے

آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، ان کے اعمال برباد ہو گئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے ''۔

3۔ درد ناک عذاب :

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَض فَزَادَهُمْ اﷲُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَاب ألِیم...) .(2)

'' ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے ،اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں دردناک عذاب ملے گا...''۔

4۔ کفر کی موت :

( وَأمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَض فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إلَی رِجْسِهِمْ...) .(3)

'' اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے مرض میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر جاتے ہیں''۔

5۔شکم میں آگ :

(إنَّ الَّذِینَ یَاْکُلُونَ أمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إنَّمَا یَاْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا) .(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ کہف آیت ،103۔105. (2)سورۂ بقرہ آیت10. (3)سورۂ توبہ آیت125. (4)سورۂ نساء آیت ،10.

۱۸۵

'' جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے

ہیں اور وہ عنقریب واصل جہنم ہوں گے ''۔

6۔گمراہی :

(مَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أعْمَالُهُمْ کَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ لاَیَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلَی شَیْئٍ ذَلِکَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ) .(1)

'' جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی مانند ہے جسے آندھی کے دن کی تند ہوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے اور یہی بہت دور تک پھیلی ہوئی گمراہی ہے''۔

اس طرح کی آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ گناہوں کے بُرے آثار اس سے کہیں زیادہ ہیں، مثلاً:آتش جہنم میں جلنا، عذاب کا ابدی ہونا، دنیا و آخرت میںنقصان اور خسارہ میں رہنا، انسان کی ساری زحمتوں پر پانی پھرجانا، روز قیامت ]نیک[ اعمال کا حبط ]یعنی ختم[ ہوجانا، روز قیامت اعمال کی میزان قائم نہ ہونا، توبہ نہ کرنے کی وجہ سے گناہوں میں اضافہ ہونا، دشمنان خدا کی طرف دوڑنا، انسان سے خدا کا تعلق ختم ہوجانا، قیامت میں تزکیہ نہ ہونا، ہدایت کا گمراہی سے بدل جانا،مغفرت الٰہی کے بدلہ عذاب الٰہی کا مقرر ہونا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک تفصیلی روایت میں گناہوں کے برے آثار کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ ابراہیم آیت ،18.

۱۸۶

1۔جن گناہوں کے ذریعہ نعمتیں تبدیل ہوجاتی ہیں :

عوام الناس پرظلم و ستم کرنا، کار خیر کی عادت چھوڑ دینا، نیک کام کرنے سے دوری کرنا، کفران نعمت کرنا اور شکر الٰہی چھوڑ دینا۔

2۔جو گناہ ندامت اور پشیمانی کے باعث ہوتے ہیں :

قتل نفس، قطع رحم ،وقت ختم ہونے تک نماز میں تاخیر کرنا ،وصیت نہ کرنا، لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا، زکوٰة ادانہ کرنا، یہاں تک کہ اس کی موت کا پیغام آجائے اور اس کی زبان بند ہوجائے۔

3۔جن گناہوں کے ذریعہ نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں :

جان بوجھ کر ستم کرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز کرنا، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا۔

4۔جن گناہوں کے ذریعہ انسان تک نعمتیں نہیں پہنچتیں :

اپنی محتاجگی کا اظہار کرنا،نماز پڑھے بغیر رات کے ایک تہائی حصہ میں سونا یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے، صبح میں نماز قضا ہونے تک سونا، خدا کی نعمتوں کو حقیر سمجھنا، خداوندعالم سے شکایت کرنا۔

5۔جن گناہوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ہے :

شراب پینا، جوا کھیلنا یا سٹہ لگانا، مسخرہ کرنا، بیہودہ کام کرنا، مذاق اڑانا ، لوگوں کے عیوب بیان کرنا، شراب پینے والوں کی صحبت میں بیٹھنا۔

۱۸۷

6جو گناہ نزول بلاء کا سبب بنتے ہیں :

غم زدہ لوگوں کی فریاد رسی نہ کرنا، مظلوموں کی مدد نہ کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے الٰہی فریضہ کا ترک کرنا۔

7۔جن گناہوں کے ذریعہ دشمن غالب آجاتے ہیں :

کھلے عام ظلم کرنا، اپنے گناہوں کو بیان کرنا، حرام چیزوں کو مباح سمجھنا، نیک و صالح لوگوں کی نافرمانی کرنا، بدکاروں کی اطاعت کرنا۔

8۔جن گناہوں کے ذریعہ عمر گھٹ جاتی ہے :

قطع تعلق کرنا، جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی باتیں بنانا، زناکرنا، مسلمانوں کا راستہ بند کرنا، ناحق امامت کا دعویٰ کرنا۔

9۔جن گناہوں کے ذریعہ امیدٹوٹ جاتی ہے :

رحمت خدا سے ناامیدہونا، لطف خدا سے زیادہ مایوس ہونا، غیر حق پر بھروسہ کرنا اور خداوندعالم کے وعدوں کو جھٹلانا۔

10۔جن گناہوں کے ذریعہ انسان کا ضمیر تاریک ہوجاتا ہے :

سحر و جادو اور غیب کی باتیں کرنا، ستاروں کو موثر ماننا، قضا و قدر کو جھٹلانا، عقوق والدین ہونا۔

11۔جن گناہوں کے ذریعہ ]احترام کا[ پردہ اٹھ جاتا ہے :

واپس نہ دینے کی نیت سے قرض لینا، فضول خرچی کرنا، اہل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرنا، بُرے اخلاق سے پیش آنا، بے صبری کرنا، بے حوصلہ ہونا،

۱۸۸

اپنے کو کاہل جیسا بنانااوراہل دین کو حقیر سمجھنا۔

12۔جن گناہوں کے ذریعہ دعا قبول نہیں ہوتی :

بری نیت رکھنا، باطن میں برا ہونا، دینی بھائیوں سے منافقت کرنا، دعا قبول ہونے کا یقین نہ رکھنا، نماز میں تاخیر کرنا یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہوجائے، کار خیر اور صدقہ کو ترک کرکے تقرب الٰہی کو ترک کرنا اور گفتگو کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنا اور گالی گلوچ دینا۔

13۔جو گناہ باران رحمت سے محرومی سبب بنتے ہیں :

قاضی کاناحق فیصلہ کرنا، ناحق گواہی دینا، گواہی چھپانا، زکوٰة اور قرض نہ دینا، فقیروں اور نیازمندوں کی نسبت سنگدل ہونا، یتیم اورضرورت مندوں پر ستم کرنا، سائل کو دھتکارنا، رات کی تاریکی میں کسی تہی دست اور نادار کو خالی ہاتھ لوٹانا۔(1)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناہوں کے سلسلے میں فرماتے ہیں :

(لَوْ لَمْ یَتَوَعَّدِ اللّٰهُ عَلٰی مَعْصِیَتِهِ لَکانَ یَجِبُ أن لا یُعْصیٰ شُکْراً لِنِعَمِهِ:) (2)

'' اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں کو اپنی مخالفت پر عذاب کا وعدہ نہ دیا ہوتا، تو بھی اس کی نعمت کے شکرانے کے لئے واجب تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے''۔

قارئین کرام! خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں کے شکرکی بنا پر ہمیں چاہئے کہ ہر طرح کی

معصیت اور گناہ سے پرہیز کریں اور اپنے بُرے ماضی کو بدلنے کے لئے خداوندعالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)معا نی الاخبار 270،باب معنی الذنوب التی تغیر النعم ،حدیث 2؛وسائل الشیعہ ،ج16،ص281،باب 41،حدیث 21556؛ بحار الانوار،ج70،ص375،باب 138،حدیث 12.

(2)نہج البلاغہ ،حکمت 842،حکمت 290؛بحار الانوار ج70،ص364،باب 137،حدیث 96.

۱۸۹

کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں کیونکہ توبہ استغفار کی بنا پر خداوندعالم کی رحمت و

مغفرت اور اس کا لطف و کرم انسان کے شامل حال ہوتا ہے۔

سوالات :

1۔ہر انسان دنیا میں پاک و پاکیزہ آتا ہے اس سلسلے میں پیغمبر اسلام(ص) نے کیا فرمایا ہے ؟

2۔حضرت امام جعفر صادق (ع) کی حدیث کی روشنی میں دس گناہوں کے نام بتایئے ؟

3۔قرآنی آیات کی روشنی میں گناہ کے پانچ آثار کی طرف اشارہ کیجئے ؟

4۔امام زین العابدین کی روایت کی روشنی میں جو گناہ ندامت اور پشیمانی کے باعث ہوتے ہیںبیان کیجئے َ

5۔وہ گناہ بیان کیجئے جن سے عمر گھٹ جاتی ہے؟

6۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام گناہوں کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟

۱۹۰

درس نمبر30 ( توبہ )

توبہ یعنی خداوندعالم کی رحمت و مغفرت اور اس کی رضا و خوشنودی کی طرف پلٹنا ،جنت میں پہونچنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراہی کے راستہ سے نکل آنا، راہ ہدایت پر آجانا اور انسان کے نامہ اعمال کا ظلمت و سیاہی سے پاک و صاف ہوجانا ہے؛اس کے اہم آثار کے پیش نظریہ کہا جاسکتا ہے کہ توبہ ایک عظیم مرحلہ ہے ، اور ایک روحانی اور آسمانی واقعیت ہے ۔

لہٰذا فقط ''استغفر اﷲ'' کہنے، یا باطنی طور پر شرمندہ ہونے اور خلوت و بزم میں آنسو بہانے سے توبہ حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ جولوگ اس طرح توبہ کرتے ہیں وہ کچھ ہی مدت کے بعد دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں !

گناہوں کی طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چیز کی بہترین دلیل ہے کہ حقیقی طور پر توبہ نہیں

ہوئی اور انسان حقیقی طور پر خدا کی طرف نہیں پلٹا ہے۔

حقیقی توبہ اس قدر اہم اور باعظمت ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور الٰہی تعلیمات اس سے مخصوص ہیں۔

امام علی کی نظر میںحقیقی توبہ :

امام علی علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے زبان پر ''استغفر اﷲ''

۱۹۱

جاری کیا تھا :

اے شخص ! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، کیا تو جانتا ہے کہ توبہ کیا ہے؟ یاد رکھ توبہ علّیین کا درجہ ہے، جو ان چھ چیزوں سے مل کر متحقق ہوتا ہے :

1۔اپنے ماضی پر شرمندہ اور پشیمان ہونا۔ 2۔ دوبارہ گناہ نہ کرنے کا مستحکم ارادہ کرنا۔

3۔ لوگوں کے حقوق کاادا کرنا۔ 4۔ ترک شدہ واجبات کو بجالانا۔

5۔ گناہوں کے ذریعہ پیدا ہونے والے گوشت کواس قدر پگھلادینا کہ ہڈیوں پر گوشت باقی نہ رہ جائے،اور حالت عبادت میں ہڈیوں پر گوشت پیدا ہو۔

6۔ بدن کو اطاعت کی تکلیف میں مبتلا کرنا جس طرح گناہ کا مزہ چکھا ہے۔

لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے کے بعد ''استغفر اﷲ'' کہنا۔(1)

جی ہاں، توبہ کرنے والے کو اس طرح توبہ کرنا چاہئے ، گناہوں کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلے، گناہوں کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ ہمیشہ کے لئے اپنے دل سے نکال دے، دوسری ، تیسری بار توبہ کی امید میں گناہوں کو انجام نہ دے، کیونکہ یہ امید ایک

شیطانی امید اور مسخرہ کرنے والی حالت ہے، حضرت امام رضا علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں :

''مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِهِ وَلَمْ یَنْدَمْ بِقَلْبِهِ فَقَدِ اسْتَهْزَأ بِنَفْسِهِ...'' (2)

'' جو شخص زبان سے توبہ و استغفار کرے لیکن دل میں پشیمانی اور شرمندگی نہ ہو تو گویا اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ،878حکمت 417؛وسائل الشیعہ ج16،ص77،باب 87،حدیث 21028؛بحار الانوارج6،ص36،باب 20،حدیث59.

(2)کنزالفوائد ج1،ص330،فصل حدیث عن الامام الرضا(ع)؛بحارالانوارج75،ص356

۱۹۲

نے خود کا مذاق اڑایاہے !''

توبہ؛ انسانی حالت میں انقلاب اور دل و جان کے تغیر کا نام ہے، اس انقلاب کے ذریعہ انسان گناہوں کی طرف کم مائل ہوتا ہے اور خداوندعالم سے ایک مستحکم رابطہ پیدا کرلیتا ہے۔

توبہ؛ ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے،معنوی اور ملکوتی زندگی جس میں قلب انسان تسلیم خدا، نفس انسان تسلیم حسنات ہوجاتا ہے اور ظاہر و باطن تمام گناہوں کی گندگی اور کثافتوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

توبہ؛ یعنی ہوائے نفس کے چراغ کو گُل کرنا اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے قدم اٹھانا۔

توبہ؛ یعنی اپنے اندر کے شیطان کی حکومت کو ختم کرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم کی حکومت کا راستہ ہموار کرنا۔

ہر گناہ کے لئے مخصوص توبہ :

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خدا کی بارگاہ میں اپنے مختلف گناہوں کے سلسلہ میں استغفارکرلیا جائے اور ''استغفراﷲ ربی و اتوب الیہ'' زبان پر جاری کرلیاجائے، یا مسجد اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں میں ایک زیارت پڑھ لی جائے یا چند آنسو بہالئے جائیں تو اس کے ذریعہ توبہ ہوجائے گی، جبکہ آیات وروایات کی نظر میں اس طرح کی توبہ مقبول نہیں ہے، اس طرح کے افراد کو توجہ کرنا چاہئے کہ ہر گناہ کے اعتبار سے توبہ بھی مختلف ہوتی ہے، ہر گناہ کے لئے ایک خاص توبہ مقرر ہے کہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ کرے تو اس کا نامہ اعمال گناہ سے پاک نہیں ہوگا، اور اس

۱۹۳

کے بُرے آثار قیامت تک اس کی گردن پر باقی رہیں گے، اور روز قیامت اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔

تمام گناہوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

1۔ عبادت اور واجبات کو ترک کرنے کی صورت میں ہونے والے گناہ، جیسے نماز، روزہ، زکوٰة، خمس اور جہاد وغیرہ کو ترک کرنا۔

2۔ خداوندعالم کے احکام کی مخالفت کرتے ہوئے گناہ کرناجن میں حقوق الناس کا کوئی دخل نہ ہو، جیسے شراب پینا، نامحرم عورتوں کو دیکھنا، زنا، لواط، استمنائ، جُوا، حرام میوزیک سننا وغیرہ ۔

3۔ وہ گناہ جن میں فرمان خدا کی نافرمانی کے علاوہ لوگوں کے حقوق کو بھی ضایع کیا گیا ہو، جیسے قتل ، چوری، سود، غصب، مالِ یتیم ناحق طور پر کھانا، رشوت لینا، دوسروں کے بدن پر زخم لگانا یا لوگوں کو مالی نقصان پہچانا وغیرہ وغیرہ۔

پہلی قسم کے گناہوںکی توبہ یہ ہے کہ انسان تمام ترک شدہ اعمال کو بجالائے،قضا نماز پڑھے،قضا روزے رکھے، ترک شدہ حج کرے، اور اگر خمس و زکوٰة ادانہیں کیا ہے تو ان کو ادا کرے۔

دوسری قسم کے گناہوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان شرمندگی کے ساتھ استغفار کرے اور گناہوں کے ترک کرنے پر مستحکم ارادہ کرلے، اس طرح کہ انسان کے اندر پیدا ہونے والا انقلاب اعضاء وجوارح کو دوبارہ گناہ کرنے سے روکے رکھے۔

تیسری قسم کے گناہوں کی توبہ یہ ہے کہ انسان لوگوں کے پاس جائے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرے ،مثلاً قاتل ،خود کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کردے، تاکہ وہ قصاص یا

۱۹۴

مقتول کا دیہ لے سکیں، یا اس کو معاف کردیں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ہوئے سودکو ان کے حوالے کردے، غصب شدہ چیزوں کو ان کے مالک تک پہونچادے، مال یتیم اور رشوت ان کے مالکوں تک پہنچائے، کسی کو زخم لگایا ہے تو اس کا دیہ ادا کرے، مالی نقصان کی تلافی کرے، پس حقیقی طور پر توبہ قبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ چیزوں پر عمل کرے۔

حقیقی توبہ کرنے والوں کے لئے الٰہی تحفہ :

معصوم علیہ السلام کا ارشادہے: خداوندعالم توبہ کرنے والوں کو تین خصلتیں عنایت فرماتا ہے کہ اگر ان میں سے ایک خصلت بھی تمام اہل زمین و آسمان کو مرحمت ہوجائے تو اسی خصلت کی بنا پر ان کو نجات مل جائے :

(..إِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِینَ) .(1)

'' بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔

لہٰذا جس کو خداوندعالم دوست رکھتا ہے اس پر عذاب نہیں کرے گا۔

توبہ جیسے باعظمت مسئلہ کے سلسلہ میں قرآن کا نظریہ :

قرآن کریم میں لفظ ''توبہ'' اور اس کے دیگر مشتقات تقریباً 87 مرتبہ ذکر ہوئے ہیں، جس سے اس مسئلہ کی اہمیت اور عظمت واضح جاتی ہے۔

قرآن کریم میں توبہ کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کو پانچ حصوں میں تقسیم

کیا جاسکتا ہے: 1۔توبہ کا حکم۔ 2۔حقیقی توبہ کا راستہ۔ 3۔توبہ کی قبولیت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ بقرہ آیت222.

۱۹۵

4۔توبہ سے روگردانی۔ 5۔توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب۔

1۔توبہ کا حکم :

(...َتُوبُوا إلَی اﷲِ جَمِیعًا أیُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ) .(1)

'' توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہو جائے''۔

(یا اَیُّهاَ الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً...) .(2)

'' اے ایمان والو! خلوص دل کے ساتھ توبہ کر و...''۔

۔ 2۔حقیقی توبہ کا راستہ :

حقیقت تو یہ ہے کہ ''توبہ'' ایک سادہ اور آسان کام نہیں ہے،بلکہ معنوی اور عملی شرائط

کے ساتھ ہی توبہ محقق ہوسکتی ہے۔

شرمندگی، آئندہ میں پاک و پاکیزہ رہنے کا مصمم ارادہ، برے اخلاق کو اچھے اخلاق و عادات میں بدلنا، اعمال کی اصلاح کرنا، گزشتہ اعمال کا جبران اور تلافی کرنااور خدا پر ایمان رکھنا اور اسی پر بھروسہ کرنا یہ تمام ایسے عناصر ہیں جن کے ذریعہ سے توبہ کی عمارت پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے، اور انھیں کے ذریعہ استغفار ہوسکتا ہے۔

(یا اَیُّهاَ الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصوحاً...) .(3)

'' اے ایمان والو! خلوص دل کے ساتھ توبہ کر و...''۔

اور سورہ مائدہ (آیت 39)میں ارشاد ہوا:(فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأصْلَحَ فَإنَّ اﷲَ یَتُوبُ عَلَیْهِ إنَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ نور آیت31 .(2،3)سورۂ تحریم آیت8.

۱۹۶

پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے ،تو خدا]بھی[ اس کی توبہ کو قبول کر لے گا اور اللہ بڑابخشنے والا اور مہربان ہے''۔

3۔توبہ قبول ہونا :

جس وقت کوئی گناہگار توبہ کے سلسلہ کے خداوندعالم کی اطاعت کرتا ہے اور توبہ کے شرائط پر عمل کرتا ہے، اور توبہ کے سلسلہ میں قرآن کا تعلیم کردہ راستہ اپناتا ہے، توبے شک خدائے مہربان؛جس نے گناہگار کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، وہ ضرور اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں توبہ قبول ہونے کی نشانی قرار دے دیتا ہے اور اس کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے، نیز اس کے باطن سے ظلمت و تاریکی کو

سفیدی اور نور میں تبدیل کردیتا ہے۔

(َلَمْ یَعْلَمُوا أنَّ اﷲَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ...) .(1)

'' کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے...''۔

( وَهُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیَعْفُو عَنْ السَّیِّئَاتِ...).(2)

'' اور وہی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے...''(غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ...). (3)

'' وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے...''۔

4۔توبہ سے منھ موڑنا :

اگر گناہگار خدا کی رحمت سے مایوس ہوکر توبہ نہ کرے تو اس کو جاننا چاہئے کہ رحمت خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ توبہ آیت104.(2)سورۂ شوری آیت25.(3) سورۂ غافر]مومن[آیت3.

۱۹۷

سے مایوسی صرف اور صرف کفار سے مخصوص ہے(1)

اگر گناہگار انسان اس وجہ سے توبہ نہیں کرتا کہ خداوندعالم اس کے گناہوں کو بخشنے پر قدرت نہیں رکھتا، تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تصور بھی یہودیوں کا ہے۔(2)

اگر گناہگار انسان کا تکبر ، خدائے مہربان کے سامنے جرائت اور ربّ کریم کے سامنے بے ادبی کی بنا پر ہو تو اس کو جاننا چاہئے کہ خداوندعالم اس طرح کے مغرور ،گھمنڈی اور بے ادب لوگوں کو دوست نہیں رکھتا، اور جس شخص سے خدا محبت نہ کرتا ہوتو دنیا و آخرت میں ان کی نجات ممکن نہیں ہے۔

گناہگار کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ توبہ سے منھ موڑنا، جبکہ باب توبہ کھلا ہوا ہے اور لازمی

شرائط کے ساتھ توبہ کرنا ممکن ہے نیز یہ کہ خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ہے، لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر توبہ نہ کرنا اپنے اوپر اور آسمانی حقائق پر ظلم وستم ہے۔

(...ِ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَاُوْلَئِکَ هُمْ الظَّالِمُونَ) .(3)

'' اگر کوئی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ درحقیقت یہی لوگ ظالم ہیں ''.

5۔توبہ قبول نہ ہونے کے اسباب :

اگر گناہگار انسان کو توبہ کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے اور تمام تر لازمی شرائط کے ساتھ توبہ کرلے تو بے شک اس کی توبہ بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے، لیکن اگر توبہ

کرنے کا موقع ہاتھ سے کھوبیٹھے اور اس کی موت آپہنچے اور پھر وہ اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے یا ضروری شرائط کے ساتھ توبہ نہ کرے یا ایمان لانے کے بعد کافر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ یوسف آیت87. (2) سورہ مائدہ آیت 64 (3) سورہ حجرات آیت 11

۱۹۸

ہوجائے تو ایسے شخص کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوسکتی۔

( وَلَیْسَتْ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إذَا حَضَرَ أحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ إنِّی تُبْتُ الْآنَ وَلاَالَّذِینَ یَمُوتُونَ وَهُمْ کُفَّار اُوْلَئِکَ أعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا ألِیمًا) .(1)

'' اور توبہ ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو پہلے برائیاں کرتے ہیں اور پھر جب موت سامنے آجاتی ہے توکہتے ہیں کہ اب ہم نے توبہ کرلی اور نہ ان کے لئے ہے جو حالت کفر میں مرجاتے ہیں کہ ان کے لئے ہم نے بڑا دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے ''.

توبہ ، احادیث کی روشنی میں :

حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: جناب آدم ]علیہ السلام[ نے خداوندعالم کی

بارگاہ میں عرض کی: پالنے والے مجھ پر ]اور میری اولادپر[شیطان کو مسلط ہے اور وہ خون کی طرح گردش کرتا ہے، پالنے والے اس کے مقابلہ میں میرے لئے کیا چیز مقرر فرمائی ہے؟

خطاب ہوا: اے آدم یہ حقیقت آدم کے لئے مقرر کی ہے کہ تمہاری اولاد میں کسی نے گناہ کا ارادہ کیا، تو اس کے نامہ اعمال میں نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ کے مطابق گناہ بھی انجام دے لیا تو اس کے نامہ اعمال میں صرف ایک ہی گناہ لکھا جائے گا، لیکن اگر تمہاری اولاد میں سے کسی نے نیکی کا ارادہ کرلیا تو فوراً ہی اس کے نامہ

اعمال میں لکھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ پر عمل بھی کیا تو اس نے نامہ اعمال

میں دس برابر نیکی لکھی جائیں گی؛ اس وقت جناب آدم ]علیہ السلام[ نے عرض کیا :

پالنے والے! اس میں اضافہ فرمادے؛ آواز قدرت آئی: اگر تمہاری اولاد میں کسی شخص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورۂ نساء آیت18.

۱۹۹

نے گناہ کیا لیکن اس کے بعد مجھ سے استغفار کر لیا تو میں اس کو بخش دوں گا؛ ایک بار پھر جناب آدم ]علیہ السلام[ نے عرض کیا: پالنے والے! مزید اضافہ فرما؛ خطاب ہوا: میںنے تمہاری اولادکے لئے توبہ کورکھا اور اس کے د روازہ کو وسیع کردیا کہ تمہاری اولاد موت کا پیغام آنے سے قبل توبہ کرسکتی ہے، اس وقت جناب آدم

] علیہ السلام[ نے عرض کیا: خداوندا! یہ میرے لئے کافی ہے۔(1)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت ، رسول اکرم (ص)سے روایت کی ہے: جو شخص اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک ایک سال زیادہ ہے، جو شخص اپنی موت سے ایک ماہ

قبل توبہ کرلے تو خداوندعالم اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک مہینہ بھی زیادہ ہے، جو شخص ایک ہفتہ پہلے توبہ کرلے اس کی توبہ قابل قبول ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک ہفتہ بھی زیاد ہے، اگر کسی شخص نے اپنی موت سے ایک دن پہلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہے، اس کے بعد فرمایا: ایک دن بھی زیادہ ہے اگر اس نے موت کے آثار دیکھنے سے پہلے توبہ کرلی تو خداوندعالم اس کی بھی توبہ قبول کرلیتا ہے۔(2)

حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہیں :

'' اِنَّ اللّٰهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ ما لَمْ یُغَرْغِرْ، تُوبُوا اِلٰی رَبِّکُمْ قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا،وَبادِرُوا

بِالاَعْمالِ الزّاکِیَةِ قَبْلَ اَنْ تُشْتَغِلُوا،وَ صِلُوا الَّذی بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُ بِکَثْرَةِ ذِکْرِ کُمْ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کافی ج2،ص440،باب فیما اعطی اللہ عز وجل آدم(ع) ،حدیث1؛بحار الانوار ج6،ص18،باب 20،حدیث2. (2)بحار الانوارج6،ص19،باب 20،حدیث4

۲۰۰