معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29612
ڈاؤنلوڈ: 2175


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29612 / ڈاؤنلوڈ: 2175
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم پیغمبر اور آئمہ جیسے خدا کے صالح بندوں کی روح

پاک سے مدد مانگتے ہیں جو قرآنی آیات کی تصریح کے مطابق زندہ اور شہداء سے زیادہ بلند مقام و منزلت رکھتے ہیں اور عالم برزخ میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور اگر ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوکر درخواست کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ان ارواح مقدسہ سے زیادہ ارتباط پیدا ہوتا ہے اور زیادہ نزدیکی کا احساس ہوتا ہے اس کے علاوہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ مقامات وہ ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ان کے زندہ اورمردہ ہونے کو شرک اور توحید کا ملاک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

سوالات

1۔کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے؟اس سوال کے اٹھنے کا سبب کیا ہے ؟

2۔ سورہ مبارکہ جن، کی آیت نمبر 18 اور سورہ مبارکہ یونس، کی آیت نمبر 106 کن کے بارے میں ہے اور ان آیتوں میںدعوت سے مراد کیا ہے ؟

3۔ہم اولیا ء خدا کی قبر وں کے پاس کھڑے ہوکر درخواست اور دعا کیوں کرتے ہیں؟

۲۱

درس نمبر 3 ( غیرخدا سے مدد مانگنا کیسا ہے؟ )

قرآن میں ارشاد رب العزت ہے :(وَمَا النصر الأمن عند اللّٰه العزیز الحکیم) (1) ''نصرت و مدد صر ف خدا کی طرف سے ہے جو عزیز و حکیم ہے۔ ''

تو اب ایسی صورت میں کیا خدا کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک نہیں ہے ؟ مندرجہ بالا سوال کے جواب کے لیے چند باتوں پر غور کرنا ضروری ہے ۔ غیر خدا سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں۔

1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ہم انسان یا کسی بھی مخلوق سے اس تصور کے ساتھ مدد مانگیں کہ وہ شی وجود کے اعتبار سے یا مدد کرنے میں مستقل حیثیت رکھتی ہے اور خدا سے بے نیاز ہے۔

تو ظاہر ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ایسی صورت میں غیر خدا سے مدد مانگنا شرک محض ہے۔ قرآن کریم نے اس عقیدہ کی کمزوری کو واضح طور پر بیان کیا۔

( قُلْ مَنْ ذاالذی یَعْصِمکم من اللّٰه ان اراد بکم سُوء ال و اراد ربکم رحمة وَلَا یجدونَ لَهُمْ من دونِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَلَا نصِیْرًا ) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ آل عمران، آیت نمبر 126 (2)۔ سورہ مبارکہ احزاب، آیت نمبر 17

۲۲

'' آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہارے بارے میں عذاب کا ارادہ کرے تو اس سے تم کو کون بچاسکتا ہے۔ یا اگر رحمت کا ارادہ کرے تو (اسے کون روک سکتا ہے) اوریہ لوگ

اپنے لئے خدا کے سوا نہ ولی پائیں گے نہ مددگار۔ ''

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب ہم کسی انسان سے مدد مانگیں تو اُسے خدا کی مخلوق، اور محتاج سمجھیں اور اُسے بذات خود مستقل نہ جانیں اور یہ سمجھیں کے اس کے اندر مدد کرنے کی جو طاقت ہے وہ خدا نے اُسے بعض بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے عطا کی ہے۔

اگر اس تصور کی بنیاد پر ہم کسی سے مدد مانگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہے جسے خداوند متعال نے بعض حاجتیں پوری کرنے کے لیے ''وسیلہ'' بنایا ہے۔ اس طرح مدد مانگنا درحقیقت خدا ہی سے امداد حاصل کرنے کی خواہش ہے کیونکہ اسی نے ان وسایل و اسباب کو پیدا کیا ہے اور ان کو دوسروں کی حاجتیں پوری کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کی زندگی اسباب و مُسبّباب کی بنیاد پر قائم ہے۔ اگر ان چیزوں سے مدد نہ لی جائے تو زندگی اجیرن ہوجائے۔ اب اگر ان چیزوں سے مدد لیتے وقت یہ تصور رہے کہ یہ سب خدا کی مدد کو پہنچانے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ان کا وجود اور ان کے اندر مدد کرنے کی قوت و صلاحیت خدا ہی کی عطا کردہ ہے۔ تو اس طرح مدد مانگنا توحید اور یکتا پرستی کے منافی نہیں ہے۔

اگر ایک موّحِد اور خدا شناس کسان زمین ، پانی ، ہوا اور سورج سے مدد لیتے ہوئے دانہ اُگا کر غلّہ حاصل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتاً خدا ہی سے مدد

۲۳

لے رہا ہے کیونکہ خدا ہی نے ان چیزوں کو یہ طاقت و صلاحیت عطا کی ہے۔

اور یہ بات واضح ہے کہ یہ مدد مانگنا روح توحید اور یکتا پرستی کے عین مطابق ہے بلکہ قرآن ہمیں ایسی چیزوں (جیسے نماز اور صبر) سے مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

( واستعینوا بِالصَّبر وَالصَّلوٰة) (1) ''صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔ ''

واضح سی بات ہے کہ صبر و استقامت انسان کا کام ہے اور ہمیں ایسے کاموں سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے باوجود یہ استمداد، ''ایاک نستعین'' کے منافی نہیں ہے۔

سوالات

1۔غیر خدا سے مدد مانگنے کی کتنی صورتیں ہیںاور کونسی صورت صحیح ہے ؟ ۔

2۔ کیا سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت نمبر 126 غیر خدا سے مدد مانگنے کے منافی نہیں ؟

3۔جب ہم کسی انسان سے مدد مانگیںاور اُسے بذات خود مستقل نہ جانیں تو اس کا کیا مطلب ہے ؟

4۔کیا قرآن میں ہمیں خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت نمبر 45

۲۴

درس نمبر4 ( بدأ )

'' بدا'' کیا چیز ہے اورکیا یہ علم خدا میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتا؟

جواب: عربی زبان میں لفظ بدا کے معنی ظاہر و آشکار ہونے کے ہیں اور شیعہ علماء کی اصلاح میں ایک انسان کی طبیعی سرنوشت کے رخ کا اس کے صالح اور نیک عمل کی بنا پر بدل جانا ''بدا'' کہلاتا ہے ۔ مسئلہ بدا شیعہ مذہب کا ایک بڑا اور عظیم مسئلہ ہے۔ جو منطقِ وحی اور عقل کی استوارہے۔

قرآن کی نظر میں انسان ہمیشہ اپنی سرنوشت اور تقدیر کے سامنے دست بستہ اور مجبور نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے لیے سعادت کا راستہ کھلا ہوا ہے وہ راہ حق پر چل کر اپنے اچھے عمل سے اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے قرآن نے اس حقیقت کو ایک عام اور دائمی قانون کے طور پر اس طرح بیان کرتا ہے ۔

( انّ اللّٰه لا یغیّر مَا بقومٍ حتّٰی یُغَیِّرُ مَا بِأنْفُسِهِمْ) (1)

'' خداوند عالم کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ '' دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔(ولو أنّ اهل القُریٰ آمنوا وَ اتَّقُوا لَفَتَحْنٰا عَلَیْهم بَرَکاتٍ مِن السَّمٰاء إوالارض) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ رعد، آیت نمبر 11 (2)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت نمبر 96

۲۵

اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

حضرت یونس کے سر نوشت کے بدل جانے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

( فَلَو لَا أَنَّه کَانَ مِنَ المُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِهِ اِلٰی یَوْمِ یبعثون)'' (1)

'' اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اس (مچھلی) کے پیٹ ہی میں رہتے''۔

آخری آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ظاہری حالات کی بنا پر حضرت یونس کو قیامت تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہنا چاہیے تھا مگر ان کے نیک عمل نے (یعنی تسبیح نے) ان کی سرنوشت کا رخ موڑ دیا اور مچھلی کے پیٹ سے نجات مل گئی۔

اسلامی روایتوں میں بھی اس حقیقت کو قبول کیا گیا ہے پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :

( أنّ الرجل لیحرم الرّزق بالذنب یصیبه وَلا یردّ القدر اِلّا الدُعٰاء وَلَا یزید فی العمر اِلّا البِرّ) (2)

گناہ کے سبب انسان اپنے رزق سے محروم ہوجاتا ہے اور دعا کے علاوہ اس کی تقدیر کو بدلنے والی اور کوئی چیز نہیں ہے اور نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز انسان کی عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی۔

اس روایت اور ایسی ہی دوسری روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ گناہ اور عصیان کی بنا پر انسان روزی سے محروم کردیا جاتا ہے لیکن دعا کے ذریعہ وہ اپنی تقدیر بدل سکتا ہے اور نیکی کے ذریعہ اپنی عمر میں اضافہ کرسکتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ صافات، آیت نمبر 143۔ 144 (2)۔ مسند احمد ج5، ص 277،

۲۶

نتیجہ :

قرآن و احادیث کی روشنی میں انسان طبیعی اسباب و مسبّبات کی بنا پر عام حالات کے تحت اپنے کاموں کے ردّ عمل میں کسی خاص مصیبت میں گرفتار ہوسکتا ہے اور کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اولیاء خدا جیسے پیغمبر اور امام کسی کو یہ خبر دیں کہ اگر تمہاری یہی رفتار رہی تو اس کا انجام ایسا ہوگا، لیکن اچانک کسی بات کی بنا پر وہ رفتار بدل جائے اور جو نتیجہ بتایا گیا تھا اس سے الگ ہٹ کر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے آئے۔

منطق ِ وحی، سنت پیغمبر اور عقل سلیم سے حاصل شدہ اس حقیقت کو شیعہ علماء کی اصطلاح میں ''بدائ'' کہا جاتا ہے۔

اور مناسب ہے کہ یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ لفظ ''بدائ'' کی تعبیر محض شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی تحریروں اور پیغمبر اسلام (ص) کی احادیث میں بھی یہ تعبیر دیکھی جاسکتی ہے مثال کے طور پر پیغمبر کی مندرجہ ذیل حدیث میں لفظ ''بدا'' استعمال ہوا ہے۔

( بَدَاء اللّٰهُ عَزَّوجل أنْ یبتلِیهِمْ ) (1)

اس بات کا تذکرہ کردینا بھی ضروری ہے کہ علم خدا میں تبدیلی کا نام بداء نہیں ہے کیوں کہ خداوند عالم ابتداء ہی سے انسان کی طبیعی رفتار سے واقف ہے اور وہ تبدیلی لانے والے اسباب و عوامل کا جو'' بدائ''کا موجب بنتے ہیں شروع ہی سے جاننے والا ہے۔ وہ خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: (یمحوا اللّٰه مَا یشاء و یثبت و عندهأمّ الکتاب''(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) النھایہ فی غریب الحدیث : مجد الدین مبارک ج1، ص 109(2) سورہ مبارکہ رعد، آیت نمبر 39

۲۷

'' خدا جو چاہتا ہے ثبت کردیتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اس کے پاس ام الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ ''

اسی بنا پر خداوند عالم بداء کے موقع پر ہماے سامنے اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے جو اس کو ازل ہی سے معلوم تھی ۔ لہٰذا مام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں۔

'' مَا بَد اللّٰه فی شیٔ اِلّا کانَ فی علمه قبل أنْ یبدوله'' (1)

'' کسی بھی موقع پر اللہ کے لیے بداء واقع نہیں ہوا مگر یہ کہ اس کو ازل ہی سے اس بات کا علم تھا۔ ''

فلسفہ بدا :

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان یہ جانتا ہو کہ وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اس سلسلے میں مجبور نہیں ہے۔ تو وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے عزم و ہمت اور حوصلہ کے ساتھ مکمل جدوجہد کریگا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ جس طرح توبہ اور شفاعت کا عقیدہ انسان کو یاس و ناامیدی اور سردمہری سے نجات دیتا ہے اسی طرح بداء کا عقیدہ بھی اس کے نشاط اور شادابی کا باعث بنتا ہے۔ مستقبل کی امیدیں بندھاتا ہے کیوں کہ اس عقیدہ کی روشنی میں انسان جانتا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اپنے اچھے مستقبل اور بہتر نتائج کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اصول کافی، ج1، کتاب توحید باب بدائ، حدیث9

۲۸

سوالات

1۔بداء کے لغوی اور اصطلاحی معنی ٰبیان کیجئے ؟

2۔کیا''بدائ'' کا عقیدہ خدا کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا ؟ وضاحت کیجئے ؟

3۔بدا ے کے بارے میں قرآن کریم کی کوئی دو آیاتیں پیش کیجئے ؟

4۔حضرت ا مام جعفر صادق نے بداء کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ؟

5۔ ''بدائ'' کا فلسفہ بیان کیجئے ؟

۲۹

درس نمبر 5 ( توسل )

قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے گراں مایہ موجود کو اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دینے کو ''توسل'' کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتّقُوا للّٰه وَ ابْتَغُوا اِلَیْهِ الوسیله وَ جَاهِدُوا فی سبیل اللّٰهِ لعلّکم تفلِحُون) (1)

اے اللہ پر ایمان لانے والو! تقویٰ اختیار کرو اور خدا تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجائو۔

جوہری اپنی کتاب ''صحاح اللغة'' میں وسیلہ کی اس طرح تعریف کرتے ہیں :

( الوسیلةُ مَا یتقربّ بِه الی الغیر )

'' وسیلہ اُسے کہتے ہیں جس کے ذریعہ دوسرے کا تقرب حاصل کیا جائے''۔

لہٰذا جن قابل قدر چیزوں کے ذریعہ خدا تک پہنچا جاتا ہے کبھی وہ ہمارے نیک اعمال اور مخلصانہ عبادت ہوتی ہے کہ جو ایک مضبوط وسیلہ کے طور پر ہمیں خداوند عالم سے نزدیک کرتی ہے اور کبھی وہ خداکے نزدیک ایک صاحب عزت انسان ہوتا جو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مائدہ، 34۔

۳۰

بارگاہِ خداوندی میں بلند مقام و منز لت رکھتا ہے۔

اقسام توسل :

توسل کی تین قسمیں ہیں۔

1۔ اعمال صالحہ سے توسل۔ جیسا کہ جلال الدین سیوطی آیہ (و ابتغوا الَیہ الوسیلہ) کے ذیل میں''قتاد ہ ''سے روایت کرتے ہیںکہ۔ تم اطاعت خدا اور عمل صالحہ کے ذریعہ خدا کے نزدیک ہوجائو۔(1)

2۔ نیک اور صالح بندوں کی دعا سے توسل، جیسا کہ قرآن مجید نے جناب یوسف ـ کے بھائیوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

( قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَاإ نَّا کُنَّا خَاطِئِینَ قَالَ سَوْفَ أسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیإ نَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیم) (2)

فرزندان یعقوب نے جناب یعقوب سے کہا: اے بابا جان آپ خدا سے ہمارے گناہوں کی بخشش کی دعا کریں ہم سے خطا ہوگئی یعقوب نے کہا میں جلد ہی اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا۔ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت یعقوب ـ کے بیٹوں نے جناب یعقوبـ کی دعا و استغفار سے توسل کیا۔ اور اسے اپنی مغفرت کا وسیلہ بنایا اور جناب یعقوب ـ نے بھی نہ صرف یہ کہ ان کے توسل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کے لیے دعا اور استغفار کا وعدہ کیا۔

3۔ قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان افراد سے توسل کرنا جو خدا کے نزدیک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ الدر المنثور، ج2، ص 280۔ (2)۔ سورہ یوسف، آیہ 98، 97۔

۳۱

عزت و وقار اور ایک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں صدر اسلام میں بھی اس طرح کا

توسل مورد قبول تھا اور صحابہ اس پر عمل کرتے تھے۔

اس جگہ پر احادیث، صحابہ اور اکابرین اسلام کی سیرت کی روشنی میں اس مسئلہ کی دلیلیں پیش کر رہے ہیں :

1۔ '' ایک نابینا شخص نے پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آکر کہا کہ آپ(ص) خدا سے ہمارے لیے عافیت کی دعا کریں آپ(ص) نے فرمایا: اگر تم کہو تو میں دعا کردوں اور اگر تاخیر چاہتے ہو تو میں تاخیر کروں، کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔نابینا نے عرض کی: آپ(ص) دعا فرما دیں۔ آنحضرت نے اُسے وضو کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھو اور اس طرح دعا کرو۔ پروردگارا میں تجھ سے نبی رحمت محمد (ص) کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں اور ان کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔ اے اللہ کے رسول (محمد (ص)) میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو رہا ہوں تاکہ وہ میری حاجت فرمائے۔ اور آپ(ص) کو میرا شفیع قرار دے۔(1)

اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن ماجہ نے بھی ابواسحاق سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ ترمذی نے کتاب ''ابواب الادعیہ'' میں اس روایت کی صحت کی تائید کی ہے۔ محمد نسیب الرفاعی ''التوسل الی حقیقة التوسل '' میں نقل فرماتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) مُسند احمد بن حنبل، ج4، ص 138۔ مستدرک حاکم، ج1، ص 313۔ سنن ابن ماجہ، ج1، ص 441۔ التاج، ج1، ص 286۔ الجامع الصغیر، سیوطی، ص 59۔ التوسل والوسیلہ (ابن تیمیہ) ص 98۔

۳۲

ہیں: اس حدیث کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یقینا

روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ رسولِ خدا کی دعا سے ایک نابینا شخص بینا ہوگیا۔(1)

اس روایت سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ حاجت پوری کرنے کے لیے پیغمبر اسلام (ص) سے توسل کرنا جائز ہے بلکہ پیغمبر اسلام (ص) نے تو اس نابینا کو حکم دیا کہ تم اپنے اور خدا کے درمیان اپنے پیغمبر کو وسیلہ قرار دے کر اس سے دعا کرو۔ اسی چیز کا نام اولیاء خدا سے توسل ہے۔

2۔ ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح میںلکھتے ہیں۔

قحط کے زمانے میں عمر بن خطاب پیغمبر کے چچا جناب عباس بن عبد المطلب کے وسیلہ سے طلب باراں کرتے تھے، اور کہتے تھے بار الٰہا، پیغمبر کی حیات میں تو ہم اُن کا وسیلہ ڈھونڈتے تھے اورہم پر بارانِ رحمت نازل ہوتی تھی اب ہم تیرے نبی کے چچا سے متوسل ہوتے ہیں تاکہ تو ہم کو سیراب کردے۔ اور اس طرح لوگ سیراب ہوجایا کرتے تھے۔(2)

3۔توسل کے حوالے سے ''امام شافعی '' کے دو بیت ملاحظہ فرمائیں :

اَلُ النبی ذریعتی هم الیه وسیلتی

ارجوبهم اعطی غداً بیدی الیمین صحیفتی(3)

پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت میرے لیے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور مجھے اُمید ہے کہ ان کی وجہ سے میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ التوصل الی حقیقة التوسل، ص 158۔ (2)۔ صحیح بخاری، جزء 3، کتاب الجمعہ، باب الاستسقائ، ص 67۔ (2)۔ الصواعق المحرقہ (ابن حجر عسقلانی) ص 178۔

۳۳

اولیائے خدا سے توسل کے جواز کے سلسلہ میں روایتیں تو بہت ہیں لیکن ہم نے یہاں

جن روایتوں کو بیان کیا ہے اُن سے سنت پیغمبر، روش صحابہ اور عظیم علماء اسلام کی سیرت کا اندازہ ہوجاتا ہے پھر اس کے بعد اب کلام کو زیادہ طول دینے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔

اس بناء پر ان افراد کے اقوال کا بے بنیاد ہونا اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے جو وسیلہ کو شرک اور بدعت سمجھتے ہیں۔

سوالات

1۔ توسل کے کیا معنی ہیں ؟

2۔توسل کی اقسام بیان کیجئے ؟

3۔توسل کے سلسلے میں کتاب ''صحیح بخاری '' کی روایت بیان کیجئے ؟

4۔توسل سے متعلق ''جناب شافعی '' کا شعر نقل کیجئے ؟

۳۴

درس نمبر 6 ( اولیائے خدا کی ولادت کے دن جشن منانا )

اولیائے خدا کی یاد تازہ کرنا اور ان کی ولادت کے دن جشن میلاد منانا یہ وہ مسئلہ ہے جو صاحبان عقل اور اہل خرد کے نزدیک بہت ہی واضح ہے لیکن ہر طرح کے شبہات کی بیخ کنی کے لیے اس کے جواز کی دلیلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ یاد گار منانا اظہار محبت کا طریقہ ہے۔

قرآن نے مسلمانوں کو پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت ٪ سے مودت کی دعوت دی ہے۔

(قُلْ لاأسْألُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًا إلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (1)

اے میرے نبی (ص) آپ ان سے کہہ دیں کہ سوائے اپنے اقرباء کی محبت کے اجر ِ رسالت میں تم سے اور کچھ نہیں مانگتا۔

یقینا اولیاء خدا کی یادگار منانا اُن سے عشق و محبت کی علامت ہے جسے قرآن نے بھی قبول کیا ہے۔

2۔ یادگار منانا پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم ہے۔

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی ُنزِلَ مَعَهُ ُوْلَئِکَ هُمْ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ شوریٰ، 23۔

۳۵

الْمُفْلِحُونَ ) (1)

جو لوگ پیغمبر پر ایمان لائے، آپ کی عزت اور مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو

آپ کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ تو یہی لوگ نجات پانے والے اور کامیاب ہیں۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم خدا کی نظر میںایک مطلوب اور پسندیدہ أمر ہے۔ اور ایسے مراسم منعقد کرنا جو پیغمبر اسلام (ص) کی یاد دلائیں اور آپ کے عظیم الشان مقام کو بیان کریں خدا کی خوشنودی اور رضا کا باعث ہیں کیوں کہ اس آیت میں نجات پانے والوں کی چار صفتیں بیان کی گئی ہیں۔

الف۔ الذین آمنو: جو لوگ آنحضرت پر ایمان لائے۔

ب۔ و اتّبعوا النّور الذی انزل معہ: اس نور کی پیروی جو آپ کے ساتھ نازل ہوا۔

ج۔ ونصروہ: آنحضرت (ص) کی نصرت۔

د۔ و عزّروہ: آنحضرت کی تعظیم و تکریم۔

اس بنا پر ایمان، نصرت، احکام کی پیروی کے علاوہ آپ کی تعظیم و تکریم بھی ضروی ہے۔ آپ کی یادگار منانا ''عزروہ'' کے حکم کی بجا آوری ہے۔

3۔ یادگار منانا خدا کی تأسی اورپیروی ہے۔

خداوند عالم نے قرآن مجید میں پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے فرمایا:(وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ) (2) ''اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔ ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ اعراف157 (2)۔ سورہ مبارکہ انشراح، آیت 4۔

۳۶

اس آیت کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت و

جلالت کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے کہ وہ خود بھی قرآن کی بہت سی آیتوں میں آپ

کی شان و شوکت کو بیان کرتا ہے۔

ہم بھی آسمانی کتاب کی پیروی کرتے ہوئے اس اسوہ کمال و فضیلت کی یاد منا کے ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو پروردگار عالم بھی کرتا ہے۔

اور یہ بات بہت واضح سی ہے کہ آپ کی یادگار منانے کے سلسلے میں مسلمانوں کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بلند ہو۔

4۔ نزولِ وحی کا مرتبہ نزولِ مائدہ سے کم نہیں۔

قرآن مجید حضرت عیسیٰ ـ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی اس طرح حکایت کرتا ہے۔

(قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمّ رَبَّنَا أنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وأنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) (1)

عیسیٰ بن مریم ـ نے کہا: اے پالنے والے ہمارے اوپر آسمان سے ایک خوان نازل فرما تاکہ وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے نیز ہمارے حق میں بھی عید قرار پائے۔ اور تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو تو ہمیں روزی دے اور تو سب روزی دینے والوں سے بہتر ہے۔

حضرت عیسیٰ ـ خوان نازل کرنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ لوگ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورہ مائدہ، آیت 114۔

۳۷

عید منائیں۔

اگر ایک نبی اس خوان کے نازل ہونے پر عید مناسکتا ہے جو انسان کی جسمانی لذت

کا باعث ہے تو اب اگر مسلمان وحی کے نازل ہونے یا پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کے دن عید منائیں تو شرک و بدعت کیسے ہے؟ یہ دن تو وہ دن ہے کہ جب انسانوں کو نجات دینے والے اور بشریت کے لیے سرمایہ حیات نے اس دنیا میں قدم رکھا۔

مسلمانوں کی سیرت :

اہل اسلام کا شروع ہی یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم کی خاطر آپ(ص) کی یاد مناتے رہے ہیں۔

حسین بن محمد یار بکری ''تاریخ الخمیس'' میں لکھتے ہیں :

مسلمان ہمیشہ پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کے مہینے میں جشن مناتے ہیں۔ ولیمہ کرتے ہیں اس مہینے کی راتوں میں صدقہ دیتے ہیں خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں طرح طرح کی نیکیاں کرتے ہیں۔ نعتیں پڑھتے ہیں او اس کی عام رحمتیں اور برکتیں سب پر ظاہر ہوتی ہیں۔(1)

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیائے خدا کی یادگار منانا قرآن مجید کے بیان اور مسلمانوں کی سیرت کے مطابق جائز ہے لہٰذا جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں ان کے بے بنیاد کلام کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ کیونکہ بدعت وہ چیزیں ہیں جن کا قرآن و سنت سے کلی یا خصوصی جواز ثابت نہ ہو۔ جبکہ مذکورہ مسلہ کا کلی حکم ہمیں قرآن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تاریخ الخمیس، حسین بن محمد بن حسن دیار بکری، ج1، ص 223۔

۳۸

اور مسلمانوں کی سیرت سے ملتا ہے۔

ان یادگاروں کے قیام کا مقصد خدا کے نیک اور شائستہ بندوں کا احترام ہے ۔پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے محتاج ہیں۔

اس وجہ سے اس طرح کی یادگاریں توحید اور یکتا پرستی کی مخالف نہیں لہٰذا جو لوگ اولیائے خدا کی یاد منانے کو شرک کہتے ہیں ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔

سوالات

1۔ولادت کے دن جشن منانا کس چیز پر دلالت کرتا ہے ؟

2۔کیا ولادت کے دن جشن مناناکاجواز کلی طور پر قرآن سے ثابت ہے ؟

3۔ولادت کے دن جشن وغیرہ مناننے کے سلسلے میں مسلمانوں کی کیا سیرت رہی ہے ؟

۳۹

درس نمبر 7 ( عدم تحریف قرآن )

شیعہ علماء کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ اور موجودہ قرآن وہی آسمانی کتاب ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوئی تھی اس میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ ہی زیادتی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ہم یہاں چند دلیلیں پیش کررہے ہیں :

1۔ پروردگار عالم نے مسلمانوں کی اس آسمانی کتاب کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے(إنا نحن نزّلنا الذکر واِنّا له لحافظون) (1)

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ ساری دنیا کے شیعہ کیوں کہ قرآن کو اپنی فکر اور اپنے عمل کا محور قرار دیتے ہیں لہٰذا اس آیت کے پیغام کی بنا پرقرآن کے محفوظ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔

2۔ شیعوں کے پہلے امام حضرت علی ہمیشہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہتے اور آپ ہی سب سے پہلے کاتب وحی تھے۔ آپ نے مختلف مواقع پر لوگوں کو قرآن کی طرف بلایاایک مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں : (ثُمّ انزل علیه الکتاب نورًا لَآتطغاً مصابیحه، و سراجاً لا یخبوا توقده، و منهاجاً لا یضلّ نهجه---- و فرقاناً لا یخمدبرهانه) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ حجر آیت نمبر 9 (2)۔ نہج البلاغہ (صبحی صالحی) خطبہ 198

۴۰