معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29622
ڈاؤنلوڈ: 2175


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29622 / ڈاؤنلوڈ: 2175
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے۔

(لا یملکونَ الشفاعة اِلّا من اتخذ عند الرحمٰن عَهْدًا ) (1)

کوئی شخص بھی شفاعت کرنے کا حق نہیں رکھتا مگر جس نے خدا سے شفاعت کا عہد لے لیا ہو۔

( یَوْمَئِذٍ لا تنفع الشفاعة الّا من اذن له الرحمٰن و رَضِیَ لَه' قَوْلاً ) (2)

قیامت کے دن کسی کے بارے میں کسی کی شفاعت سودمند نہیں ہوگی، مگر اس شخص کی شفاعت جس کو خدا نے اجازت دی ہو اور جس کے قول سے راضی ہو۔

دوسری بات یہ کہ جس کی شفاعت کی جائے اس کے اندر شفاعت کرنے والے کے ذریعہ فیض الٰہی حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہو یعنی خدا سے ایمانی رشتہ اور شفاعت کرنے والے سے اس کا روحانی رشتہ منقطع نہ ہو۔ لہٰذا کفار جن کا خدا سے ایمانی رابطہ نہیں ہے یا مسلمانوں میں سے بعض گناہگار افراد کہ جن کا شفاعت کرنے والے سے کوئی رابطہ نہیں ہے جیسے بے نمازی، قاتل وغیرہ کی شفاعت نہیں ہوگی۔

قرآن بے نمازیوں اور منکرین معاد کے لیے فرماتا ہے :

(فَمٰا تَنْفَهُم شفاعة الشافعین) (3)

اس وقت شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے کام نہیں آئے گی۔

ظالموں اور ستمگاروں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔

ما للظلمین من حمیم ولا شفیع یطاع (4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ مریم ، آیت نمبر 87 (2)سورہ مبارکہ طٰہٰ ، آیت نمبر109 (3)۔ سورہ مبارکہ مدثر، آیت نمبر 48 (4)۔ سورہ مبارکہ مؤمن، آیت نمبر 18

۶۱

ظالموں کا نہ کوئی سچا دوست ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا جس کی بات مانی جائے۔

فلسفہ شفاعت :

جو افراد گمراہی اور معصیت میں پڑے ہیں ان کے لیے شفاعت توبہ کی طرح امید کی ایک کرن ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑیں اور باقی زندگی خدا کی اطاعت و فرماں برداری میں بسر کریں،کیونکہ ایک گناہگار انسان کو جب اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ محدود شرائط کے ساتھ شفاعت کرنے والے کی شفاعت حاصل ہوسکتی ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ ان شرطوں کا پاس اور لحاظ کرکے معین کی ہوئی حدود سے آگے نہ بڑھے۔

شفاعت کا نتیجہ :

بعض مفسرین اسلام کی نظر یہ ہے کہ شفاعت کے ذریعہ گناہ بخشے جاتے ہیں جبکہ بعض کے نکتہ نظر سے شفاعت درجات میں بلندی کا سبب ہے۔

سوالات

1۔شفاعت سے کیا مراد ہے ؟

2۔شفاعت کی حدود بیان کیجئے ؟

3۔شفاعت کا فلسفہ کیا ہے ؟

4۔شفاعت کانتیجہ کیا ہے ؟

۶۲

دوسرا حصہ ( احکام )

۶۳

سبق نمبر11 ( تقلید )

خداوند عالم نے ہماری سعادت اور دنیا و آخرت میں نجات کے لئے تمام احکام و قوانین کو اپنے نبی (ص) کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا اور آپ (ص) نے اس امانت عظمیٰ کو ائمہ طاہرین کوودیعت اعطا فرمایا ہے اور حضرت کے جانشین اور خلفائے برحق نے اپنی عمر کے تمام نشیب و فراز میں اس ذمہ داری کو پہنچانے کی کوشش فرمائی ہے جو آج تک ان تمام ادوار کو طے کرتے ہوے ہمارے سامنے حدیثوں اور روایتوں کی کتابوں میں موجود ہیں ۔

اس زمانہ میں چونکہ امام زمانہ تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو حضرت سے دریافت کر سکیں ،لہذا مجبور ہیں کہ حدیثوں اور قرآنی آیات سے احکام کا استنباط کریں اور اگر اس پر بھی قادر اور دست رسی نہیں رکھتے تو ضروری ہے کہ کسی مجتہد اعلم (سب سے زیادہ علم رکھنے والا )کی تقلید کریں ۔

روایات و احادیث میں کھری کھوٹی ، صحیح و غلط وضعی جعلی سب ہی موجود ہیں روایات کے اس سمندر سے گوہر کا الگ کرنا ہر ایک کے بس کا م نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو اس بحر بیکراں میں غواصی کر رہے ہوں ، جو اس سمندر کے طغیان اور طوفان سے خوب واقف ہوں جنھوں نے اس کو حاصل کرنے کے لئے رات و دن نہ دیکھا ، عمر کے لمحات کو نہ شمار کیا ہو ، علوم کے سمندر کی تہہ میں بیٹھے ہوں اس

۶۴

کی راہوں سے خوب واقف ہوں اس میں سے گوہر و موتی نکالنے میں ان کے لئے کوئیمشکل کام نہ ہو ، ایسے افراد کو مجتہد کہتے ہیں ۔

لہذا ہم مجبور ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو طے کرنے کے لئے ان کے دامن کو تھامیں کیونکہ اس کام کے ماہر وہی ہیں ، مریض ڈاکٹر ہی کے پاس تو جائے گا ، یہ ایک عقلی قاعدہ ہے جس چیز کے متعلق معلوم نہیں اس علم کے ماہر و متخصص سے ہی اس کے بارے میں پوچھا جائے اور حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی دور دراز رہنے والوں کے لئے قریب کے عالم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ۔

البتہ تقلید میں یہ چیز ذہن نشین رہے ، کہ ایسے مجتہد کی تقلید کی جائے جو تمام مجتہدین میں اعلم ( جو احکام خدا کو سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو ) عادل و پرہیز گار ہو پس اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ، مجتہدین اکثر موارد میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ، سوائے بعض جزئیات کے کہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان جزئیات میں ان کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ اس مقام پر یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ خداوند عالم کے پاس فقط ایک حکم موجود ہے اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں پایا جاتا وہی حق ہے، اور حکم حقیقی و واقعی فتویٰ کے بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتا ہے ، مجتہدین بھی نہیں کہتے ہیں کہ خدا کے نظریات و احکام ہمارے نظریات و خیالات کے تابع ہیں یا ہمارے حکم کی تبدیلی سے خدا کا حکم بدل جاتا ہے۔

پھر آپ ہم سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے :اگر حکم خدا ایک ہے تو پھر مجتہدین کے فتوے میں اختلاف کیوں پایا جاتا ہے ؟

ایسی صورت میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ : فتویٰ میں اختلاف ان وجوہ

۶۵

میں سے کسی ایک کی بنا پر ممکن ہے ۔

پہلا : کبھی ایک مجتہد حکم واقعی کو سمجھنے میں شک کرتا ہے تو اس حال میں قطعی حکم دینا ممکن نہیں ہوتا لہذا احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے مطابق احتیاط فتویٰ دیتا ہے تاکہ حکم الٰہی محفوظ رہے ، اور مصلحت واقعی بھی نہ نکلنے پائے ۔

دوسرا : کبھی اختلاف اس جہت سے ہوتا ہے ، کہ دو مجتہدین جس روایت کو دلیل بنا کر فتویٰ دیتے ہیں وہ روایت کو سمجھنے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں ، ایک کہتا ہے امام اس روایت میں یہ کہنا چاہتے ہیں اور دوسرا کہتا ہے امام کا مقصود دوسری چیز ہے ، اس وجہ سے ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق فتویٰ دیتا ہے ۔

تیسرا : حدیث کی کتابوں میں کسی مسئلہ کے اوپر کئی حدیثیں موجود ہیں جو باہم تعارض رکھتی ہیں فقیہ ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کراس کے مطابق فتویٰ دیتا ہے ۔

یہاں ممکن ہے کہ مجتہدین کا نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہو، ایک کہے فلاں اور فلاں جہت سے یہ روایت اس روایت پر مقدم ہے اور دوسرا کہے ، فلاں و فلاں جہت سے یہ روایت اس روایت پر ترجیح رکھتی ہے پس ہر ایک اپنے مد نظر روایت کے مطابق فتویٰ دیتا ہے ۔

البتہ اس طرح کے جزئی اختلافات کہیں پر ضرر نہیں پہونچاتے بلکہ محققین اور متخصصین و ماہرین کے نزدیک ایسے اختلافی مسائل پائے جاتے ہیں آپ کئی انجینیر ، اور مہارت رکھنے والے کو نہیں پا سکتے جو تمام چیزوں میں ہم عقیدہ و اتفاق رای رکھتے ہوں ۔

۶۶

ہم مذکورہ مطالب سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں :

1 : تقلید کرنا کوئی نئی بات نہیں ، بلکہ ہر شخص جس فن میں مہارت نہیں رکھتا ہے اس فن میں اس کے متخصص وماہر کے پاس رجوع کرتا ہے ، جیسے گھر وغیرہ بنوانے کے معاملہ میں انجینیراور بیماری میں ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ،پس احکام الٰہی حاصل کرنے کے لئے مرجع تقلید کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ وہ اس فن کے متخصص و ماہر ہیں ۔

2۔ مرجع تقلید : من مانی اور ہوا و ہوس کی پیروی میں فتویٰ نہیں دیتے بلکہ تمام مسائل میں ان کا مدرک قرآن کی آیات و احادیث پیغمبر (ص) اور ائمہ طاہرین ہوتی ہے ۔

3 : تمام مجتہدین ، اسلام کے کلی مسائل بلکہ اکثر مسائل جزئی میں بھی ہم عقیدہ اور نظری اختلاف نہیں رکھتے ہیں ۔

4 : بعض مسائلِ جزئیہ جس میں اختلاف ِنظر پایا جاتا ہے وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مجتہدین اختلاف کرنا چاہتے ہیں بلکہ تمام مجتہدین چاہتے ہیں کہ حکم واقعی خدا جو کہ ایک ہے اس کو حاصل کرکے مقلدین تک پہنچائیں ، لیکن استنباط اور حکم واقعی کے سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے پھراس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ جو کچھ سمجھا ہوا ہے اس کو بیان کر یں ا ور لکھیں جب کہ حکم واقعی ایک حکم کے علاوہ نہیں ہے ۔ مقلدین کے لئے بھی کوئی صورت نہیں ہے مگر اعلم کے فتوے پر عمل کریںاور یہی انکا وظیفہ شرعی ہے

5 : جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ دنیا کا ہر متخصص و محقق و ماہر چاہے جس فن کے بھی ہوں ان کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے ، لیکن لوگ امر عادی سمجھتے ہوئے اس پر خاص توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس سے اجتماعی امور میں کوئی رخنہ اندازی بھی نہیں ہوتی ہے ۔

مجتہدین کے بعض جزئیات میں اختلافی فتوے بھی اس طرح کے ہیں ، اس کو امر غیر

۶۷

عادی نہیں شمار کرنا چاہیے ۔

6 : ہمیں چاہیے کہ ایسے مجتہد کی تقلید کریں جو تمام مجتہدین سے اعلم ہو ، اور احکام الٰہی کے حاصل کرنے میں سب سے زیادہ مہارت رکھتا ہو نیز عادل و پرہیز گار جو اپنے وظیفہ و ذمہ داری پر عمل کرتا ہو اور قانون و شریعت کی حفاظت کے لئے کوشاں ہو۔

سوالات

1۔ تقید سے کیا مراد ہے ؟

2۔ کیسے مجتہد کی تقلید کی جائے؟

3۔مجتہدین کے فتوے میں اختلاف کیوں پایا جاتا ہے ؟

۶۸

درس نمبر12 ( طہارت و نجاست )

نمازکو انجام دینے سے پہلے نماز گزار کو جن مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے ان میں سے ایک طہارت ہے۔طہارت سے مراد صفائی نہیں کیونکہ ممکن ہے کوئی چیز صاف ہو لیکن اسلامی احکام کی نگاہ سے پاک نہ ہوطہارت سے مراد یہ ہے کہ نماز گزار اپنے بدن ولباس کو ناپاک چیزوں (نجاسات ) سے پاک رکھے اور نجاسات سے پاکی کے لئے ان کی پہچان اورنجس چیزوں کو پاک کرنے کے طریقے سے آگاہ ہونا ضروری ہے، لہٰذا پہلے اسے بیان کرتے ہیں البتہ نجاسات کو جاننے سے پہلے اسلام کے ایک کلی قاعدہ کی طرف توجہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ

'' دنیا میں9چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں، مگریہ کہ کوئی چیزان9چیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوجائے۔ ''

وہ 9 چیزیں یہ ہیں : ا۔پیشاب 2۔پائخانہ 3۔ منی 4۔خون 5۔مردار

6۔ کتّا 7۔سور 8۔کافر(جو کسی بھی آسمانی دین پر عقیدہ نہیں رکھتا ) 9۔مست کردینے والے مشروبات

مندرجہ بالا 9چیزوں کو ''نجاسات '' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

۶۹

پاک چیز کیسے نجس ہوجاتی ہے؟

گزشتہ یہ بیان ہوا کہ دنیا میں چند چیزوں کے علاوہ تمام چیزیں پاک ہیں ،لیکن ممکن ہے پاک چیزیں بھی نجس چیزوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہوجائیں، اس صورت میں کہ ان دو ( پاک ونجس)میں سے کوئی ایک چیز گیلی ہواور اس کی رطوبت دوسری چیزمیں منتقل ہوجائے۔

نجس چیز کیسے پاک ہوتی ہے؟

تمام نجس چیزیں پاک ہوجاتی ہیں اور پاک کرنے والی چیزیں جنہیں مطہرات کے

نام سے یاد کیاجاتاہے حسب ذیل میں :

1۔پانی۔ 2۔ زمین۔ 3۔سورج 4۔ اسلام۔

5۔استحالہ 6۔ اانتقال 7۔تبعیت 8۔ نجاست کازائل ہونا

9۔نجاست کھانے والے جانور کا استبراء 10۔مسلمان کا غایب ہونا ۔

1۔پانی

برتنوں کو پاک کرنے کا طریقہ

نجس برتن کو قلیل پانی کے ساتھ تین مرتبہ دھویا جائے ۔لیکن کر اور جاری پانی میں ایک بار کافی ہے ۔

برتنوں کے علاوہ دوسری چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ

٭۔جو چیز نجس ہوگئی ہے عین نجاست دور کرنے کے بعد ایک بار اسے کر یا جاری پانی میں ڈبودیا جائے یا کر سے متصل پانی کی ٹوٹی یا دھار کے نیچے رکھ دیا جائے اس طرح کہ پانی تمام نجس شدہ جگہوں تک پہنچ جائے تو وہ پاک ہو جائے گی ۔ اور اگر لباس وغیرہ ہے تو

۷۰

بنا بر احتیاط واجب پانی میں ڈبونے کے بعد اسے نچوڑایا جھاڑاجاے ،البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نچوڑنا اور جھاڑنا پانی کے باہر ہو بلکہ پانی کے اندر بھی کافی ہے۔

٭جو چیز پیشاب کی وجہ سے نجس ہوگئی ہے ۔عین نجاست کے برطرف ہونے کے بعد قلیل پانی دو مرتبہ اس پر ڈالنے سے وہ پاک ہوجائے گی ۔اور جو چیز دوسری نجاسات کی وجہ سے نجس ہو جائے ۔عین نجاست کے برطرف ہونے کے بعد ایک مرتبہ دھوئی جائے تو وہ پاک ہو جائے گی ۔

٭جس چیز کو قلیل پانی سے دھویا جائے تو ضروری ہے کہ جو پانی اس پر ڈالا جارہا ہے وہ اس سے جدا ہو اور اگر نچوڑنے کے قابل ہے مثلاًلباس وغیرہ تو اسے نچوڑا اور جھاڑا جائے ۔تاکہ پانی اس سے جدا ہو جائے ۔

٭نجس چٹائی کارپٹ وغیرہ کو جب (گھروں میں سپلائی شدہ )ٹوٹی کے پانی سے پاک کیا جائے تو غسالہ کے پانی کا جدا ہونا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ پانی کے نجس جگہ پہنچ جانے ۔عین نجاست کے برطرف ہونے اور پانی ڈالتے وقت ہاتھ کے ذریعہ سے غسالہ (دھون )کو اپنی جگہ سے حرکت دینے سے طہارت حاصل ہو جائے گی ۔

٭۔تندو رکا ظاہر جو نجس پانی ملی مٹی سے بنایا گیا ،دھونے سے پاک ہوجائے گا اور تندور کے ظاہری حصے کی پاکی کہ آٹا جس کے ساتھ لگتا ہے،روٹی پکنے کے لئے کافی ہے۔

٭۔وہ نجس لباس جو پاک کرتے وقت پانی کو رنگین کردیتے ہیں چنانچہ لباس کا رنگ دینا ،پانی کو مضاف کرنے کا باعث نہ بنے تو نجس لباس پر ڈالنے سے وہ ہو جائیں گے

٭۔وہ نجس لباس جو پانی پھیرنے کے لئے کسی برتن میں رکھے جاتے ہیں اگر ٹوٹی کا

۷۱

پانی ان پر اس طرح ڈالا جائے کہ پانی ساری جگہ جائے تو کپڑے ،برتن ،پانی اور کپڑوں سے جدا ہونے والے دھاگے وغیرہ جو پانی کے ساتھ باہر نکل آتے ہیں وہ سب پاک ہیں (البتہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ کپڑوں وغیرہ کے حوالے سے احتیاط یہ ہے کہ پانی میں غوطہ دینے کے بعد انہیں نچوڑیا جھاڑلیا جائے ۔ )

2۔زمین: زمیں پر چلتے ہوئے اگر پائوں کے تلوے یا جوتے کا تلا نجس ہوجائے تو پاک اور خشک زمین پر دس قدم چلنے سے پاک ہوجاتے ہیں۔ بشرطیکہ نجاست دور ہوجائے۔

یاددہانی :

تارکول والی زمین پاؤں کے تلؤؤں یا جوتوں کی تہوں کوپاک نہیں کرتی

3۔سورج :زمین،اور تمام غیر منقول اشیاء جیسے ،درخت ، نباتات،عمارت اور وہ چیزیں جو عمارت میں نصب کی جاتی ہیں، جیسے دروازہ اور کھڑکی وغیرہ.کو پاک کردیتا ہے

4۔اسلام :کافر، اگر مسلمان ہوجائے توتمام بدن پاک ہوجاتاہے

5۔استحالہ:اگر نجس چیز مکمل طور سے کسی دوسری چیز میں تبدیل ہوجائے تو وہ پاک ہوجائے گی ۔جیسے انسان یا حیوان کا پائخانہ مٹی بن جائے یا جل کر راکھ ہوجائے ۔

6۔انتقال:اگر کسی انسان یا حیوان کا خون کسی ایسے جانور میں منتقل ہوجائے کہ جو خون جھندہ نہ رکھتاہو(یعنی ذبح کے وقت اسکا خون اچھل کر نہ نکلتا ہو) جیسے مچھر وغیرہ اور کہا جائے کہ یہ خون اس جانور کا ہے تو یہ خون پاک ہے ۔

7۔تبعیت:ایک نجس چیز دوسری نجس چیز کے پاک ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔جیسے اگر شراب سرکہ میں تبدیل ہوجائے تو اسکا برتن بھی خود بخود پاک ہوجاتاہے

۷۲

8 ۔عین نجاست کا برطرف ہونا:دومواقع پر عین نجاست کے برطرف ہونے سے نجس چیز پاک ہوجاتی ہے اور پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں :

الف: حیوان کا بدن، مثلا ایک پرندہ کی چونچ نجاست کھانے کی وجہ سے نجس ہوگئی ہوتو نجاست برطرف ہونے پر پاک ہوجاتی ہے۔

ب۔ انسان کے بدن کا اندرونی حصہ، جیسے منھ، ناک اور کان کا اندرونی حصہ ۔مثلاً اگر مسوڑوں سے خون آئے، اور یہ خون آب دہن میں مل کر ختم ہوجائے توانسان کا منھ پاک ہے اوراس میں پانی ڈالنے کی ضروت نہیں۔

9۔نجاست کھانے والے جانور کا استبراء :نجاست خوار جانور کو ایک معین مددت تک خالص پاک غذاکھلانے سے اس کا استبراء ہوجاتا ہے ۔

10۔مسلمان کا غایب ہونا ۔جب یقین ہو کہ کسی مسلمان کا جسم ، لباس یا اسکی کویء چیز نجس ہے کچھ مددت کے بعد دیکھے کہ وہ چیز کو جوپہلے نجس تھی اب اسے پاک چیز کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔تو اسے پاک ہی تصور کرنا چاہیے ۔البتہ اس میں شرط یہ ہے کہ وہ شخص جسکی چیز ہے وہ اسکے نجس ہو نے کے بارے میں باخبر ہو اور طہارت اور نجاست کے احکام سے آگاہ ہو۔

سوالات

1۔طہارت سے کیا مراد ہے ؟

2۔نجاسات کے نام بتایئے

3۔پاک چیز کیسے نجس ہوجاتی ہے؟

۷۳

4۔مطہرات کے نام بتائیے

5۔نجس برتن کو کیسے پاک کرتے ہیں ؟

6۔نجس لباس اور فرش کو پاک کرنے کا طریقہ بیان کیجئے

7۔ زمین کن چیزوں کو پاک کرتی ہے ؟

۷۴

درس نمبر13 ( وضو )

نماز گزار کو نماز پڑھنے سے پہلے ، وضو کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اس عظیم عبادت کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔

بعض مواقع پر''غسل'' کرنا چاہئے، یعنی پورے بدن کو دھونا اور اگر وضو یا غسل کرنے سے معذور ہوتو، ان کی جگہ پر ایک دوسرا کام بنام''تیمم'' بجالائے

وضو کا طریقہ :

وضو میںمستحب یہ ہے کہ سب سے پہلے دومرتبہ کلائی تک ہاتھ دھویں پھرتین مرتبہ کلّی کریں اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالیں اس کے بعد واجب یہ ہے کہ چہرے کو دھوئیں پھردائیں ہاتھ کواور پھر بائیں ہاتھ کوکہنیوںسے لیکر انگلیوں کے سرے تک دھوئیں ، ان اعضاء کو دھونے کے بعد، ہتھیلی میں بچی رطوبت سے سرکا مسح کریں یعنی بائیں ہاتھ کو سرپر کھینچ لیں اور اس کے بعد دائیں پائوںکا اور پھر بائیں پائوں کا مسح کریں۔ ا ب وضو کے اعمال سے مذید آگاہی کے لئے درج ذیل خاکہ ملا حظہ فرمائیں :

اعمال وضوکی وضاحت :

٭ چہرہ دھونے کی حدود :

٭لمبائی میں پیشانی کے اوپر بال اگنے کی جگہ سے لیکر ٹھوڑی کے آخر تک

چوڑائی میں چہرے کا وہ حصہ جو انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے درمیان واقع ہے۔

۷۵

٭ ۔ اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے ۔

٭اگر چہرے پر بال ہوں تو بالوں کے اوپر ہی دھولینا کافی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ وضو کا پانی چہرے کی جلد تک پہنچے ،البتہ اگر بال اس قدر کم ہوں کہ چہرے کی جلد واضح نظر آئے تو پھر جلد تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے ۔

دھونے کا معیار یہ ہے کہ پانی تمام عضو تک پہنچے ،اگرچہ ہاتھ پھرنے کے ذریعہ سے ہی ہو اور فقط گیلے ہاتھ کے ساتھ اعضا ء کومسح کردینا کافی نہیں ہے۔

٭ سرکا مسح:1۔ مسح کی جگہ: سرکا اگلا ایک چوتھائی حصہ جو پیشانی کے اوپر واقع ہے۔

2۔ مسح کی واجب مقدار: جس قدر بھی ہوکافی ہے(اس قدر کہ دیکھنے والا یہ کہے کہ مسح کیاہے)۔

3۔ مسح کی مستحب مقدار: چوڑائی میں جڑی ہوئی تین انگلیوں کے برابر اور لمبائی میں ایک انگلی کی لمبائی کے برابر۔

4۔ ضروری نہیں ہے کہ مسح، سرکی کھال پر کیا جائے بلکہ سرکے اگلے حصے کے بالوں پر بھی صحیح ہے۔ اگر سرکے بال اتنے لمبے ہوں کہ کنگھی کرنے سے بال چہرے پر گرجائیں تو سرکی کھال پر یا بالوں کی جڑ پر مسح کیا جائے گا ۔

5۔ سرکے دیگر حصوں کے بالوں پر مسح جائز نہیں ہے اگرچہ وہ بال سرکے اگلے حصے یعنی مسح کی جگہ پر ہی کیوں نہ جمے ہوئے ہوں۔

٭ پا ؤں کا مسح :

1۔مسح کی جگہ: پائوں کا اوپر والاحصہ۔

2۔ مسح کی واجب مقدار: لمبائی میں انگلیوں کے سرے سے پائوں کے اوپر والے حصے

۷۶

کی ابھار تک اور چوڑائی میں جس قدر بھی ہو کافی ہے اگر چہ ایک انگلی کے برابر ہو۔

3۔ مسح کی مستحب مقدار: پائوں کا اوپر والا پورا حصہ ہے۔

سراور پاؤںکے مسح کے مشترک مسائل :

1۔ مسح میں ہاتھ کو سراور پائوںپر کھینچنا چاہئے اور اگر ہاتھ کو ایک جگہ قرار دے کر سریاپائوں کو اس پرکھنچ لیا جائے تو وضو باطل ہے، لیکن اگر ہاتھ کو کھینچتے وقت سریا پائوں میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

2۔ اگر مسح کے لئے ہتھیلی میں کوئی رطوبت باقی نہ رہی ہو تو ہاتھ کو باہر کے کسی پانی سے تر نہیں کرسکتے ،بلکہ وضو کے دیگر اعضاء سے رطوبت کو لے کر اس سے مسح کیا جائے گا۔

3۔ ہاتھ کی رطوبت اس قدر ہونا چاہئے کہ سراور پائوں پر اثر کرے۔

4۔مسح کی جگہ (سر اور پائوں کا اوپر والا حصہ)خشک ہونا چاہئے،اس لحاظ سے اگر مسح کی جگہ تر ہو تو اسے پہلے خشک کرلینا چاہئے، لیکن اگر رطوبت اتنی کم ہو کہ ہاتھ کی رطوبت کے اثر کے لئے مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

بیان ہونے والے شرائط کے ساتھ وضو صحیح ہے،اور ان میں سے کسی ایک کے نہ ہونے پر وضو باطل ہے۔

وضو کے پانی اور اس کے برتن کے شرائط

1۔نجس او رمضاف پانی سے وضو کرنا باطل ہے،خواہ جانتا ہو کہ پانی نجس یامضاف ہے یا نہ جانتا ہو، یا بھول گیا ہو۔

2۔وضو کا پانی مباح ہونا چاہئے،اس لحاظ سے درج ذیل مواقع پر وضو باطل ہے :

٭ اس پانی سے وضو کرنا،جس کا مالک راضی نہ ہو(اس کا راضی نہ ہونا معلوم ہو )

٭ اس پانی سے وضو کرنا،جس کے مالک کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ راضی ہے یا

۷۷

نہیں۔

٭ اس پانی سے وضو کرنا جوخاص افراد کے لئے وقف کیا گیا ہو،جیسے:بعض مدرسوں کے حوض اور بعض ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے وضو خانے

٭ جب پانی کا محکمہ موٹر کے ساتھ پانی کھینچنے سے منع کردے تو اس صورت میں موٹرلگانا اور اس استفادہ کرنا جائز نہیں ہے اوراس موٹر سے حاصل شدہ پانی سے وضو کرنا درست نہیں ہے ۔

٭ رہائشی اور غیر رہائشی عمارتوں میں رہنے والے افراد جو سہولیات (پانی وغیرہ )سے استفادہ کرنے کے بعد واجبات ادانہ کریں تو ان کا وضو باطل ہے ۔

3۔اگر وضو کا پانی غصبی برتن میں ہو اور اس سے وضو کر لیا جائے تو وضو باطل ہے۔

اعضائے وضو کے شرائط

1۔دھونے اور مسح کرنے کے وقت ،اعضاء وضو کا پاک ہونا ضروری ہے۔

2۔اگر اعضائے وضو پر کوئی چیز ہو جو پانی کے اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہو یا مسح کے اعضاء پر ہو،اگر چہ پانی پہنچنے میں مانع بھی نہ ہو،وضو کے لئے اس چیز کو پہلے ہٹانا چاہئے۔

3۔ بال پین کی لکیریں،رنگ ،چربی اور کریم کے دھبے،جب رنگ جرم کے بغیر ہوں،تو وضو ء کے لئے مانع نہیںہیں،لیکن اگرجرم دار ہوں تو (کھال پر جسم حائل ہو نے کی صورت میں )اول اسے برطرف کرنا چاہئے۔

کیفیت وضو کے شرائط

1۔ترتیب:وضو کے اعمال ا س ترتیب سے انجام دئے جائیں :

۷۸

٭ چہرہ کا دھونا ٭ دائیںہاتھ کا دھونا ٭ بائیںہاتھ کا دھونا

٭ سر کا مسح ٭ دائیں پیر کا مسح ٭ بائیں پیر کامسح

٭اگر اعمال وضو میں ترتیب کی رعایت نہ کی جائے تو وضو باطل ہے،

2۔موالات،یعنی اعمال وضو کا پے در پے بجالانا ،

3۔اگر وضو کے اعمال کے درمیان اتنا وقفہ کیا جائے کہ جب کسی عضو کو دھونا یا مسح کرنا چاہے تو اس سے پہلے والے وضو یا مسح کئے ہوئے عضو کی رطوبت خشک ہوچکی ہو،تو وضو باطل ہے۔

دوسروں سے مدد حاصل نہ کرنا

1۔جو شخص وضو کو خود انجام دے سکتا ہو،اسے دوسروں سے مدد حاصل نہیں کرنی چاہئے، لہٰذا اگر کوئی دوسرا شخص اس کے ہاتھ اور منھ دھوئے یا اس کا مسح انجام دے ، تو وضو باطل ہے۔

2۔جو خود وضو نہ کر سکتا ہو،اسے نائب مقرر کرنا چاہئے جو اس کا وضو انجام دے سکے، اگر چہ اس طرح اجرت بھی طلب کرے،تو استطاعت کی صورت میں دینا چاہئے، لیکن وضو کی نیت کو خود انجام دے۔

جن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے :

1۔ نماز اورنمازکے بھولے ہوئے اجزاء کی ادائیگی کے لئے (نماز میت کے علاوہ )

2۔ طواف خانہ کعبہ کے لئے ۔

یاد دہانی :

٭بدن کے کسی بھی حصے کو قرآن مجید کی لکھائی ،خداوندمتعال کے مخصوص اسماء و صفات ،

۷۹

اور بنا بر احتیاط واجب انبیاء اورائمّہ (ع) کے اسماء گرامی کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا حرام ہے۔

وضو کیسے باطل ہوتا ہے؟ (مبطلات وضو )

1۔انسان سے پیشاب،یا پاخانہ یا ریح خارج ہوجائے۔

2۔نیندآجائے ،جب کان نہ سن سکیں اور آنکھیں نہ دیکھ سکیں۔

3۔وہ چیزیں جو عقل کو ختم کردیتی ہیں،جیسے:دیوانگی،مستی اور بیہوشی انسان پر طاری ہو جائے ۔

4۔عورتوںکواگر خون استحا ضہ آجائے۔

5۔جوچیز غسل کا سبب بن جاتی ہے،جیسے جنابت، مس میت وغیرہ۔

توجہ

عورت اور مرد کے درمیان وضو کے افعال اور کیفیت کے حوالے سے صرف یہ فرق ہے کہ مردوں کے لیے مستحب ہے کہ کہنیوں کو دھو تے وقت باہر سے شروع کریں اور عورتیں اندر سے شروع کریں ۔

سوالات

1۔ جوخود وضو انجام دینے سے معذور ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

2۔ وضوکی ترتیب وموالات میں کیا فرق ہے؟

3۔ کن چیزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے ؟

4۔ کیا قرآن کی جلد یا حاشیہ کو بدن کے کسی حصے سے مس کرنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ؟

۸۰