معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )18%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33168 / ڈاؤنلوڈ: 3139
سائز سائز سائز

معارف اسلامی کورس

( عقائد، احکام،اخلاق )

( ۲ )

ترتیب و تدوین

سیّد نسیم حیدر زیدی

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

۲

فہرست

پیشگفتار ۵

حصہ اوّل ( عقائد ) ۸

درس نمبر ۱ ( توحید اور شرک کی پہچان ) ۹

درس نمبر ۲ ( کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے ؟ ) ۱۶

درس نمبر ۳ ( غیرخدا سے مدد مانگنا کیسا ہے؟ ) ۲۲

درس نمبر۴ ( بدأ ) ۲۵

درس نمبر ۵ ( توسل ) ۳۰

درس نمبر ۶ ( اولیائے خدا کی ولادت کے دن جشن منانا ) ۳۵

درس نمبر ۷ ( عدم تحریف قرآن ) ۴۰

درس نمبر ۸ ( منصب امامت ) ۴۷

درس نمبر ۹ ( صحابہ کرام ) ۵۲

درس نمبر ۱۰ ۶۰

( شفاعت ) ۶۰

دوسرا حصہ ( احکام ) ۶۳

سبق نمبر۱۱ ( تقلید ) ۶۴

درس نمبر۱۲ ( طہارت و نجاست ) ۶۹

درس نمبر۱۳ ( وضو ) ۷۵

درس نمبر ۱۴ ( حصہ اول ۔غسل ) ۸۱

حصہ دوم ( تیمم ) ۸۷

درس نمبر۱۵ ( نماز ) ۹۰

۳

درس نمبر۱۶ ( واجبات نماز ) ۹۴

درس نمبر۱۸ ( روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ ) ۱۰۷

درس نمبر۱۹ ( خمس ) ۱۱۱

حصہ سؤم ( آداب واخلاق ) ۱۲۳

درس نمبر ۲۱ ( عبادت اور عبودیت ) ۱۲۴

درس نمبر ۲۲ ۱۳۱

درس نمبر ۲۳ ( نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری ) ۱۳۸

درس نمبر۲۴ ( صلہ رحم ) ۱۵۵

درس ۲۵ ( مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا ) ۱۶۱

درس نمبر۶ ۲ ( سوئِ ظن ) ۱۶۷

درس نمبر۲۷ ( غیبت ) ۱۷۱

درس نمبر۲۸ ( غیبت کے آثار ) ۱۷۶

درس نمبر۲۹ ( گناہ اور اس کے آثار ) ۱۸۲

درس نمبر۳۰ ( توبہ ) ۱۹۱

۴

پیشگفتار

انسان کی عقل ہمیشہ اور ہر وقت کچھ سوالات کے جواب کی تلاش میں رہتی ہے،اگر یہ سوالات واضح اور حل ہوجائیں تو اس کے ضمن میں سیکڑوں سوالات سے خود بخود نجات مل جائے گی ، انسان کی عقل اچھے اور برے ، غلط اور صحیح ، حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے پر قادر ہے اور جب تک ان سوالات کو حل نہ کرلے ،اس وقت تک اپنی جگہ پر آرام و اطمینان سے نہیں بیٹھ سکتی، لہٰذا ان کا حل دل و دماغ کے لئے سکون کا باعث ہے ۔ ان سوالات میں سے کچھ کا تعلق ''اصول دین ''سے ہوتا ہے ،کچھ کا تعلق ''فروع دین ''سے اور کچھ کا تعلق'' اخلاق '' سے ہوتا ہے

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں صحیح تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب نوجوان ''معارف اسلامی ''سے نا آگاہ ہیں جسکی وجہ سے بعض ایسے خرافاتی اور بے بنیاد مسائل کو دین اسلام کا جز اور عقائدکا حصہ سمجھتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور پھر وہ ان ہی باطل عقیدوں کے ساتھ پرائمری ،پھر ہائی اسکول اور انٹر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم کے لئے چلے جاتے ہیں اور یہاں پروہ مختلف افراد، متفرق عقائد کے لوگوں سے سروکار رکھتے ہیں ، چونکہ ان کے عقیدہ کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اور خرافاتی چیزوں کو مذہب کا رکن سمجھتے ہیں اس لئے مختصر سے ہی اعتراضات اور شبہات میں پریشان و متحیر ہوجاتے ہیں ، علمی معیار و عقائدی معلومات کی کمی کی وجہ سے حق و باطل، اچھے اور برے ، غلط و صحیح میں تمیز نہیں دے پاتے جس کے نتیجہ میں اصل دین اور روح اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں، حیران و سرگردان زندگی

۵

بسر کرتے ہیں ، یا کلی طور پر اسلام سے منھ موڑ لیتے ہیں ، یا کم از کم ان کے اخلاق و رفتار اور اعمال پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ اب ان کے اعمال کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہتی ہے اور احکام و عقائد سے لاپروا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی غلط تربیت اور اس کے اثر کو آپ معاشرے میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان بے چاروں کو ذلت و گمراہی کے اندھیرے سے نکالنے کی فکر کرے ۔

ہمیں چاہیے کہ ایک منظم اور صحیح پروگرام کے تحت نوجوانوں کو صحیح معارف اسلامی سے آگاہ کریں اور بے بنیاد، غلط ماحول اور رسم و رسومات کے خرافاتی عقائد کی بیخ کنی اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ، ان کے لئے آسان اور علمی کتابیں فراہم کریں ، لائبریری بنائیں اور کم قیمت یا بغیر قیمت کے کتابیں ان کے اختیار میں قرار دیں ، ہر ممکن طریقہ سے پڑھنے لکھنے کی طرف شوق و رغبت دلائیں ۔

سر دست یہ کتاب معارف اسلامی کورس کے عنوان سے نوجوانوں کی دینی معلومات میں اضافہ کیلئے ترتیب دی گئی ہے ، اور اس کے لکھنے میں مندرجہ ذیل نکات کی طرف بھرپور توجہ رکھی گئی ہے ۔

۱۔ کتاب کے مطالب دلیل و برہان کی روشنی میں نہایت سادہ اور آسان انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور اختصار کے سبب صرف ضروری حوالوں پر اکتفا ء کیا گیا ہے ۔

۲۔حتیٰ الامکان لکھنے میں علمی اصطلاحوں سے گریز کیا گیا ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ لوگوں کے لئے تھکاو ٹ کا سبب نہ بنے ۔

۴۔ مشکوک و مخدوش ، بے فائدہ اور ضعیف مطالب سے اجتناب کیا گیا ہے ۔

۵۔ اس کتاب میں ان مہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا جاننا ہر مسلمان پر

۶

واجب ہے ، تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

قارئین کرام اس مختصر سی کتاب میں عقائد ،احکام اور اخلاق کے تمام مسائل کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اختصارکے پیش نظر صرف چیدہ چیدہ مطالب کو بیان کیا گیا ہے ۔تاکہ قارئین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور پھر تفصیلی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

موجودہ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

پہلا حصہ، عقائد : اس حصہ میں عقیدہ سے متعلق بعض مخالفین کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کے نہایت ہی مختصر اور سادہ انداز میں عقلی اور نقلی جوابات دے گئے ہیں ۔

دوسرا حصہ، احکام:جن پر عمل کرنا مکلّف کے لئے ضروری و واجب ہے ۔ اس حصہ میں تمام احکامات کو'' حضرت آیت اللہ العظمیٰ حاج سیّد علی خامنہ ای ''مدّظلّہ العالی کے فتوے کے مطابق بیان کیا گیا ہے ۔

تیسرا حصہ، اخلاق : اس حصہ میںبعض وہ چیزیں بیان ہوئی ہیں جو انسان کی باطنی حالت اور خواہشات سے تعلق رکھتی ہیں ،اور اس کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔جن پر عمل کرکے وہ دنیاو آخرت کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔

آخر میں ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس ناچیزکوشش کو قبول فرمائے۔ اور تمام ان حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے جھنوں نے اس کوشش میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا۔ طالب دعا

سید نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۷

حصہ اوّل ( عقائد )

۸

درس نمبر ۱ ( توحید اور شرک کی پہچان )

توحید اور شرک کی بحث میں سب سے اہم مسئلہ دونوں کے معیار کی شناخت ہے۔ اگر کلیدی طور پر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بہت سے بنیادی مسائل کا حل ہونا مشکل ہے لہٰذا ہم مختصرطور پریہاں عبادت کے مرحلہ میں توحید اور شرک کے معیار پر بحث کرتے ہیں ۔

عبادت میں توحید کی بحث کا اہم جزو یہ ہے کہ عبادت کے معنی کا تعین ہوجائے کیونکہ اس مسئلہ میں ہر مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ عبادت صرف خدا کی ذات سے مخصوص ہے اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ قرآن مجید میں اس سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے:(ایّاک نعبد و ایّاک نستعین) (۱)

'' ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ''

قرآن مجید کی آیتوں سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ تمام انبیاء اور سفر اء الٰہی کی دعوت میں یہ بات مشترک تھی اور تمام انبیاء کا یہی پیغام تھا۔ خداوند عالم قرآن مجید میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:(وَ لَقد بَعثْنٰا فی کل أمّة رسولا ان اعبدوا اللّٰه واجتنبوا الطَّاغوت) (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ حمد، آیت ۴۔ (۲)۔ سورہ مبارکہ نمل، آیت ۳۶۔

۹

'' ہم نے ہر اُمت میں ایک پیغمبر بھیجا تاکہ تم خدا کی عبادت کرو اور طاغوت سے دور رہو۔ ''

اس سے یہ معلوم ہوا کہ بنیادی بات یہی ہے کہ عبادت خدا کی ذات سے مخصوص ہے۔ اگر اس کے خلاف کسی کا عقیدہ ہو تو اس کو موحد نہیں کہا جائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''عبادت'' اور ''غیر عبادت'' کے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟

کیا ماں باپ، معلم ، علماء کا ہاتھ چومنا ،یا جو احترام کا مستحق ہو، اس کا احترام کرنا عبادت ہے؟ یا مطلق خضوع اور احترام کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ اس خضوع اور احترام میں کسی ایک عنصر کا ہونا لازمی ہے جب تک وہ عنصر نہ پایا جائے اس وقت تک اس فعل کو عبادت نہیں کہا جائے گا۔

اب اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ کون سا عنصر ہے جس کے بغیر خضوع اور احترام عبادت نہیں بنتا؟ اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

عبادت کا غلط مفہوم :

بعض مصنفین نے ''خضوع'' یا ''غیر معمولی خضوع'' کو عبادت قرار دیا ہے۔ ایسے افراد قرآن مجید کی بعض آیتوں کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔

(وَإذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَم) (۱) ''ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔ ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۴۔

۱۰

یہ صحیح ہے کہ آدم ـ کو سجدہ کرنے کا وہی طریقہ تھا جو خدا کو سجدہ کرنے کا ہے لیکن آدم کو کیا جانے والا سجدہ تواضع اور فروتنی کی بنیاد پر انجام پا رہا تھا اور خداکا سجدہ عبادت اور پرستش کی نیت سے ادا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جس نے ایک ہی طرح کے دو سجدوں کی حقیقت اور ماہیت بدل دی؟

قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پر جناب یعقوب کا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ جناب یعقوب اور ان کے بیٹوں نے جناب یوسف ـ کو سجدہ کیا۔

( وَرَفَعَ أبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا) (۱)

حضرت یوسف ـ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب نے ان کا سجدہ کیا اور یوسف ـ نے کہا باباجان! یہ اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ خدا نے اس کی حقانیت ثابت کردی۔

حضرت یوسف ـ نے خواب میں دیکھا تھا :

(إِنّی رَأیْتُ أحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رأیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ) (۲)

میں نے گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

چونکہ جناب یوسف اپنے وابستگان کے سجدہ کو اپنے خواب کی تعبیر بتا رہے ہیں۔

اس لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد آپ کے گیارہ بھائی اور

چاند سورج سے مراد آپ کے ماں باپ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت ۱۰۰۔ (۲)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت ۴۔

۱۱

بیان گزشتہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف جناب یوسف ـ کے بھائیوں نے سجدہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے ماں باپ نے بھی سجدہ کیا تھا۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سجدہ کو جس میں حد درجہ کا خضوع اور فروتنی شامل ہے۔ عبادت کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟

عذرِ گناہ بدتر از گناہ :

مذکورہ مصنفین کا وہ گروہ جو جواب دینے سے عاجز ہے یہ کہتا ہے کہ چونکہ خضوع ، خدا کے حکم سے تھا اس لیے شرک نہیں ہے۔

ظاہر ہے یہ جواب درست نہیں ہے کیونکہ اگر کسی عمل کی حقیقت وماہیت، شرک ہو تو خدا اس کا کبھی حکم ہی نہیں دے سکتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

(قُلْ إنَّ اﷲَ لاَیأمُرُ بِالْفَحْشَائِ أتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (۱)

'' کہہ دیجئے کہ بے شک خدا تم کو برائی کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم جو نہیں جانتے خدا کی طرف اس بات کی نسبت دیتے ہو۔ ''

اصولی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ صرف خدا کا حکم کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے سامنے خضوع سے پیش آنے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عبادت ہے تو اگر خدا بھی حکم دے تو یہی ماہیت رہے گی، یعنی اس انسان کی عبادت ہی ہوگی۔

اس مسئلہ کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنیٰ کی وضاحت :

یہاں تک اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ ''غیر خدا کی پرستش'' غلط اور ممنوع ہے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت ۲۸۔

۱۲

اس پر تمام موحدین کا اتفاق ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ جناب آدم ـ کے لیے فرشتوں کا سجدہ اور جناب یوسف ـ کے لیے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ عبادت نہیں ہے۔

اب اس بات کی تحقیق کا وقت ہے کہ ایک ہی عمل کبھی عبادت کیسے بن جاتا ہے اور وہی عمل عبادت کے زمرہ سے خارج کیسے ہوجاتا ہے۔

قرآن کی آیتوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کسی موجود کے سامنے خدا سمجھ کر خضوع سے پیش آیا جائے یا اس کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دی جائے اور خضوع اختیار کیا جائے تو یہ عبادت ہے اس بیان سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ کسی موجود کے سامنے اس کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھ کر یا خدائی کاموں کی انجام دہی کی توانائی کے عقیدہ کے ساتھ خضوع کیا جائے تو یہی عنصر وہ ہے جو خضوع کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے۔

جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں کے مشرکین، بلکہ ساری دنیا کے مشرکین اس چیز کے سامنے خضوع و خشوع کا مظاہرہ کرتے تھے جس کو مخلوقِ خدا سمجھتے ہوئے کچھ خدائی کاموں کا مالک سمجھتے تھے اور کم سے کم ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ گناہ بخشنے کا حق رکھتے ہیں اور مقام ِ شفاعت کے مالک ہیں۔

بابل کے مشرکین اجرامِ آسمانی کی پرستش کرتے تھے وہ ان کو اپنا خالق نہیں بلکہ رب مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات اور انسانوں کے انتظام کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے۔ جناب ابراہیم ـ نے ان سے اسی عقیدہ کی بنا پر مناظرہ کی تھا، کیوں کہ بابل کے مشرکین ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو پیدا کرنے والا خدا نہیں سمجھتے تھے، وہ تو

۱۳

ان کی ربوبیت کے قائل تھے۔

قرآن مجید نے بابل کے مشرکین سے حضرت ابراہیم ـ کے مناظرہ کے ذکر میں لفظ ''رب''(۱) کو محور بنایا ہے۔ اور رب کے معنی مالک اور اپنے مملوک کے مدبر کے ہیں۔

عرب، گھر کے مالک کو ''رب البیت'' اور کھیتی کے مالک کو ''رب الضیعہ'' کہتے ہیں کیوں کہ گھر کا مالک گھر کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اور کھیت کا مالک کھیت کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے۔

قرآن مجید نے مدبر اور اور پروردگارِ کائنات کے عنوان سے خدا کا تعارف کرایا ہے۔ پھر دنیا کے سارے مشرکین سے مبارزہ کرتے ہوئے ان کو ایک خدا کی پرستش کی دعوت دی ہے۔

(ِإنَّ اﷲَ رَبِّی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ) (۲)

'' بیشک ہمارا اور تمہارا رب خدا ہے اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔ ''

(ذَلِکُمْ اﷲُ رَبُّکُمْ لاَإلَهَ إلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوهُ) (۳)

'' وہی خدا تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو۔ ''

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کی حکایت کرتے ہوئے کہا :

( وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اﷲَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ) (۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت ۷۸۔ ۸۶۔ (۲)۔ سورہ مبارکہ آل عمران: آیت ۵۱۔ (۳)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت ۱۰۲۔ (۴)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ۷۲۔

۱۴

'' حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا:اے بنی اسرائیل تم خدا کی پرستش کرو وہ ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ ''

بہرحال بیان گزشتہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ ربوبیت کے عقیدہ یا کسی موجود کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دیئے بغیر عبادت کا عنوان پیدا نہیں ہوتا،چاہے خضوع اور فروتنی اپنی انتہا تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

اسی وجہ سے ماں باپ کے سامنے اولاد کا خضوع، انبیاء کے سامنے امت کا خضوع جو مذکورہ بالا قید سے خالی ہو، عبادت نہیں ہے۔

اس بنا پر وہ سارے کام غیر خدا کی عبادت سے خارج ہیں جن کو کچھ نا واقف افراد غیر خدا کی پرستش اور شرک قرار دیتے ہیں۔ مثلاً۔ آثار اولیاء کو متبرک سمجھنا، ضریح کو بوسہ دینا، حرم کی در و دیوار کو چومنا، خدا کے مقرب بندوں کو وسیلہ بنانا، اس کے صالح بندوں کو پکارنا، اولیاء خدا کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کی یادگار منانا وغیرہ۔

سوالات :

۱۔ سورہ مبارکہ نمل، آیت نمبر ۳۶ کاپیغام کیا ہے ؟

۲۔قرآن کی کوئی آیت پیش کیجئے جو یہ بیان کرتی ہوکہ عبادت، خدا کی ذات سے مخصوص ہے ؟

۳۔ عبادت کے غلط مفہوم کی وضاحت کیجئے ؟

۴۔قرآن کی وہ کونسی آیتیںہیں جن میں جناب حضرت آدم (ع) اور جناب حضرت یوسف (ع) کو کیے جانے والے سجدہ ذکر ہے ؟

۵۔ عبادت اور غیر عبادت کے معیارکی وضاحت کیجئے ؟

۱۵

درس نمبر ۲ ( کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے ؟ )

ایک اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ کیا خدا کے علاوہ دوسروں کو پکارنا ان کی پرستش کا لازمہ اور شرک نہیںہے؟

اس اعتراض کے اٹھنے کا سبب بعض وہ آیتیں ہیں جن کے ظاہر سے غیر خدا کو پکارنے کی نفی ہوتی ہے۔ ارشاد رب ّ العزت ہے :

'' و أن المَسٰاجد لِلّهِ فَلا تَدْعُوا مع اللّٰهِ أَحَدًا'' (۱)

مسجدیں خدا کی ہیں پس خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

'' وَلا تَدْعُ مِنْ دون اللّٰهِ مَا لَا یَنفعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ '' (۲)

خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تم کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان کچھ لوگوں نے ان آیات کو بنیاد بناکر اولیاء خدا اور صالحین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں پکارنے کو شرک اور ان کی پرستش سمجھ لیا ہے۔

اس سوال کے جواب کے لیے لفظ ''دعا'' اور'' عبادت'' کی وضاحت اور تشریح ضروری ہے۔

عربی زبان میں ''دعا'' کے معنی پکارنے اور بلانے کے اور ''عبادت'' کے معنی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ جن، آیت نمبر ۱۸ (۲)۔ سورہ مبارکہ یونس، آیت نمبر ۱۰۶

۱۶

پرستش کے ہیں اور ان دونوں الفاظ کو کسی صورت مترادف اور ہم معنی نہیں سمجھنا چاہیے۔

یعنی ہر'' ندا ''اور درخواست کرنے کو عبادت اور پرستش نہیں کہا جاسکتا ۔ کیونکہ

پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم نے لفظ ''دعوت'' کو ان جگہوں پر استعمال کیا ہے جہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے مراد عبادت ہے۔ جیسے(قَالَ ربّ انّی دعوت قومی لیلاً ونهارا) (۱)

''( حضرت نوح نے فرمایا) پالنے والے میں نے (تیری طرف) اپنی قوم کو شب و روز بلایا۔ ''

کیا یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت نوح کا مقصد یہ ہے کہ میں نے اپنی قوم کی شب و روز عبادت کی ہے۔

اس بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دعوت اور عبادت ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ اور اگر کسی نے پیغمبر یا کسی صالح بندہ سے مدد طلب کی اور انہیں پکارا تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے ان کی عبادت کی ہے۔ کیونکہ دعوت ایک ندائِ عام ہے اور پرستش خاص ہے۔

دوسری بات یہ کہ ان تمام آیتوں میں لفظ ''دعا'' مطلقاً پکارنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ایک خاص دعوت کے لیے استعمال ہوا ہے جو پرستش اور عبادات کے ساتھ ہوا کرتی ہے کیوں کہ مجموعی طور پر یہ آیتیں ان بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اپنے بتوں کو چھوٹا خدا سمجھتے تھے۔اور یہ بات واضح ہے کہ بت پرستوں کا بتوں کے سامنے خضوع ، دعا اوراستغاثہ اِس لیے ہوا کرتا تھا کہ وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ نوح، آیت نمبر ۵

۱۷

ان کو حق شفاعت و مغفرت و۔۔۔ کا مالک کہتے تھیاور ان کو دنیا و آخرت کے امور میں

مستقل تصرف کرنے والا سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ان حضرات کو دعوت اور اُن سے ہر طرح کی درخواست عبادت اور پرستش ہوگی اور اس بات کا بیّن ثبوت کے بت پرستوں کی دعوت اور پکار میں الوہیت کا عقیدہ شامل تھا قرآن مجید کی یہ آیت ہے(فَما اغنتُ عنهم آلهَتُهُم التی یدعونَ من دون اللّٰه من شیٔ) (۱)

خدا کے علاوہ جن (خودساختہ) خداؤں کو وہ لوگ پکارتے تھے (عبادت کرتے تھے) انہوں نے بے نیاز نہیں بنایا۔

اس بنا پر مذکورہ آیت ہماری بحث سے الگ ہے کیونکہ ہماری بحث اس درخواست سے ہے جو ایک بندہ دوسرے بندہ سے کرتا ہے اس طرح کہ جس بندہ سے درخواست کی جاتی ہے نہ اُسے اللہ نہ رب نہ مالک اور نہ ہی دنیا وآخرت کے امور میں متصرف تام الاختیار سمجھتاہے بلکہ درخواست کرنے والا بندہ اس بندہ کے بارے میں جس سے درخواست کررہا ہے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کا محترم اور معزز بندہ ہے جسے خداوند عالم نے رسالت اور امامت کا عہدہ عطا کیا ہے اور خدا نے اپنے بندوں کے لیے اس کی دعا کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

(وَلَوْ أَنَّهُمْ اذ ظَلَمُوا أنفسهم جاؤکَ فاستغفرو اللّٰهَ واستغفر لَهُمْ الرسولُ لَوَجَدوا اللّٰه توابًّا رَحیمًا) (۲)

'' جب ان لوگوں نے نافرمانی کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر تمہارے پاس چلے

آتے اور خدا سے معافی مانگتے اور رسول تم بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ ھود، آیت نمبر ۱۰۱ (۲)۔ سورہ مبارکہ نسائ، ۶۴

۱۸

خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔ ''

اور تیسری بات یہ کہ خود مذکورہ آیتوں میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ مطلق درخواست اور مطلق دعوت سے منع نہیں کیا گیا بلکہ اس دعوت سے منع کیا گیا ہے جو پرستش کا عنوان رکھتی ہو اِسی وجہ سے ایک آیت میں لفظ دعوت کے ساتھ بلافاصلہ اسی معنی کے لفظ عبادت سے تعبیر پیش کردی گئی ہے۔

( وَ قَالَ ربّکم ادعونی استجب لکم انّ الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جَهَنَّمَ داخِریْنَ) (۱)

'' تمہارے پروردگار نے یہ کہا کہ مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں جو لوگ ہماری عبادت سے سرکشی اختیار کرتے ہیں وہ جلد ہی نہایت ذلیل و رسوا کرکے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا آیت کے شروع میں ''أُدعونی'' اور بعد میں لفظ ''عبادتی'' استعمال ہوا ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دعوت ایسی چیز کے سامنے خاص درخواست یا استغاثہ کی شکل میں تھی جس کو وہ لوگ صفات الٰہی کا حامل سمجھتے تھے۔

نتیجہ :

ان تینوں مقدمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تینوں آیتوں میں قرآن کا بنیادی مقصد بت پرستوں کی دعوت کی نہی تھی۔ جو بتوں کو خدا کا شریک، مدبر کائنات،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ غافر، آیت نمبر ۶۰

۱۹

اور مالک شفاعت سمجھتے تھے ان کے سامنے ہر طلب ، ہرنالہ، استغاثہ ، خضوع، طلب شفا

اور درخواست یہ سمجھ کر ہوا کرتی تھی کہ وہ بت چھوٹے خدا ہیں اور خدائی کام انجام دیتے ہیں۔ وہ اس بات کا عقیدہ رکھتے تھے کہ دنیا و آخرت کے بعض کام اُن کے سپرد کردیئے گئے ہیں۔ ان آیات کا ان بندوں سے مدد مانگنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ جو مدد مانگنے والے یا دعوت کرنے والے کی نظر میں ذرہ برابر بھی بندگی کی سرحدوں سے باہر نہیں نکلے بلکہ وہ خدا کے محبوب اور محترم بندے تھے۔

اگر قرآن یہ کہتا ہے:( وَأنّ المساجدَ لِلّه فلا تدعوا مع اللّٰه أَحَدًا) (۱)

'' مساجد خدا کے لیے ہیں لہٰذا خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو'' تو اس کا مقصد وہ دعوت ہے جو جاہل عرب بتوں کی یا اجرام سماوی کی یا فرشتہ یا جن کی پرستش کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں یا اس طرح کی دوسری آیتوں میں جو دعوت کی ممانعت ہے وہ کسی شخص یا شیٔ کو معبود سمجھ کر پکارنے یا دعوت دینے کی ممانعت ہے۔

لیکن ان آیتوں کا اُس دعوت یا پکارنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے جس میں پکارنے والا اور درخواست کرنے والا جسے پکار رہا ہے نہ تو اُسے رب مانتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے اس بات کا قائل ہے کہ خدا نے سب کچھ اس کے سپرد کردیا ۔ بلکہ وہ تو اس کو خدا کا لائق اور محبوب بندہ سمجھ رہا ہے۔ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ اولیاء خدا سے اُن کی زندگی میں تو مدد مانگنا جائز ہے مگر ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان سے کچھ طلب کرنا اور مانگنا شرک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ مبارکہ جن، آیت نمبر ۱۸

۲۰

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم پیغمبر اور آئمہ جیسے خدا کے صالح بندوں کی روح

پاک سے مدد مانگتے ہیں جو قرآنی آیات کی تصریح کے مطابق زندہ اور شہداء سے زیادہ بلند مقام و منزلت رکھتے ہیں اور عالم برزخ میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور اگر ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوکر درخواست کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ان ارواح مقدسہ سے زیادہ ارتباط پیدا ہوتا ہے اور زیادہ نزدیکی کا احساس ہوتا ہے اس کے علاوہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ مقامات وہ ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ان کے زندہ اورمردہ ہونے کو شرک اور توحید کا ملاک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

سوالات

1۔کیا غیر خدا کو پکارنا شرک ہے؟اس سوال کے اٹھنے کا سبب کیا ہے ؟

2۔ سورہ مبارکہ جن، کی آیت نمبر 18 اور سورہ مبارکہ یونس، کی آیت نمبر 106 کن کے بارے میں ہے اور ان آیتوں میںدعوت سے مراد کیا ہے ؟

3۔ہم اولیا ء خدا کی قبر وں کے پاس کھڑے ہوکر درخواست اور دعا کیوں کرتے ہیں؟

۲۱

درس نمبر 3 ( غیرخدا سے مدد مانگنا کیسا ہے؟ )

قرآن میں ارشاد رب العزت ہے :(وَمَا النصر الأمن عند اللّٰه العزیز الحکیم) (1) ''نصرت و مدد صر ف خدا کی طرف سے ہے جو عزیز و حکیم ہے۔ ''

تو اب ایسی صورت میں کیا خدا کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک نہیں ہے ؟ مندرجہ بالا سوال کے جواب کے لیے چند باتوں پر غور کرنا ضروری ہے ۔ غیر خدا سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں۔

1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ہم انسان یا کسی بھی مخلوق سے اس تصور کے ساتھ مدد مانگیں کہ وہ شی وجود کے اعتبار سے یا مدد کرنے میں مستقل حیثیت رکھتی ہے اور خدا سے بے نیاز ہے۔

تو ظاہر ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ایسی صورت میں غیر خدا سے مدد مانگنا شرک محض ہے۔ قرآن کریم نے اس عقیدہ کی کمزوری کو واضح طور پر بیان کیا۔

( قُلْ مَنْ ذاالذی یَعْصِمکم من اللّٰه ان اراد بکم سُوء ال و اراد ربکم رحمة وَلَا یجدونَ لَهُمْ من دونِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَلَا نصِیْرًا ) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ آل عمران، آیت نمبر 126 (2)۔ سورہ مبارکہ احزاب، آیت نمبر 17

۲۲

'' آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہارے بارے میں عذاب کا ارادہ کرے تو اس سے تم کو کون بچاسکتا ہے۔ یا اگر رحمت کا ارادہ کرے تو (اسے کون روک سکتا ہے) اوریہ لوگ

اپنے لئے خدا کے سوا نہ ولی پائیں گے نہ مددگار۔ ''

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب ہم کسی انسان سے مدد مانگیں تو اُسے خدا کی مخلوق، اور محتاج سمجھیں اور اُسے بذات خود مستقل نہ جانیں اور یہ سمجھیں کے اس کے اندر مدد کرنے کی جو طاقت ہے وہ خدا نے اُسے بعض بندوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے عطا کی ہے۔

اگر اس تصور کی بنیاد پر ہم کسی سے مدد مانگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہے جسے خداوند متعال نے بعض حاجتیں پوری کرنے کے لیے ''وسیلہ'' بنایا ہے۔ اس طرح مدد مانگنا درحقیقت خدا ہی سے امداد حاصل کرنے کی خواہش ہے کیونکہ اسی نے ان وسایل و اسباب کو پیدا کیا ہے اور ان کو دوسروں کی حاجتیں پوری کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو انسانوں کی زندگی اسباب و مُسبّباب کی بنیاد پر قائم ہے۔ اگر ان چیزوں سے مدد نہ لی جائے تو زندگی اجیرن ہوجائے۔ اب اگر ان چیزوں سے مدد لیتے وقت یہ تصور رہے کہ یہ سب خدا کی مدد کو پہنچانے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ان کا وجود اور ان کے اندر مدد کرنے کی قوت و صلاحیت خدا ہی کی عطا کردہ ہے۔ تو اس طرح مدد مانگنا توحید اور یکتا پرستی کے منافی نہیں ہے۔

اگر ایک موّحِد اور خدا شناس کسان زمین ، پانی ، ہوا اور سورج سے مدد لیتے ہوئے دانہ اُگا کر غلّہ حاصل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتاً خدا ہی سے مدد

۲۳

لے رہا ہے کیونکہ خدا ہی نے ان چیزوں کو یہ طاقت و صلاحیت عطا کی ہے۔

اور یہ بات واضح ہے کہ یہ مدد مانگنا روح توحید اور یکتا پرستی کے عین مطابق ہے بلکہ قرآن ہمیں ایسی چیزوں (جیسے نماز اور صبر) سے مدد طلب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

( واستعینوا بِالصَّبر وَالصَّلوٰة) (1) ''صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔ ''

واضح سی بات ہے کہ صبر و استقامت انسان کا کام ہے اور ہمیں ایسے کاموں سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے باوجود یہ استمداد، ''ایاک نستعین'' کے منافی نہیں ہے۔

سوالات

1۔غیر خدا سے مدد مانگنے کی کتنی صورتیں ہیںاور کونسی صورت صحیح ہے ؟ ۔

2۔ کیا سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت نمبر 126 غیر خدا سے مدد مانگنے کے منافی نہیں ؟

3۔جب ہم کسی انسان سے مدد مانگیںاور اُسے بذات خود مستقل نہ جانیں تو اس کا کیا مطلب ہے ؟

4۔کیا قرآن میں ہمیں خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت نمبر 45

۲۴

درس نمبر4 ( بدأ )

'' بدا'' کیا چیز ہے اورکیا یہ علم خدا میں تبدیلی کا سبب نہیں بنتا؟

جواب: عربی زبان میں لفظ بدا کے معنی ظاہر و آشکار ہونے کے ہیں اور شیعہ علماء کی اصلاح میں ایک انسان کی طبیعی سرنوشت کے رخ کا اس کے صالح اور نیک عمل کی بنا پر بدل جانا ''بدا'' کہلاتا ہے ۔ مسئلہ بدا شیعہ مذہب کا ایک بڑا اور عظیم مسئلہ ہے۔ جو منطقِ وحی اور عقل کی استوارہے۔

قرآن کی نظر میں انسان ہمیشہ اپنی سرنوشت اور تقدیر کے سامنے دست بستہ اور مجبور نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے لیے سعادت کا راستہ کھلا ہوا ہے وہ راہ حق پر چل کر اپنے اچھے عمل سے اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے قرآن نے اس حقیقت کو ایک عام اور دائمی قانون کے طور پر اس طرح بیان کرتا ہے ۔

( انّ اللّٰه لا یغیّر مَا بقومٍ حتّٰی یُغَیِّرُ مَا بِأنْفُسِهِمْ) (1)

'' خداوند عالم کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ '' دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔(ولو أنّ اهل القُریٰ آمنوا وَ اتَّقُوا لَفَتَحْنٰا عَلَیْهم بَرَکاتٍ مِن السَّمٰاء إوالارض) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ رعد، آیت نمبر 11 (2)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت نمبر 96

۲۵

اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

حضرت یونس کے سر نوشت کے بدل جانے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

( فَلَو لَا أَنَّه کَانَ مِنَ المُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِهِ اِلٰی یَوْمِ یبعثون)'' (1)

'' اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اس (مچھلی) کے پیٹ ہی میں رہتے''۔

آخری آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ظاہری حالات کی بنا پر حضرت یونس کو قیامت تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہنا چاہیے تھا مگر ان کے نیک عمل نے (یعنی تسبیح نے) ان کی سرنوشت کا رخ موڑ دیا اور مچھلی کے پیٹ سے نجات مل گئی۔

اسلامی روایتوں میں بھی اس حقیقت کو قبول کیا گیا ہے پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :

( أنّ الرجل لیحرم الرّزق بالذنب یصیبه وَلا یردّ القدر اِلّا الدُعٰاء وَلَا یزید فی العمر اِلّا البِرّ) (2)

گناہ کے سبب انسان اپنے رزق سے محروم ہوجاتا ہے اور دعا کے علاوہ اس کی تقدیر کو بدلنے والی اور کوئی چیز نہیں ہے اور نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز انسان کی عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی۔

اس روایت اور ایسی ہی دوسری روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ گناہ اور عصیان کی بنا پر انسان روزی سے محروم کردیا جاتا ہے لیکن دعا کے ذریعہ وہ اپنی تقدیر بدل سکتا ہے اور نیکی کے ذریعہ اپنی عمر میں اضافہ کرسکتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ صافات، آیت نمبر 143۔ 144 (2)۔ مسند احمد ج5، ص 277،

۲۶

نتیجہ :

قرآن و احادیث کی روشنی میں انسان طبیعی اسباب و مسبّبات کی بنا پر عام حالات کے تحت اپنے کاموں کے ردّ عمل میں کسی خاص مصیبت میں گرفتار ہوسکتا ہے اور کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اولیاء خدا جیسے پیغمبر اور امام کسی کو یہ خبر دیں کہ اگر تمہاری یہی رفتار رہی تو اس کا انجام ایسا ہوگا، لیکن اچانک کسی بات کی بنا پر وہ رفتار بدل جائے اور جو نتیجہ بتایا گیا تھا اس سے الگ ہٹ کر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے آئے۔

منطق ِ وحی، سنت پیغمبر اور عقل سلیم سے حاصل شدہ اس حقیقت کو شیعہ علماء کی اصطلاح میں ''بدائ'' کہا جاتا ہے۔

اور مناسب ہے کہ یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ لفظ ''بدائ'' کی تعبیر محض شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی تحریروں اور پیغمبر اسلام (ص) کی احادیث میں بھی یہ تعبیر دیکھی جاسکتی ہے مثال کے طور پر پیغمبر کی مندرجہ ذیل حدیث میں لفظ ''بدا'' استعمال ہوا ہے۔

( بَدَاء اللّٰهُ عَزَّوجل أنْ یبتلِیهِمْ ) (1)

اس بات کا تذکرہ کردینا بھی ضروری ہے کہ علم خدا میں تبدیلی کا نام بداء نہیں ہے کیوں کہ خداوند عالم ابتداء ہی سے انسان کی طبیعی رفتار سے واقف ہے اور وہ تبدیلی لانے والے اسباب و عوامل کا جو'' بدائ''کا موجب بنتے ہیں شروع ہی سے جاننے والا ہے۔ وہ خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: (یمحوا اللّٰه مَا یشاء و یثبت و عندهأمّ الکتاب''(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) النھایہ فی غریب الحدیث : مجد الدین مبارک ج1، ص 109(2) سورہ مبارکہ رعد، آیت نمبر 39

۲۷

'' خدا جو چاہتا ہے ثبت کردیتا ہے اور جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اس کے پاس ام الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ ''

اسی بنا پر خداوند عالم بداء کے موقع پر ہماے سامنے اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے جو اس کو ازل ہی سے معلوم تھی ۔ لہٰذا مام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں۔

'' مَا بَد اللّٰه فی شیٔ اِلّا کانَ فی علمه قبل أنْ یبدوله'' (1)

'' کسی بھی موقع پر اللہ کے لیے بداء واقع نہیں ہوا مگر یہ کہ اس کو ازل ہی سے اس بات کا علم تھا۔ ''

فلسفہ بدا :

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان یہ جانتا ہو کہ وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اس سلسلے میں مجبور نہیں ہے۔ تو وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے عزم و ہمت اور حوصلہ کے ساتھ مکمل جدوجہد کریگا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ جس طرح توبہ اور شفاعت کا عقیدہ انسان کو یاس و ناامیدی اور سردمہری سے نجات دیتا ہے اسی طرح بداء کا عقیدہ بھی اس کے نشاط اور شادابی کا باعث بنتا ہے۔ مستقبل کی امیدیں بندھاتا ہے کیوں کہ اس عقیدہ کی روشنی میں انسان جانتا ہے کہ وہ خدا کے حکم سے اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اپنے اچھے مستقبل اور بہتر نتائج کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اصول کافی، ج1، کتاب توحید باب بدائ، حدیث9

۲۸

سوالات

1۔بداء کے لغوی اور اصطلاحی معنی ٰبیان کیجئے ؟

2۔کیا''بدائ'' کا عقیدہ خدا کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا ؟ وضاحت کیجئے ؟

3۔بدا ے کے بارے میں قرآن کریم کی کوئی دو آیاتیں پیش کیجئے ؟

4۔حضرت ا مام جعفر صادق نے بداء کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ؟

5۔ ''بدائ'' کا فلسفہ بیان کیجئے ؟

۲۹

درس نمبر 5 ( توسل )

قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے گراں مایہ موجود کو اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دینے کو ''توسل'' کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتّقُوا للّٰه وَ ابْتَغُوا اِلَیْهِ الوسیله وَ جَاهِدُوا فی سبیل اللّٰهِ لعلّکم تفلِحُون) (1)

اے اللہ پر ایمان لانے والو! تقویٰ اختیار کرو اور خدا تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجائو۔

جوہری اپنی کتاب ''صحاح اللغة'' میں وسیلہ کی اس طرح تعریف کرتے ہیں :

( الوسیلةُ مَا یتقربّ بِه الی الغیر )

'' وسیلہ اُسے کہتے ہیں جس کے ذریعہ دوسرے کا تقرب حاصل کیا جائے''۔

لہٰذا جن قابل قدر چیزوں کے ذریعہ خدا تک پہنچا جاتا ہے کبھی وہ ہمارے نیک اعمال اور مخلصانہ عبادت ہوتی ہے کہ جو ایک مضبوط وسیلہ کے طور پر ہمیں خداوند عالم سے نزدیک کرتی ہے اور کبھی وہ خداکے نزدیک ایک صاحب عزت انسان ہوتا جو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مائدہ، 34۔

۳۰

بارگاہِ خداوندی میں بلند مقام و منز لت رکھتا ہے۔

اقسام توسل :

توسل کی تین قسمیں ہیں۔

1۔ اعمال صالحہ سے توسل۔ جیسا کہ جلال الدین سیوطی آیہ (و ابتغوا الَیہ الوسیلہ) کے ذیل میں''قتاد ہ ''سے روایت کرتے ہیںکہ۔ تم اطاعت خدا اور عمل صالحہ کے ذریعہ خدا کے نزدیک ہوجائو۔(1)

2۔ نیک اور صالح بندوں کی دعا سے توسل، جیسا کہ قرآن مجید نے جناب یوسف ـ کے بھائیوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

( قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَاإ نَّا کُنَّا خَاطِئِینَ قَالَ سَوْفَ أسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیإ نَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیم) (2)

فرزندان یعقوب نے جناب یعقوب سے کہا: اے بابا جان آپ خدا سے ہمارے گناہوں کی بخشش کی دعا کریں ہم سے خطا ہوگئی یعقوب نے کہا میں جلد ہی اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کروں گا۔ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت یعقوب ـ کے بیٹوں نے جناب یعقوبـ کی دعا و استغفار سے توسل کیا۔ اور اسے اپنی مغفرت کا وسیلہ بنایا اور جناب یعقوب ـ نے بھی نہ صرف یہ کہ ان کے توسل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کے لیے دعا اور استغفار کا وعدہ کیا۔

3۔ قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان افراد سے توسل کرنا جو خدا کے نزدیک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ الدر المنثور، ج2، ص 280۔ (2)۔ سورہ یوسف، آیہ 98، 97۔

۳۱

عزت و وقار اور ایک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں صدر اسلام میں بھی اس طرح کا

توسل مورد قبول تھا اور صحابہ اس پر عمل کرتے تھے۔

اس جگہ پر احادیث، صحابہ اور اکابرین اسلام کی سیرت کی روشنی میں اس مسئلہ کی دلیلیں پیش کر رہے ہیں :

1۔ '' ایک نابینا شخص نے پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آکر کہا کہ آپ(ص) خدا سے ہمارے لیے عافیت کی دعا کریں آپ(ص) نے فرمایا: اگر تم کہو تو میں دعا کردوں اور اگر تاخیر چاہتے ہو تو میں تاخیر کروں، کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔نابینا نے عرض کی: آپ(ص) دعا فرما دیں۔ آنحضرت نے اُسے وضو کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھو اور اس طرح دعا کرو۔ پروردگارا میں تجھ سے نبی رحمت محمد (ص) کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں اور ان کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔ اے اللہ کے رسول (محمد (ص)) میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو رہا ہوں تاکہ وہ میری حاجت فرمائے۔ اور آپ(ص) کو میرا شفیع قرار دے۔(1)

اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن ماجہ نے بھی ابواسحاق سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ ترمذی نے کتاب ''ابواب الادعیہ'' میں اس روایت کی صحت کی تائید کی ہے۔ محمد نسیب الرفاعی ''التوسل الی حقیقة التوسل '' میں نقل فرماتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) مُسند احمد بن حنبل، ج4، ص 138۔ مستدرک حاکم، ج1، ص 313۔ سنن ابن ماجہ، ج1، ص 441۔ التاج، ج1، ص 286۔ الجامع الصغیر، سیوطی، ص 59۔ التوسل والوسیلہ (ابن تیمیہ) ص 98۔

۳۲

ہیں: اس حدیث کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یقینا

روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ رسولِ خدا کی دعا سے ایک نابینا شخص بینا ہوگیا۔(1)

اس روایت سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ حاجت پوری کرنے کے لیے پیغمبر اسلام (ص) سے توسل کرنا جائز ہے بلکہ پیغمبر اسلام (ص) نے تو اس نابینا کو حکم دیا کہ تم اپنے اور خدا کے درمیان اپنے پیغمبر کو وسیلہ قرار دے کر اس سے دعا کرو۔ اسی چیز کا نام اولیاء خدا سے توسل ہے۔

2۔ ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح میںلکھتے ہیں۔

قحط کے زمانے میں عمر بن خطاب پیغمبر کے چچا جناب عباس بن عبد المطلب کے وسیلہ سے طلب باراں کرتے تھے، اور کہتے تھے بار الٰہا، پیغمبر کی حیات میں تو ہم اُن کا وسیلہ ڈھونڈتے تھے اورہم پر بارانِ رحمت نازل ہوتی تھی اب ہم تیرے نبی کے چچا سے متوسل ہوتے ہیں تاکہ تو ہم کو سیراب کردے۔ اور اس طرح لوگ سیراب ہوجایا کرتے تھے۔(2)

3۔توسل کے حوالے سے ''امام شافعی '' کے دو بیت ملاحظہ فرمائیں :

اَلُ النبی ذریعتی هم الیه وسیلتی

ارجوبهم اعطی غداً بیدی الیمین صحیفتی(3)

پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت میرے لیے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور مجھے اُمید ہے کہ ان کی وجہ سے میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ التوصل الی حقیقة التوسل، ص 158۔ (2)۔ صحیح بخاری، جزء 3، کتاب الجمعہ، باب الاستسقائ، ص 67۔ (2)۔ الصواعق المحرقہ (ابن حجر عسقلانی) ص 178۔

۳۳

اولیائے خدا سے توسل کے جواز کے سلسلہ میں روایتیں تو بہت ہیں لیکن ہم نے یہاں

جن روایتوں کو بیان کیا ہے اُن سے سنت پیغمبر، روش صحابہ اور عظیم علماء اسلام کی سیرت کا اندازہ ہوجاتا ہے پھر اس کے بعد اب کلام کو زیادہ طول دینے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔

اس بناء پر ان افراد کے اقوال کا بے بنیاد ہونا اچھی طرح ثابت ہوجاتا ہے جو وسیلہ کو شرک اور بدعت سمجھتے ہیں۔

سوالات

1۔ توسل کے کیا معنی ہیں ؟

2۔توسل کی اقسام بیان کیجئے ؟

3۔توسل کے سلسلے میں کتاب ''صحیح بخاری '' کی روایت بیان کیجئے ؟

4۔توسل سے متعلق ''جناب شافعی '' کا شعر نقل کیجئے ؟

۳۴

درس نمبر 6 ( اولیائے خدا کی ولادت کے دن جشن منانا )

اولیائے خدا کی یاد تازہ کرنا اور ان کی ولادت کے دن جشن میلاد منانا یہ وہ مسئلہ ہے جو صاحبان عقل اور اہل خرد کے نزدیک بہت ہی واضح ہے لیکن ہر طرح کے شبہات کی بیخ کنی کے لیے اس کے جواز کی دلیلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ یاد گار منانا اظہار محبت کا طریقہ ہے۔

قرآن نے مسلمانوں کو پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت ٪ سے مودت کی دعوت دی ہے۔

(قُلْ لاأسْألُکُمْ عَلَیْهِ أجْرًا إلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (1)

اے میرے نبی (ص) آپ ان سے کہہ دیں کہ سوائے اپنے اقرباء کی محبت کے اجر ِ رسالت میں تم سے اور کچھ نہیں مانگتا۔

یقینا اولیاء خدا کی یادگار منانا اُن سے عشق و محبت کی علامت ہے جسے قرآن نے بھی قبول کیا ہے۔

2۔ یادگار منانا پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم ہے۔

( فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی ُنزِلَ مَعَهُ ُوْلَئِکَ هُمْ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ شوریٰ، 23۔

۳۵

الْمُفْلِحُونَ ) (1)

جو لوگ پیغمبر پر ایمان لائے، آپ کی عزت اور مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو

آپ کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ تو یہی لوگ نجات پانے والے اور کامیاب ہیں۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم خدا کی نظر میںایک مطلوب اور پسندیدہ أمر ہے۔ اور ایسے مراسم منعقد کرنا جو پیغمبر اسلام (ص) کی یاد دلائیں اور آپ کے عظیم الشان مقام کو بیان کریں خدا کی خوشنودی اور رضا کا باعث ہیں کیوں کہ اس آیت میں نجات پانے والوں کی چار صفتیں بیان کی گئی ہیں۔

الف۔ الذین آمنو: جو لوگ آنحضرت پر ایمان لائے۔

ب۔ و اتّبعوا النّور الذی انزل معہ: اس نور کی پیروی جو آپ کے ساتھ نازل ہوا۔

ج۔ ونصروہ: آنحضرت (ص) کی نصرت۔

د۔ و عزّروہ: آنحضرت کی تعظیم و تکریم۔

اس بنا پر ایمان، نصرت، احکام کی پیروی کے علاوہ آپ کی تعظیم و تکریم بھی ضروی ہے۔ آپ کی یادگار منانا ''عزروہ'' کے حکم کی بجا آوری ہے۔

3۔ یادگار منانا خدا کی تأسی اورپیروی ہے۔

خداوند عالم نے قرآن مجید میں پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے فرمایا:(وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ) (2) ''اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔ ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ اعراف157 (2)۔ سورہ مبارکہ انشراح، آیت 4۔

۳۶

اس آیت کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت و

جلالت کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے کہ وہ خود بھی قرآن کی بہت سی آیتوں میں آپ

کی شان و شوکت کو بیان کرتا ہے۔

ہم بھی آسمانی کتاب کی پیروی کرتے ہوئے اس اسوہ کمال و فضیلت کی یاد منا کے ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو پروردگار عالم بھی کرتا ہے۔

اور یہ بات بہت واضح سی ہے کہ آپ کی یادگار منانے کے سلسلے میں مسلمانوں کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بلند ہو۔

4۔ نزولِ وحی کا مرتبہ نزولِ مائدہ سے کم نہیں۔

قرآن مجید حضرت عیسیٰ ـ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی اس طرح حکایت کرتا ہے۔

(قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمّ رَبَّنَا أنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وأنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ) (1)

عیسیٰ بن مریم ـ نے کہا: اے پالنے والے ہمارے اوپر آسمان سے ایک خوان نازل فرما تاکہ وہ دن ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے نیز ہمارے حق میں بھی عید قرار پائے۔ اور تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو تو ہمیں روزی دے اور تو سب روزی دینے والوں سے بہتر ہے۔

حضرت عیسیٰ ـ خوان نازل کرنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ لوگ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورہ مائدہ، آیت 114۔

۳۷

عید منائیں۔

اگر ایک نبی اس خوان کے نازل ہونے پر عید مناسکتا ہے جو انسان کی جسمانی لذت

کا باعث ہے تو اب اگر مسلمان وحی کے نازل ہونے یا پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کے دن عید منائیں تو شرک و بدعت کیسے ہے؟ یہ دن تو وہ دن ہے کہ جب انسانوں کو نجات دینے والے اور بشریت کے لیے سرمایہ حیات نے اس دنیا میں قدم رکھا۔

مسلمانوں کی سیرت :

اہل اسلام کا شروع ہی یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی تعظیم و تکریم کی خاطر آپ(ص) کی یاد مناتے رہے ہیں۔

حسین بن محمد یار بکری ''تاریخ الخمیس'' میں لکھتے ہیں :

مسلمان ہمیشہ پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کے مہینے میں جشن مناتے ہیں۔ ولیمہ کرتے ہیں اس مہینے کی راتوں میں صدقہ دیتے ہیں خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں طرح طرح کی نیکیاں کرتے ہیں۔ نعتیں پڑھتے ہیں او اس کی عام رحمتیں اور برکتیں سب پر ظاہر ہوتی ہیں۔(1)

اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیائے خدا کی یادگار منانا قرآن مجید کے بیان اور مسلمانوں کی سیرت کے مطابق جائز ہے لہٰذا جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں ان کے بے بنیاد کلام کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ کیونکہ بدعت وہ چیزیں ہیں جن کا قرآن و سنت سے کلی یا خصوصی جواز ثابت نہ ہو۔ جبکہ مذکورہ مسلہ کا کلی حکم ہمیں قرآن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ تاریخ الخمیس، حسین بن محمد بن حسن دیار بکری، ج1، ص 223۔

۳۸

اور مسلمانوں کی سیرت سے ملتا ہے۔

ان یادگاروں کے قیام کا مقصد خدا کے نیک اور شائستہ بندوں کا احترام ہے ۔پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے محتاج ہیں۔

اس وجہ سے اس طرح کی یادگاریں توحید اور یکتا پرستی کی مخالف نہیں لہٰذا جو لوگ اولیائے خدا کی یاد منانے کو شرک کہتے ہیں ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔

سوالات

1۔ولادت کے دن جشن منانا کس چیز پر دلالت کرتا ہے ؟

2۔کیا ولادت کے دن جشن مناناکاجواز کلی طور پر قرآن سے ثابت ہے ؟

3۔ولادت کے دن جشن وغیرہ مناننے کے سلسلے میں مسلمانوں کی کیا سیرت رہی ہے ؟

۳۹

درس نمبر 7 ( عدم تحریف قرآن )

شیعہ علماء کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ اور موجودہ قرآن وہی آسمانی کتاب ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوئی تھی اس میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ ہی زیادتی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ہم یہاں چند دلیلیں پیش کررہے ہیں :

1۔ پروردگار عالم نے مسلمانوں کی اس آسمانی کتاب کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے(إنا نحن نزّلنا الذکر واِنّا له لحافظون) (1)

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ ساری دنیا کے شیعہ کیوں کہ قرآن کو اپنی فکر اور اپنے عمل کا محور قرار دیتے ہیں لہٰذا اس آیت کے پیغام کی بنا پرقرآن کے محفوظ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔

2۔ شیعوں کے پہلے امام حضرت علی ہمیشہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہتے اور آپ ہی سب سے پہلے کاتب وحی تھے۔ آپ نے مختلف مواقع پر لوگوں کو قرآن کی طرف بلایاایک مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں : (ثُمّ انزل علیه الکتاب نورًا لَآتطغاً مصابیحه، و سراجاً لا یخبوا توقده، و منهاجاً لا یضلّ نهجه---- و فرقاناً لا یخمدبرهانه) (2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ حجر آیت نمبر 9 (2)۔ نہج البلاغہ (صبحی صالحی) خطبہ 198

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204