معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )0%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 29626
ڈاؤنلوڈ: 2175


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 29626 / ڈاؤنلوڈ: 2175
سائز سائز سائز
معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

درس نمبر 14 ( حصہ اول ۔غسل )

بعض اوقات نماز (اور ہر وہ کام،جس کے لئے وضو لازمی ہے)کے لئے غسل کرنا چاہئے، یعنی حکم خدا کو بجالانے کے لئے تمام بدن کو سر سے لیکر پاؤں تک خاص شرائط اور کیفیت کے ساتھ دھوئے ، اب ہم غسل کی اقسام ، اس کے طریقے اور کے مواقع کو بیان کرتے ہیں :

غسل کی اقسام :

غسل جنابت،غسل میت ،غسل مس میت ،غسل نذرو عہد ،غسل حیض،غسل نفاس ا ور غسل استحاضہ (تین آخری غسل عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں )

غسل کرنے کا طریقہ

غسل دوطریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

'' ترتیبی''اور ''ارتماسی''۔

غسل ترتیبی میں پہلے سروگردن کو دھویاجاتا ہے،پھر بدن کا مکمل دایاں حصہ اور اس کے بعد بدن کا مکمل بایاں حصہ دھویا جاتا ہے۔

ارتماسی غسل میں،پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے، لہٰذا غسل ارتماسی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتنا پانی موجود ہو جس میں پورا بدن پانی کے نیچے ڈوب

۸۱

سکے۔

وضاحت :

غسل میں پورا بدن اور سروگردن دھونا چاہئے،خواہ غسل واجب ہو جیسے جنابت یا مستحب جیسے غسل جمعہ اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔فرق صرف نیت کا ہے ۔

چند اہم مسائل :

1۔موالات اوربدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کے علاوہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے بارے میں بیان ہوئے،غسل کے صحیح ہونے میں بھی شرط ہیں۔

2۔جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں تو وہ تمام غسلوں کی نیت سے صرف ایک غسل بجالاسکتا ہے۔

3۔جو شخص غسل جنابت بجالائے،اسے نماز کے لئے وضو نہیں کرنا چاہئے، لیکن دوسرے غسلوں سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔

4۔غسل ارتماسی میں پورا بدن پاک ہونا چاہئے،لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے،اور اگر ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو کافی ہے۔لیکن اگر کوئی عضو غسل سے پہلے پاک نہ ہو اور ایک ہی مرتبہ دھونے سے چاہے کہ وہ بھی پاک ہو جائے اور غسل بھی ہو جائے تو غسل باطل ہے ۔

6۔واجب روزے رکھنے والا،روزے کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ دار کو پورا سر پانی کے نیچے نہیں ڈبوناچاہئے،لیکن اگربھولے سے غسل ارتماسی کر لے تواسکا غسل صحیح ہے۔

7۔غسل میں ضروری نہیں کہ پورے بدن کو ہاتھ سے دھویا جائے،بلکہ غسل کی نیت سے

۸۲

پورے بدن تک پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔

8۔ جب غسل کے دوران حدث اصغر سر زد ہو (مثلاًپیشاب کرے ) تو اس غسل پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور ضروری نہیں کہ غسل کو نئے سرے سے شروع کرے بلکہ اسے جاری رکھے ۔لیکن اگر یہ غسل غسل جنابت ہو تو دیگر غسلوں کی مانند نماز پڑھنے کی خاطر وضو کے لئے اور ان سب اعمال کے لئے جس میں حدث اصغر سے طہارت مشروط ہے کافی نہیں ہوگا ۔

غسل جنابت :

اگر انسان کی منی نکل آئے یا جماع کرے تووہ مجنب ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں اسپرنماز وغیرہ کے لئے غسل جنابت واجب ہو جاتاہے ۔

چند مسائل :

1۔اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہر نہ آئے تو جنابت کا سبب نہیں ہوتا۔

2۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ منی اس سے نکلی ہے یا یہ جانتا ہو کہ جو چیز باہر آئی ہے وہ منی ہے، تو وہ مجنب سمجھا جائے گااور اسے ایسی صورت میں غسل کرنا چاہئے۔

3۔جو شخص یہ نہیں جانتا کہ جو چیز اس سے نکلی ہے،وہ منی ہے یا نہیں، تومنی کی علامت ہونے کی صورت میں مجنب ہے ورنہ حکم جنابت نہیں ہے۔

4۔مستحب ہے انسان منی کے نکلنے کے بعد پیشاب کرے اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد کوئی رطوبت اس سے نکلے،اور نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں تو وہ منی کے حکم میں ہے۔

۸۳

منی کی علامتیں :

٭ شہوت کے ساتھ نکلے ۔

٭ دبائو اور اچھل کر نکلے۔ ٭ باہر آنے کے بعد بدن سست پڑجائے۔

اس لحاظ سے اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہ جانتا ہو کہ یہ منی ہے یا نہیں تو مذکورہ تما م علامتوں کے موجود ہونے کی صورت میں وہ مجنب مانا جائے گا، ورنہ مجنب نہیں ہے، چنانچہ اگر ان علامتوںمیں سے کوئی ایک علامت نہ پائی جاتی ہو اور بقیہ تمام علامتیں موجود ہوں تب بھی وہ مجنب نہیں مانا جائے گا،اس حکم میں عورت اور بیمار شامل نہیں بلکہ ان کے لئے صرف شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا کافی ہے۔

وہ کام جو مجنب پر حرام ہیں :

٭ قرآن مجید کی لکھائی،خداوندعالم کے نام،احتیاط واجب کے طور پر پیغمبروں،ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کو بدن کے کسی حصہ سے چھونا ۔

مسجد الحرام اور مسجد النبی(ص) میں داخل ہونا،اگر چہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل بھی جائے۔

٭ مسجد میں ٹھہرنا۔

٭ مسجد میں کسی چیز کو رکھنا اگر چہ باہر سے ہی ہو۔

٭ قرآن مجید کی جن سورتوںمیں واجب سجدہ ہیں ،انکی مخصوص سجدہ والی آیات کا پڑھنا لیکن ان سورتوں کی دیگر آیات کا پڑھنا جائز ہے ۔

٭ ائمہ علیہم السلام کے حرم میںداخل ہونا کرنا۔

۸۴

قرآن مجید کے وہ سورے جن میں واجب سجدہ ہیں :

( 1 ) 32واں سورہ۔سجدہ۔(آیت 15) (2 ) 41واں سورہ۔فصلت۔(آیت 37)(3)53واں سورہ۔نجم۔ ( آیت 62) (4)96واں سورہ۔ علق۔(آیت 19 )

غسل میت :

1۔اگر کوئی مومن اس دنیا سے چلا جائے،تو تمام مکلفین پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں،کفن دیں،اس پر نماز پڑھیں اور پھر اسے دفن کریں، لیکن اگر اس کام کو بعض افراد انجام دے دیں تو دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔

2۔میت کو درج ذیل تین غسل دینا واجب ہیں :

اول:سدر (بیری ) کے پانی سے۔

دوم:کافور کے پانی سے۔

سوم:خالص پانی سے۔

غسل مس میت :

1۔اگر کوئی شخص اپنے بدن کے کسی ایک حصہ کو ایسے مردہ انسان سے مس کرے جو سرد ہوچکا ہو اور اسے ابھی غسل نہ دیا گیا ہو،تو اسے غسل مس میت کرنا چاہئے۔

2۔درج ذیل مواقع پر مردہ انسان کے بدن کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا :

٭ انسان میدان جہاد میں درجہ شہادت پر فائز ہوچکاہو اور میدان جہاد میں ہی جان دے چکا ہو۔

٭ وہ مردہ انسان جس کا بدن گرم ہو اور ابھی سرد نہ ہوا ہو۔

٭ وہ مردہ انسان جسے غسل دیا گیا ہو۔

۸۵

3۔غسل مس میت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا چاہئے،لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو،اور نماز پڑھنا چاہے تو اسے وضو بھی کرنا چاہئے۔

عورتوں کے مخصوص غسل:(حیض،نفاس و استحاضہ ):

1۔عورت،بچے کی پیدائش پر جو خون دیکھتی ہے،اسے خون نفاس کہتے ہیں۔

2۔عورت،اپنی ماہانہ عادت کے دنوں میں جو خون دیکھتی ہے،اسے خون حیض کہتے ہیں۔

3۔جب عورت خون حیض اور نفاس سے پاک ہوجائے تو نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے ان کے لئے غسل کرے۔

4۔ایک اور خون جسے عورتیں دیکھتی ہیں،استحاضہ ہے اور بعض مواقع پر اس کے لئے بھی نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے اُن کے لئے غسل کرنا چاہئے۔مذید تفصیل کے لئے فقہ کی مفصل کتابیں ملاحظہ فرمائیں ۔

سوالات:

1۔غسل کی اقسام بیان کیجئے؟

2۔غسل ترتیبی کیسے انجام پاتا ہے؟

3۔کیا اس پانی میں غسل ارتماسی انجام دیا جاسکتا ہے،جو کر سے کم ہو؟

4۔نیت غسل کی وضاحت کیجئے؟

5۔ غسل جنابت کب واجب ہوتا ہے ۔

6۔ مجنب پر کونسے کام حرام ہیں؟

۸۶

حصہ دوم ( تیمم )

( وضو اور غسل کا بدل ہے )

وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا جائز ہے۔

٭ جوچیزبھی زمین میں سے شمار ہومثلاًمٹی ،بجری ،ریت،مٹی کے ڈھیلے ،پتھر (سنگ گچ،سنگ آہک ،سنگ سیاہ سرمہ کا پتھر وغیرہ)پر تیمم صحیح ہے ۔اسی طرح چونااور اینٹ اور اس طرح کی دیگر چیزوں پر صحیح ہے۔سیمنٹ اور ٹائلوں پر تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط (مستحب) یہ کہ ان پر تیمم نہکیا جائے ۔

٭ تیمم کیسے کیا جائے؟

تیمم کے اعمال: 1۔دونوں ہاتھوں کی،ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا،جس پر تیمم صحیح ہو۔

1۔دونوں ہاتھوں کی،ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا،جس پر تیمم صحیح ہو۔

2۔دونوں ہاتھوں کو سر کے بال اگنے کی جگہ سے بھوئو ں کے سمیت پیشانی کے دونوں طرف کھینچ کرناک کے اوپرتک لے آنا۔

3۔بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا۔

4۔دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا۔

تیمم کے تمام اعمال کو تیمم کی نیت اور حکم الٰہی کی اطاعت کے قصد سے انجام دینا او راس بات کا بھی خیال رکھنا کہ تیمم وضو کے بدلے ہے یا غسل کے بدلے۔

۸۷

درج ذیل مواقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا چاہئے :

1۔پانی مہیا نہ ہو یا پانی تک رسائی نہ ہو۔

2۔پانی اس کے لئے مضر ہو(مثال کے طور پر،پانی کے استعمال سے کسی بیمار ی میں مبتلا ہو جائے )

3۔اگر پانی کو وضو یا غسل کے لئے استعمال کرے تو،خود یااس کے بیوی بچے یا دوست یا اس سے مربوط افراد تشنگی کی وجہ سے مرجائیں یا بیمار ہوجائیں(حتی ایسا حیوان بھی جو اس کے پاس ہو )

4۔بدن یا لباس نجس ہو اور پانی اتنا ہو کہ صرف ان کو پاک کرسکے اور دوسرا لباس بھی نہ ہو۔

5۔وضو یا غسل کرنے کے لئے وقت نہ ہو۔

کچھ مسائل :

1۔وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم اور غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں نیت کے علاوہ کسی چیز میں فرق نہیں ہے۔

2۔جس شخص نے وضو کے بدلے تیمم کیا ہو،اگر وضو کو باطل کرنے والی چیزوں سے کوئی چیز اس سے سرزد ہوجائے تو اس کا تیمم باطل ہوگا۔

3۔اگر کوئی شخص غسل کے بدلے تیمم کرے تو غسل کو باطل کرنے والے اسباب میں سے کسی کے سرزد ہونے پر اس کا تیمم باطل ہوگا۔

4۔تیمم اس صورت میں صحیح ہے کہ وضو یا غسل کرنا ممکن نہ ہو۔ اس لئے اگر کسی عذر کے بغیر تیمم کرے تو صحیح نہیں ہے اور اگر عذر بر طرف ہوجائے،مثلاًپانی نہ تھا اور اب پانیموجود ہے تو اس صورت میں تیمم باطل ہے۔

۸۸

5۔اگر غسل جنابت کے لئے تیمم کیا گیا ہو تو ضروری نہیں نماز کے لئے وضو کیا جائے لیکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے میں تیمم کیا گیا ہو تو اس تیمم سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی ہے بلکہ نماز کے لئے الگ سے وضو کرنا چاہئے اور اگر وضو کرنا اس کے لئے مشکل ہو تو وضو کے بدلے ایک اور تیمم انجام دے۔

تیمم کے صحیح ہونے کے شرائط :

٭ اعضائے تیمم یعنی پیشانی اور ہاتھ پاک ہوں۔

٭ پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کیا جائے۔

٭ وہ چیز ، جس پر تیمم کیا جارہا ہے وہ پاک اور مباح ہونا چاہئے۔

٭ ترتیب کی رعایت کریں۔

٭ موالات کی رعایت کریں۔

٭ مسح کرتے وقت ہاتھ اور پیشانی کے درمیان نیز اسی طرح ہاتھ اور ہاتھ کی پشت کے درمیان مانع نہ ہو۔

٭ تیمم کے کاموں کو خود انجام دے (مباشرت )

سوالات:

1۔کن چیزوںپر تیمم کرنا جائز ہے؟

2۔کن مواقع پر وضو اور غسل کے بدلے میں تیمم کیا جاسکتا ہے؟

3 تیمم کیسے کیا جاتا ہے ؟

4۔تیمم کے صحیح ہونے کے شرائط کیا ہیں ؟

۸۹

درس نمبر15 ( نماز )

نماز کے مسائل و احکام سے آگاہی کے لئے سب سے پہلے اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ نماز یا واجب ہے یا مستحب ،واجب نمازیںجیسے نمازیومیہ،نماز آیات ،نمازمیت، نمازطواف خانہ کعبہ ،نماز قضائے والدین ،نماز نذر وقسم اور عہدواجارہ ۔اور مستحب نمازیں جیسے نوافل یومیہ ،نماز شب وغیرہ

چند اہم مسائل :

1۔واجب نمازوں میں یومیہ نمازوں کے علاوہ باقی نمازوںکا وقت معین نہیں ہوتا بلکہ ان کے انجام کا وقت اس زمانے سے مربوط ہوتا ہے جس کے سبب و ہ نماز واجب ہوجاتی ہے۔

مثلاً:نماز آیات کا تعلق زلزلہ،سورج گرہن،چاند گرہن یا حادثہ کے وجود میں آنے سے ہوتا ہے،او رنماز میت،اس وقت واجب ہوتی ہے جب کوئی مسلمان اس دنیا سے چلا جائے۔

2۔ا گر پوری نماز کو وقت سے پہلے پڑھا جائے یا نماز کو عمداً وقت سے پہلے شروع کیا جائے تو نماز باطل ہے۔

اگر نماز کو اپنے وقت کے اندر پڑھا جائے تو اسے احکام کی اصطلاح میں ''ادا'' کہتے ہیں۔

اگر نماز کو وقت کے بعد پڑھا جاے تو اسے احکام کی اصطلاح میں ''قضا'' کہتے ہیں۔

۹۰

3۔مستحب ہے کہ انسان نماز کو اول وقت میں پڑھے،اور جتنا اول وقت کے نزدیک تر

ہو بہتر ہے،مگر یہ کہ نماز میں تاخیر کرنا کسی وجہ سے بہتر ہو،مثلاً انتظار کرے تا کہ نماز کو با جماعت پڑھے۔

4۔اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز گزار اگر مستحبات کو بجالائے تو نماز کا کچھ حصہ بعد از وقت پڑھا جائے گا،تو مستحبات کوبجا نہ لائے،مثلاً اگر قنوت پڑھنا چاہے تو نماز کا وقت گزر جائے گا، تو اس صورت میں قنوت کو نہ پڑھے۔

نماز میں بدن کو ڈھانپنا :

1۔مردوں کو اپنی دونوں شرمگاہوں کو چھپانا چاہئے اور بہتر ہے ناف سے زانو تک چھپایا جائے۔

2۔عورتوں کو درج ذیل اعضاء کے علاوہ اپنا پورا بدن ڈھانپنا چاہئے :

٭ ہاتھوں کو کلائی تک۔

٭ پائوں کو ٹخنوں تک۔

٭ چہرے کو وضو میں دھوئی جانے والی مقدار تک۔

4۔نماز گزار کے لباس میں درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے :

٭ پاک ہو(نجس نہ ہو )

٭ مباح ہو(غصبی نہ ہو )

٭ مردار کے اجزاء کا بنا ہوا نہ ہو۔(3) مثلاً ایسے حیوان کی کھال کا بنا ہوا نہ ہو،جسے اسلامی دستورات کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو،حتی کمر بند اور ٹوپی بھی اس کی بنی ہوئی نہ ہو۔

۹۱

٭ مردوں کا لباس سونے یاخالص ابریشم کا بنا ہوا نہ ہو۔

چند مسائل :

1۔اگر نماز گزار کا دستانہ،یا موزہ نجس ہو یا پھرایک چھوٹا نجس رومال اسکی جیب میں ہو،اور یہ چیزیں حرام گوشت مردار کے اجزاء سے بنی ہوئی نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے

2۔نماز میں عبا،سفید اور پاکیزہ لباس پہننا،خوشبو کا استعمال کرنا اور عقیق کی انگوٹھی پہننا مستحب ہے۔

3۔کالے، گندے، تنگ اور نقش ونگار والے کپڑے پہننا اور نماز میں لباس کے بٹن کھلے رکھنا مکروہ ہے ۔

نماز گزار کی جگہ کے شرائط :

جس جگہ پر نماز گزار نماز پڑھتا ہے،اس کے درج ذیل شرائط ہونے چاہئے :

٭ مباح ہو(غصبی نہ ہو )

٭ بے حرکت ہو(گاڑی کی طرح حرکت کی حالت میں نہ ہو )

٭ اس پر ٹھرنا حرام نہ ہو (مثلاًایسی جگہ جہاں اسکی جان کو خطرہ ہو یا اسکے کھڑے ہونے کی جگہ پر نام ِاللہ یا قرآنی آیات تحریر ہوں ۔ )

٭( سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔

٭ نماز گزار کی جگہ اگر نجس ہو تو اس قدر تر نہ ہو کہ نجاست بدن یا لباس میں سرایت کر جائے۔

٭ سطح ہموار ہو (سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ زانو سے اور پائوں کی انگلیوں سے،ملی ہوئی چار انگلیوں سے پست تر یا بلند تر نہ ہو۔

۹۲

٭ پیغمبر (ص)اور امام(ع) کی قبر کے آگے نہ ہو۔

٭ احتیاط واجب کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہونا چاہے برابر میں کھڑے ہوں یا آگے پیچھے ۔

سوالات:

1۔اگر نماز کو وقت کے بعد پڑھا جاے تو اسے احکام کی اصطلاح میںکیا کہتے ہیں۔

2۔نماز آیات کے واجب ہونے کے دو سبب بیان کیجئے؟

3۔نماز گزار کے لباس کے شرائط کیا ہیں؟

4۔اگر نماز پڑھنے کے بعد متوجہ ہوجائے کہ اس کا لباس نجس تھا تو اس کا کیا حکم ہے؟

5۔اگرنماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ اس کا لباس نجس ہے تو تکلیف کیا ہے؟

6۔کیا دوران سفرہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں نمازپڑی جاسکتی ہے؟

7۔جانمازاگر نجس ہو جائے تو کیا اسپرنماز پڑھی جاسکتی ہے ۔؟

۹۳

درس نمبر16 ( واجبات نماز )

1۔''اﷲ اکبر''،کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور سلام کی ادائیگی سے اختتام کو پہنچتی ہے۔

2۔جو کچھ نماز میں انجام پاتا ہے یا واجب ہے،یا مستحب ۔

3۔واجبات نماز گیارہ ہیں،(نیّت ،تکبیرة الاحرام ،قیام ،قرائت ،رکوع ،سجدہ ،ذکر،تشہد ،سلام ترتیب ،موالات)ان میں سے بعض رکن (نیّت ،تکبیرة الاحرام ،قیام (تکبیرةالاحرام کہتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت )رکوع ،دوسجدے )ا و ربعض غیر رکن ہیں۔

رکن وغیر رکن میں فرق :

ارکان نماز،نماز کے بنیادی اجزاء میں شمار ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں سے کسی ایک کو اگر نہ بجالایا گیا یا اس میں اضافہ کیا گیا،اگر چہ فراموشی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو،تو نماز باطل ہے۔

دوسرے واجبات (غیر رکنی)کو اگرچہ انجام دینالازم اور ضروری ہے لیکن اگر فراموشی سے ان میں کم یا زیادہ ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہے۔

۹۴

واجبات نماز کے احکام :

1۔نیت:1۔نماز گزار کو نماز کی ابتداء سے انتہا تک یہ جاننا چاہئے کہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے اور اسے خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے پڑھنا چاہئے۔

2۔نیت کو زبان پر لانے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر زبان پر لائی بھی جائے تو کوئی مشکل نہیں۔

2۔تکبیرة الاحرام:جیسا کہ بیان ہواہے''اللہ اکبر''کہنے سے نمازشروع ہوتی ہے اسے ''تکبیرة الاحرام''کہتے ہیں، کیونکہ اسی تکبیر کے کہنے سے بہت سے وہ کام جو نماز سے پہلے جائز تھے،نماز گزار پر حرام ہوجاتے ہیں :

جیسے :کھانا،پینا،ہنسنا اور روناوغیرہ

تکبیرة الاحرام کے واجبات :

1۔صحیح عربی تلفظ میں کہی جائے۔

2۔''اﷲ اکبر'' کہتے وقت بدن سکون میں ہو۔

3۔تکبیرة الاحرام کو ایسے کہنا چاہئے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خودسن سکے،یعنی بہت آہستہ نہیںکہنا چاہئے۔

3۔قیام:قیام یعنی کھڑا رہنا،بعض مواقع پر قیام ارکان نماز میںسے ہے اور اس کا تر ک کرنانماز کو باطل کردیتا ہے،لیکن جو افراد کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے معذور ہوں ان کا حکم جدا ہے،۔

٭قیام کے دورا ن جسم پر سکون ہو،کسی ایک طرف نمایاں طور پر جھکا ہوا نہ ہو ،کسی چیز کا سہارانہ لیا ہوا ہو ۔

۹۵

4۔قرأت :

پہلی اور دوسری رکعت میں سورۂ حمد اور کسی دوسرے سورے کے پڑھنے اور تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ حمد یا تسبیحات اربعہ کے پڑھنے کوقرأت'' کہتے ہیں۔

قرأت کے چند احکام :

1۔ تیسری اور چوتھی رکعت کی قرأت کو آہستہ (اخفات کے طور پر) پڑھنا چاہئے، لیکن پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بارے میں حکم حسب ذیل ہے :

اگر نمازگزار مرد ہو تو نمازصبح اور مغرب وعشاء بلند آواز سے اور نمازظہرو عصر آہستہ آواز

سے پڑھے گا۔نمازظہر اور عصر کے لئے عورت کا بھی یہی حکم ہے ،لیکن نمازصبح اور مغرب

وعشاء اس صورت میں بلنداور آہستہ آواز میں پڑھ سکتی ہے ۔لیکن اگر کوئی نامحرم اسکی آوز سن رہا ہوتو بہتر ہے آہستہ پڑھے ۔

2۔ اگر نماز بلند پڑھنے کی جگہ عمداً آہستہ پڑھی جائے یاآہستہ پڑھی جانے کی جگہ عمداً بلند پڑھی جائے تو نماز باطل ہے، لیکن بھولے سے یا مسئلہ کو نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو نماز صحیح ہے۔

4۔بلند اور آہستہ آواز میں پڑھنے کا وجوب حمد و سورہ کی قرائت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن ذکرِرکوع ،سجدہ تشہد سلام اور دیگر واجب اذکار میں مکلّف بلند یاآہستہ پڑھنے میں مخیّر ہے ۔

5۔واجب نمازوں میں جہر و اخفات کا وجوب ادا اور قضا دونوں نمازوں میں ہے

اگرچہ نمازِقضااحتیاطی ہو ۔

۹۶

6۔اخفات(آہستہ پڑھنے )کا معیار آواز کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ معیا ر آواز کا آشکار اور واضح نہ کرنا ہے ۔اس کے مقابل جہر (بلند )پڑھنے کا معیار آواز کا آشکار اور واضح کرنا ہے ۔

7۔اگر کوئی حمد و سورہ پڑھتے وقت معمول سے زیادہ آواز کو بلند کرے مثلاًیہ کہ اسے فریاد کے ساتھ پڑھے تو اسکی نماز باطل ہے ۔

8۔ اگر سورۂ حمد پڑھتے ہوئے سمجھے کہ غلطی کی ہے (مثلاً بلند پڑھنے کے بجائے آہستہ پڑھی ہو) تو ضروری نہیں ہے پڑھے ہوئے حصہ کو دوبارہ پڑھے۔

5۔ذکر: یہاں ذکرسے مراد اللہ تعالی ٰ کی یاد پر مشتمل وہ جملے ہیں جو رکوع اور سجود میں کہے جاتے ہیں ۔

٭ ذکر اس انداز میں پڑھے کہ جو جملے ادا کررہا ہے انکا تلفّظ محسوس ہو اور اس کی علامت یہ کہ جو کچھ پڑھ رہا ہے اور زبان پر جاری کررہا ہے اگر خود بہرا نہیں ہے اور ماحول میں شور شرابا نہیں ہے تو اسے خود سن سکے ۔

٭ذکر صحیح عربی اور سکون و قرار کی حالت میں پڑھے جائیں ۔

6۔رکوع:۔ نماز گزار کو ہر رکعت میں قرأت کے بعد اس قدر خم ہونا چاہئے کہ اس کے ہاتھ زانو تک پہنچ جائیں اور اس عمل کو '' رکوع'' کہتے ہیں ۔

٭ذکر رکوع میں ذکر واجب ایک مرتبہ '' سبحان ربیّ العظیم وبحمدہ'' یا تین مرتبہ ''سبحان اللہ''کہنا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر اسی مقدار میں کہے تو کافی ہے۔

٭۔ رکوع میں واجب ذکر پڑھنے کی مقدار میں بدن سکون میں ہونا چاہئے۔

۹۷

٭ذکر رکوع ختم ہونے کے بعد بلند ہونا چاہئے اور اس کے بعد بدن آرام پائے اور پھر سجدہ میں جانا چاہئے اور اگر بلند ہونے سے پہلے یا بلند ہوکر آرام پانے سے پہلے عمدا سجدہ میںجائے تو نماز باطل ہے۔

7۔سجود:1۔ نماز گزار کو واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں، رکوع کے بعد دوسجدے بجالانے چاہئیں۔

2۔پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پائوں کے دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں۔

ذکرسجدہ میں ذکر واجب ایک مرتبہ'' سبحان ربیّ العظیم وبحمده'' یا تین مرتبہ ''سبحان اللہ''کہنا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر اسی مقدار میں کہے تو کافی ہے۔

4۔ سجدہ میں ذکر سجدہ پڑھنے کے بقدر بدن کا سکون میں ہونا ضروری ہے۔

5۔اگر سجدہ کرتے وقت پیشانی سجدہ کی جگہ سے ٹکرا کر بے اختیاری کی حالت میں زمین سے بلند ہو جائے تو پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھ دے اور ذکر سجدہ پڑھے ،یہ ایک سجدہ شمار ہوگا ۔

6۔معدن (جیسے سونا چاندی )اور جو چیزیں کھا نے ،پینے اور لباس کے طور پر استعما ل نہ ہو سب پر سجدہ صحیح ہے ۔

8۔تشہد : دوسری رکعت اور واجب نمازوں کی آخری رکعت میں، نماز گزار کو دوسرے

سجدے کے بعد بیٹھنا چاہئے اوربدن کے سکون میں آنے کے بعد تشہد پڑھنا چاہئے، یعنی کہے :

۹۸

'' أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ''

9۔سلام:1۔ہر نمازکی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھ کر نماز کو ختم کرنا چاہئے۔

2۔سلام کی واجب مقدار ''السلام علیکم''اوربہتر ہے کہ''ورحمةاللہ وبرکاتہ'' کا اضافہ کرے یا کہے ''السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین ''

اور مستحب ہے کہ مذکورہ دوسلاموں سے پہلے یہ کہے ۔

'' السلام علیک ایھا النبی ورحمة اﷲ وبرکاتہ ''.

10۔ترتیب:نماز کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے: تکبیرة الاحرام ، قرأت، رکوع، سجود اور دوسری رکعت میں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھے اور آخری رکعت میںسجدوں کے بعد، تشہدپڑھے اور آخری رکعت میں ، تشہد کے بعد، سلام کہے۔

11۔موالات:1۔ ، یعنی نماز کے اجزاء کو یکے بعد دیگر ے انجام دینا اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ڈالنا۔

2۔اگر اجزائے نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ کہا جائے یہ شخص نماز نہیں پڑھا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مبطلات نماز:جب نماز گزار تکبیرةالاحرام کہتا ہے اور نماز کو شروع کرتا ہے تو اس کے خاتمہ تک بعض کام اس پر حرام ہوجاتے ہیں، چنانچہ اگر نماز میں ان میںسے کوئی کام

انجام دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی ،وہ امور حسب ذیل ہیں :

1۔جن چیزوں کا نماز میں خیال رکھنا ضروری ہے مثلاًواجب ستر (لباس )یا مکان کا

۹۹

غصبی نہ ہونا وغیرہ میں سے کسی ایک کا ختم ہوجانا ۔ 2۔ہاتھ باندھ کے نمازپڑھنا

3۔کھانا ، پینا۔4۔بات کرنا۔5۔ہنسنا۔ 6۔رونا 7۔قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا۔

8۔ ارکان نماز میں کمی وبیشی کرنا۔9۔حمد کے بعد آمین کہنا 10۔وضو کا باطل ہونا۔

11۔نماز کی شکل وصورت کا ختم ہوجانا مثلاًاچھل کودکرناوغیرہ

12۔ایسے شک میں مبتلا ہوجانا جو شک نمازکو باطل کردیتے ہیں ۔جیسے دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعات میں شک

سوالات

1۔ارکان نماز کو بیان کیجئے اور رکن وغیر رکن میں کیا فرق ہے؟

2۔نماز کے پہلے''اﷲ اکبر'' کو کیوں تکبیرة الاحرام کہتے ہیں؟

3۔نیت کی وضاحت کیجئے؟

4۔رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے قیام کی وضاحت کر کے ان کے فرق کو بیان کیجئے؟

5قرأت کیا ہے؟وضاحت کیجئے۔؟

6۔ کیا حمد اور سورہ کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے؟

7۔ رکوع اور ذکر رکوع میں کیا فرق ہے؟

9۔کیا رکوع کے بعد کھڑاہونا واجب ہے؟

۱۰۰