معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) جلد ۲

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق )18%

معارف اسلامی کورس (عقائد، احکام،اخلاق ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 204

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33169 / ڈاؤنلوڈ: 3139
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

درس نمبر ۱۴ ( حصہ اول ۔غسل )

بعض اوقات نماز (اور ہر وہ کام،جس کے لئے وضو لازمی ہے)کے لئے غسل کرنا چاہئے، یعنی حکم خدا کو بجالانے کے لئے تمام بدن کو سر سے لیکر پاؤں تک خاص شرائط اور کیفیت کے ساتھ دھوئے ، اب ہم غسل کی اقسام ، اس کے طریقے اور کے مواقع کو بیان کرتے ہیں :

غسل کی اقسام :

غسل جنابت،غسل میت ،غسل مس میت ،غسل نذرو عہد ،غسل حیض،غسل نفاس ا ور غسل استحاضہ (تین آخری غسل عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں )

غسل کرنے کا طریقہ

غسل دوطریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے :

'' ترتیبی''اور ''ارتماسی''۔

غسل ترتیبی میں پہلے سروگردن کو دھویاجاتا ہے،پھر بدن کا مکمل دایاں حصہ اور اس کے بعد بدن کا مکمل بایاں حصہ دھویا جاتا ہے۔

ارتماسی غسل میں،پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے، لہٰذا غسل ارتماسی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتنا پانی موجود ہو جس میں پورا بدن پانی کے نیچے ڈوب

۸۱

سکے۔

وضاحت :

غسل میں پورا بدن اور سروگردن دھونا چاہئے،خواہ غسل واجب ہو جیسے جنابت یا مستحب جیسے غسل جمعہ اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔فرق صرف نیت کا ہے ۔

چند اہم مسائل :

۱۔موالات اوربدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کے علاوہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے بارے میں بیان ہوئے،غسل کے صحیح ہونے میں بھی شرط ہیں۔

۲۔جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں تو وہ تمام غسلوں کی نیت سے صرف ایک غسل بجالاسکتا ہے۔

۳۔جو شخص غسل جنابت بجالائے،اسے نماز کے لئے وضو نہیں کرنا چاہئے، لیکن دوسرے غسلوں سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔

۴۔غسل ارتماسی میں پورا بدن پاک ہونا چاہئے،لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے،اور اگر ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو کافی ہے۔لیکن اگر کوئی عضو غسل سے پہلے پاک نہ ہو اور ایک ہی مرتبہ دھونے سے چاہے کہ وہ بھی پاک ہو جائے اور غسل بھی ہو جائے تو غسل باطل ہے ۔

۶۔واجب روزے رکھنے والا،روزے کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ دار کو پورا سر پانی کے نیچے نہیں ڈبوناچاہئے،لیکن اگربھولے سے غسل ارتماسی کر لے تواسکا غسل صحیح ہے۔

۷۔غسل میں ضروری نہیں کہ پورے بدن کو ہاتھ سے دھویا جائے،بلکہ غسل کی نیت سے

۸۲

پورے بدن تک پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔

۸۔ جب غسل کے دوران حدث اصغر سر زد ہو (مثلاًپیشاب کرے ) تو اس غسل پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور ضروری نہیں کہ غسل کو نئے سرے سے شروع کرے بلکہ اسے جاری رکھے ۔لیکن اگر یہ غسل غسل جنابت ہو تو دیگر غسلوں کی مانند نماز پڑھنے کی خاطر وضو کے لئے اور ان سب اعمال کے لئے جس میں حدث اصغر سے طہارت مشروط ہے کافی نہیں ہوگا ۔

غسل جنابت :

اگر انسان کی منی نکل آئے یا جماع کرے تووہ مجنب ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں اسپرنماز وغیرہ کے لئے غسل جنابت واجب ہو جاتاہے ۔

چند مسائل :

۱۔اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہر نہ آئے تو جنابت کا سبب نہیں ہوتا۔

۲۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ منی اس سے نکلی ہے یا یہ جانتا ہو کہ جو چیز باہر آئی ہے وہ منی ہے، تو وہ مجنب سمجھا جائے گااور اسے ایسی صورت میں غسل کرنا چاہئے۔

۳۔جو شخص یہ نہیں جانتا کہ جو چیز اس سے نکلی ہے،وہ منی ہے یا نہیں، تومنی کی علامت ہونے کی صورت میں مجنب ہے ورنہ حکم جنابت نہیں ہے۔

۴۔مستحب ہے انسان منی کے نکلنے کے بعد پیشاب کرے اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد کوئی رطوبت اس سے نکلے،اور نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں تو وہ منی کے حکم میں ہے۔

۸۳

منی کی علامتیں :

٭ شہوت کے ساتھ نکلے ۔

٭ دبائو اور اچھل کر نکلے۔ ٭ باہر آنے کے بعد بدن سست پڑجائے۔

اس لحاظ سے اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہ جانتا ہو کہ یہ منی ہے یا نہیں تو مذکورہ تما م علامتوں کے موجود ہونے کی صورت میں وہ مجنب مانا جائے گا، ورنہ مجنب نہیں ہے، چنانچہ اگر ان علامتوںمیں سے کوئی ایک علامت نہ پائی جاتی ہو اور بقیہ تمام علامتیں موجود ہوں تب بھی وہ مجنب نہیں مانا جائے گا،اس حکم میں عورت اور بیمار شامل نہیں بلکہ ان کے لئے صرف شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا کافی ہے۔

وہ کام جو مجنب پر حرام ہیں :

٭ قرآن مجید کی لکھائی،خداوندعالم کے نام،احتیاط واجب کے طور پر پیغمبروں،ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کو بدن کے کسی حصہ سے چھونا ۔

مسجد الحرام اور مسجد النبی(ص) میں داخل ہونا،اگر چہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل بھی جائے۔

٭ مسجد میں ٹھہرنا۔

٭ مسجد میں کسی چیز کو رکھنا اگر چہ باہر سے ہی ہو۔

٭ قرآن مجید کی جن سورتوںمیں واجب سجدہ ہیں ،انکی مخصوص سجدہ والی آیات کا پڑھنا لیکن ان سورتوں کی دیگر آیات کا پڑھنا جائز ہے ۔

٭ ائمہ علیہم السلام کے حرم میںداخل ہونا کرنا۔

۸۴

قرآن مجید کے وہ سورے جن میں واجب سجدہ ہیں :

( ۱ ) ۳۲واں سورہ۔سجدہ۔(آیت ۱۵) (۲ ) ۴۱واں سورہ۔فصلت۔(آیت ۳۷)(۳)۵۳واں سورہ۔نجم۔ ( آیت ۶۲) (۴)۹۶واں سورہ۔ علق۔(آیت ۱۹ )

غسل میت :

۱۔اگر کوئی مومن اس دنیا سے چلا جائے،تو تمام مکلفین پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں،کفن دیں،اس پر نماز پڑھیں اور پھر اسے دفن کریں، لیکن اگر اس کام کو بعض افراد انجام دے دیں تو دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔

۲۔میت کو درج ذیل تین غسل دینا واجب ہیں :

اول:سدر (بیری ) کے پانی سے۔

دوم:کافور کے پانی سے۔

سوم:خالص پانی سے۔

غسل مس میت :

۱۔اگر کوئی شخص اپنے بدن کے کسی ایک حصہ کو ایسے مردہ انسان سے مس کرے جو سرد ہوچکا ہو اور اسے ابھی غسل نہ دیا گیا ہو،تو اسے غسل مس میت کرنا چاہئے۔

۲۔درج ذیل مواقع پر مردہ انسان کے بدن کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا :

٭ انسان میدان جہاد میں درجہ شہادت پر فائز ہوچکاہو اور میدان جہاد میں ہی جان دے چکا ہو۔

٭ وہ مردہ انسان جس کا بدن گرم ہو اور ابھی سرد نہ ہوا ہو۔

٭ وہ مردہ انسان جسے غسل دیا گیا ہو۔

۸۵

۳۔غسل مس میت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا چاہئے،لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو،اور نماز پڑھنا چاہے تو اسے وضو بھی کرنا چاہئے۔

عورتوں کے مخصوص غسل:(حیض،نفاس و استحاضہ ):

۱۔عورت،بچے کی پیدائش پر جو خون دیکھتی ہے،اسے خون نفاس کہتے ہیں۔

۲۔عورت،اپنی ماہانہ عادت کے دنوں میں جو خون دیکھتی ہے،اسے خون حیض کہتے ہیں۔

۳۔جب عورت خون حیض اور نفاس سے پاک ہوجائے تو نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے ان کے لئے غسل کرے۔

۴۔ایک اور خون جسے عورتیں دیکھتی ہیں،استحاضہ ہے اور بعض مواقع پر اس کے لئے بھی نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے اُن کے لئے غسل کرنا چاہئے۔مذید تفصیل کے لئے فقہ کی مفصل کتابیں ملاحظہ فرمائیں ۔

سوالات:

۱۔غسل کی اقسام بیان کیجئے؟

۲۔غسل ترتیبی کیسے انجام پاتا ہے؟

۳۔کیا اس پانی میں غسل ارتماسی انجام دیا جاسکتا ہے،جو کر سے کم ہو؟

۴۔نیت غسل کی وضاحت کیجئے؟

۵۔ غسل جنابت کب واجب ہوتا ہے ۔

۶۔ مجنب پر کونسے کام حرام ہیں؟

۸۶

حصہ دوم ( تیمم )

( وضو اور غسل کا بدل ہے )

وہ چیزیں جن پر تیمم کرنا جائز ہے۔

٭ جوچیزبھی زمین میں سے شمار ہومثلاًمٹی ،بجری ،ریت،مٹی کے ڈھیلے ،پتھر (سنگ گچ،سنگ آہک ،سنگ سیاہ سرمہ کا پتھر وغیرہ)پر تیمم صحیح ہے ۔اسی طرح چونااور اینٹ اور اس طرح کی دیگر چیزوں پر صحیح ہے۔سیمنٹ اور ٹائلوں پر تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط (مستحب) یہ کہ ان پر تیمم نہکیا جائے ۔

٭ تیمم کیسے کیا جائے؟

تیمم کے اعمال: ۱۔دونوں ہاتھوں کی،ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا،جس پر تیمم صحیح ہو۔

۱۔دونوں ہاتھوں کی،ہتھیلیوں کو ایک ساتھ ایسی چیز پر مارنا،جس پر تیمم صحیح ہو۔

۲۔دونوں ہاتھوں کو سر کے بال اگنے کی جگہ سے بھوئو ں کے سمیت پیشانی کے دونوں طرف کھینچ کرناک کے اوپرتک لے آنا۔

۳۔بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا۔

۴۔دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر کھینچنا۔

تیمم کے تمام اعمال کو تیمم کی نیت اور حکم الٰہی کی اطاعت کے قصد سے انجام دینا او راس بات کا بھی خیال رکھنا کہ تیمم وضو کے بدلے ہے یا غسل کے بدلے۔

۸۷

درج ذیل مواقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم کرنا چاہئے :

۱۔پانی مہیا نہ ہو یا پانی تک رسائی نہ ہو۔

۲۔پانی اس کے لئے مضر ہو(مثال کے طور پر،پانی کے استعمال سے کسی بیمار ی میں مبتلا ہو جائے )

۳۔اگر پانی کو وضو یا غسل کے لئے استعمال کرے تو،خود یااس کے بیوی بچے یا دوست یا اس سے مربوط افراد تشنگی کی وجہ سے مرجائیں یا بیمار ہوجائیں(حتی ایسا حیوان بھی جو اس کے پاس ہو )

۴۔بدن یا لباس نجس ہو اور پانی اتنا ہو کہ صرف ان کو پاک کرسکے اور دوسرا لباس بھی نہ ہو۔

۵۔وضو یا غسل کرنے کے لئے وقت نہ ہو۔

کچھ مسائل :

۱۔وضو کے بدلے کئے جانے والے تیمم اور غسل کے بدلے کئے جانے والے تیمم میں نیت کے علاوہ کسی چیز میں فرق نہیں ہے۔

۲۔جس شخص نے وضو کے بدلے تیمم کیا ہو،اگر وضو کو باطل کرنے والی چیزوں سے کوئی چیز اس سے سرزد ہوجائے تو اس کا تیمم باطل ہوگا۔

۳۔اگر کوئی شخص غسل کے بدلے تیمم کرے تو غسل کو باطل کرنے والے اسباب میں سے کسی کے سرزد ہونے پر اس کا تیمم باطل ہوگا۔

۴۔تیمم اس صورت میں صحیح ہے کہ وضو یا غسل کرنا ممکن نہ ہو۔ اس لئے اگر کسی عذر کے بغیر تیمم کرے تو صحیح نہیں ہے اور اگر عذر بر طرف ہوجائے،مثلاًپانی نہ تھا اور اب پانیموجود ہے تو اس صورت میں تیمم باطل ہے۔

۸۸

۵۔اگر غسل جنابت کے لئے تیمم کیا گیا ہو تو ضروری نہیں نماز کے لئے وضو کیا جائے لیکن اگر دوسرے غسلوں کے بدلے میں تیمم کیا گیا ہو تو اس تیمم سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی ہے بلکہ نماز کے لئے الگ سے وضو کرنا چاہئے اور اگر وضو کرنا اس کے لئے مشکل ہو تو وضو کے بدلے ایک اور تیمم انجام دے۔

تیمم کے صحیح ہونے کے شرائط :

٭ اعضائے تیمم یعنی پیشانی اور ہاتھ پاک ہوں۔

٭ پیشانی اور ہاتھوں کی پشت پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کیا جائے۔

٭ وہ چیز ، جس پر تیمم کیا جارہا ہے وہ پاک اور مباح ہونا چاہئے۔

٭ ترتیب کی رعایت کریں۔

٭ موالات کی رعایت کریں۔

٭ مسح کرتے وقت ہاتھ اور پیشانی کے درمیان نیز اسی طرح ہاتھ اور ہاتھ کی پشت کے درمیان مانع نہ ہو۔

٭ تیمم کے کاموں کو خود انجام دے (مباشرت )

سوالات:

۱۔کن چیزوںپر تیمم کرنا جائز ہے؟

۲۔کن مواقع پر وضو اور غسل کے بدلے میں تیمم کیا جاسکتا ہے؟

۳ تیمم کیسے کیا جاتا ہے ؟

۴۔تیمم کے صحیح ہونے کے شرائط کیا ہیں ؟

۸۹

درس نمبر۱۵ ( نماز )

نماز کے مسائل و احکام سے آگاہی کے لئے سب سے پہلے اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ نماز یا واجب ہے یا مستحب ،واجب نمازیںجیسے نمازیومیہ،نماز آیات ،نمازمیت، نمازطواف خانہ کعبہ ،نماز قضائے والدین ،نماز نذر وقسم اور عہدواجارہ ۔اور مستحب نمازیں جیسے نوافل یومیہ ،نماز شب وغیرہ

چند اہم مسائل :

۱۔واجب نمازوں میں یومیہ نمازوں کے علاوہ باقی نمازوںکا وقت معین نہیں ہوتا بلکہ ان کے انجام کا وقت اس زمانے سے مربوط ہوتا ہے جس کے سبب و ہ نماز واجب ہوجاتی ہے۔

مثلاً:نماز آیات کا تعلق زلزلہ،سورج گرہن،چاند گرہن یا حادثہ کے وجود میں آنے سے ہوتا ہے،او رنماز میت،اس وقت واجب ہوتی ہے جب کوئی مسلمان اس دنیا سے چلا جائے۔

۲۔ا گر پوری نماز کو وقت سے پہلے پڑھا جائے یا نماز کو عمداً وقت سے پہلے شروع کیا جائے تو نماز باطل ہے۔

اگر نماز کو اپنے وقت کے اندر پڑھا جائے تو اسے احکام کی اصطلاح میں ''ادا'' کہتے ہیں۔

اگر نماز کو وقت کے بعد پڑھا جاے تو اسے احکام کی اصطلاح میں ''قضا'' کہتے ہیں۔

۹۰

۳۔مستحب ہے کہ انسان نماز کو اول وقت میں پڑھے،اور جتنا اول وقت کے نزدیک تر

ہو بہتر ہے،مگر یہ کہ نماز میں تاخیر کرنا کسی وجہ سے بہتر ہو،مثلاً انتظار کرے تا کہ نماز کو با جماعت پڑھے۔

۴۔اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز گزار اگر مستحبات کو بجالائے تو نماز کا کچھ حصہ بعد از وقت پڑھا جائے گا،تو مستحبات کوبجا نہ لائے،مثلاً اگر قنوت پڑھنا چاہے تو نماز کا وقت گزر جائے گا، تو اس صورت میں قنوت کو نہ پڑھے۔

نماز میں بدن کو ڈھانپنا :

۱۔مردوں کو اپنی دونوں شرمگاہوں کو چھپانا چاہئے اور بہتر ہے ناف سے زانو تک چھپایا جائے۔

۲۔عورتوں کو درج ذیل اعضاء کے علاوہ اپنا پورا بدن ڈھانپنا چاہئے :

٭ ہاتھوں کو کلائی تک۔

٭ پائوں کو ٹخنوں تک۔

٭ چہرے کو وضو میں دھوئی جانے والی مقدار تک۔

۴۔نماز گزار کے لباس میں درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے :

٭ پاک ہو(نجس نہ ہو )

٭ مباح ہو(غصبی نہ ہو )

٭ مردار کے اجزاء کا بنا ہوا نہ ہو۔(۳) مثلاً ایسے حیوان کی کھال کا بنا ہوا نہ ہو،جسے اسلامی دستورات کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو،حتی کمر بند اور ٹوپی بھی اس کی بنی ہوئی نہ ہو۔

۹۱

٭ مردوں کا لباس سونے یاخالص ابریشم کا بنا ہوا نہ ہو۔

چند مسائل :

۱۔اگر نماز گزار کا دستانہ،یا موزہ نجس ہو یا پھرایک چھوٹا نجس رومال اسکی جیب میں ہو،اور یہ چیزیں حرام گوشت مردار کے اجزاء سے بنی ہوئی نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے

۲۔نماز میں عبا،سفید اور پاکیزہ لباس پہننا،خوشبو کا استعمال کرنا اور عقیق کی انگوٹھی پہننا مستحب ہے۔

۳۔کالے، گندے، تنگ اور نقش ونگار والے کپڑے پہننا اور نماز میں لباس کے بٹن کھلے رکھنا مکروہ ہے ۔

نماز گزار کی جگہ کے شرائط :

جس جگہ پر نماز گزار نماز پڑھتا ہے،اس کے درج ذیل شرائط ہونے چاہئے :

٭ مباح ہو(غصبی نہ ہو )

٭ بے حرکت ہو(گاڑی کی طرح حرکت کی حالت میں نہ ہو )

٭ اس پر ٹھرنا حرام نہ ہو (مثلاًایسی جگہ جہاں اسکی جان کو خطرہ ہو یا اسکے کھڑے ہونے کی جگہ پر نام ِاللہ یا قرآنی آیات تحریر ہوں ۔ )

٭( سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو۔

٭ نماز گزار کی جگہ اگر نجس ہو تو اس قدر تر نہ ہو کہ نجاست بدن یا لباس میں سرایت کر جائے۔

٭ سطح ہموار ہو (سجدہ کی حالت میں)پیشانی رکھنے کی جگہ زانو سے اور پائوں کی انگلیوں سے،ملی ہوئی چار انگلیوں سے پست تر یا بلند تر نہ ہو۔

۹۲

٭ پیغمبر (ص)اور امام(ع) کی قبر کے آگے نہ ہو۔

٭ احتیاط واجب کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان کم ازکم ایک بالشت کا فاصلہ ہونا چاہے برابر میں کھڑے ہوں یا آگے پیچھے ۔

سوالات:

۱۔اگر نماز کو وقت کے بعد پڑھا جاے تو اسے احکام کی اصطلاح میںکیا کہتے ہیں۔

۲۔نماز آیات کے واجب ہونے کے دو سبب بیان کیجئے؟

۳۔نماز گزار کے لباس کے شرائط کیا ہیں؟

۴۔اگر نماز پڑھنے کے بعد متوجہ ہوجائے کہ اس کا لباس نجس تھا تو اس کا کیا حکم ہے؟

۵۔اگرنماز کے دوران متوجہ ہوجائے کہ اس کا لباس نجس ہے تو تکلیف کیا ہے؟

۶۔کیا دوران سفرہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں نمازپڑی جاسکتی ہے؟

۷۔جانمازاگر نجس ہو جائے تو کیا اسپرنماز پڑھی جاسکتی ہے ۔؟

۹۳

درس نمبر۱۶ ( واجبات نماز )

۱۔''اﷲ اکبر''،کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور سلام کی ادائیگی سے اختتام کو پہنچتی ہے۔

۲۔جو کچھ نماز میں انجام پاتا ہے یا واجب ہے،یا مستحب ۔

۳۔واجبات نماز گیارہ ہیں،(نیّت ،تکبیرة الاحرام ،قیام ،قرائت ،رکوع ،سجدہ ،ذکر،تشہد ،سلام ترتیب ،موالات)ان میں سے بعض رکن (نیّت ،تکبیرة الاحرام ،قیام (تکبیرةالاحرام کہتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت )رکوع ،دوسجدے )ا و ربعض غیر رکن ہیں۔

رکن وغیر رکن میں فرق :

ارکان نماز،نماز کے بنیادی اجزاء میں شمار ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں سے کسی ایک کو اگر نہ بجالایا گیا یا اس میں اضافہ کیا گیا،اگر چہ فراموشی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو،تو نماز باطل ہے۔

دوسرے واجبات (غیر رکنی)کو اگرچہ انجام دینالازم اور ضروری ہے لیکن اگر فراموشی سے ان میں کم یا زیادہ ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہے۔

۹۴

واجبات نماز کے احکام :

۱۔نیت:۱۔نماز گزار کو نماز کی ابتداء سے انتہا تک یہ جاننا چاہئے کہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے اور اسے خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے پڑھنا چاہئے۔

۲۔نیت کو زبان پر لانے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر زبان پر لائی بھی جائے تو کوئی مشکل نہیں۔

۲۔تکبیرة الاحرام:جیسا کہ بیان ہواہے''اللہ اکبر''کہنے سے نمازشروع ہوتی ہے اسے ''تکبیرة الاحرام''کہتے ہیں، کیونکہ اسی تکبیر کے کہنے سے بہت سے وہ کام جو نماز سے پہلے جائز تھے،نماز گزار پر حرام ہوجاتے ہیں :

جیسے :کھانا،پینا،ہنسنا اور روناوغیرہ

تکبیرة الاحرام کے واجبات :

۱۔صحیح عربی تلفظ میں کہی جائے۔

۲۔''اﷲ اکبر'' کہتے وقت بدن سکون میں ہو۔

۳۔تکبیرة الاحرام کو ایسے کہنا چاہئے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خودسن سکے،یعنی بہت آہستہ نہیںکہنا چاہئے۔

۳۔قیام:قیام یعنی کھڑا رہنا،بعض مواقع پر قیام ارکان نماز میںسے ہے اور اس کا تر ک کرنانماز کو باطل کردیتا ہے،لیکن جو افراد کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے معذور ہوں ان کا حکم جدا ہے،۔

٭قیام کے دورا ن جسم پر سکون ہو،کسی ایک طرف نمایاں طور پر جھکا ہوا نہ ہو ،کسی چیز کا سہارانہ لیا ہوا ہو ۔

۹۵

۴۔قرأت :

پہلی اور دوسری رکعت میں سورۂ حمد اور کسی دوسرے سورے کے پڑھنے اور تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ حمد یا تسبیحات اربعہ کے پڑھنے کوقرأت'' کہتے ہیں۔

قرأت کے چند احکام :

۱۔ تیسری اور چوتھی رکعت کی قرأت کو آہستہ (اخفات کے طور پر) پڑھنا چاہئے، لیکن پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بارے میں حکم حسب ذیل ہے :

اگر نمازگزار مرد ہو تو نمازصبح اور مغرب وعشاء بلند آواز سے اور نمازظہرو عصر آہستہ آواز

سے پڑھے گا۔نمازظہر اور عصر کے لئے عورت کا بھی یہی حکم ہے ،لیکن نمازصبح اور مغرب

وعشاء اس صورت میں بلنداور آہستہ آواز میں پڑھ سکتی ہے ۔لیکن اگر کوئی نامحرم اسکی آوز سن رہا ہوتو بہتر ہے آہستہ پڑھے ۔

۲۔ اگر نماز بلند پڑھنے کی جگہ عمداً آہستہ پڑھی جائے یاآہستہ پڑھی جانے کی جگہ عمداً بلند پڑھی جائے تو نماز باطل ہے، لیکن بھولے سے یا مسئلہ کو نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو نماز صحیح ہے۔

۴۔بلند اور آہستہ آواز میں پڑھنے کا وجوب حمد و سورہ کی قرائت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن ذکرِرکوع ،سجدہ تشہد سلام اور دیگر واجب اذکار میں مکلّف بلند یاآہستہ پڑھنے میں مخیّر ہے ۔

۵۔واجب نمازوں میں جہر و اخفات کا وجوب ادا اور قضا دونوں نمازوں میں ہے

اگرچہ نمازِقضااحتیاطی ہو ۔

۹۶

۶۔اخفات(آہستہ پڑھنے )کا معیار آواز کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ معیا ر آواز کا آشکار اور واضح نہ کرنا ہے ۔اس کے مقابل جہر (بلند )پڑھنے کا معیار آواز کا آشکار اور واضح کرنا ہے ۔

۷۔اگر کوئی حمد و سورہ پڑھتے وقت معمول سے زیادہ آواز کو بلند کرے مثلاًیہ کہ اسے فریاد کے ساتھ پڑھے تو اسکی نماز باطل ہے ۔

۸۔ اگر سورۂ حمد پڑھتے ہوئے سمجھے کہ غلطی کی ہے (مثلاً بلند پڑھنے کے بجائے آہستہ پڑھی ہو) تو ضروری نہیں ہے پڑھے ہوئے حصہ کو دوبارہ پڑھے۔

۵۔ذکر: یہاں ذکرسے مراد اللہ تعالی ٰ کی یاد پر مشتمل وہ جملے ہیں جو رکوع اور سجود میں کہے جاتے ہیں ۔

٭ ذکر اس انداز میں پڑھے کہ جو جملے ادا کررہا ہے انکا تلفّظ محسوس ہو اور اس کی علامت یہ کہ جو کچھ پڑھ رہا ہے اور زبان پر جاری کررہا ہے اگر خود بہرا نہیں ہے اور ماحول میں شور شرابا نہیں ہے تو اسے خود سن سکے ۔

٭ذکر صحیح عربی اور سکون و قرار کی حالت میں پڑھے جائیں ۔

۶۔رکوع:۔ نماز گزار کو ہر رکعت میں قرأت کے بعد اس قدر خم ہونا چاہئے کہ اس کے ہاتھ زانو تک پہنچ جائیں اور اس عمل کو '' رکوع'' کہتے ہیں ۔

٭ذکر رکوع میں ذکر واجب ایک مرتبہ '' سبحان ربیّ العظیم وبحمدہ'' یا تین مرتبہ ''سبحان اللہ''کہنا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر اسی مقدار میں کہے تو کافی ہے۔

٭۔ رکوع میں واجب ذکر پڑھنے کی مقدار میں بدن سکون میں ہونا چاہئے۔

۹۷

٭ذکر رکوع ختم ہونے کے بعد بلند ہونا چاہئے اور اس کے بعد بدن آرام پائے اور پھر سجدہ میں جانا چاہئے اور اگر بلند ہونے سے پہلے یا بلند ہوکر آرام پانے سے پہلے عمدا سجدہ میںجائے تو نماز باطل ہے۔

۷۔سجود:۱۔ نماز گزار کو واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں، رکوع کے بعد دوسجدے بجالانے چاہئیں۔

۲۔پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پائوں کے دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں۔

ذکرسجدہ میں ذکر واجب ایک مرتبہ'' سبحان ربیّ العظیم وبحمده'' یا تین مرتبہ ''سبحان اللہ''کہنا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا ذکر اسی مقدار میں کہے تو کافی ہے۔

۴۔ سجدہ میں ذکر سجدہ پڑھنے کے بقدر بدن کا سکون میں ہونا ضروری ہے۔

۵۔اگر سجدہ کرتے وقت پیشانی سجدہ کی جگہ سے ٹکرا کر بے اختیاری کی حالت میں زمین سے بلند ہو جائے تو پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھ دے اور ذکر سجدہ پڑھے ،یہ ایک سجدہ شمار ہوگا ۔

۶۔معدن (جیسے سونا چاندی )اور جو چیزیں کھا نے ،پینے اور لباس کے طور پر استعما ل نہ ہو سب پر سجدہ صحیح ہے ۔

۸۔تشہد : دوسری رکعت اور واجب نمازوں کی آخری رکعت میں، نماز گزار کو دوسرے

سجدے کے بعد بیٹھنا چاہئے اوربدن کے سکون میں آنے کے بعد تشہد پڑھنا چاہئے، یعنی کہے :

۹۸

'' أَشْهَدُ أَنْ لاٰاِلَهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لاٰشَریْکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ''

۹۔سلام:۱۔ہر نمازکی آخری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھ کر نماز کو ختم کرنا چاہئے۔

۲۔سلام کی واجب مقدار ''السلام علیکم''اوربہتر ہے کہ''ورحمةاللہ وبرکاتہ'' کا اضافہ کرے یا کہے ''السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین ''

اور مستحب ہے کہ مذکورہ دوسلاموں سے پہلے یہ کہے ۔

'' السلام علیک ایھا النبی ورحمة اﷲ وبرکاتہ ''.

۱۰۔ترتیب:نماز کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے: تکبیرة الاحرام ، قرأت، رکوع، سجود اور دوسری رکعت میں سجدوں کے بعد، تشہد پڑھے اور آخری رکعت میںسجدوں کے بعد، تشہدپڑھے اور آخری رکعت میں ، تشہد کے بعد، سلام کہے۔

۱۱۔موالات:۱۔ ، یعنی نماز کے اجزاء کو یکے بعد دیگر ے انجام دینا اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ڈالنا۔

۲۔اگر اجزائے نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ کہا جائے یہ شخص نماز نہیں پڑھا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔

مبطلات نماز:جب نماز گزار تکبیرةالاحرام کہتا ہے اور نماز کو شروع کرتا ہے تو اس کے خاتمہ تک بعض کام اس پر حرام ہوجاتے ہیں، چنانچہ اگر نماز میں ان میںسے کوئی کام

انجام دے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی ،وہ امور حسب ذیل ہیں :

۱۔جن چیزوں کا نماز میں خیال رکھنا ضروری ہے مثلاًواجب ستر (لباس )یا مکان کا

۹۹

غصبی نہ ہونا وغیرہ میں سے کسی ایک کا ختم ہوجانا ۔ ۲۔ہاتھ باندھ کے نمازپڑھنا

۳۔کھانا ، پینا۔۴۔بات کرنا۔۵۔ہنسنا۔ ۶۔رونا ۷۔قبلہ کی طرف سے رخ موڑنا۔

۸۔ ارکان نماز میں کمی وبیشی کرنا۔۹۔حمد کے بعد آمین کہنا ۱۰۔وضو کا باطل ہونا۔

۱۱۔نماز کی شکل وصورت کا ختم ہوجانا مثلاًاچھل کودکرناوغیرہ

۱۲۔ایسے شک میں مبتلا ہوجانا جو شک نمازکو باطل کردیتے ہیں ۔جیسے دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعات میں شک

سوالات

۱۔ارکان نماز کو بیان کیجئے اور رکن وغیر رکن میں کیا فرق ہے؟

۲۔نماز کے پہلے''اﷲ اکبر'' کو کیوں تکبیرة الاحرام کہتے ہیں؟

۳۔نیت کی وضاحت کیجئے؟

۴۔رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے قیام کی وضاحت کر کے ان کے فرق کو بیان کیجئے؟

۵قرأت کیا ہے؟وضاحت کیجئے۔؟

۶۔ کیا حمد اور سورہ کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے؟

۷۔ رکوع اور ذکر رکوع میں کیا فرق ہے؟

۹۔کیا رکوع کے بعد کھڑاہونا واجب ہے؟

۱۰۰

درس نمبر17 ( روزہ )

روزہ کی تعریف :

اسلام کے واجبات اور انسان کی خود سازی کے سالانہ پروگرام میں سے ایک، روزہ ہے، اذان صبح سے مغرب تک حکم خدا کو بجالانے کے لئے کچھ کام انجام دینے (جن کی وضاحت بعدمیں آئے گی)سے پرہیز کرنے کو روزہ کہتے ہیں، احکام روزہ سے آگاہ ہونے کے لئے پہلے اس کی اقسام کو جاننا ضروری ہے۔

روزہ کی اقسام :

1۔واجب 2۔حرام 3۔مستحب 4۔مکروہ

واجب روزے :

درج ذیل روزے واجب ہیں :

1۔ ماہ مبارک رمضان کے روزے 2 ۔قضا روزے 3۔کفار ے کے روزے۔

4۔نذرکی بنا پر واجب ہونے والے روزے۔

5ایام اعتکاف میں تیسرے دن کا روزہ

6۔ باپ کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہوتے ہیں۔

بعض حرام روزے :

٭ عید فطر( اول شوال) کو روزہ رکھنا۔

۱۰۱

٭ عید قربان ( 10ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

مستحب روزے :

حرام اور مکروہ روزہ کے علاوہ سال کے تمام ایام، میں روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ بعض مستحب روزوں کی زیادہ تاکید اور سفارش کی گئی ہے۔

جن میں سے چند حسب ذیل ہیں :

٭ ہر جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھنا۔

٭ عید مبعث کے دن (27 ماہ رجب) کو روزہ رکھنا۔

٭ عید غدیر(18ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔

٭ عید میلاد النبی (17 ربیع الاول) کو روزہ رکھنا۔

مکروہ روزے :

٭ مہمان کا میزبان کی اجازت کے بغیر مستجی روزہ رکھنا۔

٭ مہمان کا میزبان کے منع کرنے کے باوجود مستجی روزہ رکھنا ۔

٭ فرزند کا باپ کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ رکھنا۔

٭ عاشورہ کے دن کا روزہ۔

روزہ کی نیت :

1۔ روزہ ایک عبادت ہے اسے خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے بجالانا چاہئے۔

2۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔

3۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیںڈالنا چاہئے۔البتہ مستحب روزہ کے لیے دن میں کسی بھی وقت جب روزہ

۱۰۲

کاخیال آئے نیت کرسکتا ہے ۔

4۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔

مبطلات روزہ : روزہ دار کوصبح کی اذان سے لیکر مغرب کی اذان تک بعض کاموں کو انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔اوراگر ان میں سے کسی ایک کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے، ایسے کاموں کو'' مبطلات روزہ'' کہتے ہیں ۔مبطلات روزہ حسب ذیل ہیں :

1۔کھانا پینا۔ 2۔غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا۔ 3۔ قے کرنا۔

4۔ مباشرت کرنا 5۔استمناء (یعنی کوئی ایسا کام کرے جس سے اسکی منی باہر نکل آئے) 6۔ اذان صبح تک جنابت کی حالت میں باقی رہنا۔7۔سرکا پانی میں ڈبونا

8۔ خدا، رسول اور معصومین (ع) پر جھوٹ باندھنا

9۔حقنہ لینا (مقعد کے ذریعہ بہنے والی چیزوں کو اندر لینا )

بعض مبطلات روزہ کے احکام

کھانا اور پینا :

1۔ اگر روزہ دار عمداً کوئی چیز کھائے یا پیئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

2۔ اگر کوئی شخص اپنے دانتوں میں موجود کسی چیز کو نگل جائے، تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

3۔تھوک کو نگل جانا روزہ کو باطل نہیں کرتاخواہ زیادہ کیوں نہ ہو۔

۱۰۳

4۔ اگر روزہ دار بھولے سے ( نہیں جانتا ہوکہ روزے سے ہے ) کوئی چیز کھائے یاپیئے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔

انجکشن لگوانا :

انجکشن لگوانا، اگر غذا کے بدلے نہ ہو، روزہ کو باطل نہیں کرتا اگرچہ عضو کوبے حس بھی کردے۔

غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانا :

1۔ اگر روزہ دار غلیظ غبار کو حلق تک پہنچائے، تو اس کاروزہ باطل ہو جائے گا، خواہ یہ غبار کھانے کی چیز ہو جیسے آٹا یا کھانے کی چیز نہ ہو جیسے مٹی۔

2۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہوتا :

٭ غبار غلیظ نہ ہو۔

٭ حلق تک نہ پہنچے(صرف منہ کے اندر داخل ہوجائے )

٭ بے اختیار حلق تک پہنچ جائے۔

٭ یاد نہ ہو کہ روزہ سے ہے۔

٭ شک کرے کہ غلیظ غبار حلق تک پہنچایا نہیں۔

3۔بنابراحتیاط واجب سگریٹ پینے سے روزہ بطل ہو جاتا ہے ۔

قے کرنا :

1۔ اگر روزہ دار عمداً قے کرے،اگرچہ بیماری کی وجہ سے ہو توبھی اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

2۔ اگر روزہ دار کو یاد نہیں ہے کہ روزہ سے ہے یا بے اختیار قے کرے، تو اس کا روزہ

۱۰۴

باطل نہیں ہے۔

جماع کرنا :

اگرکوئی شخص روزہ کی حالت میں جماع کرے چاہے اسکی منی نہ نکلے پھر بھی اس کا روزہ باطل ہے ۔

استمنائ :

1۔ اگر روزہ دار ایسا کام کرے جس سے منی نکل آئے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا

2۔اگر بے اختیار منی نکل آئے مثلاً احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا

اذان صبح تک جنابت پر باقی رہنا :

اگرکوئی شخص ماہ رمضان میں عمداًحالت جنابت میں اذان صبح تک باقی رہے اور غسل نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے

پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونا۔

1۔ اگر روزہ دار عمداً اپنے پورے سر کو پانی میںڈبودے، اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

2۔ درج ذیل موارد میں روزہ باطل نہیں ہے :

٭ بھولے سے سر کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

سرکے ایک حصہ کو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ نصف سرکو ایک دفعہ اور دوسرے نصف کو دوسری دفعہ پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ اچانک پانی میں گرجائے۔

٭ دوسرا کوئی شخص زبردستی اس کے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے۔

٭ شک کرے کہ آیا پورا سر پانی کے نیچے گیا ہے کہ نہیں ۔

۱۰۵

سوالات :

1۔ مندرجہ ذیل دنوں میں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے :

دسویں محرم، دسویں ذی الحجہ، نویں ذی الحجہ، ، پہلی شوال۔

2۔ کیا مہمان میزبان کی اجازت کے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے؟

3 روزہ کی حالت میں خلال کرنے اور مسواک کرنے کا کیا حکم ہے؟

4۔ کیا روزے کی حالت میںچنگم چبانے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟

5۔ کسی شخص کو پانی پیتے وقت یاد آئے کہ روزہ سے ہے، اس کی تکلیف کیا ہے اور اس کے روزہ کا کیا

حکم ہے؟

6۔ سگریٹ پینا مبطلات روزہ کی کون سی قسم ہے؟

7۔ روزہ کی حالت میں تیرنا کیا حکم رکھتاہے؟

۱۰۶

درس نمبر18 ( روزہ کی قضا اور اس کا کفارہ )

قضا روزہ :

اگر کوئی شخص روزہ کو اس کے وقت میں نہ رکھ سکے، اسے کسی دوسرے دن وہ روزہ رکھنا چاہئے، لہٰذا جو روزہ اس کے اصل وقت کے بعد رکھا جاتاہے اسے '' قضا روزہ'' کہتے ہیں۔

روزہ کا کفارہ

کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے :

٭ ایک غلام آزاد کرنا۔

٭ اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ 31 روز مسلسل روزہ رکھے۔

٭ 60 فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد طعام دینا۔

جس پر روزہ کا کفارہ واجب ہوجائے''اسے چاہئے مندرجہ بالا تین چیزوں میں سے کسی ایک کو انجام دے۔ چونکہ آجکل'' غلام'' فقہی معنی میںنہیں پایا جاتا،لہٰذا دوسرے یا تیسرے امور انجام دیئے جائیں اگر ان میں سے کوئی ایک اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جتنا ممکن ہوسکے فقیر کو کھانا کھلائے اور اگر کھانا نہیں کھلا سکتا ہو تو اس کے لئے استغفار کرنا چاہئے۔

۱۰۷

درج ذیل مواردمیں روزہ کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے :

1۔ماہ رمضان میں غسل جنابت کو بجالانا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک یا

چند روز روزہ رکھے۔

2۔ ماہ رمضان میں تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو، مثلاً پانی پی لے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ صبح ہوچکی تھی۔

3۔ کوئی یہ کہے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور روزہ دار اس پر یقین کرکے ایسا کوئی کام انجام دے جو روزہ باطل ہونے کا سبب ہو اور بعد میں معلوم ہوکہ صبح ہوچکی تھی۔

4۔ اگر ماہ رمضان کے دن تاریکی کی وجہ سے یقین کرلے کہ مغرب ہوگئی ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب نہیں ہوئی تھی ۔

اگربغیر کسی عذر شرعی کے عمداً ماہ رمضان المبارک کا روزہ نہ رکھے یا عمداً روزہ کو باطل

کرے، تو قضا وکفار دونوں واجب ہیں

روزہ کی قضا اور کفارہ کے احکام

1۔ روزہ کی قضاکو فورا انجام دینا ضروری نہیں ہے، لیکن احتیاط واجب کی بناپر اگلے سال کے ماہ رمضان تک بجالائے۔

2۔ اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو انسان کسی بھی ماہ رمضان کے قضا روزے پہلے رکھ سکتا ہے ۔

البتہ اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا ًآخری ماہ رمضان کے 10 روزے قضا ہوں اور اگلے ماہ رمضان تک دس ہی دن باقی رہ چکے ہوںتو پہلے اسی آخری رمضان کے قضا روزے رکھے۔

۱۰۸

3۔ انسان کو کفارہ بجالانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اسے فورا ًانجام دے۔

4۔ اگر کسی پر کفارہ واجب ہوا ہو، اسے چند برسوں تک بجانہ لائے تو اس پر کوئی چیز

اضافہ نہیں ہوتی۔

5۔ اگر کسی عذر کے سبب جیسے سفر میں روزہ نہ رکھے ہوں۔اور رمضان المبارک کے بعد عذر برطرف ہوا ہونیز اگلے رمضان تک عمدا قضا نہ کرے، تو قضا کے علاوہ، ہر دن کے عوض، فقیر کو ایک مد طعام بھی دے۔

6۔ اگر کوئی شخص اپنے روزہ کو کسی حرام کام کے ذریعہ، جیسے استمناء سے باطل کرے، تو احتیاط مستحب کی بناپر اسے مجموعی طورپر کفارہ دینا ہے، یعنی اسے ایک بندہ آزاد کرنا، دو مہینے روزہ رکھنا اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلاناہے۔ اگر تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ

ہو ںتو ان تینوں میں سے جس کسی کو بھی بجالاسکے کافی ہے۔

درج ذیل موارد میں نہ قضا واجب ہے اور نہ کفارہ :

1۔ بالغ ہونے سے پہلے نہ رکھے ہوئے روزے۔

2۔ایک نومسلمان کے ایام کفر کے روزے، یعنی اگر ایک کا فرمسلمان ہوجائے، تو اس کے گزشتہ روزوں کی قضا واجب نہیں ہے۔

3۔ اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد بھی اس کی قضا نہ بجالاسکتا ہو۔تو ہر دن کے لئے ایک مد (تقریباً تین پاؤ)طعام فقیر کو دیدے

۱۰۹

سوالات :

1۔ روزہ کی قضا اور اس کے کفارہ میں کیا فرق ہے۔؟

2۔ رمضان المبارک کے قضا روزوں کا وقت بیان کیجئے۔

3۔ روزہ کے کفارہ کا وقت بیان کیجئے۔

4۔ اگر کوئی اگلے سال کے رمضان تک قضا روزے نہ بجالاسکے تو اس کا فرض کیا ہے؟

5۔ جوشخص بوڑھاہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

۱۱۰

درس نمبر19 ( خمس )

مسلمانوں کے اقتصادی فرائض میں سے ایک فریضہ ''خمس'' کا ادا کرنا ہے، اس طرح کہ بعض مقامات میں اپنے مال کا ایک پنجم حصہ ایک خاص صورت میں خرچ کرنے کے لئے اسلامی حاکم کو دینا چاہئے۔

خمس سات چیزوں پر واجب ہے :

1۔جو کچھ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ بچ جائے (کسب کار کانفع )

2۔ معدن 3۔ خزانہ 4۔جنگی غنائم 5۔ وہ جواہرات جو سمندر کی تہہ سے نکالے جاتے ہیں۔ 6۔حلال مال جو حرام کے ساتھ مخلوط ہوچکا ہو۔

7۔وہ زمین جسے کافر ذمی ایک مسلمان سے خریدے۔

خمس ادا کرنا بھی نمازو روزہ کی طرح واجبات میں سے ہے اورتمام بالغ اورعاقل اگر مذکورہ سات موارد میں سے ایک کے ،ما لک ہوں تو اس پر عمل کرنا چاہئے

جس طرح شرعی فریضہ کے آغاز پرہرکوئی نمازو روزہ کی فکر میں ہوتا ہے اسے خمس وزکات ادا کرنے اور دیگرواجبات کی فکر میں بھی ہونا چاہئے لہٰذا ضرورت کی حد تک

ان کے مسائل سے آشنائی ضروری ہے، چنانچہ ہم یہاں پر خمس کے سات موارد میں سے صرف ایک کے بارے میں وضاحت کریں گے جس سے معاشرے کے لوگ

۱۱۱

زیادہ دوچار ہیں ، اور وہ سال بھر کے خرچ سے بچے ہوئے مال پر خمس ہے :

اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں درج ذیل دوسوالوں کے جواب پر غور کرنا چاہئے :

1۔ سال کے خرچ سے کیا مراد ہے؟

2۔ کیا خمس کا سال قمری، یاشمسی مہینوںسے حساب ہوتا ہے اور اس کا آغاز کس وقت ہے؟

سال کا خرچہ :

اسلام لوگوں کے کسب وکار کے بارے میں احترام کا قائل ہے اور اپنی ضروریات کو پورے کرنے کو خمس پر مقدم قراردیاہے۔لہٰذا ہر کوئی اپنی آمدنی سے سال بھر کا اپنا خرچہ پورا کرسکتا ہے۔

اور سال کے آخر پرکوئی چیز باقی نہ بچی ، توخمس کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر متعارف اور ضرورت کے مطابق افراط وتفریط سے اجتناب کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بعد سال کے آ خر میں کوئی چیز باقی بچ جائے تو اس کا ایک پنجم حصہ خمس کے عنوان سے ادا کرے اور باقی 4 حصہ اپنے لئے بچت کرے۔

لہٰذا، مخارج کا مقصد وہ تمام چیزیں ہیںجو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مخارج کے چند نمونوں کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :

٭ خوارک وپوشاک ٭ گھر کا سامان، جیسے برتن، فرش وغیرہ۔

٭ گاڑی جو صرف کسب وکار کے لئے نہ ہو۔ ٭ مہانوں کا خرچہ۔

٭ شادی بیاہ کا خرچ۔ ٭ ضروری اور لازم کتابیں۔ ٭ زیارت کا خرچ

۱۱۲

٭ انعامات و تحفے جو کسی کو دئیے جاتے ہیں

٭ اداکیا جانے والا صدقہ، نذر یا کفارہ ۔

خمس کا سال :

انسان کو بالغ ہونے کے پہلے دن سے نماز پڑھنی چاہئے، پہلے ماہ رمضان سے روزے رکھنے چاہئے اور پہلی آمدنی اس کے ہاتھ میں آنے کے ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ مال کے خرچہ کے علاوہ باقی بچے مال کا خمس دیدے۔ اس طرح خمس کا حساب کرنے میں، سال کا آغاز، پہلی آمدنی اور اس کا اختتام اس تاریخ سے ایک سال گزرنے کے بعد ہے۔

اس طرح سال کی ابتدائ :

٭ کسان کے لئے ۔۔۔۔ پہلی فصل کاٹنے کا دن ہے۔

٭ ملازم کے لئے ۔۔۔۔ پہلی تنخواہ حا صل کرنے کی تاریخ ہے۔

٭ مزدورکے لئے ۔۔۔۔ پہلی مزدوری حاصل کرنے کی تاریخ ہے۔

دوکاندار کے لئے ۔۔۔۔۔ پہلا معاملہ انجام دینے کی تاریخ ہے۔

٭ جومال مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل ہوجائے، اس پر خمس نہیں ہے :

1۔وراثت میں ملا ہوامال۔ 2خواتین کا مہریہ 3۔بخشی گئی چیز(ہبہ)۔

4۔ حاصل کئے گئے انعامات۔ 5۔ جو کچھ انسان کو عیدی کے طور پر ملتاہے۔

6۔ وہ مال جو کسی کو خمس، زکات یا صدقہ کے طور پر دیا جاتاہے 7۔ وہ چیزیں جو وقف شدہ ہوں ۔

۱۱۳

خمس نہ دینے کے نتائج :

1۔جب تک مال کا خمس ادا نہ کیا جائے، اس میں ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں، یعنی اس کے کھانے کو نہیں کھایا جاسکتا، جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اور اس پیسے سے کوئی چیز نہیں خریدی جاسکتی ہے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو۔

2۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے (حاکم شرع کی اجازت کے بغیر) کاروبار کیا جائے تو اس کار وبارکا 15معاملہ باطل ہے۔

3۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے پانی لے کر غسل کرے تو وہ غسل باطل ہے۔

4۔ اگر خمس نہ نکالے گئے پیسوں سے مکان خریدا جائے، تو اس مکان میں نماز پڑھنا باطل ہے۔

مصرف خمس :

خمس کے مال کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہئے، اس کا نصف سہم امام زمان علیہ السلام ہے اور اسے مجتہد جامع الشرائط جس کی انسان تقلید کرتا ہے یا اس کے وکیل کو دیا جاتا

ہے دوسرے نصف کو بھی مجتہد جامع الشرائط یا اس کی اجازت سے ضروری شرائط کے حامل سادات کو دیا جائے۔

خمس کے محتاج سید کے شرائط :

٭ غریب ہو یا ابن السبیل ہو، اگرچہ اپنے شہر میں غریب ومحتاج نہ ہو۔

٭ شیعہ اثنا عشری ہو۔

٭ کھلم کھلا گناہ کا مرتکب نہ ہو ( احتیاط واجب کی بناپر) اور اسے خمس دینا گناہ انجام دینے میں مددکا سبب نہ ہو۔

۱۱۴

٭ احتیاط واجب کی بناء پران افراد میں سے نہ ہو جن کے اخراجات اس (خمس لینے والے) کے ذمہ ہوں، جیسے بیوی بچے۔

سوالات:

1۔ کس قسم کے جواہرات پر خمس نہیں ہے ؟

2۔ کسب وکار کے منافع کی وضاحت کیجئے؟

3۔ سالِ خمس کا آغاز کس وقت ہوتا ہے؟

4شادی وخوشی کے موقع پر دیئے جانے والے تحفہ پر خمس ہے یا نہیں ؟

5۔ مصرف خمس کی وضاحت کیجئے؟

۱۱۵

درس نمبر20 حصہ اوّل

( جہاداور دفاع )

چونکہ خورشید اسلام کے طلوع ہونے کے بعد تمام مکاتب ومذاہب ؛باطل، منسوخ اور ناقابل قبول قرار پائے ہیں لہٰذا تمام انسانوں کو دین اسلام کے پروگرام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونا چاہئے، اگر چہ وہ اسے تحقیق اور آگاہی کے ساتھ قبول کرنے میں آزاد ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے جانشینوں نے ابتداء میںاسلام کے نجات بخش پروگراموں کی لوگوں کے لئے وضاحت فرمائی اور انھیں اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی جنہوں نے اسلام کے پروگراموں اور احکام سے روگردانی کی ، وہ غضب الٰہی اور مسلمانوں کی شمشیر قہرسے دوچار ہوئے ۔ اسلام کی ترقی کے لئے کوشش اور اس کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں سے مقابلہ کو ''جہاد'' کہتے ہیں۔اسلام کی ترقی کے لئے اس قسم کا اقدام ایک خاص ٹیکنیک اور طریقہ کار کا حامل ہے اور یہ صرف پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے جانشینوں۔ (جو ہر قسم کی لغزش اور خطاء سے مبّرا ہیں)کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور معصومین علیہم السلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ا ورہمارے زمانہ میں کہ یہ امام معصوم کی غیبت کادورہے، واجب نہیں ہے جہاد کی اس قسم کوجہاد ابتدائی کہتے ہیں لیکن دشمنوں سے مقابلہ کی دوسری قسم کانام جہاد دفاعی'' ہے۔یہ تمام مسلمانوں کا مسلم حق ہے کہ ہر زمان ومکان میں دنیا کی کسی بھی جگہ میں اگر

۱۱۶

دشمنوں کے حملہ کا نشانہ بنیں یا ان کا مذہب خطرہ میں پڑے تو اپنی جان اور دین کے تحفظ کے لئے دشمنوں سے لڑیں اورانہیں نابود کردیں۔ ہم اس سبق میںاس واجب الٰہی یعنی''جہاد دفاعی'' کے احکام واقسام سے آشنا ہوںگے۔

اسلام اور اسلامی ممالک کا دفاع :

٭ اگر دشمن اسلامی ممالک پر حملہ کرے۔

٭ یا مسلمانوں کے اقتصادی یا عسکری ذرائع پر تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے۔

٭ یا اسلامی ممالک پر سیاسی تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کرے ۔

تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر ممکن صورت میں ، دشمنوں کے حملہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیںاور ان کے منصوبوں کی مخالفت کریں۔

جان اور ذاتی حقوق کا دفاع :

1۔ مسلمانوں کی جان اور ان کا مال محترم ہے، اگر کسی نے ایک مسلمان، یا اس سے وابستہ افراد، جیسے، بیٹے، بیٹی، باپ ، ماں اور بھائی پر حملہ کیا تو دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے،اگرچہ یہ عمل حملہ آورکوقتل کرنے پر تمام ہوجائے۔

2۔ اگر چور کسی کے مال کو چرانے کے لئے حملہ کردے، دفاع کرنا اور اس حملہ کو روکنا واجب ہے۔

3۔ اگر کوئی نامحرموں پر نگاہ کرنے کے لئے دوسروں کے گھروں میں جھانکے تو اسے اس کام سے روکنا واجب ہے، اگرچہ اس کی پٹائی بھی کرنا پڑے۔

۱۱۷

سوالات:

1۔''جہاد'' اور'' دفاع'' میں کیا فرق ہے۔؟

2۔ دفاع کی قسمیں بیان کیجئے اور ہر ایک کے لئے ایک مثال بیان کیجئے؟

3۔ کس صورت میں چور کے ساتھ مقابلہ واجب ہے؟

۱۱۸

حصہ دوم : ( امربالمعروف ونہی عن المنکر )

ہر انسان معاشرے میں انجام پانے والے برے اور ترک کئے جانے والے نیک کاموں کے بارے میں ذمہ دارہے ، اس لئے اگر کوئی واجب کام ترک ہوجائے یا کوئی حرام کام انجام پائے تو اس کے مقابلے میں خاموشی اور لاتعلقی جائز نہیں ہے، اور معاشرے کے تمام لوگوں کو ''واجب''کام کی انجام دہی اور '' حرام'' کام کوروکنے کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اس عمل کو '' امر بالمعروف اور'' نہی عن المنکر'' کہتے ہیں ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :

٭ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعض بیانات میں آیا ہے :

٭ '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' اہم ترین واجبات میں سے ہے۔

٭ دینی واجبات '' امر بالمعروف ونہی عن المنکر'' کے سبب مستحکم وپائیدار ہوتے ہیں ۔

٭'' امر بالمعروف اور نہی عن المنکر'' ضروریات دین میں سے ہے،جو اس سے انکار کرے، وہ کافر ہے۔

٭ اگر لوگ'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' کو ترک کریں، تو برکت ان سے اٹھا لی جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی۔

معروف ومنکر کی تعریف :

احکامِ دین میں تمام واجبات ومستحبات کو '' معروف'' اور تمام محرمات ومکروہات کو'' منکر ''

۱۱۹

کہا جاتا ہے، لہٰذا سماج کے لوگوں کو واجب ومستحب کام انجام دینے کی ترغیب دلانا امر ''بالمعروف'' اور انھیں حرام ومکر وہ کام کی انجام دہی سے روکنا '' نہی عن المنکر'' ہے۔

امر بہ معروف ونہی ازمنکرکی حدود : امر بہ معروف اور نہی از منکر کرنا لوگوں میں سے کسی خاص گروہ یا کسی خاص جماعت پر منحصر نہیں ہے ۔اور تمام لوگوں پر جو شرائط کے حامل ہوں ،پر واجب ہے حتیٰ زوجہ اور بیٹے پر واجب ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ اسکے شوہر یا والدین کسی واجب کو ترک کر رہے ہیں یا حرام کا ارتکاب کر رہے ہیں تو شرائط کی موجود گی میں انھیں امر بہ معروف اور نہی ازمنکر کریں ۔

امر بہ معروف ونہی ازمنکرکے شرائط :

'' امربالمعروف ونہی عن المنکر'' چند شرائط کی بناء پر واجب ہے اور ان شرائط کے نہ ہونے کی صورت میں ساقط ہے یعنی واجب نہیںہے اور یہ شرائط حسب ذیل ہیں :

1۔امرونہی کرنے والے کوجاننا چاہئے کہ جو کام کوئی فردانجام دیتا ہے وہ حرام ہے اور جسے ترک کرتا ہے ،وہ واجب ہے، لہٰذا جو شخص حرام کام کی تشخیص نہ دے سکتا ہو کہ حرام ہے یا نہیں اس پر نہی کرنا واجب نہیں ہے۔

2۔امرونہی کرنے والے کو احتمال دینا چاہئے کہ اس کا امر ونہی مؤثر ہوگا، لہٰذا اگر جانتاہو کہ مؤثر نہیں ہے یا اس میں شک کرتا ہو، تو اس پر امرونہی کرنا واجب نہیں ہے۔

3۔ گناہگار اپنے کام کو جاری رکھنے پر اصرار کرتاہو، لہٰذا اگر معلوم ہوجائے کہ گناہگار گناہ کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پھرسے اس کام کو انجام نہیں دے گا یا اس کام کو

پھرسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوگا، تو امرونہی واجب نہیں ہے ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204