معارف قرآن

معارف قرآن18%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185111 / ڈاؤنلوڈ: 3709
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معارف قرآن

ترتیب و تنظیم

سید نسیم حیدر زیدی

۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

۲

آغازسخن

قرآن سراپا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی وہ ایسا حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی ایسا کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے (کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار ومددگار شکست نہیں کھاتے، وہ سراپا حق ہے۔

یہ کتاب ان آیات پر مشتمل ہے جو اس لاثانی اور بے مثل کتاب کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کتاب میں ہم نے نوجوانوں کے لیے بعض قرآنی معارف پر مختصر روشنی ڈال کر انہیں بارہ فصلوں میں بیان کیا ہے امید ہے یہ مختصر کوشش اہل ذوق کے لیے مفیدثابت ہوگی۔

سید نسیم حیدر زیدی

۳

پہلی فصل(قرآن)

۴

(ا) قرآن کا مثل نہیں لاسکتے

قُلْ لَئنْ اجتَمَعَتِ الْا نْسُ وَالجِنُّ عَلیٰ أَنْ یٰا تُوا بِمِثْلِ هٰذا القُرْآنِ لَا یٰاَتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَاْنَ بَعْضُهُم لِبَعْضٍ ظَهِیْراً -(اسراء ٨٨)

ترجمہ:

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

پیغام:

اگر تمام انس وجن ہم فکر ہوجائیں تو قرآن جیسی بامعانی کتاب نہیں لاسکتے اس لیے کہ قرآن خالق کے تمام کمالات کا سر چشمہ ہے، اور جن و انس اس کی مخلوق ہیں۔

خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ۔

(۲) دس سورے لے آؤ

أَمْ یَقُولُونَ افْتَرٰاهُ قُلْ فَاتُوا بِعَشَرِسُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیٰاتِ----(هود ١٣)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ۔

۵

پیغام:

اس آیت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی امانت داری کے ساتھ پیش آنا چاہیے، منکر ین کا کہنا تھا کہ قرآن بندہ کاگڑھاہوا ہے قرآن نے نہایت ہی امانتداری کے ساتھ ان کے کلام کو ویسے ہی نقل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو دس سورے تم بھی بنا لاؤ۔

(۳) ایک سورہ لے آؤ

وَ أن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمّا نَزّلْنٰا عَلیٰ عَبْدِنٰا فَاتوا بسورةٍ من مثله----(بقره ٢٣)

ترجمہ:

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کچھ شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ۔

پیغام:

منکرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی کہ قرآن پر اعتراض کریں لیکن آج تک کوئی ایک سورہ کا جواب بھی نہ لاسکا، اگر منکرین اپنے دعوسے میں سچے ہیں تو بے ہودہ اعتراضات کے بجائے ایک سورہ اس جیسا لے آئیں۔

۶

(۴) تد بّر کرو

أَفَلَا یتدبّرونَ القرآنَ وَلَوْ کان مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِیْه اختلافاً کثیراً(نساء ٨٢)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ قرآن میں غور فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔

پیغام:

انسانی زندگی میں پیش آنے والے خوشگوار اور ناخوشگوار حالات اس کے کلام، اس کی گفتگو پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن رسالتمآب (ص) کی زندگی کے نشیب و فراز قرآن کے انداز بیان اور لب و لہجہ پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

(۵) تلاوت سے پہلے

فَاذَا قَرأت القرآنَ فاستعذ باللّٰهِ من الشیطان الرَّجیم-(نساء ٨٢)

ترجمہ:

جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابلے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کریں۔

۷

پیغام:

قرآن کی تلاوت اور اُس پر عمل ہمیں کمال اور راہِ سعادت تک پہونچاتا ہے اور شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس راہ میں رکاوٹ ڈالے ، لہٰذا تلاوت سے پہلے شیطان کے مقابلے کیلئے خدا سے پناہ طلب کریں۔

(۶) غور سے سنو

وَاِذا قُرِیَٔ القرآنُ فَاسْتَمِعُوا لَه' وَانْصَتُوا لَعلّکُمْ تَرْحَمُون-(اعراف ٢٠٤)

ترجمہ:

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہوکر غور سے سُنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے۔

پیغام:

قرآن کی تلاوت کو غور سے سننا اُس پر عمل کیلئے مقدمہ ہے، اور خاموش رہنا اس کی آیات میں تدبر کی نشانی ہے، ممکن ہے کہ سننا اور غوروفکر کرنا خدا کی رحمت کا باعث بن جائے۔

۸

(۷) مجسمہ ہدایت

شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْهِ الْقرْآن هُدیً لِلنَّاسِ وَ بَیِّنٰاتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الْفُرْقان----(بقره ١٨٥)

ترجمہ:

ماہ رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔

پیغام:

قرآن سب کے لیے اور ہر زمانہ میں ہدایت ہے، قرآن حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔

(۸) نور کی طرف دعوت

هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلیٰ عَبْدِهِ اٰیٰاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمٰاتِ اِلی النُّور----(حدید ٩)

ترجمہ:

وہ ہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی نشانیاں نازل کرتاہے ، تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لے آئے۔

۹

پیغام:

قرآن ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لاتاہے۔

تاریکی ، جہل، کفر، ناامیدی ہر بری صفت کی علامت ہے جبکہ نور ، علم ایمان ، امید ہر اچھی صفت کی علامت ہے۔

(۹) قرآن کی عظمت

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوٰاقِع النُّجوُم - وَ اِنَّه' لَقَسَم لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیْم- اِنّه لَقُرآن کَرِیم - فِیْ کِتٰابٍ مَکْنُون-(واقعه ٧٥، ٧٨)

ترجمہ:

اور میں تو تاروں کی منازل کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، اور تم جانتے ہو کہ یہ قسم بہت بڑی قسم ہے، یہ قرآن ہے جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت ہی حیرت انگیز اور شگفت آور ہے اس لیے خداوند عالم نے ان کی قسم کھا کر قرآن کی عظمت کو بیان کیاہے۔

۱۰

(۱۰) قرآن کی تلاوت

فَاقْرَؤا مٰا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ-(مزمل ٢٠)

ترجمہ:

بس جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو۔

پیغام:

قرآن انسانوں کی زندگی کے لیے دستور العمل ہے لہٰذا زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور صبح و شام تلاوت کرکے ہمیں اس سے اُنس برقرار رکھنا چاہیے۔

(۱۱) پیغمبر اسلام کی فریاد

وَقَالَ الرَّسولُ یٰارَبّ اِنَّ قَوْمِیْ ا،تَّخَذُوا هٰذٰا الْقُرْآنَ مَهجُوراً -

ترجمہ:

اور اس دن رسول آواز دے گا کہ پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیاہے۔

۱۱

پیغام:

آئیے ہم سب مل کر اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پر عمل کریں، تاکہ رسالتمآب(ص) کی فریاد کے دائرہ سے باہر نکل جائیں۔

قرآن انسانوں کے لیے ضابطہ حیات ہے اور محض ایک تشریفاتی کتاب نہیں ہے۔

(۱۲) کمالِ رحمت

الرَّحْمٰن - عَلّم القُرآن - خَلَقَ الْاِنْسَانَ -(رحمن ٣-١)

ترجمہ:

وہ خدا بڑا مہربان ہے، اُس نے قرآن کی تعلیم دی ہے، انسان کو پیدا کیاہے۔

پیغام:

خدا کے کمالِ رحمت کا سب سے پہلا مظہر تعلیم قرآن ہے اس کے بعد خلقت انسان کا مرحلہ آتا ہے لہٰذا قرآن انسان پر برتری رکھتا ہے، انسان کی انسانیت قرآن کی تعلیمات سے وابستہ رہنے ہی سے باقی رہتی ہے وگرنہ وہ حیوانات سے بھی بدتر ہوجائے۔

۱۲

(۱۳) پہاڑ کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا

لَوْ أَنْزَلْنٰا هٰذَا الْقُرآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَأَیْتَه' خَاشِعًا مُتَصَدّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللّٰه----(حشر ٢١)

ترجمہ:

ہم اگر اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ پہاڑ خوف سے لرزاں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا جارہاہے۔۔۔

پیغام:

ظالموں کے دل تو پہاڑ اور پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں کہ باران رحمت ( آیات قرآن) کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

(۱۴) قرآن کی دلوں پر تأثیر

اللّٰه نَزَّلَ أَحْسَنَ الحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِهًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُهُمْ و قُلُوبُهُمْ اِلی ذِکْرِ اللّٰه ----(زمر ٢٣)

ترجمہ:

اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیںاور باربار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔

۱۳

پیغام:

کلام بشر قرآن کی حد تک انسانوں کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم کی دلوں پر اس طرح تاثیر اسکے نازل کرنے والے کی عظمت و جلالت کا پتہ دیتی ہے، اس لیے کہ ہر شخص کا کلام اس کے مقام و منزلت کی نشاندہی کرتاہے۔

(۱۵) کفار کی بہانہ جوئی

وَقَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذا الْقُرآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیتینِ عَظِیْم o (زخرف ٣١)

ترجمہ:

اور یہ کہنے لگے کہ آخر یہ قرآن دونوں بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیاہے۔

پیغام:

کفار اپنے بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کیلئے مختلف باتیں بناتے رہتے تھے کبھی کہتے تھے کہ قرآن صاحبان مال ودولت پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے ہم پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے کہ آخر دفعی نازل کیوں نہ ہوا؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کی برتری اور فضیلت کا معیار مال و دولت ہے۔

۱۴

(۱۶) حفاظت الٰھی

اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَوَ انّا لَه' لَحٰافِظُون- (حجر ٩)

ترجمہ:

ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

پیغام:

اس آیت میں پانچ مرتبہ اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ قرآن ربّ العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اسے باطل کی آمیزش اور ہر طرح کی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے والا وہی ہے۔

قرآن ذکر ہے یعنی خدا، انبیائ، قیامت اور ہر اُس نعمت کی یاد جو انسان کی ضرورت ہے۔

(۱۷) بابرکت کتاب

وَ هٰذٰا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاه مُبٰارک----(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتا ب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے۔

۱۵

پیغام:

قرآن جامع ترین کتاب ہے جو عالم بشریت کے لیے ہدایت، عبرت ، رشد و ترقی، شفا اور باعث عزت ہے۔

(۱۸) حجاب

وَ اذَا قَرَاتَ القرآنَ جَعَلْنٰا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجٰابًا مَسْتُورًا

(اسراء ٤٥)

ترجمہ:

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں۔

پیغام:

قیامت پر یقین نہ رکھنا انسان کے دل کو سیاہ کردیتا ہے، آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو دنیا میں غرق ہو کر روز آخرت اور خدا کو بُھلا چکے ہیں۔

۱۶

(۱۹)رحمت اور بشارت

وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰابَ تِبْیٰانًا لِکُلِّ شَیٍٔ وَ هُدیً وَّ رحمةً وَ بُشْریٰ لِلْمُسْلِمِینَ-(نحل ٨٩)

ترجمہ:

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے۔

پیغام:

قرآن مجید میں تمام ابوابِ خیر وشر کا ذکر موجود ہے جو اس کی تعلیمات پر عمل کرے، یہ اس کے لئے ہدایت اور بشارت ہے اور جو اس پر عمل نہ کرے وہ ان تمام چیزوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲۰) صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت

ذَلِکَ الْکِتٰابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِلّمُتَّقِیْنَ-(بقره ٢)

ترجمہ:

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لیے مجسمہ ہدایت ہے۔

۱۷

پیغام:

شک وشبہ میں مبتلا کرنا شیطان کا کام ہے ، اور خدا کے کلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، قرآن سب لوگوں کی ہدایت کرتاہے ''ھدیً للنّاس''بس فرق اتنا ہے کہ پرہیز گار لوگ صحیح انتخاب کے ذریعہ اس ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ کفار اور منافقین اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ اُس سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(۲۱) تصدیق کرنے والی

وَهٰذا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاهُ مُبٰارک مُصَدِّقُ الّذی بَیْنَ یَدَیْه(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔

پیغام:

قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جو انسان کیلئے ہدایت، عبرت، شفا اور باعث عزت ہے، جو تمام آسمانی کتابوں سے متفق اور ان کی تصدیق کرنے والی ہے، اور یہ چیز ان کے الٰہی اور ایک ہدف ہونے پر دلیل ہے۔

۱۸

دوسری فصل(اہل بیت(علیھم السلام)

۱۹

(۱) ریسمان الٰہی

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا-(آل عمران ١٠٣)

ترجمہ:

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔

تشریح:

حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ قرآن اللہ کی رسی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ہم اہل بیت اللہ کی رسی ہیں در حقیت قرآن اور اہل بیت (ع) جمال اور حسن الٰہی کے دو جلوے ہیں ایک کتاب کی صورت میں ہے اور دوسرا عمل کی صورت میں ۔

ہمیں قرآن اور اہل بیت سے زندگی گزارنے کے اصول سیکھنے چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوسکیں۔

(۲) کمال د ین اور اتمام نعمت

ألْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُم نِعْمَتِی-(مائده ٣)

ترجمہ:

آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔

۲۰

تشریح:

شیعہ اور سنی روایات کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی جہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت اور جانشینی کا اعلان کیا۔

اس دن کی چار خاص باتیں یہ ہیں۔

1۔ کفار کی ناامیدی - 2۔ کمال دین-3۔ اتمام نعمت-4۔ خدا کی خوشنودی

(3) ولایت

اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَ رَسُولُه وَالَّذِیْنَ أَمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ-(مائده ٥٥)

ترجمہ:

تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

تشریح:

ایک دن ایک فقیر نے مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد لوگوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی کچھ مدد نہ کی ایسے میں حضرت علی (ع) نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اُسے بخش دی اس وقت یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان کرم کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابن عباس، عمار یاسراور ابوذر جیسے دس صحابہ کرام نے نقل کیا ہے ، اور یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ و سنی حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۱

(4) تکمیل رسالت

یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لم تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه-(مائده ٦٧)

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادین جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویااس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔

تشریح:

تمام شیعہ اور بعض سنی مفسرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی جانشینی سے متعلق ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام(ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری کو حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر کیا۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں ، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث''مَنْ کُنْتُ مِوْلاه' فهذا عَلِی مَولَاه' '' کو نقل کیا ہے۔

۲۲

(5) صادقین

فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰآء نَا وَ أَبْنٰآئَ کُمْْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآ ئَ کُم وَ أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُم-( آل عمران ٦١)

ترجمہ:

ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔

تشریح:

یہ آیت آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

مباہلہ کے معنی دو مخالف گروہ کا خدا کے سامنے گڑگڑا کر ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے نجران کے عیسائیوں نے اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو بھیجا جبکہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے لے گئے، عیسائیوں کا گروہ ان ذوات مقدسہ کو دیکھتے ہی مباہلہ سے دستبردار ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوگیا۔

آیت میں ''انفسنا'' کے مصداق مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں جو پیغمبر کی جان ہیں ۔مباہلہ کا واقعہ 25 ذی الحجہ کو پیش آیا۔

۲۳

(6) ایثار کا نمونہ

اِنَّمٰا نُطعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَلَا شُکُوْرًا-( دهر ٩)

ترجمہ:

ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا(س) نے حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی بیماری سے صحت یابی کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر کی ان کے صحت یاب ہونے کے بعد نذر پورا کرنے کیلئے تین دن روزے رکھے پہلے دن افطار کے وقت اپنا کھانا فقیر، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے کر خود پانی سے افطار کرلیا، خداوند عالم نے سورہ دہر کو ان کی شان میں نازل کیا ہے اور 17 آیتوں میں ان کے بلند و بالا مقام کی مدح سرائی کی ہے۔

(7) برائی سے دوری

أَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوآ اِیْمٰانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهتَدُونَ-( انعام ٨٢)

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

۲۴

تشریح:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی شرک نہیں برتا۔

(8) خوشنودی خدا

وَمِنَ النّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ رَئُ وفم بِالْعِبٰادِ-( بقره ٢٠٧)

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح:

اہل سنت کے جید عالم دین ابن ابی الحدید (وفات سن 7 ھ ق ) کا کہنا کہ مفسرین عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں شب ہجرت اس وقت نازل ہوئی جب عرب کے قبائل پیغمبر اسلام کو قتل کرنے کی سازش کیے ہوئے تھے ایسے میں حضرت علی(ع) آنحضرت کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ آپ(ص) آرام و اطمینان کے ساتھ مکہ سے نکل جائیں۔

۲۵

(9) انفاق

أَلَّذِیْنَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرَّاً وعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ-(بقره ٢٧٤)

ترجمہ:

جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے، اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ آذردہ ہوں گے۔

تشریح:

تفسیر صافی ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے، جن میں سے ایک دن میں ، ایک رات میں ایک خاموشی سے اور ایک علی الاعلان خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔

۲۶

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار

هُوَ الّذِیْ أَیَّدَکَ یَنصُرِهِ وَ بِالْمُومِنِیْنَ-(انفال ٦٢)

ترجمہ:

اس (خدا) نے آپ(ص) کی تائید اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعے کی ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ عرش الٰہی پر یہ جملہ لکھاہے ''لا الہ اِلا اللّٰہ أنا وحدی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلیٍ '' میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی میرا کوئی شریک ہے اور محمد میرے بندے اور رسول ہیں، اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔

(11) اطاعت

یَآیُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ-( نساء ٥٩)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں۔

۲۷

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور فرمایا: '' یاعلی أنت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ '' اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی، اس کے بعد سور نساء کی آیت نمبر 59 نازل ہوئی۔

(12) مودَّت اہل بیت

قُلْ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ -(شوریٰ ٢٣)

ترجمہ :

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اسکے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

تشریح:

سورہ سباء کی آیت نمبر 47 کی روشنی میں (جس میں کہا گیا ہے کہ میں تم سے اجر رسالت چاہتا ہوں اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے) یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اہل بیت کی محبت و مودت رسالت محمد(ص) کا ایسا اجر ہے جس میں اُمت اسلامیہ ہی کا فائدہ ہے۔

شیعہ اور سنی کی اکثر روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

۲۸

(13) بہترین خلائق

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰاتِ أُوْلٰئِکَ خَیْرُ البَرِیَّةِ (بیّنه ٧)

ترجمہ :

یشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خیر البریّہ ہیں، خدا بھی آپ لوگوں سے راضی ہے اور آپ لوگ بھی خدا سے راضی ہیں۔

(14) محبوب خدا

یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مَنْ یَّرتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَه-(مائده ٥٤)

ترجمہ :

اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اُس سے محبت کرنے والی ہوگی۔

۲۹

تشریح:

اسعد بن وقاص سے روایت ہے ، پیغمبر نے جنگ خیبر میں فرمایا: میں علم اُسے دوں گا جو خدا اور رسول کا دوستدار ہوگا اور خدا اس کے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ کہ کر آپ جناب علی مرتضیٰ کی طرف بڑھے اور علم ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم

یُؤتِی الحِکْمَةُ مَنْ یَشَآئُ وَمِنْ یُّوْتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیراً ، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُوالْأَلْبٰابِ-(بقره ٢٦٩)

ترجمہ :

اور وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ جو ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں نوح(ع) کو ان کی حکمت میں اور یوسف(ع) کو ان کی خوبصورتی اور زیبائی میں دیکھنا چاہے، اُسے علی(ع) کی زیارت کرنی چاہیے۔

۳۰

(16) خیر کثیر

اِنَّا أَعْطُیْنَاکَ الْکَوْثَر - فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ-(کوثر ١،٢)

ترجمہ :

اے رسول ہم نے تم کو کوثر عطا کیا تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔

تشریح:

پیغمبر اسلام کے دو بیٹوں کا انتقال بچپنے میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کفار مکہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے تھے لہٰذا خداوند عالم نے پیغمبر کو فاطمہ زہرا جیسی بیٹی عنایت کرکے اُسے کوثر کے نام سے یاد کیا اور ان کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی نسل کو قیامت تک کے لیے باقی اور دائمی بنادیا، تاکہ پیغمبر اسلام کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔

(17) ھادی

اِنَّمٰا أَنْتَ مُنْذِر وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ-(رعد ٧)

ترجمہ :

(اے رسول) تم تو صرف (خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی اور رھبر ہے۔

۳۱

تشریح:

ابن عباس سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور میرے بعد علی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہیں، اس کے بعد علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اے علی تم میرے بعد ان لوگوں کی ہدایت کرنے والے ہو جو ہدایت کے طلب گار ہیں۔

کتاب شواہد التنزیل میں 19 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

(18) صراط مستقیم

وَاللَّهُ یَدْعُوْآ اِلی دَارِالسَّلٰمِ - وَیَهدِی مَنْ یَّشَآء اِلیٰ صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ o (یونس ٢٥)

ترجمہ :

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے۔

تشریح:

ابن عباس سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

۳۲

(19) حقِ طہارت

اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرُکُمْ تَطْهِیرًا-(احزاب ٣٣)

ترجمہ :

اے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح) کی برای سے دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح:

انس بن مالک سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لاتے تو جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کرتے اور یہ عمل چھ مہینے تک جاری رہا۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور پیغمبر(ص) نے فرمایا: یہ ہیں میرے اہل بیت۔

کتاب شواہد التنزیل میں 137 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

۳۳

(20) نور الھی

أَللّٰهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ-مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکَوٰةٍ فِیْهٰا مِصْبٰاح-الْمِصْبٰاحُ فِیْ زُجٰاجَةٍ أَالزُّجَاجَةُ کَأَنَّهٰا کَوْکَب، دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبٰارَکَةٍ زَیْتُونَةٍ لَّا شَرْ قِیَّةٍ وَّلَا غَرْبِیِّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِی ئُ وَلَوْلم تَمْسَسْهُ نَار، نور عَلٰی نُوْرٍ یَهدِی اللّٰهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشٰائُ- (نور ٣٥)

ترجمہ:

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل گویا ایک روشن ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جائے، جو نہ پورپ کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچ وبیچ) میدان میں اسکا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ خود ہی روشن ہوجائے گا ، (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور ہے خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں ایک دن جب مسجد میں داخل ہوا اور حضرت علی(ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اس آیت کی تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی پر غور نہیں کرتا ہے میں نے عرض کی کون سی آیت تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:

۳۴

مشکاة سے مراد محمد (ص) ہیں ،مصباح سے مراد میں ہوں، زجاجہ سے مراد حسن ، حسین ہیں، کوکب دری سے مراد علی ابن الحسین، شجرہ مبارکہ سے مراد محمد بن علی، زیتونہ سے مراد جعفر بن محمد ، لاشرقیہ سے مراد موسیٰ بن جعفر، لاغربیہ سے مراد علی بن موسیٰ الرضا ، یکاد زیتھا سے مراد محمد بن علی ، لم تمسہ النار سے مراد علی بن محمد، نور علی نور سے مراد حسن بن علی اور یھدی اللہ لنورہ من یشاء سے مراد حضرت مہدی ہیں۔

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهِ لَاِبْرَاهِیْم- ( صافّات ٨٣)

ترجمہ :

اور یقینا ان ہی (نوح) کے پیروکار میں سے ابراہیم بھی تھے۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب جناب ابراہیم کی خلقت ہوئی تو انھوں نے عرش الٰہی کے پاس ایک نور دیکھا ، پوچھا خدایا یہ کس کا نور ہے جواب ملا یہ نور محمد ہے پھر نور محمد کے ساتھ ایک اور نور دیکھا پوچھا یہ کس کا نور ہے، جواب ملا یہ علی کا نور ہے پھر تین نور ااور دیکھے اور اس کے بعد نو(9) نور اور دیکھے پوچھا یہ کس کے نور ہیں ؟ جواب ملا یہ تین نور فاطمہ زہرا اور حسن ، حسین کے ہیں اور نو (9) نور نو اماموں کے ہیں جو سب کے سب حسین کی نسل سے ہوں گے، تب جناب ابراہیم نے فرمایا: خدایا! مجھے امیر المومنین کے شیعوں میں سے قرار دے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ''ان من شیعتہ لابراھیم''

۳۵

تیسری فصل(امام زمان عج)

۳۶

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن

---یَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ المُومِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰه---(روم ٤،٥)

ترجمہ:

اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ آخری امام کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مؤمنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی

وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسَیٰ أُمةً یَهدُوْنَ بِالْحَقّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ-(اعراف ١٥٩)

ترجمہ:

اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔

۳۷

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ جب قائم آل محمد ـ کعبہ سے ظہور کریں گے تو 27 افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے 15 کا تعلق قوم حضرت موسیٰ ـ ، 7 افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرت کے ساتھی ، اور آپ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔

(3) آئمہ کی معرفت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَة نَزِد لَه' فِی حَرْثِه وَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَا ---(شوریٰ ٢٠)

ترجمہ:

جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے روایت ہے کہ ''حرث الاخرة''سے مراد علی ـ اور باقی آئمہ علیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور ''حرث الدنیا'' سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸

(4) حق کی کامیابی کا دن

--- وَ یَمحُ اللّٰهُ البٰاطِلَ وَ یَحِقُ الحَقَّ بِکَلِمٰاتِهِ -(شوریٰ ٢٤)

ترجمہ:

اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ـ ہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

(5) دین حق

هو الذی أَرسَلَ رَسُولَه' بِالْهُدیٰ وَ دِیْنَ الحَقّ لِیُظْهِرَه عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّهِ ---(فتح ٢٨)

ترجمہ:

وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔

تشریح:

امام صادق ـسے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ـ کا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔

۳۹

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا

اِعْلَمُوا انَّ اللّٰه یُحْیِ الارض بعَدَ مَوتِهٰا --- (حدید ١٧)

ترجمہ:

یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔

(7) نورِ الٰہی

یُرِیدُوْنَ لِیُطْفِؤا نورَ اللّٰهِ بِأفواهِهِمْ وَاللّٰه مُثمُّ نُوْرِهِ و نَوکَرِهَ الْکٰافِرُونَ - (صف ٨)

ترجمہ:

یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نور خدا کو پنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204