معارف قرآن

معارف قرآن36%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181494 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

مصادر و مآخذ

سواد بن مالک تمیمی کے حالات :

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (٢/٩٦) نمبر:٣٥٨٦

٢۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٢٣۔٢٢٢٥)

سواد بن مالک کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٢٣ ۔ ٢٢٢٥، ٢٢٣٩ ۔ ٢٢٤٤)،و (١/٢٢٥٨ ۔ ٢٢٥٩)، (١/٢٢٦٦)

٢۔تاریخ ابن اثیر (٢/٣٤٩) ،(٢/٣٥٤۔٣٥٥)

٣۔تاریخ ابن خلدون (٢/٣١٧،٣١٩)

سواد بن مالک داری کے حالات:

٤۔ ابن حجر کی ''اصا بہ '' (٢/٩٦) نمبر: ٣٥٨٥

۶۱

دوسرا حصہ

عراق کی جنگوں میں سعد وقاص کے ہمراہ جنگی افسر اور سپہ سالار( ٢)

r ٦١۔عمروبن وبرہ

٦٢۔حمّال بن مالک بن حمّال اسدی

٦٣۔ربّیل بن عمروبن ربیعہ

٦٤۔طلیحہ بن بلال قرشی عبدری

٦٥۔خلید بن منذر بن ساوی عبدی

٦٦۔حارث بن یزید عامری

اکسٹھواں جعلی صحابی عمرو بن وبرہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لکھا ہے :

سیف بن عمر نے کتاب ''فتوح '' میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''عمروبن وبرہ '' ١٤ئ میں قبائل قضاعہ پر حکومت کرتا تھا ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر کی تاریخ طبری میں اشارہ کی گئی اصل داستان کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نسب شناس علماء کا ''قضاعہ ''کے نسب پر اختلاف نظر ہے کہ وہ '' بنی عدنان '' سے ہیں یا بنی ''حمیر سبائی '' سے ؟!

لیکن، ابن حجر نے اوپر جس داستان کی طرف اشارہ کیا ہے '' تا ریخ طبری'' میں اس کی اصل اور پوری داستان کو سیف سے نقل کر کے یوں بیان کیا گیاہے :

خلیفہ عمر نے سعد وقاص کے مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد دوہزار جنگجو اس کی مدد کے لئے ببھیجے۔

سعد نے موسم سرما کی ابتداء میں ''زرود '' میں پڑاؤ ڈالا۔اس کے سپاہیوں نے ''بنی تمیم اور بنی اسد '' کی سرزمینوں اوراس علاقہ کے ساحل پر اپنیخیمے نصب کئے۔سعد بدستور ''زرود''میں منتظر تھا تاکہ خلیفہ کا فرمان اسے پہنچے اور اس کے سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھ جائے ۔ اس مدت کے دوران سعد نے ''بنی تمیم اور بنی رباب '' سے چار ہزار جنگجو اپنی فوج میں شامل کر لئے ۔ ان میں سے تین ہزار ''تمیمی '' اور ایک ہزار فوجی ''ربّی''تھے ۔

۶۲

اس نے ''بنی اسد '' کے بھی تین ہزار سپا ہی بھر تی کئے اور سبوں کو حکم دیا کہ اپنی رہائش گاہوں کے نزدیک پہاڑیوں اور میدانوں کے درمیان کیمپ لگائیں اور بدستور اپنی جنگی تیاری کو'' سعد''اور ''مثنی بن حارثہ'' کے کیمپ کے درمیان جاری رکھیں ۔

''مثنی بن حارثہ ''بھی قبیلہ ''ربیعی''سے آٹھ ہزار سپاہی اپنے ساتھ لایا تھا ، ان میں سے چھ ہزارسپاہی ''طائفہ بکربن وائل '' سے تھے اور باقی دوہزار ''ربیعہ '' کے دوسرے قبائل سے تھے ۔

مثنی نے ان میں سے چار ہزار نفر کو خالد کی روانگی کے بعد انتخاب کیا تھا اور باقی چار ہزار نفر '' جسر ''کے میدان کارزارسے ہی اس کے ساتھ تھے ۔

ان کے علاوہ جو یمانی سعد وقاص کی کمانڈ میں جمع ہوئے تھے ان میں سے دوہزار نفر قبیلہ ''بجلیہ''سے اور دوہزار نفر ''قضاعہ''و ''طی ''سے تھے جن کی کمانڈ مندرج ذیل اشخاص کے ذمہ تھی :

١۔ قبیلۂ طی کے افراد کا سپہ سالار ''عدی بن حاتم '' تھا ۔

٢۔ قبیلۂ قضاعہ کے افراد کا سپہ سالار ''عمر وبن وبرہ '' تھا۔

٣۔ قبیلۂ بجلیہ کے افراد کا سپہ سالار '' جریر بن عبد اﷲ'' تھا ۔

لشکر کی موجودہ صورت حال میں ، سعد وقاص ''زرود ''میں اس انتظار میں تھا کہ مثنی اس کی خدمت میں پہنچ جائے اور مثنی اس امید میں تھا کہ سعد اس کے پاس آئے گا۔ اتفاقاً مثنی جنگ جسر میں لگے زخموں کی تاب نہ لاکر فوت ہوگیا ۔ مرنے سے پہلے اس نے ''بشیربنحضامیہ'کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

اس اثناء میں عراق کے معروف افراد کا ایک گروہ بشیر کی خدمت میں پہنچا۔ اور عراق سے بعض نمائندے جیسے ''فرات بن حیان عجلی اور عتیبہ '' جو عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور خلیفہ نے انھیں واپس بھیج دیا تھا ، وہ سب سعد کی خدمت میں پہنچے تھے ۔ (طبری کی بات کا خاتمہ )

۶۳

افسانہ ٔ عمرو کے اسناد کی پڑتال :

عمروکے بارے میں سیف کی روایت کے درج ذیل خیالی و جعلی راوی نظر آتے ہیں ۔

١۔محمد یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ۔

٢۔زیاد ، یازیادبن سر جس احمری ۔

کہ سیف نے اپنی روایتوں میں ان کا نام اختصار کے ساتھ ''محمد و زیاد'' ذکر کیا ہے :۔

اس بحث کا نتیجہ:

چونکہ سیف کی روایت کے متن میں آیاتھا کہ ''قضاعہ کی کمانڈ عمرو بن وبرہ کے ذمہ ہے '' لہذا حجر نے سیف کی روایت کے اسی حصہ پر اکتفاکر کے عمرو کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل کیا ہے اور اس کو اپنی کتاب ''اصابہ ''میں ثبت کیا ہے ۔

لیکن چونکہ اس صحابی کے نام کو سیف کی اس روایت کے علاوہ کسی دوسری روایت میں نہیں دیکھا ہے ، اس لئے صرف اسی قدر کہتا ہے :

سیف نے بن عمر نے ''فتوح ''میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ١٤ ھ میں عمروبن وبرہ قبائل قضاعہ پر حاکم تھا۔

ابن حجر نے سیف کی اسی روایت کے سہارے اور صحابی کی پہچان کے لئے وضع کئے گئے نام نہاد قاعدہ پر اعتماد کر کے سیف جعل کردہ ''ابن وبرہ ''کے سپہ سالار ہونے کو و معیار قرار دے کر اسے صحابی جاناہے ۔ اگر چہ اس سلسلے میں اس نام نہاد قاعدے کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

عمرو بن وبرہ کے حالات:

١۔ ابن حجر کی ''اصابہ '' (٣/١١٩) تیسرا حصہ نمبر : ٦٥٢٠

''روز ماہیان ''( مچھلیوں کے دن ) کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔ ''تاریخ طبری'' (١/٢٢٢١۔٢٢٢٢)

۶۴

قبائل قضاعہ کا نسب :

١۔ ابن حزم کی جمھرہ انساب (٤٤٠)

باسٹھ واں جعلی صحابی حمّال بن مالک بن حمّال

ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں ہوا ہے :

حمّال بن مالک بن حمّال :

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھاہے کہ سعد وقاص نے عراق کی طرف عزیمت کرتے وقت ''حمال بن مالک بن حمال ''کو اپنی پیدل فوج کا سپہ سالار مقرر کیا ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن ماکو لانے بھی حماّل کے تعارف کے سلسلے میں لکھا ہے :

''حَمَل بن مالک بن جنادہ '':

سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ اس صحابی نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خلافت ِ عمر کے دوران ''نہاوند ''کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے اور اسی جنگ میں مارا گیا ۔

یہاں پر ''حَمَل بن مالک جنادہ ''نام غلط ہے بلکہ صحیح وہی ''حماّل بن ،مالک حماّل'' ہے ۔ اس پر بعد میں بحث کریں گے ۔

اس کے علاوہ طبری اور ابن حجر میں سے کسی ایک نے حمّال کے نہاوند کی جنگ میں شرکت کرنے اور وہاں پر مارے جانے کی خبر سیف سے نقل کر کے نہیں لکھی ہے !

ابن ماکولا نے باب''حمّال '' میں لکھاہے:

حمال بن مالک اسدی ،مسعود بن مالک اسدی کا بھائی ہے کہ دونوں نے سعد وقاص کے ساتھ قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۶۵

لیکن تاریخ طبری میں سیف سے نقل کر کے ''مسعود بن مالک '' کانام یوں آیاہے :

مسعود بن مالک اسدی اور عاصم بن عمروتمیمی نے جنگجوؤں کے ایک گروہ نے شجاعتوں اور دلاوریوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔

جبکہ ہم جانتے ہیں کہ سیف بن عمر نے ''لیلتہ الھریر''کا نام اپنی ''عماس''کی شب یاآخری شب کے لئے رکھا ہے اور اس قسم کا نام تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ہوا ہے !

اس کے علاوہ قابل ذکر ہے کہ سیف نے اسے حدیث کو نضر سے اس نے ابن رفیل سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے حمید بن ابی شجار سے نقل کیا ہے کہ یہ سب سیف کے خیالی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے نقل کر کے حمال بن مالک کا تعارف یوں کیا گیا ہے :

سعد وقاص ''شراف ''میں تھا کہ اسے خلیفہ عمر کی طرف سے ایک خط ملا جس میں اسے فوج کے مختلف دستوں کے لئے سپہ سالار معین کرنے کا حکم تھا۔ سعد نے خلیفہ عمر کا حکم بجالاتے ہوئے اپنی پیدل فوج کی کمانڈ حماّل بن مالک اسدی کو سونپی ہے۔

۶۶

ترسٹھ واں جعلی صحابی ر بیل بن عمروبن ربیعہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کیا ہے :

ربیال بن عمرو:

سیف نے کتاب ''فتوح ''میں اس کا نام لیاہے اور اس کے نمایاں کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔

'' طبرانی'' نے بھی لکھا ہے کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے سپہ سالاروں میں سے تھا ۔

ہم نے بھی اس سے پہلے کہا ہے کہ قدماء کی رسم یہ تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کا عہدہ نہیں سونپتے تھے (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

جیسا کہ بعد میں پتا چلے گا کہ ''ربیال '' نام غلط تھا اور صحیح وہی '' ربیل''ہے ۔اسی طرح ''طبرانی'' بھی صحیح نہیں ہے بلکہ ''طبری ''صحیح ہے کہ ابن حجر نے صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالنے میں اس سے قول نقل کیا ہے ۔

سیف نے ایک دوسری روایت میں جسے اس نے خلیفہ عثمان کے دفاع میں بیان کیاا ہے۔

ربّیل کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے ۔

عثمان نے اپنی خلافت زمانے میں انعام کے طور پر چند زمینیں ''زبیر ،خباّب ،عمار یاسر ، ابن ہباّر اور ابن مسعود '' کو بخشیں ۔ اگر عثمان نے اس بذل و بخشش میں کوئی گناہ کیاہو تو ان زمینوں کو لینے والوں کا گناہ عثمان سے زیادہ ہے ، کیونکہ ہم دین کے قوانین اوراحکام ان سے حاصل کرتے ہیں ۔

عمر نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں کچھ زمینیں ''طلحہ ،جریربن عبداﷲاور ربّیل بن عمرو''۔وہی لوگ جن سے ہم اپنا دین حاصل کرتے ہیں ۔کو بخش دیں اور''ابو مفزر'' کو دارالفیل بخش دیا۔ یہ بخششیں انفال اور خمس و بخشائش خداوندی کے کوٹے سے انجام پائی ہیں !!

۶۷

حمال و ربّیل کا افسانہ

گزشتہ بحث کے علاوہ ،ذیل میں بیان ہونے والی سیف کی روایات میں مشاہدہ کریں گے کہ ان دوپہلوانوں کا نام ایک ساتھ آیا ہے اور ان میں سے ایک دوسرے کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے ۔اب ہم قارئین کرام کو سیف کے بیان کردہ قادسیہ کے وقائع کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں جس میں اس نے اپنے ان دو جعلی اسدی صحابیوں کا ذکرکیاہے۔

طبری قادسیہ کی جنگ کے سلسلے میں سیف سے نقل کر کے لکھتاہے :

جب فوج کے دستے جنگ کے لئے آمادہ ہو رہے تھے توایرانی ہاتھی سواروں نے مسلمانوں کی منظم صفوں پر اچانک حملہ کیا اور ان کے فوجی دستوں کو تتربتر کر کے رکھدیا ،گھوڑے وحشت زدہ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور اپنے سواروں کو بیابانوں میں کھینچ لے گئے ،قریب تھا کہ قبیلۂ بجلیہ کے افراد ہاتھیوں کے سموں کے نیچے مسمار ہوکے رہ جایئں ۔ان کے سوار گھوڑوں کے رم کرنے کی وجہ سے ہر طرف فرار کر چکے تھے ۔صرف پیدل فوج ؛تھی جو مردانہ وار میدان میں ڈٹی ہوئی تھی۔

اس وحشتناک عالم میں سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے قبیلہ بنی اسد کو پیغام بھیجا کہ قبیلہ بجیلہ کے افراد اور ان کے ساتھیوں کی مدد کو پہنچیں ۔کمانڈر انچیف کے حکم کی تعمیل میں '' طلیحہ بن خولید اسدی ،حمال بن مالک اسدی اور ربّیل بن عمرواسدی '' نے اپنے فوجی دستوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور فوج کی پیش قدمی کو روکا اورایک گھمسان کی جنگ کے بعد ہاتھیوں ،ہاتھی بانوں اور ہاتھی سواروں جو ہر ہاتھی کے ساتھ بیس افراد پر مشتمل تھے ،کو عقب نشینی پر مجبور کیا۔

ایرانیوں نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسد کے دلاوروں کے توسط سے ان کے ہاتھیوں پر کیا گزری ،تو انہوں نے اجتماعی طور پر ان کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا اور قبیلہ اسدکے افراد پر چاروں طرف سے تیروں کی بارش کر دی۔ یہاں پر سعد وقاص نے عاصم بن عمرو تمیمی کو حکم دیا کہ بنی اسد کی مدد و یاری کر کے انھیں اس مصیبت سے نجات دے۔ کیونکہ یہ عاصم بن عمرو تمیمی تھا جوجنگ کے پہلے دن یعنی ''روز ارماث'' کو تمام لوگوں اور جنگجوؤں کے لئے پناہ گاہ تھا!

سیف ایک دوسری روایت میں جنگ کے دوسرے دن ،جسے ''روز اغواث '' کہا جاتاتھا کے وقائع کے بارے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۶۸

''اغواث کے دن خلیفہ عمر کی طرف سے ایک قاصد قادسیہ میں انعام کے طور پر چار تلواریں اور چار گھوڑے لے کر سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا تاکہ ان چیزوں کو ان بہادروں اور دلاوروں میں تقسیم کریں جنہوں نے جنگ میں شجاعت اور دلاویوں کا نمایاں مظاہرہ کیا ہے اور قادسیہ کی جنگ میں قابل دید جاں نثار یاں دکھائی ہیں ۔

سعد وقاص نے خلیفہ کے حکم پر عمل کرنے کا حکم دیدیا۔''حمال بن مالک والبی ''،''ربیل بن عمرووالبی'' اور ''طلیحہ بن خولید بن فقعسی '' جو تینوں قبیلۂ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور ''عاصم بن عمرو تمیمی '' کہ ان میں سے ہر ایک فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار تھا،جمع ہوئے۔سعد وقاص نے ان میں سے ہر ایک کو عمر کی طرف سے تحفے کے طور پر ایک ایک تلوار دی۔

انعامات کی اس تقسیم میں تین اسدی پہلوانوں نے خلیفہ عمر کی بھیجی ہوئی تلواروں کا تین چوتھا ئی حصہ حاصل کیا ۔ ربیل بن عمرونے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درج ذیل اشعار کہے ہیں :

سب جانتے ہیں کہ اگر تیز دھاروالی تلواریں ہاتھ آئیں تو ہم اُن کو حاصل کرنے میں دوسرے تمام لوگوں سے سزا وار تر ہیں ۔میرے سوار شام سے ،''ارماث'' کے دن کے آخر تک عام عرب قبائل پر دشمن کے حملوں کو مسلسل روکتے رہے۔

دوسرے سواروں اور جنگجوئو ں نے ایسے فرائض کو دوسری شبوں میں انجام دیا۔

سیف نے ایک اور روایت میں ''عماس '' کے دن کے بارے میں یوں حکایت کی ہے :

''عماس '' کے دن دوبارہ ہاتھیوں کا حملہ شروع ہوا اور انہوں نے ارماث کے دن کی طرح اسلام کے سپاہیوں کی صفوف کو توڑ تے ہوئے ان کے شیرازہ کو بکھیرکے رکھدیااور ان کے سردار وں کو بھگا دیا ۔

سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی ، تو اس نے ایک تازہ مسلمان ایرانی سپاہی۔جو رستم فرخ زاد کی فوج سے بھاگ کر اسلام کی پناہ میں آیا تھا۔سے پوچھا :

ہاتھی کا نازک نقطہ کہاں ہے اور یہ حیوان کس طرح موت کے گھاٹ اتاراجاسکتاہے ؟اس نے جواب دیا:

ہاتھی کی آنکھیں اور اس کی سونڈ اس کا نازک نقطہ شمار ہوتا ہے ،اگر اس کی ان دو چیزوں کو بیکار کر دیا جائے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔!

۶۹

لہذا سعد وقاص نے کسی کو''قعقاع بن عمروتمیمی اور عاصم بن عمرو'' دو تمیمی پہلوان بھائیوں کے پاس بھیجااوران سے کہاکہ ہاتھیوں آگے آگے بڑھنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے مسلمانوں کو اس کے شرسے نجات دلائیں ،کیونکہ وہ ہاتھی سب ہاتھیوں سے آگے بڑھ کرمسلمان فوجیوں پر حملہ کررہا تھا اور دوسرے ہاتھی اس کی پیروی کررہے تھے ۔

اسی طرح سعدوقاص نے ایک دوسرے فرمان کے ضمن میں ''حمال بن مالک اسدی'' اور ''ربیل بن عمرواسدی'' کو حکم دیاکہ وہ ''اجرب '' نامی ہاتھی کا کام تمام کریں اور مسلمانوں کو اس کے شر سے نجات دیں کہ یہ ہاتھی بھی ہاتھیوں کے ایک دوسرے دستہ کو اپنے پیچھے لئے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

سپہ سالار اعظم کے حکم کو بجالانے کے لئے دو تممیی بھائی اور پہلوان قعقاع اور عاصم میں سے ہر ایک ،ایک مضبوط لیکن نرم اور تابدار نیزہ لئے ہوئے سفید ہاتھی کی طرف بڑھے ۔حماّل اور ربیل نے بھی ایساہی کیا۔

قعقاع اور عاصم سفید ہاتھی کے نزدیک پہنچے اور ایک مناسب فرصت میں دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ پوری قوت اور طاقت سے اپنے نیزوں کو سفید ہاتھی کی آ نکھوں میں گھونپ دیا اور اس کی دونوں آنکھوں کو حلقوں سے باہر نکال لیا۔ہاتھی اس زخم کی تاب نہ لاکر دُم کے بل زمین پر ڈھیر ہوگیا اور اپنے ہاتھی بان کو زمین پر دے مارا ور اپنی سونڈ لٹکا دی ،قعقا ع نے فرصت غنیمت دیکھی اور اچھل کر تلوار کی ایک کاری ضرب سے اس کی سونڈ جدا کر کے رکھدی ۔ اس کے بعد ہاتھی اپنا توازن کو کھوکر پہلو کی طرف زمین پر گرگیا۔ اس دوران قعقاع اور عاصم نے اس کے تمام سواروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

دوسری طرف حماّل بن مالک نے ربیل بن عمرو سے کہا:

انتخاب تمہارے ہاتھ میں ہے ،یاتم ہاتھی کی سونڈ کو کاٹو اور میں اس کی آنکھیں اندھی کردوں یا تم اس کی آنکھوں کو نشانہ بناؤ اورمیں اس کی سونڈ کاٹ دوں !

ربّیل نے ہاتھی کی سونڈ کو جدا کرنے کی ذمہ داری لے لی اور حمّال نے اس کی آنکھوں کو نشانہ بنا کر ایک تیز حرکت سے اپنے نیزہ کو ''اجرب''نامی ہاتھی کی آنکھوں میں گھونپ دیا۔ہاتھی اس زخم کے نتیجہ میں مڑ کر دُم کے بل زمین پر گرنے کے بعد اپنی اگلی دو ٹانگوں کے سہارے پھر سے اٹھا ، اس بار ربیل نے فرصت نہ دیتے ہوئے اپنی تلوار سے اس کی سونڈ کاٹ کر رکھدی ۔ ہاتھی بان جب ربّیل اور فیل کی سونڈ پر اس کی ضرب سے متوجہ ہوا تو اس نے تبر سے ربیل کے چہرہ پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔

سیف ایک دوسری روایت میں اس موضوع کے بارے میں کہتاہے :

۷۰

حمّال اور ربّیل نے سپہ سالار اعظم کی طرف سے ماموریت حاصل کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکر پو چھا:

اے لوگوں !کون سی موت اس ہاتھی کے لئے دردناک تر ہے ؟جواب دیاگیا:

اس پر سختی کرو اور زخمی کر دو!

اس کے بعد جب یہ دو اسدی پہلوان ہاتھی کے سامنے پہنچے ،اپنے گھوڑوں کی لگام کھینچ لی تاکہ گھوڑوں نے اپنی ٹانگیں بلند کیں ،اس کے بعد ان میں سے ایک نے بڑی مہارت سے اپنے نیزے کو ہاتھی کی آنکھو میں گھونپدیا جس کے سبب ہاتھی پیچھے سے زمین پر گرگیا ،ربیل نے بھی بڑی تیزی سے اس کی سونڈ کو کاٹ کر رکھدیا۔اس پر ہاتھی بان نے تبر سے ربیل پر حملہ کیا اور ربیل کے چہرے پر ایک شدید ضرب لگائی لیکن وہ اس حملہ سے زندہ بچ نکلا۔

سیف نے ایک اور روایت میں کہا ہے :

جنگ کے دن دوہاتھی باقی ہاتھیوں کی رہبری کرر ہے تھے ۔ہاتھی بانوں نے ان دوہاتھیوں کا رخ مسلمان فوج کے قلب کی طرف کر دیا ۔۔(یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :)

سفید ہاتھی دونوں فوجوں کے درمیان حیران اور پریشان حا لت میں کھڑا تھااور سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کس طرف جائے۔اگر اسلام کے سپاہیوں کی طرف بڑھتا تو تلوار ں اور نیزوں کا سامنا ہوتا اور اگر سپاہ کفر کی طرف واپس جاتا تو اسے برچھیوں اور سیخوں سے واپس مڑنے پر مجبور کرتے ۔

اس کے بعد کہتاہے :

''ابیض ''و ''اجرب'' نامی دوہاتھیوں نے سوروں کی جیسی ایک ڈراؤنی آواز بلند کی۔ اس وقت ''اجرب ''نامی ہاتھی جس کی آنکھ نکال لی گئی تھی واپس لوٹا اور ایرانیوں کیصفوف کو درہم برہم کرتے ہوئے دریائے عقیق کے دھارے کی طرف بھاگا ۔اس وقت دوسرے ہاتھی جو اس کی پیروی کرتے تھے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔' 'اجرب'' نامی ہاتھی نے اپنے آپ کو ''عقیق ''نامی دریا میں ڈالدیا اور دوسرے ہاتھی بھی اس کے پیچھے مدائن کی طرف بھاگ گئے اور راستے میں جسے پایا اسے نابود کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اس طرح بہت سے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

طبری نے بھی ١٦ئ کے حوادث کے ضمن میں اسلام کے سپاہیوں کے دریائے دجلہ سے گزر کر مدائن کی طرف بڑھنے کے بارے میں سیف سے نقل کر کے لکھاہے :

۷۱

جب سعد وقاص نے عاصم بن عمرو کے ''اھوال'' نامی خصوصی فوجی دستے کو ایرانیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے دیکھا جو دریا کے کنارے اور پانی میں نبرد آزماتھے تو اسے ان کا یہ کارنامہ عظیم نظر آیا،لہذا تحسین کے طور پر انھیں ''خرسائ''نامی فوجی دستہ سے تشبیہ دیدی ۔یہ مخصوص فوجی دستہ قعقاع بن عمرو کا تھا اور اس میں ''حمال بن مالک اسدی ''اور ''ربیل بن عمرواسدی ''موجود تھے ۔

حّمال وربیل کے افسانہ میں سیف کے راویوں کی پڑتال :

مذکورہ روایات میں سیف نے درج ذیل ناموں کو راویکے طور پر پہچنوایاہے :

١۔محمد، یامحمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ کو چار مرتبہ ۔

٢۔زیاد،یا زیاد بن سرجس احمری کو تین مرتبہ۔

٣۔ مہلب،یامہلب بن عقبۂ اسدی کو ایک مرتبہ ۔

ان راویوں سیسے ہم کئی مرتبہ آشنا ہو چکے ہیں اور ہم نے کہا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں ۔

٤۔راویوں کے طور پر چند دیگر مجہول نام بھی ذکر ہوئے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ سیف بن عمر نے انھیں کون سے افراد تصور کیا ہے تاکہ ان کے وجود یا عدم وجود کے سلسلے میں بحث و تحقیق کرتے ۔

۷۲

اس جانچ پڑتال کا نتیجہ

جو کچھ ہم نے کہا ، اس سے یہ حاصل ہوتا:

سیف تنہا شخص ہے ، جس نے ''حمال بن مالک اسدی '' کے قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کی پیدل فوج کے سپہ سالارہونے کی خبردی ہے :

سیف تنہا شخص ہے جس نے خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوانوں ''قعقاع و عاصم '' فرزندانِ عمرو کے ہاتھوں ''ابیض ''نامی ہاتھی کے مارے جانے اور ''اجرب '' نامی ہاتھی کے ''حمال و ربیل ''جیسے اسدی دلاوروں کے ہاتھوں اندھا ہونے کی بات کہی ہے ۔

سیف تنہاشخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں نمایا ں شجاعت اور دلاوری کا مظاہرہ کرنے والے سپاہیوں اور معروف شخصیات کے لئے خلیفہ عمر کی طرف سے انعام کے طور پر چار تلواریں اورچار گھوڑے بھیجنے کی روایت سازی کی ہے ۔

اور سیف ہی و ہ تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' نامی دنوں کی روایت کی ہے ۔ہم نے ان تین جعلی دنوں کے بارے میں اس کتاب کی پہلی جلد میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

بالاخر سیف تنہا شخص ہے جس نے ''عاصم بن عمرو '' کے فوجی دستے ''اھوال '' اور ''قعقاع'' کے فوجی دستے ''فرساء '' کے وجود کا ذکر کیا ہے ۔

یہ اس کا طریقہ کار ہے کہ ہر ممکن صورت میں حتیٰ جعل ،جھوٹ اور افسانے گڑھ کے عام طور پر قبیلۂ عدنان اور خاص طور پر اپنے خاندان تمیم کے افراد کے لئے عظمت و افتخارات کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اپنے دشمنوں یعنی یمانی اور قحطانیوں کو نیچادکھا نے کی کوشش کر تا ہے !

ذرا توجہ فرما یئے کہ وہ مذکورہ بالا افسانہ میں ''ارماث '' کا دن خلق کر کے کس طرح قبیلہ تمیم کے لئے افتخار ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے :

نزدیک تھا کہ ایرانی بجلیوں قحطانیوں کو نابود کر ڈالیں کہ سعد وقاص نے ان کی داد رسی کی اور اسدی عدنانی ''حمال و ربیل 'کو ان کی نجات کے لئے ھیج دیا اور انھیں قطعی مرگ سے نجات دلائی ۔

۷۳

ایرانیوں نے اس بار انتقام لینے کی غرض سے اپنے تمام غضب ونفرت سے کام لیتے ہوئے بنی اسد عدنانیوں پر تیروں کی بارش کر دی۔ یہاں پر بھی سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے عاصم بن عمروتمیمی کو مأموریت دی کہ اسدیوں کو بچالے اور وہی تھا جس نے اپنی شجاعت کے جو ہردکھاکر اسدیوں کو موت کے پنجے سے بچالیا اور ایرانیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ سرانجام تمیمیوں کاافتخار ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جنگ کے اس غوغا، تلواروں کی جھنکار ، تیروں اور برچھیوں کی بارش اور دلاوروں کی رجز خوانیوں کے دوران سر بلند ی کے ساتھ بے پنا ہوں کی یاری اور مدد کے لئے دوڑتاہے اور دشمنوں کے خونین پنجوں سے انھیں نجات دلاتاہے ۔کیا معلوم کہ سیف نے ''اغواث '' و ''عماس '' کے دنوں کو بھی اسی مقصد کے پیش نظر خلق کیا ہو!! وہ کہتا ہے :

اسی دن عدنانی شہسوار وں اور دلاوروں نے ایرانی جنگی ہاتھیوں کے مسلمان سپاہیوں پرحملے کو روکا ،اس فرق کے ساتھ کہ بنی اسد عدنانی پہلوانوں نے ''اجرب''نامی ہاتھی کی صرف ایک آنکھ کو اندھا بنایا جبکہ تمیمی پہلوانوں قعقا ع اور عاصم نے ''ابیض '' نامی ہاتھی کی دونوں آنکھیں حلقہ سے باہر نکال لیں ۔اس طرح سیف کا قبیلہ ''تمیم ''دوسرے عدنانی قبیلوں کی نسبت صاحب فضیلت اور خصوصی برتری کا مالک بن جاتا ہے ۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ عاصم وقعقاع تمیمی کی کمانڈ میں ''اہوال ''اور ''خرساء '' نام کے عدنانی فوجی دستے اسلامی فوج کے پہلے دستے تھے جنہوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر دریائے دجلہ کو ایسی حالت میں عبور کیا جب وہ دشمنوں سے پانی میں لڑرہے تھے اور وہی سب سے پہلے مدائن میں داخل ہوئے ہیں ؟!

اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آخری جگہ جہا ں پر سیف ''ربیل بن عمرو'' کا نام لیتا ہے ،وہ عدنانی و مضری خلیفہ عثمان کے دفاع کے سلسلے میں خلق کی گئی اس کی روایت ہے ۔کہتاہے :

۷۴

عثمان نے بعض زمینیں ''خباب بن ارت'' ،'' عماریا سر''اور'' عبداﷲ بن مسعود ''۔۔جو پاک ونیک اور کمزور و غریب صحابی شمار ہوتے تھے۔۔کوبخش دیں ۔سیف کی یہی بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ عثمان نے نہ صرف کوئی زمین یاکھیت ان کو نہیں دیا بلکہ اس کے بر عکس ''عمار یاسر، ابن مسعود اور ''ابوذر ''کی تنخواہ اور وظیفہ بھی کاٹ کر حکم دیا تھا کہ انھیں کوئی چیز نہ دی جائے ! (۱)

خلیفہ عثمان کی سخاوتیں اور بذل و بخش اور ز مینوں کی واگزاری بنی امیہّ اور قریش کے سرمایہ داروں تک ہی محدود تھی اور دوسرے لوگ اس سخاوت کے دستر خوان سے محروم تھے ۔(۲)

مختصر یہ کہ سیف نے اس افسانہ میں عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقا ع و عاصم اور ابومفرز تمیمی،جن کے حالات پر اپنی جگہ پر روشنی ڈالی گئی ہے کے علاوہ ''حمال و ربیل ''نامی دووالبی

____________________

١۔نقش عائشہ در تاریخ اسلام (١/١٦٠۔١٦٧)و(١/١٩٢۔٢٠٣)

٢۔''انساب الاشراف''بلاذری(٥/٢٥۔٨١)

۷۵

اسدی صحابیوں کا ذکر کیا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک افسانہ گڑھ لیاہے اور اس افسانہ کی اپنے خلق کئے گئے راویوں اورمجہول افراد سے روایت کرائی ہے ۔

اسی طر ح اپنی اور روایتوں میں بعض معروف و مشہور افراد کو بھی کھینچ لایا ہے ۔اور اپنے جھوٹ کو ان کے سر تھوپتا ہے ۔ہم نے اس کی اس قسم کی مہارتوں کے کافی نمونے دیکھے ہیں اور اپنی جگہ ان پر بحث کی ہے ۔

حماّل اور ربیل کا افسانہ ثبت کرنے والے علما:

١۔طبری نے حمالّ و ربیل کا افسانہ براہ راست سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ابن اثیر نے ان افسانوں کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔

٣۔ابن کثیر نے طبری سے نقل کر کے خلاصہ کے طور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ابن حجر نے برسوں گزرنے کے بعد سیف کی روایتوں اور تاریخ طبری پر اعتماد کر کے

''حمال اور ربیل کو صحابی جانا ہے، اور ربیل کو ''ربیال''کہاہے جبکہ ہم نے کہا ہے کہ صیحح ربّیل ہے ۔

قابل ذکر بات ہے کہ ابن حجر نے ربیل کے حالات کی تشریح کے آخر میں لکھا ہے کہ :

''ہم نے کئی بار کہاہے کہ قدماکی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ کسی اورکو سپہ سالار کا عہدہ نہیں سونپتے تھے ۔''

ہم بھی یہیں پرکہتے ہیں کہ ہم نے بھی بارہا کہا ہے کہ اس کا یہ قاعدہ بالکل غلط اور بے اعتبار ہے اور ہم نے اس مطلب کو اسی کتاب کی ابتداء میں بحث کر کے ثابت کیا ہے ۔

یہ بھی کہہ دیں کہ سیف کے جن چند خیالی دجعلی صحابیوں کے نام اس کتاب کے اگلے صفحات میں آئیں گے وہ بھی اس قاعدے کی بناء پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے اصحاب کی فہرست میں قرارپائے ہیں ۔

۷۶

مصادر و مآخذ

حمّال بن مالک اسدی کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٣٥١)پہلا حصہ، ترجمہ نمبر:١٨١٦

٢۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/١٢٣)،(٢/٥٤٤)

٣۔''تاریخ طبری '' (١/٢٢٩٨)

رِبّیل بن عمرو اسدی کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٥٠٨)پہلا حصہ ترجمہ ٧.٢٧

مسعود بن مالک اسدی کے حالات

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٣٢٩)

والب اسدی کا نسب:

١۔''جمہرة الانساب'' ابن حزم (١٩٤)

٢۔لباب الانساب (٣/٢٦٠)

حمّال اور رِبیل اسدی کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔تاریخ طبری (١/٢٢٩٨)،(١/٢٣٠٨)،(١/٢٣٢٤۔٢٣٢٦،٢٣٧٦،٢٤٣٦)

٢۔''تاریخ ابن اثیر''(٢/٣٧٢۔٣٧٣)،(٢/٣٤٩،٣٦٥،٣٧١)

٣۔''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٢٤)

٤۔تاریخ ابن کثیر (٧/٤٣) خلاصہ کے طور پر۔

۷۷

چونسٹھ واں جعلی صحابی طلیحہ عبدری

ابن حجر نے کتاب ''اصابہ '' میں اس صحابی کایوں تعارف کرایا ہے :

طلیحہ بن بلال قرشی عبدری :

ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ ''طلیحہ'' ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کی کمانڈ میں ''جلولا''کی جنگ میں سپاہ اسلام کے زرہ پوشوں اور سواروں کے سپہ سالار کی حثیت سے منتخب ہواہے ۔

ہم نے اس سے پہلے بارہاکہا ہے کہ جنگجوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار منتخب نہیں کیاجاتا تھا۔

''ابن فتحون ''نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استعیاب '' میں دریافت کیا ہے ۔(ز)

عبدری کا نسب:

عبدری ،عبدالعار بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر کی طرفنسبت ہے اور قریش فہرکے فرزندوں میں سے ہے اس قبیلہ کے علاوہ قریش کا وجودنہیں ہے ۔

لیکن ''جلولا ''کی جنگ کی خبر ،جس کی طرف ابن حجر نے ''تاریخ طبری سے نقل کرکے اشارہ کیا ہے حسب ذیل ہے :

طبری نے ١٦ ھ کے حوادث کے ضمن جلولاکی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کر کے دوروایتیں درج کی ہیں ۔ان میں سے ایک میں کہتا ہے :

سعد وقاص نے خلیفۂ ،عمر کے حکم سے ''ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص '' کو بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ جلولاکی مموریت دی ۔ہاشم نے اپنی سپاہ کے میسرہ کی کمانڈ ''عمروبن مالک بن عتبہ''کوسونپی ۔

سیف دوسری روایت میں کہتاہے :

سعد بن ابی وقاص نے عمروبن مالک بن عتبہ کو جلولا کی ماموریت دی اور ۔۔(یہاں تک کہ کہتاہے :)

اس جنگ کے قریب سواروں کے زرہ پوش دستے کی کمانڈ قبائل بنی عبدالدار کے ایک شخص ''طلیحہ بن ملان ،کے ذمہ تھی ۔

۷۸

داستان طلیحہ کے راویوں کی پڑتال:

دوسری خبر میں جہاں پر سیف نے طلیحہ بن ملان کا نام لیاہے ،اس میں اپنے راوی کے طور پر ''عبیدااﷲبن مُحَفّزِ'' بتایا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اور اس نام کاکوئی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ہے اور سیف کے ایک جعلی راوی نے سیف کے دوسرے خیالی راوی سے روایت کی ہے ۔!

بحث کا نتیجہ:

ا بن حجر نے تا ر یخ طبری میں سیف سے نقل کی گئی روایت کے تنہا نقطہ پر ا عتما د کر کے مذ کورہ طلیحہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ا صحاب میں شمار کیا ہے۔

ا بن حجر کی نظر میں اس کے حا لا ت کی تشریح میں یہ نقطہ قابل تو جہ رہا ہے کہ طلیحہ جلو لا کی جنگ میں سواروں کے فوجی د ستے کا سپہ سا لار رہا ہے۔

ساتھ ہی اس کی تو جہ خا ص طو ر پر اس نام نہاد قاعدہ پر متمر کز رہی ہے اور وہ ہر روا یت کے آ خر میں اس کی تکرار کر تا ہے کہ:

میں نے بارہا کہا ہے کہ جنگو ں میں صحا بی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالا ر ا نتخا ب نہیں کیا جا تا تھا۔

اس و قت یہ بھی کہتا ہے :

اس صحا بی کو ابن فتحو ن نے بھی دریافت کیا ہے (ز)

ا بن حجر کی اس آ خر ی بات سے یہ نتیجہ حا صل ہو تا ہے کہ ا بن فتحو ن نے علامہ ابن حجر سے پہلے ابن عبد ا لبر کی ''استیعاب '' کے ضمیمہ میں طلیحہ کو صحابی شمار کیا ہے ۔

یہاں تک ہم نے اس حصہ میں سیف کے ایسے جعلی اصحاب کا تعارف کرایا ، جن کو علماء نے اس استناد پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے اصحاب قبول کیاہے کہ سیف نے اپنے افسانوں میں انھیں سپہ سالاری کا عہدہ سونپاہے ۔ انہوں نے بعض مواقع پر صحابی کی شناخت کے لئے وضع کئے گئے قاعدہ کی صراحت کی ہے اور بعض مواقع پر انھیں فراموش کر کے صرف اس کے نتیجہ پر اکتفا کی ہے۔

یہ علمااگر کبھی کسی چہرہ کو صحابی کے عنوان سے تعارف کرانے کے دوران کسی ایسی روایت یا خبر سے روبرو ہوتے جو ان کے وضع کئے گئے قاعدہ سے تناقص و ٹکراؤ رکھتی ہو تو ایک ایسی راہ کا انتخاب کر کے فرار کرتے تھے تاکہ ٹکراؤ کے مسلہ کو مذکورہ قاعدہ سے دورکریں ۔اب ہم آگے جن صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالیں گے وہ اسی قسم کے نمونے ہیں ۔

۷۹

مصادر و مآخذ

طلیحۂ عبدری کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٢/٢٢٦)

ہاشم بن عتبہ کی سپہ سالاری کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٤٥٦)

طلیحہ بن بلال کی سپہ سالاری :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٤٦١)

بنی عبدالدار کا نسب :

١۔''اللباب'' (٢/١١٢)

٢۔''جمہرہ ٔانساب '' ابن حزم (١٢۔١٣)

قریش کا نسب:

١۔''نسب قریش '' زبیر بن بکار (٢٥٠۔٢٥٦)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۱) بہترین انتخاب

فَبَشِّرْ عِبٰادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه' --- أُولْئِک هُم ْ اُولوالأَلْبٰاب-(سورئه مبارکه زمر،١٨)

ترجمہ:

ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتے ہیں۔۔ یہی لوگ ہیں جو صاحبان عقل ہیں۔

پیغام:

عقلمند انسان کا کمال کردار یہ ہے کہ کشادہ دلی کے ساتھ سب کی باتیں سنتا ہے اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتا ہے۔

خداوند عالم صاحبان عقل کو چند خوشخبریاں دے رہا ہے۔

(۱)۔ بندگانِ خدا میں سب سے بہتر ہیں۔

(۲)۔ خدا کی تعریف کے سزاوار ہیں۔

(۳)۔ خداوند عالم عقل و خرد مندی کے تمغہ امتیاز سے نواز رہا ہے۔

۱۰۱

(۲) صاحبان علم اور صاحبان عقل

وتِلْکَ الْأَمْثٰالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلَّا الْعٰالِمُونَ-(سورئه مبارکه عنکبوت، ٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے۔

پیغام:

خدا کے علاوہ جس چیز پر بھی اعتماد اور بھروسہ کیا جائے وہ غیر مستحکم اور عارضی ہے۔ خداوند صاحبان علم اور صاحبان عقل کی تعریف کرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کے خزانے خدا کے پاس ہیں ہمیں صرف خدا پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان علم اور صاحبان عقل میں سے ہوجائے۔

(۳) کم عقل لوگ خدا کے نزدیک

اِنَّ شَرَّ الدّوآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُمّ البُکْم الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه انفال، ٢٢)

ترجمہ:

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونکے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

۱۰۲

پیغام:

انسان کی قدر و قیمت اس کی عقلمندی پر منحصر ہے اگر غوروفکر نہ کرے تو حق کو نہ پاسکے گا اور بدترین زمین پر چلنے والوں میں سے ہو جائے گا۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اُن افراد میں سے ہوں جن کی عقل کی خدا نے تعریف کی ہے حق کو قبول کریں اوراس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

(۴)صاحبان معرفت

أَلَّذِیْنَ یَذَکّرونَ اللّٰهَ قِیٰاماً و قُعُوداً و علَیٰ جُنُوبِهِمْ وَیتفکّرونَ فِی خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرض---

ترجمہ:

جو لوگ اٹھتے ،بیٹھتے ، لیٹتے ، خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں۔

پیغام:

عقلمندی کی نشانیوں میں سے ایک خدا کی معرفت اور کائنات کے امور میں غوروفکر کرنا ہے۔ صاحبان عقل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالم ہستی کا ذرہ ذرہ حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتا ہے اور کوئی چیز بھی بے نظم نہیں ہے۔

۱۰۳

(۵) غورو فکر کی دعوت

قُلْ اِنّمَا أَعِظُکُم بِوٰاحِدةٍ انْ تَقُومُوا لِلّٰهِ مَثْنی وَ فُرادَی ثُمَّ تتفکّروا----(سوره مبارکه سبأ،٤٦)

ترجمہ:

پیغمبر(ص) آپ کہہ دیجئے کہ میںتمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر غوروفکر کرو۔

پیغام:

غور وفکر کے ساتھ خدا کی راہ میں حرکت کریں، چاہے اس راستہ میں ہم اکیلے ہی کیوں نہ ہوں۔

(۶) غور و فکر کا مقام (۱)

اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ أقفَالُهٰا-( سورئه مبارکه محمد،٢٤)

ترجمہ:

تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔

۱۰۴

پیغام:

غور و فکر کرنے کا بہترین مقام خداوند متعال کا کلام ہے قرآن صحیح اور غلط راستہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدبخت اور سعادت مند افراد کے صفات کو بیان کرتے ہوئے ان کی مثالیں پیش کرتا ہے اور ان کے انجام سے آگاہ کرتا ہے تاکہ راستہ کے انتخاب میں غور وفکر سے کام لیں۔

(۷)غور و فکر کا مقام (۲)

أَ وَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِی أَنْفُسِهِم---- ( سورئه مبارکه روم، ٨)

ترجمہ:

کیا اُن لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے ۔

پیغام:

قرآن کریم ایک مقام پر ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسرے مقام پر نہ سوچنے پر ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔

انسان کی خلقت اس کی ضروریات ، زمین و آسمان کے انسجام اور کائنات کے جملہ منظم امور میں غور و فکر کرنا کمال اور معرفت کا پیش خیمہ ہے۔

۱۰۵

(۸) غور و فکر کا مقام (۳)

--- وَ النجومُ مُسَخّرات بأمْرِهِ انَّ فِی ذالکَ لَأیاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقَلُونَ-( سورئه مبارکه نحل،١٢)

ترجمہ:

اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں بے شک اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے قدرت کی بہت سے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت خوبصورت اور حیرت انگیز ہے یہاں تک کہ قرآن ستاروں کی قسم کو ایک بہت بڑی قسم سمجھتا ہے۔

ستاروں کی حیرت انگیز حرکت ، ان کا نظم ،شب وروز کی آمد و رفت، خداوند متعال کی قدرت و حکمت کا مبین ثبوت ہے جو انسان کے لیے غور وفکر کا مقام ہے۔

(۹) غور و فکر کا مقام (۴)

وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِیلِ وَالأَعْنٰاب --- لِآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه نحل، ٦٧)

ترجمہ:

اور پھر خرمہ اور انگور کے پھلوں سے ۔۔۔ اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

۱۰۶

پیغام:

ہم روز مختلف پھلوں اور خوش ذائقہ غذاؤں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بھوک مٹاتے ہیں اور اس کے علاوہ بدن کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سے استفادہ کرتے ہوئے توانائی اور شادابی حاصل کرتے ہیں۔

جو غذائیں ہم استعمال کرتے ہیں وہ تمام زمین سے وجود میں آتی ہیں اور ان کا اس حالت میں آنا ۔ مٹی ،پانی ، ہوا اور سورج کی روشنی کے دقیق اور ظریف عمل کی وجہ سے ہے اور یہ چیز ان کے پیدا کرنے والے کی حکمت وتدبیر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(۱۰) غور و فکر کا مقام (۵)

انَّ فِی خَلْقِ السَّمَوٰاتِ وَ الْأَرْضِ--- لایاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه بقره،١٦٤)

ترجمہ:

بے شک زمین و آسمان کی خلقت میں ۔۔۔ صاحبان عقل کے لیے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے اور جو صاحبان علم و فہم ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں۔

۱۰۷

(۱۱) غور و فکر کا مقام (۶)

وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّة وَ رَحْمَة اِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ-(سورئه مبارکه روم، ٢١)

ترجمہ:

اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

غورو فکر کا ایک مقام نظام خانوادہ ہے۔ اگر نظام خانوادگی صحیح نہ ہو تو پورا معاشرہ خراب ہوسکتا ہے۔ نظام خانوادہ ایک ایسی عمارت کی طرح ہے جس کے کئی ستون ہوں۔ جن میں حجاب، عفت، ازدواج اور پیار ومحبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اگر یہ ستون نہ ہوں عمارت نہیں ٹھہرسکتی بعض قوموں نے ٹیکنالوجی میں تو ترقی اور پیش رفت کی ہے مگر نظام خانوادگی میں انحطاط کا شکار ہونے کی وجہ سے مختلف مشکلات سے دوچار ہیں کیا ہم ایک صحیح و سالم گھرانہ کے ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں؟

(۱۲)غور و فکر کا مقام (۷)

أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَهُمْ قُلُوب یَعْقِلُونَ بِها---(سورئه مبارکه حج، ٤٦)

ترجمہ :

کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوںکو ) سمجھتے۔

۱۰۸

پیغام:

گذشتہ اقوام کے نشیب وفراز پر غور کرنے سے ہماری فکر شکوہ مند ہوسکتی ہے اور ان کے حالات سے راہنمائی حاصل کرکے اپنے بہتر مستقبل کے لیے قدم اٹھاسکتے ہیں۔

ہمیں چاہیئے کہ ان افراد کا جنہوں نے اپنی عمر کے قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا اور علم و معرفت کے درجات تک پہنچ گئے ان افراد کے ساتھ موازنہ کریں جنہوں نے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کیا ہے اس کے بعد صحیح راستہ کا انتخاب کریں۔

(۱۳) کم عقل لوگ حق کے دشمن

تَحْسبُهُم جَمِیْعًا وَ قُلُو بُهُمْ شتّی ذالک بِأنَّهُمْ قَوْم لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه حشر،١٤)

ترجمہ:

تم گمان کروگے کہ سب کے سب ایک (جان) ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے سے بے گانہ ہیں یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔

پیغام:

کم عقل لوگ ظاہری طور پر ایک دوسرے کے دوست دکھائی دیتے ہیں درحقیقت اُن میں سے ہر ایک اپنا فائدہ چاہتا ہے سر انجام آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں۔

صاحبان عقل اور خدا پرست ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر سب ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اُن میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

۱۰۹

(۱۴) دشمنان حق کا سر انجام

و قَذَفَ فِی قُلُوبِهِمْ الرُّعْبِ--- فَاعْتَبِرُوا یَا أُوْلِی الْأبْصٰار-

ترجمہ :

اور ان کے دلوں میں (مسلمانوں کا) رعب ڈال دیا ۔۔۔ اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو۔

پیغام:

ایک اور مقام فکر یہ ہے کہ دیکھو کس طرح حق کی مخالفت کرنے والے سر توڑ حق کو مٹانے کی کوشش کرتے تھے مگر وہ خود مٹ گئے اور حق باقی رہا ہے۔

نمرود اور فرعون کس طرح اپنی شان و شوکت کے باوجود نیست ونابود ہوگئے۔ وہ کچھ ہی عرصے کے لیے قدرت کو حاصل کرسکے مگر طویل عرصہ کے لیے نابودی کا شکار ہوگئے کوئی بھی حکومت ظلم و استبداد پر استوار نہیں رہ سکتی ہے۔

دنیاوی حکمرانوں کی زندگی کے نشیب و فراز صاحبان عقل کے لیے درس عبرت ہیں۔

(۱۵)کم عقلی پلیدگی و گندگی ہے

وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلی الَّذِیْنَ لَا یَعْقَلُونَ-(سورئه مبارکه یونس ١٠٠)

۱۱۰

ترجمہ :

جو لوگ عقل سے کام نہیںلیتے خداوند عالم ان ہی لوگوں پر (کفر کی) گندگی ڈال دیتا ہے۔

پیغام:

عقل و خرد انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جب کہ کم عقلی انسان کو گندگی کے دلدل میں پھنسا دیتی ہے۔

(۱۶) کم عقلی کا نتیجہ

وَ قَالُوا لَو کنّا نَسْمَعُ او نعقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحٰابِ السَّعیر(سورئه مبارکه ملک ،١٠)

ترجمہ :

اور کہیں گے کہ اگر ان کی بات سنتے یا سمجھتے تب تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔۔

پیغام:

ممکن ہے کہ کافروں کا یہ اعتراف دنیا و آخرت دونوں سے متعلق ہو اس لیے کہ دنیا کی زندگی بھی اگر خدا سے دور رہ کر گزاری جائے تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

۱۱۱

(۱۷) کیا صاحبان عقل اور کم عقل مساوی ہیں

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الأَعْمٰی وَالْبَصِیر أَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ-(سورئه مبارکه انعام- ٥٠)

ترجمہ :

پوچھئے کہ کیا اندھے اور بینا برابر ہوسکتے ہیں آخر تم کیوں نہیں سوچتے ہو۔

پیغام:

کبھی ایک مطلب کی تاکید کے لیے اُسے سوال کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے یہ بات روشن ہے کہ صاحبان عقل اور کم عقل برابر نہیں ہیں جیسا کہ روشنی و تاریکی ، علم و جہل مساوی نہیں ہیں۔

جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان عقل میں سے ہوںجائے۔

(۱۸) معرفت اور آگاہی کے ساتھ

قُلْ هٰذِهِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو اِلٰی اللّٰهِ عَلٰی بَصِیْرةٍ أَنَا وَ مَنْ اِتّبِعَنِیْ--- (سورئه مبارکه یوسف، ١٠٨)

۱۱۲

ترجمہ :

آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اورمیرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔

پیغام:

انبیاء و اوصیاء کی تبلیغ معرفت و آگاہی پر استوار ہے۔ وہ راستہ جس کی طرف انبیاء ہماری ہدایت اور رہنمائی کرتے ہیں ہم اُسے اپنے ارادہ و اختیار سے انتخاب کرتے ہیں جبکہ ستمگران اور طغیانگر افراد زبردستی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

(۱۹) وسوسہ شیطان

وَلَقَدْ أَضَلّ مِنْکُمْ جبلاً کَثِیْراً أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُوْنَ-(سورئه مبارکه یس ،٦٢)

ترجمہ :

اس شیطان نے تم میں سے بہت سی نسلوں کو گمراہ کردیا ہے تو کیا تم بھی عقل استعمال نہیں کروگے ۔

پیغام:

امام علی ـ نے فرمایا: صحیح فکر کا نتیجہ حق کی پیروی ہے۔ شیطان برائیوں کو خوبصورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور اس طرح وہ ہمیں فریب دیتا ہے لیکن صاحبان فکر شیطان کے فریب میں نہیں آتے وہ نیک افراد کی سیرت پر عمل کرتے ہیں اور برے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔

۱۱۳

(۲۰)میدان عمل

أتَامَرُونَ النّاس بِالبِرّ وَتَنْسَونَ أَنْفُسَکُم و أَنْتُمْ تَتلونَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تعقلونَ- (سورئه مبارکه بقره، ٤٤)

ترجمہ:

کیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو جب کہ کتاب خدا کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہارے پاس عقل نہیں ہے۔

پیغام:

صاحبان علم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نیک کاموں میں پیش پیش ہوں ۔ امام علی ـ سے منقول ہے کہ فکر یہ ہے کہ جو جانتے ہو اُسے بیان کرو اور جو کہہ رہے ہو اُس پر عمل کرو۔

(۲۱) کافروں کی کم عقلی

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَروا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمٰا لا یَسْمَعُ الّا دُعٰاء وَ نِداء صُمّ بُکم عُمْی فَهُمْ لَا یَعْقِلُونَ-( سورئه مبارکه بقره،١٧١)

۱۱۴

ترجمہ :

جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیں۔ یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے۔

پیغام:

انسان عقل کی روشنی میں صحیح راستہ کو پاسکتا ہے مگر کافروں نے اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم کیا ہوا ہے۔

۱۱۵

آٹھویں فصل(انسان)

۱۱۶

(۱) بہترین ساخت

لَقَدْ خَلَقْنٰا الاِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم- ثُمَّ رَدِدْ ناه أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ-

ترجمہ:

ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے ۔ پھر ہم نے اسے پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا۔

پیغام:

قادر مطلق اگر چاہتا تو انسان کو اس طرح بھی خلق کرسکتا تھا کہ فقط اچھائی کاانتخاب کرے لیکن یہ چیز انسان کی فضیلت و برتری کا باعث نہ بنتی انسان کی برتری اسی میں ہے کہ وہ خود اپنی مرضی سے صحیح راہ کا انتخاب کرے۔ انسان کے سامنے دو راہیں ہیں ایک کمال اور سعادت کی راہ اور دوسری گمراہی اور پستی کی راہ ۔

(۲)خود آگاہ

بَلْ الانسانُ عَلٰی نفسه بَصِیْرة-(سوره مبارکه قیامت ،٤٠)

ترجمہ:

بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے۔

۱۱۷

پیغام:

انسان خود آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر مسلط ہوکر اس کے حالات سے خوب باخبر ہوسکتا ہے۔ انسان کی اس آگاہی کو علم حضوری کہتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض افراد اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں گویا وہ اپنے بارے میں کچھ ہی نہیں جانتے۔ قرآن مجید نے اس انسان کا تعرف کرایا ہے جو ابھی تک محققین اور روان شناس افراد کے لیے ناشناختہ ہے۔

(۳) خود فریبی

بَلْ یُرِیْدُ الاِنْسٰانُ لِیَفْجُرَ أَمَامَهُ-(سوره مبارکه قیامت،٥)

ترجمہ:

بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔

پیغام:

بعض افراد دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بعض خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں غلط راہ کا انتخاب در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ اور فریب دینے کے مترادف ہے۔

۱۱۸

(۴) آزاد

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانَ أَنْ یُتْرَکَ سُدیٰ-(سوره مبارکه قیامت،٣٦)

ترجمہ:

کیا انسان کا خیال ہے کہ اُسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا۔

پیغام:

ذرا سی فکر رکھنے والا انسان کبھی بھی کام کو بغیر ہدف کے انجام نہیں دیتا ہے بلکہ کام شروع کرنے سے پہلے اس سلسلے میں مختلف پروگرام بھی ترتیب دیتا ہیں۔ تو کیا خداوندعالم جو خالق فکر ہے کسی کام کو بغیر ہدف اور مقصد کے انجام دے سکتا ہے؟ کیا انسان کی عجیب و غریب خلقت بغیر کسی ہدف کے وجود میں آئی ہے؟

یقینا انسان کی خلقت ایک بہت عظیم مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے ہمیں چاہیئے کہ اس عظیم مقصد کو جاننے کے بعد اس کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔

(۵) فرشتوں کے مقابل

وَاِذْ قُلْنٰا لِلْمَلاٰ ئِکَةِ اسْجُدُوا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوا ---(سورئه مبارکه بقره -٣٤)

۱۱۹

ترجمہ:

اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو۔۔۔

پیغام:

انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس مقام تک پہنچ جائے کہ جہاں فرشتے پروردگار کے حکم سے اُسے سجدہ کریں۔ فرشتے انسان کامل کے سامنے سجدہ کرتے ہیںاور ثابت قدم مومنین کے حضور حاضر ہوکر انہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں۔

(۶) خبردار

أَلَمْ أَعْهَد اِلَیْکُمْ یٰا بَنِی اٰدَمَ أنْ لَا تَعْبُدُوا الشَیْطَانَ اِنَّه' لَکُمْ عَدوّ مُبِیْنَ- (سورئه مبارکه یس، ٦٠)

ترجمہ:

اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

پیغام:

شیطان کا وسوسہ یہ ہے کہ وہ برائی کو خوبصورت بناکر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ایک صاحب فکر اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اُسے اپنے آپ کو اس وسوسہ شیطانی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

خداوند عالم نے ہمیں ، فکر سلیم او پاکیزہ نفس عطا کیا ، کیا ان تمام چیزوں کی عطا وہ عہد نہیں جو خدا نے ہم سے لیا ہے؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204