معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181720 / ڈاؤنلوڈ: 3534
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۱) بہترین انتخاب

فَبَشِّرْ عِبٰادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه' --- أُولْئِک هُم ْ اُولوالأَلْبٰاب-(سورئه مبارکه زمر،١٨)

ترجمہ:

ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتے ہیں۔۔ یہی لوگ ہیں جو صاحبان عقل ہیں۔

پیغام:

عقلمند انسان کا کمال کردار یہ ہے کہ کشادہ دلی کے ساتھ سب کی باتیں سنتا ہے اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتا ہے۔

خداوند عالم صاحبان عقل کو چند خوشخبریاں دے رہا ہے۔

(۱)۔ بندگانِ خدا میں سب سے بہتر ہیں۔

(۲)۔ خدا کی تعریف کے سزاوار ہیں۔

(۳)۔ خداوند عالم عقل و خرد مندی کے تمغہ امتیاز سے نواز رہا ہے۔

۱۰۱

(۲) صاحبان علم اور صاحبان عقل

وتِلْکَ الْأَمْثٰالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلَّا الْعٰالِمُونَ-(سورئه مبارکه عنکبوت، ٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے۔

پیغام:

خدا کے علاوہ جس چیز پر بھی اعتماد اور بھروسہ کیا جائے وہ غیر مستحکم اور عارضی ہے۔ خداوند صاحبان علم اور صاحبان عقل کی تعریف کرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کے خزانے خدا کے پاس ہیں ہمیں صرف خدا پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان علم اور صاحبان عقل میں سے ہوجائے۔

(۳) کم عقل لوگ خدا کے نزدیک

اِنَّ شَرَّ الدّوآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُمّ البُکْم الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه انفال، ٢٢)

ترجمہ:

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونکے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

۱۰۲

پیغام:

انسان کی قدر و قیمت اس کی عقلمندی پر منحصر ہے اگر غوروفکر نہ کرے تو حق کو نہ پاسکے گا اور بدترین زمین پر چلنے والوں میں سے ہو جائے گا۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اُن افراد میں سے ہوں جن کی عقل کی خدا نے تعریف کی ہے حق کو قبول کریں اوراس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

(۴)صاحبان معرفت

أَلَّذِیْنَ یَذَکّرونَ اللّٰهَ قِیٰاماً و قُعُوداً و علَیٰ جُنُوبِهِمْ وَیتفکّرونَ فِی خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرض---

ترجمہ:

جو لوگ اٹھتے ،بیٹھتے ، لیٹتے ، خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں۔

پیغام:

عقلمندی کی نشانیوں میں سے ایک خدا کی معرفت اور کائنات کے امور میں غوروفکر کرنا ہے۔ صاحبان عقل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالم ہستی کا ذرہ ذرہ حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتا ہے اور کوئی چیز بھی بے نظم نہیں ہے۔

۱۰۳

(۵) غورو فکر کی دعوت

قُلْ اِنّمَا أَعِظُکُم بِوٰاحِدةٍ انْ تَقُومُوا لِلّٰهِ مَثْنی وَ فُرادَی ثُمَّ تتفکّروا----(سوره مبارکه سبأ،٤٦)

ترجمہ:

پیغمبر(ص) آپ کہہ دیجئے کہ میںتمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر غوروفکر کرو۔

پیغام:

غور وفکر کے ساتھ خدا کی راہ میں حرکت کریں، چاہے اس راستہ میں ہم اکیلے ہی کیوں نہ ہوں۔

(۶) غور و فکر کا مقام (۱)

اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ أقفَالُهٰا-( سورئه مبارکه محمد،٢٤)

ترجمہ:

تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔

۱۰۴

پیغام:

غور و فکر کرنے کا بہترین مقام خداوند متعال کا کلام ہے قرآن صحیح اور غلط راستہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدبخت اور سعادت مند افراد کے صفات کو بیان کرتے ہوئے ان کی مثالیں پیش کرتا ہے اور ان کے انجام سے آگاہ کرتا ہے تاکہ راستہ کے انتخاب میں غور وفکر سے کام لیں۔

(۷)غور و فکر کا مقام (۲)

أَ وَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِی أَنْفُسِهِم---- ( سورئه مبارکه روم، ٨)

ترجمہ:

کیا اُن لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے ۔

پیغام:

قرآن کریم ایک مقام پر ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسرے مقام پر نہ سوچنے پر ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔

انسان کی خلقت اس کی ضروریات ، زمین و آسمان کے انسجام اور کائنات کے جملہ منظم امور میں غور و فکر کرنا کمال اور معرفت کا پیش خیمہ ہے۔

۱۰۵

(۸) غور و فکر کا مقام (۳)

--- وَ النجومُ مُسَخّرات بأمْرِهِ انَّ فِی ذالکَ لَأیاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقَلُونَ-( سورئه مبارکه نحل،١٢)

ترجمہ:

اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں بے شک اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے قدرت کی بہت سے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت خوبصورت اور حیرت انگیز ہے یہاں تک کہ قرآن ستاروں کی قسم کو ایک بہت بڑی قسم سمجھتا ہے۔

ستاروں کی حیرت انگیز حرکت ، ان کا نظم ،شب وروز کی آمد و رفت، خداوند متعال کی قدرت و حکمت کا مبین ثبوت ہے جو انسان کے لیے غور وفکر کا مقام ہے۔

(۹) غور و فکر کا مقام (۴)

وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِیلِ وَالأَعْنٰاب --- لِآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه نحل، ٦٧)

ترجمہ:

اور پھر خرمہ اور انگور کے پھلوں سے ۔۔۔ اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

۱۰۶

پیغام:

ہم روز مختلف پھلوں اور خوش ذائقہ غذاؤں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بھوک مٹاتے ہیں اور اس کے علاوہ بدن کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سے استفادہ کرتے ہوئے توانائی اور شادابی حاصل کرتے ہیں۔

جو غذائیں ہم استعمال کرتے ہیں وہ تمام زمین سے وجود میں آتی ہیں اور ان کا اس حالت میں آنا ۔ مٹی ،پانی ، ہوا اور سورج کی روشنی کے دقیق اور ظریف عمل کی وجہ سے ہے اور یہ چیز ان کے پیدا کرنے والے کی حکمت وتدبیر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(۱۰) غور و فکر کا مقام (۵)

انَّ فِی خَلْقِ السَّمَوٰاتِ وَ الْأَرْضِ--- لایاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه بقره،١٦٤)

ترجمہ:

بے شک زمین و آسمان کی خلقت میں ۔۔۔ صاحبان عقل کے لیے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے اور جو صاحبان علم و فہم ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں۔

۱۰۷

(۱۱) غور و فکر کا مقام (۶)

وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّة وَ رَحْمَة اِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ-(سورئه مبارکه روم، ٢١)

ترجمہ:

اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

غورو فکر کا ایک مقام نظام خانوادہ ہے۔ اگر نظام خانوادگی صحیح نہ ہو تو پورا معاشرہ خراب ہوسکتا ہے۔ نظام خانوادہ ایک ایسی عمارت کی طرح ہے جس کے کئی ستون ہوں۔ جن میں حجاب، عفت، ازدواج اور پیار ومحبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اگر یہ ستون نہ ہوں عمارت نہیں ٹھہرسکتی بعض قوموں نے ٹیکنالوجی میں تو ترقی اور پیش رفت کی ہے مگر نظام خانوادگی میں انحطاط کا شکار ہونے کی وجہ سے مختلف مشکلات سے دوچار ہیں کیا ہم ایک صحیح و سالم گھرانہ کے ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں؟

(۱۲)غور و فکر کا مقام (۷)

أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَهُمْ قُلُوب یَعْقِلُونَ بِها---(سورئه مبارکه حج، ٤٦)

ترجمہ :

کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوںکو ) سمجھتے۔

۱۰۸

پیغام:

گذشتہ اقوام کے نشیب وفراز پر غور کرنے سے ہماری فکر شکوہ مند ہوسکتی ہے اور ان کے حالات سے راہنمائی حاصل کرکے اپنے بہتر مستقبل کے لیے قدم اٹھاسکتے ہیں۔

ہمیں چاہیئے کہ ان افراد کا جنہوں نے اپنی عمر کے قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا اور علم و معرفت کے درجات تک پہنچ گئے ان افراد کے ساتھ موازنہ کریں جنہوں نے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کیا ہے اس کے بعد صحیح راستہ کا انتخاب کریں۔

(۱۳) کم عقل لوگ حق کے دشمن

تَحْسبُهُم جَمِیْعًا وَ قُلُو بُهُمْ شتّی ذالک بِأنَّهُمْ قَوْم لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه حشر،١٤)

ترجمہ:

تم گمان کروگے کہ سب کے سب ایک (جان) ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے سے بے گانہ ہیں یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔

پیغام:

کم عقل لوگ ظاہری طور پر ایک دوسرے کے دوست دکھائی دیتے ہیں درحقیقت اُن میں سے ہر ایک اپنا فائدہ چاہتا ہے سر انجام آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں۔

صاحبان عقل اور خدا پرست ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر سب ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اُن میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

۱۰۹

(۱۴) دشمنان حق کا سر انجام

و قَذَفَ فِی قُلُوبِهِمْ الرُّعْبِ--- فَاعْتَبِرُوا یَا أُوْلِی الْأبْصٰار-

ترجمہ :

اور ان کے دلوں میں (مسلمانوں کا) رعب ڈال دیا ۔۔۔ اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو۔

پیغام:

ایک اور مقام فکر یہ ہے کہ دیکھو کس طرح حق کی مخالفت کرنے والے سر توڑ حق کو مٹانے کی کوشش کرتے تھے مگر وہ خود مٹ گئے اور حق باقی رہا ہے۔

نمرود اور فرعون کس طرح اپنی شان و شوکت کے باوجود نیست ونابود ہوگئے۔ وہ کچھ ہی عرصے کے لیے قدرت کو حاصل کرسکے مگر طویل عرصہ کے لیے نابودی کا شکار ہوگئے کوئی بھی حکومت ظلم و استبداد پر استوار نہیں رہ سکتی ہے۔

دنیاوی حکمرانوں کی زندگی کے نشیب و فراز صاحبان عقل کے لیے درس عبرت ہیں۔

(۱۵)کم عقلی پلیدگی و گندگی ہے

وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلی الَّذِیْنَ لَا یَعْقَلُونَ-(سورئه مبارکه یونس ١٠٠)

۱۱۰

ترجمہ :

جو لوگ عقل سے کام نہیںلیتے خداوند عالم ان ہی لوگوں پر (کفر کی) گندگی ڈال دیتا ہے۔

پیغام:

عقل و خرد انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جب کہ کم عقلی انسان کو گندگی کے دلدل میں پھنسا دیتی ہے۔

(۱۶) کم عقلی کا نتیجہ

وَ قَالُوا لَو کنّا نَسْمَعُ او نعقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحٰابِ السَّعیر(سورئه مبارکه ملک ،١٠)

ترجمہ :

اور کہیں گے کہ اگر ان کی بات سنتے یا سمجھتے تب تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔۔

پیغام:

ممکن ہے کہ کافروں کا یہ اعتراف دنیا و آخرت دونوں سے متعلق ہو اس لیے کہ دنیا کی زندگی بھی اگر خدا سے دور رہ کر گزاری جائے تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

۱۱۱

(۱۷) کیا صاحبان عقل اور کم عقل مساوی ہیں

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الأَعْمٰی وَالْبَصِیر أَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ-(سورئه مبارکه انعام- ٥٠)

ترجمہ :

پوچھئے کہ کیا اندھے اور بینا برابر ہوسکتے ہیں آخر تم کیوں نہیں سوچتے ہو۔

پیغام:

کبھی ایک مطلب کی تاکید کے لیے اُسے سوال کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے یہ بات روشن ہے کہ صاحبان عقل اور کم عقل برابر نہیں ہیں جیسا کہ روشنی و تاریکی ، علم و جہل مساوی نہیں ہیں۔

جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان عقل میں سے ہوںجائے۔

(۱۸) معرفت اور آگاہی کے ساتھ

قُلْ هٰذِهِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو اِلٰی اللّٰهِ عَلٰی بَصِیْرةٍ أَنَا وَ مَنْ اِتّبِعَنِیْ--- (سورئه مبارکه یوسف، ١٠٨)

۱۱۲

ترجمہ :

آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اورمیرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔

پیغام:

انبیاء و اوصیاء کی تبلیغ معرفت و آگاہی پر استوار ہے۔ وہ راستہ جس کی طرف انبیاء ہماری ہدایت اور رہنمائی کرتے ہیں ہم اُسے اپنے ارادہ و اختیار سے انتخاب کرتے ہیں جبکہ ستمگران اور طغیانگر افراد زبردستی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

(۱۹) وسوسہ شیطان

وَلَقَدْ أَضَلّ مِنْکُمْ جبلاً کَثِیْراً أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُوْنَ-(سورئه مبارکه یس ،٦٢)

ترجمہ :

اس شیطان نے تم میں سے بہت سی نسلوں کو گمراہ کردیا ہے تو کیا تم بھی عقل استعمال نہیں کروگے ۔

پیغام:

امام علی ـ نے فرمایا: صحیح فکر کا نتیجہ حق کی پیروی ہے۔ شیطان برائیوں کو خوبصورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور اس طرح وہ ہمیں فریب دیتا ہے لیکن صاحبان فکر شیطان کے فریب میں نہیں آتے وہ نیک افراد کی سیرت پر عمل کرتے ہیں اور برے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔

۱۱۳

(۲۰)میدان عمل

أتَامَرُونَ النّاس بِالبِرّ وَتَنْسَونَ أَنْفُسَکُم و أَنْتُمْ تَتلونَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تعقلونَ- (سورئه مبارکه بقره، ٤٤)

ترجمہ:

کیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو جب کہ کتاب خدا کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہارے پاس عقل نہیں ہے۔

پیغام:

صاحبان علم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نیک کاموں میں پیش پیش ہوں ۔ امام علی ـ سے منقول ہے کہ فکر یہ ہے کہ جو جانتے ہو اُسے بیان کرو اور جو کہہ رہے ہو اُس پر عمل کرو۔

(۲۱) کافروں کی کم عقلی

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَروا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمٰا لا یَسْمَعُ الّا دُعٰاء وَ نِداء صُمّ بُکم عُمْی فَهُمْ لَا یَعْقِلُونَ-( سورئه مبارکه بقره،١٧١)

۱۱۴

ترجمہ :

جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیں۔ یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے۔

پیغام:

انسان عقل کی روشنی میں صحیح راستہ کو پاسکتا ہے مگر کافروں نے اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم کیا ہوا ہے۔

۱۱۵

آٹھویں فصل(انسان)

۱۱۶

(۱) بہترین ساخت

لَقَدْ خَلَقْنٰا الاِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم- ثُمَّ رَدِدْ ناه أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ-

ترجمہ:

ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے ۔ پھر ہم نے اسے پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا۔

پیغام:

قادر مطلق اگر چاہتا تو انسان کو اس طرح بھی خلق کرسکتا تھا کہ فقط اچھائی کاانتخاب کرے لیکن یہ چیز انسان کی فضیلت و برتری کا باعث نہ بنتی انسان کی برتری اسی میں ہے کہ وہ خود اپنی مرضی سے صحیح راہ کا انتخاب کرے۔ انسان کے سامنے دو راہیں ہیں ایک کمال اور سعادت کی راہ اور دوسری گمراہی اور پستی کی راہ ۔

(۲)خود آگاہ

بَلْ الانسانُ عَلٰی نفسه بَصِیْرة-(سوره مبارکه قیامت ،٤٠)

ترجمہ:

بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے۔

۱۱۷

پیغام:

انسان خود آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر مسلط ہوکر اس کے حالات سے خوب باخبر ہوسکتا ہے۔ انسان کی اس آگاہی کو علم حضوری کہتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض افراد اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں گویا وہ اپنے بارے میں کچھ ہی نہیں جانتے۔ قرآن مجید نے اس انسان کا تعرف کرایا ہے جو ابھی تک محققین اور روان شناس افراد کے لیے ناشناختہ ہے۔

(۳) خود فریبی

بَلْ یُرِیْدُ الاِنْسٰانُ لِیَفْجُرَ أَمَامَهُ-(سوره مبارکه قیامت،٥)

ترجمہ:

بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔

پیغام:

بعض افراد دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بعض خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں غلط راہ کا انتخاب در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ اور فریب دینے کے مترادف ہے۔

۱۱۸

(۴) آزاد

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانَ أَنْ یُتْرَکَ سُدیٰ-(سوره مبارکه قیامت،٣٦)

ترجمہ:

کیا انسان کا خیال ہے کہ اُسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا۔

پیغام:

ذرا سی فکر رکھنے والا انسان کبھی بھی کام کو بغیر ہدف کے انجام نہیں دیتا ہے بلکہ کام شروع کرنے سے پہلے اس سلسلے میں مختلف پروگرام بھی ترتیب دیتا ہیں۔ تو کیا خداوندعالم جو خالق فکر ہے کسی کام کو بغیر ہدف اور مقصد کے انجام دے سکتا ہے؟ کیا انسان کی عجیب و غریب خلقت بغیر کسی ہدف کے وجود میں آئی ہے؟

یقینا انسان کی خلقت ایک بہت عظیم مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے ہمیں چاہیئے کہ اس عظیم مقصد کو جاننے کے بعد اس کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔

(۵) فرشتوں کے مقابل

وَاِذْ قُلْنٰا لِلْمَلاٰ ئِکَةِ اسْجُدُوا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوا ---(سورئه مبارکه بقره -٣٤)

۱۱۹

ترجمہ:

اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو۔۔۔

پیغام:

انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس مقام تک پہنچ جائے کہ جہاں فرشتے پروردگار کے حکم سے اُسے سجدہ کریں۔ فرشتے انسان کامل کے سامنے سجدہ کرتے ہیںاور ثابت قدم مومنین کے حضور حاضر ہوکر انہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں۔

(۶) خبردار

أَلَمْ أَعْهَد اِلَیْکُمْ یٰا بَنِی اٰدَمَ أنْ لَا تَعْبُدُوا الشَیْطَانَ اِنَّه' لَکُمْ عَدوّ مُبِیْنَ- (سورئه مبارکه یس، ٦٠)

ترجمہ:

اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

پیغام:

شیطان کا وسوسہ یہ ہے کہ وہ برائی کو خوبصورت بناکر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ایک صاحب فکر اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اُسے اپنے آپ کو اس وسوسہ شیطانی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

خداوند عالم نے ہمیں ، فکر سلیم او پاکیزہ نفس عطا کیا ، کیا ان تمام چیزوں کی عطا وہ عہد نہیں جو خدا نے ہم سے لیا ہے؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

فرماتے ہیں اس لحاظ سے آپ (ع) پر جو اللہ نے ذمہ داری ڈال رکھی ہے اسے انجام دیتے ہیں اور لوگوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ بھی اسی طرح جس طرح سورج میں آجانے کے باوجود اس سے فیض اٹھاتے ہیں آپ (ع) کے وجود گرامی سے با وجودیکہ آپ غیبت میں ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں_

غیبت اور امام زمانہ (ع) کا ظہور

امام زمانہ (ع) کی غیبت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک دنیا کے حالات حق کی حکومت قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں اور عالمی اسلامی حکومت کی تاسیس کے لئے مقدمات فراہم نہ ہوجائیں جب اہل دنیا کثرت مصائب اور ظلم و ستم سے تھک جائیں گے اور امام زمانہ (ع) کا ظہور خداوند عالم سے تہہ دل سے چاہیں گے اور آپ (ع) کے ظہور کے مقدمات اور اسباب فراہم کردیں گے اس وقت امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور آپ (ع) اس قوت اور طاقت کے سبب سے جو اللہ نے آپ کو دے رکھی ہے ظلم کا خاتمہ کردیں گے اور امن و امان واقعی کو توحید کے نظریہ کی اساس پر دنیا میں رائج کریں گے ہم شیعہ ایسے پر عظمت دن کے انتظار میں ہیں اور اس کی یاد میں جو در حقیقت ایک امام اور رہبر کامل

۲۰۱

کی یاد ہے اپنے رشد اور تکامل کے ساتھ تمام عالم کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حق پذیر دل سے امام مہدی (ع) کے سعادت بخش دیدار کے متمنّی ہیں اور ایک بہت بڑے الہی ہدف میں کوشاں ہیں اپنی اور عام انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے ظہور اور فتح کے مقدمات فراہم کر ر ہے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ بارہویں امام حضرت مہدی (ع) کس مہینے متولد ہوئے؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے بارہویں امام (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)___ ہمارے دوسرے ائمہ نے امام مہدی (ع) کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ امام زمانہ (ع) کس کے حکم سے غائب ہوئے ہیں؟

۵)___ اب لوگ امام زمانہ (ع) کے وجود سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟

۶)___ امام زمانہ کی غیبت کب تک رہے گی؟

۷)___ جب امام زمانہ (ع) اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں گے تو کیا کام انجام دیں گے؟

۸)___ ہم شیعہ کس دن کے انتظار میں ہیں امام زمانہ (ع) کے ظہور کے مقدمات کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟

۲۰۲

چودہواں سبق

شیعہ کی پہچان

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے ایک جابر نامی صحابی سے یہ فرمایا اے جابر کیا صرف اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ میں شیعہ ہوں اور اہل بیت (ع) پیغمبر (ص) اور ائمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں صرف یہ دعوی کافی نہیں ہے خدا کی قسم شیعہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور اللہ کے فرمان کی مکمل اطاعت کرتا ہو اس کے خلاف کوئی دوسرا کام نہیں کرتا اگر چہ کہتا رہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں اور اپنے آپ کو شیعہ سمجھے اے جابر ہمارے شیعہ ان نشانیوں سے پہچانے جاتے ہیں سچے امین با وفا ہمیشہ اللہ کی یاد میں ہوں نماز پڑھیں روزہ رکھیں قرآن پڑھیں ماں باپ سے نیکی کریں ہمسایوں کی مدد کریں یتیموں کی خبر گری کریں اور ان کی دلجوئی کریں لوگوں کے بارے میں سوائے اچھائی

۲۰۳

کے اور کچھ نہ کہیں لوگوں کے مورد اعتماد اور امین ہوں_

جابر نے جو امام (ع) کے کلام کو بڑے غور سے سن رہے تھے تعجب کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر خدا (ص) مسلمانوں میں اس قسم کی صفات کے بہت تھوڑے لوگ ہم دیکھتے ہیں امام (ع) محمد باقر علیہ السلام نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور فرمایا شاید خیال کرو کہ شیعہ ہونے کے لئے صرف ہماری دوستی کا ادّعا ہی کافی ہے نہیں اس طرح نہیں ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہوں لیکن عمل میں ان کی پیروی نہیں کرتا وہ علی (ع) کا شیعہ نہیں ہے بلکہ اگر کوئی کہے کہ میں پیغمبر (ص) کو دوست رکھتا ہوں اور آپ (ص) کی پیروی نہ کرے تو اس کا یہ ادّعا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا حالانکہ پیغمبر (ص) علی (ع) سے بہتر ہیں اے جابر ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ اللہ کے فرمان کے مطیع ہوتے ہیں جو شخص اللہ کے فرمان پر عمل نہیں کرتا اس نے ہم سے دشمنی کی ہے تمہیں پرہیزگار ہونا چاہیئے اور آخرت کی بہترین نعمتوں کے حاصل کرنے اورآخرت کے ثواب کو پانے کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے چاہیے سب سے بہتر اوربا عزّت انسان اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو_

غور کیجئے اور جواب دیجئے ۱)___ شیعہ کو کیسا ہونا چاہیئے وہ کن علامتوں اور نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے؟

۲)___ کیا صرف ادّعا کرنا کہ علی علیہ السلام کو دوست

۲۰۴