معارف قرآن

معارف قرآن18%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181506 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(۷) نقطہ ضعف کامل

انَّ الْاِنْسٰانَ خُلِقَ هَلُوعًا o وَاِذَا مَسّه الشَّرُّ جُزُوعًا o وَاِذا مَسَّهُ الخَیْرُ مَنُوعًا o (سوره مبارکه معارج،١٩-٢١)

ترجمہ:

بے شک انسان بڑا لالچی ہے۔ جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے۔ اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہوجاتا ہے علاوہ نمازیوں کے۔

پیغام:

اگر انسان اپنا تزکیہ نفس نہ کرے تو اس میں حیوانی صفات پیدا ہوجاتی ہیں مشکلات میں جلد رنجیدہ اور خوشحالی میں ناشکرا ہوجاتا ہے۔ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ اور دوسروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوتا۔ انسان کے نقاط ضعف کا حل خدا سے رابطہ ہے اور خدا سے رابطہ کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

(۸) امتحان

اِنَّا جَعَلْنٰا مٰا عَلٰٰی الأَرْضِ زِیْنَةً لَهٰا لَنَبْلُوَهُمْ أَیُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا- (سوره مبارکه کهف،٧)

۱۲۱

ترجمہ:

بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔

پیغام:

گھر، باغ وغیرہ زمین کی زینت ہیں لیکن ایک انسان کی زینت اس کا ایمان ہے دنیا کی ظاہری زینت کے حصول کی خاطر معنوی زینت کو قربان نہ کریں دنیا کی زندگی اس بات کا امتحان ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون ظاہری و عارضی زینت اور کون معنوی اور ابدی زینت کا انتخاب کرتا ہے۔

(۹) مورد تنقید

و اِنّا اذَا أَذَقْنٰا الاِنْسٰانَ مِنَّارَحْمَةً فَرِحَ بِهٰا---(سوره مبارکه شوریٰ، ٤٨)

ترجمہ:

اور ہم جب کسی انسان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اکڑ جاتا ہے۔

۱۲۲

پیغام:

ہماری بعض صفات خدا کے تنقید کا نشانہ بنتی ہیں اور اس تنقید کا مقصد ہماری اصلاح کرنا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس تنقید برای اصلاح سے بہرہ مند ہوں اور اپنے اندر موجود ضعیف نقات کی اصلاح کریں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم خوشی اور غمی میں خدا کو یاد کریں۔ اور ایسے کاموں کی انجام دہی سے پرہیز کریں جو ہمارے لیے باعث پریشانی ہوں اس لیے کہ بعض برے کاموں کی سزا اسی دنیا میں مل جاتی ہے۔

(۱۰) زندگی کے مراحل

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَه' فَقَدَّرَ o ثُمَّ أَمَاتَهُ فاقبره- (سوره مبارکه عبس،١٩و ٢١)

ترجمہ:

اُسے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر اس کا اندازمقرر کیا ہے ۔ پھر اُسے موت دے کر دفنا دیا۔

پیغام:

انسان کی زندگی دو مرحلوں پر مشتمل ہے:

اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچپنے سے لے کر بڑھاپے اور بڑھاپے سے لے کر برزخی زندگی تک کے مراحل کو طے کرے۔

اور اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آزادی اور مکمل آگاہی کے ساتھ صحیح یا غلط راہ کا انتخاب کرے۔

۱۲۳

(۱۱) اختیار

اِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیْل اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کفوراً-(سوره مبارکه انسان ،٣)

ترجمہ:

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

پیغام:

عقل و فطرت ہمیں راہ حق کی طرف ، خواہش نفس اور شیطان ہمیں راہ باطل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عقل و خردمندی سے کام لیتے ہوئے صحیح اور درست راہ کاانتخاب کریں۔

(۱۲) انسان کا سوال

وَیَقُولُ الاِنْسٰانُ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیّاً---(سورئه مبارکه مریم ، ٦٦)

ترجمہ:

اور انسان یہ کہتا ہے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیں گے۔

۱۲۴

پیغام:

انسان کا یہ اعتراف کہ وہ پہلے نہ تھا اور اب ہے قیامت کے قبول کرنے کے لیے کافی ہے۔

(۱۳) غلط سوچ

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانُ أَنْ لَنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ---(سوره مبارکه قیامت،٣٨)

ترجمہ:

کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔

پیغام:

گرمیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ درخت خشک ہوجاتے ہیں اور پھر موسم بہار میں یہی درخت سرسبر و شاداب دکھائی دیتے ہیں کیا یہ ہماری موت اور دوبارہ زندگی کے لیے بہترین نمونہ نہیں ہیں؟

(۱۴) جانشین

اِنّی جٰاعِل فِی الْأَرضِ خَلِیْفَة --- وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأسمٰاء کُلَّهٰا--- (سورهمبارکه بقره،٣٠-٣١)

۱۲۵

ترجمہ:

میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والے ہوں۔ اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

انسان اشرف المخلوقات بن کر خدا کا جانشین اور خلیفہ بن سکتا ہے۔ انسان کا معلم خود پروردگار ہے اور انسان کمالات الٰہی کی تجلی کا نام ہے۔

(۱۵)شیطان انسان کا دشمن

اِنََّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوّ فَاتَّخِذوه عدوّا-(سوره مبارکه فاطر ، ٦)

ترجمہ:

بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔

پیغام:

عقل اور فطرت انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جبکہ وسوسہ شیطان اُسے برائی کی ترغیب دیتا ہے اور وسوسہ شیطان یہ ہے کہ برای کو خوبصورت بنا کر انسان کے سامنے پیش کرتاہے لہٰذا انسانوں کو چاہیئے کہ ہوشیاری سے کام لیں تاکہ ظاہری دوست اور حقیقی دشمن کے فریب سے محفوظ رہیں۔

۱۲۶

(۱۶) امانت دار

اِنَّا عَرَضْنٰا الأَمَانَهَ علی السَّماواتِ وَالأَرْضِ وَالْجِِبٰال---(سوره مبارکه احزاب ،٧٢)

ترجمہ:

بے شک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی تسبیح کرتا ہے لیکن انسان معرفت اور آگاہی کے ساتھ عقل و شعور سے استفادہ کرتے ہوئے خدا کی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے کمال تک پہنچنے کا سبب ہے ایسے میں انسان اگر اپنے مقام کو نہ پہچان کر حیوانی زندگی کو ترجیح دے تو کیا وہ ظالم و جابر نہ ہوجائے گا؟

(۱۷) انسان ہوشیار ہوجاؤ

یَا ایُّهَا الْاِنْسَانُ مٰا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَک فَسَوّیک فَعَدَلَکَ----(سوره مبارکه انفطار ،٦-٧)

۱۲۷

ترجمہ:

اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں رکھا ہے اس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر برابر کرکے متوازن بنایا ہے۔

پیغام:

کیا یہ مناسب ہے کہ انسان خدا کی تمام نعمتوں کے سامنے جو اس نے بغیر کسی منت گزاری کے اس کے حوالے کی ہیں ناشکری کرے۔

(۱۸) کائنات انسان کے لیے

وَسَخَّرَ لَکُمْ مٰا فِی السَّمَواتِ وَمٰا فِی الأَرْضِ جَمِیْعًا مِنْهُ---- (سورئه مبارکه جاثیه ،١٣)

ترجمہ:

اور اسی نے تمہارے لیے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔

پیغام:

حیوانات اپنی جبلت کے تحت زندگی گزارتے ہیں جبکہ انسان تمام کائنات میں تصرف کرکے اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے انسان خدا کی قدرت کا جلوہ ہونے کے سبب طبیعت میں تصرف کرتا ہے جیسا کہ آج زمین کی گہرائی آسمان کی بلندی ، پہاڑوں کو چوٹی خشکی و تری سب ہی کے فائدؤں سے بہرہ مند ہے۔

۱۲۸

(۱۹) تلاش و کوشش کا ہدف

یٰا ایُّهٰا الاِنْسٰانُ اِنّک کَادِح اِلی ربِّکَ کَدْحًا فَمُلاقِیه-(سورئه مبارکه انشقاق ، ٦)

ترجمہ:

اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کرر ہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا۔

پیغام:

خدا کی طرف حرکت کے کیا معنی ہیں؟

کیا ہم سب کا کمال اور سعادت کی طرف حرکت کرنا اُس کمال مطلق کی طرف حرکت کرنا نہیں ہے؟ زندگی میں ہماری تمام تر کوشش کمال تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہے جب کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ مال و دولت کا حصول ہی کمال تک پہنچنا ہے۔ ہم سب ایک دن خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ مومنین اس کی رحمت کے سایے میں اور کفار اس کے غضب کا شکار ہوں گے۔

(۲۰) خطرہ سے ہوشیار

کلّا اِنَّ الاِنْسٰانَ لَیَظْغٰی أَنْ رَأهُ استغنٰی-(سوره مبارکه علق،٦)

ترجمہ:

بے شک انسان سرکشی کرتاہے کہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

۱۲۹

پیغام:

انسان کی بامقصد زندگی کا راز خدا سے رابطہ میں مضمر ہے اگر اس منبع فیض و کرم سے جدا ہوجائے تو پھر در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرگے گا جس کا نتیجہ مختلف جرائم اور فسادات کا مرتکب ہونا ہے۔

(۲۱)نا شکری

وَاِذَا أَنْعَمْنٰا عَلٰی الْاِنْسٰانِ أَعْرَضَ وَنٰأبجانِبه وَ اِذَا مَسَّه الشَرُ فَذُودُعٰاء عَریض- (سوره مبارکه فصلت، ٥١)

ترجمہ:

اور جب ہم انسان کو نعمت دیتے ہیں تو ہم سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور پہلو بدل کر الگ ہوجاتا ہے اور جب برائی پہنچ جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

پیام:

عارف انسان خوشحالی اور تنگ دستی میں بھی ہمیشہ خدا کی یاد میں رہتا ہے۔

۱۳۰

نویں فصل(عورت)

۱۳۱

(۱) معنوی مساوات

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰاتِ وَ المْؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰات--- (سوره مبارکه احزاب، ٣٥)

ترجمہ:

بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورت اور مومن مرد اور مومن عورتیں۔۔۔

پیغام:

واضح رہے کہ جہاں بھی خدا نے نیک صفات اور فضیلت و برتری کی بات کی ہے وہاں مرد اور عورت کو ایک ہی انداز سے یاد کیا ہے اس لیے کہ نیکی کا تعلق روح انسان ہے اور اُس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس آیت میں ان دس صفات حمیدہ کا ذکر کیا ہے جو مرد اور عورت میں یکساں پائی جاتی ہیں۔

(۲) خلقت میں مساوات

یٰا ایُّهَا النَّاسُ اِنّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ و أُنْثیٰ---(سوره مبارکه حجرات ، ١٣)

ترجمہ:

انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔

۱۳۲

پیغام:

تمام انسان خلقت کے اعتبار سے مساوی ہیں اور ان میں رنگ و نسل ، قوم قبیلے اور مرد اور عورت کے اعتبار سے کوئی امتیازی فرق نہیں ہے۔

انسان کی فضیلت اس کے اُس روحانی کمال سے وابستہ ہے جسے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کرتا ہے اور اس میں مرد اور عورت یکساں ہیں۔

(۳) دورِ جاہلیت میں۔

وَ اِذَا بَشر احدُهُم بِالأُنْثیٰ ظلَّ وَجْهُهُ-(سوره مبارکه نحل، ٥٨)

ترجمہ:

اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے۔

پیغام:

دور جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اُن سے لڑکیوں کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا، قرآن کریم اس نادانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے۔

لڑکا یا لڑکی ہونا خدا کی حکمت سے وابستہ ہے اور اس سلسلے میں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۳

(۴) معاشرتی مسائل میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِی اِذَا جائُ کَ المُؤمِناتُ یُبَایُعَنکَ ---(سوره مبارکه ممتحنه، ١٢)

ترجمہ:

پیغمبر (ص) اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لیے آئیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح انبیاء کی دعوت کے انتخاب میں مکمل آزاد ہیں دور جاہلیت میں عورتوں کو حق انتخاب حاصل نہ تھا اور وہ آزادانہ تھیں۔ قرآن کریم نے اس عقیدہ جاہلیت کی مخالفت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کی بیعت کے دوران عورتوں کو بیعت کا مستقل حق دے کر انہیں اس بات کی اجازت دی کہ وہ اجتماعی اور معاشرتی مسائل میں حصہ لے سکتی ہیں۔

(۵) حجاب میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِیْ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَناتِکَ ونِسَائُ المُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَا بیبِهِنَّ ---(سورئه مبارکه احزاب، ٥٩)

۱۳۴

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں۔۔۔

پیغام:

حجاب پاکدامنی کی طرف ایک قدم ہے اللہ تعالیٰ نظام خانوادہ کو پسند کرتا ہے اور بے حجابی اور بے حیائی اس نظام کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور مرد و عورت کو گناہ کی ترغیب دیتی ہے۔

اسلام مرد اور عورت کے روابط کے سلسلے میں نہ افراط اور نہ تفریط کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس سلسلے میں میانہ روی سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔

(۶) مورد خطاب

فَقُلْنٰا یٰا اٰدَمُ اِنَّ هٰذا عَدُّو لَکَ وَلِزَوْجِکَ---فَبدَتْ لَهُمٰا سَؤاتْهُمٰا--- (سورئه مبارکه طه، ١٢٠)

ترجمہ:

تو ہم نے کہا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے۔۔۔پس اُن کا آگا پیچھا ظاہر ہوگیا۔۔۔

۱۳۵

پیغام:

توریت اور انجیل نے حضرت حوا کو حضرت آدم کے فریب کھانے کا اصلی عامل قرار دیا ہے جب کہ قرآن نے دونوں سے یکساں خطاب کیا ہے اور وہی خطاب آج بھی دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں سے ہے کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے اور چاہتا ہے کہ تم دونوں کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم کردے لہٰذا ہوشیار رہو۔

(۷) کافروں کے لئے مثال

ضَرَبَ اللّٰه مثلاً لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاتَ نوحٍ وامْرتَ لوط--(سوره مبارکه تحریم، ١٠)

ترجمہ:

خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے۔

پیغام:

انسان ہدایت اور گمراہی کے راستہ کے انتخاب میں آزاد ہے اور اس مرحلہ میں مرد اور عورت کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے پیغمبروں کی بیویاں ہونے کے باوجود ضلالت و گمراہی کا راستہ انتخاب کیا، اللہ تعالیٰ نے یہاں جب کافر انسانوں کا تذکرہ کیا تو کافر عورتوں کی مثال پیش کی ہے اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کا تعلق انسان کے ارادہ سے ہے اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۶

(۸) نمونہ عمل

رَبَّنَا اِنّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ----(سوره مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو چھوڑ دیا ہے۔

پیغام:

حضرت ہاجرہـ حضرت ابراہیم ـ کے قدم بہ قدم صبر و استقامت اور اطاعت خداوندی کا پیکر اتم بنی ہوئی تھیں۔

حضرت ہاجرہـ کے صبر و استقامت نے اپنے شوہر اور بیٹے کے لیے بت شکنی اور کمال سعادت تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار کیا۔

حج کے بہت سے واجب اعمال حضرت ہاجرہـ کی فداکاری کی یاد میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ یعنی نمونہ عمل کے لیے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

(۹) صاحبان ایمان کے لیے مثال

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْراَت فِرْعَوْنَ---(سوره مبارکه تحریم، ١١)

ترجمہ:

اور خدا نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے۔۔۔

۱۳۷

پیغام:

اللہ تعالیٰ نے جب صاحبان ایمان کے لیے مثال پیش کرنا چاہی تو کسی نبی کا انتخاب نہ کیا بلکہ حضرت آسیہ علیہا السلام (زن فرعون) کو نمونہ کے طور پر پیش کیا۔

ظلم و ستم کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک نیک صفت ہے چاہے وہ صفت مرد میں پائی جاتی ہو یا عورت میں۔

(۱۰) خدا سے ہم کلام

وَ أَوْحَیْنَا اِلٰی اُمّ مُوْسٰی أَنْ أَرْ ضِعیه--- فَالقیه فِی الْیَمْ--- (سوره مبارکه قصص،٧)

ترجمہ:

اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤ۔۔۔ اور اسے دریا میں ڈال دو۔

پیغام:

فرشتہ صاحبان ایمان سے ہم کلام ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہوں یا عورت جناب موسیٰ جیسے اولی العزم نبی نیز تمام لائق اور شائستہ انسان اپنی والدہ کی تربیت کے مرہون منت ہیں۔

حضرت امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں ''قرآن بھی انسانوں کی تربیت کرتا ہے اور عورت بھی انسانوں کی تربیت کرتی ہے'' اور یہ چیز عورت کے بلند و بالا مقام و منزلت کے بیان کے لیے کافی ہے۔

۱۳۸

(۱۱) بہادر بہن

وَقَالَتْ لأُختِه قصّیهِ فَبَصُرَت بِه عَنْ جُنُب ---(سوره مبارکه قصص ،١١)

ترجمہ:

مادر موسیٰ نے ان کی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کاپیچھا کرو۔۔۔

پیغام:

جناب موسی ـ کی بہن نے بے خوف و خطر اپنے وظیفہ پر عمل کیا۔

تاریخ میں عورتیں ہمیشہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے خدا کے ارادہ کو عملی کردکھایا تاکہ جناب موسی ـزندہ رہیں اور فرعون صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

(۱۲) محنت کش بہنیں

وَ َجَد مِنْ دونِهِمْ امرآتین تذودان---(سورئه مبارکه قصص ، ٢٣)

۱۳۹

ترجمہ:

اور اُن سے الگ دو عورتوں کو اور دیکھا جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کام کاج کرتی ہیں جس طرح جناب شعیب ـ کی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔

عورتوں کے لیے کام کرنا کوئی عیب نہیں ہے البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی عفت و پاکیزگی پر کوئی آنچ نہ آئے جیسا کہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح کام کرے کہ حرام میںمبتلا نہ ہو۔

(۱۳) فساد پھیلانے والی

وَ رَاوَدَتْه' الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهٰا عَنْ نَفْسِهِ وَ غَلَّقَت، الأَبْوابَ---(سوره مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

اور اس نے ان سے اظہار محبت کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے۔

پیغام:

فاسد انسان دوسروں کے بھی فساد کا سبب بنتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ شیطان سب کو بھڑکاتا ہے مرد اور عورت دونوں ہی کو شیطان سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔

۱۴۰

(14) فرشتہ صفت

اذ قالت الملائکة یا مریم انَّ اللّٰه یُبَشِّرُکَ بِکَلمَةٍ مِنْه' اسمهُ المسیحُ عِیْسٰی ابْنِ مَرْیَم---(سوره مبارکه آل عمران،٤٠)

ترجمہ:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے کہا کہ اے مریم خدا تم کو اپنے کلمہ مسیح عیسی بن مریم کی بشارت دے رہا ہے۔

پیغام:

جبرائیل فرشتہ صفت انسان سے ہم کلام ہوتا ہے چاہے وہ انسان مرد ہو جیسے انبیاء یا عورت ہو جیسے حضرت مریم ـ۔

حضرت مریم ـ جیسی پاک و پاکیزہ خاتون ہی حضرت عیسیٰ ـ جیسے عظیم بچے کی پرورش کرسکتی تھیں۔

(15) عورت اور ذمہ داری

قَالَتْ یَا ایُّهَا الْمَلَؤا أَفْتونِی فِیْ امْرِی ---(سوره مبارکه نمل ، ٣٢)

ترجمہ:

اس عورت نے کہا میرے زعماء مملکت ! میرے مسئلہ میں رائے دو۔۔۔

۱۴۱

پیغام:

ملکہ بلقیس نہایت ذہین اور تیز بین ہونے کے باوجود اہم مسائل میں دوسروں سے بھی مشورہ کرتی تھی۔

بعض افراد نے ملکہ کو جنگ کے لیے اُبھارا مگر ملکہ نے عقلمندی سے کام لیا اور خود جناب سلیمانـ سے ملنے کے لیے چلی آئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بلاوجہ جنگ میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی جائیں۔ صحیح مدیریت ایک اچھی چیز ہے اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔

(16) برگزیدہ

وَ اذ قَالَتِ المَلَائِکَةُ یٰا مَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصطفیک و طَهّرکِ وَاصطفیٰکِ عَلٰی نسائِ العٰالمین-(سوره مبارکه آل عمران ، ٤٢)

ترجمہ:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تم کو چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیدیا ہے۔

پیغام:

عورت ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچ سکتی ہے کہ جہاں خدا اس کے لیے پیغام بھیجے فرشتے اُس ے ہم کلام ہوں اور آیات قرآن اس کی مدح سرائی کریں۔

کائنات میں چار برگزیدہ عورتیں ہیں۔ جناب مریم ، جناب آسیہ،جناب خدیجہ اور جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام کہ یہ سب کی سب کائنات کی خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں۔

جناب مریم کا نام مریم گیارہ مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور یہ وہ نام ہے جسے خدا نے ان کے لیے منتخب کیا ہے۔

۱۴۲

(17) رضایت

وَالْوالِدٰاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کامِلَیْنِ----(سوره مبارکه بقره ، ٢٣٣)

ترجمہ:

اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی۔

پیغام:

والدہ بچہ کی پیدائش میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشرے میں ماں کا کردار ایک اہم کردار ہے ماں کے دودھ کے قطرے بچے کی جان کے لیے حیات نو کا کام کرتے ہیں۔ ماں کا دودھ بچہ کی جسمانی نشوونما کے علاوہ مہر و محبت کا عظیم شہکار ہے۔

(18) احترام میں مساوی

وَقَضَیٰ رَبُّکَ ألّا تَعبُدُوا اِلَّا ایّاه وَ بالْوٰالِدِیْنِ اِحْسَانَا---(سورئه مبارکه اسراء ، ٢٣)

ترجمہ:

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔

۱۴۳

پیغام:

جس طرح والد کے ساتھ نیکی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح والدہ کے ساتھ بھی نیکی اور احسان کا حکم دیا گیا ہے اس لحاظ سے دونوں یکساں ہیں اور ان کے ساتھ نیکی کو خدا نے اپنی عبادت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بچے کی پرورش اور تربیت میں ماں نہایت مشقت کا سامنا کرتی ہے اس لئے احترام اور خدمت میں اُسے باپ پر فوقیت حاصل ہے۔

(19) درجات میں مساوی

وَعَدَ اللّٰهُ المومنینَ وَالمُؤمِنَاتِ جنَّات ---(سورئه مبارکه توبه ، ٧٢)

ترجمہ:

اللہ نے مومن مرد اور مومن عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

پیغام:

جس طرح مرد اور عورت کمال و سعادت تک پہنچنے میں یکساں ہیں اسی طرح جنت کے حصول میں بھی اُن میں کوئی فرق نہیں ہے جو جتنے نیک اور اچھے کام انجام دے گا اتنا ہی بلند درجہ پائے گا۔

(20) پاکیزہ زندگی

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أنْثٰی وَهُوَ مؤمِن فَلَنُحَیِیَنَّه' حیاةً طَیّبة- (سوره مبارکه نحل،٩٧)

۱۴۴

ترجمہ:

جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اُسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے۔

پیغام:

کمال اور سعادت تک پہنچنے کے لیے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جوچیز انسان کو کمال تک پہنچاتی ہے وہ اس کی روح ہے جو مرد اور عورت میں یکساں ہیں۔

(21) حق ملکیت

لِلرِّجٰالِ نَصِیْب مِمَّا اکتَسِبُوا وَلِلنِّسَائِ نَصِیْب مِمَّا اکتسبن ---(سوره مبارکه نسائ، ٣٢)

ترجمہ:

مردوں کے لیے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لیے وہ حصہ ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے۔

پیغام:

دورِ جاہلیت میں عورتوں کو حق ملکیت حاصل نہ تھا جب کہ قرآن نے عورتوں کے لیے بھی اُسی طرح حق ملکیت کو بیان کیا ہے جس طرح مردوں کے لیے۔ عورت کا حق ملکیت اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اُسے اپنی درآمدات میں اضافے اور اقتصادی اور معاشی امور میں دخالت کا حق حاصل ہے۔

۱۴۵

دسویں فصل(راہِ زندگی)

۱۴۶

(1) صدق نیت

وَ قُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقً- (سوره مبارکه اسراء ، ٨٠)

ترجمہ:

اور کہہ دیجئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال۔

پیغام:

اگر انسان مطالعہ کرنا، درس پڑھنا ، یا کوئی اور کام کرنا چاہتا ہے تو کامیابی کیلئے شروع سے آخر تک صدق نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔

کسی بھی کام میں صدق نیت یہ ہے کہ خودبینی اور ستم گری سے پرہیز کریں اور نیک اہداف کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے تلاش وکوشش کرتے رہیں اور آخر تک اُس پر قائم رہیں اور کامیابی کیلئے خدا سے دعا کرتے رہیں۔

(2) پاک و پاکیزہ نفس

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰاها- وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاها- (سوره مبارکه شمس ،٩-١٠)

۱۴۷

ترجمہ:

بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے۔

پیغام:

قرآن مجید نے اچھے اور برے راستہ کی نشاندہی کی ہے تاکہ ہم اپنے ارادہ و اختیار سے ان میں سے ایک کا انتخاب کریں جیسا کہ ایک انسان اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح و سالم اور تندرست رہے تو اس کے لیے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اگر وہ اُن اصولوں کی رعایت نہ کرے تو مریض ہوجائے گا، بالکل اسی طرح ہم عقل اور وحی کے بتائے ہوئے اصولوں کے ذریعہ سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر ان اصولوں کی پابندی نہ کریں تو ناکام ہوجائیں گے۔

(3) صبر و استقامت

اِنَّمَا یُوٰفَّی الصّٰبِرُونَ أَجُرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ- (سوره مبارکه زمر، ١٠)

ترجمہ:

بس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجراء دیا جاتا ہے۔

پیغام:

اگر ہم کمال انسانیت اور حقیقی معرفت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا۔ اور جس قدر ارادہ پختہ اور مضبوط ہوگا صبر و استقامت میں کمال حاصل ہوتا جائے گا۔

۱۴۸

(4) پر اُمید

لَا تَقْنِطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ----(سوره مبارکه زمر،٥٣)

ترجمہ:

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

پیغام:

اگر ہمارے دل میں چراغ امید روشن نہ ہو تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی آگے قدم نہیں بڑھاسکتے خدا کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے، وہ اپنی تمام مخلوق سے محبت کرتا ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ اور ہماری مدد کرنے والا ہے اگر ہمیں دنیا کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہو تب بھی اُس پر امید کے سہارے آگے بڑھتے رہنا چاہیئے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر غالب ہے۔

(5) نہ ظالم نہ مظلوم

لَا تَظْلِمُونَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ-

۱۴۹

ترجمہ:

نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو۔

پیغام:

یہ مختصر اور عمیق کلام قرآن کے نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ظلم کے خلاف سکوت اختیار کرلیتے ہیں جبکہ بعض لوگ خود ظلم کرتے ہیں لیکن قرآن کے ماننے والے نہ ظلم کرتے ہیں اور نہ ظلم سہتے ہیں۔

(6) وحدت و بھائی چارگی

اِنَّمٰا الْمُوْمِنُونَ اِخْوَة-

ترجمہ:

مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں۔

پیغام:

وحدت ، پیار ومحبت، الفت و ہمدردی ایک معاشرے کے لیے خیمے میں ستون کی مانند ہیں۔ اگر کسی معاشرے کے افراد میں اخوت و برادری کا رشتہ قائم نہ ہو تو تمام صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ آپس میں پیار محبت کے ساتھ پیش آنا فرمان الٰہی کے ساتھ ساتھ عقل سلیم کا تقاضا بھی ہے۔لڑائی جھگڑا شیطان اور پیار ومحبت خدا کی طرف سے ہے۔

۱۵۰

(7) تلاش و کوشش

لَیْسَ للانْسٰانَ اِلَّا مٰا سَعٰی-(سوره مبارکه نجم،٣٩)

ترجمہ:

انسان کے لیے اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

پیغام:

ہماری آئندہ زندگی آج کی تلاش اور کوشش کی مرہون منت ہے۔ ہمیں محکم و استوار ارادہ کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے ہماری تمام تر جدوجہد نیک نیتی پر مبنی ہونی چاہیے جو ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

(8) عزت و سربلندی

مَنْ کَاْنَ یُرِیْدُ العِزَّهَ فَلِلّٰهِ العِزَّةُ جَمِیْعًا-(سوره مبارکه فاطر،١٠)

ترجمہ:

جو شخص بھی عزت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ عزت سب پروردگار کے لیے ہے۔

۱۵۱

پیغام:

ہمیشہ خدا کی اطاعت کریں ، اس سے محبت کریں اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر اس کی یاد سے غافل نہ ہوں تاکہ اس کی عزت کے وسیلہ سے ہم بھی سربلند ہوجائیں۔

وہ تمام کمالات کا مخزن اور سرچشمہ ہے ۔ ہمیشہ اس سے رابطے میں رہیں تاکہ اس کے کمالات کے وسیلہ سے ہم بھی باکمال ہوجائیں۔

(9)وفائے عہد

أَوْفُوْا بِالْعَهدِ اِنَّ الْعَهدَ کَاْنَ مَسْئُوْلا-(سوره مبارکه اسرائ،٣٤)

ترجمہ:

اپنے عہدوں کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

پیغام:

اس بات کا عہد کریں کہ آج کے بعد جو عہد بھی کریں گے اُسے پورا کریں گے چاہے وہ عہد ہم نے خود اپنے آپ سے کیا ہو یا کسی اور سے۔

۱۵۲

(10) اخلاق نبوی

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ-(سوره مبارکه قلم،٤)

ترجمہ:

اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔

پیغام:

ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے پیغمبر(ص) کے ماننے والے ہیں جن کے اخلاق کی خدا نے تعریف کی ہے ہمیں آپ(ص) کے اخلاق طیبہ کو اپنانے کی کوشش کرنے چاہیے۔

آپ(ص) امانت داری ، سچائی ، مہربانی عفو ودر گذشت اورعجز و انکساری کے پیکر اتم تھے۔

(11) اطمینان قلب

أَلَا بِذِکْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنَّ القُلُوْبُط-(سوره مبارکه رعد،٢٨)

ترجمہ:

آگاہ ہو جاؤ کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

۱۵۳

پیغام:

پانی کا وہ قطرہ جو بخارات کی صورت میں دریا سے اٹھتا ہے ہمہ تن بادلوں ، پہاڑوں اور پھر مختلف وادیوں میں اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ دوبارہ دریا سے مل جائے تاکہ اسے قرار اور اطمینان حاصل ہوجائے۔

ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہمیں صرف خدا ہی کی ملاقات کے بعد اطمینان حاصل ہوسکتا ہے ۔ معرفت خدا اس کی یاد کا بہترین وسیلہ ہے۔ خدا کی یاد سے بہت سی پریشانیاں دور اور مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔

(12)نعمت کا شکر

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِّیْدَنَّکُمْ-

ترجمہ:

اگر تم ہمارا شکر یہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے۔

پیغام:

ہم سب خدا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں اور ہر لحظہ اس کے لطف و کرم کے نیاز مند ہیں۔ خدا کی رحمتوں کے حصول کا ایک راستہ یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کی قدر دانی کریں اور اس کا شکر بجالائیں اور نعمتوں کا شکریہ ہے کہ انہیں خدا تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیں۔

۱۵۴

(13) مشورہ

وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَیْنَهُمْ-(سوره مبارکه شوریٰ،٣٨)

ترجمہ:

اور آپس کے معاملات میں مشورہ کرتے ہیں۔

پیغام:

ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ تجربہ رکھتا ہے لیکن زندگی کے مختلف امور میں بہتر کامیابی کے لیے ہمیں دوسروں کے مشوروں اور تجربوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مشورہ کرنا ، دوسروں کا احترام کرنے کے مترداف نیز ان کی فکری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے جو ہمیں کامیابی سے نزدیک تر کردیتا ہے۔

خداوند متعال نے جنگ بدر کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کو یہ حکم دیا کہ ان (اصحاب) سے مشورہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور زندگی کے امور میں مشورہ کی اہمیت کو روشن کرتا ہے۔

(14) توکل

وَ مَنْ یَتَوکّل علیٰ اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه'-(سوره مبارکه طلاق،٣)

ترجمہ:

اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لیے کافی ہے۔

۱۵۵

پیغام:

ممکن ہے کہ ہم ہر کام کی ابتداء میں شک و تردید کا شکار ہوں لیکن اگر خدا پر بھروسہ کریں تو ہم اس کی مدد سے مشکلات پر قابو پاکر اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ چیز توکل کہلاتی ہے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا: جو شخص خدا پر توکل کرتا ہے وہ ہرگز شکست نہیں کھاتا۔

(15)نیکی اور اچھائی کے کاموں میں سبقت

فَاسْتَبِقُوا الخَیْرات -(سوره مبارکه بقره)

ترجمہ:

نیکی اور اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لو۔

پیغام:

ہم بہت سے کاموں کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ وہ نیک اور اچھے ہیں مثال کے طور پر چھوٹوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آنا ، دوسروں کے کام آنا، ان کی مدد کرناوغیرہ لیکن جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ ہم ان تمام چیزوں کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن ہم سے فقط یہ نہیں چاہتا کہ نیک کام انجام دیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم نیک کام کرنے میں دوسروں پر سبقت لیںاور یہ چیز شیطان کی چاہت کے خلاف ہے جو ہمیں برائی کی طرف دعوت دیتا ہے۔

۱۵۶

(16) محکم و استوار

اُشِدّائُ عَلیٰ الکُفَّارِ رَحْمٰاء بَیْنَهُمْ- (سوره مبارکه فتح،٢٩)

ترجمہ:

پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی صفت یہ ہے کہ وہ کفار کے سامنے محکم و استواراور مومنین کے ساتھ مہربانی اورشفقت سے پیش آتے ہیں۔

پیغام:

ہم تمام انسانوں کے ساتھ اچھے اور نیک سلوک کے خواہاں ہیں ۔ لیکن کفار جو خدا اور روز قیامت پر یقین نہیں رکھتے اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے مکروفریب کے ذریعہ ہم پر مسلط ہوجائیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ کفار کے ساتھ سختی سے پیش آئیں تاکہ وہ ہم میں رسوخ پیدا نہ کرسکیں اور مومنین کے ساتھ نہایت مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔

(17) دوستی و رفاقت

فَاتَّقُواللّٰهَ وأَصلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ----(سوره مبارکه انفال ،١)

ترجمہ:

تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس میں اصلاح کرو۔

۱۵۷

پیغام:

تقویٰ الٰہی کا مطلب خداوند متعال کے قوانین اور اس کے احکامات کی پابندی کرنا ہے۔ اور ان ہی قوانین میں سے ایک آپس میں اصلاح کرنا اور ہر قسم کی لڑائی اور جھگڑے سے پرہیز کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آپس میں قریب ہوجائیں اور دوستی اور رفاقت کی فضا کو قائم رکھتے ہوئے خوشگوار زندگی بسر کریں حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: دوستی و رفاقت ایک سال کی نماز اور روزہ سے افضل ہے۔

(18) نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد

تَعَاوَنُوا عَلیٰ البِرِّ وَالتّقویٰ-

ترجمہ:

نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔

پیغام:

ہمیں چاہیئے کہ عمل خیر میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ہمیشہ اچھے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہیں۔

۱۵۸

(19) برائی سے پرہیز

وَلَا تَعَاوَنُوا عَلیٰ الاِثْمِ وَالْعُدْوان---

ترجمہ:

ہرگز گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا۔

پیغام:

ظلم و ستم ، خودبینی، اور وسوسہ شیطان ہمیشہ انسان کا تعاقب کررہے ہیں اگر بعض افراد برائیوں کا شکار ہوچکے ہوں تو ہمیں ان کی نجات اور رہائی کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور کم از کم ہم خود اُن افراد میں سے نہ ہوں اور گناہ اور برائی کی جگہ سے پرہیز کریں۔

(20) خدا کے حضور

أَلَمْ یَعْلَمْ بِأنّ اللّٰه یَریٰ- (سوره مبارکه علق،١٤)

ترجمہ:

کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہاہے۔

۱۵۹

پیغام:

امام خمینی نے فرمایا :

عالم محضر خدا ہے اور محضر خدا میں گناہ نہ کریں۔

(21)عفو در گذر

وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحوا أَلَا تُحبّونَ أنْ یَغْفِر اللّٰهُ لَکُمْ-(سوره مبارکه نور،٢٢)

ترجمہ:

ہر ایک کو معاف کرنا چاہیے اور درگذر کرنا چاہیے کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخش دے۔

پیغام:

تمام عالم خدا کی رحمت کا جلوہ ہے اس نے اپنے محبوب نبی کو بھی رحمت عالمین کے لقب سے نوازا ہے ۔ ان کی پیروی کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ دنیا میں رحمت کا پیغام پہنچائیں۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204