معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181422 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(۷) نقطہ ضعف کامل

انَّ الْاِنْسٰانَ خُلِقَ هَلُوعًا o وَاِذَا مَسّه الشَّرُّ جُزُوعًا o وَاِذا مَسَّهُ الخَیْرُ مَنُوعًا o (سوره مبارکه معارج،١٩-٢١)

ترجمہ:

بے شک انسان بڑا لالچی ہے۔ جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے۔ اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہوجاتا ہے علاوہ نمازیوں کے۔

پیغام:

اگر انسان اپنا تزکیہ نفس نہ کرے تو اس میں حیوانی صفات پیدا ہوجاتی ہیں مشکلات میں جلد رنجیدہ اور خوشحالی میں ناشکرا ہوجاتا ہے۔ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ اور دوسروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوتا۔ انسان کے نقاط ضعف کا حل خدا سے رابطہ ہے اور خدا سے رابطہ کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

(۸) امتحان

اِنَّا جَعَلْنٰا مٰا عَلٰٰی الأَرْضِ زِیْنَةً لَهٰا لَنَبْلُوَهُمْ أَیُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا- (سوره مبارکه کهف،٧)

۱۲۱

ترجمہ:

بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔

پیغام:

گھر، باغ وغیرہ زمین کی زینت ہیں لیکن ایک انسان کی زینت اس کا ایمان ہے دنیا کی ظاہری زینت کے حصول کی خاطر معنوی زینت کو قربان نہ کریں دنیا کی زندگی اس بات کا امتحان ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون ظاہری و عارضی زینت اور کون معنوی اور ابدی زینت کا انتخاب کرتا ہے۔

(۹) مورد تنقید

و اِنّا اذَا أَذَقْنٰا الاِنْسٰانَ مِنَّارَحْمَةً فَرِحَ بِهٰا---(سوره مبارکه شوریٰ، ٤٨)

ترجمہ:

اور ہم جب کسی انسان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اکڑ جاتا ہے۔

۱۲۲

پیغام:

ہماری بعض صفات خدا کے تنقید کا نشانہ بنتی ہیں اور اس تنقید کا مقصد ہماری اصلاح کرنا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس تنقید برای اصلاح سے بہرہ مند ہوں اور اپنے اندر موجود ضعیف نقات کی اصلاح کریں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم خوشی اور غمی میں خدا کو یاد کریں۔ اور ایسے کاموں کی انجام دہی سے پرہیز کریں جو ہمارے لیے باعث پریشانی ہوں اس لیے کہ بعض برے کاموں کی سزا اسی دنیا میں مل جاتی ہے۔

(۱۰) زندگی کے مراحل

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَه' فَقَدَّرَ o ثُمَّ أَمَاتَهُ فاقبره- (سوره مبارکه عبس،١٩و ٢١)

ترجمہ:

اُسے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر اس کا اندازمقرر کیا ہے ۔ پھر اُسے موت دے کر دفنا دیا۔

پیغام:

انسان کی زندگی دو مرحلوں پر مشتمل ہے:

اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچپنے سے لے کر بڑھاپے اور بڑھاپے سے لے کر برزخی زندگی تک کے مراحل کو طے کرے۔

اور اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آزادی اور مکمل آگاہی کے ساتھ صحیح یا غلط راہ کا انتخاب کرے۔

۱۲۳

(۱۱) اختیار

اِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیْل اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کفوراً-(سوره مبارکه انسان ،٣)

ترجمہ:

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

پیغام:

عقل و فطرت ہمیں راہ حق کی طرف ، خواہش نفس اور شیطان ہمیں راہ باطل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عقل و خردمندی سے کام لیتے ہوئے صحیح اور درست راہ کاانتخاب کریں۔

(۱۲) انسان کا سوال

وَیَقُولُ الاِنْسٰانُ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیّاً---(سورئه مبارکه مریم ، ٦٦)

ترجمہ:

اور انسان یہ کہتا ہے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیں گے۔

۱۲۴

پیغام:

انسان کا یہ اعتراف کہ وہ پہلے نہ تھا اور اب ہے قیامت کے قبول کرنے کے لیے کافی ہے۔

(۱۳) غلط سوچ

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانُ أَنْ لَنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ---(سوره مبارکه قیامت،٣٨)

ترجمہ:

کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔

پیغام:

گرمیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ درخت خشک ہوجاتے ہیں اور پھر موسم بہار میں یہی درخت سرسبر و شاداب دکھائی دیتے ہیں کیا یہ ہماری موت اور دوبارہ زندگی کے لیے بہترین نمونہ نہیں ہیں؟

(۱۴) جانشین

اِنّی جٰاعِل فِی الْأَرضِ خَلِیْفَة --- وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأسمٰاء کُلَّهٰا--- (سورهمبارکه بقره،٣٠-٣١)

۱۲۵

ترجمہ:

میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والے ہوں۔ اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

انسان اشرف المخلوقات بن کر خدا کا جانشین اور خلیفہ بن سکتا ہے۔ انسان کا معلم خود پروردگار ہے اور انسان کمالات الٰہی کی تجلی کا نام ہے۔

(۱۵)شیطان انسان کا دشمن

اِنََّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوّ فَاتَّخِذوه عدوّا-(سوره مبارکه فاطر ، ٦)

ترجمہ:

بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔

پیغام:

عقل اور فطرت انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جبکہ وسوسہ شیطان اُسے برائی کی ترغیب دیتا ہے اور وسوسہ شیطان یہ ہے کہ برای کو خوبصورت بنا کر انسان کے سامنے پیش کرتاہے لہٰذا انسانوں کو چاہیئے کہ ہوشیاری سے کام لیں تاکہ ظاہری دوست اور حقیقی دشمن کے فریب سے محفوظ رہیں۔

۱۲۶

(۱۶) امانت دار

اِنَّا عَرَضْنٰا الأَمَانَهَ علی السَّماواتِ وَالأَرْضِ وَالْجِِبٰال---(سوره مبارکه احزاب ،٧٢)

ترجمہ:

بے شک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی تسبیح کرتا ہے لیکن انسان معرفت اور آگاہی کے ساتھ عقل و شعور سے استفادہ کرتے ہوئے خدا کی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے کمال تک پہنچنے کا سبب ہے ایسے میں انسان اگر اپنے مقام کو نہ پہچان کر حیوانی زندگی کو ترجیح دے تو کیا وہ ظالم و جابر نہ ہوجائے گا؟

(۱۷) انسان ہوشیار ہوجاؤ

یَا ایُّهَا الْاِنْسَانُ مٰا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَک فَسَوّیک فَعَدَلَکَ----(سوره مبارکه انفطار ،٦-٧)

۱۲۷

ترجمہ:

اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں رکھا ہے اس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر برابر کرکے متوازن بنایا ہے۔

پیغام:

کیا یہ مناسب ہے کہ انسان خدا کی تمام نعمتوں کے سامنے جو اس نے بغیر کسی منت گزاری کے اس کے حوالے کی ہیں ناشکری کرے۔

(۱۸) کائنات انسان کے لیے

وَسَخَّرَ لَکُمْ مٰا فِی السَّمَواتِ وَمٰا فِی الأَرْضِ جَمِیْعًا مِنْهُ---- (سورئه مبارکه جاثیه ،١٣)

ترجمہ:

اور اسی نے تمہارے لیے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔

پیغام:

حیوانات اپنی جبلت کے تحت زندگی گزارتے ہیں جبکہ انسان تمام کائنات میں تصرف کرکے اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے انسان خدا کی قدرت کا جلوہ ہونے کے سبب طبیعت میں تصرف کرتا ہے جیسا کہ آج زمین کی گہرائی آسمان کی بلندی ، پہاڑوں کو چوٹی خشکی و تری سب ہی کے فائدؤں سے بہرہ مند ہے۔

۱۲۸

(۱۹) تلاش و کوشش کا ہدف

یٰا ایُّهٰا الاِنْسٰانُ اِنّک کَادِح اِلی ربِّکَ کَدْحًا فَمُلاقِیه-(سورئه مبارکه انشقاق ، ٦)

ترجمہ:

اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کرر ہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا۔

پیغام:

خدا کی طرف حرکت کے کیا معنی ہیں؟

کیا ہم سب کا کمال اور سعادت کی طرف حرکت کرنا اُس کمال مطلق کی طرف حرکت کرنا نہیں ہے؟ زندگی میں ہماری تمام تر کوشش کمال تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہے جب کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ مال و دولت کا حصول ہی کمال تک پہنچنا ہے۔ ہم سب ایک دن خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ مومنین اس کی رحمت کے سایے میں اور کفار اس کے غضب کا شکار ہوں گے۔

(۲۰) خطرہ سے ہوشیار

کلّا اِنَّ الاِنْسٰانَ لَیَظْغٰی أَنْ رَأهُ استغنٰی-(سوره مبارکه علق،٦)

ترجمہ:

بے شک انسان سرکشی کرتاہے کہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

۱۲۹

پیغام:

انسان کی بامقصد زندگی کا راز خدا سے رابطہ میں مضمر ہے اگر اس منبع فیض و کرم سے جدا ہوجائے تو پھر در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرگے گا جس کا نتیجہ مختلف جرائم اور فسادات کا مرتکب ہونا ہے۔

(۲۱)نا شکری

وَاِذَا أَنْعَمْنٰا عَلٰی الْاِنْسٰانِ أَعْرَضَ وَنٰأبجانِبه وَ اِذَا مَسَّه الشَرُ فَذُودُعٰاء عَریض- (سوره مبارکه فصلت، ٥١)

ترجمہ:

اور جب ہم انسان کو نعمت دیتے ہیں تو ہم سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور پہلو بدل کر الگ ہوجاتا ہے اور جب برائی پہنچ جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

پیام:

عارف انسان خوشحالی اور تنگ دستی میں بھی ہمیشہ خدا کی یاد میں رہتا ہے۔

۱۳۰

نویں فصل(عورت)

۱۳۱

(۱) معنوی مساوات

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰاتِ وَ المْؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰات--- (سوره مبارکه احزاب، ٣٥)

ترجمہ:

بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورت اور مومن مرد اور مومن عورتیں۔۔۔

پیغام:

واضح رہے کہ جہاں بھی خدا نے نیک صفات اور فضیلت و برتری کی بات کی ہے وہاں مرد اور عورت کو ایک ہی انداز سے یاد کیا ہے اس لیے کہ نیکی کا تعلق روح انسان ہے اور اُس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس آیت میں ان دس صفات حمیدہ کا ذکر کیا ہے جو مرد اور عورت میں یکساں پائی جاتی ہیں۔

(۲) خلقت میں مساوات

یٰا ایُّهَا النَّاسُ اِنّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ و أُنْثیٰ---(سوره مبارکه حجرات ، ١٣)

ترجمہ:

انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔

۱۳۲

پیغام:

تمام انسان خلقت کے اعتبار سے مساوی ہیں اور ان میں رنگ و نسل ، قوم قبیلے اور مرد اور عورت کے اعتبار سے کوئی امتیازی فرق نہیں ہے۔

انسان کی فضیلت اس کے اُس روحانی کمال سے وابستہ ہے جسے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کرتا ہے اور اس میں مرد اور عورت یکساں ہیں۔

(۳) دورِ جاہلیت میں۔

وَ اِذَا بَشر احدُهُم بِالأُنْثیٰ ظلَّ وَجْهُهُ-(سوره مبارکه نحل، ٥٨)

ترجمہ:

اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے۔

پیغام:

دور جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اُن سے لڑکیوں کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا، قرآن کریم اس نادانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے۔

لڑکا یا لڑکی ہونا خدا کی حکمت سے وابستہ ہے اور اس سلسلے میں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۳

(۴) معاشرتی مسائل میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِی اِذَا جائُ کَ المُؤمِناتُ یُبَایُعَنکَ ---(سوره مبارکه ممتحنه، ١٢)

ترجمہ:

پیغمبر (ص) اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لیے آئیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح انبیاء کی دعوت کے انتخاب میں مکمل آزاد ہیں دور جاہلیت میں عورتوں کو حق انتخاب حاصل نہ تھا اور وہ آزادانہ تھیں۔ قرآن کریم نے اس عقیدہ جاہلیت کی مخالفت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کی بیعت کے دوران عورتوں کو بیعت کا مستقل حق دے کر انہیں اس بات کی اجازت دی کہ وہ اجتماعی اور معاشرتی مسائل میں حصہ لے سکتی ہیں۔

(۵) حجاب میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِیْ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَناتِکَ ونِسَائُ المُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَا بیبِهِنَّ ---(سورئه مبارکه احزاب، ٥٩)

۱۳۴

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں۔۔۔

پیغام:

حجاب پاکدامنی کی طرف ایک قدم ہے اللہ تعالیٰ نظام خانوادہ کو پسند کرتا ہے اور بے حجابی اور بے حیائی اس نظام کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور مرد و عورت کو گناہ کی ترغیب دیتی ہے۔

اسلام مرد اور عورت کے روابط کے سلسلے میں نہ افراط اور نہ تفریط کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس سلسلے میں میانہ روی سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔

(۶) مورد خطاب

فَقُلْنٰا یٰا اٰدَمُ اِنَّ هٰذا عَدُّو لَکَ وَلِزَوْجِکَ---فَبدَتْ لَهُمٰا سَؤاتْهُمٰا--- (سورئه مبارکه طه، ١٢٠)

ترجمہ:

تو ہم نے کہا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے۔۔۔پس اُن کا آگا پیچھا ظاہر ہوگیا۔۔۔

۱۳۵

پیغام:

توریت اور انجیل نے حضرت حوا کو حضرت آدم کے فریب کھانے کا اصلی عامل قرار دیا ہے جب کہ قرآن نے دونوں سے یکساں خطاب کیا ہے اور وہی خطاب آج بھی دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں سے ہے کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے اور چاہتا ہے کہ تم دونوں کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم کردے لہٰذا ہوشیار رہو۔

(۷) کافروں کے لئے مثال

ضَرَبَ اللّٰه مثلاً لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاتَ نوحٍ وامْرتَ لوط--(سوره مبارکه تحریم، ١٠)

ترجمہ:

خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے۔

پیغام:

انسان ہدایت اور گمراہی کے راستہ کے انتخاب میں آزاد ہے اور اس مرحلہ میں مرد اور عورت کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے پیغمبروں کی بیویاں ہونے کے باوجود ضلالت و گمراہی کا راستہ انتخاب کیا، اللہ تعالیٰ نے یہاں جب کافر انسانوں کا تذکرہ کیا تو کافر عورتوں کی مثال پیش کی ہے اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کا تعلق انسان کے ارادہ سے ہے اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۶

(۸) نمونہ عمل

رَبَّنَا اِنّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ----(سوره مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو چھوڑ دیا ہے۔

پیغام:

حضرت ہاجرہـ حضرت ابراہیم ـ کے قدم بہ قدم صبر و استقامت اور اطاعت خداوندی کا پیکر اتم بنی ہوئی تھیں۔

حضرت ہاجرہـ کے صبر و استقامت نے اپنے شوہر اور بیٹے کے لیے بت شکنی اور کمال سعادت تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار کیا۔

حج کے بہت سے واجب اعمال حضرت ہاجرہـ کی فداکاری کی یاد میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ یعنی نمونہ عمل کے لیے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

(۹) صاحبان ایمان کے لیے مثال

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْراَت فِرْعَوْنَ---(سوره مبارکه تحریم، ١١)

ترجمہ:

اور خدا نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے۔۔۔

۱۳۷

پیغام:

اللہ تعالیٰ نے جب صاحبان ایمان کے لیے مثال پیش کرنا چاہی تو کسی نبی کا انتخاب نہ کیا بلکہ حضرت آسیہ علیہا السلام (زن فرعون) کو نمونہ کے طور پر پیش کیا۔

ظلم و ستم کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک نیک صفت ہے چاہے وہ صفت مرد میں پائی جاتی ہو یا عورت میں۔

(۱۰) خدا سے ہم کلام

وَ أَوْحَیْنَا اِلٰی اُمّ مُوْسٰی أَنْ أَرْ ضِعیه--- فَالقیه فِی الْیَمْ--- (سوره مبارکه قصص،٧)

ترجمہ:

اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤ۔۔۔ اور اسے دریا میں ڈال دو۔

پیغام:

فرشتہ صاحبان ایمان سے ہم کلام ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہوں یا عورت جناب موسیٰ جیسے اولی العزم نبی نیز تمام لائق اور شائستہ انسان اپنی والدہ کی تربیت کے مرہون منت ہیں۔

حضرت امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں ''قرآن بھی انسانوں کی تربیت کرتا ہے اور عورت بھی انسانوں کی تربیت کرتی ہے'' اور یہ چیز عورت کے بلند و بالا مقام و منزلت کے بیان کے لیے کافی ہے۔

۱۳۸

(۱۱) بہادر بہن

وَقَالَتْ لأُختِه قصّیهِ فَبَصُرَت بِه عَنْ جُنُب ---(سوره مبارکه قصص ،١١)

ترجمہ:

مادر موسیٰ نے ان کی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کاپیچھا کرو۔۔۔

پیغام:

جناب موسی ـ کی بہن نے بے خوف و خطر اپنے وظیفہ پر عمل کیا۔

تاریخ میں عورتیں ہمیشہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے خدا کے ارادہ کو عملی کردکھایا تاکہ جناب موسی ـزندہ رہیں اور فرعون صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

(۱۲) محنت کش بہنیں

وَ َجَد مِنْ دونِهِمْ امرآتین تذودان---(سورئه مبارکه قصص ، ٢٣)

۱۳۹

ترجمہ:

اور اُن سے الگ دو عورتوں کو اور دیکھا جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کام کاج کرتی ہیں جس طرح جناب شعیب ـ کی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔

عورتوں کے لیے کام کرنا کوئی عیب نہیں ہے البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی عفت و پاکیزگی پر کوئی آنچ نہ آئے جیسا کہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح کام کرے کہ حرام میںمبتلا نہ ہو۔

(۱۳) فساد پھیلانے والی

وَ رَاوَدَتْه' الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهٰا عَنْ نَفْسِهِ وَ غَلَّقَت، الأَبْوابَ---(سوره مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

اور اس نے ان سے اظہار محبت کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے۔

پیغام:

فاسد انسان دوسروں کے بھی فساد کا سبب بنتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ شیطان سب کو بھڑکاتا ہے مرد اور عورت دونوں ہی کو شیطان سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204