معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181424 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معارف قرآن

ترتیب و تنظیم

سید نسیم حیدر زیدی

۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

۲

آغازسخن

قرآن سراپا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی وہ ایسا حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی ایسا کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے (کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار ومددگار شکست نہیں کھاتے، وہ سراپا حق ہے۔

یہ کتاب ان آیات پر مشتمل ہے جو اس لاثانی اور بے مثل کتاب کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کتاب میں ہم نے نوجوانوں کے لیے بعض قرآنی معارف پر مختصر روشنی ڈال کر انہیں بارہ فصلوں میں بیان کیا ہے امید ہے یہ مختصر کوشش اہل ذوق کے لیے مفیدثابت ہوگی۔

سید نسیم حیدر زیدی

۳

پہلی فصل(قرآن)

۴

(ا) قرآن کا مثل نہیں لاسکتے

قُلْ لَئنْ اجتَمَعَتِ الْا نْسُ وَالجِنُّ عَلیٰ أَنْ یٰا تُوا بِمِثْلِ هٰذا القُرْآنِ لَا یٰاَتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَاْنَ بَعْضُهُم لِبَعْضٍ ظَهِیْراً -(اسراء ٨٨)

ترجمہ:

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

پیغام:

اگر تمام انس وجن ہم فکر ہوجائیں تو قرآن جیسی بامعانی کتاب نہیں لاسکتے اس لیے کہ قرآن خالق کے تمام کمالات کا سر چشمہ ہے، اور جن و انس اس کی مخلوق ہیں۔

خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ۔

(۲) دس سورے لے آؤ

أَمْ یَقُولُونَ افْتَرٰاهُ قُلْ فَاتُوا بِعَشَرِسُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیٰاتِ----(هود ١٣)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ۔

۵

پیغام:

اس آیت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی امانت داری کے ساتھ پیش آنا چاہیے، منکر ین کا کہنا تھا کہ قرآن بندہ کاگڑھاہوا ہے قرآن نے نہایت ہی امانتداری کے ساتھ ان کے کلام کو ویسے ہی نقل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو دس سورے تم بھی بنا لاؤ۔

(۳) ایک سورہ لے آؤ

وَ أن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمّا نَزّلْنٰا عَلیٰ عَبْدِنٰا فَاتوا بسورةٍ من مثله----(بقره ٢٣)

ترجمہ:

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کچھ شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ۔

پیغام:

منکرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی کہ قرآن پر اعتراض کریں لیکن آج تک کوئی ایک سورہ کا جواب بھی نہ لاسکا، اگر منکرین اپنے دعوسے میں سچے ہیں تو بے ہودہ اعتراضات کے بجائے ایک سورہ اس جیسا لے آئیں۔

۶

(۴) تد بّر کرو

أَفَلَا یتدبّرونَ القرآنَ وَلَوْ کان مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِیْه اختلافاً کثیراً(نساء ٨٢)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ قرآن میں غور فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔

پیغام:

انسانی زندگی میں پیش آنے والے خوشگوار اور ناخوشگوار حالات اس کے کلام، اس کی گفتگو پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن رسالتمآب (ص) کی زندگی کے نشیب و فراز قرآن کے انداز بیان اور لب و لہجہ پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

(۵) تلاوت سے پہلے

فَاذَا قَرأت القرآنَ فاستعذ باللّٰهِ من الشیطان الرَّجیم-(نساء ٨٢)

ترجمہ:

جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابلے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کریں۔

۷

پیغام:

قرآن کی تلاوت اور اُس پر عمل ہمیں کمال اور راہِ سعادت تک پہونچاتا ہے اور شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس راہ میں رکاوٹ ڈالے ، لہٰذا تلاوت سے پہلے شیطان کے مقابلے کیلئے خدا سے پناہ طلب کریں۔

(۶) غور سے سنو

وَاِذا قُرِیَٔ القرآنُ فَاسْتَمِعُوا لَه' وَانْصَتُوا لَعلّکُمْ تَرْحَمُون-(اعراف ٢٠٤)

ترجمہ:

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہوکر غور سے سُنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے۔

پیغام:

قرآن کی تلاوت کو غور سے سننا اُس پر عمل کیلئے مقدمہ ہے، اور خاموش رہنا اس کی آیات میں تدبر کی نشانی ہے، ممکن ہے کہ سننا اور غوروفکر کرنا خدا کی رحمت کا باعث بن جائے۔

۸

(۷) مجسمہ ہدایت

شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْهِ الْقرْآن هُدیً لِلنَّاسِ وَ بَیِّنٰاتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الْفُرْقان----(بقره ١٨٥)

ترجمہ:

ماہ رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔

پیغام:

قرآن سب کے لیے اور ہر زمانہ میں ہدایت ہے، قرآن حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔

(۸) نور کی طرف دعوت

هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلیٰ عَبْدِهِ اٰیٰاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمٰاتِ اِلی النُّور----(حدید ٩)

ترجمہ:

وہ ہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی نشانیاں نازل کرتاہے ، تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لے آئے۔

۹

پیغام:

قرآن ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لاتاہے۔

تاریکی ، جہل، کفر، ناامیدی ہر بری صفت کی علامت ہے جبکہ نور ، علم ایمان ، امید ہر اچھی صفت کی علامت ہے۔

(۹) قرآن کی عظمت

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوٰاقِع النُّجوُم - وَ اِنَّه' لَقَسَم لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیْم- اِنّه لَقُرآن کَرِیم - فِیْ کِتٰابٍ مَکْنُون-(واقعه ٧٥، ٧٨)

ترجمہ:

اور میں تو تاروں کی منازل کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، اور تم جانتے ہو کہ یہ قسم بہت بڑی قسم ہے، یہ قرآن ہے جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت ہی حیرت انگیز اور شگفت آور ہے اس لیے خداوند عالم نے ان کی قسم کھا کر قرآن کی عظمت کو بیان کیاہے۔

۱۰

(۱۰) قرآن کی تلاوت

فَاقْرَؤا مٰا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ-(مزمل ٢٠)

ترجمہ:

بس جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو۔

پیغام:

قرآن انسانوں کی زندگی کے لیے دستور العمل ہے لہٰذا زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور صبح و شام تلاوت کرکے ہمیں اس سے اُنس برقرار رکھنا چاہیے۔

(۱۱) پیغمبر اسلام کی فریاد

وَقَالَ الرَّسولُ یٰارَبّ اِنَّ قَوْمِیْ ا،تَّخَذُوا هٰذٰا الْقُرْآنَ مَهجُوراً -

ترجمہ:

اور اس دن رسول آواز دے گا کہ پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیاہے۔

۱۱

پیغام:

آئیے ہم سب مل کر اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پر عمل کریں، تاکہ رسالتمآب(ص) کی فریاد کے دائرہ سے باہر نکل جائیں۔

قرآن انسانوں کے لیے ضابطہ حیات ہے اور محض ایک تشریفاتی کتاب نہیں ہے۔

(۱۲) کمالِ رحمت

الرَّحْمٰن - عَلّم القُرآن - خَلَقَ الْاِنْسَانَ -(رحمن ٣-١)

ترجمہ:

وہ خدا بڑا مہربان ہے، اُس نے قرآن کی تعلیم دی ہے، انسان کو پیدا کیاہے۔

پیغام:

خدا کے کمالِ رحمت کا سب سے پہلا مظہر تعلیم قرآن ہے اس کے بعد خلقت انسان کا مرحلہ آتا ہے لہٰذا قرآن انسان پر برتری رکھتا ہے، انسان کی انسانیت قرآن کی تعلیمات سے وابستہ رہنے ہی سے باقی رہتی ہے وگرنہ وہ حیوانات سے بھی بدتر ہوجائے۔

۱۲

(۱۳) پہاڑ کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا

لَوْ أَنْزَلْنٰا هٰذَا الْقُرآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَأَیْتَه' خَاشِعًا مُتَصَدّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللّٰه----(حشر ٢١)

ترجمہ:

ہم اگر اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ پہاڑ خوف سے لرزاں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا جارہاہے۔۔۔

پیغام:

ظالموں کے دل تو پہاڑ اور پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں کہ باران رحمت ( آیات قرآن) کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

(۱۴) قرآن کی دلوں پر تأثیر

اللّٰه نَزَّلَ أَحْسَنَ الحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِهًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُهُمْ و قُلُوبُهُمْ اِلی ذِکْرِ اللّٰه ----(زمر ٢٣)

ترجمہ:

اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیںاور باربار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔

۱۳

پیغام:

کلام بشر قرآن کی حد تک انسانوں کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم کی دلوں پر اس طرح تاثیر اسکے نازل کرنے والے کی عظمت و جلالت کا پتہ دیتی ہے، اس لیے کہ ہر شخص کا کلام اس کے مقام و منزلت کی نشاندہی کرتاہے۔

(۱۵) کفار کی بہانہ جوئی

وَقَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذا الْقُرآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیتینِ عَظِیْم o (زخرف ٣١)

ترجمہ:

اور یہ کہنے لگے کہ آخر یہ قرآن دونوں بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیاہے۔

پیغام:

کفار اپنے بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کیلئے مختلف باتیں بناتے رہتے تھے کبھی کہتے تھے کہ قرآن صاحبان مال ودولت پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے ہم پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے کہ آخر دفعی نازل کیوں نہ ہوا؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کی برتری اور فضیلت کا معیار مال و دولت ہے۔

۱۴

(۱۶) حفاظت الٰھی

اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَوَ انّا لَه' لَحٰافِظُون- (حجر ٩)

ترجمہ:

ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

پیغام:

اس آیت میں پانچ مرتبہ اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ قرآن ربّ العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اسے باطل کی آمیزش اور ہر طرح کی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے والا وہی ہے۔

قرآن ذکر ہے یعنی خدا، انبیائ، قیامت اور ہر اُس نعمت کی یاد جو انسان کی ضرورت ہے۔

(۱۷) بابرکت کتاب

وَ هٰذٰا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاه مُبٰارک----(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتا ب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے۔

۱۵

پیغام:

قرآن جامع ترین کتاب ہے جو عالم بشریت کے لیے ہدایت، عبرت ، رشد و ترقی، شفا اور باعث عزت ہے۔

(۱۸) حجاب

وَ اذَا قَرَاتَ القرآنَ جَعَلْنٰا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجٰابًا مَسْتُورًا

(اسراء ٤٥)

ترجمہ:

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں۔

پیغام:

قیامت پر یقین نہ رکھنا انسان کے دل کو سیاہ کردیتا ہے، آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو دنیا میں غرق ہو کر روز آخرت اور خدا کو بُھلا چکے ہیں۔

۱۶

(۱۹)رحمت اور بشارت

وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰابَ تِبْیٰانًا لِکُلِّ شَیٍٔ وَ هُدیً وَّ رحمةً وَ بُشْریٰ لِلْمُسْلِمِینَ-(نحل ٨٩)

ترجمہ:

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے۔

پیغام:

قرآن مجید میں تمام ابوابِ خیر وشر کا ذکر موجود ہے جو اس کی تعلیمات پر عمل کرے، یہ اس کے لئے ہدایت اور بشارت ہے اور جو اس پر عمل نہ کرے وہ ان تمام چیزوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲۰) صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت

ذَلِکَ الْکِتٰابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِلّمُتَّقِیْنَ-(بقره ٢)

ترجمہ:

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لیے مجسمہ ہدایت ہے۔

۱۷

پیغام:

شک وشبہ میں مبتلا کرنا شیطان کا کام ہے ، اور خدا کے کلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، قرآن سب لوگوں کی ہدایت کرتاہے ''ھدیً للنّاس''بس فرق اتنا ہے کہ پرہیز گار لوگ صحیح انتخاب کے ذریعہ اس ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ کفار اور منافقین اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ اُس سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(۲۱) تصدیق کرنے والی

وَهٰذا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاهُ مُبٰارک مُصَدِّقُ الّذی بَیْنَ یَدَیْه(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔

پیغام:

قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جو انسان کیلئے ہدایت، عبرت، شفا اور باعث عزت ہے، جو تمام آسمانی کتابوں سے متفق اور ان کی تصدیق کرنے والی ہے، اور یہ چیز ان کے الٰہی اور ایک ہدف ہونے پر دلیل ہے۔

۱۸

دوسری فصل(اہل بیت(علیھم السلام)

۱۹

(۱) ریسمان الٰہی

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا-(آل عمران ١٠٣)

ترجمہ:

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔

تشریح:

حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ قرآن اللہ کی رسی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ہم اہل بیت اللہ کی رسی ہیں در حقیت قرآن اور اہل بیت (ع) جمال اور حسن الٰہی کے دو جلوے ہیں ایک کتاب کی صورت میں ہے اور دوسرا عمل کی صورت میں ۔

ہمیں قرآن اور اہل بیت سے زندگی گزارنے کے اصول سیکھنے چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوسکیں۔

(۲) کمال د ین اور اتمام نعمت

ألْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُم نِعْمَتِی-(مائده ٣)

ترجمہ:

آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔

۲۰

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204