معارف قرآن

معارف قرآن0%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید حمید علم الھدی
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: صفحے: 204
مشاہدے: 156510
ڈاؤنلوڈ: 2464

تبصرے:

معارف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 156510 / ڈاؤنلوڈ: 2464
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

گیارہویں فصل(نوجوان وجوان)

۱۶۱

(1) طلاطلم موجوں میں

أَنِ اقذِ فیه فی التَّابُوت فاقذِ فِیه فِی الْیَم --- (سورئه مبارکه طه ، ٢٤)

ترجمہ:

بچے کو صندوق میں رکھ دو اور پھر صندوق کو دریا کے حوالے کردو۔

پیغام:

ظالم اور ستمگر بچوں پر رحم نہیں کرتے اور انہیں بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اگر خدا کی مدد ساتھ ہو تو جناب موسیٰ ـ بچپنے میں ہی طلاطم موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔

(2) لق و دق صحرا میں

رَبَّنَا اِنّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ بِوادٍ غَیْرِ ذی زرعٍ-(سورئه مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۶۲

پیغام:

جناب ابراہیم ـنے اپنی زوجہ جناب ہاجرہ اور اپنے بیٹے جناب اسماعیل ـ کو مکہ کے تپتے صحراء میں چھوڑدیا خداوند متعال نے ان کی کیا خوب میزبانی کی کہ جناب اسماعیل ـ کے قدم مبارک سے چشمہ جاری ہوگیا جو آج بھی عاشقوں کے لیے قبلہ گاہ ہے۔

(3) عہدہ نبوّت پر

قَالَ اِنّی عَبْدُ اللّٰه اتٰانِی الکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نبیاً-(سورئه مبارکه مریم، ٣٠)

ترجمہ:

بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

پیغام:

اگر خدا چاہے تو بچہ گہواہ میں گفتگو کرسکتا ہے۔

نبوت میں سن وسال کی کوئی قید نہیں اسی طرح دوسری ذمہ داریوں میںبھی جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے 18 سالہ نوجوان کو لشکر اسلام کا سپاہ سالار بنایا تھا۔

۱۶۳

(4) سختیوں میں

--- قَالَ یٰا بُشْریٰ هٰذٰا غَلَام ----(سورئه مبارکه یوسف، ١٩)

ترجمہ:

(اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو) آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے۔۔۔

پیغام:

جو نوجوان اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں سختیاں برداشت کرتا ہے اس کا مستقبل روشن ہوتا ہے جس طرح جناب یوسف ـنے سختیاں برداشت کی، پہلے کنویں میں ڈال دیئے گئے ، پھر غلام بناکر بھیج دیئے گئے مگر ہرگز خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے۔

(5) آگ میں

قَالُوا حَرَّقُوهُ وَانْصَروا---قُلْنٰا یٰا نٰارُکُونِیْ بَرْداً و سَلَامًا عَلٰی اِبْراهِیْمَ -(سورئه مبارکه انبیاء ، ٦٨، ٦٩)

ترجمہ:

ان لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں جلادو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔

تو ہم نے حکم دیا کے اے آگ ابراہیم کے لیے سرد ہوجا اور سلامتی کا سامان بن جا۔

۱۶۴

پیغام:

نوجوانوں کی ایک خاصیت حق پرستی اور خرافات سے مقابلہ کرنا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم جوانی میں بت پرستی کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔

نوجوان پاک و پاکیزہ دل رکھنے اور دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے دوسروں کی نسبت جلد ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہوکر اس راہ میں سختیاں برداشت کرتے ہیں ایسے میں خدا کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔

(6) مورد لطف و کرم پروردگار

اِنَّهُمْ فِتْیَةً اٰمِنُوا بِرَبِّهِمْ و ذِدْنٰاهُمْ هُدیٰ-(سورئه مبارکه کهف، ١٣)

ترجمہ:

یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاصیت، ظلم کا خاتمہ اور عدالت کا قیام ہے۔ ان کا خدا پر ایمان انہیں ظلم و ستم کے خلاف جہاد میں تقویت دیتا ہے۔

کیا ہم اصھاب کہف کی طرح باایمان اور پاک و پاکیزہ صفات کے مالک بن سکتے ہیں تاکہ مورد لطف و کرم پروردگار قرار پائیں۔

۱۶۵

(7) مہربان

وَ اِنَّ کُنَّا لَخٰاطِئِیْنَ- قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الیَوْم---(سورئه مبارکه یوسف، ٩١، ٩٢)

ترجمہ:

اور ہم سب خطا کار تھے ۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ کے بھائی اُن سے نیکی اور اچھائی کا درس بھی لے سکتے تھے مگر ان کی جسارت نے انہیں جناب یوسف ـ کے قتل پر آمادہ کردیا اسی غرض سے انہوں نے جناب یوسف ـ کو کنویں میں ڈال دیا۔

اور آخر کار جب جناب یوسفـ بادشاہ مصر بنے تو ان کے بھائی ان کے سامنے فریاد کرنے لگے۔ اور اپنے کیے کہ معافی مانگنے لگے یہ جناب یوسفـ کی فراخدلی تھی کہ آپ نے اُن سب کو معاف کردیا۔

(8) صاحب کردار

قَالَ رَبّ السّجْنُ اَحَبُّ الیّ مِمَّا تدعونَنی-(سورئه مبارکه یوسف، ٣٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔

۱۶۶

پیغام:

اگر ایک صاحب کردار نوجوان کے سامنے دو راہیں ہوں تو وہ کون سی راہ کا انتخاب کرے گا۔یقینا وہ صحیح اور درست راہ کا انتخاب کرے گا۔

(9) نافرمان

قَالَ سأوی اِلٰی جَبَلٍ یَعْمِمُنِیْ مِنَ المٰائ----(سورئه مبارکه هود، ٤٣)

ترجمہ:

اُس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔

پیغام:

اگر کوئی جوان راہ انحراف اختیار کرتا ہے تو گویا اُس نے انبیاء کی نافرمانی کی ہے چاہے وہ جوان نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

جوان پاک و پاکیزہ دل کا مالک ہوتا ہے۔ لہٰذا شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ناتجربہ کار جوان کو راہ صحیح سے منحرف کردے۔

۱۶۷

(10) بت شکن

فَجَعَلهُمْ جُذاذًا اِلّا کبیراً لَهُمْ-(سورئه مبارکه انبیائ، ٥٨)

ترجمہ:

پھر ابراہیم نے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو چور چور کردیا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاص بات ان کا حق پرست ہوتاہے جیسا کہ جناب ابراہیم ـنے اپنی جوانی میں بت پرستی سے مقابلہ کرکے حق پرستی کا بول بالا کردیا۔

(11) امین اور دیانت دار

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خزٰائن الارض--- اِنّی حَفِیْظ عَلِیْم-(سورئه مبارکه یوسف ، ٥٥)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب علم بھی۔

۱۶۸

پیغام:

امانت داری اور ذمہ داری کو صحیح ادا کرنا مدیریت کی دو شرطیں ہیں۔ ایک جوان اپنے دل کی پاکیزگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امانت دار اوراپنے ذہن کی ترو تازگی اور شادابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہترین طالب علم بن سکتا ہے۔

(12) صابر

یٰا اَبَتِ اِفْعَلْ مٰا تُومَر سَتَجِدُنِی اِنْشَا اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ-(سورئه مبارکه صافات، ١٠٢)

ترجمہ:

بابا آپ کو جو حکم دیا جارہاہے اس پر عمل کریں ، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پیغام:

جناب اسماعیل ـنے جناب ابراہیم ـکے کہنے کے مطابق یہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہ ہوں۔ تیار ہوگئے اس لیے کہ یہ جانتے تھے جو کچھ پروردگار کی طرف سے ہے حق ہے۔

۱۶۹

(13) حق پرست

وَقَالَ مُوْسیٰ یٰا فِرعَوْنَ اِنّی رَسُول مِن رَبِّ العٰالَمِیْنَ- فَأَرسِلَ مَعِی بنی اسرائیل- (سورئه مبارکه اعراف، ١٠٤، ١٠٥)

ترجمہ:

اور موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میں رب العالمین کی طرف سے فرستادہ ہوں ۔۔۔ لہٰذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو۔

پیغام:

نوجوان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتا اور اس کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے۔ انبیاء کرام کے اہم فرائض میں سے ایک ظلم کے خلاف قیام کرنا تھا جیسا کہ جناب ابراہیم ـ نے نمرور کے خلاف، جناب موسیٰ ـنے فرعون کے خلاف اور جناب داؤد ـ نے جالوت کے خلاف قیام کیا۔

(14) پاک و پاکیزہ

وَ مریم ابنَتَ عِمْرٰان الَّتی أَحْصَنَتْ فَرْجها فَنَفَحْنٰا فِیْهِ مِنْ روحِنٰا ---(سورئه مبارکه تحریم، ١٢)

ترجمہ:

اور مریم بنت عمران کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔۔۔

۱۷۰

پیغام:

اگر کوئی مرد یا عورت پاک وپاکیزہ کردار کا مالک ہو تو خدا کی رحمت ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہے۔

(15) مطیع و فرمانبردار

قَالَ معاذ اللّٰه انّه ربّی أحسَنَ مثوٰی ---(سورئه مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ نے خدا کی اطاعت کی لذت کو فعل حرام کی لذت پر ترجیح دی اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اس لیے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمام نوجوانوں کو برائی میں مبتلا کردے لیکن صاحب کردار جوان پاک و پاکیزگی کی دائمی لذت کو گناہ کی چند لحظے کی لذت پر ترجیح دیتا ہے۔

(16) طالب علم

قال له موسیٰ هل اتبعک عَلیٰ أن تُعَلِّمَنِ مَمَّا عُلّمْتَ رُشْدا- (سورئه مبارکه کهف، ٦٦)

۱۷۱

ترجمہ:

موسیٰ نے اس بندے سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ تعلیم کریں جو رہنمائی کا علم آپ کو عطا ہوا ہے۔

پیغام:

ہمیں کمال تک پہنچنے کے لیے چاہیے کہ مسلسل تحصیل علم کریں۔

معارف الٰہیہ کے حصول کے لیے اپنے اساتذہ کے سامنے متواضع رہنا چاہیے اور اُن سے سیکھیں۔ وہ علم اہمیت کا حامل ہے جو رشد معنوی کے لیے پیش خیمہ ہو۔

(17) صاحب امتیاز

قَالَ اِنَّ اللّٰه اصطفاه عَلَیکُمْ و زادَه بسطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ---(سورئه مبارکه بقره، ٢٤٧)

ترجمہ:

نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

ایک جوان کو چاہیئے کہ ورزش کے ذریعہ اپنے آپ کو جسمانی لحاظ سے تندرست و توانا رکھے اور تحصیل علم کے ذریعہ آئندہ پیش آنے والی ذمہ داریوں کے لیے تیار رہے۔

۱۷۲

(18) مبلغ الٰہِی

اِنّی وَجَهَّتُ وَجْهِنی لَلّذِی فَطَر السَّمَاواتِ وَالأرضَ---(سورئه مبارکه انعام، ٧٩)

ترجمہ:

میرا رخ تمام تر اُس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

پیغام:

جناب ابراہیم ـ نے سورج ، چاند اورستارہ کو دیکھا اور جب وہ غروب ہوگئے تو فرمایا کہ جو غروب ہوجائے وہ میرا خدا نہیں ہوسکتا ہے۔

اس واقعہ سے یہ درس ملتا ہے کہ جو چیز بھی فنا ہونے والی ہو اُس سے دل نہیں لگانا چاہئیے۔

(19) نیک اور محنت کش

قال اِنّی اُرِیْدُ أنْ اُنْکِحَکَ اِحْدی ابنَتَیّ---(سورئه مبارکه قصص، ٢٧)

ترجمہ:

انہوں نے کہا کہ میں ان دونوں میں سے ایک بیٹی کا عقد آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔

۱۷۳

پیغام:

جب جناب شعیب ـ نے یہ دیکھا کہ موسی ـ ایک نیک اور محنت کش جوان ہے تو اُن سے اپنی بیٹی کے عقد کے لیے کہا۔ جناب موسی ـ نے ان کی اس فرمائش کو قبول کرتے ہوئے اپنی روزی اور شادی کا مسئلہ حل کرلیا۔

(20) ہدایت یافتہ اور گمراہ

فَتَقَبَّل مِنْ أَحْدِهِمٰا وَلَمْ یُتَقَبَّل مِنَ الاٰخر---(سورئه مبارکه مائده، ٢٧)

ترجمہ:

(جب حضرت آدم کے دونوں فرزندوں نے قربانی دی) ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔

پیغام:

جوانی ارادوں اور فیصلوں کا دور ہوتا ہے جو شخص اپنی جوانی میں انحراف کا شکار ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے جیسا کہ قابیل نے حسد کیا اور اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے تاریخ بشر کا سب سے پہلا قتل کیا ہے۔

(21) فریب کار

وَجاؤا عَلٰی قمیصِهِ بدمٍ کِذْبٍ قَالَ سوّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسَکُم أمْرٰا-(سورئه مبارکه یوسف، ١٨)

۱۷۴

ترجمہ:

اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے۔

پیغام:

جھوٹ اور فریب کاری کا جلد ہی پتہ چل جاتا ہے۔

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہے در حقیقت وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔

۱۷۵

بارہویں فصل (ہمیں ایسا ہونا چاہیے)

۱۷۶

(1)خدا اور رسول کی آواز پر لبیک

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِسْتَجِیْبُوْ اللّٰه وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعٰاکُمْ لِمٰا یُحْیَیکُمْ--- (انفال ٢٤)

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں اس أمر کی طرف دعوت دیں جس میں تمھاری زندگی ہے۔

پیغام:

حقیقی ایمان کی پہچان خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ خدا اور رسول ہمیں صحیح زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

(2) شکرگزار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبٰاتِ مٰا رَزَقْنٰا کُم وَشْکُرُوا لِلّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعبُدُونَ-(بقره ١٧٢)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۷۷

پیغام:

صاحبان ایمان مادّی نعمتوں سے معنوی پیشرفت کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ تمام نعمتیں خداوند متعال کی طرف سے ہیں وہ کبھی بھی غرور و تکبر کا شکار نہیں ہوتا بلکہ شکر گذاروں میں سے ہوجاتاہے۔

نعمت کا شکر یہ ہے کہ مُنعِم کی راہ میں خرچ کی جائیں۔

حلال چیزیں پاک اور حرام چیزیں ناپاک ہیں۔

(3) شیطان کی اتباع سے پرہیز

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا أدْخُلُوا فِی السِّلْم کَافَّةَ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّیطَانِ اِنَّه' لَکُمْ عَدو مُبِیْنِ- (بقره ٢٠٨)

ترجمہ:

ایمان والو۔ تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

پیغام:

صلح وآشتی کے ساتھ زندگی گذارنا ایمان کی علامت ہے ، لڑائی جھگڑا، تفرقہ اور جدائی یہ سب شیطانی کام ہیں جبکہ پیار ومحبت اور وحدت و اتحاد الٰہی عمل ہیں۔

رسالتمآب (ص)سے منقول ہے کہ مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہیں۔ (میزان الحکمہ ج1، ص 391)

۱۷۸

(4)کافروں کی اطاعت سے دوری

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدّوکُمْ علٰی أَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلبوا خاسرین-(آل عمران ١٤٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو اگر تم کافروں کی اطاعت کروگے تو یہ تمھیں الٹے پاؤں پلٹا لے جائیں گے، اور پھر تم ہی اُلٹے خسارہ والوں میں ہوجاؤ گے۔

پیغام:

کفر و گمراہی کا خدشہ ہمیشہ موجود ہے، صاحبان ایمان کو شیطانی وسواس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

(5)دشمن شناس

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُوْنِکُمْ لَا یٰالُونَکُم خَبَالاً قَدْ بَدَتِ البغضائُ مِنْ أَفْوٰاهِهِمْ وَمَا تُخْفٰیٰ فِیْ صُدُوْرِهم أَکْبَر- (آل عمران ١١٨)

ترجمہ:

اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کرینگے یہ صرف تمھاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں۔ ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔

۱۷۹

پیغام:

دشمن کو ہماری خوشحالی برداشت نہیں ہے وہ ہمیشہ ہماری مشقت اور مصیبت کا خواہشمند ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے راز دوسروں سے بیان نہ کریں۔

فتنہ و فساد، بربادی، زبردستی یہ سب دشمن کے حربے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایمان ، عقلمندی اور دشمن شناسی کی ضرورت ہے۔

(6) اہل کتاب کی اطاعت سے اجتناب

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الکِتَابَ یَرُدَّوکُمْ بعَدَ اِیْمٰانِکُمْ کَافِرِیْن- (آل عمران ١٠٠)

ترجمہ:

ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کرلی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں گے۔

پیغام:

غیروں کی اطاعت اور پیروی کا نتیجہ آخرت کی بربادی ہے۔ اور کافروں کی اطاعت، کفر کا پیش خیمہ ہے، لہٰذا ہر ممکن اُن سے دور رہنا چاہیے۔

جب یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور پھوٹ ڈالنا شروع کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور صاحبان ایمان کو گمراہ ہونے سے منع کیا کہ یہودی ہر دور میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن تمھارا فرض ہے کہ ہوشیار رہو اور گمراہ نہ ہو۔

۱۸۰