معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181700 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کر رہا ہے اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں_

اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسی دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کی دنیا واقعی اور حقیقی دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھی حقیقی ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

۱)___ آیا ہماری محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنی کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟

۲)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟

۳)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

۴)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعی ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسی زندگی گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟

۵)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟

۶)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟

۷)___ کفر ا ور برائی کسکی ظاہر ہوگی؟

۸)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟

۹)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟

۱۰)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسی دنیاوی زبان اور کان سے ہوگا؟

۶۱

چوتھا سبق

مردے کیسے زندہ ہونگے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست قبول کرلی اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھی طرح کوٹ دو پھر انکو

۶۲

قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیری طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالی عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہماری طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کی طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کی گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسی طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھی زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھا_

آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_

۶۳

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی سے کونسی درخواست کی تھی

۲)___ اس درخواست کی غرض کیاتھی؟

۳)___ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم (ع) کی درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟

۴)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالی کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟

۵)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟

۶)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کی قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دی تھی؟

۷)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

۶۴

پانچواں سبق

کس طرح

آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادی بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کی جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کی روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھی طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کی روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گی جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھی اسی طرح ہماری روح پر اثرانداز

۶۵

ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہماری زندگی کے کام

جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہماری روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانی کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالی سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانی اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھی انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کی روح کی پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کی یاد سے غافل ہوا کرتی ہے وہ برے کاموں کی عادی ہونے کی وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتی ہے اور انسان کو ترقی سے روک دیتی ہے ہماری خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقی رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کی عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی

۶۶

ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہماری زندگی کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_

خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھی کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالی کی طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیری روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسری جگہ ارشاد الہی ہوتا ہے''

جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_

اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہماری زندگی کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟

۶۷

کیا ہماری عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کی اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہماری روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۲)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟

۳)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟

۴)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟

۵)___ بہشت کی نعمتیں کن چیزوں سے ملتی ہیں؟

۶)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟

۷)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟

۸)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟

۹)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

۱۰)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسی طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے

۶۸

حصّہ سوم

نبوّت

۶۹

پہلا سبق

صراط مستقیم

اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہیں تو کون سا راستہ اختیار کریں گے؟ دونوں جہانوں میں سعادت مند ہونے کے لئے کون سا منصوبہ آپ کے پاس موجود ہے؟ کیا آپ نے اس کے متعلق فکر کی ہے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامل اور اچھا انسان بن جائیں تو کیا آپ کے پاس ہے؟

کیا آپ دوسروں کو دیکھ رہے ہیں جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے آپ بھی اسی پر چلیں گے؟

جو پروگرام انہوں نے منتخب کیا ہے آپ بھی وہی انتخاب کریں گے؟

کیا راست کے انتخاب اورمقصود زندگی کے متعلق فکر نہیں کرتے کیا درست پروگرام کے انتخاب میںکبھی نہیں سوچتے؟

۷۰

شاید آپ کہیں کہ میں خود اچھا پروگرام بنا سکتا ہو کیا آپ اس جہان اور آخرت کی تمام ضروریات سے باخبر ہیں یا بے خبر؟ تو پھر کس طرح اچھا اور مکمل آپ خود بناسکتے ہیں؟

آپ شاید یہ کہیں کہ اہل عقل اور دانشور اور علماء میرے لئے زندگی کا پروگرام مہيّا کرسکتے ہیں لیکن کیا یہ حضرات آپ کی دنیا اور آخرت کی احتیاجات سے مطلع ہیں کیا یہ لوگ آخرت سے باخبر ہیں؟

پس کون ذات انسان کے کامل اور سعادت مند ہونے کاپروگرام بناسکتی ہے؟

انسان؟ یا انسان کا خالق؟ البتہ انسان کا خالق کیوں کہ اس نے انسان کوپیدا کیاہے وہ خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے صرف وہی انسان کی دنیا اور آخرت میں زندگی کے شرائط سے باخبر ہے اسی لئے صرف وہی انسان کی زندگی کے باکمال اور سعادتمند ہونے کا پروگرام منظّم کرنے کا اہل ہے پس سعادت اور کمال کا بہترین پروگرام وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے منظم کیا ہو اور اسے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسان تک پہنچاتا ہو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟ کہ زندگی کے لئے کونسا راستہ انتخاب کریں گے؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا آپ خود دنیا اور آخرت کے لئے پروگرام بناسکتے ہیں

۷۱

اور کیوں وضاحت کیجئے؟

۲)___ کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ پس ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں؟

۴)___ خداوند عالم نے انسان کی سعادت کا پروگرام کس کے ذریعہ بھیجا ہے؟

۵)___ اگر چاہیں کہ دنیا اور آخرت میںکامیاب اور سعادتمند ہوں تو کس پروگرام کا انتخاب کریں اور کیوں؟

۷۲

دوسرا سبق

کمال انسان

جب گیہوں کے دانے کو زمین میں ڈالیں اور اسے پانی دیں تو اس میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ کیا کوئی خاص ہدف اور غرض اس کے سامنے ہے اور کس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے گیہوں کا دانا ابتداء ہی سے ایک معین ہدف کی طرف حرکت شروع کردیتا ہے اس مقصد اور غرض تک پہنچنے کے لئے بڑھتا ہے یعنی ابتداء میں گیہوں کا دانہ زمین میں جڑیں پھیلاتا ہے پھرتنا، اور پھر سبز ہوجاتا ہے او ربتدریج بڑا ہونے لگتا ہے اور خوش نکالتا ہے گیہوں کا ایک دانہ کئی خوشے بناتا ہے اور پھر یہی خوشے انبار بن جاتے ہیں اور اس انبار سے ہزاروں انسان استفادہ کرتے ہیں تمام نباتات گیہوں کے دانے کی طرح کمال کا راستہ طے کرتے ہیں اور معین اور معلوم غرض و غائت

۷۳

جو ہر ایک کے لئے معین ہوئی ہے کی طرف حرکت کرتے ہیں آپ اگر سیب کا دانہ کاشت کریں اور اسے پانی دیں اس کی ابتداء ہی سے آپکو معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹا دانہ ایک معین غرض و ہدف رکھتا ہے اور اسی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے اور اپنے کمال کو پہنچتا ہے یعنی چھوٹا دانہ جڑیں پھیلاتا ہے تنا اور شاخ نباتا ہے سبز ہوتا ہے اور بڑا ہوتا جاتا ہے ہر دن پہلے دن سے زیادہ کمال کی طرف ہوتا ہے بالآخر اس میں شگوفہ پھوٹتا ہے اور یہ خوبصورت شگوفہ سیب بن جاتا ہے اسی ترتیب سے وہ چھوٹا دانہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور اپنی حرکت اور کوشش کے نتیجے کو انسان کے اختیار میں دے دیتا ہے اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اور جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور تکامل کا راستہ بھی انھیں ودیت کردیا ہے اور اس کے پہنچنے تک وسائل اور اسباب بھی ان کے لئے فراہم کردیئے ہیں مثلاً دوسرے پودے گیہوں اور سیب کے دانے کی طرح اپنے کمال کے لئے پانی، مٹی، ہوا، اور روشنی کے محتاج ہیں اللہ تعالی نے پانی، مٹی، روشنی اور ہوا، ان کے لئے پیدا کردی ہے تا کہ پودے ان سے استفادہ کریں اور مکمل ہوکر مقصد کو پالیں_

انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کوحاصل کرنا چاہیے کس طرح اور کس کے ماتحت؟

کون جانتا ہے کہ انسان کا جسم اور روح کن چیزوں کے محتاج ہیں اور کس طرح کمال حاصل کریں گی، البتہ صرف خدا جانتا ہے کیوں کہ تنہا وہی ذات ہے جو انسان کی خلقت کے اسرار سے آگاہ ہے اور وہی ذات

۷۴

ہے جو آخرت میں انسان کی ضرورت سے باخبر ہے اسی لئے خالق اور مالک نے تمام دنیا کی چیزوں کو اکمل بنایا ہے اور انسانیت کی معراج کے لئے پروگرام بنائے ہیں اور پیغمبروں کے وسیلے اور ذریعہ سے انسان تک پہنچائے ہیں_ آخری اور اہم ترین پروگرام آخری پیغمبر جو حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کے وسیلے سے تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے اس پروگرام کا نام تکامل دین اسلام ہے

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ تھوڑا سا گیہوں کسی برتن میں ڈالیں اور اسے پانی دیں دیکھیں گیہوں کا یہ دانہ کس طرح اپنے لئے راستہ معین کرلیتا ہے او رکس غرض کی طرف حرکت کرتا ہے؟

۲)___ سیب اور تمام پودے اور نباتات کے لئے غرض اور ہدف ہے، اس جملے کے کیا معنی ہیں؟

۳)___ نباتات کو کامل ہونے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

۴)___ انسان کی معراج کا پروگرام کون بنا سکتا ہے؟ اور کیوں

۵)___ خدا نے انسان کی معراج کا پروگرام کنکے وسیلے ان تک پہنچایا ہے

۶)___ آخری اور مکمل ترین پروگرام ہمارے لئے کون لایا ہے؟

۷)___ اس آخری پروگرام کا کیا نام ہے؟

۷۵

تیسرا سبق

راہنما کیسا ہونا چاہیئے

جو بچّہ اپنا گھر بھول گیا ہو اسے کسکے سپرد کریں گے کون اس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور اسے اس کے گھر پہنچا سکتا ہے؟ کیا وہ آدمی جو امین نہ ہو اس پر اعتماد کر کے بچّے کو اس کے سپرد کریں گے اور کیوں؟ اس کو جو اس کے گھر کو نہیں جانتا یا راستوں سے بھٹک جاتا ہے اسکی رہنمائی کے لئے انتخاب کریں گے؟ اور کیوں پس راہنما کو چاہئے کہ راستے کو ٹھیک جانتا ہو نیک اور امین ہو اور غلط راہنمائی نہ کرتا ہو پیغمبر وہ انسان ہوتا ہے جو امین اور نیک ہوتا ہے اللہ تعالی نے اسے لوگوں کی راہنمائی کے لئے چنا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی زندگی کا راستہ بتلایا ہے اور انسانوں کی رہبری اس کے سپرد کی ہے_

۷۶

چوتھا سبق

پیغمبر کو کیسا ہونا چاہیے

جب آپ کسی دوست کی طرف پیغام بھیجنا چاہتے ہوں تو یہ پیغام کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے سپرد کرتے ہیں جو آپ کے دوست تک پہنچا دے یا جھوٹے اور غلط آدمی کو پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرتے ہیں یا کمزور حافظی اور غلطی کرنے والے کو ان میں سے کس کو پیغام پہنچاتے کے لئے انتخاب کرتے ہیں؟

جی ہاں پیغام پہنچانے کے لئے سچّا اور صحیح آدمی ہونا چاہیئے تا کہ پیغام کو بھول نہ جائے اسکے سننے اور پہنچانے میں غلطی نہ کرے خدا بھی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے سچّے اور صحیح آدمی کو چنتا ہے اور اس کو پیغام دیتا ہے پیغمبر خدا کے پیغام کو صحیح حاصل کرتا ہے اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے _

۷۷

پانچواں سبق

اجتناب گناہ کا فلسفہ

میلے کچیلے کپڑوں کو ایک طشت میںدھویا ہو تو کون ہے جو اس میلے پانی کو پیئے گا؟ اگر وہی پانی کسی اندھے یا بے خبر انسان کو دیں تو ممکن ہے کہ وہ اسے پی لے_ لیکن آنکھوں والا اور انسان کیسے جو شخص اس کی گندگی اور خرابی کودیکھ رہا ہو اور اس کے باخبر اثرات کو جانتا ہو ایسے پانی کو دیکھ تو کیا اسے پیئے گا؟ جی ہاں ہر وہ شخص جو بینا اور آگاہ ہو وہ کوئی گندی اور خراب چیز سے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کرے گا بلکہ اس سے نفرت اور بیزاری کرے گا اسی طرح پیغمبر بھی گناہ سے نفرت کرتے تھے وہ گناہ کے بجالانے پر قدرت رکھتے تھے لیکن کبھی گناہ نہیں کیا کیونکہ وہ گناہ کی پلیدی اور برائی کو دیکھ رہے تھے یہ اطلاع اور آگاہی ان کو خداوند عالم نے عطا فرمائی تھی_

۷۸

چھٹا سبق

پیغمبر آگاہ اورمعصوم راہنما ہیں

خداوند عالم نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ایسے انسان کا انتخاب کیا جو امین ہیں انہیں دین کا کامل نمونہ قرار دیا ہے تا کہ ان کا کردار اور گفتار لوگوں کو خدا کی طرف راہنمائی کرے پیغمبر انسانوں میں بہترین اور کامل ترین فرد ہوتا ہے علم و اخلاق اور کردار میں تمام مردوں سے افضل ہوتا ہے خدا اس کی تربیت کرتا ہے اور پھر اس کا انتخاب کرتا ہے تا کہ لوگوں کا پیشوا اور نمونہ ہو_ پیغمبر دنیا اور آخرت کی سعادت کے راستے اچھی طرح جانتا ہے یعنی اللہ تعالی نے اسے جو بتلایا ہے پیغمبر خود ان راستوں پر چلتا ہے اور لوگوں کو ان راستوں پرچلنے کی راہنمائی اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے پیغمبر خدا کو اچھی طرح پہنچانتا ہے اور اسے بہت دوست رکھتا ہے، دنیا اور آخرت جہنم اور بہشت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے

۷۹

اچھے اور برے اخلاق کو اچھی طرح پہنچانتا ہے وہ گناہ کی پلیدی اور بدنمائی کو دیکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ گناہ انسان کی روح کو آلودہ اور کثیف کردیتا ہے_ اللہ تعالی جو عالم اور قادر ہے اس نے یہ علم پیغمبر کے اختیار میں دیا ہے پیغمبر اس آگاہی اور علم سے گناہ کی گندگی اور بدنمائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا گناہ گار انسان کو دوست نہیں رکھتا اور اس سے ناراض ہوتا ہے اسی لئے پیغمبر ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے نفرت کرتا ہے_

پیغمبر خدا کے پیغام کو بغیر کسی کمی و بیشی کے لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اس سے غلطی اور نسیان نہیں ہوتا_ اور چونکہ گناہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے کردار اور گفتار کو نمونہ قرار دیتے ہیں_ ایسے ہی انسان کو معصوم کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے تمام پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے اور ان سے غلطی اورنسیان نہیں ہوتا وہ نیک اور امین ہوتے ہیں_

پیغمبر لوگوں میں سے عالم اور معصوم ہوتے ہیں اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف اور دائمی سعادت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ راہنما کے لئے کون سی حفاظت صفات ہونی چاہئیں؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

گیارہویں فصل(نوجوان وجوان)

۱۶۱

(۱) طلاطلم موجوں میں

أَنِ اقذِ فیه فی التَّابُوت فاقذِ فِیه فِی الْیَم --- (سورئه مبارکه طه ، ٢٤)

ترجمہ:

بچے کو صندوق میں رکھ دو اور پھر صندوق کو دریا کے حوالے کردو۔

پیغام:

ظالم اور ستمگر بچوں پر رحم نہیں کرتے اور انہیں بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اگر خدا کی مدد ساتھ ہو تو جناب موسیٰ ـ بچپنے میں ہی طلاطم موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔

(۲) لق و دق صحرا میں

رَبَّنَا اِنّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ بِوادٍ غَیْرِ ذی زرعٍ-(سورئه مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۶۲

پیغام:

جناب ابراہیم ـنے اپنی زوجہ جناب ہاجرہ اور اپنے بیٹے جناب اسماعیل ـ کو مکہ کے تپتے صحراء میں چھوڑدیا خداوند متعال نے ان کی کیا خوب میزبانی کی کہ جناب اسماعیل ـ کے قدم مبارک سے چشمہ جاری ہوگیا جو آج بھی عاشقوں کے لیے قبلہ گاہ ہے۔

(۳) عہدہ نبوّت پر

قَالَ اِنّی عَبْدُ اللّٰه اتٰانِی الکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نبیاً-(سورئه مبارکه مریم، ٣٠)

ترجمہ:

بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

پیغام:

اگر خدا چاہے تو بچہ گہواہ میں گفتگو کرسکتا ہے۔

نبوت میں سن وسال کی کوئی قید نہیں اسی طرح دوسری ذمہ داریوں میںبھی جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ۱۸ سالہ نوجوان کو لشکر اسلام کا سپاہ سالار بنایا تھا۔

۱۶۳

(۴) سختیوں میں

--- قَالَ یٰا بُشْریٰ هٰذٰا غَلَام ----(سورئه مبارکه یوسف، ١٩)

ترجمہ:

(اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو) آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے۔۔۔

پیغام:

جو نوجوان اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں سختیاں برداشت کرتا ہے اس کا مستقبل روشن ہوتا ہے جس طرح جناب یوسف ـنے سختیاں برداشت کی، پہلے کنویں میں ڈال دیئے گئے ، پھر غلام بناکر بھیج دیئے گئے مگر ہرگز خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے۔

(۵) آگ میں

قَالُوا حَرَّقُوهُ وَانْصَروا---قُلْنٰا یٰا نٰارُکُونِیْ بَرْداً و سَلَامًا عَلٰی اِبْراهِیْمَ -(سورئه مبارکه انبیاء ، ٦٨، ٦٩)

ترجمہ:

ان لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں جلادو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔

تو ہم نے حکم دیا کے اے آگ ابراہیم کے لیے سرد ہوجا اور سلامتی کا سامان بن جا۔

۱۶۴

پیغام:

نوجوانوں کی ایک خاصیت حق پرستی اور خرافات سے مقابلہ کرنا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم جوانی میں بت پرستی کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔

نوجوان پاک و پاکیزہ دل رکھنے اور دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے دوسروں کی نسبت جلد ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہوکر اس راہ میں سختیاں برداشت کرتے ہیں ایسے میں خدا کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔

(۶) مورد لطف و کرم پروردگار

اِنَّهُمْ فِتْیَةً اٰمِنُوا بِرَبِّهِمْ و ذِدْنٰاهُمْ هُدیٰ-(سورئه مبارکه کهف، ١٣)

ترجمہ:

یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاصیت، ظلم کا خاتمہ اور عدالت کا قیام ہے۔ ان کا خدا پر ایمان انہیں ظلم و ستم کے خلاف جہاد میں تقویت دیتا ہے۔

کیا ہم اصھاب کہف کی طرح باایمان اور پاک و پاکیزہ صفات کے مالک بن سکتے ہیں تاکہ مورد لطف و کرم پروردگار قرار پائیں۔

۱۶۵

(۷) مہربان

وَ اِنَّ کُنَّا لَخٰاطِئِیْنَ- قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الیَوْم---(سورئه مبارکه یوسف، ٩١، ٩٢)

ترجمہ:

اور ہم سب خطا کار تھے ۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ کے بھائی اُن سے نیکی اور اچھائی کا درس بھی لے سکتے تھے مگر ان کی جسارت نے انہیں جناب یوسف ـ کے قتل پر آمادہ کردیا اسی غرض سے انہوں نے جناب یوسف ـ کو کنویں میں ڈال دیا۔

اور آخر کار جب جناب یوسفـ بادشاہ مصر بنے تو ان کے بھائی ان کے سامنے فریاد کرنے لگے۔ اور اپنے کیے کہ معافی مانگنے لگے یہ جناب یوسفـ کی فراخدلی تھی کہ آپ نے اُن سب کو معاف کردیا۔

(۸) صاحب کردار

قَالَ رَبّ السّجْنُ اَحَبُّ الیّ مِمَّا تدعونَنی-(سورئه مبارکه یوسف، ٣٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔

۱۶۶

پیغام:

اگر ایک صاحب کردار نوجوان کے سامنے دو راہیں ہوں تو وہ کون سی راہ کا انتخاب کرے گا۔یقینا وہ صحیح اور درست راہ کا انتخاب کرے گا۔

(۹) نافرمان

قَالَ سأوی اِلٰی جَبَلٍ یَعْمِمُنِیْ مِنَ المٰائ----(سورئه مبارکه هود، ٤٣)

ترجمہ:

اُس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔

پیغام:

اگر کوئی جوان راہ انحراف اختیار کرتا ہے تو گویا اُس نے انبیاء کی نافرمانی کی ہے چاہے وہ جوان نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

جوان پاک و پاکیزہ دل کا مالک ہوتا ہے۔ لہٰذا شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ناتجربہ کار جوان کو راہ صحیح سے منحرف کردے۔

۱۶۷

(۱۰) بت شکن

فَجَعَلهُمْ جُذاذًا اِلّا کبیراً لَهُمْ-(سورئه مبارکه انبیائ، ٥٨)

ترجمہ:

پھر ابراہیم نے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو چور چور کردیا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاص بات ان کا حق پرست ہوتاہے جیسا کہ جناب ابراہیم ـنے اپنی جوانی میں بت پرستی سے مقابلہ کرکے حق پرستی کا بول بالا کردیا۔

(۱۱) امین اور دیانت دار

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خزٰائن الارض--- اِنّی حَفِیْظ عَلِیْم-(سورئه مبارکه یوسف ، ٥٥)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب علم بھی۔

۱۶۸

پیغام:

امانت داری اور ذمہ داری کو صحیح ادا کرنا مدیریت کی دو شرطیں ہیں۔ ایک جوان اپنے دل کی پاکیزگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امانت دار اوراپنے ذہن کی ترو تازگی اور شادابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہترین طالب علم بن سکتا ہے۔

(۱۲) صابر

یٰا اَبَتِ اِفْعَلْ مٰا تُومَر سَتَجِدُنِی اِنْشَا اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ-(سورئه مبارکه صافات، ١٠٢)

ترجمہ:

بابا آپ کو جو حکم دیا جارہاہے اس پر عمل کریں ، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پیغام:

جناب اسماعیل ـنے جناب ابراہیم ـکے کہنے کے مطابق یہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہ ہوں۔ تیار ہوگئے اس لیے کہ یہ جانتے تھے جو کچھ پروردگار کی طرف سے ہے حق ہے۔

۱۶۹

(۱۳) حق پرست

وَقَالَ مُوْسیٰ یٰا فِرعَوْنَ اِنّی رَسُول مِن رَبِّ العٰالَمِیْنَ- فَأَرسِلَ مَعِی بنی اسرائیل- (سورئه مبارکه اعراف، ١٠٤، ١٠٥)

ترجمہ:

اور موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میں رب العالمین کی طرف سے فرستادہ ہوں ۔۔۔ لہٰذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو۔

پیغام:

نوجوان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتا اور اس کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے۔ انبیاء کرام کے اہم فرائض میں سے ایک ظلم کے خلاف قیام کرنا تھا جیسا کہ جناب ابراہیم ـ نے نمرور کے خلاف، جناب موسیٰ ـنے فرعون کے خلاف اور جناب داؤد ـ نے جالوت کے خلاف قیام کیا۔

(۱۴) پاک و پاکیزہ

وَ مریم ابنَتَ عِمْرٰان الَّتی أَحْصَنَتْ فَرْجها فَنَفَحْنٰا فِیْهِ مِنْ روحِنٰا ---(سورئه مبارکه تحریم، ١٢)

ترجمہ:

اور مریم بنت عمران کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔۔۔

۱۷۰

پیغام:

اگر کوئی مرد یا عورت پاک وپاکیزہ کردار کا مالک ہو تو خدا کی رحمت ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہے۔

(۱۵) مطیع و فرمانبردار

قَالَ معاذ اللّٰه انّه ربّی أحسَنَ مثوٰی ---(سورئه مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ نے خدا کی اطاعت کی لذت کو فعل حرام کی لذت پر ترجیح دی اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اس لیے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمام نوجوانوں کو برائی میں مبتلا کردے لیکن صاحب کردار جوان پاک و پاکیزگی کی دائمی لذت کو گناہ کی چند لحظے کی لذت پر ترجیح دیتا ہے۔

(۱۶) طالب علم

قال له موسیٰ هل اتبعک عَلیٰ أن تُعَلِّمَنِ مَمَّا عُلّمْتَ رُشْدا- (سورئه مبارکه کهف، ٦٦)

۱۷۱

ترجمہ:

موسیٰ نے اس بندے سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ تعلیم کریں جو رہنمائی کا علم آپ کو عطا ہوا ہے۔

پیغام:

ہمیں کمال تک پہنچنے کے لیے چاہیے کہ مسلسل تحصیل علم کریں۔

معارف الٰہیہ کے حصول کے لیے اپنے اساتذہ کے سامنے متواضع رہنا چاہیے اور اُن سے سیکھیں۔ وہ علم اہمیت کا حامل ہے جو رشد معنوی کے لیے پیش خیمہ ہو۔

(۱۷) صاحب امتیاز

قَالَ اِنَّ اللّٰه اصطفاه عَلَیکُمْ و زادَه بسطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ---(سورئه مبارکه بقره، ٢٤٧)

ترجمہ:

نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

ایک جوان کو چاہیئے کہ ورزش کے ذریعہ اپنے آپ کو جسمانی لحاظ سے تندرست و توانا رکھے اور تحصیل علم کے ذریعہ آئندہ پیش آنے والی ذمہ داریوں کے لیے تیار رہے۔

۱۷۲

(۱۸) مبلغ الٰہِی

اِنّی وَجَهَّتُ وَجْهِنی لَلّذِی فَطَر السَّمَاواتِ وَالأرضَ---(سورئه مبارکه انعام، ٧٩)

ترجمہ:

میرا رخ تمام تر اُس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

پیغام:

جناب ابراہیم ـ نے سورج ، چاند اورستارہ کو دیکھا اور جب وہ غروب ہوگئے تو فرمایا کہ جو غروب ہوجائے وہ میرا خدا نہیں ہوسکتا ہے۔

اس واقعہ سے یہ درس ملتا ہے کہ جو چیز بھی فنا ہونے والی ہو اُس سے دل نہیں لگانا چاہئیے۔

(۱۹) نیک اور محنت کش

قال اِنّی اُرِیْدُ أنْ اُنْکِحَکَ اِحْدی ابنَتَیّ---(سورئه مبارکه قصص، ٢٧)

ترجمہ:

انہوں نے کہا کہ میں ان دونوں میں سے ایک بیٹی کا عقد آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔

۱۷۳

پیغام:

جب جناب شعیب ـ نے یہ دیکھا کہ موسی ـ ایک نیک اور محنت کش جوان ہے تو اُن سے اپنی بیٹی کے عقد کے لیے کہا۔ جناب موسی ـ نے ان کی اس فرمائش کو قبول کرتے ہوئے اپنی روزی اور شادی کا مسئلہ حل کرلیا۔

(۲۰) ہدایت یافتہ اور گمراہ

فَتَقَبَّل مِنْ أَحْدِهِمٰا وَلَمْ یُتَقَبَّل مِنَ الاٰخر---(سورئه مبارکه مائده، ٢٧)

ترجمہ:

(جب حضرت آدم کے دونوں فرزندوں نے قربانی دی) ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔

پیغام:

جوانی ارادوں اور فیصلوں کا دور ہوتا ہے جو شخص اپنی جوانی میں انحراف کا شکار ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے جیسا کہ قابیل نے حسد کیا اور اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے تاریخ بشر کا سب سے پہلا قتل کیا ہے۔

(۲۱) فریب کار

وَجاؤا عَلٰی قمیصِهِ بدمٍ کِذْبٍ قَالَ سوّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسَکُم أمْرٰا-(سورئه مبارکه یوسف، ١٨)

۱۷۴

ترجمہ:

اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے۔

پیغام:

جھوٹ اور فریب کاری کا جلد ہی پتہ چل جاتا ہے۔

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہے در حقیقت وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔

۱۷۵

بارہویں فصل (ہمیں ایسا ہونا چاہیے)

۱۷۶

(۱)خدا اور رسول کی آواز پر لبیک

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِسْتَجِیْبُوْ اللّٰه وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعٰاکُمْ لِمٰا یُحْیَیکُمْ--- (انفال ٢٤)

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں اس أمر کی طرف دعوت دیں جس میں تمھاری زندگی ہے۔

پیغام:

حقیقی ایمان کی پہچان خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ خدا اور رسول ہمیں صحیح زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

(۲) شکرگزار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبٰاتِ مٰا رَزَقْنٰا کُم وَشْکُرُوا لِلّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعبُدُونَ-(بقره ١٧٢)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۷۷

پیغام:

صاحبان ایمان مادّی نعمتوں سے معنوی پیشرفت کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ تمام نعمتیں خداوند متعال کی طرف سے ہیں وہ کبھی بھی غرور و تکبر کا شکار نہیں ہوتا بلکہ شکر گذاروں میں سے ہوجاتاہے۔

نعمت کا شکر یہ ہے کہ مُنعِم کی راہ میں خرچ کی جائیں۔

حلال چیزیں پاک اور حرام چیزیں ناپاک ہیں۔

(۳) شیطان کی اتباع سے پرہیز

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا أدْخُلُوا فِی السِّلْم کَافَّةَ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّیطَانِ اِنَّه' لَکُمْ عَدو مُبِیْنِ- (بقره ٢٠٨)

ترجمہ:

ایمان والو۔ تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

پیغام:

صلح وآشتی کے ساتھ زندگی گذارنا ایمان کی علامت ہے ، لڑائی جھگڑا، تفرقہ اور جدائی یہ سب شیطانی کام ہیں جبکہ پیار ومحبت اور وحدت و اتحاد الٰہی عمل ہیں۔

رسالتمآب (ص)سے منقول ہے کہ مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہیں۔ (میزان الحکمہ ج۱، ص ۳۹۱)

۱۷۸

(۴)کافروں کی اطاعت سے دوری

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدّوکُمْ علٰی أَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلبوا خاسرین-(آل عمران ١٤٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو اگر تم کافروں کی اطاعت کروگے تو یہ تمھیں الٹے پاؤں پلٹا لے جائیں گے، اور پھر تم ہی اُلٹے خسارہ والوں میں ہوجاؤ گے۔

پیغام:

کفر و گمراہی کا خدشہ ہمیشہ موجود ہے، صاحبان ایمان کو شیطانی وسواس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

(۵)دشمن شناس

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُوْنِکُمْ لَا یٰالُونَکُم خَبَالاً قَدْ بَدَتِ البغضائُ مِنْ أَفْوٰاهِهِمْ وَمَا تُخْفٰیٰ فِیْ صُدُوْرِهم أَکْبَر- (آل عمران ١١٨)

ترجمہ:

اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کرینگے یہ صرف تمھاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں۔ ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔

۱۷۹

پیغام:

دشمن کو ہماری خوشحالی برداشت نہیں ہے وہ ہمیشہ ہماری مشقت اور مصیبت کا خواہشمند ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے راز دوسروں سے بیان نہ کریں۔

فتنہ و فساد، بربادی، زبردستی یہ سب دشمن کے حربے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایمان ، عقلمندی اور دشمن شناسی کی ضرورت ہے۔

(۶) اہل کتاب کی اطاعت سے اجتناب

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الکِتَابَ یَرُدَّوکُمْ بعَدَ اِیْمٰانِکُمْ کَافِرِیْن- (آل عمران ١٠٠)

ترجمہ:

ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کرلی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں گے۔

پیغام:

غیروں کی اطاعت اور پیروی کا نتیجہ آخرت کی بربادی ہے۔ اور کافروں کی اطاعت، کفر کا پیش خیمہ ہے، لہٰذا ہر ممکن اُن سے دور رہنا چاہیے۔

جب یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور پھوٹ ڈالنا شروع کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور صاحبان ایمان کو گمراہ ہونے سے منع کیا کہ یہودی ہر دور میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن تمھارا فرض ہے کہ ہوشیار رہو اور گمراہ نہ ہو۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204