معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181686 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

تشریح:

شیعہ اور سنی روایات کے مطابق یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی جہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت اور جانشینی کا اعلان کیا۔

اس دن کی چار خاص باتیں یہ ہیں۔

۱۔ کفار کی ناامیدی - ۲۔ کمال دین-۳۔ اتمام نعمت-۴۔ خدا کی خوشنودی

(۳) ولایت

اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَ رَسُولُه وَالَّذِیْنَ أَمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ-(مائده ٥٥)

ترجمہ:

تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

تشریح:

ایک دن ایک فقیر نے مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد لوگوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی کچھ مدد نہ کی ایسے میں حضرت علی (ع) نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اُسے بخش دی اس وقت یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان کرم کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابن عباس، عمار یاسراور ابوذر جیسے دس صحابہ کرام نے نقل کیا ہے ، اور یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ و سنی حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۱

(۴) تکمیل رسالت

یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لم تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه-(مائده ٦٧)

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادین جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویااس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔

تشریح:

تمام شیعہ اور بعض سنی مفسرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی جانشینی سے متعلق ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام(ص) نے ۱۸ ذی الحجہ سن دس ہجری کو حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر کیا۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں ، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث''مَنْ کُنْتُ مِوْلاه' فهذا عَلِی مَولَاه' '' کو نقل کیا ہے۔

۲۲

(۵) صادقین

فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰآء نَا وَ أَبْنٰآئَ کُمْْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآ ئَ کُم وَ أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُم-( آل عمران ٦١)

ترجمہ:

ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔

تشریح:

یہ آیت آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

مباہلہ کے معنی دو مخالف گروہ کا خدا کے سامنے گڑگڑا کر ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے نجران کے عیسائیوں نے اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو بھیجا جبکہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے لے گئے، عیسائیوں کا گروہ ان ذوات مقدسہ کو دیکھتے ہی مباہلہ سے دستبردار ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوگیا۔

آیت میں ''انفسنا'' کے مصداق مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں جو پیغمبر کی جان ہیں ۔مباہلہ کا واقعہ ۲۵ ذی الحجہ کو پیش آیا۔

۲۳

(۶) ایثار کا نمونہ

اِنَّمٰا نُطعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَلَا شُکُوْرًا-( دهر ٩)

ترجمہ:

ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا(س) نے حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی بیماری سے صحت یابی کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر کی ان کے صحت یاب ہونے کے بعد نذر پورا کرنے کیلئے تین دن روزے رکھے پہلے دن افطار کے وقت اپنا کھانا فقیر، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے کر خود پانی سے افطار کرلیا، خداوند عالم نے سورہ دہر کو ان کی شان میں نازل کیا ہے اور ۱۷ آیتوں میں ان کے بلند و بالا مقام کی مدح سرائی کی ہے۔

(۷) برائی سے دوری

أَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوآ اِیْمٰانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهتَدُونَ-( انعام ٨٢)

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

۲۴

تشریح:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی شرک نہیں برتا۔

(۸) خوشنودی خدا

وَمِنَ النّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ رَئُ وفم بِالْعِبٰادِ-( بقره ٢٠٧)

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح:

اہل سنت کے جید عالم دین ابن ابی الحدید (وفات سن ۷ ھ ق ) کا کہنا کہ مفسرین عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں شب ہجرت اس وقت نازل ہوئی جب عرب کے قبائل پیغمبر اسلام کو قتل کرنے کی سازش کیے ہوئے تھے ایسے میں حضرت علی(ع) آنحضرت کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ آپ(ص) آرام و اطمینان کے ساتھ مکہ سے نکل جائیں۔

۲۵

(۹) انفاق

أَلَّذِیْنَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرَّاً وعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ-(بقره ٢٧٤)

ترجمہ:

جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے، اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ آذردہ ہوں گے۔

تشریح:

تفسیر صافی ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے، جن میں سے ایک دن میں ، ایک رات میں ایک خاموشی سے اور ایک علی الاعلان خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔

۲۶

(۱۰) پیغمبر(ص) کے مددگار

هُوَ الّذِیْ أَیَّدَکَ یَنصُرِهِ وَ بِالْمُومِنِیْنَ-(انفال ٦٢)

ترجمہ:

اس (خدا) نے آپ(ص) کی تائید اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعے کی ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ عرش الٰہی پر یہ جملہ لکھاہے ''لا الہ اِلا اللّٰہ أنا وحدی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلیٍ '' میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی میرا کوئی شریک ہے اور محمد میرے بندے اور رسول ہیں، اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔

(۱۱) اطاعت

یَآیُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ-( نساء ٥٩)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں۔

۲۷

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور فرمایا: '' یاعلی أنت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ '' اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی، اس کے بعد سور نساء کی آیت نمبر ۵۹ نازل ہوئی۔

(۱۲) مودَّت اہل بیت

قُلْ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ -(شوریٰ ٢٣)

ترجمہ :

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اسکے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

تشریح:

سورہ سباء کی آیت نمبر ۴۷ کی روشنی میں (جس میں کہا گیا ہے کہ میں تم سے اجر رسالت چاہتا ہوں اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے) یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اہل بیت کی محبت و مودت رسالت محمد(ص) کا ایسا اجر ہے جس میں اُمت اسلامیہ ہی کا فائدہ ہے۔

شیعہ اور سنی کی اکثر روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

۲۸

(۱۳) بہترین خلائق

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰاتِ أُوْلٰئِکَ خَیْرُ البَرِیَّةِ (بیّنه ٧)

ترجمہ :

یشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خیر البریّہ ہیں، خدا بھی آپ لوگوں سے راضی ہے اور آپ لوگ بھی خدا سے راضی ہیں۔

(۱۴) محبوب خدا

یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مَنْ یَّرتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَه-(مائده ٥٤)

ترجمہ :

اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اُس سے محبت کرنے والی ہوگی۔

۲۹

تشریح:

اسعد بن وقاص سے روایت ہے ، پیغمبر نے جنگ خیبر میں فرمایا: میں علم اُسے دوں گا جو خدا اور رسول کا دوستدار ہوگا اور خدا اس کے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ کہ کر آپ جناب علی مرتضیٰ کی طرف بڑھے اور علم ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

(۱۵) علم و حکمت کے پیکر اتم

یُؤتِی الحِکْمَةُ مَنْ یَشَآئُ وَمِنْ یُّوْتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیراً ، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُوالْأَلْبٰابِ-(بقره ٢٦٩)

ترجمہ :

اور وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ جو ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں نوح(ع) کو ان کی حکمت میں اور یوسف(ع) کو ان کی خوبصورتی اور زیبائی میں دیکھنا چاہے، اُسے علی(ع) کی زیارت کرنی چاہیے۔

۳۰

(۱۶) خیر کثیر

اِنَّا أَعْطُیْنَاکَ الْکَوْثَر - فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ-(کوثر ١،٢)

ترجمہ :

اے رسول ہم نے تم کو کوثر عطا کیا تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔

تشریح:

پیغمبر اسلام کے دو بیٹوں کا انتقال بچپنے میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کفار مکہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے تھے لہٰذا خداوند عالم نے پیغمبر کو فاطمہ زہرا جیسی بیٹی عنایت کرکے اُسے کوثر کے نام سے یاد کیا اور ان کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی نسل کو قیامت تک کے لیے باقی اور دائمی بنادیا، تاکہ پیغمبر اسلام کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔

(۱۷) ھادی

اِنَّمٰا أَنْتَ مُنْذِر وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ-(رعد ٧)

ترجمہ :

(اے رسول) تم تو صرف (خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی اور رھبر ہے۔

۳۱

تشریح:

ابن عباس سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور میرے بعد علی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہیں، اس کے بعد علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اے علی تم میرے بعد ان لوگوں کی ہدایت کرنے والے ہو جو ہدایت کے طلب گار ہیں۔

کتاب شواہد التنزیل میں ۱۹ روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

(۱۸) صراط مستقیم

وَاللَّهُ یَدْعُوْآ اِلی دَارِالسَّلٰمِ - وَیَهدِی مَنْ یَّشَآء اِلیٰ صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ o (یونس ٢٥)

ترجمہ :

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے۔

تشریح:

ابن عباس سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

۳۲

(۱۹) حقِ طہارت

اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرُکُمْ تَطْهِیرًا-(احزاب ٣٣)

ترجمہ :

اے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح) کی برای سے دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح:

انس بن مالک سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لاتے تو جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کرتے اور یہ عمل چھ مہینے تک جاری رہا۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور پیغمبر(ص) نے فرمایا: یہ ہیں میرے اہل بیت۔

کتاب شواہد التنزیل میں ۱۳۷ روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

۳۳

(۲۰) نور الھی

أَللّٰهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ-مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکَوٰةٍ فِیْهٰا مِصْبٰاح-الْمِصْبٰاحُ فِیْ زُجٰاجَةٍ أَالزُّجَاجَةُ کَأَنَّهٰا کَوْکَب، دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبٰارَکَةٍ زَیْتُونَةٍ لَّا شَرْ قِیَّةٍ وَّلَا غَرْبِیِّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِی ئُ وَلَوْلم تَمْسَسْهُ نَار، نور عَلٰی نُوْرٍ یَهدِی اللّٰهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشٰائُ- (نور ٣٥)

ترجمہ:

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل گویا ایک روشن ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جائے، جو نہ پورپ کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچ وبیچ) میدان میں اسکا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ خود ہی روشن ہوجائے گا ، (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور ہے خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں ایک دن جب مسجد میں داخل ہوا اور حضرت علی(ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اس آیت کی تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی پر غور نہیں کرتا ہے میں نے عرض کی کون سی آیت تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:

۳۴

مشکاة سے مراد محمد (ص) ہیں ،مصباح سے مراد میں ہوں، زجاجہ سے مراد حسن ، حسین ہیں، کوکب دری سے مراد علی ابن الحسین، شجرہ مبارکہ سے مراد محمد بن علی، زیتونہ سے مراد جعفر بن محمد ، لاشرقیہ سے مراد موسیٰ بن جعفر، لاغربیہ سے مراد علی بن موسیٰ الرضا ، یکاد زیتھا سے مراد محمد بن علی ، لم تمسہ النار سے مراد علی بن محمد، نور علی نور سے مراد حسن بن علی اور یھدی اللہ لنورہ من یشاء سے مراد حضرت مہدی ہیں۔

(۲۱)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهِ لَاِبْرَاهِیْم- ( صافّات ٨٣)

ترجمہ :

اور یقینا ان ہی (نوح) کے پیروکار میں سے ابراہیم بھی تھے۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب جناب ابراہیم کی خلقت ہوئی تو انھوں نے عرش الٰہی کے پاس ایک نور دیکھا ، پوچھا خدایا یہ کس کا نور ہے جواب ملا یہ نور محمد ہے پھر نور محمد کے ساتھ ایک اور نور دیکھا پوچھا یہ کس کا نور ہے، جواب ملا یہ علی کا نور ہے پھر تین نور ااور دیکھے اور اس کے بعد نو(۹) نور اور دیکھے پوچھا یہ کس کے نور ہیں ؟ جواب ملا یہ تین نور فاطمہ زہرا اور حسن ، حسین کے ہیں اور نو (۹) نور نو اماموں کے ہیں جو سب کے سب حسین کی نسل سے ہوں گے، تب جناب ابراہیم نے فرمایا: خدایا! مجھے امیر المومنین کے شیعوں میں سے قرار دے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ''ان من شیعتہ لابراھیم''

۳۵

تیسری فصل(امام زمان عج)

۳۶

(۱) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن

---یَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ المُومِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰه---(روم ٤،٥)

ترجمہ:

اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ آخری امام کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مؤمنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔

(۲) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی

وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسَیٰ أُمةً یَهدُوْنَ بِالْحَقّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ-(اعراف ١٥٩)

ترجمہ:

اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔

۳۷

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ جب قائم آل محمد ـ کعبہ سے ظہور کریں گے تو ۲۷ افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے ۱۵ کا تعلق قوم حضرت موسیٰ ـ ، ۷ افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرت کے ساتھی ، اور آپ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔

(۳) آئمہ کی معرفت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَة نَزِد لَه' فِی حَرْثِه وَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَا ---(شوریٰ ٢٠)

ترجمہ:

جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے روایت ہے کہ ''حرث الاخرة''سے مراد علی ـ اور باقی آئمہ علیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور ''حرث الدنیا'' سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸

(۴) حق کی کامیابی کا دن

--- وَ یَمحُ اللّٰهُ البٰاطِلَ وَ یَحِقُ الحَقَّ بِکَلِمٰاتِهِ -(شوریٰ ٢٤)

ترجمہ:

اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ـ ہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

(۵) دین حق

هو الذی أَرسَلَ رَسُولَه' بِالْهُدیٰ وَ دِیْنَ الحَقّ لِیُظْهِرَه عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّهِ ---(فتح ٢٨)

ترجمہ:

وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔

تشریح:

امام صادق ـسے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ـ کا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔

۳۹

(۶) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا

اِعْلَمُوا انَّ اللّٰه یُحْیِ الارض بعَدَ مَوتِهٰا --- (حدید ١٧)

ترجمہ:

یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔

(۷) نورِ الٰہی

یُرِیدُوْنَ لِیُطْفِؤا نورَ اللّٰهِ بِأفواهِهِمْ وَاللّٰه مُثمُّ نُوْرِهِ و نَوکَرِهَ الْکٰافِرُونَ - (صف ٨)

ترجمہ:

یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نور خدا کو پنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(1) بہترین انتخاب

فَبَشِّرْ عِبٰادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه' --- أُولْئِک هُم ْ اُولوالأَلْبٰاب-(سورئه مبارکه زمر،١٨)

ترجمہ:

ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتے ہیں۔۔ یہی لوگ ہیں جو صاحبان عقل ہیں۔

پیغام:

عقلمند انسان کا کمال کردار یہ ہے کہ کشادہ دلی کے ساتھ سب کی باتیں سنتا ہے اور جو بات اچھی ہوتی ہے اُس کا اتباع کرتا ہے۔

خداوند عالم صاحبان عقل کو چند خوشخبریاں دے رہا ہے۔

(1)۔ بندگانِ خدا میں سب سے بہتر ہیں۔

(2)۔ خدا کی تعریف کے سزاوار ہیں۔

(3)۔ خداوند عالم عقل و خرد مندی کے تمغہ امتیاز سے نواز رہا ہے۔

۱۰۱

(2) صاحبان علم اور صاحبان عقل

وتِلْکَ الْأَمْثٰالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلَّا الْعٰالِمُونَ-(سورئه مبارکه عنکبوت، ٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے۔

پیغام:

خدا کے علاوہ جس چیز پر بھی اعتماد اور بھروسہ کیا جائے وہ غیر مستحکم اور عارضی ہے۔ خداوند صاحبان علم اور صاحبان عقل کی تعریف کرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کے خزانے خدا کے پاس ہیں ہمیں صرف خدا پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان علم اور صاحبان عقل میں سے ہوجائے۔

(3) کم عقل لوگ خدا کے نزدیک

اِنَّ شَرَّ الدّوآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُمّ البُکْم الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه انفال، ٢٢)

ترجمہ:

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونکے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

۱۰۲

پیغام:

انسان کی قدر و قیمت اس کی عقلمندی پر منحصر ہے اگر غوروفکر نہ کرے تو حق کو نہ پاسکے گا اور بدترین زمین پر چلنے والوں میں سے ہو جائے گا۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اُن افراد میں سے ہوں جن کی عقل کی خدا نے تعریف کی ہے حق کو قبول کریں اوراس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

(4)صاحبان معرفت

أَلَّذِیْنَ یَذَکّرونَ اللّٰهَ قِیٰاماً و قُعُوداً و علَیٰ جُنُوبِهِمْ وَیتفکّرونَ فِی خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرض---

ترجمہ:

جو لوگ اٹھتے ،بیٹھتے ، لیٹتے ، خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں۔

پیغام:

عقلمندی کی نشانیوں میں سے ایک خدا کی معرفت اور کائنات کے امور میں غوروفکر کرنا ہے۔ صاحبان عقل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالم ہستی کا ذرہ ذرہ حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتا ہے اور کوئی چیز بھی بے نظم نہیں ہے۔

۱۰۳

(5) غورو فکر کی دعوت

قُلْ اِنّمَا أَعِظُکُم بِوٰاحِدةٍ انْ تَقُومُوا لِلّٰهِ مَثْنی وَ فُرادَی ثُمَّ تتفکّروا----(سوره مبارکه سبأ،٤٦)

ترجمہ:

پیغمبر(ص) آپ کہہ دیجئے کہ میںتمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر غوروفکر کرو۔

پیغام:

غور وفکر کے ساتھ خدا کی راہ میں حرکت کریں، چاہے اس راستہ میں ہم اکیلے ہی کیوں نہ ہوں۔

(6) غور و فکر کا مقام (1)

اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ أقفَالُهٰا-( سورئه مبارکه محمد،٢٤)

ترجمہ:

تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔

۱۰۴

پیغام:

غور و فکر کرنے کا بہترین مقام خداوند متعال کا کلام ہے قرآن صحیح اور غلط راستہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدبخت اور سعادت مند افراد کے صفات کو بیان کرتے ہوئے ان کی مثالیں پیش کرتا ہے اور ان کے انجام سے آگاہ کرتا ہے تاکہ راستہ کے انتخاب میں غور وفکر سے کام لیں۔

(7)غور و فکر کا مقام (2)

أَ وَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِی أَنْفُسِهِم---- ( سورئه مبارکه روم، ٨)

ترجمہ:

کیا اُن لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے ۔

پیغام:

قرآن کریم ایک مقام پر ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسرے مقام پر نہ سوچنے پر ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔

انسان کی خلقت اس کی ضروریات ، زمین و آسمان کے انسجام اور کائنات کے جملہ منظم امور میں غور و فکر کرنا کمال اور معرفت کا پیش خیمہ ہے۔

۱۰۵

(8) غور و فکر کا مقام (3)

--- وَ النجومُ مُسَخّرات بأمْرِهِ انَّ فِی ذالکَ لَأیاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقَلُونَ-( سورئه مبارکه نحل،١٢)

ترجمہ:

اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں بے شک اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے قدرت کی بہت سے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت خوبصورت اور حیرت انگیز ہے یہاں تک کہ قرآن ستاروں کی قسم کو ایک بہت بڑی قسم سمجھتا ہے۔

ستاروں کی حیرت انگیز حرکت ، ان کا نظم ،شب وروز کی آمد و رفت، خداوند متعال کی قدرت و حکمت کا مبین ثبوت ہے جو انسان کے لیے غور وفکر کا مقام ہے۔

(9) غور و فکر کا مقام (4)

وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِیلِ وَالأَعْنٰاب --- لِآیٰاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه نحل، ٦٧)

ترجمہ:

اور پھر خرمہ اور انگور کے پھلوں سے ۔۔۔ اس میں بھی صاحبان عقل کے لیے نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

۱۰۶

پیغام:

ہم روز مختلف پھلوں اور خوش ذائقہ غذاؤں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بھوک مٹاتے ہیں اور اس کے علاوہ بدن کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سے استفادہ کرتے ہوئے توانائی اور شادابی حاصل کرتے ہیں۔

جو غذائیں ہم استعمال کرتے ہیں وہ تمام زمین سے وجود میں آتی ہیں اور ان کا اس حالت میں آنا ۔ مٹی ،پانی ، ہوا اور سورج کی روشنی کے دقیق اور ظریف عمل کی وجہ سے ہے اور یہ چیز ان کے پیدا کرنے والے کی حکمت وتدبیر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(10) غور و فکر کا مقام (5)

انَّ فِی خَلْقِ السَّمَوٰاتِ وَ الْأَرْضِ--- لایاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُون-(سورئه مبارکه بقره،١٦٤)

ترجمہ:

بے شک زمین و آسمان کی خلقت میں ۔۔۔ صاحبان عقل کے لیے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے اور جو صاحبان علم و فہم ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں۔

۱۰۷

(11) غور و فکر کا مقام (6)

وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّة وَ رَحْمَة اِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ-(سورئه مبارکه روم، ٢١)

ترجمہ:

اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

پیغام:

غورو فکر کا ایک مقام نظام خانوادہ ہے۔ اگر نظام خانوادگی صحیح نہ ہو تو پورا معاشرہ خراب ہوسکتا ہے۔ نظام خانوادہ ایک ایسی عمارت کی طرح ہے جس کے کئی ستون ہوں۔ جن میں حجاب، عفت، ازدواج اور پیار ومحبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اگر یہ ستون نہ ہوں عمارت نہیں ٹھہرسکتی بعض قوموں نے ٹیکنالوجی میں تو ترقی اور پیش رفت کی ہے مگر نظام خانوادگی میں انحطاط کا شکار ہونے کی وجہ سے مختلف مشکلات سے دوچار ہیں کیا ہم ایک صحیح و سالم گھرانہ کے ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں؟

(12)غور و فکر کا مقام (7)

أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَهُمْ قُلُوب یَعْقِلُونَ بِها---(سورئه مبارکه حج، ٤٦)

ترجمہ :

کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوںکو ) سمجھتے۔

۱۰۸

پیغام:

گذشتہ اقوام کے نشیب وفراز پر غور کرنے سے ہماری فکر شکوہ مند ہوسکتی ہے اور ان کے حالات سے راہنمائی حاصل کرکے اپنے بہتر مستقبل کے لیے قدم اٹھاسکتے ہیں۔

ہمیں چاہیئے کہ ان افراد کا جنہوں نے اپنی عمر کے قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا اور علم و معرفت کے درجات تک پہنچ گئے ان افراد کے ساتھ موازنہ کریں جنہوں نے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کیا ہے اس کے بعد صحیح راستہ کا انتخاب کریں۔

(13) کم عقل لوگ حق کے دشمن

تَحْسبُهُم جَمِیْعًا وَ قُلُو بُهُمْ شتّی ذالک بِأنَّهُمْ قَوْم لَا یَعْقِلُونَ-(سورئه مبارکه حشر،١٤)

ترجمہ:

تم گمان کروگے کہ سب کے سب ایک (جان) ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے سے بے گانہ ہیں یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔

پیغام:

کم عقل لوگ ظاہری طور پر ایک دوسرے کے دوست دکھائی دیتے ہیں درحقیقت اُن میں سے ہر ایک اپنا فائدہ چاہتا ہے سر انجام آپس میں جھگڑنے لگتے ہیں۔

صاحبان عقل اور خدا پرست ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر سب ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اُن میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

۱۰۹

(14) دشمنان حق کا سر انجام

و قَذَفَ فِی قُلُوبِهِمْ الرُّعْبِ--- فَاعْتَبِرُوا یَا أُوْلِی الْأبْصٰار-

ترجمہ :

اور ان کے دلوں میں (مسلمانوں کا) رعب ڈال دیا ۔۔۔ اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو۔

پیغام:

ایک اور مقام فکر یہ ہے کہ دیکھو کس طرح حق کی مخالفت کرنے والے سر توڑ حق کو مٹانے کی کوشش کرتے تھے مگر وہ خود مٹ گئے اور حق باقی رہا ہے۔

نمرود اور فرعون کس طرح اپنی شان و شوکت کے باوجود نیست ونابود ہوگئے۔ وہ کچھ ہی عرصے کے لیے قدرت کو حاصل کرسکے مگر طویل عرصہ کے لیے نابودی کا شکار ہوگئے کوئی بھی حکومت ظلم و استبداد پر استوار نہیں رہ سکتی ہے۔

دنیاوی حکمرانوں کی زندگی کے نشیب و فراز صاحبان عقل کے لیے درس عبرت ہیں۔

(15)کم عقلی پلیدگی و گندگی ہے

وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلی الَّذِیْنَ لَا یَعْقَلُونَ-(سورئه مبارکه یونس ١٠٠)

۱۱۰

ترجمہ :

جو لوگ عقل سے کام نہیںلیتے خداوند عالم ان ہی لوگوں پر (کفر کی) گندگی ڈال دیتا ہے۔

پیغام:

عقل و خرد انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جب کہ کم عقلی انسان کو گندگی کے دلدل میں پھنسا دیتی ہے۔

(16) کم عقلی کا نتیجہ

وَ قَالُوا لَو کنّا نَسْمَعُ او نعقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحٰابِ السَّعیر(سورئه مبارکه ملک ،١٠)

ترجمہ :

اور کہیں گے کہ اگر ان کی بات سنتے یا سمجھتے تب تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔۔

پیغام:

ممکن ہے کہ کافروں کا یہ اعتراف دنیا و آخرت دونوں سے متعلق ہو اس لیے کہ دنیا کی زندگی بھی اگر خدا سے دور رہ کر گزاری جائے تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

۱۱۱

(17) کیا صاحبان عقل اور کم عقل مساوی ہیں

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الأَعْمٰی وَالْبَصِیر أَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ-(سورئه مبارکه انعام- ٥٠)

ترجمہ :

پوچھئے کہ کیا اندھے اور بینا برابر ہوسکتے ہیں آخر تم کیوں نہیں سوچتے ہو۔

پیغام:

کبھی ایک مطلب کی تاکید کے لیے اُسے سوال کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے یہ بات روشن ہے کہ صاحبان عقل اور کم عقل برابر نہیں ہیں جیسا کہ روشنی و تاریکی ، علم و جہل مساوی نہیں ہیں۔

جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا شمار بھی صاحبان عقل میں سے ہوںجائے۔

(18) معرفت اور آگاہی کے ساتھ

قُلْ هٰذِهِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو اِلٰی اللّٰهِ عَلٰی بَصِیْرةٍ أَنَا وَ مَنْ اِتّبِعَنِیْ--- (سورئه مبارکه یوسف، ١٠٨)

۱۱۲

ترجمہ :

آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اورمیرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔

پیغام:

انبیاء و اوصیاء کی تبلیغ معرفت و آگاہی پر استوار ہے۔ وہ راستہ جس کی طرف انبیاء ہماری ہدایت اور رہنمائی کرتے ہیں ہم اُسے اپنے ارادہ و اختیار سے انتخاب کرتے ہیں جبکہ ستمگران اور طغیانگر افراد زبردستی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

(19) وسوسہ شیطان

وَلَقَدْ أَضَلّ مِنْکُمْ جبلاً کَثِیْراً أَفَلَمْ تَکُونُوا تَعْقِلُوْنَ-(سورئه مبارکه یس ،٦٢)

ترجمہ :

اس شیطان نے تم میں سے بہت سی نسلوں کو گمراہ کردیا ہے تو کیا تم بھی عقل استعمال نہیں کروگے ۔

پیغام:

امام علی ـ نے فرمایا: صحیح فکر کا نتیجہ حق کی پیروی ہے۔ شیطان برائیوں کو خوبصورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور اس طرح وہ ہمیں فریب دیتا ہے لیکن صاحبان فکر شیطان کے فریب میں نہیں آتے وہ نیک افراد کی سیرت پر عمل کرتے ہیں اور برے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔

۱۱۳

(20)میدان عمل

أتَامَرُونَ النّاس بِالبِرّ وَتَنْسَونَ أَنْفُسَکُم و أَنْتُمْ تَتلونَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تعقلونَ- (سورئه مبارکه بقره، ٤٤)

ترجمہ:

کیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو جب کہ کتاب خدا کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہارے پاس عقل نہیں ہے۔

پیغام:

صاحبان علم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نیک کاموں میں پیش پیش ہوں ۔ امام علی ـ سے منقول ہے کہ فکر یہ ہے کہ جو جانتے ہو اُسے بیان کرو اور جو کہہ رہے ہو اُس پر عمل کرو۔

(21) کافروں کی کم عقلی

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَروا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمٰا لا یَسْمَعُ الّا دُعٰاء وَ نِداء صُمّ بُکم عُمْی فَهُمْ لَا یَعْقِلُونَ-( سورئه مبارکه بقره،١٧١)

۱۱۴

ترجمہ :

جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیں۔ یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے۔

پیغام:

انسان عقل کی روشنی میں صحیح راستہ کو پاسکتا ہے مگر کافروں نے اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم کیا ہوا ہے۔

۱۱۵

آٹھویں فصل(انسان)

۱۱۶

(1) بہترین ساخت

لَقَدْ خَلَقْنٰا الاِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْم- ثُمَّ رَدِدْ ناه أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ-

ترجمہ:

ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے ۔ پھر ہم نے اسے پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا۔

پیغام:

قادر مطلق اگر چاہتا تو انسان کو اس طرح بھی خلق کرسکتا تھا کہ فقط اچھائی کاانتخاب کرے لیکن یہ چیز انسان کی فضیلت و برتری کا باعث نہ بنتی انسان کی برتری اسی میں ہے کہ وہ خود اپنی مرضی سے صحیح راہ کا انتخاب کرے۔ انسان کے سامنے دو راہیں ہیں ایک کمال اور سعادت کی راہ اور دوسری گمراہی اور پستی کی راہ ۔

(2)خود آگاہ

بَلْ الانسانُ عَلٰی نفسه بَصِیْرة-(سوره مبارکه قیامت ،٤٠)

ترجمہ:

بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے۔

۱۱۷

پیغام:

انسان خود آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر مسلط ہوکر اس کے حالات سے خوب باخبر ہوسکتا ہے۔ انسان کی اس آگاہی کو علم حضوری کہتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعض افراد اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں گویا وہ اپنے بارے میں کچھ ہی نہیں جانتے۔ قرآن مجید نے اس انسان کا تعرف کرایا ہے جو ابھی تک محققین اور روان شناس افراد کے لیے ناشناختہ ہے۔

(3) خود فریبی

بَلْ یُرِیْدُ الاِنْسٰانُ لِیَفْجُرَ أَمَامَهُ-(سوره مبارکه قیامت،٥)

ترجمہ:

بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔

پیغام:

بعض افراد دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بعض خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں غلط راہ کا انتخاب در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ اور فریب دینے کے مترادف ہے۔

۱۱۸

(4) آزاد

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانَ أَنْ یُتْرَکَ سُدیٰ-(سوره مبارکه قیامت،٣٦)

ترجمہ:

کیا انسان کا خیال ہے کہ اُسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا۔

پیغام:

ذرا سی فکر رکھنے والا انسان کبھی بھی کام کو بغیر ہدف کے انجام نہیں دیتا ہے بلکہ کام شروع کرنے سے پہلے اس سلسلے میں مختلف پروگرام بھی ترتیب دیتا ہیں۔ تو کیا خداوندعالم جو خالق فکر ہے کسی کام کو بغیر ہدف اور مقصد کے انجام دے سکتا ہے؟ کیا انسان کی عجیب و غریب خلقت بغیر کسی ہدف کے وجود میں آئی ہے؟

یقینا انسان کی خلقت ایک بہت عظیم مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے ہمیں چاہیئے کہ اس عظیم مقصد کو جاننے کے بعد اس کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔

(5) فرشتوں کے مقابل

وَاِذْ قُلْنٰا لِلْمَلاٰ ئِکَةِ اسْجُدُوا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوا ---(سورئه مبارکه بقره -٣٤)

۱۱۹

ترجمہ:

اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو۔۔۔

پیغام:

انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس مقام تک پہنچ جائے کہ جہاں فرشتے پروردگار کے حکم سے اُسے سجدہ کریں۔ فرشتے انسان کامل کے سامنے سجدہ کرتے ہیںاور ثابت قدم مومنین کے حضور حاضر ہوکر انہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں۔

(6) خبردار

أَلَمْ أَعْهَد اِلَیْکُمْ یٰا بَنِی اٰدَمَ أنْ لَا تَعْبُدُوا الشَیْطَانَ اِنَّه' لَکُمْ عَدوّ مُبِیْنَ- (سورئه مبارکه یس، ٦٠)

ترجمہ:

اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔

پیغام:

شیطان کا وسوسہ یہ ہے کہ وہ برائی کو خوبصورت بناکر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ایک صاحب فکر اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اُسے اپنے آپ کو اس وسوسہ شیطانی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

خداوند عالم نے ہمیں ، فکر سلیم او پاکیزہ نفس عطا کیا ، کیا ان تمام چیزوں کی عطا وہ عہد نہیں جو خدا نے ہم سے لیا ہے؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204