معارف قرآن

معارف قرآن18%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181463 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور ولایت علی ـ کو بجھادیں لیکن خداوند عالم اُسے مکمل کرے گا اور حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ظہور کے ذریعہ اُسے سارے جہاں پر غلبہ عطا کرے گا۔

(۸) امام زمانہ علیہ السلام

الم - ذَلِکَ الکِتَابُ لارَیْبَ فَیهِ هدیً للْمُتَّقِیْنَ - اَلْذِیْنَ یومنون بِالْغَیْبِ و--- (بقره ٢)

ترجمہ:

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لئے مجسمہ ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے کہ صاحبان تقویٰ سے مراد حضرت علی ـ کے شیعہ اور غیب سے مراد امام زمانہ ـ ہیں۔

۴۱

(۹)اللّٰہ کا گروہ

أُوْلٰئِک حِزْبُ اللّٰهِ أَلَا اِنّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ المُفْلِحُونَ - (مجادله ٢٢)

ترجمہ

:یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں ، اور آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا آخری امام حجة ابن الحسن العسکریـہیں۔ پھر فرمایا کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان کی غیبت میں ثابت قدم ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے۔أُوْلٰئِک حِزْبُ اللّٰه ----

(۱۰) پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین

أَطِیْعُوا اللّٰهَ أَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَ أوْلِی الأَمْرِ مِنْکُمْ --- (نساء ٥٩)

ترجمہ:

اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔

۴۲

تشریح:

جابر بن عبد اللہ انصاری فرماتے ہیں: میں نے رسالت مآب سے سوال کیا کہ أولی الامر سے مراد کون ہیں؟ رسالت مآب نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور مسلمانوں کے پیشوا اور رہنما ہیں جن میں سے پہلے علی ابن ابی طالب ـ اور آخری حجة ابن الحسن العسکری ـ ہیں۔جابر نے کہا میں نے عرض کی، یارسول اللہ! کیا شیعہ حضرت مہدی ـ کی غیبت کے زمانے میں اُن سے مستفید ہوسکے گے۔ رسالت مآب نے فرمایا: یقینا اُس ذات کی قسم جس نے مجھے نبوت عطا کی ہے شیعہ مہدی کے نور ولایت سے مکمل بہرہ مند ہونگے جس طرح لوگ سورج کے فوائد سے بہرہ مند ہوتے ہیں ، چاہے وہ بادلوں کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

(۱۱) کافروں کی سزا

--- یوم یأتی بَعْضُ آیاتِ ربّکَ لَا یَنْفَعُ نفساً اِیْمٰانُهٰا لَمْ تکُنْ آمَنتُ مِنْ قَبْل ---(انعام ١٥٨)

ترجمہ:

جس دن اسکی بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن جو نفس پہلے سے ایمان نہیں لایا ہے ، اسکے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے کہ وہ دن حضرت بقیة اللہـ کے ظہور کا دن ہے۔

۴۳

(۱۲) أَولیٰاء خدا

أَلَا اِنَّ أَوْلِیٰائَ اللّٰهِ لَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ -(یونس ٦٢)

ترجمہ:

آگاہ ہو جاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ''محزون '' اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔

تشریح:

امام صادق ـ سے مروی ہے آپ نے ابو بصیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابو بصیر حضرت بقیة اللہ ـ کے شیعہ خوش نصیب ہیں جو آپ(ع) کی غیبت میں آپ کے مطیع اور آپ کے ظہور کے منتظر ہیں ۔ اس کے بعد آپ (ع) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔أَلَا اِنَّ أَوْلِیٰائَ اللّٰه---

(۱۳) وعدہ الٰہی

وَعَدَ اللّٰه الَّذِیْنَ أَمَنُوا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا لصَّالِحٰاتِ یَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِیْ الأَرْضِ ---(نور ٥٥)

ترجمہ:

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔

۴۴

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے کہ یہ آیت حضرت بقیة اللہ ـاور ان کے اصحاب کی شان میں ہے۔ جابر عبداللہ انصاری سے مروی ہے پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: جناب موسیٰ کی طرح میرے بھی بارہ جانشین ہونگے اسکے بعد آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے اور فرمایا کہ حسن(عسکری)ـ کے بیٹے غیبت میں چلے جائیں گے اسکے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔وَعَدَ اللّٰه الَّذِیْنَ----

(۱۴) ظالموں کا انجام

وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَبُونَ - (شعراء ٢٢٧)

ترجمہ:

اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائینگے۔

تشریح:

رسالت مآب (ص) سے منقول ہے جو میرے دین کا پیرو ، اور میری کشتی نجات میں سوار ہونا چاہتا ہے وہ علی ابن ابی طالب ـ سے وابستہ ہوجائے انکے دشمن کو دشمن اور انکے دوست کو دوست رکھے۔ اسکے بعد آپ نے اماموں کے نام بتائے اور فرمایا میری امت کے نو پیشوا حسین ـ کی اولاد سے ہیں جنکے آخری قائم ـ ہیں۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ---

۴۵

(۱۵) زمین کے وارث

أَمَّنْ یُجِیْبُ المُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَکْشِفُ السُّوئَ وَ یجْعلکم خلفائِ الأَرْضِ - (نمل ٥٢)

ترجمہ:

بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے۔ اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم لوگوں کو زمین کا وارث بناتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے روایت ہے کہ یہ آیت قائم آل محمد ـ کی شان میں ہے۔ ظہور کے وقت آپ مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے یہ مناجات کرینگے۔

(۱۶) لوگوں کے پیشوا

وَنُرِیْدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ استضعَفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمّهً وَ نَجْعَلَهُمُ الوارثین- (قصص ٥)

ترجمہ:

اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ۔ ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں۔

۴۶

تشریح:

پیغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے آپ نے جناب سلمان فارسی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے سلمان کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں اپنے بارہ جانشینوں کے نام بتاؤں۔ اور اسکے بعد بارہ اماموں کے نام بیان کئے۔ جناب سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے ان کے شوق دیدار میں بے انتہا گریہ کیا، تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: اے سلمان ، اُن کے ہونے سے اس آیت کی تکمیل ہوگی۔وَنُرِیْدُ أَنْ نَمُنَّ---

(۱۷) نماز کا قیام

أَلَّذِیْنَ اِنْ مَکّنَّا هُمْ فِی الْأَرضِ أَقَامُو الصَّلوٰةَ وأتوا الزّکٰاة وَ أَمَر وا بِالْمَعْروفِ ونَهَو عَنِ الْمُنْکرِ وَ لِلّٰهِ عٰاقِبَةُ الأُمور -(حج ٤١)

ترجمہ:

یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انھوں نے نماز قائم کی اور ذکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔

تشریح: امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ یہ آیت مہدی آخر الزمان ـاور ان کے اصحاب کی شان میں ہے جو مشرق و مغرب میں دین اسلام کا پرچم لہرا کر خرافات اور ظلم وجور کو صفحہ ہستی سے مٹا دینگے۔ اور پھر فرمایا ، ویَا مُرُونَ بالمعروف (نیکیوں کا حکم دینے ، و۔۔۔۔۔۔۔

۴۷

(۱۸)ذخیرہ الٰہی

بقیة اللّٰه خِیْر لَکُمْ اِنْ کُنْتُم مومنین-(هود ٨٦)

ترجمہ:

اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمھارے لئے بہت بہتر ہے۔ اگر تم صاحب ایمان ہو۔

تشریح:

روایات میں امام عصر ـ کو '' بقیة اللہ '' کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ پروردگار عالم نے انہیں آخری انقلاب اور زمانہ کی واقعی اصلاح کے لیے بچا کر رکھا ہے۔ جب سر زمین مکّہ سے آپ کا ظہور ہوگا تو آپ اس آیت کی تلاوت فرما کر کہیں گے میں ہی وہ بقیة اللہ ہوں۔

(۱۹) صالحین کی حکومت

وَلَقَدْ کتبنا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکرَ انّ الأَرْضَ یَرِثُهٰا عبادی الصَّالِحُونَ - (انبیاء ١٠٥)

ترجمہ:

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

۴۸

تشریح:

رسالت مآب (ص)سے روایت ہے: کہ قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہوگی ، جب تک دنیا ظلم و جور سے نہ بھر جائے ۔ پھر میری ذرّیت میں سے ایک فرد قیام کرے گا اور دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

(۲۰)امام برحق

فَوَ رَبِ السَّمَائِ وَ الْأرْض اِنّه لَحَقّ مِثْلَ مَا أَنَّکُمْ تَنطِقُونَ- (ذاریات ٢٣)

ترجمہ:

آسمان اور زمین کے مالک کی قسم یہ قرآن بالکل برحق ہے جس طرح تم خود باتیں کر رہے ہو۔

تشریح:

امام سجاد ـسے منقول ہے : اس آیت میں حق سے مراد حضرت حجة ابن الحسن العسکری ـ کا ظہور ہے۔

۴۹

(۲۱) زمین کا جگمگانا

وَ أَشْرَقَتِ الأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهٰا- (زمر ٦٨)

ترجمہ:

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ جب قائم ـ کا ظہور ہوگا تو زمین نورِ پروردگار سے اس طرح جگمگا اٹھے گی کہ لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ دن رات ایک ہی معلوم ہونگے اور لوگ ہزار سال تک صحیح و سالم زندگی گزاریں گے۔

۵۰

چوتھی فصل(دعا)

۵۱

(۱) د نیا اور آخرت میں سعادت کی دعا

رَبَّنَا أتِنا فی الدُّنیٰا حَسَنةُ وَفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار-(سوره مبارکه بقره ٢٠١)

ترجمہ:

پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہنم سے محفوظ رکھ۔

پیغام:

بعض افراد خدا سے دنیا کی سعادت چاہتے ہیں جب کہ مومنین خدا سے دنیا و آخرت دونوں کی سعادت چاہتے ہیں اور دین کا ہدف بھی یہی ہے کہ لوگوں کو دنیا و آخرت کی سعادت تک پہونچایا جائے۔

ہمیں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے، لیکن خداوند عالم ہمیں اپنی پناہ میں لے کر اُس تکلیف کو راحت میں تبدیل کردیتا ہے۔

(۲) اپنے اور اپنی اولاد کے حق میں دعا

رَبّ اجْعَلْنِی مُقِیْمَ الصَّلٰوة وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَا وتَقَبَّلْ دُعٰاء ربّنٰا اغفرلی وَلِوَالِدَیّ وَ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الِحسَاب-(سوره مبارکه ابراهیم -٤٠-٤١)

۵۲

ترجمہ:

پروردگار مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلے۔ پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اُس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا۔

پیغام:

نماز دین کی پہچان ہے ۔ نماز کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی اور معاشرہ کی زندگی کو خدا کی ہدایت اور رہنمائی کے ذریعہ کامیاب بنائیں، جب دعا کریں تو سب کیلئے دعا کریں، جیسا کہ جناب ابراہیم خلیل خدا ـنے اپنی اولاد، اپنے والدین اور تمام مومنین و مومنات کے حق میں دعا فرمائی۔ دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ توحید اور معاد پر مکمل یقین رکھتا ہو۔

(۳) ثابت قدمی کے لئے دعا

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنٰا مَنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً اِنَّکَ أَنْتَ الوَهَّابْ-(سوره مبارکه آل عمران ٨)

ترجمہ:

اے ہمارے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا ہونے پائے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والاہے ۔

۵۳

پیغام:

ہدایت پانا ایک اہم أمر ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ہدایت پر باقی رہنا ہے جس طرح ابتدائی ہدایت اس کی رحمت ہے بالکل اُس طرح ہدایت پر ثابت قدمی بھی اس کی رحمت کا جلوہ ہے۔ ہم اپنے جسم کو صحیح و سالم رکھنے کیلئے مسلسل سانس لیتے ہیں، اسی طرح اپنی روح کو صحیح و سالم رکھنے کیلئے ہمیں مسلسل خدا سے رابطہ رکھنا ہوگا تاکہ روح اپنے صحیح راستہ سے منحرف نہ ہونے پائے۔

(۴)توبہ کیلئے دعا

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ وَ أَرِنَا مَنَاسِکَنا وَتُبْ عَلَیْنَاج اِنَّکَ أَنْتَ التَّوابُ الرَّحِیْم-(سوره مبارکه بقره١٢٨)

ترجمہ:

پروردگار ہم دونوں کو اپنا مسلمان اور فرمانبردارقرار دے اور ہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار پیداکر، ہمیں ہمارے مناسک دکھلادے اور ہماری توبہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

پیغام:

ہر صاحب ایمان کو خدا سے ہدایت پر قائم رہنے کی دعا کرنی چاہیے اور اپنے ساتھ ساتھ اولاد کی ہدایت و راہنمائی کی تلاش و کوشش کے ساتھ دعا بھی کرنی چاہیے۔ حق کے سامنے سر تسلیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ حق بات کہیں اور حق کا ساتھ دیں، ہمیں عبادت اور بندگی ،خدا کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرنی چاہیے خدا کی صفات سے آگاہی اس سے دعا کرنے میں تقویت کا سبب ہے۔ وہ توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

۵۴

(۵) مومنین کی بخشش کیلئے دعا

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالاِیْمٰانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلّذینَ اٰمَنُوا رَبَّنَارَؤُف رَّحِیْم-(سوره مبارکه حشر١٠)

ترجمہ:

خدایا ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے، اور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ نہ قرار دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

پیغام:

بعض افراد دنیا کے مال و مقام کے حصول کی فکر میں رہتے ہیں ، اور ہمیشہ یہ آرزو کرتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ثروت مند ہوجائیں لیکن مومنین اہل معنویت سے محبت کرتے ہیں اور ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے لئے طلب رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: مومنین مختلف جسموں کے باوجود ایک جان ہیں۔

۵۵

(۶) ہر کام کی اچھی ابتداء اور انتہا کے لئے دعا

رَبِّ أَدْخِلْنی مَدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ و اجْعَل لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطٰانًا نصیراً-(سوره مبارکه اسرائ،٨٠)

ترجمہ:

پروردگار میرے ہر کام کی ابتداء و انتہا اچھی طرح اور بہترین انداز سے قرار دے اور میرے لئے ایک طاقت قرار دے دے جو میری مددگار ثابت ہو۔

پیغام:

ہرکام کی ابتدء اور انتہا نیک نیتی کے ساتھ ہونی چاہیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا ہر کام سچائی اور رضائے الٰہی کی خاطر ہو، اگر ہم ہر کام نیک نیتی کے ساتھ انجام دیں تو ممکن ہے کہ ہمارا شمار صدیقین میں سے ہوجائے۔

(۷) کافروں پر کامیابی کے لئے دعا

رَبَّنَا وَلَا تَحْمَل عَلَیْنٰآ اِصْرًا کَمٰا حَمَلْتَه عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنٰاج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ بِه وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنٰا وَارْحَمْنٰا أَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنٰا عَلٰی الْقَوْمِ الْکٰافِرِیْنَ- (سوره مبارکه بقره ٢٨٦)

۵۶

ترجمہ:

خدایا ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پہلے والی اُمتوں پر ڈالا گیا ہے، پروردگار ! ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو، ہمیں معاف کردینا ہمیں بخش دینا ہم پر رحم کرنا، تو ہمارا مولا اور مالک ہے، اب کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔

پیغام:

دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی عجز و انکساری کا اظہار کریں اس کے بعد پروردگار کی عظمت و بزرگی کی گواہی دیں اور پھر دعا کریں۔

مومنین ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کفر پر کامیابی حاصل کرے۔

(۸) صبر و استقامت کیلئے دعا

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی القَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ-(سوره مبارکه بقره،٢٥٠)

ترجمہ:

خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرما۔

۵۷

پیغام:

وہ لوگ ظالموں اور کافروں کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جو جہاد بالسیف سے پہلے جہاد بالنفس کرکے مقام صبرو استقامت پر فائز ہوں اس لئے کہ اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو میدان جہاد میں ثبات قدم رہنا مشکل ہے۔

خداوند عالم مومنین کی کامیابی چاہتا ہے لیکن یہ کامیابی جہاد اور مقابلہ کے بغیر ممکن نہیں ہے، باایمان مجاہد اور صابر خدا ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

(۹) متقیوں اور پرہیز گاروں کے پیشوا ہونے کی دعا

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مَنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیٰتِنٰا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا-(سوره مبارکه فرقان،٧٨)

ترجمہ:

خدایا ہمیں ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرما اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنادے۔

پیغام:

صالح بیوی اور صالح فرزند انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے زمین ساز ہیں۔ صالح فرزند جنت کے پھولوں میں سے ایک پھول ہے۔

دوستان خدا وہ لوگ ہیں جو خود بھی تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور صاحبان تقویٰ کے پیشوا بننے کے خواہش مند ہیں۔

۵۸

(۱۰) طلب رحمت کے لئے دعا

رَبَّنَا اٰتِنَا مِن لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَیِّیُٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنٰا رَشَدًا-(سوره مبارکه کهف،١٠)

ترجمہ:

پروردگار ہم کو اپنی رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے کام میں کامیابی کا سامان فراہم کردے۔

پیغام:

خداکی رحمت تمام انسانوں کے شامل حال ہے مگر بعض لوگ اس رحمت کو عذاب میں تبدیل کرلیتے ہیں ، اور مومنین اس رحمت کو کمال اور سعادت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں، ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔

خداوند ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ ہم کمال وسعادت کے راستہ پر گامزن رہیں اور اس سلسلے میں اس سے مدد طلب کریں، تاکہ صحیح اور درست راہ کو پالیں۔

(۱۱) مغفرت کیلئے دعا

غُفْرانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ المَصِیْر- (سوره مبارکه بقره،٨٠)

۵۹

ترجمہ:

پروردگار تیری ہی مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔

پیغام:

خداوند عالم کی بخشش ہماری تربیت کیلئے زمین ساز ہے خداوند عالم ، عالم طبیعت میں خاک سے پھل اور پھول پیدا کرتاہے۔اور اسی طرح اپنی رحمت سے ہماری برائیوں کو خوبیوں میں اور ضلالت کو ہدایت میں بدل دیتا ہے۔ تمام انسانوں کو اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے مومنین اس کی رحمت کے زیر سایہ ہوں گے اور کفار اس کے عذاب میں گرفتار رہیں گے اور یہ وہ راستے ہیں جو خود انہوں نے انتخاب کئے ہیں۔

(۱۲) نور ہدایت کی تکمیل کیلئے دعا

رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍ قَدِیْر- (سوره مبارکه تحریم،٨٠)

ترجمہ:

خدایا ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہمیں بخش دے کہ تو یقینا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔

۶۰

پیغام:

سیر وسلوک کا عمل کبھی نہیں روکتا ہے ، ہمیں اس سے یہی دعا کرنی چاہیے، کہ وہ اس سفر میں ہمیں روز بروزترقی عطا فرمائے ، ہم ایسی ذات سے اپنی بات کہتے ہیں اورایسی ذات سے محبت کرتے ہیںجو ہر چیز پر قدرت رکھتی ہے اور ہمیں سعادت و کمال تک پہونچا سکتی ہے۔

(13) صبر و تحمل کیلئے دعا

رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْراً وّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ-(سوره مبارکه اعراف،٨٠)

ترجمہ:

خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہمیں مسلمان دنیا سے اُٹھانا۔

پیغام:

صاحبان ایمان زمانے کے فرعون کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کسی قوت اور طاقت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور اس میں استقامت کے لئے ہمیشہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں، صاحبان ایمان کا قیام ظالم اور ستمگر کیلئے شکست کا پیغام لے کر آتا ہے۔

استکبار اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و جور کی وجہ سے صاحبان ایمان کو اپنا ہدف نہیں چھوڑنا چاہئیے۔

۶۱

(14) ظالموں سے بیزاری کیلئے دعا

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنٰا مَعَ الْقَوْمِ الظَلِمِیْنَ-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

پروردگار ا، ہم کو ظالمیں کے ساتھ نہ قرار دینا۔

پیغام:

جب اہل جنت، دوزخ کے پاس سے گزریں گے تو یہ دعا کریں گے ، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ قیامت میں ظالمیں کے ساتھ نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ دنیا میں ظلم سے پرہیز کرے۔ اس لئے کہ ظلم وستم اہل جہنم اور شفقت و مہربانی اہل جنت کی صفت ہے۔

(15)شرح صدر کے لئے دعا

رَبِّ اشرَحْ لِیْ صَدْرِیْ- وَیسِّرْ لِی اَمْرِیْ- وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِی- یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ -

(سوره مبارکه طه،٢٥-٢٨)

۶۲

ترجمہ

:پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے۔

پیغام:

جب جناب موسیٰ ـ فرعون سے نبرد آزما ہوئے تو یہ دعا فرمائی۔

فرعونیوں سے مقابلے کے لئے ہمت اور ارادہ کی پختگی درکار ہوتی ہے، انبیاء اور ان کے پیروکاروں میں ارادہ کی غیر پختگی اور بے صبری نہیں پائی جاتی ہے۔ ہمیں خدا سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان صفات سے آراستہ کرے تاکہ ہم انبیاء کے بتائے ہوئے، راستے پر چل کر دین کی خدمت کرسکیں۔

(16) شکر گذاری کیلئے دعا

رَبِّ اوزِعْنِیْ أَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَ أَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰاهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ-(سوره مبارکه احقاف،١٥)

ترجمہ:

پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے۔

۶۳

پیغام:

نعمت کی معرفت اور اُس پر شکر گذاری ایک ایسا بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہیے ، خدا کی نعمتوں پر عملی شکر یہ ہے کہ ہم ہر کام خدا کی مرضی کے مطابق انجام دیں۔ والدین نے جو زحمتیں اٹھائی ہیں انہیں نہ بھلائیں اور ان کے حق میں دعا کرتے رہیں ، صالح اور نیک فرزند خدا کی ایک نعمت سے جس کے لئے ہمیں اُس سے دعا کرنی چاہیے۔

(17) فرزند صالح کے لئے دعا

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعٰآئِ- (سوره مبارکه آل عمران ،٣٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما کہ تو ہر ایک کی دعا سننے والا ہے۔

پیغام:

اولاد کی اصلاح اور تربیت کی فکر ایک اہم فکر ہے ان کی صلاح وبہتری کے لئے پروگرام ترتیب دیئے جائیں اور اس سلسلے میں مکمل کوشش کے ساتھ خدا سے ہدایت اور مدد طلب کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کی اخلاقی اور معنوی پیش رفت ان کے اچھے مستقبل کی نوید ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جس سے معنویت اور انسانیت کے دشمن خوفزدہ و ہراساں ہیں۔

۶۴

(18) مومنین کے لئے طلب رحمت کی دعا

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤمِناً وَّ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنٰتٍط وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا- (سوره مبارکه نوح ،٢٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شی میں اضافہ نہ کرنا۔

پیغام:

صاحبان ایمان رحمت اور مغفرت کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے والدین اپنی قوم و ملت اور تمام مومنین اور مومنات کے لئے طلب کرتے ہیں، مومنین کے لئے طلب رحمت اور ظالمین کے لئے عذاب کی دعا کرنا ہمارے اجتماعی اور معاشرتی کردار کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم مومنین کے سامنے متواضع اور ظالمین کے سامنے ثابت قدم اور استوار ہیں۔

(19) ثابت قدمی اور کفار پر کامیابی کی دعا

رَبَّنَا اغفرلَنٰا ذُنُوبَنا وَاسْرٰافَنَا فِیْ أَمْرِنٰا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنٰا وَانْصُرْنٰا عَلٰی الْقَوْمِ الکافِرِیْنَ - (سوره مبارکه آل عمران،١٤٧)

۶۵

ترجمہ:

خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے ، ہمارے امور میں زیادتیوں کو معاف فرما۔ ہمارے قدموں کو ثبات عطا فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

پیغام:

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہ بخش دے گا کیوں کہ وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اگر ہم تقویٰ الٰہی اختیار کریں اور حق کے راستہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو ہم یقینی طور پر کافروں پر غالب آسکتے ہیں۔

(20) صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کی دعا

رَبَّ هَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ- (سوره مبارکه شعرائ،٨٣)

ترجمہ:

خدایا مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے۔

پیغام:

وہ علم قابل قدر ہے جو صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کا پیش خیمہ ہو، وہ علم جو پرہیزگاری اور تقوٰے کے ساتھ ہو نور ہے اور انسان کوسعادت اور کمال تک پہونچاتا ہے اور وہ علم جو تقوے اور پرہیز گاری کے بغیر ہو خطرناک ہتھیار کی مانند ہے۔

۶۶

(21) نیک افراد کے ساتھ محشور ہونے کی دعا

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاتِنٰا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ- رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مٰا وَعَدتَّنٰا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنٰا یَوْمَ القِیٰامَةِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعٰاد-(سوره مبارکه آل عمران،١٩٣-١٩٤)

ترجمہ:

پروردگار اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ۔پروردگار جو تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے اُسے عطا فرما اور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تووعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

پیغام:

صالحین اورانبیاء کے ساتھ محشور ہونا ایک بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرتے ہوئے خدا سے دعا کرنی چاہیئے۔

۶۷

پانچویں فصل(علم)

۶۸

(1) قلم علامت علم

اِقْرائَ وَ رَبَّکَ الأَکْرَمُ- أَلَّذِی عَلَّم بِالْقَلَم-(سوره مبارکه علق ٣،٤)

ترجمہ:

پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔

پیغام:

انسان کا سب سے پہلا معلم خدا ہے۔ قرآن نے قلم کو تحصیل علم کے لیے ایک وسیلہ قرار دیا ہے اور تحصیل علم کے سلسلے میں استعداد کا ہونا خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ امام علی ـ سے روایت ہے ''علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے''۔

(2) تربیت اور تعلیم

یتلوا عَلَیْکُمْ اٰیٰاتُنٰا وَ یُزکّیکُمْ وَ یُعَلّمُکُم الْکِتٰابَ وَ الْحِکْمَة ---(سوره مبارکه بقره -١٠١)

۶۹

ترجمہ:

جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے تمہیں پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

پیغام:

انبیاء کا پہلا فریضہ تزکیہ نفس اور پھر تعلم دینا ہے۔

انبیاء خدائے حکیم کی طرف سے کتاب حکیم لے کر آئے تاکہ لوگوں کو حکمت اور صحیح فکر کی تعلیم دیں۔

(3) وہ علم جس کے انبیاء معلم ہیں

وَ یُعَلِّمُکُمْ مٰا لَمْ تکونوا تعلمون- (سوره مبارکه بقره ١٥١)

ترجمہ:

اور تمہیں وہ سب کچھ بتاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔

پیغام:

بشر مختلف علوم جیسے فیزیک، انجینیرنگ وغیرہ حاصل کرسکتا ہے لیکن انبیاء کرام بشر کی تربیت اور اس کی عقل کی رہنمائی کے ذریعہ اُسے دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ علم تجربی ایک ایسا وسیلہ ہے جسے ہم بناتے ہیں اور انبیاء ہمیں صحیح راہ کی شناخت کراتے ہیں جس کے ذریعہ معاشرہ میں عدالت کا قیام وجود میں آتا ہے اور اس طرح ایک معاشرہ کمال و سعادت تک پہنچ جاتا ہے۔صحیح ہدف تک پہنچنے کے لیے انسان عقل اور وحی دونوں کا محتاج ہے۔

۷۰

(4)اسماء حسنی کی تعلیم

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الأسْمٰائُ کُلَّهٰا ---(سوره مبارکه بقره ٣١)

ترجمہ:

اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

خداوند تمام کمالات کا سرچشمہ ہے اور اُس نے انسان کو تمام کمالات کے حصول کی استعداد عطا کی ہے۔

مختلف علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت سب خدائی جلوے ہیں جو انسان میں جلو گر ہوتے ہیں۔

(5) باعث افتخار

یرفع اللّٰهُ الَّذین اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا العِلْمَ درجات--- (سوره مبارکه مجادله ١١)

ترجمہ:

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

۷۱

پیغام:

مال و متاع انسان کے لیے باعث افتخار نہیں بلکہ باعث افتخار و امتیاز وہ درجہ ہے جو خدا نے اُسے عطا کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ باایمان صاحبان علم کو بلند درجہ عطا فرماتا ہے ۔ علم و ایمان انسان کی پرواز کے دو وسیلہ ہیں ایمان کے بغیر علم خطرناک ہے اور اسی طرح علم کے بغیر ایمان محض تعصب ہے لیکن اگر یہ دونوں جمع ہوجائیں تو انسان درجہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔

(6) ثمر علم

اِنَّمٰا یَخْشٰی اللّٰه مِنْ عِبٰادِه العُلمٰائُ-(سوره مبارکه فاطر،٢٨)

ترجمہ:

اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں۔

پیغام:

خشیت الٰہی معرفت کا ایسا بلند مقام ہے جس تک اہل علم ہی پہنچتے ہیں۔ اسرار کائنات سے آگاہی ، معرفت الٰہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جو علم و آگاہی کے باوجود توحید کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس درخت کی سے ہے جس میں پھل نہ ہو۔ امام علی ـ نے فرمایا: ثمر علم عبادت ہے۔

۷۲

(7) قدرت علم

قالَ الَّذِی عِنْدَه عِلْم مِنَ الْکِتٰاب آنَا اتیک به قبل ان یرَتَدَّ اِلَیْکَ طرفُکَ-(سوره مبارکه نمل ٤٠)

ترجمہ:

اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہ علم تھا اس نے کہا میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے۔

پیغام:

علم قدرت کا سرچشمہ ہے اہل علم عالم طبیعت پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ علم کی بے پناہ قدرت کو مقدس اھداف کے حصول کے لیے کام میں لانا چاہیئے۔ جیسا کہ جناب سلیمان ـ کے زمانہ میں آصف برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو حاضر کرکے اس کی ہدایت کا زمینہ فراہم کردیا تھا۔

(8) مقام و منصب کی شرط

وَ زادَهُ بسطَةً فِی الْعِلْم وَالجِسْم-(سوره مبارکه بقره،٢٤٧)

۷۳

ترجمہ:

اور ان کے علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

مقام ومنصب کے لیے علمی توانائی کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی ضروری ہے گرچہ علمی توانائی اہم ہے۔

مقام و منصب کے لیے مال و مقام معیار نہیں بلکہ علم و جسم کی وسعت کے ساتھ لوگوں کی خدمت معیار ہے۔

(9) وسیلہ امتحان

فَاِذَا مَسَّ الاِنْسَانَ ضُرّ دَعَانٰا ثُمَّ اِذَا خَوَّلنه' نِعْمَةً مِنَّا قَالَ اِنَّمَا أوتیتهُ عَلٰی عِلْمٍ بَلْ هِیَ فِتْنَة ---- (سوره مبارکه زمر،٤٩)

ترجمہ:

اور پھر جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے اور اس کے بعد جب ہم نعمت دیدیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم کی زور پر دی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک آزمائش ہے۔

پیغام:

ایمان کے بغیر علم انسان کو خودبین اور متکبر بنادیتا ہے اور یہ چیز تمام انحرافات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اہل معرفت ہمیشہ اور ہر حال میں خوشی اور غمی کے موقع پر خدا کو یاد کرتے ہیں۔ کسب علم کی استعداد خدا کی ایک عطا ہے۔ اور علم دوسری نعمتوں کی طرح انسان کی آزمائش کا ذریعہ ہے۔

۷۴

(10) کمال سے روکنے والا

قَالَ اِنَّمَا اوتیتهُ علٰی علمٍ عِنْدِی ---(سوره مبارکه قصص،٧٨)

ترجمہ:

قارون نے کہا مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بناء پر دیا گیا ہے۔

پیغام:

علم انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے اور ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی خدمت کے فرائض انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ علم فخر ومباہات کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ خدمت کا وسیلہ ہے اور علم وسیلہ تجارت بھی نہیں ہے جو لوگ علم کو کسب و تجارت کا وسیلہ قرار دیتے ہیں نہ وہ علم سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں اور نہ اکھٹا کی ہوئی دولت سے ۔ جس طرح قارون نہ علم سے فائدہ اٹھا سکا اور نہ دولت سے۔ امام علی ـ نے فرمایا: علم مال سے بہتر ہے۔ علم انبیاء کی وراثت ہے اور مال فرعون کی۔

(11)ذرائع علم

وَاللّٰهُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهٰاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شیئًا وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْأبْصٰارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلّکُمْ تشکرون- (سوره مبارکه نحل، ٧٨)

۷۵

ترجمہ:

اور اللہ ہی نے تمہیں شکم مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اسی نے تمھارے لیے آنکھ،کان اور دل قرار دیتے ہیں۔

پیغام:

تحصیل علم کے لیے استعداد اور اُن وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے جن کے ذریعہ ہم علم حاصل کرتے ہیں جیسے آنکھ کان وغیرہ۔ اور اُس نے یہ سب چیزیں ہماری درخواست سے پہلے ہی ہمیں عطا کردیں۔ اب جب کہ استعداد اور آنکھ کان وغیرہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ہیں تو ہمیں انہیں اُس کی راہ میں استعمال کرنا چاہئیے۔

علم اور اس کے وسائل کی صورت میں دی ہوئی نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ ہم انہیں لوگوں کی خدمت کرنے میں استعمال کریں۔

(12) صاحبان علم ہی صاحبا عقل ہیں

--- وَتِلْکَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاس وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلّا العٰالِمُونَ---(سوره مبارکه عنکبوت،٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۶

پیغام:

قرآن کی مثالیں عمیق ہیں عوام الناس کے علاوہ صاحبان علم و فھم کو بھی چاہیئے کہ ان میں دقت کریں قرآن صاحبان فکر اور اہل علم کو عظمت کے ساتھ یاد کرتا ہے ہمیں اہل علم اور صاحبان فکر میں سے ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے اہل علم ہی جانتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی چیز ان کی مددگار ثابت نہیں ہوسکتی ۔

(13) نقصان دہ علم

یُعَلِّمُونَ النّاسَ السِّحْرَ----فَیَتَعَلَّمونَ مِنْهُمٰا مٰا یُفَرِّقُونَ بِه بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِه ---(سوره مبارکه بقره،١٠٢)

ترجمہ:

کافر شیطانین لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے۔

پیغام:

وہ علوم جو لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سیکھے جائیں جیسے جادو وغیرہ ان کا سیکھنا ایک شیطانی کام ہے بلکہ کفر کی حد تک حرام ہے۔

علم ایک ایسا وسیلہ ہے کہ اگر اپنی صحیح راہ سے منحرف ہوجائے تو اُس سے سوء استفادہ کیا جاتا ہے نااہل آدمی کے پاس علم و ہنر کا ہونا نہ صرف مفید نہیں بلکہ معاشرے کے لیے مضر بھی ہے۔

۷۷

(14) سؤال

فَسْئَلُوا أَهلَ الذّکر ان کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

تو تم لوگ اگر نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔

پیغام:

زندگی کے اہم سوالات ان افراد سے پوچھے جائیں جو اہل علم و معرفت ہوں۔ جو خدا کے عطا کیے ہوئے خصوصی علم کے ذریعہ ہماری رہنمائی فرمائیں بہترین سوال کرنا ایک ایسافن ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا کی خوبصورتی اور تمام علوم سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

(15) راسخون فی العلم

وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ أَمَنَّا بِه کُلّ مِنْ عِنْدَ رِبِّنا وَ مَا یَذَّکَّرو اِلَّا أُولُو الأَلْبٰاب-(سوره مبارکه عمران،٧)

ترجمہ:

جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۸

پیغام:

خداوند عالم راسخون فی العلم کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔ راسخون فی العلم کی برجستہ اور روشن ترین مثال آئمہ معصومین ـ ہیں لیکن راہِ کمال و سعادت سب کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

صاحبان عقل اور صاحبان علم خدا کی آیات پر یقین رکھتے ہیں مگر جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اپنی آراء کو خدا کی آیات بات پر تحمیل کرتے ہیں۔

(16) جاننے والے اور نہ جاننے والے

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ اِنَّمَا یَتَذکَّرُ اولو الألْبٰاب-(سوره مبارکه زمر،٩)

ترجمہ:

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اُن کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔

پیغام:

جاہل اور عالم ظاہری طور پر برابر ہیں لیکن شخصیت کے اعتبار سے دونوں میں روشن دن اور تاریک رات جیسا فرق ہے یا خشک زمین اور صاف اور میٹھے چشمہ جیسا۔

علم ایک ایسی فضیلت ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: گہوراہ سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو۔

۷۹

(17) عالم بے عمل

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّورةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا کَمَثَلِ الحِمَار، یَحْمِلُ أسْفَارا---(سوره مبارکه جمعه ،٥)

ترجمہ:

ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے ہو۔

پیغام:

علم صحیح عمل اور صحیح زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے۔ بے عمل شخص اس حیوان کی مانند ہے۔ جس پر وزن لاد دیا گیا اور اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہ ہو۔

حیوان جس طرح کتابوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اُسی طرح ان کے ذریعہ نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا تو کیا وہ انسان جو اپنے علم سے سوء استفادہ کرتا ہے حیوان سے بدتر نہیں ہے؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204