معارف قرآن

معارف قرآن36%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181697 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

پیغام:

سیر وسلوک کا عمل کبھی نہیں روکتا ہے ، ہمیں اس سے یہی دعا کرنی چاہیے، کہ وہ اس سفر میں ہمیں روز بروزترقی عطا فرمائے ، ہم ایسی ذات سے اپنی بات کہتے ہیں اورایسی ذات سے محبت کرتے ہیںجو ہر چیز پر قدرت رکھتی ہے اور ہمیں سعادت و کمال تک پہونچا سکتی ہے۔

(۱۳) صبر و تحمل کیلئے دعا

رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْراً وّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ-(سوره مبارکه اعراف،٨٠)

ترجمہ:

خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہمیں مسلمان دنیا سے اُٹھانا۔

پیغام:

صاحبان ایمان زمانے کے فرعون کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کسی قوت اور طاقت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور اس میں استقامت کے لئے ہمیشہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں، صاحبان ایمان کا قیام ظالم اور ستمگر کیلئے شکست کا پیغام لے کر آتا ہے۔

استکبار اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و جور کی وجہ سے صاحبان ایمان کو اپنا ہدف نہیں چھوڑنا چاہئیے۔

۶۱

(۱۴) ظالموں سے بیزاری کیلئے دعا

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنٰا مَعَ الْقَوْمِ الظَلِمِیْنَ-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

پروردگار ا، ہم کو ظالمیں کے ساتھ نہ قرار دینا۔

پیغام:

جب اہل جنت، دوزخ کے پاس سے گزریں گے تو یہ دعا کریں گے ، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ قیامت میں ظالمیں کے ساتھ نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ دنیا میں ظلم سے پرہیز کرے۔ اس لئے کہ ظلم وستم اہل جہنم اور شفقت و مہربانی اہل جنت کی صفت ہے۔

(۱۵)شرح صدر کے لئے دعا

رَبِّ اشرَحْ لِیْ صَدْرِیْ- وَیسِّرْ لِی اَمْرِیْ- وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِی- یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ -

(سوره مبارکه طه،٢٥-٢٨)

۶۲

ترجمہ

:پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے۔

پیغام:

جب جناب موسیٰ ـ فرعون سے نبرد آزما ہوئے تو یہ دعا فرمائی۔

فرعونیوں سے مقابلے کے لئے ہمت اور ارادہ کی پختگی درکار ہوتی ہے، انبیاء اور ان کے پیروکاروں میں ارادہ کی غیر پختگی اور بے صبری نہیں پائی جاتی ہے۔ ہمیں خدا سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان صفات سے آراستہ کرے تاکہ ہم انبیاء کے بتائے ہوئے، راستے پر چل کر دین کی خدمت کرسکیں۔

(۱۶) شکر گذاری کیلئے دعا

رَبِّ اوزِعْنِیْ أَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَ أَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰاهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ-(سوره مبارکه احقاف،١٥)

ترجمہ:

پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے۔

۶۳

پیغام:

نعمت کی معرفت اور اُس پر شکر گذاری ایک ایسا بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہیے ، خدا کی نعمتوں پر عملی شکر یہ ہے کہ ہم ہر کام خدا کی مرضی کے مطابق انجام دیں۔ والدین نے جو زحمتیں اٹھائی ہیں انہیں نہ بھلائیں اور ان کے حق میں دعا کرتے رہیں ، صالح اور نیک فرزند خدا کی ایک نعمت سے جس کے لئے ہمیں اُس سے دعا کرنی چاہیے۔

(۱۷) فرزند صالح کے لئے دعا

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعٰآئِ- (سوره مبارکه آل عمران ،٣٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما کہ تو ہر ایک کی دعا سننے والا ہے۔

پیغام:

اولاد کی اصلاح اور تربیت کی فکر ایک اہم فکر ہے ان کی صلاح وبہتری کے لئے پروگرام ترتیب دیئے جائیں اور اس سلسلے میں مکمل کوشش کے ساتھ خدا سے ہدایت اور مدد طلب کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کی اخلاقی اور معنوی پیش رفت ان کے اچھے مستقبل کی نوید ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جس سے معنویت اور انسانیت کے دشمن خوفزدہ و ہراساں ہیں۔

۶۴

(۱۸) مومنین کے لئے طلب رحمت کی دعا

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤمِناً وَّ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنٰتٍط وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا- (سوره مبارکه نوح ،٢٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شی میں اضافہ نہ کرنا۔

پیغام:

صاحبان ایمان رحمت اور مغفرت کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے والدین اپنی قوم و ملت اور تمام مومنین اور مومنات کے لئے طلب کرتے ہیں، مومنین کے لئے طلب رحمت اور ظالمین کے لئے عذاب کی دعا کرنا ہمارے اجتماعی اور معاشرتی کردار کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم مومنین کے سامنے متواضع اور ظالمین کے سامنے ثابت قدم اور استوار ہیں۔

(۱۹) ثابت قدمی اور کفار پر کامیابی کی دعا

رَبَّنَا اغفرلَنٰا ذُنُوبَنا وَاسْرٰافَنَا فِیْ أَمْرِنٰا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنٰا وَانْصُرْنٰا عَلٰی الْقَوْمِ الکافِرِیْنَ - (سوره مبارکه آل عمران،١٤٧)

۶۵

ترجمہ:

خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے ، ہمارے امور میں زیادتیوں کو معاف فرما۔ ہمارے قدموں کو ثبات عطا فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

پیغام:

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہ بخش دے گا کیوں کہ وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اگر ہم تقویٰ الٰہی اختیار کریں اور حق کے راستہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو ہم یقینی طور پر کافروں پر غالب آسکتے ہیں۔

(۲۰) صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کی دعا

رَبَّ هَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ- (سوره مبارکه شعرائ،٨٣)

ترجمہ:

خدایا مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے۔

پیغام:

وہ علم قابل قدر ہے جو صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کا پیش خیمہ ہو، وہ علم جو پرہیزگاری اور تقوٰے کے ساتھ ہو نور ہے اور انسان کوسعادت اور کمال تک پہونچاتا ہے اور وہ علم جو تقوے اور پرہیز گاری کے بغیر ہو خطرناک ہتھیار کی مانند ہے۔

۶۶

(۲۱) نیک افراد کے ساتھ محشور ہونے کی دعا

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاتِنٰا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ- رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مٰا وَعَدتَّنٰا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنٰا یَوْمَ القِیٰامَةِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعٰاد-(سوره مبارکه آل عمران،١٩٣-١٩٤)

ترجمہ:

پروردگار اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ۔پروردگار جو تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے اُسے عطا فرما اور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تووعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

پیغام:

صالحین اورانبیاء کے ساتھ محشور ہونا ایک بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرتے ہوئے خدا سے دعا کرنی چاہیئے۔

۶۷

پانچویں فصل(علم)

۶۸

(۱) قلم علامت علم

اِقْرائَ وَ رَبَّکَ الأَکْرَمُ- أَلَّذِی عَلَّم بِالْقَلَم-(سوره مبارکه علق ٣،٤)

ترجمہ:

پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔

پیغام:

انسان کا سب سے پہلا معلم خدا ہے۔ قرآن نے قلم کو تحصیل علم کے لیے ایک وسیلہ قرار دیا ہے اور تحصیل علم کے سلسلے میں استعداد کا ہونا خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ امام علی ـ سے روایت ہے ''علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے''۔

(۲) تربیت اور تعلیم

یتلوا عَلَیْکُمْ اٰیٰاتُنٰا وَ یُزکّیکُمْ وَ یُعَلّمُکُم الْکِتٰابَ وَ الْحِکْمَة ---(سوره مبارکه بقره -١٠١)

۶۹

ترجمہ:

جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے تمہیں پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

پیغام:

انبیاء کا پہلا فریضہ تزکیہ نفس اور پھر تعلم دینا ہے۔

انبیاء خدائے حکیم کی طرف سے کتاب حکیم لے کر آئے تاکہ لوگوں کو حکمت اور صحیح فکر کی تعلیم دیں۔

(۳) وہ علم جس کے انبیاء معلم ہیں

وَ یُعَلِّمُکُمْ مٰا لَمْ تکونوا تعلمون- (سوره مبارکه بقره ١٥١)

ترجمہ:

اور تمہیں وہ سب کچھ بتاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔

پیغام:

بشر مختلف علوم جیسے فیزیک، انجینیرنگ وغیرہ حاصل کرسکتا ہے لیکن انبیاء کرام بشر کی تربیت اور اس کی عقل کی رہنمائی کے ذریعہ اُسے دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ علم تجربی ایک ایسا وسیلہ ہے جسے ہم بناتے ہیں اور انبیاء ہمیں صحیح راہ کی شناخت کراتے ہیں جس کے ذریعہ معاشرہ میں عدالت کا قیام وجود میں آتا ہے اور اس طرح ایک معاشرہ کمال و سعادت تک پہنچ جاتا ہے۔صحیح ہدف تک پہنچنے کے لیے انسان عقل اور وحی دونوں کا محتاج ہے۔

۷۰

(۴)اسماء حسنی کی تعلیم

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الأسْمٰائُ کُلَّهٰا ---(سوره مبارکه بقره ٣١)

ترجمہ:

اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

خداوند تمام کمالات کا سرچشمہ ہے اور اُس نے انسان کو تمام کمالات کے حصول کی استعداد عطا کی ہے۔

مختلف علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت سب خدائی جلوے ہیں جو انسان میں جلو گر ہوتے ہیں۔

(۵) باعث افتخار

یرفع اللّٰهُ الَّذین اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا العِلْمَ درجات--- (سوره مبارکه مجادله ١١)

ترجمہ:

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

۷۱

پیغام:

مال و متاع انسان کے لیے باعث افتخار نہیں بلکہ باعث افتخار و امتیاز وہ درجہ ہے جو خدا نے اُسے عطا کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ باایمان صاحبان علم کو بلند درجہ عطا فرماتا ہے ۔ علم و ایمان انسان کی پرواز کے دو وسیلہ ہیں ایمان کے بغیر علم خطرناک ہے اور اسی طرح علم کے بغیر ایمان محض تعصب ہے لیکن اگر یہ دونوں جمع ہوجائیں تو انسان درجہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔

(۶) ثمر علم

اِنَّمٰا یَخْشٰی اللّٰه مِنْ عِبٰادِه العُلمٰائُ-(سوره مبارکه فاطر،٢٨)

ترجمہ:

اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں۔

پیغام:

خشیت الٰہی معرفت کا ایسا بلند مقام ہے جس تک اہل علم ہی پہنچتے ہیں۔ اسرار کائنات سے آگاہی ، معرفت الٰہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جو علم و آگاہی کے باوجود توحید کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس درخت کی سے ہے جس میں پھل نہ ہو۔ امام علی ـ نے فرمایا: ثمر علم عبادت ہے۔

۷۲

(۷) قدرت علم

قالَ الَّذِی عِنْدَه عِلْم مِنَ الْکِتٰاب آنَا اتیک به قبل ان یرَتَدَّ اِلَیْکَ طرفُکَ-(سوره مبارکه نمل ٤٠)

ترجمہ:

اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہ علم تھا اس نے کہا میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے۔

پیغام:

علم قدرت کا سرچشمہ ہے اہل علم عالم طبیعت پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ علم کی بے پناہ قدرت کو مقدس اھداف کے حصول کے لیے کام میں لانا چاہیئے۔ جیسا کہ جناب سلیمان ـ کے زمانہ میں آصف برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو حاضر کرکے اس کی ہدایت کا زمینہ فراہم کردیا تھا۔

(۸) مقام و منصب کی شرط

وَ زادَهُ بسطَةً فِی الْعِلْم وَالجِسْم-(سوره مبارکه بقره،٢٤٧)

۷۳

ترجمہ:

اور ان کے علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

مقام ومنصب کے لیے علمی توانائی کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی ضروری ہے گرچہ علمی توانائی اہم ہے۔

مقام و منصب کے لیے مال و مقام معیار نہیں بلکہ علم و جسم کی وسعت کے ساتھ لوگوں کی خدمت معیار ہے۔

(۹) وسیلہ امتحان

فَاِذَا مَسَّ الاِنْسَانَ ضُرّ دَعَانٰا ثُمَّ اِذَا خَوَّلنه' نِعْمَةً مِنَّا قَالَ اِنَّمَا أوتیتهُ عَلٰی عِلْمٍ بَلْ هِیَ فِتْنَة ---- (سوره مبارکه زمر،٤٩)

ترجمہ:

اور پھر جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے اور اس کے بعد جب ہم نعمت دیدیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم کی زور پر دی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک آزمائش ہے۔

پیغام:

ایمان کے بغیر علم انسان کو خودبین اور متکبر بنادیتا ہے اور یہ چیز تمام انحرافات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اہل معرفت ہمیشہ اور ہر حال میں خوشی اور غمی کے موقع پر خدا کو یاد کرتے ہیں۔ کسب علم کی استعداد خدا کی ایک عطا ہے۔ اور علم دوسری نعمتوں کی طرح انسان کی آزمائش کا ذریعہ ہے۔

۷۴

(۱۰) کمال سے روکنے والا

قَالَ اِنَّمَا اوتیتهُ علٰی علمٍ عِنْدِی ---(سوره مبارکه قصص،٧٨)

ترجمہ:

قارون نے کہا مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بناء پر دیا گیا ہے۔

پیغام:

علم انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے اور ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی خدمت کے فرائض انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ علم فخر ومباہات کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ خدمت کا وسیلہ ہے اور علم وسیلہ تجارت بھی نہیں ہے جو لوگ علم کو کسب و تجارت کا وسیلہ قرار دیتے ہیں نہ وہ علم سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں اور نہ اکھٹا کی ہوئی دولت سے ۔ جس طرح قارون نہ علم سے فائدہ اٹھا سکا اور نہ دولت سے۔ امام علی ـ نے فرمایا: علم مال سے بہتر ہے۔ علم انبیاء کی وراثت ہے اور مال فرعون کی۔

(۱۱)ذرائع علم

وَاللّٰهُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهٰاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شیئًا وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْأبْصٰارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلّکُمْ تشکرون- (سوره مبارکه نحل، ٧٨)

۷۵

ترجمہ:

اور اللہ ہی نے تمہیں شکم مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اسی نے تمھارے لیے آنکھ،کان اور دل قرار دیتے ہیں۔

پیغام:

تحصیل علم کے لیے استعداد اور اُن وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے جن کے ذریعہ ہم علم حاصل کرتے ہیں جیسے آنکھ کان وغیرہ۔ اور اُس نے یہ سب چیزیں ہماری درخواست سے پہلے ہی ہمیں عطا کردیں۔ اب جب کہ استعداد اور آنکھ کان وغیرہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ہیں تو ہمیں انہیں اُس کی راہ میں استعمال کرنا چاہئیے۔

علم اور اس کے وسائل کی صورت میں دی ہوئی نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ ہم انہیں لوگوں کی خدمت کرنے میں استعمال کریں۔

(۱۲) صاحبان علم ہی صاحبا عقل ہیں

--- وَتِلْکَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاس وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلّا العٰالِمُونَ---(سوره مبارکه عنکبوت،٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۶

پیغام:

قرآن کی مثالیں عمیق ہیں عوام الناس کے علاوہ صاحبان علم و فھم کو بھی چاہیئے کہ ان میں دقت کریں قرآن صاحبان فکر اور اہل علم کو عظمت کے ساتھ یاد کرتا ہے ہمیں اہل علم اور صاحبان فکر میں سے ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے اہل علم ہی جانتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی چیز ان کی مددگار ثابت نہیں ہوسکتی ۔

(۱۳) نقصان دہ علم

یُعَلِّمُونَ النّاسَ السِّحْرَ----فَیَتَعَلَّمونَ مِنْهُمٰا مٰا یُفَرِّقُونَ بِه بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِه ---(سوره مبارکه بقره،١٠٢)

ترجمہ:

کافر شیطانین لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے۔

پیغام:

وہ علوم جو لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سیکھے جائیں جیسے جادو وغیرہ ان کا سیکھنا ایک شیطانی کام ہے بلکہ کفر کی حد تک حرام ہے۔

علم ایک ایسا وسیلہ ہے کہ اگر اپنی صحیح راہ سے منحرف ہوجائے تو اُس سے سوء استفادہ کیا جاتا ہے نااہل آدمی کے پاس علم و ہنر کا ہونا نہ صرف مفید نہیں بلکہ معاشرے کے لیے مضر بھی ہے۔

۷۷

(۱۴) سؤال

فَسْئَلُوا أَهلَ الذّکر ان کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

تو تم لوگ اگر نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔

پیغام:

زندگی کے اہم سوالات ان افراد سے پوچھے جائیں جو اہل علم و معرفت ہوں۔ جو خدا کے عطا کیے ہوئے خصوصی علم کے ذریعہ ہماری رہنمائی فرمائیں بہترین سوال کرنا ایک ایسافن ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا کی خوبصورتی اور تمام علوم سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

(۱۵) راسخون فی العلم

وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ أَمَنَّا بِه کُلّ مِنْ عِنْدَ رِبِّنا وَ مَا یَذَّکَّرو اِلَّا أُولُو الأَلْبٰاب-(سوره مبارکه عمران،٧)

ترجمہ:

جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۸

پیغام:

خداوند عالم راسخون فی العلم کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔ راسخون فی العلم کی برجستہ اور روشن ترین مثال آئمہ معصومین ـ ہیں لیکن راہِ کمال و سعادت سب کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

صاحبان عقل اور صاحبان علم خدا کی آیات پر یقین رکھتے ہیں مگر جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اپنی آراء کو خدا کی آیات بات پر تحمیل کرتے ہیں۔

(۱۶) جاننے والے اور نہ جاننے والے

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ اِنَّمَا یَتَذکَّرُ اولو الألْبٰاب-(سوره مبارکه زمر،٩)

ترجمہ:

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اُن کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔

پیغام:

جاہل اور عالم ظاہری طور پر برابر ہیں لیکن شخصیت کے اعتبار سے دونوں میں روشن دن اور تاریک رات جیسا فرق ہے یا خشک زمین اور صاف اور میٹھے چشمہ جیسا۔

علم ایک ایسی فضیلت ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: گہوراہ سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو۔

۷۹

(۱۷) عالم بے عمل

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّورةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا کَمَثَلِ الحِمَار، یَحْمِلُ أسْفَارا---(سوره مبارکه جمعه ،٥)

ترجمہ:

ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے ہو۔

پیغام:

علم صحیح عمل اور صحیح زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے۔ بے عمل شخص اس حیوان کی مانند ہے۔ جس پر وزن لاد دیا گیا اور اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہ ہو۔

حیوان جس طرح کتابوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اُسی طرح ان کے ذریعہ نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا تو کیا وہ انسان جو اپنے علم سے سوء استفادہ کرتا ہے حیوان سے بدتر نہیں ہے؟

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204