معارف قرآن

معارف قرآن18%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181684 / ڈاؤنلوڈ: 3533
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

پیغام:

سیر وسلوک کا عمل کبھی نہیں روکتا ہے ، ہمیں اس سے یہی دعا کرنی چاہیے، کہ وہ اس سفر میں ہمیں روز بروزترقی عطا فرمائے ، ہم ایسی ذات سے اپنی بات کہتے ہیں اورایسی ذات سے محبت کرتے ہیںجو ہر چیز پر قدرت رکھتی ہے اور ہمیں سعادت و کمال تک پہونچا سکتی ہے۔

(۱۳) صبر و تحمل کیلئے دعا

رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْراً وّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ-(سوره مبارکه اعراف،٨٠)

ترجمہ:

خدایا ہم پر صبر کی بارش فرما اور ہمیں مسلمان دنیا سے اُٹھانا۔

پیغام:

صاحبان ایمان زمانے کے فرعون کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کسی قوت اور طاقت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور اس میں استقامت کے لئے ہمیشہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہیں، صاحبان ایمان کا قیام ظالم اور ستمگر کیلئے شکست کا پیغام لے کر آتا ہے۔

استکبار اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و جور کی وجہ سے صاحبان ایمان کو اپنا ہدف نہیں چھوڑنا چاہئیے۔

۶۱

(۱۴) ظالموں سے بیزاری کیلئے دعا

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنٰا مَعَ الْقَوْمِ الظَلِمِیْنَ-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

پروردگار ا، ہم کو ظالمیں کے ساتھ نہ قرار دینا۔

پیغام:

جب اہل جنت، دوزخ کے پاس سے گزریں گے تو یہ دعا کریں گے ، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ قیامت میں ظالمیں کے ساتھ نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ دنیا میں ظلم سے پرہیز کرے۔ اس لئے کہ ظلم وستم اہل جہنم اور شفقت و مہربانی اہل جنت کی صفت ہے۔

(۱۵)شرح صدر کے لئے دعا

رَبِّ اشرَحْ لِیْ صَدْرِیْ- وَیسِّرْ لِی اَمْرِیْ- وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِی- یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ -

(سوره مبارکه طه،٢٥-٢٨)

۶۲

ترجمہ

:پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے۔

پیغام:

جب جناب موسیٰ ـ فرعون سے نبرد آزما ہوئے تو یہ دعا فرمائی۔

فرعونیوں سے مقابلے کے لئے ہمت اور ارادہ کی پختگی درکار ہوتی ہے، انبیاء اور ان کے پیروکاروں میں ارادہ کی غیر پختگی اور بے صبری نہیں پائی جاتی ہے۔ ہمیں خدا سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان صفات سے آراستہ کرے تاکہ ہم انبیاء کے بتائے ہوئے، راستے پر چل کر دین کی خدمت کرسکیں۔

(۱۶) شکر گذاری کیلئے دعا

رَبِّ اوزِعْنِیْ أَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَ أَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰاهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ-(سوره مبارکه احقاف،١٥)

ترجمہ:

پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے۔

۶۳

پیغام:

نعمت کی معرفت اور اُس پر شکر گذاری ایک ایسا بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہیے ، خدا کی نعمتوں پر عملی شکر یہ ہے کہ ہم ہر کام خدا کی مرضی کے مطابق انجام دیں۔ والدین نے جو زحمتیں اٹھائی ہیں انہیں نہ بھلائیں اور ان کے حق میں دعا کرتے رہیں ، صالح اور نیک فرزند خدا کی ایک نعمت سے جس کے لئے ہمیں اُس سے دعا کرنی چاہیے۔

(۱۷) فرزند صالح کے لئے دعا

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعٰآئِ- (سوره مبارکه آل عمران ،٣٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما کہ تو ہر ایک کی دعا سننے والا ہے۔

پیغام:

اولاد کی اصلاح اور تربیت کی فکر ایک اہم فکر ہے ان کی صلاح وبہتری کے لئے پروگرام ترتیب دیئے جائیں اور اس سلسلے میں مکمل کوشش کے ساتھ خدا سے ہدایت اور مدد طلب کرنی چاہیے۔ نوجوان نسل کی اخلاقی اور معنوی پیش رفت ان کے اچھے مستقبل کی نوید ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جس سے معنویت اور انسانیت کے دشمن خوفزدہ و ہراساں ہیں۔

۶۴

(۱۸) مومنین کے لئے طلب رحمت کی دعا

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤمِناً وَّ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنٰتٍط وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا- (سوره مبارکه نوح ،٢٨)

ترجمہ:

پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شی میں اضافہ نہ کرنا۔

پیغام:

صاحبان ایمان رحمت اور مغفرت کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے والدین اپنی قوم و ملت اور تمام مومنین اور مومنات کے لئے طلب کرتے ہیں، مومنین کے لئے طلب رحمت اور ظالمین کے لئے عذاب کی دعا کرنا ہمارے اجتماعی اور معاشرتی کردار کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم مومنین کے سامنے متواضع اور ظالمین کے سامنے ثابت قدم اور استوار ہیں۔

(۱۹) ثابت قدمی اور کفار پر کامیابی کی دعا

رَبَّنَا اغفرلَنٰا ذُنُوبَنا وَاسْرٰافَنَا فِیْ أَمْرِنٰا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنٰا وَانْصُرْنٰا عَلٰی الْقَوْمِ الکافِرِیْنَ - (سوره مبارکه آل عمران،١٤٧)

۶۵

ترجمہ:

خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے ، ہمارے امور میں زیادتیوں کو معاف فرما۔ ہمارے قدموں کو ثبات عطا فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

پیغام:

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہ بخش دے گا کیوں کہ وہ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اگر ہم تقویٰ الٰہی اختیار کریں اور حق کے راستہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو ہم یقینی طور پر کافروں پر غالب آسکتے ہیں۔

(۲۰) صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کی دعا

رَبَّ هَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ- (سوره مبارکه شعرائ،٨٣)

ترجمہ:

خدایا مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے۔

پیغام:

وہ علم قابل قدر ہے جو صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کا پیش خیمہ ہو، وہ علم جو پرہیزگاری اور تقوٰے کے ساتھ ہو نور ہے اور انسان کوسعادت اور کمال تک پہونچاتا ہے اور وہ علم جو تقوے اور پرہیز گاری کے بغیر ہو خطرناک ہتھیار کی مانند ہے۔

۶۶

(۲۱) نیک افراد کے ساتھ محشور ہونے کی دعا

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّاتِنٰا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ- رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مٰا وَعَدتَّنٰا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنٰا یَوْمَ القِیٰامَةِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعٰاد-(سوره مبارکه آل عمران،١٩٣-١٩٤)

ترجمہ:

پروردگار اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ۔پروردگار جو تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے اُسے عطا فرما اور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تووعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔

پیغام:

صالحین اورانبیاء کے ساتھ محشور ہونا ایک بلند و بالا مقام ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرتے ہوئے خدا سے دعا کرنی چاہیئے۔

۶۷

پانچویں فصل(علم)

۶۸

(۱) قلم علامت علم

اِقْرائَ وَ رَبَّکَ الأَکْرَمُ- أَلَّذِی عَلَّم بِالْقَلَم-(سوره مبارکه علق ٣،٤)

ترجمہ:

پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔

پیغام:

انسان کا سب سے پہلا معلم خدا ہے۔ قرآن نے قلم کو تحصیل علم کے لیے ایک وسیلہ قرار دیا ہے اور تحصیل علم کے سلسلے میں استعداد کا ہونا خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ امام علی ـ سے روایت ہے ''علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے''۔

(۲) تربیت اور تعلیم

یتلوا عَلَیْکُمْ اٰیٰاتُنٰا وَ یُزکّیکُمْ وَ یُعَلّمُکُم الْکِتٰابَ وَ الْحِکْمَة ---(سوره مبارکه بقره -١٠١)

۶۹

ترجمہ:

جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے تمہیں پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

پیغام:

انبیاء کا پہلا فریضہ تزکیہ نفس اور پھر تعلم دینا ہے۔

انبیاء خدائے حکیم کی طرف سے کتاب حکیم لے کر آئے تاکہ لوگوں کو حکمت اور صحیح فکر کی تعلیم دیں۔

(۳) وہ علم جس کے انبیاء معلم ہیں

وَ یُعَلِّمُکُمْ مٰا لَمْ تکونوا تعلمون- (سوره مبارکه بقره ١٥١)

ترجمہ:

اور تمہیں وہ سب کچھ بتاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔

پیغام:

بشر مختلف علوم جیسے فیزیک، انجینیرنگ وغیرہ حاصل کرسکتا ہے لیکن انبیاء کرام بشر کی تربیت اور اس کی عقل کی رہنمائی کے ذریعہ اُسے دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ علم تجربی ایک ایسا وسیلہ ہے جسے ہم بناتے ہیں اور انبیاء ہمیں صحیح راہ کی شناخت کراتے ہیں جس کے ذریعہ معاشرہ میں عدالت کا قیام وجود میں آتا ہے اور اس طرح ایک معاشرہ کمال و سعادت تک پہنچ جاتا ہے۔صحیح ہدف تک پہنچنے کے لیے انسان عقل اور وحی دونوں کا محتاج ہے۔

۷۰

(۴)اسماء حسنی کی تعلیم

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الأسْمٰائُ کُلَّهٰا ---(سوره مبارکه بقره ٣١)

ترجمہ:

اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

خداوند تمام کمالات کا سرچشمہ ہے اور اُس نے انسان کو تمام کمالات کے حصول کی استعداد عطا کی ہے۔

مختلف علوم اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت سب خدائی جلوے ہیں جو انسان میں جلو گر ہوتے ہیں۔

(۵) باعث افتخار

یرفع اللّٰهُ الَّذین اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا العِلْمَ درجات--- (سوره مبارکه مجادله ١١)

ترجمہ:

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

۷۱

پیغام:

مال و متاع انسان کے لیے باعث افتخار نہیں بلکہ باعث افتخار و امتیاز وہ درجہ ہے جو خدا نے اُسے عطا کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ باایمان صاحبان علم کو بلند درجہ عطا فرماتا ہے ۔ علم و ایمان انسان کی پرواز کے دو وسیلہ ہیں ایمان کے بغیر علم خطرناک ہے اور اسی طرح علم کے بغیر ایمان محض تعصب ہے لیکن اگر یہ دونوں جمع ہوجائیں تو انسان درجہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔

(۶) ثمر علم

اِنَّمٰا یَخْشٰی اللّٰه مِنْ عِبٰادِه العُلمٰائُ-(سوره مبارکه فاطر،٢٨)

ترجمہ:

اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں۔

پیغام:

خشیت الٰہی معرفت کا ایسا بلند مقام ہے جس تک اہل علم ہی پہنچتے ہیں۔ اسرار کائنات سے آگاہی ، معرفت الٰہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جو علم و آگاہی کے باوجود توحید کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس درخت کی سے ہے جس میں پھل نہ ہو۔ امام علی ـ نے فرمایا: ثمر علم عبادت ہے۔

۷۲

(۷) قدرت علم

قالَ الَّذِی عِنْدَه عِلْم مِنَ الْکِتٰاب آنَا اتیک به قبل ان یرَتَدَّ اِلَیْکَ طرفُکَ-(سوره مبارکه نمل ٤٠)

ترجمہ:

اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہ علم تھا اس نے کہا میں اتنی جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے۔

پیغام:

علم قدرت کا سرچشمہ ہے اہل علم عالم طبیعت پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ علم کی بے پناہ قدرت کو مقدس اھداف کے حصول کے لیے کام میں لانا چاہیئے۔ جیسا کہ جناب سلیمان ـ کے زمانہ میں آصف برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو حاضر کرکے اس کی ہدایت کا زمینہ فراہم کردیا تھا۔

(۸) مقام و منصب کی شرط

وَ زادَهُ بسطَةً فِی الْعِلْم وَالجِسْم-(سوره مبارکه بقره،٢٤٧)

۷۳

ترجمہ:

اور ان کے علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

مقام ومنصب کے لیے علمی توانائی کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی ضروری ہے گرچہ علمی توانائی اہم ہے۔

مقام و منصب کے لیے مال و مقام معیار نہیں بلکہ علم و جسم کی وسعت کے ساتھ لوگوں کی خدمت معیار ہے۔

(۹) وسیلہ امتحان

فَاِذَا مَسَّ الاِنْسَانَ ضُرّ دَعَانٰا ثُمَّ اِذَا خَوَّلنه' نِعْمَةً مِنَّا قَالَ اِنَّمَا أوتیتهُ عَلٰی عِلْمٍ بَلْ هِیَ فِتْنَة ---- (سوره مبارکه زمر،٤٩)

ترجمہ:

اور پھر جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے اور اس کے بعد جب ہم نعمت دیدیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم کی زور پر دی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک آزمائش ہے۔

پیغام:

ایمان کے بغیر علم انسان کو خودبین اور متکبر بنادیتا ہے اور یہ چیز تمام انحرافات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اہل معرفت ہمیشہ اور ہر حال میں خوشی اور غمی کے موقع پر خدا کو یاد کرتے ہیں۔ کسب علم کی استعداد خدا کی ایک عطا ہے۔ اور علم دوسری نعمتوں کی طرح انسان کی آزمائش کا ذریعہ ہے۔

۷۴

(۱۰) کمال سے روکنے والا

قَالَ اِنَّمَا اوتیتهُ علٰی علمٍ عِنْدِی ---(سوره مبارکه قصص،٧٨)

ترجمہ:

قارون نے کہا مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بناء پر دیا گیا ہے۔

پیغام:

علم انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے اور ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی خدمت کے فرائض انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ علم فخر ومباہات کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ خدمت کا وسیلہ ہے اور علم وسیلہ تجارت بھی نہیں ہے جو لوگ علم کو کسب و تجارت کا وسیلہ قرار دیتے ہیں نہ وہ علم سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں اور نہ اکھٹا کی ہوئی دولت سے ۔ جس طرح قارون نہ علم سے فائدہ اٹھا سکا اور نہ دولت سے۔ امام علی ـ نے فرمایا: علم مال سے بہتر ہے۔ علم انبیاء کی وراثت ہے اور مال فرعون کی۔

(۱۱)ذرائع علم

وَاللّٰهُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهٰاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شیئًا وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْأبْصٰارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلّکُمْ تشکرون- (سوره مبارکه نحل، ٧٨)

۷۵

ترجمہ:

اور اللہ ہی نے تمہیں شکم مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اسی نے تمھارے لیے آنکھ،کان اور دل قرار دیتے ہیں۔

پیغام:

تحصیل علم کے لیے استعداد اور اُن وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے جن کے ذریعہ ہم علم حاصل کرتے ہیں جیسے آنکھ کان وغیرہ۔ اور اُس نے یہ سب چیزیں ہماری درخواست سے پہلے ہی ہمیں عطا کردیں۔ اب جب کہ استعداد اور آنکھ کان وغیرہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ہیں تو ہمیں انہیں اُس کی راہ میں استعمال کرنا چاہئیے۔

علم اور اس کے وسائل کی صورت میں دی ہوئی نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ ہم انہیں لوگوں کی خدمت کرنے میں استعمال کریں۔

(۱۲) صاحبان علم ہی صاحبا عقل ہیں

--- وَتِلْکَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهٰا لِلنَّاس وَمَا یَعْقِلْهٰا اِلّا العٰالِمُونَ---(سوره مبارکه عنکبوت،٤٣)

ترجمہ:

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لیے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۶

پیغام:

قرآن کی مثالیں عمیق ہیں عوام الناس کے علاوہ صاحبان علم و فھم کو بھی چاہیئے کہ ان میں دقت کریں قرآن صاحبان فکر اور اہل علم کو عظمت کے ساتھ یاد کرتا ہے ہمیں اہل علم اور صاحبان فکر میں سے ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے اہل علم ہی جانتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی چیز ان کی مددگار ثابت نہیں ہوسکتی ۔

(۱۳) نقصان دہ علم

یُعَلِّمُونَ النّاسَ السِّحْرَ----فَیَتَعَلَّمونَ مِنْهُمٰا مٰا یُفَرِّقُونَ بِه بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِه ---(سوره مبارکه بقره،١٠٢)

ترجمہ:

کافر شیطانین لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے۔

پیغام:

وہ علوم جو لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سیکھے جائیں جیسے جادو وغیرہ ان کا سیکھنا ایک شیطانی کام ہے بلکہ کفر کی حد تک حرام ہے۔

علم ایک ایسا وسیلہ ہے کہ اگر اپنی صحیح راہ سے منحرف ہوجائے تو اُس سے سوء استفادہ کیا جاتا ہے نااہل آدمی کے پاس علم و ہنر کا ہونا نہ صرف مفید نہیں بلکہ معاشرے کے لیے مضر بھی ہے۔

۷۷

(۱۴) سؤال

فَسْئَلُوا أَهلَ الذّکر ان کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون-(سوره مبارکه اعراف،٤٧)

ترجمہ:

تو تم لوگ اگر نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔

پیغام:

زندگی کے اہم سوالات ان افراد سے پوچھے جائیں جو اہل علم و معرفت ہوں۔ جو خدا کے عطا کیے ہوئے خصوصی علم کے ذریعہ ہماری رہنمائی فرمائیں بہترین سوال کرنا ایک ایسافن ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا کی خوبصورتی اور تمام علوم سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

(۱۵) راسخون فی العلم

وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ أَمَنَّا بِه کُلّ مِنْ عِنْدَ رِبِّنا وَ مَا یَذَّکَّرو اِلَّا أُولُو الأَلْبٰاب-(سوره مبارکه عمران،٧)

ترجمہ:

جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔

۷۸

پیغام:

خداوند عالم راسخون فی العلم کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔ راسخون فی العلم کی برجستہ اور روشن ترین مثال آئمہ معصومین ـ ہیں لیکن راہِ کمال و سعادت سب کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

صاحبان عقل اور صاحبان علم خدا کی آیات پر یقین رکھتے ہیں مگر جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اپنی آراء کو خدا کی آیات بات پر تحمیل کرتے ہیں۔

(۱۶) جاننے والے اور نہ جاننے والے

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ اِنَّمَا یَتَذکَّرُ اولو الألْبٰاب-(سوره مبارکه زمر،٩)

ترجمہ:

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اُن کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں۔

پیغام:

جاہل اور عالم ظاہری طور پر برابر ہیں لیکن شخصیت کے اعتبار سے دونوں میں روشن دن اور تاریک رات جیسا فرق ہے یا خشک زمین اور صاف اور میٹھے چشمہ جیسا۔

علم ایک ایسی فضیلت ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: گہوراہ سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو۔

۷۹

(۱۷) عالم بے عمل

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّورةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا کَمَثَلِ الحِمَار، یَحْمِلُ أسْفَارا---(سوره مبارکه جمعه ،٥)

ترجمہ:

ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے ہو۔

پیغام:

علم صحیح عمل اور صحیح زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے۔ بے عمل شخص اس حیوان کی مانند ہے۔ جس پر وزن لاد دیا گیا اور اُس کا اُسے کوئی فائدہ نہ ہو۔

حیوان جس طرح کتابوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اُسی طرح ان کے ذریعہ نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا تو کیا وہ انسان جو اپنے علم سے سوء استفادہ کرتا ہے حیوان سے بدتر نہیں ہے؟

۸۰

(18) علم و قدرت خدمت انسان میں

رَبِّ قَدْ أَتَیتَنِی مِنَ الْمُلِ و عَلَّمْتَنِی مِنْ تَأوِیلِ الأحٰادِیْثِ --- تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَ أَلْحِقْنِیْ بِالصَالِحِیْنَ- (سوره مبارکه یوسف ،١٠١)

ترجمہ:

پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا۔ مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا۔

پیغام:

عادلانہ حکومت کے قیام کے لیے علم اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صالحین حکومت کو رضائے الٰہی اور لوگوں کی خدمت کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں خدا سے راز و نیاز اور دعا کرتے رہنی چاہیئے۔

جو لوگ صاحب علم و قدرت ہیں انہیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ خدا کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

(19) معلم بزرگ

الرَّحْمٰان- عَلَّمَ القُرآنَ - خَلَقَ الْاِنْسٰانَ - عَلَّمَهُ البَیَان- (سوره مبارکه رحمن، ١-٤)

۸۱

ترجمہ:

وہ خدا بڑا مہربان ہے۔ اس نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو پیدا کیا ہے۔ اور اسے بیان سکھایا ہے۔

پیغام:

قرآن کی تعلیم انسان کی تخلیق سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے اس لیے کہ اگر انسان کے پاس نور ہدایت نہ ہو تو وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔

ہم انسانوں کو چاہئیے کہ اُس عظیم معلم کے لائق اور فرمانبردار شاگرد بنیں۔

(20) علم اور تقویٰ

وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شیئٍ عَلِیْمٍ- (سوره مبارکه بقره، ٢٨٢)

ترجمہ:

اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

پیغام:

پاکیزہ دل ، ذرخیز زمین کی مانند ہے جس میں علوم پروان چڑھتے ہیں خداوند تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے وہ ہماری ہر ضرورت سے واقف ہے اور اپنے وسیع علم کی بناء پر ہمیں سعادت مند زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے۔

۸۲

(21)خیر فراوان

وَمَنْ یُؤتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْراً کثیرا-(سوره مبارکه بقره ،٢٦٩)

ترجمہ:

اور جسے حکمت عطا کردی جائے گویا اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا ہے۔

پیغام:

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مال و مقام باعث عزت و سربلندی ہے جب کہ قرآن نے حکمت ، معرفت اور علم کو خوبیوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔

۸۳

چھٹی فصل(اسرار کائنات)

۸۴

(1) خاک سے پیدائش

وَمِنْ اٰیٰا تِهِ أَنْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرٰابٍ ثُمَّ اِذَا أَنْتُمْ بَشَر تَنْتَشِرُونَ- (سورئه مبارکه روم،٢٠)

ترجمہ:

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا ہے اور اس کے بعد تم بشر کی شکل و صورت پھیل گئے ہو۔

توضیح:

تمام پھل ، سبزیاں اور دالیں جو انسان کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں سب زمیں سے اُگتی ہیں ان کے علاوہ دوسرے جن اجزاء ، کیلشیم ، سوڈیم، فولاد وغیرہ کی انسان کے بدن کو ضرورت ہوتی ہے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں۔

جس بات کو قرآن نے بیان کیا تھا نئی اورجدید ریسرچ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان کا نطفہ خاک کے اجزاء سے بنتا ہے۔

(2) جَنِین کے مراحل

ثُمَّ خَلَقْنٰا النُّطْفَةُ عَلَقَة فَخَلَقْنٰا العَلَقَة مضغة فَخَلَقنٰا المضغَةَعَظٰاماً فَکَسُونَا العِظَامَ لَحْمَا ---(سورئه مبارکه مومنون ١٤)

۸۵

ترجمہ:

پھر نطفہ کو علقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے۔

توضیح:

جنین کا پہلا مرحلہ مرد وزن کے جنسی سیل کاہے اس کے بعد نطفہ رحم زن میں علقہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پھر اس کے بعد یہ مضغہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہے اورپھر اُن ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔

اور یہ وہ مراحل ہیں جن تک آج کی سائنسی دنیا بہت زیادہ تحقیق اور جستجو کے بعد پہنچی ہے۔

(3) تاریکی میں خلقت

یَخْلُقُکُمْ فِی بُطونِ امّهٰاتِکُمْ خَلْقًا مِن بعد خَلْقٍ فی ظُلُمٰاتٍ ثلاث--- (سورئه مبارکه زمر ،٦)

ترجمہ:

وہ تم کو تمہاری ماؤں کے شکم میں تخلیق کی مختلف منزلوں سے گزارتا ہے اور یہ سب تین تاریکیوں میں ہوتا ہے۔

۸۶

توضیح:

أطباء کے مطابق تین تاریکیوں سے مراد وہ پردے ہیں جن میں جنین ولادت سے پہلے کے مراحل طے کرتا ہے اور وہ تین تاریکیاں یہ ہیں:

1۔ تاریکی شکم 2۔ تاریکی رحم 3۔ تاریکی مشیمہ (بچہ دانی)

حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خالق کائنات کا کمال تخلیق ہے ورنہ انسان کا جیسا حسین نقش ایسی تاریکیوں میں ابھار دینا اور وہ بھی قطرہ آب پر جس کے نقش کو ہمیشہ غیر مستقر اور نقش بر آب کیا جاتا ہے صرف پروردگار کا کمال ہے ۔ دنیا کا کوئی نقاش تو سوچ بھی نہیں سکتا ہے تخلیق کا کیا سوال ہے۔

(4) بڑھاپا

وَمَنْ نعمّرْه ننکِّسهُ فی الخَلْقِ أفَلا یعقلون -(سورئه مبارکه یس،٦٨)

ترجمہ:

اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں تو اُسے خلقت میں بچپنے کی طرف واپس کردیتے ہیں کیا یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

توضیح:

:أطباء کا کہنا ہے کہ جسم میں 50 سال کے بعد ضعف پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے مثال کے طور پر انسان کا دل ایک اندازے کے مطابق ہر سال 3 کروڑ 6لاکھ بار پھیلتا اور سکڑتا ہے اور پھر تدریجی طور پر یہ رفتار کم ہوجاتی ہے اور وہ سیل جو بدن کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں نابود ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

۸۷

(5) کشش ثِقل

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضِ کِفٰاتا- (سورئه مبارکه مرسلات، ٢٥)

ترجمہ:

کیا ہم نے زمین کو ایک جمع کرنے والا ظرف نہیں بنایا ہے۔

توضیح:

کفات کے معنی جمع کرنے اور سمیٹنے کے ہیں کہ زمین تمام چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی اور جذب کرتی ہے۔

ممکن ہے لفظ ''کفات ''(جس کے معنی جمع اور جذب کرنے کے ہیں) کا استعمال کشش ثقل کی طرف اشارہ ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ ابوریحان بیرونی (م440ھ ق) وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے کشش ثقل کو دریافت کیا لیکن مشہور یہ ہے کہ سترویں صدی (17) عیسوی میں نیوٹن نے کشش ثقل کا انکشاف کیا تھا۔

۸۸

(6) زمین کی گردش

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهٰادا- (سورئه مبارکه نبائ،٦)

ترجمہ:

کیا ہم نے زمین کو گہوار نہیں بنایا ہے۔

توضیح:

جس طرح گہوارہ حرکت کرتا ہے لیکن گہوارہ کی حرکت بچے کے لیے پریشانی اور اضطراب کا سبب نہیں ہے بالکل اسی طرح زمین بھی حرکت کرتی ہے لیکن اس کی حرکت اُس پر زندگی بسر کرنے والوں کے لیے باعث اضطراب و پریشانی نہیں ہے۔

علمی اور صنعتی ترقی اور پیش رفت کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ زمین بہت تیزی سے حرکت کررہی ہے اور سائنسدانوں نے ابھی تک زمین کی 14 طرح کی حرکت کو دریافت کیا ہے۔

(7) وسعت آسمان

وَ السَّمَاء بَنیْنَاهٰا بأَییدٍ وَاِنَّ لَموسِعُونَ-(سورئه مبارکه ذاریات،٤٧)

ترجمہ:

اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں۔

۸۹

توضیح:

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ فضا میں (جو کروڑں کہکشاں پر مشتمل ہے) بہت تیزی سے وسعت پیدا ہورہی ہے جس کا اندازہ سیاروں کے مزید دور ہونے کی وجہ ے لگایا گیا ہے ایک اندازہ کے مطابق فضا میں ایک سیکنڈ میں 66ہزار کلومیٹر وسعت پیدا ہوتی ہے۔

(8) سیاروں کی خلقت

ثُمّ استَوی اِلی السَّماء وَهِی دُخٰان-(سورئه مبارکه فصلت ،١١)

ترجمہ:

اس کے بعد اس نے آسمان کی طرف رخ کیا جو بالکل دھواں تھا۔

توضیح:

جدید ریسرچ کے مطابق جہان مختلف گیسوں سے مل کر بنا ہے جس کا اصلی عنصر ہائیڈروجن اور باقی ہلیوم ہے گیسوں کا یہ مجموعہ بادل کی صورت اختیار کرنے کے بعد بڑے بڑے عناصر کی صورت میں تبدیل ہوگیا اور پھر آخر میں اسی مجموعہ نے کہکشاں کی صورت اختیار کرلی ہے۔ سیاروں کی خلقت کے بارے میں سائنسدانوں کے اس نظریہ کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے۔

۹۰

(9)سبز درخت سے آگ

الذی جَعَلَ لَکُم مِنَ الشَّجَرا الْأَخْضَرِ نَارا-(سورئه مبارکه یس،٨٠)

ترجمہ:

جس نے تمہارے واسطے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی۔

توضیح:

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ آگ تو خشک درخت سے حاصل ہوتی ہے پھر قرآن نے آگ کا منشاء سبز درخت کو کیوں قرار دیا ہے؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ فقط سبزدرخت ہی سورج سے کاربن کے ذخیرہ اندوزی کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اور قرآن کی اس آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

(10) پہاڑوں کی حرکت

وَتَرَی الجِبٰالَ تَحسَبُهاجامدة وَهِیَ تَمُرّ مَرَّ السحاب-(سورئه مبارکه نمل،٨٨)

۹۱

ترجمہ:

اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر انہیں مضبوط اور جمے ہوئے سمجھتے ہو حالانکہ یہ بادل کی طرح اڑے اڑے پھریں گے۔

توضیح:

ظاہری طور پر پہاڑوں کی حرکت قابل مشاہدہ نہیں ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ سوچیں کہ پہاڑوں کی حرکت سے کیا مراد ہے؟

زمین حرکت کرتی ہے کیا یہی حرکت مراد ہے؟

ایٹم کے ذرات بھی حرکت کرتے ہیں اور پہاڑ ایٹم کے ذرات سے مل کر بنیں ہیں تو کیا یہ حرکت مرا د ہے؟ یا کوئی اور ؟

(11) پہاڑ

وَالجِبٰالَ أَوتادا-(سورئه مبارکه نباء ،٧)

ترجمہ:

اور کیا ہم نے پہاڑوں کی میخیں نصب نہیں کی ہیں۔

توضیح:

زمین کے اندر آتشی مواد موجود ہے جس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے یہ لمبے لمبے پہاڑ زمین پر اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ زمین اپنی داخلی حرارت کے سبب نہ لرزے جس طرح کھانے کی دیگ پر اینٹ وغیرہ رکھ دی جاتی ہے۔

قرآن نے ایک علمی راز کا انکشاف کرتے ہوئے پہاڑوں کو زمین کی میخیں قراردیا ہے۔

۹۲

(12) ہر چیز کا جوڑا

وَمِن ْ کلّ شیٍٔ خَلَقنٰا زوجین-(سورئه مبارکه ذاریات،٤٩)

ترجمہ:

اور ہم نے ہر چیز میں سے جوڑا بنایا ہے۔

توضیح:

سائنسدانوں کے مطابق ہر چیز کا وجود ایٹم سے ہے اور ایٹم دوچیزوں یعنی الیکٹرون (منفی) اور پروٹون (مثبت) سے مل کر بنتا ہے۔

(13) ستون آسمان

أَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمَاوٰاتِ بِغَیْرٍ عَمَدٍ تَرَونَها---(سورئه مبارکه، رعد ٢)

ترجمہ:

اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ایسے ستون کے جسے تم دیکھ رہے ہو بلند کردیا ہے۔

۹۳

توضیح:

عمد کے معنی ستون کے ہیں۔

جدید پیشرفت سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین فضا میں تیزی کے ساتھ حرکت کررہی ہے اور قوت جاذبہ (جو سورج اور دوسرے سیارات کے درمیان رابطہ کے طور پر موجود ہے) کی مدد سے ہر سیارہ اپنے دائرہ میں محو حرکت ہے۔

قرآن کی آیت میں (کہ آسمان غیر قابل مشاہدہ ستون پر ٹھہرا ہوا ہے) اس قوت کی طرف اشارہ ہے۔

(14) گول زمین

فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ المَشَرِقِ وَالْمَغارب---(سورئه مبارکه معارج،٤٠)

ترجمہ:

میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔

توضیح:

آیت میں متعدد مشرق اور مغرب کا ذکر زمیں کے گول ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لیے کہ زمین کا ہر نقطہ ایک گروہ کے لیے مشرق اور دوسرے گروہ کے لیے مغرب ہے سن 18 ویں صدی عیسوی میں زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین مسطح یا مخروطی (گاجر کی شکل کی) ہے۔

۹۴

(15) پانی سے خلقت

وَجَعَلْنٰا مِنَ الْمٰائِ کلُّ شی ئٍ حیّ ---(سورئه مبارکه انبیائ٣٠)

ترجمہ:

اور ہر جاندار کو پانی سے قرار دیا ہے۔

توضیح:

اس سلسلے میں کئی احتمال موجود ہیں:

1۔ موجودات کے بدن میں کافی مقدار میں پانی پایا جاتا ہے۔

2۔ تمام جانداروں اور نباتات کی زندگی پانی سے وابستہ ہے۔

3۔ سب سے پہلی زندہ مخلوق دریا کے پانی میں وجود میں آئی ہے۔

(16) درختوں میں نظام زوجیّت

وَمِنْ کلّ الثمرات جَعل فِیها زَوْجَیْن اثنین--- (سورئه مبارکه رعد،٣)

۹۵

ترجمہ:

اور (خدا وہ ہے جس نے ) زمین میں ہر پھل کا جوڑا قرار دیا ۔

توضیح:

لینہ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے 1707 صدی عیسوی میں درختوں میں نظام زوجیت کے نظریہ کو پیش کیا جو آج ایک ثابت شدہ عملی نظریہ کے طور پر قابل قبول ہے۔ قرآن کریم نے صدیوں پہلے درختوں میں نظام زوجیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(17) سورج کی گردش

وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقرّلها -(سورئه مبارکه یس،٣٨)

ترجمہ:

اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے۔

توضیح:

کوپرنیک، کاپلر اور گالیلہ آفتاب کو ثابت سمجھتے تھے لیکن جدید دور میں یہ بات ثابت ہے کہ آفتاب کی تین حرکتیں ہیں:

1۔ وضعی حرکت : سورج کا اپنے گرد چکر لگانا یہ حرکت 25 روز میں ایک مرتبہ انجام پاتی ہے۔

2۔ انتقالی حرکت: یہ حرکت منظومہ شمسی کے ہمراہ ہر سیکنڈ میں 19 /5 کلومیٹر انجام پاتی ہے۔

3۔ مرکز کہکشاں کہ گرد یہ حرکت ہر سیکند میں 335 کلو میٹر کی رفتار سے ہوتی ہے۔

۹۶

(18)حیوانات کی گفتگو

قالت نَمْلَة یٰا ایُّهَا النَّمْلُ أُدْخُلوا مَسَاکِنَکُم-(سورئه مبارکه نمل،١٨)

ترجمہ:

ایک چیونٹی نے آواز دی کہ چیونٹیو سب اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجاؤ۔

توضیح:

قرآن نے حیوانات کی گفتگو کے چند نمونہ پیش کیے ہیں جیسے ھُد ھُد کا جناب سلیمان سے ہم کلام ہونا اور چیونٹیو کا آپس میں گفتگو کرناو۔

انسان اتنی ترقی اور پیش رفت کے باوجود ابھی تک حیوانات کی گفتگو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن اُمید ہے کہ بشر آئندہ جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھا کر اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوگا۔

(19) زمیں کے اردگرد کی فضائ

وَجَعَلْنٰا السَّمَائَ سَقْنًا مَحْفُوظَا----(سورئه مبارکه انبیائ-٣٢)

ترجمہ:

اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت کی طرح بنایا ہے۔

۹۷

توضیح:

زمین کے اطراف کو کئی سو کلومیٹر تک تند وتیز ہوا کے دباؤ نے اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے جس کی قوت دس میٹر فولادی چادر کے برابر ہے جو نہ فقط انسان کو ان شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آرہی ہیں اور انسان کی ہلاکت کا سبب بنی سکتی ہیں بلکہ اُن پتھروں سے بھی محفوظ رکھتی ہے جو روزانہ 50کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف آرہے ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(20) پودوں میں عمل لقاح

وَ أَرْسَلْنٰا الرّیاحَ لَواقح----(سورئه مبارکه حجر،٢٢)

ترجمہ:

اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھانے والا بنا کر چلایا ہے۔

توضیح:

19 ویں صدی عیسوی کے شروع میں مائیکرو سکوپ کی ایجاد سے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے کہ پودوں میں تلقیح کا عمل ایک ایسے معمولی ذرہ کی بنا پر انجام پاتا ہے جسے گردہ کہتے ہیں جو حشرات یا ہواؤں کے ذریعہ سے ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہو کہ بادلوں کے درمیان عمل تلقیح ہوا کے ذریعہ ہوتاہے۔ بارش اور برف باری وغیرہ کا ہونا عمل لقاح کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اور یہ چیز جدید تحقیقات کا نتیجہ ہے۔

۹۸

(21) سورج کا تاریک ہونا

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَاِذَا النُّجومُ انْکَدَرَتْ-(سورئه مبارکه تکویر ،١-٢)

ترجمہ:

جب چادر آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا ، جب تارے گر پڑیں گے۔

توضیح:

آفتاب کی سطح پر 6 ہزار اور اس کے اندر کئی لاکھ درجہ حرارت موجود ہے جو ایک ایٹمی تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے۔علماء فلکیات کا کہنا ہے کہ سورج کا وزن 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 2 ٹن ہے جس میں سے ہر سیکنڈ میں اس کا 40 ٹن وزن کم ہوجاتا ہے اور یہی أمر اس بات کا سبب ہے کہ سورج ایک طویل مدت کے بعد تاریک ہوجائے گا۔

۹۹

ساتویں فصل(غور وفکر)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204