معارف قرآن

معارف قرآن27%

معارف قرآن مؤلف:
: سیدنسیم حیدر زیدی
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 204

معارف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 204 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 185495 / ڈاؤنلوڈ: 3728
سائز سائز سائز
معارف قرآن

معارف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

معارف قرآن

ترتیب و تنظیم

سید نسیم حیدر زیدی

۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

۲

آغازسخن

قرآن سراپا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی وہ ایسا حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی ایسا کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے (کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار ومددگار شکست نہیں کھاتے، وہ سراپا حق ہے۔

یہ کتاب ان آیات پر مشتمل ہے جو اس لاثانی اور بے مثل کتاب کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کتاب میں ہم نے نوجوانوں کے لیے بعض قرآنی معارف پر مختصر روشنی ڈال کر انہیں بارہ فصلوں میں بیان کیا ہے امید ہے یہ مختصر کوشش اہل ذوق کے لیے مفیدثابت ہوگی۔

سید نسیم حیدر زیدی

۳

پہلی فصل(قرآن)

۴

(ا) قرآن کا مثل نہیں لاسکتے

قُلْ لَئنْ اجتَمَعَتِ الْا نْسُ وَالجِنُّ عَلیٰ أَنْ یٰا تُوا بِمِثْلِ هٰذا القُرْآنِ لَا یٰاَتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَاْنَ بَعْضُهُم لِبَعْضٍ ظَهِیْراً -(اسراء ٨٨)

ترجمہ:

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

پیغام:

اگر تمام انس وجن ہم فکر ہوجائیں تو قرآن جیسی بامعانی کتاب نہیں لاسکتے اس لیے کہ قرآن خالق کے تمام کمالات کا سر چشمہ ہے، اور جن و انس اس کی مخلوق ہیں۔

خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ۔

(۲) دس سورے لے آؤ

أَمْ یَقُولُونَ افْتَرٰاهُ قُلْ فَاتُوا بِعَشَرِسُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیٰاتِ----(هود ١٣)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ۔

۵

پیغام:

اس آیت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی امانت داری کے ساتھ پیش آنا چاہیے، منکر ین کا کہنا تھا کہ قرآن بندہ کاگڑھاہوا ہے قرآن نے نہایت ہی امانتداری کے ساتھ ان کے کلام کو ویسے ہی نقل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو دس سورے تم بھی بنا لاؤ۔

(۳) ایک سورہ لے آؤ

وَ أن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمّا نَزّلْنٰا عَلیٰ عَبْدِنٰا فَاتوا بسورةٍ من مثله----(بقره ٢٣)

ترجمہ:

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کچھ شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ۔

پیغام:

منکرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی کہ قرآن پر اعتراض کریں لیکن آج تک کوئی ایک سورہ کا جواب بھی نہ لاسکا، اگر منکرین اپنے دعوسے میں سچے ہیں تو بے ہودہ اعتراضات کے بجائے ایک سورہ اس جیسا لے آئیں۔

۶

(۴) تد بّر کرو

أَفَلَا یتدبّرونَ القرآنَ وَلَوْ کان مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوا فِیْه اختلافاً کثیراً(نساء ٨٢)

ترجمہ:

کیا یہ لوگ قرآن میں غور فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔

پیغام:

انسانی زندگی میں پیش آنے والے خوشگوار اور ناخوشگوار حالات اس کے کلام، اس کی گفتگو پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن رسالتمآب (ص) کی زندگی کے نشیب و فراز قرآن کے انداز بیان اور لب و لہجہ پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

(۵) تلاوت سے پہلے

فَاذَا قَرأت القرآنَ فاستعذ باللّٰهِ من الشیطان الرَّجیم-(نساء ٨٢)

ترجمہ:

جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابلے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کریں۔

۷

پیغام:

قرآن کی تلاوت اور اُس پر عمل ہمیں کمال اور راہِ سعادت تک پہونچاتا ہے اور شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس راہ میں رکاوٹ ڈالے ، لہٰذا تلاوت سے پہلے شیطان کے مقابلے کیلئے خدا سے پناہ طلب کریں۔

(۶) غور سے سنو

وَاِذا قُرِیَٔ القرآنُ فَاسْتَمِعُوا لَه' وَانْصَتُوا لَعلّکُمْ تَرْحَمُون-(اعراف ٢٠٤)

ترجمہ:

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہوکر غور سے سُنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے۔

پیغام:

قرآن کی تلاوت کو غور سے سننا اُس پر عمل کیلئے مقدمہ ہے، اور خاموش رہنا اس کی آیات میں تدبر کی نشانی ہے، ممکن ہے کہ سننا اور غوروفکر کرنا خدا کی رحمت کا باعث بن جائے۔

۸

(۷) مجسمہ ہدایت

شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْهِ الْقرْآن هُدیً لِلنَّاسِ وَ بَیِّنٰاتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الْفُرْقان----(بقره ١٨٥)

ترجمہ:

ماہ رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔

پیغام:

قرآن سب کے لیے اور ہر زمانہ میں ہدایت ہے، قرآن حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔

(۸) نور کی طرف دعوت

هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلیٰ عَبْدِهِ اٰیٰاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمٰاتِ اِلی النُّور----(حدید ٩)

ترجمہ:

وہ ہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی نشانیاں نازل کرتاہے ، تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لے آئے۔

۹

پیغام:

قرآن ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال کر لاتاہے۔

تاریکی ، جہل، کفر، ناامیدی ہر بری صفت کی علامت ہے جبکہ نور ، علم ایمان ، امید ہر اچھی صفت کی علامت ہے۔

(۹) قرآن کی عظمت

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوٰاقِع النُّجوُم - وَ اِنَّه' لَقَسَم لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیْم- اِنّه لَقُرآن کَرِیم - فِیْ کِتٰابٍ مَکْنُون-(واقعه ٧٥، ٧٨)

ترجمہ:

اور میں تو تاروں کی منازل کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، اور تم جانتے ہو کہ یہ قسم بہت بڑی قسم ہے، یہ قرآن ہے جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے۔

پیغام:

ستاروں کی دنیا نہایت ہی حیرت انگیز اور شگفت آور ہے اس لیے خداوند عالم نے ان کی قسم کھا کر قرآن کی عظمت کو بیان کیاہے۔

۱۰

(۱۰) قرآن کی تلاوت

فَاقْرَؤا مٰا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ-(مزمل ٢٠)

ترجمہ:

بس جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو۔

پیغام:

قرآن انسانوں کی زندگی کے لیے دستور العمل ہے لہٰذا زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور صبح و شام تلاوت کرکے ہمیں اس سے اُنس برقرار رکھنا چاہیے۔

(۱۱) پیغمبر اسلام کی فریاد

وَقَالَ الرَّسولُ یٰارَبّ اِنَّ قَوْمِیْ ا،تَّخَذُوا هٰذٰا الْقُرْآنَ مَهجُوراً -

ترجمہ:

اور اس دن رسول آواز دے گا کہ پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیاہے۔

۱۱

پیغام:

آئیے ہم سب مل کر اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں قرآن پر عمل کریں، تاکہ رسالتمآب(ص) کی فریاد کے دائرہ سے باہر نکل جائیں۔

قرآن انسانوں کے لیے ضابطہ حیات ہے اور محض ایک تشریفاتی کتاب نہیں ہے۔

(۱۲) کمالِ رحمت

الرَّحْمٰن - عَلّم القُرآن - خَلَقَ الْاِنْسَانَ -(رحمن ٣-١)

ترجمہ:

وہ خدا بڑا مہربان ہے، اُس نے قرآن کی تعلیم دی ہے، انسان کو پیدا کیاہے۔

پیغام:

خدا کے کمالِ رحمت کا سب سے پہلا مظہر تعلیم قرآن ہے اس کے بعد خلقت انسان کا مرحلہ آتا ہے لہٰذا قرآن انسان پر برتری رکھتا ہے، انسان کی انسانیت قرآن کی تعلیمات سے وابستہ رہنے ہی سے باقی رہتی ہے وگرنہ وہ حیوانات سے بھی بدتر ہوجائے۔

۱۲

(۱۳) پہاڑ کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا

لَوْ أَنْزَلْنٰا هٰذَا الْقُرآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَأَیْتَه' خَاشِعًا مُتَصَدّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللّٰه----(حشر ٢١)

ترجمہ:

ہم اگر اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ پہاڑ خوف سے لرزاں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا جارہاہے۔۔۔

پیغام:

ظالموں کے دل تو پہاڑ اور پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں کہ باران رحمت ( آیات قرآن) کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

(۱۴) قرآن کی دلوں پر تأثیر

اللّٰه نَزَّلَ أَحْسَنَ الحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِهًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُهُمْ و قُلُوبُهُمْ اِلی ذِکْرِ اللّٰه ----(زمر ٢٣)

ترجمہ:

اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیںاور باربار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔

۱۳

پیغام:

کلام بشر قرآن کی حد تک انسانوں کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم کی دلوں پر اس طرح تاثیر اسکے نازل کرنے والے کی عظمت و جلالت کا پتہ دیتی ہے، اس لیے کہ ہر شخص کا کلام اس کے مقام و منزلت کی نشاندہی کرتاہے۔

(۱۵) کفار کی بہانہ جوئی

وَقَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذا الْقُرآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیتینِ عَظِیْم o (زخرف ٣١)

ترجمہ:

اور یہ کہنے لگے کہ آخر یہ قرآن دونوں بستیوں (مکہ و طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیاہے۔

پیغام:

کفار اپنے بے ایمانی پر پردہ ڈالنے کیلئے مختلف باتیں بناتے رہتے تھے کبھی کہتے تھے کہ قرآن صاحبان مال ودولت پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے ہم پر نازل کیوں نہیں ہوا؟ کبھی کہتے تھے کہ آخر دفعی نازل کیوں نہ ہوا؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان کی برتری اور فضیلت کا معیار مال و دولت ہے۔

۱۴

(۱۶) حفاظت الٰھی

اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَوَ انّا لَه' لَحٰافِظُون- (حجر ٩)

ترجمہ:

ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

پیغام:

اس آیت میں پانچ مرتبہ اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ قرآن ربّ العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اسے باطل کی آمیزش اور ہر طرح کی تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے والا وہی ہے۔

قرآن ذکر ہے یعنی خدا، انبیائ، قیامت اور ہر اُس نعمت کی یاد جو انسان کی ضرورت ہے۔

(۱۷) بابرکت کتاب

وَ هٰذٰا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاه مُبٰارک----(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتا ب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے۔

۱۵

پیغام:

قرآن جامع ترین کتاب ہے جو عالم بشریت کے لیے ہدایت، عبرت ، رشد و ترقی، شفا اور باعث عزت ہے۔

(۱۸) حجاب

وَ اذَا قَرَاتَ القرآنَ جَعَلْنٰا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجٰابًا مَسْتُورًا

(اسراء ٤٥)

ترجمہ:

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں۔

پیغام:

قیامت پر یقین نہ رکھنا انسان کے دل کو سیاہ کردیتا ہے، آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو دنیا میں غرق ہو کر روز آخرت اور خدا کو بُھلا چکے ہیں۔

۱۶

(۱۹)رحمت اور بشارت

وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰابَ تِبْیٰانًا لِکُلِّ شَیٍٔ وَ هُدیً وَّ رحمةً وَ بُشْریٰ لِلْمُسْلِمِینَ-(نحل ٨٩)

ترجمہ:

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے۔

پیغام:

قرآن مجید میں تمام ابوابِ خیر وشر کا ذکر موجود ہے جو اس کی تعلیمات پر عمل کرے، یہ اس کے لئے ہدایت اور بشارت ہے اور جو اس پر عمل نہ کرے وہ ان تمام چیزوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲۰) صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت

ذَلِکَ الْکِتٰابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِلّمُتَّقِیْنَ-(بقره ٢)

ترجمہ:

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لیے مجسمہ ہدایت ہے۔

۱۷

پیغام:

شک وشبہ میں مبتلا کرنا شیطان کا کام ہے ، اور خدا کے کلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، قرآن سب لوگوں کی ہدایت کرتاہے ''ھدیً للنّاس''بس فرق اتنا ہے کہ پرہیز گار لوگ صحیح انتخاب کے ذریعہ اس ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ کفار اور منافقین اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ اُس سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(۲۱) تصدیق کرنے والی

وَهٰذا کِتٰاب أَنْزَلْنٰاهُ مُبٰارک مُصَدِّقُ الّذی بَیْنَ یَدَیْه(انعام ٩٢)

ترجمہ:

اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے اور اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔

پیغام:

قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جو انسان کیلئے ہدایت، عبرت، شفا اور باعث عزت ہے، جو تمام آسمانی کتابوں سے متفق اور ان کی تصدیق کرنے والی ہے، اور یہ چیز ان کے الٰہی اور ایک ہدف ہونے پر دلیل ہے۔

۱۸

دوسری فصل(اہل بیت(علیھم السلام)

۱۹

(۱) ریسمان الٰہی

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا-(آل عمران ١٠٣)

ترجمہ:

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔

تشریح:

حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ قرآن اللہ کی رسی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ہم اہل بیت اللہ کی رسی ہیں در حقیت قرآن اور اہل بیت (ع) جمال اور حسن الٰہی کے دو جلوے ہیں ایک کتاب کی صورت میں ہے اور دوسرا عمل کی صورت میں ۔

ہمیں قرآن اور اہل بیت سے زندگی گزارنے کے اصول سیکھنے چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوسکیں۔

(۲) کمال د ین اور اتمام نعمت

ألْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُم نِعْمَتِی-(مائده ٣)

ترجمہ:

آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱ ۔ ایک نسخہ شیخ کاشف الغطاء کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۲ ۔ایک نسخہ جناب مرزا محمد علی اردوبادی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۳ ۔ ایک نسخہ جناب محدث نوری کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ انہوں نے کتاب مستدرک میں اس سے کثرت سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۴ ۔ ایک نسخہ جناب علامہ امینی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ جس کی تاریخ کتابت ۳/ شوال ۹۵۶ ھئق ہے۔(۲)

۵ ۔ ایک نسخہ آیة اللہ مرعشی کے کتاب خانہ قم میں جس کا شمارہ ۴۹۰۳ ہے، کہ جس کے ۴۸۲ صفحات ہیں اور اس کے کتابت کی تاریخ گیارہویں صدی ہجری سے مربوط ہے ۔(۳)

اس کی فوٹو کاپی کتاب خانہ موسہ آل البیت قم میں ہے جس کا شمارہ ۵۲۰۹ ( قفسہ ۲۹ ردیف ۱۷۶ ش ۱۹) ہے ۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ ماہ رمضان ۱۴۱۹ ھئقم میں ۷۰۴ صفحات کے ساتھ قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ۔

یہ کتاب مزار کبیر کے نام سے مشہور ہوئی اور زیارت کے متعلق جامع ترین کتاب

________________________

۱۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طھرانی، ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۲۔طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ طھرانی، قرن ششم ،ص۲۵۳۔

۳۔ فہرست کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی ،سید احمد حسینی اشکوری ،ج۱۳،ص۸۳۔

۴۱

ہے۔ جو مختلف طولانی زمانے اور صدیوں کے حوادث سے محفوظ رہی ہے اور ہمارے زمانے تک باقی ہے ۔

آٹھ صدی کی طویل مدت اس کی تاریخ تالیف سے گزرچکی ہے ،یہ کتاب ہمیشہ اکابر علمائے شیعہ کے مورد اعتماد رہی ہے اور ہر وہ صاحبان کتاب کہ جنہوں نے اس آٹھ صدی کے دوران دعاوزیارت کے متعلق کتاب تحریر کی انہوں نے واسطہ یا بغیر واسطہ کے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے ۔

ابن مشہدی اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

”میں نے اس کتاب میں مقامات مقدسہ کی زیارات و اعمال ،مساجد کے اعمال ، منتخب دعائیں اور واجب نمازوں کی تعقیبات کی جمع آوری کی ہے جو متصل سند کے ساتھ مورد اعتماد راویوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔“(۱)

آیة اللہ خوئی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:

”یہ جملہ صراحت کے ساتھ ان تمام راویوں کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے جو اس کتاب کے سلسلہ سند میں واقع ہوئے ہیں۔“(۲)

جناب آقا بزرگ تہرانی نے مجموعاً راویانِ حدیث کے پندرہ افراد کا استخراج کیا ہے اور ان کی وثاقت کا حکم لگایا ہے ۔(۳)

________________________

۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۲۷۔

۲۔ معجم رجال الحدیث ،سید ابو القاسم خوئی ،ج۱،ص ۶۵۔

۳۔ الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۴۲

ابن مشہدی اس کتاب میں ،دعائے ندبہ کو بہ عنوان ”وہ دعا جو حضرت صاحب الزمان کے لیے سزاوار ہے کہ چارعظیم عیدوں :عید فطر،عید قربان، عید غدیر اور عید جمعہ میں پڑھی جائے “ذکر کیا ہے۔

انہوں نے اس کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن یعقوب بن ابی قرّہ کے توسط سے کتاب بزوفری سے نقل کیا ہے ۔

دعائے ندبہ کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی کے نسخہ میں صفحہ ۸۲۱ سے ۸۳۷ تک اور آل البیت کے نسخہ میں صفحہ ۸۳۱ سے ۸۴۷ تک اور مطبوعہ نسخہ میں ۵۷۳ سے ۵۸۴ تک ذکر ہوئی ہے ۔(۱)

۴ ۔ صاحب کتاب مزار قدیم

مزار قدیم بھی گراں قدر اور بہت عظیم کتاب ہے کہ اس کے مولف بھی ابن مشہدی صاحب کے ہم عصر تھے

اس کتاب میں بہت سی دعائیں اور زیارتیں ہیں جو کسی دوسرے منابع میں نہیں مل سکتیں۔ اس کے مولف اپنے استاد کے ذریعہ ” مہدی بن ابی حرب حسینی“ الشیخ ابو علی (فرزند شیخ طوسی )سے روایت کرتے ہیں:

اس بیان کے مطابق وہ شیخ طبرسی رحمة اللہ علیہ صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ۔(۲)

________________________

۱۔صفحات کے اختلاف کا ارتباط شمارہ گزار ی سے ہے ورنہ نسخہ آ ل البیت کتاب خانہ مرعشی کے نسخہ کی فوٹو کاپی ہے۔

۲۔الذریعہ ،آغابزرگ تہرانی ،ص۳۲۲۔

۴۳

اس کتاب کا ایک خطی نسخہ کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی میں شمارہ ۴۶۲،۱۸۱ صفحات میں موجود ہے ۔(۱)

مزار قدیم کے مولف اپنی اس گراں بہا یاد گاری کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن ابی قرّہ کے توسط سے ،کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بزوفری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان کے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں کے شب و روز میں پڑھی جائے ۔“

اس نسخہ میں دعائے ندبہ ۱۷۳ صفحہ سے شروع ہوتی ہے اور ۱۷۶ صفحہ تک ختم ہوتی ہے ۔

اس بات کے پیش نظر کہ کتاب مزار قدیم کے مولف غیر معروف ہیں لہذا اس پر ایک موثق منبع کے عنوان سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، صرف اسے ابن مشہدی کی نقل کے لیے ابن ابی قرّہ اور بزوفری سے بطور تائید قرار دیا جا سکتا ہے ۔

۵ ۔ رضی الدین علی ابن موسیٰ ابن طاووس حلّی

سید ابن طاووس نے اپنی گراں قدر کتاب مصباح الزائر میں حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی زیارتوں کے حصّے میں چھ زیارات نقل کی ہےں ،اس وقت دعائے ندبہ کو ساتویں زیارت کے عنوان سے ”محمد بن علی بن ابی قرّہ“ کے نقل کے مطابق ”محمد

_______________________

۱۔ فہرست کتابخانہ آیت مرعشی ، سید احمد حسینی اشکوری ،ج۲،ص ۶۸۔

۴۴

بن حسین بن سنان بزوفری “ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے :

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان سے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے ۔ “(۱)

اسی طرح آپ کتاب اقبال میں بھی اسلامی عیدوں کی دعاؤں کی ایک مخصوص تعداد شمار کر تے ہوئے کہتے ہیں:

”ایک دوسری دعا ہے جو نماز عید کے بعد اور تمام چارعظیم عیدوں میں پڑھی جاتی ہے ۔“(۲)

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کرتے ہیں اور آخر میں مزید فرماتے ہیں:

”جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو پروردگار کے مقابل سجدہ کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور کہو:

جو کچھ ہم نے امام جعفر صادق سے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ فرمایا: اس دعا کے بعد اپنا داہنا رخسار زمین پر رکھو اور کہو ”سیدی ،سیدیکم من عتیق لک ای عزیز ای جمیل “۔(۳)

اس تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ سید ابن طاووس نے مزار کبیر کے علاوہ دعائے

________________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۶۔ ۴۵۳۔

۲۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۵۔

۳۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۹۔

۴۵

ندبہ کو دسرے طریقہ سے نقل کیا ہے ،اس لیے کہ مزار کبیر اور مزار قدیم میں یہ آخری حصہ موجود نہیں ہے اور سید نے تصریح کی ہے کہ اسے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے ۔

سید ابن طاووس عید قربان کے اعمال بیان کرتے وقت ان دعاؤں کو نقل کرتے ہیں کہ جسے نماز عید سے واپس ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے ،پھر کہتے ہیں:”منجملہ ان دعاؤں میں سے کہ جسے نماز عید قرباں کے بعد پڑھا جاتا ہے دعائے ندبہ ہے کہ جسے عید فطر کے باب میں ہم نے بیان کیا ہے “۔(۱)

۶ ۔ علی ابن علی ابن موسیٰ ابن طاووس

علی ابن علی ،فرزند سید ابن طاووس(۲) نے کتاب زوائد الفوائد(۳) میں دعائے ندبہ کو اپنے پدربزرگوار سے نقل کیا ہے ۔(۴)

_______________________

۱۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۴۴۹۔

۲۔ فرزند سید ابن طاووس ان کے پدر بزرگوار کی تحریر کے مطابق جمعہ کے دن ۸محرم ۶۴۷ھء ق نجف اشرف میں پیدا ہوئے (کشف المحجة ص۶۴۹) اور۶۸۰ھء ق میں ان کے بھائی جلال الدین محمد کے انتقال کے وقت سادات کی نقابت حاصل کی۔ (طبقات اعلام الشیعہ قرن ہفتم ،ص۱۰۷)

۳۔ اس کتاب کا خطی نسخہ سید محمد مشکات کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے۔(الذریعہ ،ج۱۲،ص ۶۰)

۴۔زوائد الفوائد ،علی بن علی بن موسیٰ حلی ،ص۴۹۳،نسخہ خطی کتاب خانہ مرکزی دانشگاہ تہران۔

۷۔علامہ محمد باقر مجلسی

۴۶

علامہ مجلسی نے دعائے ندبہ کو اپنی گراں قدر کتاب بحار الانوار میں مصباح الزائر کے نقل کے مطابق سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔(۱) اور آخر میں رقم طراز ہیں :

محمد بن مشہدی نے مزار کبیر میں کہا ہے : محمد بن علی بن ابی قرّہ کا قول ہے :

”میں نے دعائے ندبہ کو کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے۔“(۲)

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد میں بھی دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے اور اس کے آغاز میں کہتے ہیں:

”لیکن دعائے ندبہ جو برحق عقائد پر مشتمل ہے اور حضرت قائم کی غیبت پر اظہار افسوس ہے ،معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اس دعا ئے ندبہ کو چارعظیم عیدوں میں پڑھنا سنت ہے یعنی جمعہ ،عید فطر ،عید قرباں اور عید غدیر۔“(۳)

علامہ مجلسی اسی طرح کتاب تحفة الزائر میں سرداب مقدس کے اعمال کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۱۰۴۔ ۱۱۰۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۱۰۲،ص۱۱۰۔

۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۸۶۔

۴۷

”سید اور شیخ محمد بن مشہدی نے محمد بن علی بن (ابی) قرّہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے کہ ”دعائے ندبہ“ جو صاحب الزمان سے متعلق ہے مستحب ہے اسے چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے “۔

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے ۔(۱)

جیسا کہ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ مجلسی نے ،کتاب زاد المعاد میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ دعائے ندبہ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے ،اور کتاب تحفة الزائر کے مقدمہ میں اس بات کے پابند ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں صرف زیارات، ادعیہ اور ان آداب کو ذکر کریں گے جو معتبر اسناد کے ذریعہ ائمہ دین سے منقول ہےں ۔(۲)

۸ ۔ سید محمد طباطبائی یزدی

علامہ جلیل القدر ،صدر الدین سید محمد طباطبائی یزدی (متوفیٰ ۱۱۵۴ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب شرح دعائے ندبہ کے آغاز میں دعائے ندبہ کے متن کو سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق سے مروی ہے ۔(۳)

_____________________

۱۔ تحفة الزائر ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۳۴۔

۲۔ تحفة الزائر ، محمد باقر مجلسی ، ص۲۔

۳۔ فروغ ولایت ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،ص۳۳۔

۹۔ سید حیدر کاظمی

۴۸

علامہ جلیل سید حیدر حسنی کاظمی ،(متوفیٰ ۱۲۶۵ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب عمدة الزائر میں دعائے ندبہ کو سید ابن طاووس اور دوسروں سے روایت کی ہے ۔(۱)

۱۰ ۔ محدّث نوری

محدث بزگوار آقا مرزا حسین نوری (متوفیٰ ۱۳۲۰ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب تحیة الزائر میں دعائے ندبہ کو مزار کبیر،مزار قدیم سے نقل کیا ہے اور مصباح الزائر سید ابن طاووس سے بھی روایت کی ہے ۔(۳)

۱۱ ۔ صدر الاسلام ہمدانی

دبیر الدین صدر الاسلام علی اکبر ہمدانی (متوفیٰ ۱۳۲۵ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب تکالیف الانام میں وظیفہ نمبر ۳۴ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں:

”یہ مبارک دعا کثرت شہرت کی وجہ سے آفتاب عالم تاب کی طرح ہے۔ بہتر ہے کہ ہر جمعہ کو حضرت کے چاہنے والے مرد عورت مساجد میں سے کسی مسجد یا عبادت گاہوں میں سے کسی عبادت گاہ میں جمع ہوں اور اس مبارک دعا کو انتہائی گریہ و زاری اور نالہ وشیون کے ساتھ نہایت حزن و ملال اور بے قراری سے پڑھیں اشک بہائیں اور اس روشن

________________________

۱۔ عمدة الزائر ،سید حیدر کاظمی ،ص۳۵۲۔۳۵۹۔

۲۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۴۸۔

۴۹

آفتاب کی غیبت اور اس جان جاناں کی عدم موجودگی پر توجہ کریں فریاد و فغاں بلند کریں اور قلب پُر درد سے آہ سرد نکالیں۔

اور اس عظیم مصیبت کو آسان تصور نہ کریں، اس مصیبت عظمیٰ کو سہل گمان نہ کریں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے اسلام بالکل ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا ہے اور صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے ۔”ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدینا“۔

کفر اور فسق و فجور ناشکری تمام کرہ ارض پر چھا گئی ہے ،جو کچھ دستیاب نہیں ہے وہ مسلمان ہونے کے آثار ہیں اور جو کچھ ظاہر اور دستیاب ہے شیطانی آثار ہیں۔سب وادی غفلت اور ضلالت و جہالت کے لق و دق صحرا میں حیرا ن و سرگرداں شیطان کے سپاہیوں کے تابع ہیں اور حضرت صاحب الامر کے حکم کے نا فرمان ہیں ”اللّھمّ عجّل فرجہ و سھّل مخرجہ بمحمد و آلہ الطاھرین “۔(۱)

پھر اس وقت دعائے ندبہ کے متن کو صفحہ( ۱۹۰ سے ۱۹۶ تک) ذکر کیا ہے ،اپنے استاد (مرحوم آقا مرزا حسین نوری طاب ثراہ) سے نقل کیا کہ استاداعظم کہتے ہےں :

”مشہور و معروف دعائے ندبہ کا شب جمعہ اور روز جمعہ پڑھنا مستحب ہے جو حضرت مہدی سے متعلق ہے ۔ در حقیقت اس کے مضامین دل

_______________________

۱۔ تکالیف الانام ،علی اکبر ہمدانی (صدر الاسلام) ص۱۸۸۔

۵۰

شگاف اور جگر کو پاش پاش کرنے والے ہیں اور اس شخص کو خون کے آنسو رلانے والے ہیں کہ جس نے حضرت کے شربت محبت کو پیا ہے اور ان کے فراق کے زہر کی تلخی چکھی ہے ،جمعہ کے دن بلکہ شب جمعہ میں بھی (جیسا کہ کسی ایک مزارات قدیم میں کہ جس کے مولف شیخ طبرسی صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ان سے مروی ہے) پڑھی جانی چاہیے ۔“(۱)

پھر مزید کہتے ہیں:

مولف کہتے ہیں :”اس مبارک دعا کے پڑھنے کے من جملہ خواص میں سے یہ ہے کہ تمام زمان و مکان میں مکمل خلوص اور حضور قلب سے پڑھی جائے اور اس کی خاصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کے مضامین عالیہ اور روشن عبارات و اشارات کی طرف متوجہ رہے تو صاحب العصر و الزمان ارواحنا فداہ کی مخصوص عنایات اس صاحب مکان کے شامل حال ہو گی بلکہ حضرت کی بھی اس مجلس میںتشریف آوری کا باعث ہوگی۔ جیسا کہ بعض مقامات پر ایسا اتفاق ہوا ہے ۔“

پھر ایک واقعہ ملازین العابدین سلماسی کا نقل کیا ہے۔(۲)

_____________________

۱۔تکالیف الانام، علی اکبر ہمدانی (صدر اسلام) ،ص۱۹۷۔

۲۔ گزشتہ حوالہ ۔

۵۱

۱۲ ۔ ابراہیم ابن محسن کاشانی

عالم ربّانی شیخ ابراہیم ابن محسن کاشانی (متوفیٰ ۱۳۴۵ ھئق) اپنی ارزش مند کتاب ”الصحیفة الھادیة و التحفة المھدیة“ میں جو آیت اللہ آقای سید اسماعیل صدر کی تقریظ کے ساتھ ایک صدی پہلے طبع ہوئی دعائے ندبہ کے متن کو کتاب بحار الانوار کے باب مزار سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۱۳ ۔ مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی

نادرہ زمان ،عاشق صاحب الزمان آقا مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ ھئق) نے مبارک کتاب مکیال المکارم میں ایک سو سے زیادہ ائمہ معصومین سے ماثورہ دعاؤں کو اس آفتاب عالم تاب کے زمانہ غیبت کے لیے نقل کیا ہے ، منجملہ ان میں سے دعائے ندبہ کو علامہ مجلسی اور محدث نوری کے نقل کے مطابق ذکر کیا ہے ۔(۲)

صاحب مکیال المکارم مزکورہ کتاب کے علاوہ ،کتاب وظیفہ مردم در غیبت امام زمان ظ میں بھی ۵۲ نمبر کے وظیفہ کے عنوان سے بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”جمعہ ،عید غدیر ،عید فطر اور عید قرباں کے دنوں میں دعائے ندبہ جو

____________________

۱۔ الصحیفة الھادیة ، ابراہیم بن محسن کاشانی (فیض کاشانی) ، ص۷۵۔۸۹۔

۲۔ مکیال المکارم ،السید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳۔۱۰۰۔

ظ یہ کتاب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔(مترجم)

۵۲

سے متعلق ہے اور زاد المعاد میں موجود ہے توجہ کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔“(۱)

۱۴ ۔ محدّث قمّی

خاتم المحدّثین جناب شیخ عباس قمّی (متوفیٰ ۱۳۵۹ ھئق) اپنی با برکت کتاب مفاتیح الجنان میں جو مولف کے خلوص کے نتیجہ میں عالَم مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت کی ہر فرد کے گھر میں، ایک یا چند نسخے اس کے مل جائیں گے، سرداب مقدس کے اعمال کے ضمن میں اور حضرت صاحب الزمان کی زیارتوں کے ذیل میں دعائے ندبہ کو بھی مصباح الزائر سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔

۱۵ ۔ شیخ محمد باقر فقیہ ایمان

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے عاشق دل باختہ ،جناب شیخ محمد باقر فقیہ ایمانی (متوفیٰ ۱۳۷۰ ھئق) جو ۷۷ کتابوں کے مولف ہیں ،ان میں سے ۲۷ جلد کعبہ مقصود قبلہ موعود ،حضرت صاحب الزمان سے مخصوص ہے ۔اپنی گراں قدر کتاب فوز اکبر میں دعائے ندبہ کے متن کو ( ۱۱۵ سے ۱۲۵ تک ) ذکر کیا ہے ،اس کے پڑھنے کی بہت تاکید کی ہے اور اس کے پڑھنے کی علت کو تین عنوان میں بیان کیا ہے :

۱ ۔انسان کا آنکھوں کی روشنی کے لیے حضرت کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرنا ۔

____________________

۱۔ وظیفہ مردم در غیبت امام زمانہ ، سید محمد تقی موسوی اصفہانی ، ص۷۹۔

۵۳

۲ ۔ حضرت کے ہمّ و غم کو دور کرنے کے لیے ۔

۳ ۔ تعجیل فرج کے ارادے سے۔(۱)

۱۶ ۔ سید محسن امین

عظیم مورخ سید محسن امین عاملی مولف اعیان الشیعہ (متوفیٰ ۱۳۷۱ ھئق) نے دعائے ندبہ کے متن کو کتاب مفتاح الجنّات میں ذکر کیا ہے ۔(۲)

اگر تمام دعاؤں اور زیارتوں کو نقل کرنا چاہیں کہ جس میں دعائے ندبہ کو نقل کیا گیا ہے تو ہماری بات طولانی اور وہ اس کتاب کی وسعت سے خارج ہو جائے گی، اس لحاظ سے ہم اپنی گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں اور اس کی وسیع بحث کو کسی اور موقع پر موقوف کرتے ہیں مزید قارئین کرام کو اس کے متعلق جو مستقل طور پر کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔(۳)

____________________

۱۔ فوز اکبر ،محمد باقر فقیہ ایمانی ،ص۱۱۸۔

۲۔ مفتاح الجنّات ،سید محسن امین عاملی ،ج۲،ص ۲۶۰۔

۳۔ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں ۔پاسخ ما بہ گفتہ ھا ،سید محمد مہدی مرتضوی لنگرودی ، تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ،رضا استادی ،فروغ ولایت در دعائے ندبہ ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ، مدارک دعائے شریف ندبہ ،جعفر صبوری قمی ، نشریة ینتشربھا انوار دعاء الندبہ ، شیخ محمد باقر رشاد زنجانی ،نصرة المومنین در حمایت از دعائے ندبہ ،عبد الرضا ابراہیمی ،مزکورہ بالا عناوین کی کتاب شناسی توصیفی کو کتاب نامہ حضرت مہدی ،ج۱،ص ۱۹۶، ۲۲۴،ج۲،ص۵۵۴،۶۳۷،۷۵۰،ا۷۵ میں ملاحظہ فرمائیں۔

>>>مکتب اسلام نامی ارزش مند مجلے میں اس سلسلے میں مقالات بھی نشر ہو چکے ہیں۔ (سال ۱۳، شمارہ ۶،۷،۸،۹)

اس سلسلے میں دوسرے آثار بھی طبع اور نشر ہو چکے ہیں جن کے عناوین کتاب نامہ حضرت مہدی میں ذکر ہوئے ہیں۔(ج۱،ص ۳۴۶۔۳۴۸)

جناب آیت الله شیخ محمد باقر صدیقین (متوفیٰ ۱۴۱۴هئق) نے سات کتابچه درسهائی از ولایت کے عنوان سے نشر کیے هیں که ان میں سے ایک دعائے ندبه سے دفاع کے لیے مخصوص ہے

۵۴

امام زمانہ کی دعائے ندبہ کی مجالس پر خاص عنایات

تجربه سے ثابت هوا ہے که حضرت ولی عصر ارواحنا فداه کے وجود اقدس کی طرف سے جن مجالس و محافل میں دعائے ندبه پڑهی جاتی ہے خاص عنایت هوتی ہے ، بعض تحریر شده کتابوں میں ان میں سے بعض عنایتوں کی طرف اشاره کیا گیا ہے اور اگر خدائے متعال توفیق عطا کرے تو ان میں سے بعض کو فرصت سے جمع آوری کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، هم یهاں صرف اس کی فهرست کی طرف مختصر طور پر اشاره کر رهے هیں:

۱ سرداب مقدس میں ملّا زین العابدین سلماسی کا واقعه جسے صدر الاسلام همدانی نے نقل کیا ہے(۱)

۲ آیت الله جناب مرزا مهدی شیرازی کا واقعه جسے علامه قزوینی نے مولف کے لیے نقل کیا ہے

۳ آیت الله میر جهانی کا واقعه جسے مولف نے متعدد مرتبه خود ان سے سنا ہے

________________________

۱تکالیف الانام، علی اکبر همدانی (صدر الاسلام )ص۱۹۷

۵۵

۴ بعض سعادت مند افراد کے واقعات که جسے علامه نهاوندی نے بغیر واسطه کے خود ان سے نقل کیا ہے(۱)

۵ بعض دوسری جماعت کے واقعات که جسے محدث نوری نے متصل سند کے ساته نقل کیا ہے(۲)

هم یهاں صرف ایک عاشق دل باخته کے واقعه کے نقل پر اکتفا کرتے هیں:

حضرت صاحب الزمان ارواحنا فداه کے عاشق دل باخته حضرت آیت الله شیخ محمد خادمی شیرازی (متوفیٰ ۱۴۱۹ هئق) جو گراں قدر تالیفات جیسے رجعت ، یاد مهدی اور فروغ بی نهایت کے مالک هیں مولف کے لیے نقل کیا ہے که تقریباً چالیس سال پهلے امام رضا کے حرم مطهر پر آستانه بوسی کے لیے مشرف هوا ،ایک شب جمعه کو اس مهربان امام کے حرم مطهر میں حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کے فراق میں بهت زیاده آنسو بهایا ،جب اپنی قیام گاه پر پهنچا تو کچه دیر آرام اور عالم خواب میں حضرت مهدی کے چهره انور کو دیکها ،خدا حافظی کے وقت میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا هو جاؤں، کیا دوباره بهی مجه رو سیاه کو اپنے دیدار مبارک کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ فرمایا: همارے وعده دیدار کا وقت کل صبح دعائے ندبه ہے میں نے عرض کیا : اے میرے مولا! میں زائر هوں مجهے نهیں معلوم که دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ فرمایا: سید جواد مجتهدی کے گهر میں میں خواب سے بیدار هوا وضو کیا حرم کی طرف چلا اور امام رضا کی عنایات کا شکریه ادا کیا نماز صبح کے بعد حرم سے نکلا مسجد گوهر شاد کے صحن میں جس پهلے شخص کا دیدار کیا میں نے اس سے دریافت کیا: مشهد میں دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ جواب دیا: جناب سید مجتهدی کے گهر میں میں نے ان کے گهر کا پته لیا اور تیزی سے اس پُر فیض مجلس میں خود کو پهنچایا ،که مجلس بهت نورانی اور معنوی تهی اور اس چهره منورکو که جس کا رات عالَم خواب میں مشاهده کیا تها اپنے عاشقوں کے درمیان حاضر پایا تهے

____________________

۱ العبقری الحسان ،علی اکبرنهاوندی ،ج۲،ص ۱۰۱،۱۹۸

۲ دار السلام ،حسین بن محمد تقی نوری ،ج۲،ص ۲۲۴

۵۶

اسی طرح کا واقعه جناب محمد یزدی کے لیے بهی پیش آیا تها انهوں نے بهی امام رضا سے توسل کیا ان کو بهی سید مجتهدی کے گهر کی طرف رهنمائی هوئی تهی اور وهاں بهی کعبه مقصود کی خدمت میں ان کے لیے شرفِ حضور فراهم هوا تها یه نمونے حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کی مجالس دعائے ندبه پر خاص عنایت کی نشان دهی کرتے هیں

کتاب کے اس حصه میں دوسرے سوال کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے اور دعائے ندبه کے سلسله اسناد کی زمانوں اور صدیوں کے اعتبار سے تحقیق پیش کی ہے اور سند کی تاکید اور استحکام کے لیے عظیم شخصیتوں کے اقوال جیسے علامه مجلسی کے قول کو نقل کیا ہے یهاں پر هم مزید یه کهتے هیں که:

فقه شیعه میں رائج سخت گیریاں ان اخبار اور احادیث کے متعلق ہے جو ایک ضروری حکم (واجب یا حرام) کے استنباط کی راه میں قرار پاتی هیں، لیکن مستحبی مسائل میں ،بالخصوص دعاؤں اور زیارتوں میں وه سخت گیری اور سندی موشکافی مرسوم نهیں ہے ،بلکه اسی مقدار میں که اس کے مضامین شرع پسند اور مقبول هوں اور ایک مشهور کتاب میں نقل هو بس یهی کافی ہے

لهٰذا اگر ایک دعا کی سند معتبر نه هو اور اس کا (بالخصوص) معصوم سے صادر هونا ثابت نه هو چونکه عمومی طور پر دعا کے لیے حکم هوا ہے اور دعا اعمال راجحه اور عبادات موکده میں سے ہے ،ان کا پڑهنا قرآنی اور حدیثی عمومات کے مطابق راجح اور مستحب ہے اور مقام عمل میں سندی سخت گیری کی ضرورت نهیں ہے ،بلکه” قاعده تسامح در ادله سنن“ اس مقام پر جاری ہے اور اتنی مقدار بهر اخروی ثواب حاصل کرنے کے لیے کافی ہے قاعده تسامح در ادله سنن بهت زیاده حدیثوں پر متوقف ہے که اسے ”احادیث من بلغ“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے یعنی : ان حدیثوں کی بنا پر ، اگر ایک نیک عمل میں اجر و ثواب خداوپیغمبر سے نقل هوا هو اور یه نقل کسی ایک فرد کو معلوم هو اور وه اس اجر و ثواب کو حاصل کرنے کے لیے اس عمل خیر کے لیے اقدام کرے تو خداوندمنّان اس ثواب کو اسے عنایت فرمائے گا اگر چه اس قسم کی کوئی حدیث حقیقت میں معصوم سے صادر نه هوئی هو

اس سلسلے میں معصومین سے بهت سی روایات نقل هوئی هیں(۱) اور شیخ انصاری

________________________

۱الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۲،ص ۸۷، المحاسن ،احمد بن محمد بن خالد البرقی ، ج۱،ص ۹۳، ثواب الاعمال شیخ صدوق ،ص۱۳۲، عدّّة الداعی ، احمد بن فهد حلّی ،ص۱۳، اقبال الاعمال سید ابن طاووس ،فلاح السائل سید ابن طاووس ،ص۱۲، مفتاح الفلاح شیخ بهائی ،ص۴۰۶، روضة المتقین ،محمد تقی مجلسی ،ج۱،ص ۴۵۵، مدارک الاحکام ، العاملی ، ج۱،ص ۱۸۷، وسائل الشیعه ،حرعاملی ،ج۱،ص ۸۰، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۲،ص ۲۵۶، مرآة العقول ،محمد باقر مجلسی ،ج۸،ص ۱۱۲

۵۷

نے جواز تسامح در ادلہ سنن کے متعلق مستقل رسالہ تحریر کیا ہے ۔

متن دعا قوی مضامین اور الفاظ کے استحکام بھی اس کے اعتبار میں اضافہ کا باعث ہےں ۔ اقوال معصومین کی روش گفتار کی معرفت اور شناخت رکھنے و الے افراد ایک متن کے مضمون اور مطالب کی تحقیق سے اس کا معصوم سے صادر ہونے یا صادر نہ ہونے کا اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔

جب آیت اللہ کاشف الغطا سے ”دعائے صباح“ ک ی سند کے متعلق سوال کیا گیا تو کہا:

ہر ایک صاحبان علم و ثقاقت کے لیے ایک اسلوب ہوا کرتا ہے اور بشری معاشروں کے ہر گروہ کے لیے بلکہ ہر ملت اور تمام ملک کے باشندوں کے لیے طور و طریقہ ہوتا ہے ائمہ علیہم السلام کے لیے بھی مقام دعا میں تعریف اور پروردگار کی حمد و ثنا کے لیے مخصوص شیوہ سخن ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ان کے اقوال سے مانوس ہو گا اسے تسلط اور کمانڈ حاصل ہو جائے گا کہ ان کے اقوال کو پہچانے اور ایسا شخص شک و شبہ نہیں کر ے گا کہ دعاء صباح ان سے صادر ہوئی ہے ۔(۱)

________________________

۱۔ فردوس الاعلی ،شیخ محمد حسین، کاشف الغطاء ،ص۵۰۔

۵۸

بہت سے بزرگوں نے ”دعائے ندبہ “اور زیارت”جامعہ کبیرہ“ کے مضامین عالیہ اور متن کی تحقیق کے متعلق کہا ہے کہ وہی صرف اس کے اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اس کی سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی ان لوگوں کے مقابل میں جنہوں نے نہج البلاغہ کے بعض فقرات کا مولائے متقیان امیر المومنین سے صادر ہونے کے متعلق شک و شبہ کا اظہار کیا ہے یہی طریقہ استدلال پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نہج البلاغہ کے تمام فقرات حضرت کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔

انہوں نے ”خطبہ شقشقیہ “ کے متعلق مصدّق بن شبیب واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے:

۶۰۳ ھ ق میں اس خطبہ کو میں نے شیخ ابو محمد ،عبد اللہ بن احمد ،عرفیت ”ابن خشّاب“ کی خدمت میں پڑھان سے دریافت کیا: ”کیا آپ اس خطبہ کے جعلی اور نقلی ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں؟“۔

فرمایا: نہیں خدا کی قسم !

مجھے یقین ہے کہ یہ خطبہ حضرت کے اقوال کا حصہ ہے ،جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس کی تصدیق کرنے والے ہو۔

میں نے کہا: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کے کلمات کا

________________________

۱۔ الانوار اللامعہ ،سید عبد اللہ شُبّر،ص۳۱۔

۵۹

حصہ ہے ۔

فرمایا: نہیں نہ رضی اور نہ غیر رضی ، ان کا طرز گفتگو کہاں اس قسم کا تھا؟ میں نے رضی کے مکتوبات کو دیکھا ہے اور ان کے نثر کے طریقہ کلام سے میں آشنا ہوں ۔(۱)

اس بیان کی بنا پر ،اعلی معارف ،درخشاں حقائق ،روشن معانی اور عمیق مطالب جو پسندیدہ اسلوب، بہترین بیان ،منطقی نما اور نہایت عظیم و فصیح عبارتیں اس مبارک دعا میں مزکور ہیں ،وہ ہمیں ہر قسم کی سند اور منبع و مصدر پیش کرنے سے بے نیاز کرتی ہیں کہ ایسے تابناک اور روشن ظریف نکات جو کبھی بھی ولایت کے صاف و شفاف چشمہ کے علاوہ کسی اور منبع و مصدر سے نشاة نہیں پاتے ۔

ہمارے استاد دانا حضرت آیت اللہ سید مرتضیٰ شبستری (متوفیٰ ۱۴۰۱ ھء ق) جو قرآنی اور حدیثی مسائل میں ایک بے مثال انسان تھے ،جس زمانے میں ائمہ اطہار کی ولایت و امامت کی بحث محکمات قرآن کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم کے ممتاز علماء و فضلاء کی جماعت کے لیے درس دیتے تھے ایک دن مسند درس پر فرمایا:

”میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے ہر فقرہ متواتر ہے اور تمام حوزہ علمیہ کے لوگوں کو اس سلسلے میں بحث و گفتگو کی دعوت عام دیتا ہوں۔ “

_______________________

۱۔ شر ح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ابو حامد ھبة اللہ مدائنی ،ج۱،ص ۲۰۵۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204