میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا0%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر اسد وحید قاسم
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: صفحے: 158
مشاہدے: 49266
ڈاؤنلوڈ: 3523

تبصرے:

میں حسینی ہوگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49266 / ڈاؤنلوڈ: 3523
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابوہریرہ ہی سے روایت ہے،'' جب جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا ؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور ہے؟ اس وقت اللہ ذوالجلال اپنی ٹانگ جہنم میں ڈال دے گا جس پر وہ پکار اٹھے گا؛ بس،بس!!'(180) ۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،''اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں عرش سے نیچے آکراعلان کرتاہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے ،تو میں بخش دوں؟(181) یہ آخری روایت اہلسنت کے اس عقیدہ سے پوری طرح متضاد ہے کہ اللہ عرش پر مستقل تشریف فرما ہے ۔

ابو ہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ،'' بنی اسرائیل عریان ہوکر نہاتے تھے اور ہر کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھتا تھامگر حضرت موسیٰ تنہائی میں نہاتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے: اللہ کی قسم موسیٰ کو کوئی چیز ہم سے الگ نہانے کے لئے مانع نہیں ہے سوائے اسکے کہ ان کے آلۂ تناسل نہیں ہے ۔ایک دفعہ موسیٰ نہانے گئے اور اپنے کپڑے ایک چٹان پر رکھدئیے۔چٹان کھسک کر موسی کے کپڑوں سمیت دور چلتی گئی اور موسی اسکے پیچھے چلاتے دوڑے،میرے کپڑے واپس دیدو۔میرے کپڑے واپس دیدو یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسی ٰ کو(عریان )دیکھ لیا اور کہا،'' اللہ کی قسم !موسی ٰ کے بدن میں کوئی نقص نہیں ہے۔ انہوںنے چٹان سے اپنے کپڑے لئے اور ان سے اس چٹان کو مارنے لگے تاکہ اسے سبق سکھائیں! ابوہریرہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اور چھ یا سات چٹانوں سے بھی کہا کہ اس چٹان کو پیٹنے میں ان کا ساتھ دیں ۔(182)

ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ،'' جب نماز کیلئے اذان دی جاتی ہی،شیطان بھاگ جاتا ہے۔وہ مقعد( anus ) سے آواز دار گیس(ریح) خارج کرتا رہتا ہے تاکہ اذان نہ سنی جائے۔جب اذان مکمل ہوتی ہے وہ پھر آتا ہے نماز شروع ہونے کے ساتھ ہی۔ اس کے بعد وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور جب نماز تمام ہوتی ہے وہ پھر آجاتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مختلف چیزوں اور معاملات کے بارے میں باتیں کرنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ اس کوپتہ ہی نہیں رہتا ہے کہ اس نے نماز کیسے پڑھی(183) ۔

۱۰۱

حقیقت میں یہ احادیث بنی اسرائیل کی کتابوں میں موجود ہیں جو ابو ہریرہ اکثر بیان کرتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایک یہودی کعب الاکبار کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا جس نے بہانہ(منافق) کا اسلام قبول کیا تھا۔

جنت میں داخل ہونے کے بارے میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا،''میری امت میں ایک گروہ جنت میں جائے گا جن کی تعداد ستر ہزار ہے،ان کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہونگے۔آقاشاہ بن مسلم الاسعدی کھڑا ہوا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میرے لئے دعاء کیجئے کہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! آنحضرت (ص) نے دعاء کی،'' اے مالک! اس کو بھی ان میں شامل کیجئے! پھر انصار میں ایک شخص اٹھا اور کہا:اے اللہ کے رسول (ص)! میرے لئے بھی دعاء کیجئے تاکہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا''آقاشاہ نے پہلے ہی تم پر اس کیلئے بازی ماری ہے''(184)

ابوہریرہ سے یہ بھی روایت ہے،'' ہم پیغمبر خدا (ص) کے ہمراہ تھے،میں سویا تھا اور میں نے خواب میں اپنے کو جنت میں دیکھا۔ میں نے ایک محل کے پاس ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا عمر ابن خطاب۔ مجھے اس وقت یاد آیا کہ وہ کتنا حاسد ہے،اسلئے میں بھاگ گیا۔عمر نے رویا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میں صرف آپ کے بارے میں حاسد ہوں''!(185) ابوہریرہ اپنا ایک فتویٰ رسول خدا (ص) سے منسوب کرکے اسطرح صادر کرتا ہے،'' اگر کوئی بغیر اجازت تمہارے گھر میں جھانکے اور تم پتھر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالو، تو تم پر کوئی الزام نہیں ہے''(186) ۔ دوسرے ایک فتویٰ میں رسول (ص) سے منسوب کرکے کہتا ہے،'' تم میں سے کوئی بھی صرف ایک چپل پہن کر نہیں چلے گا، یا تم دونوں پہن کے چلو یا دونوں کو اتار کے چلو''(187) ۔

۱۰۲

صحیح بخاری کی روایات عقل و دانش کی ترازو میں:

یہ بہت ضروری ہے کہ صحیح بخاری پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں کیو نکہ اہلسنت کے نزدیک کتب احادیث میںجو مقام ومرتبہ کتاب بخاری کا وہ کسی دوسری کا نہیں ہے اس میںدرج روایات کو بالکل مستند مان کر کافی معتبرسمجھاجاتا ہے ۔اس کے برعکس اس میں ابوہریرہ اور دوسروں سے روایت شدہ بہت سارے ایسے واقعات درج ہیں جن میں عصمت نبی(ص) اور کچھ دوسرے معاملات مشکوک ہوجاتے ہیں۔امام بخاری کا کہنا ہے کہ'' انہوںنے وہ حدیثیںجمع کی جو چھ لاکھ میں سے صحیح ہیں۔ آگے لکھتے ہیںکہ میں نے اس کتاب میں صرف وہی بیان کیا جو مستند ہے اورجو میں نے اُن صحیح احادیث میں سے اپنی اس کتاب میںدرج نہیں کیا ہے، وہ اس سے کافی زیادہ ہے'' ۔ بخاری پر ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے صرف عدالتِ راویان احادیث پر اعتماد کو اپنی کتاب میں درج کرنے کا معیار قرار دیا ہے نہ کہ متنِ حدیث اور اس کے معنی و مطلب پر ۔ اسی وجہ سے اس کتاب میں متزلزل،غلط اور متضاد احادیث شامل ہو گئی ہیں۔حالانکہ اگر راوی عادل بھی ہو، تو اس کا عادل ہونا سنی ہوئی حدیث کا کچھ حصہ بھول جانے سے تو اسے نہیں روک سکتا،یہ بھی احتمال ہے کہ وہ حدیث کو اپنے معنی میں بیان کرے نہ کہ ان الفاظ میں جیسے اس نے سنا تھا۔ اس وجہ سے حدیث کے کچھ اصلی الفاظ چھوٹ سکتے ہیں جنکا کچھ اور معنی ہوسکتا ہے جس کی طرف راوی متوجہ نہیں تھا خاصکر جب راویوں کی تعداد زیادہ ہو ، کبھی سات سے آٹھ تک۔اگر ہم راویوں کی عدالت کی تصدیق کے مشکلات بھی ذہن میں رکھیں ،خاص کر وہ منافقین جن کے اندرونی راز صرف مالک دو جہاں جانتا ہے تو بخاری کی روایات قبول کرنے کے طریقہ کار میں بہت بڑی خرابی صاف نظر آتی ہے۔اس کی نوٹس لیتے ہوئے احمد امین کا ماننا ہے،'' کچھ راویان جن کی روایات انہوںنے بخاری میں درج کی ہیں قابل بھروسہ نہیں ہیں ''۔ حفاظ کا خیال ہے کہ بخاری کی ہر دس میں سے آٹھ حدیثیںضعیف ہیں(188) ۔ بخاری نے اپنی صحیح میں مندرجہ ذیل احادیث کو مستند مان کر درج کیا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی اہلسنت نے ان کے متن کی حامی بھر لی ہے:

۱۰۳

ابو سعید خدری سے منسوب روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے روز قیامت کے متعلق فرمایا ،''۔۔۔۔۔۔ وہ جہنم میں گرتے رہیں گے یہاں تک کہ صرف اللہ کی بندگی کرنے والے نیک یا گناہ گار بچیں گے جن سے کہا جائے گا،'' تم کیسے بچ گئے جب کہ باقی لوگ جہنم میں جا چکے ہیں۔ وہ جواب دیں گے :ہم ان کے ساتھ وابستہ رہے جن کی وابستگی آج کے لئے بہت ضروری تھی ۔اور ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو اعلان کر رہا تھا کہ تمام لوگ ان کے ساتھ جمع ہوجائیں جن کی وہ عبادت کر تے تھے، اس لئے ہم اپنے خدا کا انتظار کر رہے ہیں۔اللہ ذوا لجلال ان کے پاس اس صورت میںنہیں آئے گا جیسے انہوں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا اور وہ کہے گا! کیامیں تمہارا خدا ہوں؟،'' وہ کہیں گے،'' ہاںتو ہماراخدا ہے''۔صرف انبیا ء اس سے بات کریں گے اور ایک ان سے ہوچھے گا،'' کیا تمہیں اس کی پہچان کی کوئی علامت ہے؟ وہ کہیں گے،'' اسکی پنڈلی(ٹانگ)،تو وہ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگا۔۔''(189) ۔

جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' ایک رات ہم نبی(ص) کے ساتھ بیٹھے تھے۔انہوںنے چاند کی طرف دیکھا جو کہ چودھویں رات کاتھا اور فرمایا،' تم اسی چاند کی طرح اپنے رب کودیکھو گے، اور تمہیں اس کا دیدار کرنے سے نہیں روکا جائے گا(190) ۔ ان دوحدیثوںکو مسترد کرنے کیلئے اسی صحیح بخاری میں مشروق سے روایت ہے کہ،'' میں نے ام المومنین حضرت عائشہ سے پوچھا! کیا اللہ کے رسول (ص) نے کبھی اپنے خدا کو دیکھا؟ تو انہوں نے کہا،' آپ کا سوال سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔جس نے بھی تم سے کہا کہ محمد (ص) نے اپنے خدا کو دیکھا،وہ کذاب (جھوٹا) ہے۔پھر انہوں نے قرآن کی اس آیت کی تلاوت کی،''نگاہیں اسے پانہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے(سورہ انعام آیت 6)۔''کسی انسان کیلئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کردے، یا پس پردہ سے بات کرے یا کوئی نمائندہ فرشتہ بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ پیغام پہنچادے کہ وہ یقینا َ بلند و بالا اور صاحب حکمت ہے (سورہ شوریٰ آیت 51)''( 191)۔

۱۰۴

علامہ مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس آیت' اس دن بعض چہرے شاداب ہونگے ( سورہ قیامت آیت 5) کا یہ مطلب ہے کہ مومن جنت میں داخل ہونے کے لئے اپنے رب کے حکم کے منتظر ہونگے ۔ یہ اِ س آیت کے معنی ٰ میں ہے جس میں حضرت یعقوب سے انکے بیٹے کہتے ہیں، 'آپ اس بستی سے پوچھئے( یوسف 82) یعنی بستی میں بسنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ اسطرح آیت کے ظاہری معنی بیان کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مجسم ہونے کا ابہام ہوتا ہے(192) ۔

بخاری میں درج اسرائیلی نظریات کی ایک اور مثال عبداللہ کی سندسے درج ہے جس میں کہا گیا ہے ،''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کے پاس گیا اور کہا،' اے محمد(ص)! ہم نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اللہ جنت کو ایک انگلی پر،پیڑ پودوں کودوسری انگلی پر،زمین کو تیسری انگلی پر،پانی کو چوتھی انگلی پر، اور باقی ذُریات کو پانچویں انگلی پر اٹھاکر کہے گا،'' میں بادشاہ ہوں'' پیغمبر خدا اعرابی کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اتنا ہنسے کہ ان کے آخری دانت نمودار ہوگئے۔پھر اللہ کے رسول (ص) نے اس آیت کی تلاوت کی:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی۔۔(انعام 91)۔(193)

عبداللہ بن عمر سے منسوب روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'جب سورج چڑھنے لگے ،نماز پڑھنا موخر کردو یہاں تک کی سورج پوری طرح سے طلوع ہوجائے۔اور جب سورج ڈوبنے لگے پھر بھی نماز موخر کرد یہاں تک کہ یہ پوری طرح سے غروب ہوجائے ؛سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز مت پڑھو کیونکہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے چڑھتا ہے(194)

مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ لوگ ایسی اوہام پرستی پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں! یہاں ابوذرغفاری سے منسوب ایک اور روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے کہا، اے ابوذر تمہیں پتہ ہے کہ سورج غروب ہوکر کہاں چلا جاتا ہے؟ ابوذر نے کہا،' اللہ اور اس کا رسول (ص) بہتر جانتا ہے۔

۱۰۵

آنحضرت (ص) نے فرمایا:یہ عرش کے نزدیک جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے اور اجازت مانگتا ہے جو نہیں ملتی۔یہ پھر سجدہ ریز ہوکر اجازت مانگتا ہے مگر وہ بھی منظور نہیں ہوتی اور اسے حکم ملتا ہے کہ جہاں سے آئے ہو،وہاں واپس چلے جائو،تو یہ طلوع ہوتا ہے مکان غروب سے۔یہ اس قرآنی آیت کے حوالہ سے ہے،'' اور آفتاب اپنے ایک مرکز پردوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عظیم و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے(سورہ یٰسین آیت 38)َ ۔ اس قرآنی آیت : 'اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے' (سورہ اسراء 15)کے باوجود عمر بن خطاب سے روایت ہے،'' کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ مردہ پر رونے سے عذاب نازل ہوتا ہے؟'' عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' پیغمبر خدا (ص) کے سامنے ایک آدمی کے متعلق کہا گیا کہ وہ صبح دیر تک بغیر نماز پڑھے سوتا رہتا ہے اس پر رسول (ص) نے فرمایا: شیطان نے اس کے کانوں میں پیشاب کیا ہے(195) ۔

جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' رات کے وقت پانی اور برتنوں کو ڈھک دو،دروازے بند کرکے رکھو اور بچوں کو گھروں میں بند رکھو کیونکہ جن آ کے لوٹ لیتے ہیں۔ سونے سے پہلے چراغ بجھا دو کیونکہ چراغ کی بتّی جل کر مکان میں بھی آگ لگا سکتی ہے(196) ۔

اس سے صاف ثابت ہوا کہ بخاری اور دوسری کتب احادیث بھی جن کے متعلق برادران اہلسنت کا دعویٰ ہے کہ صحیح اور مستند ہیں ،میں بہت ساری مشکوک اور اسرائیلی روایات بھری ہیں جیسے اللہ کا دیدار کرنا، جہنم میں اللہ کی ٹانگ ڈالنا، اللہ کا پنڈلی کھولنا ، نبی کا قرآن بھول جانا،نماز ادھوری پڑھنا، بے غسل نماز کے لئے کھڑے ہوجانا (العیاذاً باللہ)، شہوانی خواہشات کا اظہار کرنا، عمر کے ذریعے اصلاح کر پانا، حضرت موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنااور عریان غسل کرنا اور اس جیسی بہت ہی رکیک اور نازیبا تہمتیں جو کہ عصمت انبیا کو مجروح کرتی ہیں ۔۔ وغیرہ

۱۰۶

(یہ وہی بخاری ہے جسکا اہلسنت کے گھرانوں میں ہونا آگ سے بچنے کا تعویز ہے اور جس میں علوم ِ نبوت کے وارث امام محمد باقر ، صادق آل محمد امام جعفر صادق اور ریحان رسول ،سردار جوانان جنت ،شہسوار دوش رسول ،جگر گوش زہرا بتول، فرزند شیر خدا امیر المومنین یعنی حضرت امام حسین سید شہدا علیہ السلام (بنائے لا الاہ الا اللہ )کی ایک بھی حدیث درج نہیں ہے جن کے متعلق آقائے دو جہان نے فرمایا'' حسین ُ مِنی و اَ نا مِن حُسین'' یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں! اس بغض علی و آل علی کے لئے سرکاری مبلغوں ،مصنفوں اور مفتیوں کو اللہ کی بارگاہ میں حساب دینا ہی پڑے گا۔مترجم) اسلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلامی تاریخ کی بنیاد پر بخاری اور دوسرے روایوں کی روایات پر دوبارہ غور کریں تاکہ ان وجوہات کا محاسبہ کریں جس کی وجہ سے منافقین نے اختلافات اور فرقہ بندی کے وہ بیج بوئے جن کی پیداوار کا خمیازہ ساری امت کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے ۔

نکاح متعہ

یہ ایک عورت اور مرد کا کچھ وقت کے لئے نکاح ہے جس میں وہ تمام شرعی شرائط و تحفظات ہوتے ہیں جو کہ نکاح دائمی میں ہوتے ہیں۔ جب مرد اور عورت میں معاہدہ نکاح متعہ مخصوص اجرت اور مدت کے لئے طے ہوتا ہے تو عورت مرد سے اسطرح صیغہ پڑھتی ہے،'' مجھے تم سے اتنے وقت اور اتنے مہر (اجرت) پر نکاح کرنا قبول ہے،پھر مرد بھی کہتا ہے کہ مجھے یہ شرائط قبول ہیں''۔ ان شرائط کے ساتھ ایک معینہ وقت تک یہ دونوں ایک دوسرے کے میاں بیوی بنتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اس کی مدت بڑھا بھی سکتے ہیں یا نکاحِ دائمی میں بدل سکتے ہیں ۔ مدت ختم ہونے پر عورت کو ''عدت'' کا وقت گذارنا پڑتا ہے۔ ماہانہ عادت سے گذرنے کی صورت میں عدت دو مہینے ہوگی بصورت دیگر صرف چالیس دن۔ متعہ نکاح میں پیدا ہونے والا بچہ،لڑکا ہو یا لڑکی باپ کے پاس رہیں گے(197) ۔

۱۰۷

نکاح متعہ شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے جائز ہونے کے معتقد ہیں۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ :شیعوں نے یہ طریقہ نکاح کہاں سے لیا ہے؟

کیا اس کا جائز ہونا (حرام یا حلال)مجتہد کے فتویٰ کا محتاج ہے؟

قرآن اور سنت پاک میں اس کے جائز ہونے کے کیا ثبوت ہیں؟

ان سوالات کا جواب دینے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے تمام فرقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کے شروع میں نکاح متعہ حلال تھا۔صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ،''ہم ایک فوجی مہم پہ رسول (ص) کے ساتھ تھے اور ہمارے ساتھ ازواج نہیں تھیں،اس لئے ہم نے آنحضرت (ص) سے کہا ،' کیا ہم ہیجڑوں کو اپنا سکتے ہیں؟لیکن انہوں نے اس سے منع کیا اور بعد میں عورتوں سے تھوڑے کپڑوں کے عوض نکاح کرنے کا حکم دیا اور اس قرآنی آ یت کی تلاوت کی:اے ایمان والو! اللہ کی طرف سے حلال شدہ چیزوں کو حرام مت کرو۔ اور یہ آیت،'' ۔۔ پس جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دیدو(نساء 2 4 ) اس طرح کے نکاح کے لئے پہلے ہی نازل ہوچکی ہے۔اکثر مفسرین اہلسنت نے اس آیت میں ''تمتع' 'فائدہ اٹھانے کو نکاح متعہ ہی مانا ہے۔مگر ابن عباس،ابی ابن کعب اور سعد ابن زبیر اس آیت کو حالانکہ اسطرح پڑھتے ہیں ،'' جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، انہیں اسکی اجرت ضرور دیدو''(199) ۔

ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:یہ بہت دور کی بات ہے کہ ہم تحریف قرآن پر یقین کریں؛ اسلئے اسکا مقصد تشریح کرنا ہے نہ کہ تلاوت(200) ۔ لیکن اسلامی فرقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ کہاں تک رائج رہا،کب ممنوع ہوگیا یا ممنوع ہوا بھی کہ نہیں۔ یہ حدیث کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کرتی ہے کہ نبی(ص) نکاح متعہ کو ممنوع کئے بغیر ہی وفات کر گئے: عمران سے منسوب روایت ہے کہ،'' آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی،اس لئے ہم نے اس پر عمل کیا اور اسکو منسوخ کرنے والی آیت کبھی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی آنحضرت (ص) نے اسکو اپنی عمر میں تا وفات حرام کیا۔ایک آدمی(شاید عمر ابن خطاب) نے اپنی رائے سے جو کچھ چاہا، کیا(201)

۱۰۸

'' ۔شرح الباری علیٰ صحیح بخاری میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کے متعلق اوپر والی حدیث میں اشارہ ہے،وہ عمر ابن خطاب ہے(202) ۔

صحیح مسلم میں درج ابو نظرہ کی روایت سے اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے،'' میں جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس تھا جب کوئی آیا اور ان سے پوچھا: ابن عباس اور ابن زبیر متعہ(متعہ نساء و متعہ حج) میں اختلاف کرتے ہیں جس پرجابر نے کہا،' ہم نے نبی (ص) کے ساتھ ان دونوں پر عمل کیا،پھر حضرت عمر نے ہمیں ان پر عمل کرنے سے منع کیا، تو ہم نے ان پر اب عمل نہیں کیا'(203) ۔

صحیح مسلم میں بھی عطا سے روایت ہے،'جابر عمرہ کرنے آیا،ہم اس کے گھر گئے اور لوگوں نے اور سوالوں کے علاوہ متعہ کے بارے میں پوچھا۔جابر نے کہا، ہاں ہم نے زمانہ رسول (ص) ،زمانہ ابوبکر اور زمانہ عمر میں اس پر عمل کیا'(204) ۔

مسلم میں ہی جابر بن عبداللہ سے روایت ہے،'' ہم کچھ عدد کھجور اور کچھ آٹے کے عوض رسول خدا (ص) اور حضرت ابوبکرکے زمانے میں متعہ پر عمل کرتے تھے یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے اس کوعمرو بن حریث کے مسئلہ پر حرام کیا ۔۔(205) ۔

عمرو بن حریث کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت اس کے پاس حاجت کے لئے آئی تاکہ وہ اپنی پیٹ کی بھوک مٹائے مگر اس شخص نے اسے کچھ دینے سے انکار کیا جب تک کہ وہ اسے راضی (شہوانی ضرورت)نہ کرے اس بہانے کے ساتھ کہ یہ نکاح متعہ تھا۔اس عورت نے یہ شرط اپنی مرضی کے خلاف مجبوری میں قبول کی۔ خلیفہ عمر بن خطاب کو جب اس کی خبر ملی تو غضبناک ہوئے جس کی بنا پر اس کو ممنوع کیا۔ انہوں نے اس کے بعد متعہ نکاح پر عمل کرنے کی سزاہ سنگساری رکھی ،جیسا کہ صحیح مسلم میں ابونظرہ سے روایت ہے،' ابن عباس متعہ پر عمل کرتے تھے اور ابن زبیر منع کرتے تھے جس کی بنا پر میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھا اور اس نے کہا : ہم رسول خدا (ص) کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے اور جب عمر خلیفہ بنے،انہوں نے کہا کہ اللہ جو چاہے نبی (ص) پر حلال کرتا ہے ۔ اسلئے متعہ حج اور متعہ نساء پر عمل کرنے کرنے سے باز رہو۔اگر کسی مرد کو میرے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے نکاح (متعہ) کیا ہے،تو میں اسے سنگسار کروں گا'(206) ۔

۱۰۹

صحیح ترمذی میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے جس میں اسے ایک شامی نے پوچھا کہ کیا متعہ حلال ہے تو ابن عمر نے جواب دیا،ہاں یہ حلال ہے اس شخص نے کہا کہ تمہارے باپ عمر بن خطاب نے اسے منع کیا ہے جس پر ابن عمر نے کہا،'' کیا تمہارا مطلب ہے کہ ہم نبی (ص) کی سنت چھوڑ کر اپنے باپ کی سنت پر عمل کریں؟(207)

امت کے دانشور ابن عباس آیت متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے اعتقاد کیلئے مشہور تھے۔ زمخشری اپنی تفسیر کشاف میں ابن عباس کی روایت پراس بات کے معتقد ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیں ہوئی ہے۔صحیح بخاری میں بھی اس حقیقت کی گواہی موجود ہے۔ابو جمراح کا بیان ہے،'' میں نے ابن عباس کو متعہ نساء کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حلال ہے ۔مولیٰ نے اسے کہا،اس پر حالت مجبوری میں عمل کیا جاتا ہے ،جب عورتوں کی کمی ہو یا اور کچھ ایسا ہی جس پرابن عباس نے کہا،''ہاں''(208) طبرانی اور ثعلبی،دونوں اپنے تفاسیر میں حضرت علی سے روایت کرتے ہیں،'' اگر عمر متعہ کو ممنوع نہیں کرتے،توبدبخت کے سوا کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا''(209) ۔

نکاح متعہ کے حلال ہونے کی واضح دلیلوں سے ثابت ہونے کے باوجود آج کل کے اکثر اہلسنت اسکے مخالف ہیں ،یہ کہہ کر کہ آیت متعہ منسوخ ہوچکی ہے۔انہیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ کب اور کس نے منسوخ کی۔ کچھ کہتے ہے کہ قرآنی آیت سے منسوخ ہوئی،تو کچھ کہتے ہیں سنت سے۔ یہ دونوں خیال بے بنیاد ہیں جیسا کہ اوپر بیان شدہ روایات سے ثابت ہے۔کچھ کہتے ہے کہ نکاح متعہ قرآنی آیت،''۔۔اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنے ہاتھوں کی ملکیت کنیزوں کے کہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی الزام آنے والا نہیں ہے( مومنون 5۔6) اس سے منسوخ ہوگئی ہے جبکہ یہ مکی آیت ہے اور آیت متعہ مدنی ہے۔اور جو سنت سے منسوخ ہونا کہتے ہیں ان میں بھی کافی اختلاف ہے۔ایک کہتا ہے خیبر میں ،دوسرا موتہ میں ،تیسرا فتح مکہ کے موقعہ پر،چوتھا تبوک میں ،پانچواں عمرہ قضاء میں اور چھٹا حجتہ الوداع میں۔۔۔! ان غیر متواتر اور متضاد بیانات سے اس کا ضعف ہوناثابت ہوتا ہے۔

۱۱۰

احادیث کی روشنی میں خبر واحد پرانحصار نہیں کیا جا سکتا ہے اور کوئی قرآنی آیت بھی اس کے منسوخی کی دلالت نہیں کرتی ہے ،جیسیاکہ اللہ خود اعلان کر رہا ہے،''۔۔۔ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں'' (بقرہ آیت 106)۔نکاح متعہ کے حلال ہونے کے ثبوت میں اتنی صحیح روایات ہونے اور رسول خدا (ص) کے ذریعے کبھی بھی حرام نہ کرنے کے باوجود عمر بن خطاب نے اپنی مرضی سے اسے عمرانی وجوہات کی بنا پر نہ کہ شرعی بنیاد پر اپنی خلافت کے اواخر میں ممنوع قرار دیا۔عمر بن خطاب کو اسلامی اصولوں میں دخل دینے کاکوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے،' حلال محمد (ص) قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد(ص) قیامت تک حرام ہے '' اور ''جو نبی(ص) تمہیں دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو(القران)''۔ یہ فقط ایک مسئلہ نہیں ہے جس میں حضرت عمر نے دخل اندازی کی ہے بلکہ بارہا انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے دینی معاملات میں ایسا کیا ہے(210) ۔ ایسی ہی ایک مثال ہے نماز تراویح کا جماعت قائم کرنا جبکہ رسول (ص) اور حضرت ابوبکر نے انفرادی طور رمضان کے نفل نمازیں پڑھی ہیں۔صحیح بخاری میں ابن شہاب سے روایت ہے،'' ماہ رمضان کی نوافل زمانہ رسول (ص)،زمانۂ حضرت ابوبکراور زمانۂ حضرت عمر کے اوائل میں فرادا ادا کی جاتی تھیں۔ ایک شب کو میں حضرت عمر کے ساتھ مسجدگیا اور ہر ایک کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا کہ میری رائے ہے کہ انہیں جمع کرکے ایک قاری کے پیچھے اکٹھے نماز پڑھی جائے ۔انہوں نے ان سب کو جمع کرکے ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھوائی۔ایک دوسری شب کو ہم پھر اکٹھے گئے اور سبھی کو ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا،' کیسی ایک اچھی بدعت ہے'! اور جو نماز سونے کے بعد(آخری شب) پڑھی جائے،سونے سے پہلی والی (عشاء کے ساتھ ہی) سے بہتر ہے(211) ۔ اس میں حضرت عمر بن خطاب نے ایک اور اجتہاد کرکے بیس رکعات بنا دیا جبکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھیں چاہے ماہ رمضان رہا ہو یا اور کوئی مہینہ(212) ۔

۱۱۱

اس سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اہلسنت وضعی احادیث امام علی کیساتھ منسوب کرکے متضاد روایات سے استدلال کرتے ہیں جیسا کہ بخاری میں درج ہے،'' کسی نے امام علی سے کہا کہ ابن عباس متعہ کو حلال سمجھتا ہے جس پر علی نے کہا : اللہ کے رسول (ص) نے اس کوجنگ خیبر میں ممنوع قرار دیا اور پالتو گدھوں کا گوشت بھی۔ کچھ نے کہا،' اگر کوئی متعہ پر عمل کرنے کے لئے چال چلے،تواسکا نکاح باطل ہے،کچھ اور کہتے ہیں،' نکاح جائز ہے مگر شرائط کے بغیر''(213) ۔ اگر ان لوگوں نے سمجھا ہوتا کہ خلیفہ حضرت عمر نے متعہ کو کیوں ممنوع کیاتھا تو انہیں ایسی حماقت نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی اتنا تضاد ہوتا۔متعہ کے شرعی اور تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت ہے۔اخلاقی اور سماجی نقطۂ نظر سے اس قانون کا لاگو ہونا انسان کے لئے رحمت بن کے آیا ہے اور کچھ کے لئے آسانی کی خاطر خاصکر ان کے لئے جو تعلیمی سفر پر ہوتے ہیں،کاروبار،جہاد یا جنگی حالات میں جہاں بیوی ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ان جیسے لوگوں کے بہت سے مشکلات ہوتے ہیں۔جنسی خواہش پر قابو پانے کے لئے انہیں جہاد نفس میں ملوث ہونا پڑے گا جو کی سب کے لئئے ناممکن ہے اور ذہنی دباؤ ( depression ) کے شکار ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ یابدکاری کا شکار ہوجانے کا خطرہ ہے جس کی آج دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے جس نے اب فساد اور جرائم کو جنم دیا ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جس نے ایک عربی مولوی شیخ احمد القتان کو فلپائن میں زیر تعلیم طالب علموں کے لئے '' نکاح بنیت طلاق'' فتویٰ دینے پر مجبور کیا۔اس نکاح کی شرط یہ ہے کہ خاوند اس نیت سے شادی کرے کہ عین وقت (اپنی حاجت پوری کرکے )طلاق دے اور خاوند کی نیت سے نکاح ادھورا ہے جبکہ بیوی کی نیت سے دائمی ہے۔ خاوند بیوی کو اس وقت طلاق دیتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے ہی سے تھا۔جنہوں نے اس نئے نکاح کو ایجاد کیا ،انہیں پتہ ہے کہ یہ بیوی سے جھوٹ اور دھوکہ ہے اور قرآن و سنت سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔پھر بھی یہ مفتی کہتے ہیں کہ ہر صورت میں اس کے برے اثرات ہیں مگر اتنے نہیں جتنے کہ بدکاری میں! اس شیخ نے یہ فتویٰ اس وقت دیا جب اسے نکاح متعہ کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ ابن عباس اسکو جائز سمجھتے ہے۔

۱۱۲

اس نے جواب دیا کہ یہ حرام ہے اور ابن عباس نے اس کے بارے میں غلطی کی ہے۔ اس نے اسطرح کا بیان بھی دیا ،'' اگر ہم نے دانشوروں کی غلطی کا اتباع کیا ہوتا تو ہم کافر بن گئے ہوتے''!۔اسطرح' نکاح بِنیت طلاق' کا بدعت شیخ قتان کے مطابق نکاح متعہ کا متبادل بن گیا جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید نے ان جان بوجھ کر پیدا کئے ہوئے بدعات کے خلاف اسطرح خبر دار کیا ہے '' کیابہترین نعمتوں کے بدلے تم معمولی نعمت لینا چاہتے ہو؟!(بقرہ آیت 61)۔ لا حول و لا قوة الا با اللہ العلی العظیم

متعہ حج

متعہ حج پر اللہ کے رسول (ص) نے اس قرآنی آیت کے پس منظر میں عمل کیا،''اور حج و عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو۔پس اگر تم محصور کر لئے جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دیدو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو وہ روزہ رکھے، صدقہ یا قربانی دے،پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دیدے اور جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دوران اور سات روزے واپسی پر رکھے اس طرح پورے دس ہوجائیں۔یہ حج تمتع اور قربانی ان کے لئے ہے جن کے گھرمسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے۔۔(بقرہ آیت 96)۔یہ ایام حج و عمرہ میںدوران احرام ممنوع شدہ افعال سے استفادہ کرنے کے جواز کے لئے ایک قسم کی چھوٹ ہے(214) ۔ اور اس کو بھی عمر بن خطاب نے ممنوع قرار دیا ،اس کے باوجود کہ اللہ کے رسول (ص) نے اپنی وفات تک اس کو ممنوع نہیں کیا۔

بخاری میں سعد بن مصعیب سے روایت ہے،'' حضرت علی اور عثمان نے اس پر اختلاف کیا۔علی نے فرمایا: تم اس چیز سے منع کرنا چاہتے ہو جسکو اللہ کے رسول (ص) نے خود انجام دیا ہے۔علی نے دونوں (حج و عمرہ ) کی اجازت دی(215) ۔ نیچے دی گئی بخاری کی حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ تھے جو رسول خدا (ص) کے ارشادات کے مقابلے میں اپنے اجتہاد پر چلتے تھے۔ حاکم سے روایت ہے کہ میں نے دونوں ،حضرت علی و عثمان کو دیکھا۔عثمان نے متعہ حج کو ممنوع کیا اور دونوں کو یکجا کرنے پر ایک پر پابندی لگائی۔

۱۱۳

علی نے دونوں کی اجازت دی حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہتے ہوئے اور کہا کہ میں کبھی بھی کسی (عمر بن خطاب )کے کہنے پرسنت رسول کی ممانعت نہیں کروں گا(216) ۔

حضرت عثمان متعہ کو حرام قرار دینے کے لئے مجبور تھے کیونکہ خلافت قبول کرنے سے پہلے ہی اس کوعبدالرحمان بن عوف نے افعال ابو بکر و عمر عمل کرنے کی شرط رکھی تھی جو کہ امام علی (ص) نے پوری طرح سے رد کی تھی اس اعلان کے ساتھ کہ میں صرف قانون الٰہی اور سنتِ نبی (ص) کا پابند رہونگا۔ یہ روایت تواتر سے بیان کی گئی ہے کہ عمر ابن خطاب نے ببانگ دہل فرمایا ،'' دو قسم کے متعہ( متعہ نساء و متعہ حج) زمانۂ رسول (ص) میں رائج تھے،میں دونوں کو اب حرام قرار دیتا ہوں''(217) ۔ حضرت عمر کا یہ فرمان بتاتا ہے کہ اپنے فیصلوں پر عمل کرنا اور کرانا صرف انہیں کا شیوہ رہا ہے اور کسی کا نہیں۔وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ دونوں متعہ زمانہ رسول میں حلال تھے اور اب میں دونوں کو حرام قرار دیتا ہو ںجبکہ اللہ کے رسول (ص) نے اسے کبھی بھی حرام نہیں کہا۔ اہلسنت اس کاکیا جواز پیش کریں گے جب قرآن کہتا ہے،'جو نبی (ص) دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو'۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخ اسلام کا بغیر کسی تعصب کے علمی جائزہ لے تو اسکو محکم فرمان رسول (ص) کے باوجود بہت سے ایسے احکام(خاصکر عمر بن خطاب) کے اجتہادی فیصلے نظر آئیں گے جو احکام رسول کے بالکل مخالف ہیں۔مگر برادران اہلسنت انکی لاعلمی کی وجہ سے سنت رسول (ص)مانتے ہیں اور الزامات سنتِ نبوی پر حقیقی عمل کرنے والے بیگناہ شیعوںپرلگاتے ہیں

امام مہدی منتظر عجل اللہ تعا لیٰ فرجہ الشریف اور اختلافات

تمام اسلامی فرقوں کا ایک انسان پر اتفاق ہے جو کہ آخری وقت میں ظہور کریگا تاکہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے اور کرۂ ارض پر منصفانہ حکومت حقیقی قائم کریگا جس کی تائید اس قرآنی آیت سے ہوتی ہے؛ ،''اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے( انبیا آیت 105) '' اور '' ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوںکو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پراحسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمیں کا وارث قرار دیں( قصص آیت 5)''

۱۱۴

اور'' یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ خدا تو وہ ہے جس نے اپنے رسول (ص) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکوں کوکتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو''( توبہ آیت 32۔33 ) ۔اللہ کے رسول (ص) نے صاف الفاظ میں ا س کی نشاندہی کی ہے کہ منتظر شخص ان کے اہلبیت میں سے ہے ۔ اور فرمایا،'' یہ دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر میرے اہلبیت میں سے میرا ہم نام ان پر حکومت نہیں کریگا۔۔''(218) ۔

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمین ظلم ،جور اور نا انصافی سے پُر نہ ہوجائے، پھر میرے اہلبیت میں سے ایک شخص آئے گا اور ظلم و جور سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا''(219) ۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' اگر دنیا میں زندگی کا صرف ایک دن باقی رہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کریگا یہاں تک کہ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص لوگوں پر حکومت کریگا ''(220) ۔

ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' مہدی میری اور فاطمہ کی ذریت میں سے''۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کا آخری وقت میں ظہور ہوگا اور مہدی کے پیچھے نماز پڑھے گا۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' آپ کی حالت اس وقت کیا ہوگی جب عیسیٰ ابن مریم آئیگا اور تمہارا ہی امام تمہارا حاکم ہوگا''؟!(221) ۔ حافظ نے شرح بخاری میں کہا ہے ،'' احادیث تواتر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ مہدی اس قوم سے ہوگا اور عیسیٰ ابن مریم اس کے پیچھے نماز پڑھے گا''(222) ۔ رباتت العالم الاسلام( The Fiqh Assembly of the Muslim World League ) نے 31 مئی 1976 میںامام مہدی کے متعلق یہ فتویٰ صادر کیا:'' امام مہدی ،محمد ابن عبداللہ الحسنی العلوی الفاطمی المہدی منتظر ہے۔اس کا ظہور آخری وقت ہوگا اور وہ حجاز میں بیعت لیگا،مکہ مکرمہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان،خانہ کعبہ اور حجرہ ٔاسود کے درمیان۔

۱۱۵

وہ اس وقت ظہور کریگا جب رشوت خوری عام ہوگی،بے دینی پھیل جائے گی، اور ظلم عام ہوگا۔ اور وہ عدل و انصاف سے زمین کو ایسے پر کرے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ تمام دنیا پر حکومت کریگا اور ہر کوئی اس کی اطاعت ایک باریقین اور ایک بار جنگ سے کریگا۔ وہ زمین پر سات سا ل حکومت کرے گا اور پھر عیسی آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کرینگے۔یا اس کے ساتھ آئیگا اور وہ باب لود فلسطین میں قتلِ دجال میں مہدی کی مدد کریگا۔اور وہ رسول خدا (ص) کے بتائے ہوئے سچے بارہ خلیفوں میں آخری ہوگا جیسا کہ صحاح ستہ میں درج ہے۔ ظہور مہدی پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہ اتباع سنت و اجماع کے بنیادی اصولوں میں ایک ہے۔ اور اس کاانکار سنت سے بے خبر اور ایک بدعتی کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ہے۔''(223) ۔ اسطرح برادران اہلسنت شیعوں سے اس پر متفق ہیں کہ امام مہدی ان بارہ خلفا ء میں آخری ہے جن کی خوش خبری اللہ کے رسول (ص) نے دی ہے اور دونوں فریق مہدی منتظر کے بارے میں اکثر نقاط پر متفق ہیں سوائے:

(اول): اکثر سنیوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانے پیں جنم لینگے جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ جناب 255 ھ (869 ئ) میں امام حسن عسکری ـ کے یہاں تولد ہوئے۔لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت اور قدرت اسے پردہ غیب میں لیا،وہ زندہ ہے اور آخری وقت میں ظہور کرینگے

(دوئم): سنیوں کا اپنی روایات کی بنا پر عقیدہ ہے کہ مہدی ،حسن کی نسل سے ہیں اور ان کے باپ کا نام عبداللہ ہے ،رسول خدا(ص) سے منسوب اس روایت کی بنیاد پر کہ اس کا نام میرے نام جیسا ہے اور اسکے باپ کا نام ،میرے باپ کے نام جیسا۔ جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ امام حسین کی نسل سے ہیں اور اپنے باپ امام حسن العسکری سے پیدا ہوئے ہیں۔۔۔اسکا نام مجھ جیسا ہوگا اور اسکے باپ کا نام میرے فرزند کا نام ہوگا،(امام حسن عسکری کی طرف اشارہ) ۔ کچھ سنی دانشوروں نے شیعوں کے ان عقائد پر تنقید کرنا چاہا اس بنا پر کہ امام مہدی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے پانچ سال کی عمر میں عہدہ امامت سنبھا لا ہے۔ یہ تنقید صرف انکے اپنائے ہوئے تعصب کی وجہ سے ہے جو کہ انکی عادت ہے یا ورثہ میں ملا ہے۔وہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کے دلائل سننے کے بغیر ہی انکی تردید کرتے ہیں۔ اسکے متعلق ہمارا جواب یہ ہے:

۱۱۶

(ا): کچھ سنی دانشور ہیں جو یہ مانتے ہی کہ مہدی منتظر ،امام مہدی ابن حسن عسکری ہیں،وہ زندہ ہیں،اور اس وقت تک پردہ ٔغیب میں رہیں گے جب تک اللہ انہیں ظہور کرنے کا حکم نہ دیگا ۔اسطرح انکا وہی عقیدہ ہے جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کا ہے۔ وہ دانشور یہ ہیں :

1:۔ محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات مکیہ میں ؛ 2:۔ سبط ابن جووزی تذکرة الخواص میں ؛ 3:۔ عبد الوحاب الشعرانی عقائد الاکابر میں

4 : ابن خشاب تواریخ موالید الائمہ و وفِیاتھم میں ؛ 5:۔ محمد بخاری حنفی فصل خطاب میں ؛ 6:۔ بلاذری الحدیث متسلسل میں ؛

7: ابن سباغ مالکی فصول مہمہ میں ؛8:۔العارف عبدالرحمان مرات الاسرار میں ؛ 9:۔ کمال دین ابن طلہ مطالب سؤل فی مناقب آل رسول(ص) میں؛9:۔ القندوزی حنفی ینابیع المودة میں،10:۔؛ جلال الدین رومی حالات ایمہ اثنا عشریہ میں ؛11:۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی احوال ایمہ اثنا عشریہ میں؛12:۔پروفیسر خسرو قاسم اپنی کتاب امام حسن عسکری میں۔۔۔۔ اسکے علاوہ اور بھی ہیں(224) ۔

(ب) : اس کے خلاف شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام مہدی کے غیبت جیسے معجزات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ نوح اپنی قوم میں 950 سال انہیں دعوت حق دیتے رہے: ''۔۔ اور وہ انمیں پچاس کم ایک ہزار سال رہے( عنکبوت آیت 1 4 )۔وہ حالانکہ اس سے زیادہ وقت تک رہے۔ اصحاب کہف 309 سال سوتے رہے۔ اللہ نے عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا کر ظالموں سے بچایا اور آخری زمانہ میں واپس اس زمین پر بھیجے گا۔ حضرت خضر بھی پردہ ٔغیب میں زندہ ہیں۔ جہاں تک امام مہدی کی اپنے والد ،اہلبیت میںسے گیارہویں امام حسن عسکری کی وفات پر چھوٹی عمر میں منصب امامت حاصل کرنے کا معاملہ ہے، اس جیسے یا اس سے بڑے بہت سے معجزات ہیں۔ حضرت عیسی ابن مریم نے گہوارے میں ہی نبوت کا اعلان کیا''۔۔ میں اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا (مریم 29)۔اور '' یحییٰ ! کتاب کو مضبوتی سے پکڑلو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کی(مریم آیت 12)''۔ اگر کوئی کہے کہ یہ معجزات نبیوں کیلئے تھے،تو ہم کہیں گے کہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد بند ہوگئے۔

۱۱۷

اصحاب کہف اور مریم بنت عمران مادر حضرت عیسیٰ پیغمبر تو نہیں تھے۔ حالانکہ شیطانوں کے سربراہ ابلیس کو اللہ نے وقت معلوم تک زندگی عطا کی۔ اس کے برعکس جو مہدی برحق کی غیبت پر اعتراض کرتے ہیں، یہ ان کی جہالت اور اس عظمت مہدی کی لاعلمی کی بنا پر ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے اس عیسی کا امام بنایا جو شیرخواری کی حالت میں پیغمبر بنایا گیا ہے۔اگر اہلسنت یہ جانتے اور اعتراف کرتے کہ اللہ وہ ہے جس نے اہلبیت رسول (ص) میں سے بارہ اماموں کو پیغمبر خدا (ص) کے جانشین اور محافظ شریعت منتخب کیاتو ان کی حیرانگی( بمناسبت اللہ کے ذریعے ختم امامت کا احاطہ اور اس کے ذریعے دین اسلام کا تمام امتوں پر غالب آنا) ختم ہوجائے گی اور انہیں کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔ اکثر سنیوں کو اس پر تعجب نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے طریقوں سے کیا قبول کیا ہے یا اور بہت سے چیزیں جو ان کے مسلک نے اختیا ر کئے ہیں اس کے بجائے وہ اسکو قبول کرتے ہیں اورسر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہیں چاہے وہ قرآن میں بیان شدہ یہ معجزات ہوں جنکے متعلق کوئی شک کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ صحیح بخاری و مسلم میں درج شدہ وہ قابل تنقیدروایات بھی جنہوں نے روح اسلام کو مجروح کیا ہے ۔ مثلاََ اللہ رات کے آخری حصہ میں نیچے آتا ہے، وہ روز قیامت اپنا پیر جہنم میں ڈالے گا، (ا ن عقائد کے متعلق ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں )یا نبی (ص) کا قرآن بھول جانا،ادھوری نماز پڑھنا، جادو کے ذریعہ قابو ہونا،موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنا،حضرت ابوبکر کا ایمان ساری امت کے ایمان سے بھاری ہونا، حضرت عمر کا واقعہ ساریا میں ہزاروں میلوں تک نظر کرنا،اگر محمد (ص) کے بعد کوئی نبی ہوتا و وہ عمر بن خطاب ہوتا، اذان کا طریقہ حضرت عمر کی رائے پر لاگو ہونا، شیطان کا نبی (ص) کے راستے سے نہیں بلکہ عمر کے راستے سے بھاگ جانا، ملائکہ کاحضرت عثمان سے شرمانا وغیرہ اور ان جیسی بہت سی کہانیاں جن کو اہلسنت خرابیوں سے آلودہ ہونے کے باوجود قبول کرتے ہیں۔اور جو دوسروں کے عقائد ہیں ان کو کسی تحقیق کے بغیر ہی مسترد کرتے ہیں۔

۱۱۸

مجھے پورا یقین ہے کہ اگر غیبتِ امام مہدی کا عقیدہ سنی مذہب میںشامل کیا گیا ہوتا،تو نہ وہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہوتے اور نہ ہی وہ اس پر اعتراض کرتے! مجھے وہ دلچسپ واقعات یاد آتے ہیں جو مجھے اپنے سنی بھائیوں سے بحث کرتے ہوئے پیش آئے۔ ان میں سے جس ایک نے شیعوں کی طرف سے جائز قرار دئیے ہوئے نکاح متعہ کا انکار کیا،اسکو پتہ ہی نہیں تھا کہ اسلام نے غلامی کو حرام قرار نہیں دیا ہے۔اسی لئے وہ غلامی کی مخالفت کر رہا تھا کیونکہ یہ اسکی ذہنیت کے موافق نہیں تھی۔ اور جب میں نے اسے سمجھایا کی سنی اس کو حرام سمجھتے ہے،اس نے فوراََ ہاں میں ہاں کرکے انکے ساتھ اتفاق ظاہر کیا۔ نکاح متعہ جس کے متعلق بخاری میں بھی ممانعت کی کوئی شہاد ت نہیںدیکھی مگر پھر بھی علامہ بخاری جائز نہیں مانتے صرف اس بناپر کہ سارے سنی اسے حرام سمجھتے ہیں! اس سے مضحکہ خیز اور کیا ہوسکتا ہے۔

میں ہدایت یافتگی کے دوران اپنے دفاع میں دوسروں سے ( بہانے کے طور پر) کہتا تھا کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی (ص) قرآن کی کچھ آیات بھول گئے تھے، ایک یہودی نے انہیں جادو میں پھنسایا اور حضرت موسی نے ملک الموت کی آنکھ پھوڑدی وغیرہ تو وہ اسکو فوراََ مسترد کرکے ایسے عقائد کی مذمت کرتے تھے! اور جب میں ثابت کرتا تھا کہ یہ وہی اہلسنت کے عقائد ہیں جن پر شیعہ انکی تنقید کرتے ہیں اور یہ کہ ایسے احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں بخاری اور مسلم میں موجود ہیں تو ان میں اکثر انکا دفاع کرکے ان کی وکالت کرنے آتے تھے۔ یہ اس کے سوا کیا ہے؟ صرف اندھا مسلکی تعصب ۔اسکی مخالفت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے اور انکو سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آنکھیںبند کرنے سے حق کے وجودکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی مثال اس شتر مرغ کی سی ہے۔(جو شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپاتا ہے اور اسطرح اپنے کو ناقابل یقین دھوکہ دیتا ہے جب شکاری آکے آسانی سے اسکا شکار کرتا ہے)۔کچھ لوگوں کے خیال کے برخلاف تمام اسلامی فرقوں کے امام مہدی کے آخری وقت ظہور ہونے کے عقیدے کے باوجود وہ اسکے بارے میں وقت ِ ظہور اختلاف کریں گے اور یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا حالانکہ اہل کتاب میں سے یہود اور نصارا بھی معتقد ہیں کہ آخری وقت میں ایک نجات دہندہ آئے گا جو دنیا کی اصلاح کریگا۔

۱۱۹

روایات میں آیا ہے کہ مسلمانوں کا دجال کے خلاف مہدی کی طرف سے لڑنے میں سخت امتحان لیا جائے گا کیونکہ بہت سے لوگ دجال کی فوج میں شامل ہونگے۔ میرے خیال میں سچائی اس سے بہت دور ہے جسکا اہلسنت اس بارے میںعقیدہ رکھتے ہیں یعنی کہ دجال کے ماتھے پر لفظ ''کافر '' لکھا ہوگا۔ ایسے میں یہ کافی ناممکن ہے کہ مسلمان 'کافر لفظ 'پڑھ سکنے کی صورت میں آزمایا جائے گا جو اسکے متعلق سچائی بتائے گا۔ کیونکہ انکا دعویٰ ہے کہ صرف مومن ہی اس لفظ کو دجال کے ماتھے پرپڑھ پائیگا ۔یہ دعویٰ بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اسکا نتیجہ پھر دجال کو دیکھنے سے پہلے ہی سے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ جس اختلاف( لفظ کا فر پڑھنے یا نہ پڑھنے) کی طرف روایت نے اشارہ کیا ہے کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہے۔ میں پہلے اس پرتعجب کرتا تھا کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ اس کو فتح نصیب فرمائے گا،مسلمان امام مہدی کے ظہور کرنے پر ان کی بیعت کیوں نہیں کریں گے یا ان کانتظار کرنے کے باوجودوہ ان کے ساتھ مقابلہ کیوںکریں گے ؟؟!!

لیکن شیعہ اور سنی اختلافات پر تحقیق کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ شیعہ اس شخص (مہدی ) سے اپنا بارہواں امام ماننے کی بنا پر حد سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اختلاف پہلے سے زیادہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جب امام منتظر شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے،وہ فوراََ بغیر کسی پس و پیش کے خوشی خوشی ان کی بیعت کریں گے جب کہ تعصبی سنی کہیں گے کہ یہ شیعوں کا امام مہدی ہے اور جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں یہ وہ نہیں ہے اور وہ بیشک سنی ہونا چاہئے! یہ ہمارے زمانے میں سچ ثابت ہوا جب متعصب سنی حضرات نے اسلامی انقلاب ایران خاص کر اس کے رہنما آیت اللہ خمینی کے خلاف نکتہ چینی اور الزامات کے ذریعے مخالفت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے اس عظیم رہنما پر صرف اسلئے کیچڑ اچھالا کیونکہ وہ شیعہ ہے! انہوں نے ایسا ان لوگوں کو پہچاننے کے بغیر ہی کیا جو اس سازش کے پیچھے تھے اور جو ا سلام نماہوکر اسلام دشمنوں کے لئے مجرمانہ مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

۱۲۰