میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا25%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51433 / ڈاؤنلوڈ: 4085
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

ابوہریرہ ہی سے روایت ہے،'' جب جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا ؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور ہے؟ اس وقت اللہ ذوالجلال اپنی ٹانگ جہنم میں ڈال دے گا جس پر وہ پکار اٹھے گا؛ بس،بس!!'(۱۸۰) ۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،''اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں عرش سے نیچے آکراعلان کرتاہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے ،تو میں بخش دوں؟(۱۸۱) یہ آخری روایت اہلسنت کے اس عقیدہ سے پوری طرح متضاد ہے کہ اللہ عرش پر مستقل تشریف فرما ہے ۔

ابو ہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ،'' بنی اسرائیل عریان ہوکر نہاتے تھے اور ہر کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھتا تھامگر حضرت موسیٰ تنہائی میں نہاتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے: اللہ کی قسم موسیٰ کو کوئی چیز ہم سے الگ نہانے کے لئے مانع نہیں ہے سوائے اسکے کہ ان کے آلۂ تناسل نہیں ہے ۔ایک دفعہ موسیٰ نہانے گئے اور اپنے کپڑے ایک چٹان پر رکھدئیے۔چٹان کھسک کر موسی کے کپڑوں سمیت دور چلتی گئی اور موسی اسکے پیچھے چلاتے دوڑے،میرے کپڑے واپس دیدو۔میرے کپڑے واپس دیدو یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسی ٰ کو(عریان )دیکھ لیا اور کہا،'' اللہ کی قسم !موسی ٰ کے بدن میں کوئی نقص نہیں ہے۔ انہوںنے چٹان سے اپنے کپڑے لئے اور ان سے اس چٹان کو مارنے لگے تاکہ اسے سبق سکھائیں! ابوہریرہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اور چھ یا سات چٹانوں سے بھی کہا کہ اس چٹان کو پیٹنے میں ان کا ساتھ دیں ۔(۱۸۲)

ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ،'' جب نماز کیلئے اذان دی جاتی ہی،شیطان بھاگ جاتا ہے۔وہ مقعد( anus ) سے آواز دار گیس(ریح) خارج کرتا رہتا ہے تاکہ اذان نہ سنی جائے۔جب اذان مکمل ہوتی ہے وہ پھر آتا ہے نماز شروع ہونے کے ساتھ ہی۔ اس کے بعد وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور جب نماز تمام ہوتی ہے وہ پھر آجاتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مختلف چیزوں اور معاملات کے بارے میں باتیں کرنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ اس کوپتہ ہی نہیں رہتا ہے کہ اس نے نماز کیسے پڑھی(۱۸۳) ۔

۱۰۱

حقیقت میں یہ احادیث بنی اسرائیل کی کتابوں میں موجود ہیں جو ابو ہریرہ اکثر بیان کرتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایک یہودی کعب الاکبار کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا جس نے بہانہ(منافق) کا اسلام قبول کیا تھا۔

جنت میں داخل ہونے کے بارے میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا،''میری امت میں ایک گروہ جنت میں جائے گا جن کی تعداد ستر ہزار ہے،ان کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہونگے۔آقاشاہ بن مسلم الاسعدی کھڑا ہوا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میرے لئے دعاء کیجئے کہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! آنحضرت (ص) نے دعاء کی،'' اے مالک! اس کو بھی ان میں شامل کیجئے! پھر انصار میں ایک شخص اٹھا اور کہا:اے اللہ کے رسول (ص)! میرے لئے بھی دعاء کیجئے تاکہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا''آقاشاہ نے پہلے ہی تم پر اس کیلئے بازی ماری ہے''(۱۸۴)

ابوہریرہ سے یہ بھی روایت ہے،'' ہم پیغمبر خدا (ص) کے ہمراہ تھے،میں سویا تھا اور میں نے خواب میں اپنے کو جنت میں دیکھا۔ میں نے ایک محل کے پاس ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا عمر ابن خطاب۔ مجھے اس وقت یاد آیا کہ وہ کتنا حاسد ہے،اسلئے میں بھاگ گیا۔عمر نے رویا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میں صرف آپ کے بارے میں حاسد ہوں''!(۱۸۵) ابوہریرہ اپنا ایک فتویٰ رسول خدا (ص) سے منسوب کرکے اسطرح صادر کرتا ہے،'' اگر کوئی بغیر اجازت تمہارے گھر میں جھانکے اور تم پتھر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالو، تو تم پر کوئی الزام نہیں ہے''(۱۸۶) ۔ دوسرے ایک فتویٰ میں رسول (ص) سے منسوب کرکے کہتا ہے،'' تم میں سے کوئی بھی صرف ایک چپل پہن کر نہیں چلے گا، یا تم دونوں پہن کے چلو یا دونوں کو اتار کے چلو''(۱۸۷) ۔

۱۰۲

صحیح بخاری کی روایات عقل و دانش کی ترازو میں:

یہ بہت ضروری ہے کہ صحیح بخاری پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں کیو نکہ اہلسنت کے نزدیک کتب احادیث میںجو مقام ومرتبہ کتاب بخاری کا وہ کسی دوسری کا نہیں ہے اس میںدرج روایات کو بالکل مستند مان کر کافی معتبرسمجھاجاتا ہے ۔اس کے برعکس اس میں ابوہریرہ اور دوسروں سے روایت شدہ بہت سارے ایسے واقعات درج ہیں جن میں عصمت نبی(ص) اور کچھ دوسرے معاملات مشکوک ہوجاتے ہیں۔امام بخاری کا کہنا ہے کہ'' انہوںنے وہ حدیثیںجمع کی جو چھ لاکھ میں سے صحیح ہیں۔ آگے لکھتے ہیںکہ میں نے اس کتاب میں صرف وہی بیان کیا جو مستند ہے اورجو میں نے اُن صحیح احادیث میں سے اپنی اس کتاب میںدرج نہیں کیا ہے، وہ اس سے کافی زیادہ ہے'' ۔ بخاری پر ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے صرف عدالتِ راویان احادیث پر اعتماد کو اپنی کتاب میں درج کرنے کا معیار قرار دیا ہے نہ کہ متنِ حدیث اور اس کے معنی و مطلب پر ۔ اسی وجہ سے اس کتاب میں متزلزل،غلط اور متضاد احادیث شامل ہو گئی ہیں۔حالانکہ اگر راوی عادل بھی ہو، تو اس کا عادل ہونا سنی ہوئی حدیث کا کچھ حصہ بھول جانے سے تو اسے نہیں روک سکتا،یہ بھی احتمال ہے کہ وہ حدیث کو اپنے معنی میں بیان کرے نہ کہ ان الفاظ میں جیسے اس نے سنا تھا۔ اس وجہ سے حدیث کے کچھ اصلی الفاظ چھوٹ سکتے ہیں جنکا کچھ اور معنی ہوسکتا ہے جس کی طرف راوی متوجہ نہیں تھا خاصکر جب راویوں کی تعداد زیادہ ہو ، کبھی سات سے آٹھ تک۔اگر ہم راویوں کی عدالت کی تصدیق کے مشکلات بھی ذہن میں رکھیں ،خاص کر وہ منافقین جن کے اندرونی راز صرف مالک دو جہاں جانتا ہے تو بخاری کی روایات قبول کرنے کے طریقہ کار میں بہت بڑی خرابی صاف نظر آتی ہے۔اس کی نوٹس لیتے ہوئے احمد امین کا ماننا ہے،'' کچھ راویان جن کی روایات انہوںنے بخاری میں درج کی ہیں قابل بھروسہ نہیں ہیں ''۔ حفاظ کا خیال ہے کہ بخاری کی ہر دس میں سے آٹھ حدیثیںضعیف ہیں(۱۸۸) ۔ بخاری نے اپنی صحیح میں مندرجہ ذیل احادیث کو مستند مان کر درج کیا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی اہلسنت نے ان کے متن کی حامی بھر لی ہے:

۱۰۳

ابو سعید خدری سے منسوب روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے روز قیامت کے متعلق فرمایا ،''۔۔۔۔۔۔ وہ جہنم میں گرتے رہیں گے یہاں تک کہ صرف اللہ کی بندگی کرنے والے نیک یا گناہ گار بچیں گے جن سے کہا جائے گا،'' تم کیسے بچ گئے جب کہ باقی لوگ جہنم میں جا چکے ہیں۔ وہ جواب دیں گے :ہم ان کے ساتھ وابستہ رہے جن کی وابستگی آج کے لئے بہت ضروری تھی ۔اور ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو اعلان کر رہا تھا کہ تمام لوگ ان کے ساتھ جمع ہوجائیں جن کی وہ عبادت کر تے تھے، اس لئے ہم اپنے خدا کا انتظار کر رہے ہیں۔اللہ ذوا لجلال ان کے پاس اس صورت میںنہیں آئے گا جیسے انہوں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا اور وہ کہے گا! کیامیں تمہارا خدا ہوں؟،'' وہ کہیں گے،'' ہاںتو ہماراخدا ہے''۔صرف انبیا ء اس سے بات کریں گے اور ایک ان سے ہوچھے گا،'' کیا تمہیں اس کی پہچان کی کوئی علامت ہے؟ وہ کہیں گے،'' اسکی پنڈلی(ٹانگ)،تو وہ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگا۔۔''(۱۸۹) ۔

جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' ایک رات ہم نبی(ص) کے ساتھ بیٹھے تھے۔انہوںنے چاند کی طرف دیکھا جو کہ چودھویں رات کاتھا اور فرمایا،' تم اسی چاند کی طرح اپنے رب کودیکھو گے، اور تمہیں اس کا دیدار کرنے سے نہیں روکا جائے گا(۱۹۰) ۔ ان دوحدیثوںکو مسترد کرنے کیلئے اسی صحیح بخاری میں مشروق سے روایت ہے کہ،'' میں نے ام المومنین حضرت عائشہ سے پوچھا! کیا اللہ کے رسول (ص) نے کبھی اپنے خدا کو دیکھا؟ تو انہوں نے کہا،' آپ کا سوال سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔جس نے بھی تم سے کہا کہ محمد (ص) نے اپنے خدا کو دیکھا،وہ کذاب (جھوٹا) ہے۔پھر انہوں نے قرآن کی اس آیت کی تلاوت کی،''نگاہیں اسے پانہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے(سورہ انعام آیت ۶)۔''کسی انسان کیلئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کردے، یا پس پردہ سے بات کرے یا کوئی نمائندہ فرشتہ بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ پیغام پہنچادے کہ وہ یقینا َ بلند و بالا اور صاحب حکمت ہے (سورہ شوریٰ آیت ۵۱)''( ۱۹۱)۔

۱۰۴

علامہ مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس آیت' اس دن بعض چہرے شاداب ہونگے ( سورہ قیامت آیت ۵) کا یہ مطلب ہے کہ مومن جنت میں داخل ہونے کے لئے اپنے رب کے حکم کے منتظر ہونگے ۔ یہ اِ س آیت کے معنی ٰ میں ہے جس میں حضرت یعقوب سے انکے بیٹے کہتے ہیں، 'آپ اس بستی سے پوچھئے( یوسف ۸۲) یعنی بستی میں بسنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ اسطرح آیت کے ظاہری معنی بیان کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مجسم ہونے کا ابہام ہوتا ہے(۱۹۲) ۔

بخاری میں درج اسرائیلی نظریات کی ایک اور مثال عبداللہ کی سندسے درج ہے جس میں کہا گیا ہے ،''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کے پاس گیا اور کہا،' اے محمد(ص)! ہم نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اللہ جنت کو ایک انگلی پر،پیڑ پودوں کودوسری انگلی پر،زمین کو تیسری انگلی پر،پانی کو چوتھی انگلی پر، اور باقی ذُریات کو پانچویں انگلی پر اٹھاکر کہے گا،'' میں بادشاہ ہوں'' پیغمبر خدا اعرابی کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اتنا ہنسے کہ ان کے آخری دانت نمودار ہوگئے۔پھر اللہ کے رسول (ص) نے اس آیت کی تلاوت کی:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی۔۔(انعام ۹۱)۔(۱۹۳)

عبداللہ بن عمر سے منسوب روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'جب سورج چڑھنے لگے ،نماز پڑھنا موخر کردو یہاں تک کی سورج پوری طرح سے طلوع ہوجائے۔اور جب سورج ڈوبنے لگے پھر بھی نماز موخر کرد یہاں تک کہ یہ پوری طرح سے غروب ہوجائے ؛سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز مت پڑھو کیونکہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے چڑھتا ہے(۱۹۴)

مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ لوگ ایسی اوہام پرستی پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں! یہاں ابوذرغفاری سے منسوب ایک اور روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے کہا، اے ابوذر تمہیں پتہ ہے کہ سورج غروب ہوکر کہاں چلا جاتا ہے؟ ابوذر نے کہا،' اللہ اور اس کا رسول (ص) بہتر جانتا ہے۔

۱۰۵

آنحضرت (ص) نے فرمایا:یہ عرش کے نزدیک جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے اور اجازت مانگتا ہے جو نہیں ملتی۔یہ پھر سجدہ ریز ہوکر اجازت مانگتا ہے مگر وہ بھی منظور نہیں ہوتی اور اسے حکم ملتا ہے کہ جہاں سے آئے ہو،وہاں واپس چلے جائو،تو یہ طلوع ہوتا ہے مکان غروب سے۔یہ اس قرآنی آیت کے حوالہ سے ہے،'' اور آفتاب اپنے ایک مرکز پردوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عظیم و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے(سورہ یٰسین آیت ۳۸)َ ۔ اس قرآنی آیت : 'اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے' (سورہ اسراء ۱۵)کے باوجود عمر بن خطاب سے روایت ہے،'' کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ مردہ پر رونے سے عذاب نازل ہوتا ہے؟'' عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' پیغمبر خدا (ص) کے سامنے ایک آدمی کے متعلق کہا گیا کہ وہ صبح دیر تک بغیر نماز پڑھے سوتا رہتا ہے اس پر رسول (ص) نے فرمایا: شیطان نے اس کے کانوں میں پیشاب کیا ہے(۱۹۵) ۔

جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' رات کے وقت پانی اور برتنوں کو ڈھک دو،دروازے بند کرکے رکھو اور بچوں کو گھروں میں بند رکھو کیونکہ جن آ کے لوٹ لیتے ہیں۔ سونے سے پہلے چراغ بجھا دو کیونکہ چراغ کی بتّی جل کر مکان میں بھی آگ لگا سکتی ہے(۱۹۶) ۔

اس سے صاف ثابت ہوا کہ بخاری اور دوسری کتب احادیث بھی جن کے متعلق برادران اہلسنت کا دعویٰ ہے کہ صحیح اور مستند ہیں ،میں بہت ساری مشکوک اور اسرائیلی روایات بھری ہیں جیسے اللہ کا دیدار کرنا، جہنم میں اللہ کی ٹانگ ڈالنا، اللہ کا پنڈلی کھولنا ، نبی کا قرآن بھول جانا،نماز ادھوری پڑھنا، بے غسل نماز کے لئے کھڑے ہوجانا (العیاذاً باللہ)، شہوانی خواہشات کا اظہار کرنا، عمر کے ذریعے اصلاح کر پانا، حضرت موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنااور عریان غسل کرنا اور اس جیسی بہت ہی رکیک اور نازیبا تہمتیں جو کہ عصمت انبیا کو مجروح کرتی ہیں ۔۔ وغیرہ

۱۰۶

(یہ وہی بخاری ہے جسکا اہلسنت کے گھرانوں میں ہونا آگ سے بچنے کا تعویز ہے اور جس میں علوم ِ نبوت کے وارث امام محمد باقر ، صادق آل محمد امام جعفر صادق اور ریحان رسول ،سردار جوانان جنت ،شہسوار دوش رسول ،جگر گوش زہرا بتول، فرزند شیر خدا امیر المومنین یعنی حضرت امام حسین سید شہدا علیہ السلام (بنائے لا الاہ الا اللہ )کی ایک بھی حدیث درج نہیں ہے جن کے متعلق آقائے دو جہان نے فرمایا'' حسین ُ مِنی و اَ نا مِن حُسین'' یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں! اس بغض علی و آل علی کے لئے سرکاری مبلغوں ،مصنفوں اور مفتیوں کو اللہ کی بارگاہ میں حساب دینا ہی پڑے گا۔مترجم) اسلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلامی تاریخ کی بنیاد پر بخاری اور دوسرے روایوں کی روایات پر دوبارہ غور کریں تاکہ ان وجوہات کا محاسبہ کریں جس کی وجہ سے منافقین نے اختلافات اور فرقہ بندی کے وہ بیج بوئے جن کی پیداوار کا خمیازہ ساری امت کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے ۔

نکاح متعہ

یہ ایک عورت اور مرد کا کچھ وقت کے لئے نکاح ہے جس میں وہ تمام شرعی شرائط و تحفظات ہوتے ہیں جو کہ نکاح دائمی میں ہوتے ہیں۔ جب مرد اور عورت میں معاہدہ نکاح متعہ مخصوص اجرت اور مدت کے لئے طے ہوتا ہے تو عورت مرد سے اسطرح صیغہ پڑھتی ہے،'' مجھے تم سے اتنے وقت اور اتنے مہر (اجرت) پر نکاح کرنا قبول ہے،پھر مرد بھی کہتا ہے کہ مجھے یہ شرائط قبول ہیں''۔ ان شرائط کے ساتھ ایک معینہ وقت تک یہ دونوں ایک دوسرے کے میاں بیوی بنتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اس کی مدت بڑھا بھی سکتے ہیں یا نکاحِ دائمی میں بدل سکتے ہیں ۔ مدت ختم ہونے پر عورت کو ''عدت'' کا وقت گذارنا پڑتا ہے۔ ماہانہ عادت سے گذرنے کی صورت میں عدت دو مہینے ہوگی بصورت دیگر صرف چالیس دن۔ متعہ نکاح میں پیدا ہونے والا بچہ،لڑکا ہو یا لڑکی باپ کے پاس رہیں گے(۱۹۷) ۔

۱۰۷

نکاح متعہ شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے جائز ہونے کے معتقد ہیں۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ :شیعوں نے یہ طریقہ نکاح کہاں سے لیا ہے؟

کیا اس کا جائز ہونا (حرام یا حلال)مجتہد کے فتویٰ کا محتاج ہے؟

قرآن اور سنت پاک میں اس کے جائز ہونے کے کیا ثبوت ہیں؟

ان سوالات کا جواب دینے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے تمام فرقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کے شروع میں نکاح متعہ حلال تھا۔صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ،''ہم ایک فوجی مہم پہ رسول (ص) کے ساتھ تھے اور ہمارے ساتھ ازواج نہیں تھیں،اس لئے ہم نے آنحضرت (ص) سے کہا ،' کیا ہم ہیجڑوں کو اپنا سکتے ہیں؟لیکن انہوں نے اس سے منع کیا اور بعد میں عورتوں سے تھوڑے کپڑوں کے عوض نکاح کرنے کا حکم دیا اور اس قرآنی آ یت کی تلاوت کی:اے ایمان والو! اللہ کی طرف سے حلال شدہ چیزوں کو حرام مت کرو۔ اور یہ آیت،'' ۔۔ پس جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دیدو(نساء ۲ ۴ ) اس طرح کے نکاح کے لئے پہلے ہی نازل ہوچکی ہے۔اکثر مفسرین اہلسنت نے اس آیت میں ''تمتع' 'فائدہ اٹھانے کو نکاح متعہ ہی مانا ہے۔مگر ابن عباس،ابی ابن کعب اور سعد ابن زبیر اس آیت کو حالانکہ اسطرح پڑھتے ہیں ،'' جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، انہیں اسکی اجرت ضرور دیدو''(۱۹۹) ۔

ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:یہ بہت دور کی بات ہے کہ ہم تحریف قرآن پر یقین کریں؛ اسلئے اسکا مقصد تشریح کرنا ہے نہ کہ تلاوت(۲۰۰) ۔ لیکن اسلامی فرقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ کہاں تک رائج رہا،کب ممنوع ہوگیا یا ممنوع ہوا بھی کہ نہیں۔ یہ حدیث کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کرتی ہے کہ نبی(ص) نکاح متعہ کو ممنوع کئے بغیر ہی وفات کر گئے: عمران سے منسوب روایت ہے کہ،'' آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی،اس لئے ہم نے اس پر عمل کیا اور اسکو منسوخ کرنے والی آیت کبھی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی آنحضرت (ص) نے اسکو اپنی عمر میں تا وفات حرام کیا۔ایک آدمی(شاید عمر ابن خطاب) نے اپنی رائے سے جو کچھ چاہا، کیا(۲۰۱)

۱۰۸

'' ۔شرح الباری علیٰ صحیح بخاری میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کے متعلق اوپر والی حدیث میں اشارہ ہے،وہ عمر ابن خطاب ہے(۲۰۲) ۔

صحیح مسلم میں درج ابو نظرہ کی روایت سے اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے،'' میں جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس تھا جب کوئی آیا اور ان سے پوچھا: ابن عباس اور ابن زبیر متعہ(متعہ نساء و متعہ حج) میں اختلاف کرتے ہیں جس پرجابر نے کہا،' ہم نے نبی (ص) کے ساتھ ان دونوں پر عمل کیا،پھر حضرت عمر نے ہمیں ان پر عمل کرنے سے منع کیا، تو ہم نے ان پر اب عمل نہیں کیا'(۲۰۳) ۔

صحیح مسلم میں بھی عطا سے روایت ہے،'جابر عمرہ کرنے آیا،ہم اس کے گھر گئے اور لوگوں نے اور سوالوں کے علاوہ متعہ کے بارے میں پوچھا۔جابر نے کہا، ہاں ہم نے زمانہ رسول (ص) ،زمانہ ابوبکر اور زمانہ عمر میں اس پر عمل کیا'(۲۰۴) ۔

مسلم میں ہی جابر بن عبداللہ سے روایت ہے،'' ہم کچھ عدد کھجور اور کچھ آٹے کے عوض رسول خدا (ص) اور حضرت ابوبکرکے زمانے میں متعہ پر عمل کرتے تھے یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے اس کوعمرو بن حریث کے مسئلہ پر حرام کیا ۔۔(۲۰۵) ۔

عمرو بن حریث کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت اس کے پاس حاجت کے لئے آئی تاکہ وہ اپنی پیٹ کی بھوک مٹائے مگر اس شخص نے اسے کچھ دینے سے انکار کیا جب تک کہ وہ اسے راضی (شہوانی ضرورت)نہ کرے اس بہانے کے ساتھ کہ یہ نکاح متعہ تھا۔اس عورت نے یہ شرط اپنی مرضی کے خلاف مجبوری میں قبول کی۔ خلیفہ عمر بن خطاب کو جب اس کی خبر ملی تو غضبناک ہوئے جس کی بنا پر اس کو ممنوع کیا۔ انہوں نے اس کے بعد متعہ نکاح پر عمل کرنے کی سزاہ سنگساری رکھی ،جیسا کہ صحیح مسلم میں ابونظرہ سے روایت ہے،' ابن عباس متعہ پر عمل کرتے تھے اور ابن زبیر منع کرتے تھے جس کی بنا پر میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھا اور اس نے کہا : ہم رسول خدا (ص) کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے اور جب عمر خلیفہ بنے،انہوں نے کہا کہ اللہ جو چاہے نبی (ص) پر حلال کرتا ہے ۔ اسلئے متعہ حج اور متعہ نساء پر عمل کرنے کرنے سے باز رہو۔اگر کسی مرد کو میرے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے نکاح (متعہ) کیا ہے،تو میں اسے سنگسار کروں گا'(۲۰۶) ۔

۱۰۹

صحیح ترمذی میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے جس میں اسے ایک شامی نے پوچھا کہ کیا متعہ حلال ہے تو ابن عمر نے جواب دیا،ہاں یہ حلال ہے اس شخص نے کہا کہ تمہارے باپ عمر بن خطاب نے اسے منع کیا ہے جس پر ابن عمر نے کہا،'' کیا تمہارا مطلب ہے کہ ہم نبی (ص) کی سنت چھوڑ کر اپنے باپ کی سنت پر عمل کریں؟(۲۰۷)

امت کے دانشور ابن عباس آیت متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے اعتقاد کیلئے مشہور تھے۔ زمخشری اپنی تفسیر کشاف میں ابن عباس کی روایت پراس بات کے معتقد ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیں ہوئی ہے۔صحیح بخاری میں بھی اس حقیقت کی گواہی موجود ہے۔ابو جمراح کا بیان ہے،'' میں نے ابن عباس کو متعہ نساء کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حلال ہے ۔مولیٰ نے اسے کہا،اس پر حالت مجبوری میں عمل کیا جاتا ہے ،جب عورتوں کی کمی ہو یا اور کچھ ایسا ہی جس پرابن عباس نے کہا،''ہاں''(۲۰۸) طبرانی اور ثعلبی،دونوں اپنے تفاسیر میں حضرت علی سے روایت کرتے ہیں،'' اگر عمر متعہ کو ممنوع نہیں کرتے،توبدبخت کے سوا کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا''(۲۰۹) ۔

نکاح متعہ کے حلال ہونے کی واضح دلیلوں سے ثابت ہونے کے باوجود آج کل کے اکثر اہلسنت اسکے مخالف ہیں ،یہ کہہ کر کہ آیت متعہ منسوخ ہوچکی ہے۔انہیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ کب اور کس نے منسوخ کی۔ کچھ کہتے ہے کہ قرآنی آیت سے منسوخ ہوئی،تو کچھ کہتے ہیں سنت سے۔ یہ دونوں خیال بے بنیاد ہیں جیسا کہ اوپر بیان شدہ روایات سے ثابت ہے۔کچھ کہتے ہے کہ نکاح متعہ قرآنی آیت،''۔۔اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنے ہاتھوں کی ملکیت کنیزوں کے کہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی الزام آنے والا نہیں ہے( مومنون ۵۔۶) اس سے منسوخ ہوگئی ہے جبکہ یہ مکی آیت ہے اور آیت متعہ مدنی ہے۔اور جو سنت سے منسوخ ہونا کہتے ہیں ان میں بھی کافی اختلاف ہے۔ایک کہتا ہے خیبر میں ،دوسرا موتہ میں ،تیسرا فتح مکہ کے موقعہ پر،چوتھا تبوک میں ،پانچواں عمرہ قضاء میں اور چھٹا حجتہ الوداع میں۔۔۔! ان غیر متواتر اور متضاد بیانات سے اس کا ضعف ہوناثابت ہوتا ہے۔

۱۱۰

احادیث کی روشنی میں خبر واحد پرانحصار نہیں کیا جا سکتا ہے اور کوئی قرآنی آیت بھی اس کے منسوخی کی دلالت نہیں کرتی ہے ،جیسیاکہ اللہ خود اعلان کر رہا ہے،''۔۔۔ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں'' (بقرہ آیت ۱۰۶)۔نکاح متعہ کے حلال ہونے کے ثبوت میں اتنی صحیح روایات ہونے اور رسول خدا (ص) کے ذریعے کبھی بھی حرام نہ کرنے کے باوجود عمر بن خطاب نے اپنی مرضی سے اسے عمرانی وجوہات کی بنا پر نہ کہ شرعی بنیاد پر اپنی خلافت کے اواخر میں ممنوع قرار دیا۔عمر بن خطاب کو اسلامی اصولوں میں دخل دینے کاکوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے،' حلال محمد (ص) قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد(ص) قیامت تک حرام ہے '' اور ''جو نبی(ص) تمہیں دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو(القران)''۔ یہ فقط ایک مسئلہ نہیں ہے جس میں حضرت عمر نے دخل اندازی کی ہے بلکہ بارہا انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے دینی معاملات میں ایسا کیا ہے(۲۱۰) ۔ ایسی ہی ایک مثال ہے نماز تراویح کا جماعت قائم کرنا جبکہ رسول (ص) اور حضرت ابوبکر نے انفرادی طور رمضان کے نفل نمازیں پڑھی ہیں۔صحیح بخاری میں ابن شہاب سے روایت ہے،'' ماہ رمضان کی نوافل زمانہ رسول (ص)،زمانۂ حضرت ابوبکراور زمانۂ حضرت عمر کے اوائل میں فرادا ادا کی جاتی تھیں۔ ایک شب کو میں حضرت عمر کے ساتھ مسجدگیا اور ہر ایک کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا کہ میری رائے ہے کہ انہیں جمع کرکے ایک قاری کے پیچھے اکٹھے نماز پڑھی جائے ۔انہوں نے ان سب کو جمع کرکے ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھوائی۔ایک دوسری شب کو ہم پھر اکٹھے گئے اور سبھی کو ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا،' کیسی ایک اچھی بدعت ہے'! اور جو نماز سونے کے بعد(آخری شب) پڑھی جائے،سونے سے پہلی والی (عشاء کے ساتھ ہی) سے بہتر ہے(۲۱۱) ۔ اس میں حضرت عمر بن خطاب نے ایک اور اجتہاد کرکے بیس رکعات بنا دیا جبکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھیں چاہے ماہ رمضان رہا ہو یا اور کوئی مہینہ(۲۱۲) ۔

۱۱۱

اس سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اہلسنت وضعی احادیث امام علی کیساتھ منسوب کرکے متضاد روایات سے استدلال کرتے ہیں جیسا کہ بخاری میں درج ہے،'' کسی نے امام علی سے کہا کہ ابن عباس متعہ کو حلال سمجھتا ہے جس پر علی نے کہا : اللہ کے رسول (ص) نے اس کوجنگ خیبر میں ممنوع قرار دیا اور پالتو گدھوں کا گوشت بھی۔ کچھ نے کہا،' اگر کوئی متعہ پر عمل کرنے کے لئے چال چلے،تواسکا نکاح باطل ہے،کچھ اور کہتے ہیں،' نکاح جائز ہے مگر شرائط کے بغیر''(۲۱۳) ۔ اگر ان لوگوں نے سمجھا ہوتا کہ خلیفہ حضرت عمر نے متعہ کو کیوں ممنوع کیاتھا تو انہیں ایسی حماقت نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی اتنا تضاد ہوتا۔متعہ کے شرعی اور تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت ہے۔اخلاقی اور سماجی نقطۂ نظر سے اس قانون کا لاگو ہونا انسان کے لئے رحمت بن کے آیا ہے اور کچھ کے لئے آسانی کی خاطر خاصکر ان کے لئے جو تعلیمی سفر پر ہوتے ہیں،کاروبار،جہاد یا جنگی حالات میں جہاں بیوی ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ان جیسے لوگوں کے بہت سے مشکلات ہوتے ہیں۔جنسی خواہش پر قابو پانے کے لئے انہیں جہاد نفس میں ملوث ہونا پڑے گا جو کی سب کے لئئے ناممکن ہے اور ذہنی دباؤ ( depression ) کے شکار ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ یابدکاری کا شکار ہوجانے کا خطرہ ہے جس کی آج دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے جس نے اب فساد اور جرائم کو جنم دیا ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جس نے ایک عربی مولوی شیخ احمد القتان کو فلپائن میں زیر تعلیم طالب علموں کے لئے '' نکاح بنیت طلاق'' فتویٰ دینے پر مجبور کیا۔اس نکاح کی شرط یہ ہے کہ خاوند اس نیت سے شادی کرے کہ عین وقت (اپنی حاجت پوری کرکے )طلاق دے اور خاوند کی نیت سے نکاح ادھورا ہے جبکہ بیوی کی نیت سے دائمی ہے۔ خاوند بیوی کو اس وقت طلاق دیتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے ہی سے تھا۔جنہوں نے اس نئے نکاح کو ایجاد کیا ،انہیں پتہ ہے کہ یہ بیوی سے جھوٹ اور دھوکہ ہے اور قرآن و سنت سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔پھر بھی یہ مفتی کہتے ہیں کہ ہر صورت میں اس کے برے اثرات ہیں مگر اتنے نہیں جتنے کہ بدکاری میں! اس شیخ نے یہ فتویٰ اس وقت دیا جب اسے نکاح متعہ کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ ابن عباس اسکو جائز سمجھتے ہے۔

۱۱۲

اس نے جواب دیا کہ یہ حرام ہے اور ابن عباس نے اس کے بارے میں غلطی کی ہے۔ اس نے اسطرح کا بیان بھی دیا ،'' اگر ہم نے دانشوروں کی غلطی کا اتباع کیا ہوتا تو ہم کافر بن گئے ہوتے''!۔اسطرح' نکاح بِنیت طلاق' کا بدعت شیخ قتان کے مطابق نکاح متعہ کا متبادل بن گیا جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید نے ان جان بوجھ کر پیدا کئے ہوئے بدعات کے خلاف اسطرح خبر دار کیا ہے '' کیابہترین نعمتوں کے بدلے تم معمولی نعمت لینا چاہتے ہو؟!(بقرہ آیت ۶۱)۔ لا حول و لا قوة الا با اللہ العلی العظیم

متعہ حج

متعہ حج پر اللہ کے رسول (ص) نے اس قرآنی آیت کے پس منظر میں عمل کیا،''اور حج و عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو۔پس اگر تم محصور کر لئے جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دیدو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو وہ روزہ رکھے، صدقہ یا قربانی دے،پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دیدے اور جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دوران اور سات روزے واپسی پر رکھے اس طرح پورے دس ہوجائیں۔یہ حج تمتع اور قربانی ان کے لئے ہے جن کے گھرمسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے۔۔(بقرہ آیت ۹۶)۔یہ ایام حج و عمرہ میںدوران احرام ممنوع شدہ افعال سے استفادہ کرنے کے جواز کے لئے ایک قسم کی چھوٹ ہے(۲۱۴) ۔ اور اس کو بھی عمر بن خطاب نے ممنوع قرار دیا ،اس کے باوجود کہ اللہ کے رسول (ص) نے اپنی وفات تک اس کو ممنوع نہیں کیا۔

بخاری میں سعد بن مصعیب سے روایت ہے،'' حضرت علی اور عثمان نے اس پر اختلاف کیا۔علی نے فرمایا: تم اس چیز سے منع کرنا چاہتے ہو جسکو اللہ کے رسول (ص) نے خود انجام دیا ہے۔علی نے دونوں (حج و عمرہ ) کی اجازت دی(۲۱۵) ۔ نیچے دی گئی بخاری کی حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ تھے جو رسول خدا (ص) کے ارشادات کے مقابلے میں اپنے اجتہاد پر چلتے تھے۔ حاکم سے روایت ہے کہ میں نے دونوں ،حضرت علی و عثمان کو دیکھا۔عثمان نے متعہ حج کو ممنوع کیا اور دونوں کو یکجا کرنے پر ایک پر پابندی لگائی۔

۱۱۳

علی نے دونوں کی اجازت دی حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہتے ہوئے اور کہا کہ میں کبھی بھی کسی (عمر بن خطاب )کے کہنے پرسنت رسول کی ممانعت نہیں کروں گا(۲۱۶) ۔

حضرت عثمان متعہ کو حرام قرار دینے کے لئے مجبور تھے کیونکہ خلافت قبول کرنے سے پہلے ہی اس کوعبدالرحمان بن عوف نے افعال ابو بکر و عمر عمل کرنے کی شرط رکھی تھی جو کہ امام علی (ص) نے پوری طرح سے رد کی تھی اس اعلان کے ساتھ کہ میں صرف قانون الٰہی اور سنتِ نبی (ص) کا پابند رہونگا۔ یہ روایت تواتر سے بیان کی گئی ہے کہ عمر ابن خطاب نے ببانگ دہل فرمایا ،'' دو قسم کے متعہ( متعہ نساء و متعہ حج) زمانۂ رسول (ص) میں رائج تھے،میں دونوں کو اب حرام قرار دیتا ہوں''(۲۱۷) ۔ حضرت عمر کا یہ فرمان بتاتا ہے کہ اپنے فیصلوں پر عمل کرنا اور کرانا صرف انہیں کا شیوہ رہا ہے اور کسی کا نہیں۔وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ دونوں متعہ زمانہ رسول میں حلال تھے اور اب میں دونوں کو حرام قرار دیتا ہو ںجبکہ اللہ کے رسول (ص) نے اسے کبھی بھی حرام نہیں کہا۔ اہلسنت اس کاکیا جواز پیش کریں گے جب قرآن کہتا ہے،'جو نبی (ص) دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو'۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخ اسلام کا بغیر کسی تعصب کے علمی جائزہ لے تو اسکو محکم فرمان رسول (ص) کے باوجود بہت سے ایسے احکام(خاصکر عمر بن خطاب) کے اجتہادی فیصلے نظر آئیں گے جو احکام رسول کے بالکل مخالف ہیں۔مگر برادران اہلسنت انکی لاعلمی کی وجہ سے سنت رسول (ص)مانتے ہیں اور الزامات سنتِ نبوی پر حقیقی عمل کرنے والے بیگناہ شیعوںپرلگاتے ہیں

امام مہدی منتظر عجل اللہ تعا لیٰ فرجہ الشریف اور اختلافات

تمام اسلامی فرقوں کا ایک انسان پر اتفاق ہے جو کہ آخری وقت میں ظہور کریگا تاکہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے اور کرۂ ارض پر منصفانہ حکومت حقیقی قائم کریگا جس کی تائید اس قرآنی آیت سے ہوتی ہے؛ ،''اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے( انبیا آیت ۱۰۵) '' اور '' ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوںکو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پراحسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمیں کا وارث قرار دیں( قصص آیت ۵)''

۱۱۴

اور'' یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ خدا تو وہ ہے جس نے اپنے رسول (ص) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکوں کوکتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو''( توبہ آیت ۳۲۔۳۳ ) ۔اللہ کے رسول (ص) نے صاف الفاظ میں ا س کی نشاندہی کی ہے کہ منتظر شخص ان کے اہلبیت میں سے ہے ۔ اور فرمایا،'' یہ دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر میرے اہلبیت میں سے میرا ہم نام ان پر حکومت نہیں کریگا۔۔''(۲۱۸) ۔

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمین ظلم ،جور اور نا انصافی سے پُر نہ ہوجائے، پھر میرے اہلبیت میں سے ایک شخص آئے گا اور ظلم و جور سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا''(۲۱۹) ۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' اگر دنیا میں زندگی کا صرف ایک دن باقی رہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کریگا یہاں تک کہ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص لوگوں پر حکومت کریگا ''(۲۲۰) ۔

ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' مہدی میری اور فاطمہ کی ذریت میں سے''۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کا آخری وقت میں ظہور ہوگا اور مہدی کے پیچھے نماز پڑھے گا۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' آپ کی حالت اس وقت کیا ہوگی جب عیسیٰ ابن مریم آئیگا اور تمہارا ہی امام تمہارا حاکم ہوگا''؟!(۲۲۱) ۔ حافظ نے شرح بخاری میں کہا ہے ،'' احادیث تواتر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ مہدی اس قوم سے ہوگا اور عیسیٰ ابن مریم اس کے پیچھے نماز پڑھے گا''(۲۲۲) ۔ رباتت العالم الاسلام( The Fiqh Assembly of the Muslim World League ) نے ۳۱ مئی ۱۹۷۶ میںامام مہدی کے متعلق یہ فتویٰ صادر کیا:'' امام مہدی ،محمد ابن عبداللہ الحسنی العلوی الفاطمی المہدی منتظر ہے۔اس کا ظہور آخری وقت ہوگا اور وہ حجاز میں بیعت لیگا،مکہ مکرمہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان،خانہ کعبہ اور حجرہ ٔاسود کے درمیان۔

۱۱۵

وہ اس وقت ظہور کریگا جب رشوت خوری عام ہوگی،بے دینی پھیل جائے گی، اور ظلم عام ہوگا۔ اور وہ عدل و انصاف سے زمین کو ایسے پر کرے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ تمام دنیا پر حکومت کریگا اور ہر کوئی اس کی اطاعت ایک باریقین اور ایک بار جنگ سے کریگا۔ وہ زمین پر سات سا ل حکومت کرے گا اور پھر عیسی آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کرینگے۔یا اس کے ساتھ آئیگا اور وہ باب لود فلسطین میں قتلِ دجال میں مہدی کی مدد کریگا۔اور وہ رسول خدا (ص) کے بتائے ہوئے سچے بارہ خلیفوں میں آخری ہوگا جیسا کہ صحاح ستہ میں درج ہے۔ ظہور مہدی پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہ اتباع سنت و اجماع کے بنیادی اصولوں میں ایک ہے۔ اور اس کاانکار سنت سے بے خبر اور ایک بدعتی کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ہے۔''(۲۲۳) ۔ اسطرح برادران اہلسنت شیعوں سے اس پر متفق ہیں کہ امام مہدی ان بارہ خلفا ء میں آخری ہے جن کی خوش خبری اللہ کے رسول (ص) نے دی ہے اور دونوں فریق مہدی منتظر کے بارے میں اکثر نقاط پر متفق ہیں سوائے:

(اول): اکثر سنیوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانے پیں جنم لینگے جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ جناب ۲۵۵ ھ (۸۶۹ ئ) میں امام حسن عسکری ـ کے یہاں تولد ہوئے۔لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت اور قدرت اسے پردہ غیب میں لیا،وہ زندہ ہے اور آخری وقت میں ظہور کرینگے

(دوئم): سنیوں کا اپنی روایات کی بنا پر عقیدہ ہے کہ مہدی ،حسن کی نسل سے ہیں اور ان کے باپ کا نام عبداللہ ہے ،رسول خدا(ص) سے منسوب اس روایت کی بنیاد پر کہ اس کا نام میرے نام جیسا ہے اور اسکے باپ کا نام ،میرے باپ کے نام جیسا۔ جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ امام حسین کی نسل سے ہیں اور اپنے باپ امام حسن العسکری سے پیدا ہوئے ہیں۔۔۔اسکا نام مجھ جیسا ہوگا اور اسکے باپ کا نام میرے فرزند کا نام ہوگا،(امام حسن عسکری کی طرف اشارہ) ۔ کچھ سنی دانشوروں نے شیعوں کے ان عقائد پر تنقید کرنا چاہا اس بنا پر کہ امام مہدی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے پانچ سال کی عمر میں عہدہ امامت سنبھا لا ہے۔ یہ تنقید صرف انکے اپنائے ہوئے تعصب کی وجہ سے ہے جو کہ انکی عادت ہے یا ورثہ میں ملا ہے۔وہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کے دلائل سننے کے بغیر ہی انکی تردید کرتے ہیں۔ اسکے متعلق ہمارا جواب یہ ہے:

۱۱۶

(ا): کچھ سنی دانشور ہیں جو یہ مانتے ہی کہ مہدی منتظر ،امام مہدی ابن حسن عسکری ہیں،وہ زندہ ہیں،اور اس وقت تک پردہ ٔغیب میں رہیں گے جب تک اللہ انہیں ظہور کرنے کا حکم نہ دیگا ۔اسطرح انکا وہی عقیدہ ہے جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کا ہے۔ وہ دانشور یہ ہیں :

۱:۔ محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات مکیہ میں ؛ ۲:۔ سبط ابن جووزی تذکرة الخواص میں ؛ ۳:۔ عبد الوحاب الشعرانی عقائد الاکابر میں

۴ : ابن خشاب تواریخ موالید الائمہ و وفِیاتھم میں ؛ ۵:۔ محمد بخاری حنفی فصل خطاب میں ؛ ۶:۔ بلاذری الحدیث متسلسل میں ؛

۷: ابن سباغ مالکی فصول مہمہ میں ؛۸:۔العارف عبدالرحمان مرات الاسرار میں ؛ ۹:۔ کمال دین ابن طلہ مطالب سؤل فی مناقب آل رسول(ص) میں؛۹:۔ القندوزی حنفی ینابیع المودة میں،۱۰:۔؛ جلال الدین رومی حالات ایمہ اثنا عشریہ میں ؛۱۱:۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی احوال ایمہ اثنا عشریہ میں؛۱۲:۔پروفیسر خسرو قاسم اپنی کتاب امام حسن عسکری میں۔۔۔۔ اسکے علاوہ اور بھی ہیں(۲۲۴) ۔

(ب) : اس کے خلاف شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام مہدی کے غیبت جیسے معجزات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ نوح اپنی قوم میں ۹۵۰ سال انہیں دعوت حق دیتے رہے: ''۔۔ اور وہ انمیں پچاس کم ایک ہزار سال رہے( عنکبوت آیت ۱ ۴ )۔وہ حالانکہ اس سے زیادہ وقت تک رہے۔ اصحاب کہف ۳۰۹ سال سوتے رہے۔ اللہ نے عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا کر ظالموں سے بچایا اور آخری زمانہ میں واپس اس زمین پر بھیجے گا۔ حضرت خضر بھی پردہ ٔغیب میں زندہ ہیں۔ جہاں تک امام مہدی کی اپنے والد ،اہلبیت میںسے گیارہویں امام حسن عسکری کی وفات پر چھوٹی عمر میں منصب امامت حاصل کرنے کا معاملہ ہے، اس جیسے یا اس سے بڑے بہت سے معجزات ہیں۔ حضرت عیسی ابن مریم نے گہوارے میں ہی نبوت کا اعلان کیا''۔۔ میں اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا (مریم ۲۹)۔اور '' یحییٰ ! کتاب کو مضبوتی سے پکڑلو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کی(مریم آیت ۱۲)''۔ اگر کوئی کہے کہ یہ معجزات نبیوں کیلئے تھے،تو ہم کہیں گے کہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد بند ہوگئے۔

۱۱۷

اصحاب کہف اور مریم بنت عمران مادر حضرت عیسیٰ پیغمبر تو نہیں تھے۔ حالانکہ شیطانوں کے سربراہ ابلیس کو اللہ نے وقت معلوم تک زندگی عطا کی۔ اس کے برعکس جو مہدی برحق کی غیبت پر اعتراض کرتے ہیں، یہ ان کی جہالت اور اس عظمت مہدی کی لاعلمی کی بنا پر ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے اس عیسی کا امام بنایا جو شیرخواری کی حالت میں پیغمبر بنایا گیا ہے۔اگر اہلسنت یہ جانتے اور اعتراف کرتے کہ اللہ وہ ہے جس نے اہلبیت رسول (ص) میں سے بارہ اماموں کو پیغمبر خدا (ص) کے جانشین اور محافظ شریعت منتخب کیاتو ان کی حیرانگی( بمناسبت اللہ کے ذریعے ختم امامت کا احاطہ اور اس کے ذریعے دین اسلام کا تمام امتوں پر غالب آنا) ختم ہوجائے گی اور انہیں کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔ اکثر سنیوں کو اس پر تعجب نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے طریقوں سے کیا قبول کیا ہے یا اور بہت سے چیزیں جو ان کے مسلک نے اختیا ر کئے ہیں اس کے بجائے وہ اسکو قبول کرتے ہیں اورسر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہیں چاہے وہ قرآن میں بیان شدہ یہ معجزات ہوں جنکے متعلق کوئی شک کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ صحیح بخاری و مسلم میں درج شدہ وہ قابل تنقیدروایات بھی جنہوں نے روح اسلام کو مجروح کیا ہے ۔ مثلاََ اللہ رات کے آخری حصہ میں نیچے آتا ہے، وہ روز قیامت اپنا پیر جہنم میں ڈالے گا، (ا ن عقائد کے متعلق ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں )یا نبی (ص) کا قرآن بھول جانا،ادھوری نماز پڑھنا، جادو کے ذریعہ قابو ہونا،موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنا،حضرت ابوبکر کا ایمان ساری امت کے ایمان سے بھاری ہونا، حضرت عمر کا واقعہ ساریا میں ہزاروں میلوں تک نظر کرنا،اگر محمد (ص) کے بعد کوئی نبی ہوتا و وہ عمر بن خطاب ہوتا، اذان کا طریقہ حضرت عمر کی رائے پر لاگو ہونا، شیطان کا نبی (ص) کے راستے سے نہیں بلکہ عمر کے راستے سے بھاگ جانا، ملائکہ کاحضرت عثمان سے شرمانا وغیرہ اور ان جیسی بہت سی کہانیاں جن کو اہلسنت خرابیوں سے آلودہ ہونے کے باوجود قبول کرتے ہیں۔اور جو دوسروں کے عقائد ہیں ان کو کسی تحقیق کے بغیر ہی مسترد کرتے ہیں۔

۱۱۸

مجھے پورا یقین ہے کہ اگر غیبتِ امام مہدی کا عقیدہ سنی مذہب میںشامل کیا گیا ہوتا،تو نہ وہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہوتے اور نہ ہی وہ اس پر اعتراض کرتے! مجھے وہ دلچسپ واقعات یاد آتے ہیں جو مجھے اپنے سنی بھائیوں سے بحث کرتے ہوئے پیش آئے۔ ان میں سے جس ایک نے شیعوں کی طرف سے جائز قرار دئیے ہوئے نکاح متعہ کا انکار کیا،اسکو پتہ ہی نہیں تھا کہ اسلام نے غلامی کو حرام قرار نہیں دیا ہے۔اسی لئے وہ غلامی کی مخالفت کر رہا تھا کیونکہ یہ اسکی ذہنیت کے موافق نہیں تھی۔ اور جب میں نے اسے سمجھایا کی سنی اس کو حرام سمجھتے ہے،اس نے فوراََ ہاں میں ہاں کرکے انکے ساتھ اتفاق ظاہر کیا۔ نکاح متعہ جس کے متعلق بخاری میں بھی ممانعت کی کوئی شہاد ت نہیںدیکھی مگر پھر بھی علامہ بخاری جائز نہیں مانتے صرف اس بناپر کہ سارے سنی اسے حرام سمجھتے ہیں! اس سے مضحکہ خیز اور کیا ہوسکتا ہے۔

میں ہدایت یافتگی کے دوران اپنے دفاع میں دوسروں سے ( بہانے کے طور پر) کہتا تھا کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی (ص) قرآن کی کچھ آیات بھول گئے تھے، ایک یہودی نے انہیں جادو میں پھنسایا اور حضرت موسی نے ملک الموت کی آنکھ پھوڑدی وغیرہ تو وہ اسکو فوراََ مسترد کرکے ایسے عقائد کی مذمت کرتے تھے! اور جب میں ثابت کرتا تھا کہ یہ وہی اہلسنت کے عقائد ہیں جن پر شیعہ انکی تنقید کرتے ہیں اور یہ کہ ایسے احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں بخاری اور مسلم میں موجود ہیں تو ان میں اکثر انکا دفاع کرکے ان کی وکالت کرنے آتے تھے۔ یہ اس کے سوا کیا ہے؟ صرف اندھا مسلکی تعصب ۔اسکی مخالفت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے اور انکو سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آنکھیںبند کرنے سے حق کے وجودکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی مثال اس شتر مرغ کی سی ہے۔(جو شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپاتا ہے اور اسطرح اپنے کو ناقابل یقین دھوکہ دیتا ہے جب شکاری آکے آسانی سے اسکا شکار کرتا ہے)۔کچھ لوگوں کے خیال کے برخلاف تمام اسلامی فرقوں کے امام مہدی کے آخری وقت ظہور ہونے کے عقیدے کے باوجود وہ اسکے بارے میں وقت ِ ظہور اختلاف کریں گے اور یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا حالانکہ اہل کتاب میں سے یہود اور نصارا بھی معتقد ہیں کہ آخری وقت میں ایک نجات دہندہ آئے گا جو دنیا کی اصلاح کریگا۔

۱۱۹

روایات میں آیا ہے کہ مسلمانوں کا دجال کے خلاف مہدی کی طرف سے لڑنے میں سخت امتحان لیا جائے گا کیونکہ بہت سے لوگ دجال کی فوج میں شامل ہونگے۔ میرے خیال میں سچائی اس سے بہت دور ہے جسکا اہلسنت اس بارے میںعقیدہ رکھتے ہیں یعنی کہ دجال کے ماتھے پر لفظ ''کافر '' لکھا ہوگا۔ ایسے میں یہ کافی ناممکن ہے کہ مسلمان 'کافر لفظ 'پڑھ سکنے کی صورت میں آزمایا جائے گا جو اسکے متعلق سچائی بتائے گا۔ کیونکہ انکا دعویٰ ہے کہ صرف مومن ہی اس لفظ کو دجال کے ماتھے پرپڑھ پائیگا ۔یہ دعویٰ بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اسکا نتیجہ پھر دجال کو دیکھنے سے پہلے ہی سے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ جس اختلاف( لفظ کا فر پڑھنے یا نہ پڑھنے) کی طرف روایت نے اشارہ کیا ہے کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہے۔ میں پہلے اس پرتعجب کرتا تھا کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ اس کو فتح نصیب فرمائے گا،مسلمان امام مہدی کے ظہور کرنے پر ان کی بیعت کیوں نہیں کریں گے یا ان کانتظار کرنے کے باوجودوہ ان کے ساتھ مقابلہ کیوںکریں گے ؟؟!!

لیکن شیعہ اور سنی اختلافات پر تحقیق کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ شیعہ اس شخص (مہدی ) سے اپنا بارہواں امام ماننے کی بنا پر حد سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اختلاف پہلے سے زیادہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جب امام منتظر شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے،وہ فوراََ بغیر کسی پس و پیش کے خوشی خوشی ان کی بیعت کریں گے جب کہ تعصبی سنی کہیں گے کہ یہ شیعوں کا امام مہدی ہے اور جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں یہ وہ نہیں ہے اور وہ بیشک سنی ہونا چاہئے! یہ ہمارے زمانے میں سچ ثابت ہوا جب متعصب سنی حضرات نے اسلامی انقلاب ایران خاص کر اس کے رہنما آیت اللہ خمینی کے خلاف نکتہ چینی اور الزامات کے ذریعے مخالفت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے اس عظیم رہنما پر صرف اسلئے کیچڑ اچھالا کیونکہ وہ شیعہ ہے! انہوں نے ایسا ان لوگوں کو پہچاننے کے بغیر ہی کیا جو اس سازش کے پیچھے تھے اور جو ا سلام نماہوکر اسلام دشمنوں کے لئے مجرمانہ مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

۱۲۰

یہ (مخالفت ِانقلاب اسلامی ایران) اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے اسلام کی اس متبرک احیاء نو کی خوشخبری پہلے ہی دی ہے جس کا ذکر صحیح بخاری میں بھی ان الفاظ میں رقم ہے: ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،'' جب سورۂ جمعہ کی آیت ، ' ۔ اور ان میں سے ان لوگوں کی طرف بھی جو ابھی ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی' (آیت نمبر 3)تو ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ ہم نے تین بار پوچھا اور سلمان فارسی بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اللہ کے رسول (ص) نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا،'' اگر ایمان کے ذرائع ستارہ زہرہ میں بھی مل جاتے،یہ ان(فارسی) میں کے آدمی حاصل کرتے''(225) ۔ اللہ صبحانہ و تعالیٰ نے بھی اپنی مقدس کتاب میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے،'' ہاں ہاں تم وہی لوگ ہو جنہیں راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ کنجوسی کرنے لگتے ہیں اور جو کنجوسی کرتے ہیں،وہ اپنے ہی حق میں کنجوسی کرتے ہیں اور خدا سب سے بے نیاز ہے،تم سب ہی اسکے محتاج اور فقیر ہو اور اگر تم منھ پھیر لوگے تو وہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا جو اس کے بعد تم جیسے نہ ہونگے'' (سورہ محمد آیت 38)۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (ص) سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہونگے کہ جب ہم اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹیں گے تو وہ ہماری جگہ لیں گے اور ہم جیسے نہیں ہونگے؟ اس پر آنحضور (ص) نے سلمان کو تھپتھپاتے ہوئے کہا،'' یہ شخص اور ان کی قوم۔ اگر ایمان ستارہ زہرہ میں بھی ہوتا ،یہ لوگ اسکو حاصل کر پاتے''( 226) ۔ اللہ کے رسول (ص) نے اسکی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں ایک طبقہ اپنے طور سے مسلمانوں میںفتنہ اور تفرق پیدا کریگا۔ ابن عمر سے روایت ہے،'' ایک دفعہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا! اے اللہ ہمارے سیریا پر رحمت نازل کر! اے اللہ ہمارے یمن پر رحمت نازل کر!'' اسے پوچھا گیا، ہمارے نجد کے متعلق کیا ہے؟

۱۲۱

آنحضور نے فرمایا! اے للہ ہمارے سیریا پر رحمت نازل کر،اے اللہ ہمارے یمن پر رحمت نازل کر! انہوں نے پھر اسے پوچھا،اے اللہ کے رسول (ص) ہمارے نجد کے متعلق کیا ہے توا نہوں نے فرمایا،'' وہاں زلزلے اور اختلافات ہونگے اور وہاں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے''(227) ۔

میں اس حدیث میں بیان کئے گئے اس فتنہ کو سوائے وہابیت کے بانی عبدالوہاب کے علاوہ کچھ نہیں مراد لے سکتا ہوں جو کہ نجد کے ایک گا وں ، اُ یانا میں پیدا ہوا۔ اس ٹولہ نے توحید کا زرق و برق جعلی نقاب چہرے پر ڈال کر اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اکثر مسالک خاص کر مذہب اہلبیت کو شرک اور کفر کے الزامات سے مجروح کیا۔ مثلاََ وہ اللہ کی بارگاہ میں انبیاء اور مومنین سے توسل کرنے کو شرک عظیم قرار دیتے ہیں، برعکس اُسکے جو کہ بخاری میں موجود ہے اور جو کچھ عمر بن خطاب نے عملایا۔ انس سے روایت ہے،' عمر بن خطاب عباس بن عبدالمطلب سے طلب بارش کیلئے مدد مانگتے تھے۔اس نے کہا،'' اے اللہ ہم آپ کو اپنے نبی کے توسل سے مانگتے تھے اور آپ بارش نازل کرتے تھے اور اب ہم نبی (ص) کے چچا کے توسل سے مانگتے ہیں تاکہ ہم پر بارش کی نعمت عطا ہوجائے اور انکو بارش عطا ہوتی تھی''(228) ۔ کیا وجہ ہے کہ وہابیوں نے اس مسئلہ میں اتنی زیادہ شدت سے توجہ دی،یہ اس لئے ہے کہ اہلبیت کا اتباع کرنے والے شیعہ ہی نبی (ص) کا تقدس اور عظمت بر قرار رکھنے والے ہیں اور اسکے بعد اپنے ائمہ معصومین کا کیونکہ وہ اللہ کی بارگاہ میں انکے درجہ کی حیثیت کو سمجھتے ہیں۔ ان ہستیوں کے بغیر انسانیت کو اللہ کی معین کردہ صراط مستقیم تک رسائی نا ممکن تھی اور انکے بغیر وہ ابھی بھی گمراہی اور ذلالت میں ڈوبی ہوتی۔ وہابیوں اور انکے بانی کے لئے وہ جواب کافی ہے جو انکے متعلق بخاری میں درج ہے جس میں اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' مشرق سے کچھ لوگ اٹھیں گے اور قرآن کی تلاوت کریں گے جو کہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔وہ دین سے اسطرح خارج ہوں گے جسطرح کمان میں سے تیر، اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آئے''۔ آنحضرت (ص) سے پوچھا گیا کہ انکی پہچان کیا ہے؟ جواب ملا، ' al-tasbeed تسبید ' یعنی منڈوانا(229) ۔

۱۲۲

تسبید کے وہی معنی ہیں جو کہ اس حدیث پاک میں بیان ہوا ہے۔'' ابن عباس آئے اور انکا سر مسباد تھا یعنی منڈا ہوا''(230) ۔ یہ وہابیوں کا trade markیعنی مارکہ ( خاص نشانی) بن چکی ہے جیسا کہ ان کی تاریخ میں تصدیق شدہ ہے۔

امام مہدی ظالم حکمرانوں کے خلاف زمین پر مظلوموں کی نجات کے لئے آئیں گے،تو ان کے دشمنوں سے کیا توقعات ہیں؟ کیا وہ مسلم صفوں میں منافقین حکمراں سرکاری ملاّئوں اور گمراہی کے اماموں کو ان کے خلاف لڑنے کے لئے استعمال نہیں کریں گے؟( ضرور کریں گے کیونکہ جنگ صفین و جمل اور سانحہ کربلا میں انہوں نے اس کا نہ مٹنے والا ثبوت دیا ہے۔مترجم) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کیسے ہمارے زمانے میں گناہوں اور کفر میں مشہورعراقی حکمران نے لاکھوںلوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے باایمان ہونے کا بہانہ بناکر اللہ کو ماننے کاڈھونگ رچایا اور لوگ اسکے حق میں نعرہ بازی کرتے سڑکوں پر نکل پڑے جب اس نے مشرکوں اور کافروں سے لڑنے کا اعلان کیا یہاں تک کہ سادہ لوگوں نے سمجھا کہ یہ دجال حقیقت میں مسلمانوں کا امام بن گیا؟! بڑی آزمائش (ظہور مہدی) میں ڈالے جانے کے وقت ایسے حالات کا برپا لوگ کالے جھنڈے لیکر آئیں گے اور وہ حق ہونے کے لئے یہ اشارہ کافی ہے۔ اللہ کے رسول (ص) نے اپنی وفات کے بعد ایسے حالات میں راہ ہدایت پر رہنے اور گمراہی کے دلدل میں ڈوب نہ جانے کے لئے امت کو خاص ہدایت اس طرح دی،'' میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کا دامن تھامنے سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوؤگے، قرآن اور میری عترت،میرے اہلبیت'' (حدیث ثقلین)۔حذیفہ بن یمان سے روایت ہے،'' لوگ آنحضرت (ص) سے نیکی کے متعلق پوچھتے تھے اور میں اس ڈر سے برائی کے متعلق پوچھتا تھا کہ کہیں میں اس میںکبھی پھنس نہ جاوں۔ میں نے کہا،اے اللہ کے رسول (ص)! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے ،تب اللہ نے ہمیں نیکی کی ہدایت دی۔ کیا اس نیکی کے بعد بھی برائی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا،'ہاں۔میں نے پوچھا کہ کیا اس برائی کے بعد نیکی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا،'ہاں مگر اس میں ملاوٹ ہوگی۔ میں نے پوچھا،ملاوٹ کیسی؟ تو انہوںنے کہا،' لوگ خود پوری طرح سے ہدایت یافتہ نہ ہونے کے باوجود دوسروں کے ہادی بنیں گے۔ میں نے پوچھا ،کیا اس نیکی کے بعد بھی برائی ہوگی؟ انہوں نے کہا،'ہاں جہنم کے دروازے پر بلانے والوں پرجو کان دھریں گے،وہ انکو جہنم رسید کریں گے۔

۱۲۳

میں نے پوچھا،یا رسول (ص) ہمیں انکے متعلق ( نشانی)بتائیے۔ انہوں نے کہا،' وہ ہماری امت میں سے ہیں اور وہ عربی زبان بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر میں نے وہ حالات دیکھے تو میرے لئے کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا،'' مسلم عوام اور امام کے ساتھ رہو''۔ میں نے کہا کہ اگر نہ عوام ملے اور نہ ہی امام تو کیا کروں؟ تو انہوں نے کہا ،'ان سب گروہوں سے علیحدہ رہنا یہاں تک کہ آپ کو درختوں کی جڑ یںتک کھانا پڑیں گی اور آپ کو موت اپنے گہوارے میں لیگی(231) ۔ یہ حدیث ہمیں عوام اور امام کے ساتھ واجبی طور سے رہنے کی کی تاکید کرتی ہے خاص کر جب اختلاف ہوگا اور ہمیں سچائی کہ خبر نہیں ہوگی۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جو بھی درِ جہنم پر ان کی طرف متوجہ ہوگا،وہ اسے جہنم رسید کریں گے اور یہ کہ وہ غیر عرب میں سے نہیں ہونگے جو انکے ایجاد کردہ بدعات کی نشان دہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے فتنوں اور سازشو ں جن کے ہم شکار ہیں کے خلاف اللہ کے رسول (ص) نے ہمیں خبر دار کیا ہے جس کی بنا پر ہمیں راہ نجات پر قائم رہنے کے لئے کافی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ روایات کے مطابق بہتر(72) مختلف راہیں تیار ہوگئیں ہیں جن میں صرف ایک نجات یافتہ ہے۔

اللہ نے نجات یافتہ لوگوں سے اپنی مدد کا وعدہ کیا ہے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' میری امت میں ایک گروہ نیکی کی راہ پر گامزن رہیگا؛انہیں اپنے مخالف کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں جب تک کہ نہ اللہ کا حکم آئے گا۔آج کا مسلمان اپنے ارد وگرد فتنہ و فساد اور تفرقہ بازی کے ماحول میں اجنبی کی طرح حیران ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب میں پھر سے غور کرے اور تاریخ اسلام کے کچھ دلخراش واقعات اس قول رسول (ص) کی تصدیق کر تے ہیں ،' اسلام پردیسی آیا اوراسی طرح پردیسی ہی رخصت ہوا۔۔'' بیشک اگر کوئی صاحب بصیرت تاریخ اسلام اور ہماری حالت زارپرپھر سے غور و فکر کرے اور دیکھے کہ اہلبیت رسول (ص) خاص کر اماموںپر کیا بیتی اور ان پر کتنا ظلم و جبر ہوا اور قید خانوں میں انکے ساتھ کیا کیا سلوک ہوا تو اسے معلوم ہوجائیگا کہ اہلسنت میں حقیقت کیوں غائب ہے۔۔۔۔، اور اسکو اسلام کا پردیسی جیسا واپس جانے کا مطلب سمجھ آئے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے وہ واپسی زیادہ ہی تیز ہونے لگی ہے۔

۱۲۴

ظالموں کے ہاتھوں صدیوں سے اس تباہی کے پھیلانے کی سوچ کے خلاف ہمارے آقا محمد رسول اللہ (ص) نے پہلے ہی پیشین گوئی فرمائی ہے،'' ہمارے خاندان والوں کے لئے اللہ نے دنیا کے بدلے آخرت کوچن لیا ہے''۔ میرے اہلبیت میرے بعد تعصب،سختی اور جلاوطنی کا شکار ہونگے یہاں تک کہ مشرق سے کچھکا مطالبہ کریں گے جو انکو نہیں دیا جائے گا ،وہ جنگ کرکے فتح یاب ہونگے؛ انکو اپنا حق دیا جائے گا جو وہ اہلبیت میں سے ایک شخص کی طرف لوٹا دیں گے جو کہ زمیں کو عدل وانصاف اس طرح پُر کریگا جسطرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔جو بھی اس وقت زندہ ہوگا اسکو انکا ساتھ دینا چاہئے اگرچہ اس کو برف پر بھی پیٹ کے بھل چلنا پڑے''(232) ۔

اے اللہ ! امام مہدی کے ظہور کو نزدیک کر اور ہمیں ان کے پرچم کے نیچے آنے کی توفیق عطا کر اور ان کے اعوان و انصار میں ہماراشمار فرما۔ آمین

وآخر دعواناعن الحمدللّٰہ رب العالمین و صلی اللہ علیٰ محمدِِ و آلہ الطیبین الطاہرین

ترجمہ 3 1رجب1435 ھ بمطابق13 مئی2014 ء بروز ولادت با سعادت امام اول علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکمل ہوا۔

والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

۱۲۵

کتابیات

(1) المراجعات،شیعہ سنی مباحثہ پر ایک منفرد اور بے نظیر کتاب جس کا ترجمہ دنیا کی اہم ترین زبانوں میں ہوچکا ہے اور قاری کو راہ حق کی نشان دہی کرتی ہے،

(2) صحیح مسلم باب فضائل علی ج 5 ص272 (3 )صحیح ترمذی ج 2 ص 308؛( 4 )مستدرک الحاکم ج 1 ص 93(5) ایضاََ (6) صحیح مسلم ج5 ص 287 باب فضائل حسن و حسین (7) ایضاََ ج5 ص 268 باب فضائل علی (8) ایضاََ ج5 ص 27 4 (9) صحیح ترمذی ج2 ص 209(10) مسند احمد ج6 ص 306(11) مستدرک صحیحین الحاکم ج2 ص 3 4 3(12)ایضا َ ج3 ص 1 4 9(13)بخاری ج3 ص171(1 4 ) ایضاَ ج2 ص126(15)ایضاَ ج 4 ص 4 86( 16) ایضاَ ج9 ص 4 18(17) ایضاَ ج8 ص 2 4 5؛(18)ایضاَ ج5 ص 4 92(19)ایضاَ ج9 ص 250(20)مسلم ج 4 ص 4 82(21) ایضاَ (22)مسند احمد ج1 ص389(23) تورات old testmemt, genesis

(2 4 )تاریخ سیوطی ص12( 25) ترمذی ج2 ص298(26)سنن ابن ماجہ ج1 ص 4 3(27) مند احمد ج 4 ص281(28) ترمذی ج2 ص 297(29):بخاری ج5 ص 4 92؛ 30ایضاَ ج6 ص10 (31):مستدرک۔۔ حاکم ج3 ص126؛32: ترمذی ج2 ص299؛33: مستدرک حاکم ج 3 ص 122 ؛ 3 4 :مسلم ج1 ص 262؛35:سنن ابن داود باب پاگل چور کی سزا؛36: بخاری باب پاگل مرد یا عورت کی سنگساری؛37: ترمذی ج2 ص 299،

؛38بخاری ج5 ص 4 3؛39:مستدرک حاکم ج 3 ص107؛ 4 0:کنزالعمال ج13 حدیث نمبر7753؛ 4 1: کنز الحقائق المناوی، 4 2:بخاری ج5 ص 511، 4 3:ایضاََ ج5 ص512؛ 44 :ایضاََ ج7 ص 389؛ 4 5:مسلم ج 4 ص 175؛ 4 6:سقیفہ ابو بکر جوہری؛

۱۲۶

4 7: المراجعات؛ 4 8:بخاری ج5 ص511؛ 4 9: خالد محمود خالد نبی (ص) کے صحابی ص5 4 8؛50:بخاری ج5 ص387؛51:بخاری ج5 ص3 52: بخاری ج8 ص5 4 1؛53: بخاری ج5 ص1 4 ؛54:ایضاََ ج5 ص 1 4 ؛ 55:بخاری ج8 ص5 4 2؛56:ایضاََ ج5 ص1 4 ؛ 57: ایضاََ

58: بخاری ج8 ص5 4 2؛59:بخاری ج5 ص15؛60:ایضاََ ج8 ص5 4 2،ج5 ص1 4 ؛61: ایضاََ ج8 ص 5 4 0؛62:ایضاََ ؛ 63: المراجعات

64: بخاری ج5 ص382؛65: المراجعات؛66: خالد محمودخالد خلفائے رسول (ص) ص 4 18؛67:بخاری ج 4 ص208؛68:بخاری ج5 ص382؛69:ایضاََ ج8 ص202؛ 70:ایضاََ ج5 ص75؛71:ایضاََج5 ص7 4 ؛72:ابن اثیر منال الطالب فی شرح التوال الغرائب ص105؛73:بخاری ج9 ص1 4 5؛74:صحیح مسلم ج 4 ص517؛75:مسند احمد ج3 ص 44 6؛76:بخاری ج5 ص382؛77:ایضاََ ج5 ص 7 4 ؛78:ایضاََج5 ص75؛79:تاریخ طبری،ابن عساکر،تاریخ دمشق؛80:ایضاََ؛81:ایضاََ؛82: خالد محمود خالد خلفائے رسول (ص) ص272؛83:بخاریج9 ص239؛84: خالدمحمود خلفائے رسول ص276؛85:تاریخ طبری،تاریخ مسعودی،ابن اثیر،استعیاب؛

86:ابن اثیر،مسعودی،تاریخ طبری؛87:بخاری ج2 ص278؛ 88: انصاب الاشراف بلازری، واقدی، تاریخ یعقوبی؛89:ابن حدید شرح نہج البلاغہ؛90:تاریخ طبری ج 4 ص277؛

91: ایضاََج5 ص172؛92:بخاری ج 4 ص217؛93:ایضاََ ج9 ص171؛94:ایضاََ ج1 ص133؛95:ایضاََج6 ص252؛96:علامہ عسکری احادیث ام المومنین ص272؛97:طٰہ حسین فتنتہ الکبریٰ ج1،ڈاکٹر کمال شیبی بیان تصوف؛98:افسانہ عبداللہ بن سباء مرتظی عسکری؛

۱۲۷

99:ابن سباغ مالکی فسئول مہمہ ص83؛100: تذکرةالخاص سبط ابن جوزی ص79؛101:مسلم ج1ص262؛102:بخاری ج 4 ص52؛

103:مستدرک صحیحین ج 2 ص1 4 8؛104:بخاری ج6 ص1 4 6؛105:ترمذی ج13 ص210؛106: بخاری ج5 ص73؛107:بخاری ج 5 ص 7 4 ؛ 108: تاریخ طبری؛ 109: بخاری ج 4 ص122؛110:مسلم ج5 ص 4 62؛111: ایضاََ ج3 ص693؛112: کتاب امیر المومنین یزید کا ٹائٹل کور؛113:شرح مسلم النوائی ج 1 ص28؛114: بخاری ج9 ص1 44 ؛115: ایضاََ ؛116: بخاری ج9 ص315؛117: بخاری ج 4 ص 4 7؛

118؛بخاری ج6 ص397؛119: ایضاََ ج3 ص508؛ 120: ایضاََ ج5 ص 44 7؛121: ایضاََ ج5 ص57؛ 122: ایضاََج 4 ص260؛123: ایضاََج 7 ص72، 4 0 4 ؛124: ایضاََ ج6 ص 4 0 4 ؛125:ایضاََ ج3 ص 4 5 4 ؛ 126:ایضاََ ج6 ص295؛ 1271:ایضاََ ج5 ص105؛128:ایضاََ ج5 ص 10 4 ؛ 129:مستدرک صحیحین؛130: شیخ رضا مظفر عقائد امامیہ ص 4 1؛131: اعتقادات صدوق؛ 132:سنن المفتارا علیہ ص60؛

133: دفاع عن عقائد وا لشریعہ۔۔؛134:بخاری ج6 ص508؛ 135: بخاری ج6ص291؛136:ایضاََ ج6 ص162؛137:ایضاََ ج8 ص 539؛ 138: ایضاََ ج9 ص212؛139: سنن ابن داود؛ 140: بخاری ج 9 ص 4 76؛141: ابوبکر جزری،شیعوں کو میری نصیحت ؛ 142:بخاری ج 8 ص 5 4 0؛143:ایضاََ ج5 ص71؛ 144:ایضا َ ج5 ص71؛ 145: مسلم ج2 ص1075؛ 146: ایضاََ ج2 ص726؛ 147: اتقان فی علوم قران جلال الدین سیوطی ص65؛ 148: شیخ ابو زہرہ امام جعفر صادق ؛149: شیخ محمد غزالی دفاع عن عقائد الشریہ۔۔۔؛150:مسلم ج 1 ص 1 4 ؛

۱۲۸

151:ترمذی ج13 ص201؛152:بخاری ج9 ص92؛153: ایضاََ ج9 ص 932؛154:ایضاََ ج9 ص93؛155:ج1 ص3 4 9؛156: ایضاََ ج1 ص168؛157:ایضاََ ج8 ص 4 8؛158:ایضاََ ج8 ص57؛159:ایضاََ ج7 ص 444 ؛160:ایضاََ ج5 ص77؛161: ایضا ج1 ص165؛

162: تفسیر میزان آیت اللہ سید محمد طبا طبائی ج20 ص203؛ 1631: بخاری ج6 ص 296؛ 164: ایضاََج7 ص 4 62؛ 165: ایضاََ ج2 ص252؛ 166: کنزالعمال حدیث نمبر 44 0 4 ؛ 167:ایضاََ ؛168: بخاری ج1 ص86؛169:ایضاََ ج3 ص313؛ 170:ایضاََ ج 5 ص 4 7؛ 171: ترمذی ج 13 ص 189؛ 172: مسلم ج1 ص201؛ 173: شیخ محمد غزالی فقہ السیرت ص 4 1؛174:بخاری ج9 ص137؛175: ایضاََ ج1 ص89؛

176:ایضاََج1 ص88؛177: اختصارِ علوم حدیث ص111؛178:تقریب،النوائی: ص1 4 ؛ 179: بخاری ج2 ص236؛ 180: ایضاََ ج6 ص353؛ 181: ایضاََ ج2 ص136؛182:ایضاََ ج1 ص 169؛183: ایضاََ ج1ص336؛ 184: ایضاََ ج7 ص 4 73؛185: ایضاََ ج 4 ص 306 ؛ 186: ایضاََ ج 9 ص 18؛ 187: ج7 ص 4 96؛ 188: ظٰہی اسلام احمد امین ج2 ص 117۔118؛189: بخاری ج 9 ص396؛ 190: ایضاََ ج6 ص 355؛191: ایضاََ ج6 ص359؛192: معالم المدرستین علامہ مرتظی عسکری ج1 ص31؛ 193: بخاری ج 6 ص317؛194: ایضاََ ج 4 ص 319؛ 195: ایضاََ ج2 ص135؛196: ایضاََ ج 4 ص336؛197: فصول مہمہ شرف الدین موسوی؛1981: بخاری ج 6 ص110؛199 تفسیر ابن کثیر، شرح مسلم النوائی ج 3 ص552؛200: تفسیر ابن کثیر؛201: بخاری ج 2 ص375؛ 202: شرح الباری فی صحیح بخاری ج 4 ص177،شرح النوائی ج 3 ص36 4 ؛203: شرح مسلم النوائی : ج3 ص556؛ 204: ایضاََ ج3 ص555؛205: ایضاََ ج3 ص556؛

۱۲۹

206: ایضاََ ج 3 ص331:2072: صحیح ترمذی؛208: بخاری ج7 ص36؛ 209: طبرانی،تفسیر ثعلبی؛210: اصل شیعہ واصولہا کاشف الغطا؛211: ببخاری ج3 ص126؛21221: ایضاََ ج2 ص137؛213: ایضاََ ج9 ص76؛ 214: فصول مہمہ شرف الدین موسوی؛215: بخاری ج2 ص37 4 ؛ 216: ایضاََ ج 2 ص371؛217 :تفسیر کبیر فخرالدین رازی ج5 ص153: 218: ترمذی ج9 ص7 4 ،ابو داود ج2 ص7، مسند احمد ج1 ص 376؛

219: مستدرک صحیحین ج 4 ص 557؛220: سنن ابن ماجہ باب اجتہاد؛221: مسلم ج 1 ص373؛ 222: فتح الباری ج5 ص 362؛

223: معامرات الامتاجرین بدین ص29؛ 224: لا اکون مع صادقین ڈاکٹر تیجانی سماوی ص196؛225: بخاری ج6 ص390؛226: تفسیر ابن کثیر،القرطبی، در المنثور؛227: بخاری ج9 ص166؛ 228: ج2 ص 66؛229: ایضاََ ج9 ص 4 89؛ 230: ابوبکر رازی مختار الا صحاح ص 282؛231: بخاری ج 9 ص 159؛ 232: سنن ابن ماجہ ج 2 حدیث نمبر 4 082، 4 087، تاریخ طبری۔

۱۳۰

ضمیمہ مترجم

چونکہ شیعت ،دین اسلام کا جوہر ہے تو جن دانشوروں نے کسی وجہ سے اسکا مطالعہ کیا جیسا کہ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر اسد وحید قاسم فلسطینی نے کیا تو انہوں نے گہرے مطالعہ سے حقیقت تک رسائی پائی اور اعلان کیا کہ شیعت ہی اصلی اسلام ہے اور اسلام کا نام ہی شیعت ہے ۔میرے ایک ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے دوست نے بھی مجھ سے مباحثہ کے بعد تاریخ اسلام اور فریقین کے عقائد و اعمال کا کافی مطالعہ کیا اور دو سال کے بعد اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا،'' اگر ہم دین اسلام کا نام اہل حدیث رکھیں،اہلسنت رکھیں یا اور کچھ ،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ شیعت ہی سب کچھ ہے یعنی کہ قرآن، احادیث اور سنت نبوی (ص) کے حقیقی پیروکار صرف اور صرف شیعہ ہیں''۔اسطرح وہ شیعان اہلبیت میں شامل ہوگیا۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ !اس کی خوش خبری اللہ کے رسول (ص) نے ان الفاظ میں دی ہے،'' اے علی تم اور تمہارے شیعہ کامیاب ہیں''۔دنیا کا کوئی بھی علاقہ نہیں ہے جہاں شیعت نے اپنے وجود کا اظہار اور مثبت دلائل سے اکثر قاریوں کو اپنی خوشبو سے معطر نہ کیا ہو۔جرمنی میں 1985ء میں پندرہ سو شیعہ تھے اور آج ساڑے تین لاکھ ہیں۔یوگنڈا میں اُس وقت ایک شیعہ تھا اور آج دو ہزار سے زیادہ۔یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ شیعت کے دشمنوں کے چہروںسے منافقت کا نقاب بوسیدہ ہوکر تار تار ہوگیا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے رہنما عارف باللہ رہبر کبیرامام خمینی کی اسلامی اصولوں پر مبنی قاعدانہ صلاحیت اور عرفانی قیادت نے شیعت کو دنیا کے سامنے منفرد انداز میں پیش کرکے منتشر اذہان کی لئے مشعل راہ روشن کی جس کی وجہ سے تقریباََ پچاس لاکھ لوگوں نے ایرانی انقلاب سے آج تک شیعت قبول کی اور کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں شیعوں کے خلاف کتابیں لکھنے والا اور ریاض یونیورسٹی سعودی عرب میں اٹھارہ سال تک تعلیم حاصل کرنے والاکٹر وہابی ڈاکٹر عصام العماد یمنی ، سعودی حکمران شاہ فہد کا ذاتی مشیر ڈاکٹر علی شعیبی، سعودی سرکار میں ہوم منسٹری کے مشیر چانسلر دمرداش ذکی عکالی،کینیا کے وہابی عالم و مبلغ شیخ عبداللہ ناصر،

۱۳۱

مفتی اعظم فرانس شیخ سنکوہ محمدی، برصغیر کے مشہور غیر مقلد عالم و شارح صحیح بخاری علامہ وحید زمان حیدر آبادی، پاکستان میں شیعہ دشمن سپاہ صحابہ کے کمانڈر مولانا زاہد راشدی، مولانا عمران اور دوسرے تمام مسالک کے ان گنت دانشور ہیں۔ ایسے خوش قسمت افراد کی ایک معمولی فہرست اور انکے ہاتھوں مذہب حق کی ترجمانی کرنے والی انکی کتابیں حاضر خدمت ہیں۔

1نام مؤلف،مصنف،دانشور---------ملک--------------------نام تصنیفات وتالیفات

2محدث محمد بن مسعود بن عیاش------ بغداد-----------تفسیر عیاشی

3شیخ محمد ابوریہ-----------مصر-------------- ابوہریرہ شیخ المضیرہ

4 شیخ محمد مرعی الا نطاکی۔عالم دین-----------مصر------------میں نے مذہب اہلبیت کیوں قبول کیا

5-شیخ احمد امین الا نطا کی۔پروفیسر--------------مصر--------------میں کیوں شیعہ ہوا

6 الشیخ سعید ایوب۔عالم دین----------------مصر------------- معالم الفتن 2 جلد

7ڈاکٹرمحمد بیومی مہران۔پروفیسر---------------مصر------------------60 تصانیف(1)امامت اور اہلبیت

8الکاتب محمدعبدلحفیظ----------------------مصر---------------میںجعفری کیوں ہوا

9 ڈاکٹر احمد راسم النفیس ۔پروفیسر---------مصر----------------طریق مذہب اہلبیت

10الاستاد محمد الکثیری ۔پروفیسر---------------مصر------------ اہلسنت اور امامیہ میں فرق

11شیخ سلیم البشری استاد اور انچارج جامعتہ الازہر------------مصر------------مکتوب نمبر56 در کتاب دین حق ص636

12استاد عثمان جاسم---------------القطوز الدانیتہ المسائل الثمانیہ

13استاد موسیٰ صالح--------------فواطر ومشاہدات حیدریہ

۱۳۲

1 4 ڈاکٹر قدیر فہمی------------------ایران -----------------من دخل

15شیخ محمد عصمت بکر---------------عبداللہ بن عمر بین سیاست و دین

16 ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی۔عالم دین-------------تیونس---------------مجھے راستہ مل گیا، کونوا مع الصادقین وغیرہ

17ھاشمی علی دانشور-----------تیونس----------------شیعہ دوست سے گفتگو

18سعید بن علی عالم دین---------------------تیونس-----------------درس عقائد

19پروفیسر عبد المجید تراب-----------------تیونس-------------------اسلام و فوقیات

20احمد حسین یعقوب۔پروفیسر-------------------------اردن---------------- نظریہ عدالت صحابہ

21الاستاد صائب عبدل حمید۔پروفیسر---------------------اردن--------------------عقاید شیعہ و اہلبیت

22صالح الوردانی----------------مصر-------------فریب

23مروان خلیفات----------------اردن---------------شیعہ ہی کیوںنہ ہو جائوں

2 4 الاستاد عبدالمنعم محمد الحسن۔پروفیسر------------سوڈان----------------مجھے نورِ فاطمہ سے ہدایت ملی

25الاستاذ متوکل محمد علی ۔پروفیسر ----------------سوڈان---------------- و دخلنا الشیعة سجدا

26الشیخ معتصم سید احمد۔عالم دین--------------سوڈان-----------------حقیقت گمشدہ،دین حق کی مایہ ناز کتاب

27ڈاکٹر محمد مغلی--------------الجزائر-------------------مذہب شیعہ امامیہ

28 قنبر اسدی عالم دین---------------لبنان-----------------حقیقت کا متلاشی

29السید یاسین المعیوب البدرانی ----------------سیریا-----------------کاش میری قوم جان لیتی

30السید حسین الرجا--------------------دمشق------------------میں نے ھدایت کی آواز سنی

31علامہ شیخ محمد ناجی غفری-----------------حلب،سیریا------------------ تحریری دستاویز در کتاب دین حق ص30

۱۳۳

32محترم طالب بیگ------------حلب ،سیریا--------------میں کیوں شیعہ ہوا ص123

33 مفتی شیخ محمد بلنکو -----------------حلب ،سیریا--------------- میں کیوں شیعہ ہوا ص91۔95

3 4 ڈاکٹر تاج الدین پروفیسر میڈسن --------------جورڈن-----------------وجود انسان طب اور قران کی روشنی میں

36شہید فتح عبدالعزیز------------------ فلسطین----------------المختار اسلامی

37ڈاکٹر ظہیر غزاوی----------------- فلسطین-----------------موسسات دینیہ

38 ڈاکٹر علی شعیبی (مشیر شاہ فہد)------------------سعودی عرب-------------اسلامی افکار حالات حاضرہ کے مطابق

39 دمر داش بن ذکی عقالی مصری، سعودی ہوم منسٹری کا مشیر------سعودی عرب-----

ایر پورٹ پر شیعہ ایرانی حجاج سے کتابیں ضبط کرکے مطالعہ کیں اور مذہب امامیہ قبول کیا۔

4 0ڈاکٹر عصام العماد امام جمعہ مرکزی جامع مسجدصنعائ(سابق سلفی)-----------یمن---------وہابیت سے شیعت کی طرف میرا سفر

4 1سید ادریس الحسینی دانشور و صحافی----------مراکش-----------حسین نے مجھے شیعہ بنادیا

4 2ڈاکٹر سید سامرائی عالم دین----------سامرہ عراق------------المختار من نہج البلاغہ

4 3ادریس حام تیجانی عالم دین --------------نایجیریا ------------راہ اہلبیت

44 ڈاکٹر محمد تیجانی عالم دین----------فرانس-------------کربلا کا سفر

4 5شیخ سنکوہ محمدی مفتی اعظم--------------فرانس------------زیارت امام حسین کے موقعہ پر

4 6سید علی بدری عالم دین-------------سیریا -------------حسن المواھب فی حقائق المذاھب

4 7 جُما عمری میونگا معتصب وہابی -------------افریقہ----------------تفسیر قران

4 8ڈاکٹر حمید الغر-------------امریکہ-----------

۱۳۴

4 9شیخ عبداللہ ناصر نامور وہابی عالم -------------کینیا-------------شیعہ اور قران۔شیعہ اورحدیث،شیعہ اور صحابہ،شیعہ اور امامت،شیعہ اور تقیہ

50 مولانا سید مقبول دہلوی-----------------(ہند)----------------ترجمہ وتفسیر قرآن 2جلد

51حامد بن شبیر سا بق چیف جج-------------حیدرآباد(ہند)------------کلمتہ الحق 2 جلد

52 مولانا نواب احمد حسین خان -------------پرتاپ گڈھ(ہند)------------- تاریخ احمدی

53بابا خلیل چستی مشہور صوفی بزرگ-----------بنارس (ہند)-------------مولا علی اور معاویہ

5 4 مولانا جلال الدین حسن۔عالم--------------حیدرآباد(ہند)--------------ایمان و عمل

55مولانا شیخ احمد عثمانی دیوبندی -------------(ہند)------------انوار الہدیٰ اور شمس الضحیٰ

56مولانا اختر سلطان----------------(ہند)----------------تنزیہ الانصاب 2جلد

57مولانا ہمایوںمرزا ایڈوکیٹ--------------کلکتہ (ہند)-------------شاہراہ ِنجات

58سید امداد امام------------پٹنہ بہار (ہند)--------------مصباح الظلم

59مولانا وحید الدین خان-------------دکن(ہند)-----------حد تحقیق بہ مشرب سنی

60 مولانا وحید الزمان ------------حیدرآباد(ہند)---------------- عقائد وحیدیہ

61 مولوی احمد خان درویش -------------حیدرآباد(ہند)-------------شیعہ ہونے کا اعلان مع دستخط موجود ہے

62ڈاکٹر شکیل اختر مع سات دیگر افراد-------------سیوان (بہار)-------------طوفان سے ساحل تک

63 انعام محمد سرکاری ملازم----------------کلکتہ (ہند)-----------ھُد یََ للعالمین (فضائل امام علی )

6 4 جنام دامر مونی استاد-------------سری لنکا-----------قران اور صحیفہ کاملہ کا تامل ترجمہ

۱۳۵

65 مولوی کامران حیدر--------------حیدرآباد(ہند)------------------اہلبیت اور السنت

66مولانامظہر الحق دیوبندی ----------پاکستان--------------بیان حق

67 مولانا اسمعٰیل دیوبندی -----------------پاکستان-------------- میں کیوں شیعہ ہوا،فتوحات شیعہ

68مولانا شاہد زعیم دیوبندی --------------پاکستان----------------پردہ اٹھتا ہے----------------

69مولانا عبدالکریم مشتاق -----------------پاکستان---------------8۔(1)میں شیعہ کیوں ہوا

70مولانا حافظ علی -------------------پاکستان----------------------ملک النجا ة

71مولانا حکیم امیر الدین--------------پاکستان----------------ملک النجا ة

72مولانا سید محمود گیلانی---------------پاکستان-----------------امام علی اَ دیانِ عالم کا مرکز نجاتَ

73علامہ ناصر الدین(رشید ترابی) ----------پاکستان-----------۔توحید اور شرک

7 4 مولانا محمد حسین ڈھکو عالم دین ----------پاکستان-------------تحقیق حق

75پروفیسر عبدلحکیم بوترابی -------------پاکستان-----------------آیت اور ہدایت

76 مولانا رکن الدین--------------پاکستان--------------جوھرِقران

77شہیدعلامہ طالب حسین کرپالوی--------------پاکستان--------------50 تصانیف۔سیرت اہلبیت

78 ارشد نعمانی طالب علم------------پاکستان----------- کتاب راہِ خد ا

79مولانا فقیر حسین ،مولاناچودھری محمد نواز،مولانالیاقت علی چک---- اعلان قبول شیعیت در کتاب فتوحات شیعہ مولانا اسمعٰیل دیوبندی ص252

۱۳۶

80مولانا عبدالقیوم سلفی رکن سپاہ صحابہ----------تاریخ ناصبیت 2 جلد

81علامہ محمد بشیر------------قران اور اہلبیت

82مولوی فتح محمد المعروف غلام مرتضٰی------------سیالکوٹ-------------فتوحات شیعہ ص229

83مولانا حافظ محمد رشید،مولانا نواب عبد ا لقیوم،مولانا سید احمد علی شاہ،مولاناسیٹھ غلام امامین،مولانا غلام حیدر خان،مولانا عبدل احد خان اور مولانا عبدلصمد خان

-----

مشہور شیعہ عالم دین مولانا سید محمد شیرازی کے ساتھ پشاور پاکستان میں دس دن لگاتار مناظرہ کرنے کے بعد کثیر مجمع کے سامنے مذہب شیعہ قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں فوٹو سمیت کتاب شبہائے پشاور میں موجود۔

8 4 مولانا غلام حسین نعیمی دیوبند ی--------------پاکستان----------------

85مولانا حافظ محمد رشید،مولانا عبدالقیوم---------پاکستان--------------- در کتاب شبہائے پیشاور

86مولانا حافظ یونس گجر بریلوی --------------پاکستان-------------

87مولاناتوکل حسین دیوبندی -----------------پاکستان------------

88مولانا تاج الدین حیدری --------------پاکستان---------------

98مولانا حافظ محمد --------------پاکستان --------- فلقُ نجات

90علامہ ہارون گیلانی-----------پاکستان------------

91مولانا عبدالساقی ---------------پاکستان---------------

92مولانا زاہد الراشدی،جنرل سیکٹری سپاہ صحابہ سندھ ------------پاکستان---------

۱۳۷

93مولانا عمران ،رہنماء سپاہ صحابہ راولپنڈی ------------ پاکستان---------

9 4 شہید علامہ دانش علوی صوبہ سرحد -----------پاکستان---------

95شیخ محمد اردنی----------اردن------------فاطمہ زہرا ------------

96غلام عباس ،وکیل ---------------سپین------------

97مولانا عبدالحکیم کارنے ------------- امریکہ------------

98علامہ محمد بشیر--------------پاکستان-----------قران اور اہلبیت ------------

99شیخ جہاد اسما عیل---------سڈنی(جرمنی)-------------

100پروفیسر علی ابراھیم -------------افریقہ------------

101شیخ حمیدو -------------جنوبی افریقہ-------------

201شیخ سیف اللہ خان۔جامعہ ازہر کا فارغ التحصیل-----------جنوبی افریقہ----------

301شیخ شہید متی --------------جنوبی افریقہ------------

4 01شیخ اثامہ عبدالغانی-------------امریکہ---------------

4 01ڈاکٹر حمید الغر--------------امریکہ---------------مشہور خطیب اور مصنف

601مولانا ذکریا ---------------جنوبی افریکہ-------------

701شیخ عبداللہ ناصر-----------------مشرقی افریقہ--------------

801 جما عمری مونگا متعصب وہابی----------------افریقہ----------------تفسیر قران

901شیخ علی گرنٹ --------------ارجنٹینا-----------avail.on www.hyderi.org

110مولانا سخاوت حسین ----------پاکستان ---------------امریکہ اور کنیڈا کا مشہور خطیب

111سومائیکی(روح اللہ)-------------- جاپان ----------------مذہبی سکالر اور کمپیوٹر انجینر

۱۳۸

112شیخ عبدالرحمان العلی امام جمہ------------------العنبر عراق-----

113 Leonard peter Sorenson -------- Dutch ---------

11 4 Crystal Edwinson ---------- Sweden ------------

115 Doris Cluszin --------- Germany -------------

116 Prof.Lekenhowzin --------------- America ------------

117 Prof.Istwili Claude ---------- France --------

118 Roberto Arcadi ------- Italy -------------

119 Roberto Raico, Fujiro Lumunuku -------------- Italy Italy --

120دانشور حسن شوہتا ----------------مصر-----------------

121دانشور زہیرالحسن---------------امریکہ----------------

122ڈاکٹر علی لنستاد -------------ناروے---------------

123 ڈاکٹر علی کروجر ------------ جرمنی-----------

12 4 ڈاکٹر حسین لیبیال--------------- جرمنی--------------

125ڈاکٹر عبدالخالق ایمن-------------مصر-------------

126ڈاکٹر حار ث والڈمین------------آسٹریا-----------

127امیر ابو طارق --------------- برطانیہ-----------

128یوسف قبی سوف --------------روس---------

۱۳۹

129عبدالسلام اللاگمش------------ اٹلی-------------

130پروفیسر عبدالوحید-------------روس-------------

131حسن شمسوری------------ملیشیا-------------

132ابراہیم زنکو-----------افریقہ-------------

133مائکل بتھ-------------امریکہ----------

13 4 ڈکٹڑ علی الشیخ ------------عراق-----------

135عبدالباقی------------الجیریا------------

136محمد ندیم زینلوف-------------روس--------------

137 شمس العارف-------------انڈونیشیا------------

138محترمہ کزرم (فاطمہ)------------روس-------------

139محترمہ حسینہ-------------- برطانیہ-----------------

1 4 0محترمہ نصرت بن محمد عیسیٰ--------------- ملیشیا--------------

1 4 1محترمہ زینب الحسی ------------------جرمنی---------------

1 4 2شیخ حسن الدرگھامی--------------مصر--------------

1 4 3شیخ عطااللہ السعید---------------مصر--------------

1 44 شیخ قندیل--------------مصر-----------------

1 4 5شیخ محمد رجب -------------مصر-------------

1 4 6ڈاکٹر شیخ محمد مہران--------------- مصر-------------

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158