میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا0%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر اسد وحید قاسم
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: صفحے: 158
مشاہدے: 49252
ڈاؤنلوڈ: 3523

تبصرے:

میں حسینی ہوگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49252 / ڈاؤنلوڈ: 3523
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

( میں حسینی ہوگیا )

تالیف:ڈاکٹر اسد وحید قاسم

مترجم : ابن حسین بن حیدر

۱

مشخصات

نام کتاب:میں حسینی ہوگیا

مولف:ڈاکٹراسد وحید قاسم

مترجم: ابن حسین بن حیدر ( safenah14@gmail.com )

ناشر:

سال اشاعت:

تعداد:

۲

عرض مترجم

زیر نظر کتاب حقیقت کے متلاشی ڈاکٹر اسد وحید قاسم صاحب کی تالیف ہے ہیں جنہوںنے حق تک پہنچنے کیلئے اس وقت تک جد وجہد کی جب تک اللہ نے ان کو صراط مستقیم کی رہنمائی نہ فرمادی(اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے ۔عنکبوت 69)اور ان کے ضمیر کی آواززبان پر ان الفاظ میں نمودار ہوئی''میرے عقیدے کے مطابق شیعہ مذہب ہی اسلام ہے اور اسلام ہی شیعہ مذہب ہے ''۔(المتحولون ،ج1، ص 4 62)

مولف مقبوضہ فلسطین کے دارالاگوسان نامی گائوں جو دریائے عمان کے مغربی کنارے پرواقع ہے میں پیدا ہوئے ،ہائی سکول پاس کرنے کے بعد وہ ملک عمان چلے گئے جہاں انہوںنے انجینرنگ میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کی اور پھر فلپائن میںپہلے ڈگری اور بعد میں ماسٹرس ان کنسٹرکشن منیجمنٹ( construction management )کی ڈگری حاصل کی۔آخر میں انہوں نے اسلامک پبلک اڈمنسٹریشن ( Ph.D in islamic public administration )میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ڈاکٹر صاحب ایک صاحب بصیرت مسلمان تھے جو ایک اہلسنت گھرانے میں پیدا ہوئے اور شیعوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے پروپگنڈے سے تنگ آکر بعد تحقیق اپنے کچھ دوستوں سمیت مذہب شیعہ قبول کر لیتے ہیں اور اپنے تحقیقی سفر کو اس کتاب میں بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب کا نام انہوں نے'' حقیقت مذہب اثناعشریہ'' رکھاجو عربی زبان میں چھپ چکی ہے ۔ اسکے علاوہ اس دانشور نے دوسری مشہور زمانہ کتاب ''امامت و خلافت اور اسکے جدید آثار'' لکھی اور تیسری کتاب''اسلامی مدیریت پر ایک تحقیق'' لکھی جو اصل میں اسکی پی۔ایچ ۔ڈی تھیسیس ہے۔ پہلی کتاب کا فارسی ترجمعہ ایران کے استاد جواد مہری نے بھی کیا ہے۔ انگریزی ترجمہ YASIN T al JIBOURI (یاسین جبعوری )نے کیا ہے او ر اسکا نام ( search for truth ) رکھا۔ میں نے اسے مجمع جہانی اہلبیت کی ویب سائٹ www.ahl-ul-bayt.org سے ڈاؤن لوڈ کرکے اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی اور اسکا نام '' میں حسینی ہوگیا '' رکھا اپنے خالق حقیقی سے اس مشکل کام کے لئے مدد کی دعا کی جو شاید قبول ہوئی اور ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

۳

ترجمہ کرتے ہوئے اپنی کم علمی کا پورااحساس ہوا اور کیوں نہ ہوتا چونکہ مصنف کی ذہنی روش کو قائم رکھنا ہی تھا اور کتاب اصل عربی سے انگریزی زبان کے قالب میں ڈھل چکی تھی اور اب اردو قالب میں ڈھلنے کی منزل طے کرتے ہوئے میری عقل و دانش پر حاوی ہوئی کیونکہ میں اردو زبان کی دنیا سے اجنبی ہوں۔ میں اپنے خالق و مالک سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پنا ہ مانگتا ہوں اور معصومین علیہم السلام کی بارگاہ میں یہ ہدیہ پیش کرتا ہوں،اگر قبول ہوجائے تو ہمیں زمین و آسمان و ما فیہما کی نعمتوں سے زیادہ قیمتی بخشش حاصل ہوگی۔ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے خاصکر مجھ جیسے نافہم عاصی کیلئے۔میں خود بھی حیران ہوں کہ میں ایسے کام ہاتھ میں کیوں لیتا ہوں جبکہ میں اس وادی کے نشیب و فراز سے بالکل بے بہرہ ہوں۔شاید اسکا راز یہی ہے کہ یہ ایک مظلوم ترین قوم کی درد بھری آہوں کا ثمرہ ہے جو میرے ارد گرد کے ماحول کی خبر گیری کرکے مجھے للکارکر احساس دلا رہا ہے کہ خواب غفلت سے جاگ زرا اوراللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لئے سامان سفر باندھ کے اپنی نوبت کا انتظار کر۔ اس قوم کی مظلومیت کی ایک معمولی مثال یہاں پیش کرتا ہوں'' میرا ایک دوست ہے جس کے شیعوں کے بارے میں وہی فرسودہ اور بیہودہ تصورات تھے جو کہ ایک تعصبی جاہل کے ہوتے ہیں اور مجھ سے چھوٹے چھوٹے مناظرات کرکے اور تقریباََ بیس پچیس کتابیں پڑھ کر نوے فیصد شیعت کے قریب آیا ہے۔اس نے آج یعنی تین مئی 201 4 ء کو ا سی ظلم کی باتیںکرتے بتایا کہ ایک دفعہ ایک ہمسایہ شیعہ گا ؤں کے تین چار لوگوں نے میرے دادا کے حقہ میںکش لگالئے (تمباکو پیا)اور جب دادا کو ان کے شیعہ ہونے کی خبر ہوئی تو وہ ان سے فحش کلامی سے پیش آئے اپنا حقہ بھی توڑ ڈالا اور ان سے اسکی قیمت بھی وصول کی ''۔

اس جیسی بہت سی کتابیں میرے پاس موجود ہیں جن سے شیعت کی حقانیت ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان دانشوروں نے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ مذہب شیعہ کتب اہلسنت میںسے اچھی طرح ثابت کیا جا سکتا ہے۔اس کی مثال ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب'' حقیقت گمشدہ ''تالیف شیخ معتصم سید احمد سوڈانی سابق اہلسنت میں اسطرح درج ہے: جب شیخ معتصم کو ایک شیعہ بنام'' عبدالمنعم''( جو کہ کچھ عرصہ پہلے شیعہ بن چکا تھا) سے ملاقات ہوتی ہے جو معتصم کے پوچھنے پر کہتا ہے : چار سال کی تحقیق سے میری کمرٹوٹی اور وہابی مذہب کو سرزمین سوڈان میں داخل ہونے پر اور چھا سمجھ کر اسکا ماخذ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے اصلی دین یعنی شیعہ مذہب مل گیا جس پر شیخ معتصم نے کہا کہ تم نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کیا ہے۔

۴

منعم نے کہا کہ تم خود تحقیق کیوں نہیں کرتے جس پر شیخ معتصم نے کہا کہ مجھے شیعوں کی کتا بیں کہاں سے ملیں گی۔منعم نے کہا کہ شیعہ مذہب کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ یہ اہلسنت کی کتا بوں سے ثابت ہوتا ہے چہ جائیکہ شیعوں کہ اپنی ہزاروں کتا بیں ہیں ۔ اور شیخ معتصم بھی منعم کی طرح چار سال بعد شیعان آل محمد علہم السلام میں میں شامل ہوگئے۔ میں ان سب دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے سخنے،قدمے یا درہمے اس کار خیر میں میری حوصلہ افزائی کی، اور اللہ سے انکے لئے بلند درجات کی دعاکرتا ہوں تاکہ وہ آئندہ بھی خدمت خلق خاص کر علمی میدان میں اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔ جناب مولانا اظہر عباس صاحب دہلی نے اردو زبان کی تصحیح جنکا میں بیحد مشکور ہوں ۔ آخر میں اپنے اہل خانہ خاص کر اہلیہ کا بھی کافی مشکور ہوں جس نے ناسازگار صحت کے باوجود ہمہ وقت اس کام میں میری حوصلہ افزائی کی۔ اللہ انہیں بھی بحق محمد و آلہ محمد با صحت و سلامت رکھے اور ہم سب کو دین اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین یا رب العالمین

عاصی و سرا پا گناہگار

ابن حسین بن حیدر

۵

مقدمہ مولف

مسلمانوں کی موجودہ حالت زار سچ مچ قابل رحم ہے۔کیونکہ سامراجیت کے ہاتھوں امت مسلمہ کے درمیان مسلکی اختلافات اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرقومیں مسلمانوں ان پر اسطرح حملہ آور ہوئی ہیں جسطرح بھوکے لوگ حرص بھری چاہت کے ساتھ لذیذ(وازوان)ڈش پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔

اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کے درمیان خلیج کو اتنی وسعت اس لئے دی تاکہ یہ اپنے منحوس عزائم کو پورا کر سکیںاور یہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوائے بغیر ہر گز ممکن نہ تھا ۔ دشمنان اسلام کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا کہ وہ اسلام کی بہارِ نو سے مسلمانوں کو خوش و خرم اور سرشار دیکھیں

انقلاب اسلامی ایران سے مغرب کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا چنانچہ وہ متحد ہوکر انقلاب اسلامی ایران کو دبانے اور اس کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لئے جہد مسلسل کے عنوان سے بر سر پیکار ہوگئے۔

پچھلے کچھ سالوں سے یہ لوگ شیعہ ،سنّی کے درمیان مسلکی منافرت کو ہوا دینے میںسر جوڑ کر مصروف ہیںاور یہ کام مسلم ممالک میںانہوں نے اپنے چیلے چپاٹوں کے سپرد کر رکھا ہے جس کی وہ ہر طرح سے پشت پناہی کر رہے ہیں۔خاص طور سے سعودی حکمرانوںکے۔ کہ جن کے زیر تسلط دو متبرک جگہیں ہیں جس کی خدّامی کے بہانے وہ سب کچھ کرتے ہیں ۔اُن کے مبلغوں کا کام صرف اپنے حکمرانوں کی تعریف کرنا ہے وہ اپنے زر خرید ہاتھوں کو ہدایات جاری کئے ہیں کہ وہ صرف ایسی کتابیں لکھیں اور شائع کرائیں جن میں شیعوں پرکفر کا الزام ، یہود و نصاریٰ سے مشابہت اور دوسرے خرافات ان سے منسوب ہوں۔اس مکروہ چال کے ذریعے بدقسمتی سے بہت سارے سیدھے سادھے لوگ شکار ہوئے ہیں،جنہوں نے ان زہر بھری کتابوں پربلا تحقیق و تصدیق بھروسہ کیا۔ ایسی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں تمام اسلامی ممالک میں پھیلائی گئیں ہیں ۔

۶

چنانچہ دوسرے مسلمانوں کی طرح مجھ تک بھی یہ مہم پہنچی جو ایسے عناصر نے شروع کی تھی جنکا دعویٰ تھا کہ شیعہ کافر،یہودی و نصاریٰ ہیں اور انکا مقصد سنی مسلمانوں کو ان عقائد سے روشناس کرانا اور انکے خطروں سے بچانا تھا۔ میں نے پہلے ہی اس تحریک کو رد کیا کیونکہ ان کا طریقہ نا زیبا اور غیرشائستہ ہوتاتھا اور وہ شیعوں کے عقائد بڑھا چڑھا کر اور جذباتی انداز میں سنسنی خیز بنا کر پیش کرتے تھے۔حالانکہ میں فلسطین کے ایک سُنی گھرانے میں پیدا ہواجہاں اکثریت اہلسنت والجماعت مسلک کی ہے اور میرے اُس وقت کے عقیدہ کے مطابق چونکہ مسلک اہلسنت ہی برحق تھا،میں یہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیعہ کس طرح کافر ہیں۔مجھے اتنا ہی معلوم تھا کہ وہ حضرت علی کی بہت قدر کرتے ہیںاوروہ ان کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ مجھے اسکا علم نہیں تھا کہ ان(علی ) کامقام اس سے زیادہ اور کیا ہے؟ جس کے اکثر اہلسنت قائل ہیں،یعنی وہ صرف خلفائے راشدین میں چوتھے ہیں،وہ صرف ایک صحابی ہیں جن کو وہ دوسرے صحابہ جیسے معاویہ اور عمر وعاص کے برابر مانتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق حضرت علی کے مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر، شیعوں کوملت اسلامیہ سے خارج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔انکے کچھ ایسے بھی دعوے تھے کہ شیعہ حضرت علی کو ختم رسل (ص) پر ترجیح دیتے ہیں،شیعہ عقیدہ ہے کہ جبرائیل نے وحی پہنچنانے میں غلطی کی ہے،وہ حضرت علی کو خدا بھی مانتے ہیں ان کا قرآن ہمارے قرآن سے مختلف ہے اور اسی طرح کے اور بہت سے الزامات۔لیکن میں نے ان کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں دی اس کی وجہ میرے ہائی اسکول کے استادکا وہ قول ہے جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ'' شیعہ اثنا عشریہ یا فرقہ جعفریہ مذہب اہلسنت کے بہت قریب ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان ہیں''۔یہ الفاظ میں نے اس شخص سے سنے تھے جسکی حقیقت پسندی،رحم دلی،علمی معلومات، اعتدال پسندی اور مذہبی گفتگو میں ایک خاص انداز کا میں شاہد تھا،یہ الفاظ میرے کانوں میں بہت دنوں اور سالوں سے گھونج رہے تھے۔ان کے علاوہ بھی میں اپنے ایک رشتہ دار سے بہت متاثر ہوا جو دوسروں کو اللہ کی راہ کی دعوت دیتا تھا اور مجھے اسکے خلوص اور مسلمانوں کی یکجہتی کیلئے اسکی دلچسپی پر کوئی شک نہیں ہے۔

۷

اس تصور نے میرے ذہن میں اس وقت تک پختہ جگہ بنائی جب یہ ایک سچی حقیقت بنی جب مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہلسنت دانشور شیعوں کو مسلمان مانتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ان میں سے شہید حسن البنات،شہید سید قطب،علامہ مودودی، شیخ محمد کشک،علامہ شیخ محمد غزالی،شیخ محمد شلتوت،پروفیسر البہنصاوی، التلماصانی،انور الجندی،حسن ایوب،سعد حاوی،فتح یکُن،ابو زہرہ،یوسف العزم، پروفیسر راشد الگھنوچی اور بہت سارے جن کی تصانیف پڑھنے کا مجھے موقع ملا ہے جو کہ ایک نسل کی الماریوں کی زینت بنی ہیں جو اسلام کے بہار نو کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بس بغیر شک میرے ذہن میں یہ داخل ہوا کہ شیعہ مسلمان ہیں۔

میں نے شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں کیا کیونکہ میں نے ان کے اختلاف کو نظر اندازکرنے کا فیصلہ کیا جو کسی طرح سے بھی ایک کو مسلمان اور دوسرے کو غیر مسلم نہیں بناتے ہیں۔ میںاختلافات کی پوری تفصیل نہیں جانتا تھا اور نہ میں ان پر سوچنے یا تحقیق کرنے کیلئے تیار تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بارے میں تحقیق کرنا گویا تاریخ کی بھول بھلیوں میںپھنسنا ہے جس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے نہیں۔اس وقت میرا یقین تھا کہ ان اختلافات پر غور کرنا تفریق کی بنیاد ہے جن سے ہر ایک کو دور رہنا چاہئے خاص کربحث ومباحثہ سے کیونکہ دونوں فریق مسلمان ہیں۔میں شیعہ اور سنیوں کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھتا تھا جس طرح میں علی اور معاویہ کو دیکھتا تھا کہ دونوں مسلم تھے اسکے باوجود کہ ان کے درمیان کیا پیش آیا۔

مغربی ممالک کی طرف میرا تعلیمی سفر 1980 کے آس پاس تھا جب اس منافرت نے شدت اختیا ر کی اور جب شیعوں کودھمکانے کی آوازیں اٹھائی گئیں۔ وہ آوازیں جو انقلاب ایران کے خلاف تھیں اور اسکارہنما جو میرے خیال کے مطابق اس پروپگنڈے کا خاص نشانہ تھا۔اکثر اوقات، میں بھی اس مخالفت کا نشانہ بنا صرف اس وجہ سے کہ میرا یقین تھا کہ شیعہ کسی بھی طرح کافر نہیں ہیں۔جب بھی میں نے اپنے آپ کوایک حملہ سے بچانا چاہا تو اس سے زیادہ زوردار دوسرا حملہ مجھ پر ہوتا تھا اور حالات یہاں تک پہنچے کہ ایک دفعہ کسی نے مجھ سے کہا کہ مجھے ایک ہی راستہ اختیار کرنا چاہئے یعنی ( مجھے اپنا مسلک صاف ظاہر کرنا چاہئے )، یہ نہیں ہوسکتا میں ایک ہی وقت میںسنی بھی رہوں اور شیعو ں کا ہمدرد اور انقلاب ایران کا حمائتی بھی، کیونکہ ان کے مطابق یہ عقیدہ کا معاملہ تھا۔میں یہ حقیقت چھپا نہیں سکتا ہوں کہ شیعہ مسلک کے مکمل تفصیلات معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجھے سخت اور پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

۸

میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کچھ لوگوں کے ان د عوؤںں کا جواب کیسے دوں جو شیعوں کے عقائد جیسے امامت،عصمت،تقیہ،عقیدہ صحابہ وغیرہ پر انکو مکمل طور سے دین اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔ مجھ میں ان عقائد کو جاننے کیلئے بہت ہی دلچسپی بڑھ گئی۔اسطرح میں وہ کرنے کیلئے آمادہ ہوا جس سے اکثر لوگ فرار کرتے ہیں یعنی ''سچائی کی تلاش'' تاکہ مدتوں بھری شک و حیرانگی کا خاتمہ ہوجائے۔

لیکن کیسے ؟ میں ان سنی مصنفوں کی کتابوں سے مطمئن نہیںتھا جو شیعوں کو کافر کہتے ہیں؟میں نے اس وقت تک ان بہت کو پڑھا تھا لیکن مطمئن نہیں تھاکیونکہ وہ اچھے آداب اور علمی تناظر سے محروم تھے جس کیلئے علمی گہرائی اور ثبوت پیش کرناضروری شرط ہے۔اور کیا میں اعتدال پسند اہلسنت جیسے ا لغزالی،البہنصاوی ،عزیز دین ابراہیم وغیرہ کی آرائوں سے مطمئن ہوجائوں جو ان شیعہ،سنی نظریاتی اختلافات کو خواہ مخواہ کی مصنویٔ پریشانی سمجھتے ہیں۔ لیکن ان نظریات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے،بلکہ وہ ا س مسئلہ کو اسی جگہ معلق رکھتے ہیں جہاں سے وہ شروع ہواہے۔میرے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ میںسچائی کو ان کتابوں سے تلاش کروں جو شیعوں نے خود لکھیں ہیں۔مگر پہلے میں نے اس رائے کو بھی رد کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ شیعہ اپنے دلائل کا دفاع ان احادیث سے کریں گے جو ان کے اپنے مراکز سے ماخوذ ہوں جوکہ اہلسنت کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوں گے۔آخر کار میرے ہاتھ''المراجعات''نامی کتاب لگی جو مجھے ایک دوست نے عاریتاََ دی جس سے مجھے جان پہچان ہوئی خوش قسمتی سے وہ دوست بھی میری طرح سچائی کا متلاشی تھا۔اس کو وہ کتاب ایک شیعہ دوست نے پڑھنے کیلئے اس وقت دی تھی جب اس نے ایک ایسی کتاب مانگی تھی جس سے وہ شیعوں کے عقائد جان سکے۔ حالانکہ المراجعات کا مصنف شیعہ ہے پھر بھی میری تعجب کیلئے وہ شیعہ عقائد کے ثبوت اہلسنت کی خاص کتب احادیث یعنی بخاری و مسلم سے پیش کرتا ہے۔ واقعی میں نے اس کتاب میںوہ پایا جس نے مجھے حقیقت کی تلاش کیلئے ہمت افزائی کی،وہ حقیقت جس سے لوگ حیران اور متفرق رہے۔میںاکثر اس کتاب کے مضامین(جو عالم اہلسنت علامہ سلیم بشری جامعةالازھرکے اس وقت کے سربراہ اور شیعہ عالم علامہ شرف الدین الموسوی لبنان کے درمیان خط و کتابت کا مجموعہ ہے) پر بحث و تحقیق میں اپنے دوستوں کو شریک کرتا تھا ۔یہ مراسلہ خاص مسائل کے گرد گھومتا ہے جنمیں شیعہ سنی اختلافات ہیں۔

۹

میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ جو میں نے اس کتاب میں پڑھا،میرے لئے بہت بڑی حیرانگی کا باعث تھا اور یہ مبالغہ نہیں ہے کہ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔میرے تصور میں ہی نہ تھا کہ شیعہ ،سنی اختلافات ایسے ہوںجو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیںاس کے مطالعہ کے بعدمجھے ماننا پڑا کہ میں تاریخ اسلام اور حدیث سے ناواقف ہوں اوروہ ہرکوئی جو اس مسئلہ سے وابستہ ہے اور جن سے اس بارے میں میری ملاقات ہوئی جنمیں وہ بھی ہیں جنہوں نے شریعت میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں،جیسا کہ آپ اس تحقیق کی تفصیلات میں دیکھیں گے۔کتاب میں بیان کئے گئے واقعات سے ہوئے صدمہ کی نوعیت اور اس کے باوجود کہ مؤلف کے اس دعوے، کہ اس نے یہ سب دلائل قرآن اور صحاح ستہ ،مسلم و بخاری سے ثابت کئے ہیں،ہم میں سے کچھ نے ان کتابوں کی صحت پر اشکال کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک دوست نے کہا کہ اگر اس شیعہ مصنف نے جو کہا ہے سچ نکلااو رصحیح بخاری میں ایسے حقایق موجود ہیں تو آج سے میں بخاری کے کسی بھی حدیث پر بھروسہ نہیں کروں گا ۔ اصل میں اسکا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شیعہ مصنف صحیح ہوسکتا ہے۔ہم سب نے یہ خواہش کی کہ کاش اس کتاب کے مضامین صحیح ہوتے،یہ ہمارے لئے بہت کچھ ہوتا تاکہ ہمیں شیعہ سنی اختلافات کے پس پردہ تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتے۔یہ ضروری بن گیا کہ المرا جعات کے مضامین کو ہم بذات خودصحیح بخاری سے جانچ پڑتال کریں۔اللہ نے بیشک ہمیں کامیابی عطا کی جب ہم نے بڑی محنت و مشقت سے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا۔میں بالکل حیران نہیں تھا جب میں نے صحیح بخاری میں وہ سب حوالے دیکھے جو شیعہ مصنف نے پیش کئے ہیں۔کچھ لوگ حیران ہونگے کی صحیح بخاری پر اتنی تاکید کیوں ؟ یہ اسلئے ہے کہ جو دلائل وہ اللہ کی کتاب سے نچوڑتاہے وہ تشریح طلب ہیں ۔ اور ایک ہی آیت کے مختلف معنیٰ ہوتے ہیں جو حالانکہ ہر ایک کی اپنی تشریح کے عین مطابق ہوتے ہیں۔جیسے قرانی آیت '' اس نے تیوری چڑھائی کیونکہ ایک اندھا آدمی اسکے پاس آیا ''(80۔12)۔ان آیات میںاس آدمی کا نام جس نے تیوری چڑھائی اور اندھے کانام بھی ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔اسلئے حدیث کا کام انہی باتوں کی وضاحت کرنا ہے۔اس وجہ سے اہلسنت کے مطابق صحیح بخاری جو اس کے سب مندرجات قبول کرنے کو واجب سمجھتے ہیں اللہ کی کتاب کے بعد احادیث کی معتبر ترین کتاب کا درجہ حاصل کرگئی۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث آیات ِ قرآن مجید کی مختلف تشریحات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔

۱۰

جب میں نے اس موضوع پر اور کتابیں پڑھیں،توسچائی صاف نظر آنے لگی اور آخر کار روز روشن کی طرح ایسے چمکنے لگی کہ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہ رہی لیکن ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے لئے باعث تکلیف تھا وہ ان ا ہلسنت کی معتبر کتابوں میں تصدیق شدہ تاریخی حقائق اور احادیث رسول (ص) کو چھپانے کے وجوہات ہیںجو صدیوں سے چلے آرہے ہیں ،شیعہ، سنی اختلافات کو کم کرنے میں کافی مدد گار ہوسکتے ہیں۔کیا حقائق کو چھپانے کا یہ طریقہ یا ان کے بارے میں زبردستی بلیک آؤٹ یا ان کے متعلق غلط فہمی پھیلانا وغیرہ اختلافات سے بچنے کا یہ جواز قابل قبول ہوگا جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔کیا حقائق چھپانا اور یا توڑ مروڑ کے پیش کرنا تفریق نہیں ہے؟

جب میں نے اس حساس مسئلہ پر تحقیق شروع کی،میرا اصل مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ کیا شیعہ مسلمان ہیں کہ نہیں۔ مجھے اس پر ذرہ بھر بھی شک نہیں تھا کہ اہلسنت و الجماعت کا طریقہ عبادت سب سے صحیح تھا۔مگر بعد تحقیق اور سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور وفکر کرنے سے جو نتیجہ مجھے ملا وہ بالکل ہی مختلف اور حیران کن تھا،اب میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس سچ کوقبول کرنے میں تامل نہیں کر سکتا جس کو میں نے دریافت کیا۔میں اسکو قبول کیوںنہیں کر سکتا جب کہ وہ اسکو ان مضبوط شواہد اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں جو کہ اہلسنت میں ثابت شدہ ہیں اور عقل ودلیل سے قبول کرتے ہیں ۔یہی سچ ہمارے بہت سے شاگردوں نے قبول کیا ہے جن سے کچھ تعصبیوں اور شیعوں کے خلاف حکم کفر دینے والوں کو جلن ہوئی جو یہ تک کہتے ہیں کہ شیعہ کو اس طرح سلام کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ اہلسنت کو۔انہوں نے ہمارے خلاف بہت سارے الزامات پھیلائے جن میں سے ہلکا الزام یہ تھا کہ جو کوئی شیعہ بنتا ہے اسکو ایرانی سفارت خانہ سے تین سو ڈالر انعام ملتا ہے۔جس صحیح بخاری کو ہم ان کیلئے دلائل و ثبوت کے طور پر دکھاتے تھے وہ اسکو جعلی مان کر قبول نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اصلی بخاری نہیں ہے!ایک طرف سے ایسے تعصب اور جہالت کا سامنا اور دوسری طرف سے شیعوں کی مظلومیت دیکھ کر میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے تحقیق کا خلاصہ لکھوں اور دنیا کے ہر سچائی کے متلاشی کے سامنے پیش کروں تاکہ ہر کوئی اسکا بھی معائنہ کرے۔

۱۱

جہاں تک ان کا تعلق ہے جو دوسرو ں کو گمراہ کرنے کیلئے شیعوں کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں،وہیں پر ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ بول کر کہتے ہیںکہ ایساکرنا صحیح ہے، مگر اس سے زیادہ مستحق ہے وہ سچ جو لکھ کے شائع کیاجائے اس کے باوجود کہ اس کتاب سے کچھ متعصب لوگوں کو درد اور تکالیف ہوں گی ،میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں: ذمہ دار کون ہے ؟

یہ کتاب جو دونوں مکاتب کے نظریات اور خاص اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کے دعوؤں کی تردید پر مشتمل ہے اس میں سارے دلائل و شواہد اہلسنت کی معتبر کتابوں خاص کر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ماخوذ ہیں،اسلئے وہ اس جہالت کو الزام کیوں نہیں دیتے ہیں جس نے ان کو یہ حقائق جاننے سے روک دیا ؟ یا یہ کہ تعصبی ملائوں نے ان سے جان بوجھ کر حقائق چھپائے ؟ یا وہ بخاری اور مسلم اور دوسرے احادیث کے ماہروں کو اپنی کتابوں میں ایسا لکھنے پر الزام کیوں نہیں دیتے ہیں جن سے ان کو ایسا صدمہ پہنچتا ہے ؟! لیکن یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اہلسنت نے وہ سب کچھ ماننے کا حلف اٹھا یا ہے جو ان دو کتابوں میں لکھا ہے؟

مکتب شیعہ امامیہ جس کا ہم اس تحقیق میں تذکرہ کر رہے ہیں،وہ ہے جسکے ماننے والے نبی رحمت (ص) کے بعد امام علی سمیت بارہ ائمہ اہلبیت کی امامت کے پیرو کار ہیں ۔ کچھ دوسرے گروپ جیسے نصیری یا غالی وغیرہ کا شیعوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔اسلئے کچھ لوگ اس پر کیوں زور دے رہے ہیں کہ وہ شیعہ ہیں ؟ وہ اور انکے ہمنواہی عام اور بے خبرلوگوں کو گمراہ کرنے کیئے ایسا بیہودہ پروپگنڈہ کیوں کرتے ہیں ؟ اور مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے برد بار عقائد میں یہ جعلسازی کیوں ؟!

۱۲

باب امامت

امامت یا خلافت کے معنی ہے رہبریت۔اللہ کے رسول (ص) کے وصال کے بعد یہ مسئلہ رہبریت ایسا معاملہ بن گیا ہے جسکا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ رہبریت کسی بھی گروپ کیلئے ایک فطری ضرورت ہے۔شیعہ اور سنی مسلمانوں میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ امام یا خلیفہ کو کیسے چنا جائے اور اسکا کیا کام ہے۔یہ ان کا سب سے گہرا اختلاف ہے اور دوسرے اختلافات اسی بڑے اختلاف کے فطری نتائج ہیں۔یہ اسلئے ہے کہ شیعوں کی نظر میں امامت کو احادیث رسول (ص) کی تائید ہوناچاہئے اور یہ اہلبیت کے بارہ اماموں سے مخصوص ہے۔رسول رحمت (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی تعلیمات ان ہی ائمہ سے رجوع کرنے سے حاصل کی جاسکتی ہیںیا ان روایات سے جو ان سے منسوب ہیں۔جب ان کے بیانات دوسروں سے اختلافی ہوں تو اقوال ِ اہلبیت کو قبول کرنا چاہئے کیونکہ وہ سنت رسول (ص) کے قابل اعتماد محافظ ہیں۔امامت کے مسئلہ میں اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ امام شوریٰ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے مگر اس پر اعتراض نہیں کرتے جب کوئی سبگدوش ہونے والا خلیفہ اپنا جانشین خود معین کرتاہے جیساحضرت ابوبکر کاحضرت عمر کو اپنا جانشین بنانا۔ان میں یہ بھی جائز ہے کہ خلافت زور زبردستی یا تلوار سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے جسطرح بنوامیہ ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ میں کیا گیا۔اسلامی تعلیمات واحکامات کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام سے بلا کسی تفریق کے صحیح طریقہ سے حاصل کرنا ۔اسلئے انہوں نے تمام صحابہ کو برابر اور قابل اعتماد(عادل) مان لیاچہ جائیکہ ان میں سے اکثر جنگ صفین،جنگ جمل اور ایسے دوسرے موقعوں پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کیلئے لڑ پڑے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے ان کی اکثریت کی عدالت پر ایک سوالیہ نشان بن کر اور بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔آپ انشاء اللہ باب صحابہ میں ان کی عدالت پر تفصیلی بحث کامطالعہ کریں گے۔

چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر شیعہ ،سنی اختلاف ہے اور اس سے پہلے کہ اس پر ایک کو غلط ہونے یا کسی کی طرفداری کرنے کاکوئی فتویٰ صادر کریں ہمیں کچھ وقت کی مہلت چاہئے تاکہ ہم دونوں فریق کے دلائل و ثبوت پر غور کریں۔ہم نے یہ تحقیق اسی مقصد کیلئے منتسب کی ہے۔ہم یہاں امامت کے ثبوت میں شیعوں کے دستاویذات کا خلاصہ اور اہلسنت کی تردید پیش کرتے ہے :۔

۱۳

امامت کے متعلق احادیث

1: وہ دلائل و قرائن جن سے امامت ِ اہلبیت ثابت ہوتی ہے:

اپنے بعد امامت کے متعلق رسول خدا (ص) سے اہلبیت رسول (ص) کے بارے میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں،ان میں سے کچھ خاص اسطرح ہیں:

صحیح مسلم میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا :'' اے لوگو ! میں ایک انسان ہوں اورمجھے اپنے رب کی طرف سے بلاوا آیا ہے۔میں اللہ کے بلاوے پر لبیک کہتا ہوں،اور میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں:ان میں ایک اللہ کی کتاب قران مجید ہے جو سرا پاہدایت اور نور ہے،اسلئے اللہ کی کتاب پکڑ لو کیونکہ اس میں ھدایت و نور ہے۔کتاب اللہ کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہو ۔ اور دوسرے میرے اہلبیت ہیں ،میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں(3بار) ''(2)

صحیح ترمذی میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو میدان عرفات میں حجتہ الوداع کے موقع پر یہ فرماتے سنا کہا:''اے لوگو میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،جس وقت تک تم ان سے متمسک رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوگے،ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسرے میری عترت،میرے اہلبیت ''۔(3)

قرآن اور اہلبیت سے وابستہ ہ رہنے کیلئے یہی ایک حدیث شیعوں کے حق پر ہونے کیلئے کافی ہے۔اس حدیث میں رسول خدا (ص) کاواضح حکم ہے کہ قرآن کے بعد اہلبیت سے وابستہ رہنے سے ہی گمراہی کے بدلے نجات پر ہونے کی ضمانت (شرط)ہے۔حالانکہ بہت سے اہلسنت کے ماہرِ احادیث نے اس حدیث کو اپنی صحیح اور مستند کتابوں میں درج کیا ہے، مگر میں اس پر حیران ہوں کہ اکثر اہلسنت اس سے ناواقف ہیں۔

۱۴

وہ جب اس کو سنتے ہیں تو انکار کرتے ہیں جیسا کہ یہ ہے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ اس بارے میں حدیث ِ ابوہریرہ صحیح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں ،قرآن اور سنت چھوڑے جا رہا ہوں،جو ان کے ساتھ وابستہ رہے گاوہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔(4) اس حدیث کے ماخذ پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ کسی بھی صحیح کتاب میں موجود نہیں ہے۔ بخاری،ذہبی، نسائی اور دوسروںنے اسے'' ضعیف ''گردانا ہے۔(5) اسکو حاکم نے مستدرک میں درج کیا ہے جس کو علمائے اہلسنت نے باجماع صحیح مسلم سے کم درجہ دیا ہے جس میں کتاب اللہ اور میری عترت،میرے اہلبیت درج ہے۔اگر ہم یہ بھی فرض کریں کہ ان دو بیانوں میں کچھ فرق نہیں ہے،ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کلمہ ''میری سنت '' حاکم کی روایت کے مطابق کہا گیا ہے وہی سنت ہے جو اہلبیت رسول سے منسلک ہے نہ کی دوسروں سے جیسا کی صحیح مسلم میں صاف نظر آرہا ہے۔مسلم کی حدیث ''کتاب اللہ اور عترت و اہلبیت '' کے مقابلے میں حاکم کی حدیث کتاب اللہ و سنتی سے وابستہ رہنا اہلسنت کے اکثرمحدثوں کی مخالفت کے مترادف ہے کیونکہ وہ احادیث مسلم کو احادیث حاکم پر کافی ترجیح دیتے ہیں۔یہ دلیل عقل و منطق کے خلاف بھی ہے ۔لفظ ''سنت '' جیسا کہ حاکم نے بیان کیا ہے کوئی خاص مطلب نہیں بتا رہا ہے کیونکہ تمام مسالک سنت رسول (ص) پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ ان مسالک کے درمیان بہت سارے اختلافات ہیں جن کی نبیاد رسول اللہ(ص) سے مختلف طریقوں سے روایات منتقل کرانے کے طریقہ میں فرق،یعنی سنت جس سے قرآن کی تفسیر و تشریخ ہوتی ہے،سنت جسکی صداقت پر تمام مسالک متفق ہیں ۔اسلئے منتقل ِحدیث میں اختلاف کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے میں بھی اختلاف ہوگیا۔سنت رسول (ص) اب اختلافی سنت بن گیا اور اسی بناپر مسلمان فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے جن کی تعداد 73 تک پہنچ گئی۔اب ان میں کون سی سنت صحیح ہے جس کا اتباع کیا جائے ؟یہ سوال ہر شخص کے دماغ میں آئے گا جو گہرائی سے ان اختلافات پرنظر ڈالیگا اوپر بیان کی گئی حدیث اختلافات کا خاتمہ کرنے کیلئے نسخہ ٔکیمیا کی حیثیت رکھتی ہے تاکہ مسلمان اس نبی رحمت (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی عقائد میںپریشان نہ ہوں جس نے یہ حدیث انکو بتائی تھی۔

۱۵

یہی وجہ ہے کہ رسول رحمت (ص) کی طرف سے متبرک احکام جاری ہوئے ہیں کہ نبی (ص) کی صحیح سنت اہلبیت رسول (ص) سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے جنکو قرآن کریم نے پاک و پاکیزہ(طاہر) بتا کر وہ خصوصیت عطا کی ہے جس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ وضاحت ایسی صاف ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی ہے۔(اس بحث میں مزید معلومات کیلئے ڈاکٹر تیجانی سماوی کی کتاب ،کونو مع الصادقین اور شیخ معتصم کی حقیقت گمشدہ سے رجوع کریں، مترجم )ایسا ماخذ اور صرف ایسا ماخذ (قران اور ا ہلبیت) ہی گمراہی اور تفریق کے خلاف حفاظت کی ضمانت دیتاہے۔یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دیئے بغیر تصویر کبھی بھی صاف نظر نہیں آئے گی۔

اول: اہلبیت کون ہیں جن کا ذکر مندرجہ بالا حدیث میں کیا گیا ہے ؟

دوم: اس حدیث میں کیوں اہلبیت سے ہی اسلامی احکام حاصل کرنے کی خاص ہدایت ہے نہ کہ تمام اصحاب سے جیسا کہ اہلسنت دعویٰ کرتے ہیں ؟

اول ،اہلبیت کون ہیں؟

صحیح مسلم میں صفیہ بنت شایبہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے کہا:''رسول اللہ (ص) ایک کالا اونی جبہ اوڑھ کے آئے،انہوںنے حسن ابن علی ،حسین ابن علی فاطمہ اور بعد میں علی کو ایک ایک کرکے بلایا اور اس چادر کے اندر لیا،پھر اس آیتِ تطہیر کی تلاوت کی(بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اسطرح پاک رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے احزاب۔33)۔(6) اسکے علاوہ صحیح مسلم میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی( ۔۔ان سے کہد یجئے کہ آئو ہم اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میںدعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ آل عمران۔61)، اللہ کے رسول (ص) نے علی ، فاطمہ ،حسن اور حسین کو بلایا اور کہا کہ اے اللہ یہ میرے اہلبیت ہیں۔(7) ان دونوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ رسول (ص) سے اہلبیت ،علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند تھے۔

۱۶

ازواج نبی (ص) کے متعلق کیا ہے ؟

صحیح مسلم میںزید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں،ایک کتاب اللہ ،دوسرے اپنی عترت جو بھی ان کے ساتھ متمسک ہوگیا وہ ہدایت پاگیا اور جس نے ان سے روگردانی کی وہ گمراہ ہوا۔اسی حدیث میں لوگوں نے پوچھا کہ کیا ازواج نبی (ص) اہلبیت میںشامل ہیں؟ توآنحضرت (ص) نے فرمایا: اللہ کی قسم نہیں !عورت مرد کے ساتھ ایک خاص مدت کیلئے رہتی ہے اورطلاق کی صورت میںوہ اپنے والدین کے پاس چلی جاتی ہے۔آنحضرت (ص) کے اہلبیت ان کے بدن مبارک کے حصے ہیں،ان کے قریب ترین قرابت دار ہیں جن پر آنحضرت (ص) کے بعد صدقہ حرام ہے۔(8)

صحیح ترمذی میں پروردۂ رسول (ص) امر ابن ابو سلا مہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ تطہیر انما یرید اللہ۔۔۔۔۔۔۔ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اس وقت اللہ کے رسول نے حسن،حسین،فاطمہ اور علی علیہم السلام کو اپنی چادر میں لیا اور دعا کی کہ اے میرے پروردگاریہ میرے اہلبیت ہیں۔ان سے ہر رجس کو دور کر اوراعلیٰ درجہ کی پاکی عطاکر۔ام سلمہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (ص) کیا میں بھی اندر آکر ان کے ساتھ شامل ہوجائوں تو جواب ملا کہ تم خیر پر ہو اور اپنی جگہ رہو(9)

مسند احمد بن حنبل میں ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص)نے فاطمہ سے کہا:میرے پاس اپنے شوہر اور دونوں فرزندوںکو لاؤ،وہ ان کو لے کر آئیں آنحضرت (ص) نے فدک میں بنی ہوئی ایک چادر اوڑھ لی اور ان پر اپنا دست مبارک رکھ کر کہا :اے اللہ ! یہ محمد (ص) کی آل ہے،اللہ کا درود و سلام ہو محمد وآلہ محمدپر، یقیناََ تم ہی حمد و ثنا کے لائق ہو۔میں نے اندر جانے کیلئے وہ چادر اٹھائی،لیکن آنجناب (ص) نے میرے ہاتھ سے وہ کھینچ لی اور کہا،تم خیر پر ہو۔(10)

۱۷

اہلبیت کو پہنچاننے کیلئے اوپر دئیے گئے ثبوت اور وضاحت کے باوجودکچھ لوگ اس کو سورة احزاب کی آیت نمبر 28۔33 میں اہلبیت کے ساتھ ازواج نبی (ص) شامل ہونے کا دعویٰ کرکے جھٹلاتے ہیںجس میں اللہ تعا لی ٰ فرماتا ہے :

''اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم زندگانی دنیا اور اسکی زینت کی طلبگار ہو تو آئو میں تمہیں متائے دنیا دیکر خوبصسورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اور اگر اللہ اور رسول (ص) اور آخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے۔ اے زنانِ پیغمبر جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کریگی اسکا عذاب بھی دہرا کیا جائے گا اور یہ بات خدا کے لئے آسان ہے۔ اور جو بھی تم میں سے خدا اور رسول (ص) کی اطاعت کرے اورنیک عمل کرے اسے دہرا اجر عطا کریں گے اور ہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے۔ اے زنان ِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نی کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو۔ اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا سنگار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکواة ادا کرو اور اللہ اور اسکے رسول (ص) کی اطاعت کرو۔پس اللہ کا ارادہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے'' ( سورہ احزاب آیت 28۔33)۔ ان آیات کا ایک ہی جگہ جمع ہونے سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ آیت تطہیر میں ازواج بھی شامل ہیں جب اللہ اعلان کر رہا ہے۔۔ اے اہلبیت اللہ کا ارادہ ہے۔۔۔

۱۸

یہ دعویٰ کہ آیت تطہیر میں ازواج نبی (ص) بھی شامل ہیں

مندرجہ وجوہات کی بنا پر غلط ثابت کیا جا سکتا ہے :

(1):قرآنی آیات کے شان نزول میں ازواج نبی (ص) کو طلاق کے تنبیہ کے بعد اہلبیت کو رجس سے پاک کرنے کے حکم سے دونوں بار ازواج نبی (ص)ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ بہت سی آیات میں اکٹھے دو مختلف موضوعات کا ذکر ملتا ہے۔ایک ہی آیت میں دونوں کاہونا شاید اس واقعہ کا ایک ہی وقت میں پیش آنے سے ہوا ہے۔اس کی مثال اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے: (تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار،خون،سور کا گوشت اور جو جانور غیر خداکے نام پر ذبحہ کیا جائے اوممنخنقہ،موقوزہ،متردیہ، ر نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگر یہ کہ تم خود ذبحہ کرو اور جو نصاب پر ذبحہ کیا جائے اور جسکی تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کرو کہ یہ سب فسق ہے اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں۔لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو،آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کرلیا اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور تمہارے لئے دین کو پسندیدہ بنادیا،لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑابخشنے والا مہربان ہے ۔مائدہ3)

آپ اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ امت کے تزکیہ نفس کا موضوع حرام غذا کے موضوع کے بیچ میں کیسے آیاہے!

(2): اس قول (کہ ازواج نبی (ص) اس آیت میں مذکور نہیںہیں) کی نشان دہی اس بات سے ہوتی ہے کی ازواج نبی (ص) کا ذکر عربی صیغہ(مونث) میں ہے جو عورتوں کے مجمع سے مخصوص ہے جبکہ موضوع اہلبیت کی طہارت کی طرف آنے پر صیغہ (مذکر)مردوں کے مجموعہ میں بدلتا ہے۔

۱۹

(3):پچھلے صفحوں میں ذکر کئے گئے ،مسلم ،ترمذی ،مسند احمد اور دوسرے ماخذ سے صحیح احادیث ایک زبان ہوکر ثابت کرتے ہیں کہ ازواج نبی (ص) اہلبیت میں شامل نہیں ہیں۔جب ام سلمہ نے اللہ کے رسول (ص) سے ان میں شامل کرنے کی خواہش کی تھی تو آنحضرت (ص) نے صاف فرمایا تھا کہ تم خیر پر ہو او اپنی جگہ ٹھہرو۔ مسلم کی روایت میں لوگوں کے پوچھے جانے پر کہ کیا ازواج اہلبیت میں شامل ہیں ،جواب نفی میں آیا۔

( 4 ):مسلم،احمد اور دوسرے راویوں نے حدیث ثقلین کے سلسلہ میں اللہ کے رسول (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :اے لوگو میں تمہارے درمیان دو گراں قدرچیزیں ،کتاب اللہ اوراپنی عترت،میرے اہلبہت (ص) چھوڑے جارہا ہوں ،جنکے ساتھ اگر تم وابستہ رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے،جسکا مطلب ہے کہ تمام معاملوںمیں ان کی پیروی واجب ہے۔اگر ہم یہ فرض بھی کریں کہ اس حدیث میں اہل بیت سے مراد ازواج نبی ہیں تو وفات رسول (ص) کے بعد مسلمان ان سے وا بستہ کیسے رہیںگے، ذہن میں یہ رکھتے ہوئے کہ انہیں گھر میں بیٹھنے کا حکم رسول (ص)ہے ؟اس سوال کا جواب کوئی کیسے دے سکتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی ملک میں رہتی تھیں ؟ اگر ان سے وابستہ رہنے کا مطلب ان سے احادیث روایت کرنا ہے،تو اس کاکیا جواب ہے کہ ان میں سے کچھ نے ایک بھی حدیث بیان نہیں کی ہے؟

لفظ رجس جو اس آیت تطہیر میں آیا ہے ......کہ اللہ کا بس یہی ارادہ ہے کہ آپ سے ہرجسمانی ناپاکی کو دور رکھے اور آپ کو صاف و پاک رکھے،کا زبانی مطلب ہے گندگی یعنی گناہوں کی طرف اشارہ جبکہ طہارت کا مطلب ہے زہد و تقویٰ۔ لائق ِحمد و ثنا اللہ جلہ شانہ کی اہلبیت کو ہر رجس سے پاک رکھنے کے اراد ہ کا مطلب ہے انکو گناہوں اور ایسی حرکات سے دور رکھ نا جو کسی خامی کا باعث ہو او رانکا مقام اونچا کرنا ہے ۔اس کامطلب ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اہلبیت کو ہر چھوٹے بڑے گناہ کے ارتکاب سے پاک رکھے اور یہ صرف اہلبیت کی پاکیزگی اور معصومیت کی دلیل ہے۔ یہ کہنا کہ اس پاکیزگی کا مطلب جو کہ اس آیت میں کہا گیا ہے،زہدو تقویٰ کی نشانی ہے،یہ انکا اپنے اللہ کے احکام کی نا فرمانی سے بچنے کے مطابق ہے،اس بناپر رد کیا جاتا ہے کہ ایسی پاکیزگی اہلبیت سے مخصوص نہیں ہے

۲۰