میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا0%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر اسد وحید قاسم
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: صفحے: 158
مشاہدے: 45536
ڈاؤنلوڈ: 2560

تبصرے:

میں حسینی ہوگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45536 / ڈاؤنلوڈ: 2560
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حضرت ابوبکر کھڑے ہوگئے اور مہاجرین کے فضائل بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ دیا،اپنے دلائل کو نسب ِ قریش سے مشرف ہونے کو خلافت کا حقدار ثابت کرنے لگے جیسا کہ صحیح بخاری میں درج ہے، ''۔۔۔۔پھرحضرت ابو بکر،حضرت عمر اور ابو عُبیدہ ابن جراح ان کے پاس گئے۔ عمر ابن خطاب نے کہنا شروع کیا مگر حضرت ابوبکر نے انہیں خاموش کردیا(53) ۔ ابوبکر نے کہا ،''۔۔۔نہیں؛ لیکن ہم شہزادے ہیں اور تم وزیر ۔ اور وہ عرب میں سب سے اچھے خاندانی اور مرتبہ والے ہیں(54) ۔۔ اور میں نے تمہارے لئے ان دو میں سے ایک کی تائید کی ہے(55) ۔ اسطرح انہوں نے عمر ابن خطاب یا عبیدہ ابن جراح کی بیعت کی(56) ۔ الحباب ابن المنضر نامی ممتاز انصار نے انکا جواب اسطرح دیا: ''نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے ! ہم سے ایک امیر ہوگا اور تم میں سے بھی ایک امیر ہوگا '' (57)

دوسرے بیان میں انصار نے اسطرح جواب دیا،انصار میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور تقریر کرنا شروع کی ،'' ہم اسکا اگا ہوا تنہ ا ورمتوقع شدہ گچھاہیں۔ اے قریش کے لوگو !ہم میں سے ایک امیر چننا ہوگا اور ایک تم میں سے بھی۔مختلف آوازیں زور و شور سے اٹھنے لگیں اور افرا تفری مچ گئی یہاں تک کہ اختلاف کا خوف پیدہوا(58) جب حالات اس درجہ پر پہنچ گئے،عمر ابن خطاب کا کردا رنمودار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ '' ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آسکتی ہیں! اللہ کی قسم عرب تم کو کبھی بھی امیرقبول نہیں کریں گے کیونکہ انکا نبی (ص) تم میں سے نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس کے حق میں یہ دلیل ہے چہ جائیکہ کوئی مخالفت ہی کرے۔''الحباب نامی ممتاز انصار کھڑا ہوا اور کہا ،'' اے گروہ ِ انصار اپنی رائے پر متفق ہوجاؤ،اس آدمی کی باتوں میں نہ آؤ اور نہ ہی اس کے ہم نوائوں کی کیونکہ تم اس مسئلہ میں ان سے زیادہ حقدار ہو۔'' لیکن اسی دوران انصار میں آپسی اختلاف ہوگیا۔ قبیلہ عوص کا سردارسید ابن حزیر نے قبیلہ خضرج کے سردار سعد ابن عبادہ کی مخالفت کی اور مہاجرین میں جاکر ان کی حمایت کا اعلان کیا اور ان کی بیعت کرنے کا عہد کیا ۔

۴۱

اس وقت عمر ابن خطاب کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکر سے کہا : '' اپنا ہاتھ بڑھائو تاکہ میں تمہاری بیعت کروں۔'' حضرت عمر نے اور ان کے بعد کچھ مہاجر اور انصار نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی۔ بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ،'' حضرت عمر نے ڈرا دھمکا کر لوگوں سے ابوبکر کی بیعت لی۔نیز حضرت عائشہ کہتی ہیں : ''اللہ نے انکا خطاب فایدہ بخش بنادیا: عمر نے لوگوں کو خوفزدہ کیا۔ان میں منافقت تھی،تو اللہ نے اسکا سد باب کیا ''(59)

سعد ابن عبادہ (جو بہت بو ڑھا تھا) کی بیعت سے انکار کے متعلق صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب اسکو کچھ دنوں کے بعد مشکوک حالت میںمردہ پایا گیا اس وقت عمر ابن خطاب نے کہا،'' شاید اس کو اللہ نے ما را ہے(60 )

سقیفہ کے حالات پر سے پردہ اٹُھانے کے لئے اتنا کافی ہے جن کا اختتام انصار و مہاجرین کے درمیان محاذ آرائی کے بعدحضرت ابو بکر کی تعایناتی پر ہوتا ہے اس محاذآرائی پر جاہلیت کے اثرات کی چھاپ تھی جیسا کہ دونوں فریق کے طرزبیانات اور لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال کئے۔ خلیفہ عمر ابن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بذاتِ خود اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا ایک غلطی تھی مگر اللہ نے ان کے شر سے ہمیںمحفوظ رکھا(61) ہر کوئی جانتا ہے کہ امام علی اور ان کے حمایتی جو بنی ہاشم اور دوسرے جیسے سلمان،مقداد،ابوزر، خذیمہ بن ثابت،خالد بن سعید،ابی ابن کعب، زبیر،طلحہ ،ابو ایوب انصاری اور دوسرے اس حلف برداری میں شامل ٔنہیں تھے اور نہ ہی وہ اس دن سقیفہ میں داخل ہوئے کیونکہ وہ سب وصال نبی (ص) کے عظیم سانحہ اور اپنے محبوب (ص) کے کفن و دفن کے فرائض میں مصروف تھے۔ اہل سقیفہ نے حضرت ابو بکر کے ساتھ ہی معاملہ طے کیا جس کی وجہ سے علی اور ان کے حامیوں کو اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کریں اور بیعت کرنے سے انکار کریں جیسا کہ عمر ابن خطاب کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے: ''۔۔۔ ہم پوری طرح حالات سے باخبر تھے جب اللہ نے اپنے نبی (ص) کی روح قبض کی،مگر انصار نے ہم سے اختلاف کیا اور وہ اکٹھے سقیفہ بنی سعد میں جمع ہوگئے۔ اختلاف کرنے والوں میں علی ، زبیر اور ان کے حامی بھی تھے ''(62) ۔

۴۲

امام علی ابن ابی طالب نے ان کے خلاف احتجاج کرنے میں کوئی نتیجہ نہیں دیکھا سوائے افراتفری کے۔ انہوں نے اپنے حقوق کی پامالی کو ان اٹھنے والے فتنوں پر قربان کیا۔ کیونکہ اسلام کوچاروں طرف خطرات نے گھیر لیا تھا۔ اسلام کومدینہ کے مشرکوں اور ارد گرد کے بدوئوں کا خطرہ تھا جن کا حوصلہ وصال ِ رسول (ص) کے بعد بڑھ چکا تھا۔ اسکے علاوہ مسیلمہ کذاب،شر انگیر طلیحہ، سجاح کے علاوہ قیصر و کسریٰ اور دوسرے دشمن بھی تھے جو مسلمانوں کے خلاف تاک میں بیٹھے تھے۔ اور بھی بہت دشمن تھے جو بقاء اسلام کیلئے خطرہ تھے یہ تو فطری تقاضہ ہے کہ امام علی اپنے حقوق کو قربان کریں اور اس بحث میں نہ الجھیں کہ رسول اللہ (ص) نے انہیں پہلے ہی اس کیلئے نا مزد کیا ہے۔ انہوں نے اپنے حق خلافت اور اپنے طریقہ سے سوچنے والوں کے مقابلہ میں اپنے قوت ِدلائل کو محفوظ اور زندہ رکھا۔ انہوں نے یہ سب اسلئے کیا تاکہ اسلام کے دشمن اس اختلاف کے موقعہ سے فائدہ نہ اٹھانے پائیں۔وہ اس لئے گھر پر بیٹھے اور حلف برداری میں حصہ نہیں لیا اور جو باقی ان کے ساتھ تھے انہوں نے بھی وہی کیا۔یہ برابر چھ مہینے تک برقرار رہا(63) ۔

صحیح بخاری میں ایک اور بیان درج ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام علی کے پاس اپنا حق حا صل کرنے کیلئے فوجی طاقت ،اور اختلافات کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ضرور وہی کرتے۔حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ،'' حضرت فاطمہ صرف چھ مہینے پیغمبر (ص) کے بعد زندہ رہیں۔جب وہ وفات کر گئیں تو ان کے شوہر نے رات کی تاریکی میں انہیں دفن کیا۔ حضرت ابوبکر نے نہ ہی ان کے لئے اعلان کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بعد رسول (ص) وفات فاطمہ تک لوگوں میں علی کا احترام باقی تھا۔جب وہ رحلت کر گئیں ، تولوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا،تب انہوں نے حضرت ابو بکر کے ساتھ صلح کرنے اور انکی بیعت کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے وہ ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔انہوں نے حضرت ابوبکر کو پیغام بھیجا جس میں فرمایا،'' تم مجھ سے اس شرط پر ملنے آسکتے ہو کہ تمہارے ساتھ اور کوئی دوسرا نہ ہو، (دوسرے سے مراد شاید حضرت عمر رہے ہوں )حضرت عمر جو وہاں موجود تھے انہوں نے کہا،' نہیں ، اللہ کی قسم تمہیں ان کے گھر اکیلا نہ جانا چاہیئے ۔ حضرت ابوبکر نے کہا،' کیوں نہیں ؟ تم کیاسمجھتے ہو کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچائیں گے ؟ اللہ کی قسم ! میں ضرور ان سے ملنے جائوں گا ''(64) ۔

۴۳

امام شرف الدین موسوی نے امام علی کے اس رویہ(اقدام) کی تشریح اسطرح کی ہے،''اگر امام علی نے ا سوقت جلدی میں ان کی بیعت کی ہوتی،وہ اپنا قضیہ گھر نہیں لے جاتے اور نہ ان کے ساتھی ایسا کرتے لیکن انہوں نے اپنے طریقہ کارسے امت کو بھی بچایا اور اپنا حق خلافت بھی محفوظ رکھا اس وقت کے حالات تلوار سے دفاع کرنے اور اس مسئلہ میں ایک دوسرے سے بحث کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے(65) ۔ یہ حقیقت اس وقت سامنے آتی ہے جب ابو سفیان نے کئی دفعہ امام علی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ اپنا حق خلافت حاصل کرنے کے لئے اٹھیں ' تو میں ان سے مقابلہ کرنے کیلئے زمین پیدل فوج اور شہسواروں سے بھر دوں گا اور ان کے فرار کے تمام راستے اسی وقت مسدود کردونگا''(66) ۔ لیکن امام علی نے اس کی پیش کش کو ہر بار ٹھکرادیا کیونکہ آپ اس کے ارادہ سے بخوبی واقف تھے ۔وہ چاہتا تھا کہ اختلافات کی آگ بھڑکے اور جنگ چھڑ جائے تاکہ اسلام کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔

حضرت فاطمہ کی ناراضگی

حضرت فاطمہ نے اس حالت میں دنیا سے رحلت فرمائی کہ آپ حضرت ابوبکر سے ناراض تھیں کیونکہ انہوںنے شہزادی کو اس میراث سے محروم کردیا تھا جو کہ آپ کے بابا جان ،پیغمبر خدا (ص)نے آپ کے لئے چھوڑی تھی۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے،''۔۔۔کہ حضرت فاطمہ بنت سول اللہ (ص) کو وہ میراث حاصل کرنا تھا جو انکے لئے فے ( امن کے معا ہدہ میں ملنے والا حصہ) میں رکھا گیا تھا جو اللہ نے اپنے رسول (ص) کوعنایت کیا تھا۔حضرت ابوبکر نے ان (فاطمہ) سے کہا ، ''اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم انبیا کوئی میراث نہیں چھوڑتے،جو بھی ہم پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے جس کی بنا پرفاطمہ بنت رسول اللہ (ص) ابوبکر سے ناراض ہوئیں۔ وہ وصالِ رسول (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں''۔ حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے،'' حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر سے اس میراثِ نبی (ص)کا دعویٰ پیش کیا جس کی وہ حقدار تھیں جو کہ علاقہ خیبر سے فدک نام کا ہے اور خیرات ِمدینہ کا حصہ مگر حضرت ابوبکر نے یہ کہکر انکار کیا کہ میں وہ کچھ نہیں چھوڑوں گا جو اللہ کے رسول (ص) کیا کرتے تھے''(67) ۔

۴۴

وہ حضرت ابوبکر سے اتنی ناراض تھیں کہ انہون نے حضرت علی سے وصیت کی کہ حضرت ابوبکر اس کے مرنے پر اسکے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ ہی وہ ان کے جنازے کے پیچھے چلے۔امام علی نے ان کے جسد مبارک کو رات کی تاریکی میں خاموشی سے دفنایا جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا،''۔۔ حضرت ابوبکر نے انکار کیا کہ فاطمہ کو کچھ دیا جائے۔حضرت فاطمہ اسی لئے اس سے حد سے زیادہ ناراض تھیں یہاں تک کہ اس نے ان سے علیحدگی اختیار کی اور اپنے وفات تک اس سے بات نہیں کی۔وہ وصال نبی (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں۔جب وہ وفات پاگئیں تو انکے شوہر نے انہیں رات میں دفن کیا۔ابوبکر نے ان کی وفات کا اعلان بھی نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے''(68) ۔ فدک کی زمین جس کا حضرت فاطمہ نے مطالبہ کیا،حجاز میں ایک گائوں ہے جسمیں کچھ یہودی آباد تھے۔جب اللہ کے رسول (ص) نے خیبر کی طرف کوچ کیا،اللہ نے ان یہودیوں کے دلوں میں خوف طاری کیا جس کہ وجہ سے انہوں نے اللہ کے رسول (ص) سے فدک کے بدلے میںایک معاہدہ کیا۔ اس لئے فدک رسول (ص) کی ملکیت بن گئی کیونکہ اس کو فتح کرنے کیلئے نہ تو کوئی فوج استعمال ہوئی اور نہ ہی کوئی ساز و سامان۔پھر آنحضرت (ص) نے وہ او ر اپنے خمس و عطیات کا حصہ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے نام ہبہ کیا یہ سب کچھ نبی خدا (ص) کی ذاتی جائداد تھی جس پر ان کے علاوہ کسی کا کوئی حق نہیں بنتا۔ بخاری کے خیال میں حضرت فاطمہ اس چیز کا دعویٰ کر رہی تھیں جس کی وہ حقدار نہیں تھیں۔ اس نظریہ کے مطابق حضرت فاطمہ صرف دو ہی افعال کی مرتکب ہو رہی تھیں جب کہ تیسرے کا امکان نہیں ہے:

(1) وہ لا علم تھیں اور ان کو وراثت ِ رسول (ص) کا قانون معلوم نہیں تھا جبکہ حضرت ابوبکرکو معلوم تھا۔

(2) وہ جھوٹی تھیں(نعوذ باللہ) اورجس کا وہ لالچ کر رہی تھیں وہ اس کی حقدار نہیں تھیں۔

(عیاذاًباللہ ) حضرت فاطمہ زہرا سے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔فاطمہ وہ با عظمت بی بی ہیں جن کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے،مومن عورتوں اور اہل جنت کی سردار اور ایسی خاتون جس سے اللہ نے ہر گناہ و رجس کو دور کیا ہے جیسا کہ پہلے ہی بیان ہوا ہے۔

۴۵

صحیح بخاری میں درج بیان کے مطابق اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اے فاطمہ کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تم مومن عورتوں یااس قوم کی عورتوں کی سردار ہو''؟(69) ۔ فاطمہ میرا ایک حصہ ہے، جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا(70) ۔ فاطمہ خواتینِ جنت کی سردار ہیں(71) اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ فاطمہ دوسری عورتوں کی طرح تھیں اور ایسی خصوصیات کہ حامل نہیں تھیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے،توان کا دخترِ معلمِ انسانیت اور زوجہ امیرالمومنین ہونا ہی ان کی فضیلت کے لئے کافی ہے

کیا حضرت فاطمہ صلواة اللہ علیہ کی موت جاہلیت کی موت ہوئی؟

صحیح بخاری میں عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا :،'' جو کوئی اپنے امیر میں کوئی قابل اعتراض فعل دیکھے،اسکو صبر کرنا چاہئے اور جو اسکے حکم سے ایک بالشت کا انحراف کرے وہ زمانہ جاہلیت کی موت مرتا ہے''(73) ۔ اور صحیح مسلم میں بھی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،''جو بھی بیعت کی ذمہ داری کے بغیر ہی مرتا ہے،وہ بھی زمانہ جاہلیت کی موت مرتا ہے ''(74) ۔ مسند احمد میں رسول خدا (ص) سے منسوب روایت ہے کہ،'' جو کوئی بھی بغیر بیعت امام کے فوت ہوا ،وہ جاہلیت کی موت مرا''(75) ۔ یہ تین حدیثیںفیصلہ کن طریقہ سے ثابت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنے امیر یا امام کی بیعت کئے بغیر مرجائے،وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں جو کہا گیا ہے اس کامطلب امام ہے جس کی اطاعت شریعت الٰہی کے مطابق واجب ہے نہ کہ او ر کوئی۔ فاطمہ زہرا حضرت ابو بکر کی بیعت کئے بغیر ہی اس دنیا سے رحلت کر گئیں۔اور وہ ان سے ناراضگی کی حالت میںاس دنیا سے رخصت ہوئیں اس وصیت کے ساتھ کہ وہ ان کے جنازہ کے پیچھے بھی نہ نکلے اور نہ ہی نماز جنازہ میں شرکت کرے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نے فاظمہ کو باپ کی میراث سے محروم رکھا جس کی بنا پر وہ اس سے تا حیات ناراض رہیں اور مرنے تک بھی اس سے بات نہیں کی۔

۴۶

وہ رسول خدا (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں اور جب انتقال کیا تو ان کے شوہر نے رات کی تاریکی میں دفن کیا۔حضرت ابوبکر نے نہ ہی ان کے مرنے کا اعلان کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی(76) ۔

کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ فاطمہ زہرا نے اوپر ذکر شدہ احادیث کی روشنی میں حکم نبی (ص) کی تعمیل نہیں کی؟ جبکہ انہوں نے آنکھوں دیکھے حالات پر صبر کا ثبوت دیااور فعل ابوبکرپر متنفر ہوئیں۔انہوں اطاعت نہیں کی،ان کی خلافت پر اعتراض کیا،ان سے ناراض تھیںاور یہ وصیت کی کہ وہ نماز جنازہ میں شرکت نہ کرے اور نہ ہی جنازہ کے پیچھے نکلے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ حضرت فاطمہ ، ابوبکر کی حاکمیت سے ایک بالشت ہی نہیں بلکہ بہت دور رہیں !پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ فاطمہ جاہلیت کی موت مریں؟جبکہ تمام مسالک کی رائے کے مطابق وہ مومن عورتوں کی سرداراور زنانانِ جنت کی سردار ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : '' اے فاطمہ ! کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تم مومن عورتوں کی سردار اور امت کی عورتوں کی سردار ہو '' ؟(77) ۔اسکے علاوہ اللہ کے رسول (ص) اس وقت ناراض ہوتے تھے جب فاطمہ ناراض ہوتی تھیں۔اس کا بیشک یہ مطلب ہے کہ ا للہ اس وقت ناراض ہو جائے گا جب فاطمہ ناراض ہوگی جیسا کی اس حدیث کے متن سے ظاہر ہے جس میںاللہ کے رسول (ص)نے فرما یا ،'' فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جس نے اسے ناراض کیا ،اس نے مجھے ناراض کیا ''(78) ۔ اس سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ امام یا امیر جس کی اطاعت واجب ہے اور جو اسکی بیعت نہیں کریگا،جاہلیت کی موت مریگا،وہ حضرت ابو بکر یا قاتل و فاجرمعاویہ ( خلافت و ملوکیت مولانا مودودی،یزید نامہ خواجہ حسن نظامی،مولا اور معاویہ حاجی بابا خلیل چستی) ا ور نہ ہی ان جیسے لوگ ہو سکتے ہیں۔

خلافت عمرابن خطاب

جب حضرت ابوبکر بیمار ہوئے تو انہوں نے عثمان بن عفان کو اپنے پاس بلوایا اور کہا،'' لکھو: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ یہ ابوبکر بن قحافہ کی طرف سے مسلمانوں کو وصیت ہے۔'' ابھی اتنا ہی لکھوا پائے تھے کہ بیہوش ہوگئے ۔حضرت عثمان نے از خود باقی وصیت اس طرح لکھ کر مکمل کی : '' میں تمہارے لئے عمر ابن خطاب کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں اور میں نے اس بارے میں تمہاری بھلائی کا پورا خیال رکھا۔''

۴۷

اس دوران حضرت ابو بکر کو ہوش آگیا اور عثمان سے کہا،'' پڑھو دیکھوں تم نے کیا لکھا ہے عثمان نے جو لکھا تھا پڑھ کر سنایا ،جسے سن کر حضرت ابوبکر نے تکبیر کہی اور بولے کہ تم ڈرے کہ میں بے ہوشی کی حالت ہی میں دنیا سے نہ چلا جائوں اور لوگوں میں خلافت کے سلسلے میں اختلاف ہو عثمان نے کہا ہاں ۔ حضرت ابو بکر نے کہاجو تم نے لکھا ہے وہ صحیح ہے ،'' اللہ تم کواسلام اور اہل اسلام کی طرف سے خیر و برکت عطا کرے۔'' اور تحریر پر دستخط کردئیے(79) ۔

یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب ہاتھ میں وہ کاغذ لئے ہوئے تھے جس پر سقیفہ کے دن حضرت ابو بکر نے انہیں اپنا جانشین نامزد کیا تھا جس وقت انہوں نے لوگوں کو ڈرادھمکا کر ابو بکر کی بیعت لی تھی جیسا کہ پہلے ہی بیان ہوا ہے، انصار وں میں پھوٹ پڑنے کا فائدہ اٹھا کر ان کی غیر موجودگی میں جو ہاتھوں میں خلافت کی جائزدعوے داری کا حق لئے ہوئے تھے اور جو پیغمبر خدا (ص) کے تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو حضرت عمر نے ان کے لئے کیا تھا۔ اس کیلئے کچھ خرچ نہیں ہوا سوائے تھوڑی سیاہی کے۔ حضرت ابو بکر کی وصیت لکھنے کے دوران میں بہت ہی درد و تکلیف اور بوجہ بیہوشی کے باوجود کسی نے انکے تحریر لکھنے پر ''ہذیان '' کہنے کی تہمت نہیں لگائی۔اسکے برخلاف حضرت عمر اور ان کے ہمنوائیوں نے اللہ کے رسول (ص) کو ایسے دکھ بھرے لفظ ''ہذیان '' سے نوازا جب انہوں نے انہیں قلم و دوات لانے کو کہا تھا تاکہ وہ ان کو گمراہی سے بچنے کیلئے ایک وصیت لکھ دیں۔ حضرت ابو بکر نے دعو یٰ کیا کہ انہوں نے اپنے بعد حضرت عمر کو اسلئے نامزد کیا تاکہ ان کے بعد اختلاف پیدا نہ ہو۔ اسطرح کیا اہلسنت اسکا یہ عذر قبول کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے شوریٰ کے اصول کی خلاف ورزی کی تھی جو کہ ان کے مطابق مسلمانوں کیلئے خلیفہ چننے کا بنیادی اصول ہے۔ آپ بعد میں دیکھیں گے کہ انہوں نے معاویہ اور اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے یزید کی خلافت کیسے قبول کی جبکہ وہ جبر و زیادتی اور تلوار کی طاقت سے اقتدار پر قابض ہوئے،جس دوران بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا خاصکر ذریت ِ اہلبیت ِ طاہرین علیہم السلام۔ لیکن جو سوال ہم یہاں رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ،'' اہلسنت حضرات یہ نظریہ قبول کیوں نہیں کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے بلاشک اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو نامزد کیا ہے جبکہ وہ حضرت ابوبکر کے ذریعہ ایسا کرنے کو تسلیم کرچکے ہیں

۴۸

خاص کر اس تناظر میں کہ وصال رسول (ص) پر خلافت پر اختلافات اٹھنے کا زیادہ اندیشہ تھا بنسبتِ انتقال ابو بکر کے موقعہ پر،اس کے علاوہ وصال رسول (ص) کے بعد امت میں اختلافات ہونے کی صورت میں اہل بیت رسول (ص) سے وابستہ رہنے کی اہمیت کے معاملے میں صاف و شفاف روایات ؟ اور خلافتِ حضرت علی علیہ السلام ؟

خلافتِ عثمان بن عفان :

جب حضرت عمر جا ن لیواحملے میں زخمی ہوئے تو ان کو بتایا گیا کہ ان کا جانشین پہلے ہی نامزد کیا گیا ہے جس پر انہوں نے کہا ،'' کاش ابو عُبیدہ ابن جراح زندہ ہوتے ،میں ان کو اپنا جانشین مقرر کرتا اور کاش سالم،غلامِ ابو ہدبیہ زندہ ہوتا میں اس کو اپنا جانشین نامزد کرتا۔''پھر انہوںنے کہا،'' کچھ لوگ کہتے ہیں کی ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی ،جس کے شر سے اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا اور عمر کی بیعت میں مشاورت کی خامی تھی،اور اب میرے بعد مسئلہ کو شوریٰ کی ذریعے حل کیا جائے گا ''(80) ۔ انہوںنے کہا ،'' میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے لئے معاملہ کچھ بزرگ مہاجرین طے کریں گے جنکے نام انہوں نے اسطرح بتائے،'' میرے پاس علی ،عثمان ،طلحہ،زبیر، عبد الرحمان بن عوف اور سعد ابن وقاص کو بلائو۔ اگر ان میں سے چار افراد نے کسی ایک کو خلیفہ چننے پر اتفاق کیا توباقی دو کو بھی وہی قبول کرنا ہوگا اور اگر رائے تین۔تین میں بٹ گئی،تم کو عبد الرحمان بن عوف کی رائے ماننا پڑے گی،اسلئے اسکا فیصلہ مانو اور اسکی اطاعت کرو۔۔''(81) ( اور اس طرح بھی ملتا ہے اگر ان میں سے پانچ آدمی کسی ایک کو منتخب کرلیں لیکن کوئی ایک اس فیصلے کی مخالفت کرے تو اسے قتل کردینا۔ اور اگر چار نفرکسی ایک کو چن لیں اور دو اس کی مخالفت کریں، تو ان دونوں کو قتل کردینا ۔ اور اگر تین کسی کا انتخاب کرلیں تو اس صورت میں عبداللہ کو حاکم اور قاضی قرار دینا اور اگر عبداللہ کے فیصلے پر راضی نہ ہوں ۔تو تم اس کے ساتھ ہوجانا جن میں عبدالرحمن بن عوف ہو اور باقی کو قتل کردینا۔۔ مترجم) اوپر بیان سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حضرت عمر نے عبدالرحمان بن عوف کے ذریعے جانشین چننے کا بندو بست کیا ۔یہ شوریٰ کاتیسرا نمونہ ہے جس کی اہلسنت وکالت کرتے ہیں ۔۔ خلیفہ عمر نے عبد الرحمان بن عوف کو جانشین(امیدوار) کی بیعت کرنے کیلئے شرط طے کرنے کا حکم صادر کیا ۔شرط یہ ہے کہ اسکو قرآن اور سنت ِ نبی (ص) کے علاوہ سنت ِ ابوبکر اور سنتِ عمر پر بھی عمل کرنا ہوگا۔حسب توقع یہ چھ افرا دو گروہ میں بٹ گئے،تین بندے اور دو امیدوار۔پہلے تین علی،طلحہ اور زبیر تھے اور ان کے امیدوا رحضرت علی تھے۔

۴۹

دوسرا گروہ ،عثمان،عبدالرحمٰن ابن عوف اورسعد ابن وقاص تھے جن کے امیدوار عثمان تھے۔ امام علی نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی سنت پر عمل کرنے کے شرط کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ،'' میں اللہ کی کتاب، سنت ِ رسول (ص) اور اپنے اجتہاد پر عمل کروں گا ''(82) ۔ جبکہ حضرت عثمان نے یہ شرط قبول کی اور اس کے ساتھ ہی خلیفہ بن گئے۔ صحیح بخاری میں اس قصہ کا ایک حصہ اسطرح موجود ہے: حصیر ابن مخارمہ سے روایت ہے کہ ،''نصف شب کے قریب کی بات ہے ۔دق الباب ہونے پر میں نے دروازہ کھولا تو سامنے عبدالرحمان بن عوف کو پایا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا وہ بولا،''شاید تم سوئے ہوئے تھے۔اللہ کی قسم میں آج بہت کم سو پایا ہوں ۔تم زبیر و سعدکو میرے گھر بلا لاؤ۔میں ان کو لیکر گیا اس نے انکے ساتھ مشورہ کیا۔پھر وہ میرے پاس آیا اور کہا،'' علی کو میرے پاس بلائو۔ میں نے ان کو بھی بلایا اور انہوں نے تادیر گفت و شنید کی۔ پھر حضرت علی ان سے با امید نکل کر چلے گئے۔اس نے مجھے پھر حضرت عثمان کو بلانے کیلئے بھیجا۔انہوں نے بھی مخفی طور پر صبح کی اذان تک گفتگو کی۔ صبح کی نماز کے بعد یہ سب لوگ منبر رسول (ص) کے نزدیک جمع ہوئے، تواس نے حاضرانصار و مہاجرین کو اپنے پاس بلایا اور سردارانِ لشکر کو بھی جمع ہونے کیلئے قاصد بھیجے، اور یہ سب حضرت عمر کے وفادار تھے۔ جب سب لوگ جمع ہوئے تو عبد الرحمان بن عوف نے کلمہ شہادتین کی تلاوت کرنے کے بعد کہا ،'' اے علی ! میں نے لوگوں کے حالات کا جائزہ لیا اور عثمان کے مقابلہ میں انکا کوئی مثالی شخص نہیں ملا،اسلئے اپنی جان خطرے میں مت ڈالو '' اور حضرت عثمان سے کہا،'' میں قرآن،سنتِ نبی (ص) ،سنتِ ابوبکر اور سنتِ عمر کے مطابق تمہاری بیعت کرتا ہوں۔اسطرح عبد الرحمان نے حضرت عثمان کی بیعت کی اور لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ''(83) ۔ اب یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر نے بیعت کرنے کیلئے قرآن اورسنت ِ نبی (ص) کے علاوہ سنت ِ ابو بکر اور سنت عمر ِ پر عمل پیرا ہونے کی شرط عائد کی۔اسطرح انہوں نے پہلے ہی خلا فت ِ حضرت عثمان کا تہیہ کیا تھا کیونکہ وہ اس مسئلہ میں امام علی کے رویہ سے با خبر تھے اور اس واقفیت کہ طلحہ وزبیر امام علی کی حمایت کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے حالات سقیفہ میں کیا ہے۔اوپر بیان کئے گئے واقعات کے علاوہ یہ حقیقت کہ حضرت عمر نے پہلے ہی عبد الرحمان بن عوف کو حق اختیار میں ترجیح دی تھی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے شوریٰ کا دعویٰ کرتے ہیں

۵۰

:حضرت عثمان کا قتل

حضرت عثمان کے قتل کے متعلق کافی کچھ کہا گیا ہے۔اس معاملے میںبہت سے بیانات ایک دوسرے سے متضاد ہیںخاصکر ان گروہوں کے متعلق جو دوسروں کو ان کے قتل کرنے کیلئے اکساتے تھے،وہ وجوہات جن سے وہ ایسا کرنے کیلئے آمادہ ہوئے اور ایسے واقعات جو حضرت عثمان کے قتل پر اپنے عروج کوپہنچے۔سب سے معقول توجیہات سرکار کے طرزِ حکومت کے احاطے میں ہیں،صوبہ داروں کی تائناتی جو حضرت عثمان کے رشتہ دار تھے اور وہ مال جو انکو سرکاری خزانہ سے دیا جاتا تھا۔یہ سب کچھ مخالفوں اور باغیوں کو حضرت عثمان کے خلاف اٹھنے کا باعث بنا۔ مشہور نقاد خالد محمد خالد لکھتا ہے ،'' اس میں شک نہیں کہ حضرت عثمان جانتے تھے کہ لوگوں کی اکثریت جنہوں نے انکو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلہ میں خلیفہ بننے پر خوش آمدید کہا تھا،وہ جس آزادی کے خواہاں تھے انہیں میسر نہ ہوتی اگرحکومت کی باگ ڈور علی کے ہاتھ میں آجاتی(84) ۔ بنی امیہ میں حضرت عثمان کے رشتہ داروں کے ذریعے سرکاری خزانہ کی تباہی مچ گئی یہانںتک کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ بنی امیہ نے ا سی وقت سے حکومت کرنا شروع کی جب انہوں نے حضرت عثمان کو خلیفہ چنا اور ان کی بیعت کی۔یہاں ابوسفیان اس کی تائید کرتا ہے اس نے حضرت عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کہا ،'' اسکو ایک گیند کی طرح پکڑو،اس کیلئے جس کی قسم ابوسفیان کھاکر کہتا ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم بھی اسکو حاصل کرو گے اور تمہاری اولاد کو وراثت میں ملے گی ''(85) ۔ اسی کے متعلق دوسرے بیان میں آیا ہے کہ ابوسفیان نے کہا ،'' اسکو گیند کی طرح پکڑو،کیونکہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ ہی کوئی جہنم''۔۔۔(86) ۔جنہوں نے حضرت عثمان کی مخالفت کی ان میں کچھ بزرگ صحابہ کرام تھے جیسے ابوذر،عبداللہ ابن مسعود اورعمار بن یاسر۔ خلیفہ نے ان کے خلاف جوشیلا رویہ قائم کیا اور انہیں سخت سزا دی۔ جناب ابو ذر نے علاقہ ربذہ میں جلاوطنی کی حالت میں جان دی ،کیونکہ انہوں نے معاویہ کو شام کا گورنربنائے جانے پر مخالفت کی تھی ۔ ابوذر نے معاویہ کے ہاتھوں مسلمانوں کے بیت المال سے سونا اور دولت لوٹنے پر اعتراض کیا تھا۔زید ابن وہاب نے کہا ہے ،'' میں علاقہ ربذہ سے گذر رہا تھا کہ میں نے وہا ںابوزر کو دیکھا اور ان سے پوچھا،'' تم کو یہاں کون سی آفت لائی ہے،تو انہوں نے کہا ،'' میں شام میں تھا ار مجھے معاویہ سے اس آیت پر اختلاف تھا ،''۔

۵۱

۔ اور وہ لوگ بھی ہے جو سونا،چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے'' (توبہ۔3 4 )۔ معاویہ نے کہا کہ یہ اہل کتاب کے باے میں نازل ہوئی ہے جبکہ میں نے کہا کہ یہ ان کے اور ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے اور یہی میرے اور اس کے درمیان اختلاف کا باعث بنا۔اس نے حضرت عثمان کو میرے بارے میں اس کی شکایت لکھی۔حضرت عثمان نے مجھے مدینہ آنے کیلئے لکھا، میں وہاں گیا اور میں نے حضرت عثمان کو یہ قصہ سنایا جبکہ وہاں اور لوگ تھے جو مجھے دیکھنے کیلئے آئے تھے۔حضرت عثمان نے کہا ،'' اگرتم چاہو تو کہیں نزدیک ہی جا سکتے ہو جس سے آج میری یہ حالت ہے۔اگر انہوں نے ایک اتھوپیائی( Ethopian ) کو امیر بنایا ہوتا،میں نے ان کی بات سنی ہوتی اور بیعت بھی کی ہوتی''(87) ۔ جہاں تک عبداللہ ابن مسعود،کوفہ کے بیت المال کے ذمہ دار کا تعلق ہے،اس کی پسلیاں حضرت عثمان کے غلام نے اس وجہ سے توڑیں کہ اس نے خلیفہ عثمان کے سوتیلے بھائی ولید بن مُعیت کے رویہ پر اعتراض کیا جو سعد ابن وقاص کی معزولی پر والیٔ کوفہ بنایا گیا تھا۔اس خالد بن مُعیت نے بیت المال سے پیسہ لیا اور کبھی واپس نہیں کیا(88) ۔ جہاں تک عمار بن یاسر کا تعلق ہے ان کوحضرت عثمان کے غلام نے اتنا مارا کہ ان کو ہرنیا ( Hernia )ہوگیا کیونکہ انہوںنے خلیفہ کی اجازت کے بغیر ابن مسعود کی نماز جنازہ پڑھادی تھی۔ دراصل حضرت عمار نے ابن مسعود کی وصیت کی بناپر ایسا کیا تھا جونہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ ان کی نماز جنازہ پڑھائے(89) ۔

اور بھی بہت لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عثمان کے رشتہ داروں کے ہاتھوں بیت المال کے ناجائز استعمال پر اعتراض کیا۔مروان ابن حکم نے مثلاََ خراج ِ افریقہ کا پانچواں حصہ لیا۔اس کی تفصیل مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت اور سیرت حلبیہ ج 6میں دیکھئے۔ ایک گہرا اثر ام المومنین حضرت عائشہ کی ناراضگی اور اعتراض سے پیدا ہوا یہاں تک کہ انہوں نے لوگوں کو اکسایا کہ اس کو قتل کرو جیسا کہ انہوں نے کہا ،'' نعثل کو قتل کرو کیونکہ وہ کافر ہوگیا ہے''(90) ۔اور کہا کہ اس(عثمان ) نے سنت ِ نبی (ص)کو بدل ڈالا ہے۔اس سے ان کے خلاف ہنگامہ بڑھ گیا۔ مصر،شام،کو فہ اور مدینہ کے کچھ لوگ جمع ہوئے اور انہیں قتل کر ڈالا۔

۵۲

خلافت ِ امام علی :

حضرت عثمان کے قتل کے بعد لوگ جوق در جوق امام علی کے پاس بحیثیت خلیفہ بیعت کرنے کی غرض سے گئے۔انہوں نے آنجناب سے کہا ،'' حضرت عثمان مارے گئے ہیں اور لوگوں کیلئے امام ہونا چاہئے۔ان دنوں اس عہدہ کیلئے اور کوئی موزوں شخصیت موجود نہیں ہے۔'' بیعت لینے کی رسم مکمل ہوئی۔ امام علی لوگوں کیلئے عدل وانصاف لاگو کرنا چاہتے تھے اور کمزور اور زور آوروں کے درمیان برابرری قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ کتاب ِ اللہ کا قانون نافذکرنا چاہتے تھے۔کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔انہوں نے اختلافات کا سہارا لیا اور فوج جمع کی،کھلے عام امام علی کے خلاف بغاوت اور غداری کا اعلان کیا جس کی وجہ سے بہت سی لڑائیاں وجود میں آئیں خاصکر جنگ جمل اور جمگ صفین۔

جنگِ جمل : ام المومنین امام علی سے جنگ لڑنے کیلئے نکلتی ہیں

جب بذریعہ عبید بن ابی سلمہ ام المومنین حضرت عائشہ کو قتل حضرت عثمان اور حضرت علی کے خلیفہ ہونے کی خبر ملی کہ لوگوں نے علی کی بیعت کرلی ہے تو آپ کی زبان سے نکلا : کہ اگر مسئلہ ٔ خلا فت علی کے حق میں ہوا (یعنی وہ خلیفہ بن گئے)تو سزاوار ہے کہ آسمان زمین پر گر پڑے ۔

اوربولیں : اے عبید وائے ہو تم پر! ہوش میں تو ہو ، تم کہہ کیا رہے ہو!'' عبید اللہ نے کہا،'' اے ام المومنین !سچ یہی ہے جو میں نے بیان کیاہے۔ '' اس بیان سے سے وہ بہت ناراحت ہو ئیں ،جس پر عبید نے ان سے کہا ،''اے ام المومنین ! آپ کو اتنی فکر کیوں لاحق ہے ۔اگر لوگوں نے علی کی بیعت کرلی تو اس پر آپ کیوں رنجیدہ ہیں۔ آپ کیوں علی کی خلافت کو پسند نہیں کرتیں ۔ اللہ کی قسم :وہ مقام خلافت کے لئے سب سے بہتر اور اس عہدہ کے سب سے زیادہ سزاوار ہیں ، ؟ام المومنین نے چلا کر کہا :'' مجھے واپس لے چلو ! مجھے واپس لے چلو !'' وہ مکہ لوٹیں اور زبان پر یہ الفاظ تھے ،'' اللہ کی قسم عثمان بے قصور مارے گئے۔ اللہ کی قسم میں اس خون کا بدلہ لوں گی !'' عبید نے کہا ،'' اللہ کی قسم ان کے خون بہانے کی ذمہ دار پہلی تم خودہو ! کل تک تم کہا کرتی تھیں،'' نعثل کو قتل کر ڈالو ،وہ کافر ہو گیا ہے۔

۵۳

'' عائشہ نے کہا ،''کہ لوگوں نے عثمان سے توبہ بھی کرائی ۔اور پھر انہیں قتل کیا ۔اور یہ قول کہ قتل کرو نعثل کو صرف میرا ہی نہیں تھا بلکہ اوروں کا بھی تھا ،مگر اب میرا آخری بیان پہلے سے بہتر ہے۔وہ مکہ چلی گئی اور درِ مسجد سے چپک گئی جہاں بہت سے لوگ اسکے گرد جمع ہوئے جن سے اس نے خطاب کر تے کہا ،'' اے لوگو ! عثمان نا حق مارا گیا ہے۔اللہ کی قسم ! میں اس کے خون کا انتقام ضرور لوں گی''(91) ۔ ام المومنین عائشہ کا غصہ طلحہ اور زبیر کی ناراضگی سے امام علی کے ہاتھوں ان کی یمن اور مصر کی گورنری سے برطرفی کے بعد ہم آہنگ ہوا؛جسکی وجہ سے ان دونوں نے امام علی کی بیعت سے کنارہ کشی کی اور مکہ چل کر ام المومنین سے امام علی کے خلاف لڑنے کیلئے عہد کہا۔ وہ ام المومنین کی سربراہی میں ایک بہت بڑا لشکر لیکر بصرہ کی طرف نکل پڑے جہاں جنگ ِ جمل نامی تباہ و بربادی کی جنگ پیش آئی ، طلحہ و زبیر سمیت تیرہ ہزار مسلمان مارے گئے اور جیت امام علی کے فوج کی ہوئی۔یہ سب ام ا لمومنین کے اعلانِ انتقام ِ خونِ حضرت عثمان کے شکار ہوئے۔ان کا دعویٰ تھا کی قاتل امام علی کی لشکر میں گھس گئے ہیں۔ صورت حال کچھ بھی رہی ہو ؛کیا ان کیلئے جائز نہیں تھا کہ ایسا معاملہ ولیٔ امر کے فیصلہ پر چھوڑدیتیں خاصکر کہ جب اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ِ'' ۔ ۔تم گھر میں ہی ٹھہرو '' احزاب 33 )؟ اور انکا ایسے واقعہ کے ساتھ کیونکرکوئی تعلق ہونا چاہئے جبکہ حضرت عثمان بنی امیہ میں سے تھے اور وہ بنی تیمہ سے تھیں ان کے باہر نکلنے کا کوئی اور ہی مقصد ہے؟حالانکہ اس واقعہ کی حقیقت اس سوال کا آسانی سے جواب مہیہ کرتی ہے،اس کے علاوہ ان اختلافات اور ان کے پیچھے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے پیشین گوئی نبی خدا(ص) نے پہلے ہی کی تھی۔مثلاََ عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے،'' پیغمبر (ص) خطبہ دینے کیلئے کھڑ ے ہوئے ،انہوں نے حضرت عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ،''اختلاف یہاں سے شروع ہوگا،اپنے بیان کو تین بار دہرایا۔ وہ جناب فرماتے گئے،'' یہاں سے ہی شیطان کے سینگ نکلیں گے''(92) ۔ عمار یاسر نے ایسے حالات میں حضرت عائشہ کی پیروی اللہ علی العظیم کی پیروی کے بالمقابل قرار دی۔ ابن زید الاسدی نے کہا ہے ،''۔۔۔۔ تو میں نے عمار کو یہ کہتے سنا،''عایشہ بصرہ کی طرف کوچ کر گئیں۔اللہ کی قسم وہ اس دنیا اور آخرت میں تمہارے رسول کی زوجہ ہے مگر خدائے حمید و مجید نے تمہارا امتحان لیا ہے کہ آیا تم اس کی(اللہ) اطاعت کرتے ہو یا حضرت عائشہ کی''(93) ۔

۵۴

اس واقعہ سے بہت پہلے حضرت عائشہ حضرت علی سے کینہ برتنے کیلئے مشہور تھیں۔وہ ان کا نام تک زبان پر لانا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ عبد اللہ ابن عتبہ سے روایت ہے کہ حضرت عایشہ نے فرمایا ،''جب اللہ کے رسول (ص)کو تھکاوٹ کا غلبہ ہوا اور درد میں اضافہ ہوا،انہوںنے اپنی ازواج سے اجازت چاہی اور میرے گھر میں آرام کرنے کی خواہش کی تو انہوں نے اجازت دی۔پیغمبر خدا (ص) دو آدمیوں کے سہارے اس عالم میں وہاں سے تشریف لائے کہ آپ کے پاؤں زمین پر خط دیتے جارہے تھے ۔ وہ عباس اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔عبید اللہ کا بیان ہے،'' میں نے یہ بات عبداللہ ابن عباس سے کہی جس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا ،'' کیا تمہیں خبر ہے کہ وہ دوسرا آدمی کون تھا ؟ میں نے کہا،نہیں ۔کہا،وہ علی تھے ''(94) ۔یہ شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہ نے اپنے او پر الزام لگنے پرحضرت علی کو پیغمبر خدا سے کچھ کہتے سنا تھا۔ یہ اس کینہ اور نفرت کی وجہ تھی۔ عبید اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ،''۔۔۔۔جہاں تک علی ابن ابی طالب کا تعلق ہے،انہوں نے کہا،' اے پیغمبر خدا،اللہ نے آپ (ص) پر کوئی دبائو نہیں ڈالا ہے، بیشک اس کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں ہیں ''(95) ۔ شاعروں کے بادشاہ ،'' احمد شعوقی نے حضرت علی کے بارے میں حضرت عائشہ کا کینہ اپنے شعروں میں بیان کیا ہے جسمیں وہ امام علی سے اسطرح مخاطب ہیں ،'' اے پہاڑ! جو بار تم اٹھا ئے ہوئے ہو ،دوسرے پہاڑوں نے قبول نہیں کیا ہے۔ اونٹ کی مالکہ نے آپ پر کتنا بار ڈالا ہے ؟ کیا یہ حضرت عثمان کا اثر تھا جس سے وہ دکھی تھیں ؟ یا،کیا یہ وہ غم تھا جو کبھی ظاہر نہیں ہوا ؟ یہ ایسی دشمنی تھی جس کی کسی نے کبھی بھی امید نہیں کی تھی۔ عورتوں کی چالیں پہاڑوں کو گرا دیتی ہیں اور ام المومنین بھی عورت ہی تھیں۔ پاک اور پاکیزہ عورت کو کس چیز نے اپنے آشیانہ اور سنت سے باہر نکالا وہ وہی کینہ تھا جو ہمیشہ رہتا ہے۔''

۵۵

افسانہ عبد اللہ ابن سباء :

اس افسانہ کا خلاصہ اسطرح ہے؛'' ایک یہودی آدمی بنام ِ عبد اللہ بن سبا جو ملک ِ یمن سے تھا اس نے حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں مسلمان ہونے ڈھونگ رچا ،تاکہ دھوکہ وفریب سے مسلمانوں کو ورغلا سکے ۔وہ خاص اسلامی شہروں جیسے مصر،شام،بصرہ اور کوفہ میں گھوم کر یہ خوش خبری پھیلاتا رہا کہ پیغمبر خدا (ص) دوبارہ زندہ ہونگے،علی ان کے وصی ہونگے اور حضرت عثمان نے ان کے وصی کا حق غصب کیا ۔

بزرگ صحابہ اور تابعین جیسے عمار یاسر،ابوذر غفاری۔حذیفہ بن یمانی اور محمد بن حنفیہ وغیرہ ان کے پیروبنے جس کی بنا پر وہ ایک بہت بڑا لشکر جمع کرکے عثمان کو ان ہی کے گھر میں قتل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسطرح اس خیالی افسانہ کے قصے چلتے رہے یہاں تک کہ جنگِ جمل میں عبداللہ بن سباء اپنے پیروکاروں کو حضرت علی اور حضرت عائشہ کی فوجوں میں گھسنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جنگ چھڑ جائے اور اسطرح ' جنگِ جمل 'پیش آتی ہے''(96) ۔ سید مرتضیٰ عسکری جنہوں نے اس منحوس خیالی افسانہ کو بے پردہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا کا کہنا ہے،'' اس خیالی عبداللہ ابن سباء کا موجد ایک شاطر بنامِ' سیف ابن عمر تمیمی برجمی کوفی ہے جو 170ھ بمطابق 786 ئ میں فوت ہوا اور اسی سے تمام مورخین نے اس جعلی افسانہ کو پیش کیا ہے۔اس وضعئی قصہ نے اتنی شہرت حاصل کی کہ یہ تمام کتب ِ تواریخ میں صدیوں سے پھیلتا رہا اور آج تک موجود ہے یہاں تک کہ اس نے ایک حقیقت کا روپ اختیار کر رکھا ہے اور کوئی بھی شک نہیں کر پاتا ہے۔مشرق کے اکثر قلم کار اور تاریخ دان اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ یہ افسانہ ایک منفرد راوی'سیف ابن عمر' کی ذہنی پیداوارہے جس نے خود اپنے طور اپنے ذہن میں جنم دیکر اسکو پیش کیا اور یہ راوی سیف ابن عمر قدیم محدثوں کے مطابق جعلساز ہے اور اس پر کافر ہونے کا بھی الزام ہے(97) ۔ابن دائود اس کے متعلق کہتا ہے ،'' وہ کچھ بھی نہیں ہے صرف ایک جھو ٹا ہے''۔ ابن عبد البر کہتا ہے،'' سیف مردود ہے۔ہم نے اس کی حدیث صرف اسلئے بیان کی ہے تاکہ آپ کو اسکے متعلق باخبر کریں ''۔ امام نسائی اسکے متعلق کہتے ہیں،'' اسکی احادیث ضعیف ہیں،وہ قابل اعتماد نہیں ہے اور کسی کو اس پر بھروسہ نہیں ہے''۔

۵۶

اس کے باوجود اس جھوٹے راوی کی روایات کے حوالے ' طبری،ابن عساکر ،ابو بکر وغیرہ نے دئیے ہیں اور طبری کا حوالہ آج تک مورخوں نے دیا ہے۔اور آج بھی دیتے رہتے ہیں(98) ۔

تاریخ کا سب سے عظیم مسخراپن یہ ہے کہ شیعوں کو اس جعلی عبد اللہ ابن سباء کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ وہی ہے جس نے امام علی کا وصی ہونے کا تصور پھیلایا اس کے باوجود کہ شیعہ مستنند احادیث کی روشنی میں ہمیشہ سے صرف اور صرف پیغمبر محمد (ص)کی پیروی کرتے ہیں اور کسی کی نہیں۔ مذکورہ باب ِ امامت کے صفحات میں دیکھئے کہ ابن سباء کا ذکر کہاں ہے اور وہ کس فہرست میں ہے ؟کیا ابن سباء وہی ہے جس نے کہا :(1) میں تمہارے درمیان قرآن اور اپنی عترت، اپنے اہلبیت چھوڑے جا رہا ہوں ،ان سے تمسک رکھوگے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے''؟(2) یا وہ ہے جس نے فرمایا ،'' جسکا میں مولا ہوں ،آج سے یہ علی اسکے مولا ہیں'' ؟ یا وہ ہے جس نے فرمایا ،''(3) علی سے مہدی تک میرے بعد امام بارہ ہیں ( 4 ) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے(5) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد تمام صاحبان ایمان کا ولی اور حاکم ہے (6) جو شخص میری طرح جینا اور مرنا چاہتا ہے،اسکو میرے بعد علی کو اپنا حاکم بنانا چاہئے(7) میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے(8) علی کی محبت ایمان ہے اور علی سے بغض نفاق ہے (9) علی باب حطہ ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ مومن ہے اور جو نکل گیا وہ کافر ہے (10) علی مومنوں کے سردار،پرہیزگاروں کے پیشوا اور قیامت کے دن سرخ رو لوگوں کے سردار ہیں(11) علی کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسے سر کو بدن سے ہوتی ہے(12) میری امت میں علی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے قاضی ہیں (13) جس نے علی کو خیر البشر نہیں کہا اس نے کفر کیا (1 4 ) میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح کی ہے،جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جس نے ان سے روگردانی کی وہ ہلا ک ہوگیا۔۔۔۔

1فسوس! کیسی منحوس کہانی ہے کہ ایک یہودی یمن سے آکر منافقانہ طریقہ سے اسلام قبول کرلیتا ہے اور پھر ایسی بیہودہ حیرت انگیز حرکتیں انجام دیتا ہے جس سے مسلم فوجیں آپس میں خون ریزی کرتی ہیں اور کسی کو اسکی اصیلت پر شک بھی نہیں ہوتا ہے ؟۔کیا یہ قابل یقین ہے کہ امام علی جس کے متعلق پیمبر خدا (ص) نے فرمایا،'میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے' اس یہودی کی چال میں پھنس گئے ؟ حقیقتاََ جو ایسا کہتا ہے بہت گمراہ ہوچکا ہے،اور راہِ نجات سے کوسوں دور ۔

۵۷

معاویہ کی بغاوت اور جنگِ صفین:

جنگِ جمل کے بعد امام علی نے شام میںمعاویہ ابن ابوسفیان کی بغاوت کو کچلنے کیلئے اپنی فوج پر توجہ دینا شروع کی۔ دریائے فرات پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ اما م علی نے حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے امن کا سہارا لیا مگر امام علی کے بھیجے ہوئے وفد کو معاویہ نے یہ جواب دیا ،'' میرے پاس سے چلے جائو، تمہارے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے ،سوائے تلوار کے''(99) اسطرح دونوں طرف کی فوج جنگ میں الجھ گئیں۔ جب فتح امام علی کے حق میں نمودار ہونے لگی،تو معاویہ نے قرآن استعمال کرنے کی مکاری کی۔ معاویہ نے اپنے فوجیوں کو قرآن نیزوں اور تلواروںپر بلند کرنیکا حکم دیا۔ حالانکہ امام علی نے اس فتح کو تخریب کاری سے ورغلانے کی معاویہ کی کوشش کو دبانے کی ٹھان لی مگر فوج میں داخل جو عناصرجنگ ختم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ،انہوںنے امام کے لگاتار پیغام پر کان نہیں دھرا اور امام کو تحکیم ماننے پر مجبور ہوناپڑا۔امام علی نے ابو موسیٰ عشری کی کم عقلی اورناتواں خیالات کی بنا پر اس کی فوجی نمایندہ کی حثیت سے بطور ثالث ہونے پر بھی بہت احتجاج کیا۔امام علی نے فرمایا ہے،''میری نظر میں تم ابو موسیٰ کو ایسا اہم کام سونپ رہے ہو جس کا وہ اہل نہیں، کیونکہ وہ عمر وعاص کی فریب کاری کا مقابلہ کرنے میں بہت کمزور(100) امام علی نے ابو موسیٰ عشری کو پہلے ہی کوفہ کی گورنری سے برطرف کیا تھا۔ قرآن کو نیزوں پر چڑھانے کا منصوبہ پہلے سے ہی رچا گیا تھا تاکہ امام کی فوج میں گھسی ہوئی معاویہ کی تحریک کو استحکام مل جائے جس سے تحکیم قبول کرنے اور ابو موسیٰ کی بحیثیتِ ثالث کی سازش نے زور پکڑلیا۔تحکیم کا فیصلہ جیسا کہ امام علی کا اندیشہ تھا معاویہ کے حق میں ہوگیا۔ اس بغاوت اور خلیفہ مسلمین کی اطاعت نہ کرنے سے معاویہ کیلئے حالات سازگار ہونے لگے اور اس کی دنیا داری کی امیدیں قوی ہوگئیں جن کا وہ ہمیشہ سے خواب دیکھتا تھا۔

۵۸

ما ضی میں اس واقعہ پر میں حیران رہتا تھا جسمیں طرفین سے نوے ہزار(90000) مسلمان مارے گئے(صحابہ و تابعین)۔جب بھی میں نے اپنے اہلسنت دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو بہت ہی غیر معقول جواب ملا، کہ'' یہ دو بڑے صحابہ کے درمیان صرف ایک اختلاف ہے۔دونوں نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔جسکا اجتہاد صحیح نکلا ،اسکو دوہرا ثواب ملے گا اور جسکا اجتہاد غلط نکلا،اسکو اکہرا ثواب ملیگا۔کسی کو اس پر سوچنا نہیں چاہئے۔وہ ایک امت تھی ،جو گذر گئی؛ انکے اپنے اعمال ہیں جنکا انہیں صلہ ملیگا اور تم کو تمہارے اعمال کا صلہ ملیگا۔'' ان کے پاس ایسے ہی اور جوابات ہیں ایسے اختلافات پرسے پردہ نہیں اٹھنے دیتے ،'' جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ اسطرح کیا اہلسنت کے مطابق ایسا مسئلہ حل کئے بغیر ہی ایک پراسرار الجھن جیسا معلق رہتا ہے۔اس نے مغربی سکالروں کیلئے ہمارے مذہب کے متعلق رائے زنی کرنے کا دروازہ پوری طرح سے کھولدیاہے،یہاں تک کہ کچھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلام میںتضادہے جب وہ اس حدیث رسول (ص)کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں آنحضرت (ص) نے فرمایا ہے ،''اگر دو مسلمان ہاتھوں میں تلوار لئے ہوئے ایک دوسرے کا مقابلہ کریں،تو دونوں قاتل و مقتول جہنم میں جائیں گے''۔اس حدیث سے اہلسنت کے اس دعویٰ کی تردید ہوتی ہے کہ جنگ صفین میں دونوں جماعتیں مسلمان تھیں اور انکے رہنما صحابہ کبار تھے! تو غلط اور صحیح کیا ہے پر غور نہ کرنے پر اتنی تاکید کیوں کی جاتی ہے؟ سچ کوآشکار کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا یہ حقیقت مشکوک ہے؟ بہرحال جس کسی کو معاویہ کے متعلق سچائی کے بارے میں پریشانی یا الجھائو ہے اس کو نیچے دئیے گئے حقائق پر سنجیدگی سے غور و فکر کرکے اپنے لئے کوئی فیصلہ کرنا چاہئے :

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ امام علی نے فرمایا ،''میں اسکی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جس نے صبح کی ٹھنڈی ہوا چلائی کہ پیغمبر خدا (ص) نے مجھے ضمانت دی کہ اے علی سوائے مومن کے کوئی تم سے دوستی نہیں کرے گا اور سوائے منافق کے کوئی آپ سے نفرت نہیں کریگا''(101)

۵۹

تو تم اسکے متعلق کیا کہوگے جس نے امام علی کے خلاف لڑنے کیلئے فوج اکٹھا کی؟! اور اہلسنت کا فیصلہ اسکے متعلق کیا ہے جو امام ِ مسلمین کی اطاعت نہیں کریگا ،جسکی اطاعت واجب ہے ؟ صحیح بخاری میں معاویہ کے مظالم کے بارے میں حوالہ جات موجود ہیں۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ،'' ایک دفعہ ہم مسجد کی اینٹیں ایک ایک کرکے لیجارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو،دو اینٹیں لیجاتے تھے۔پیغمبر خدا(ص) ن کے نزدیک گئے،ان کے سر سے دھول ہٹائی اور فرمایا ،'' اللہ عمار پر رحم کرے! عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کریگا ؛عمار ان کو اللہ کی دعوت دیگا جبکہ وہ اسکو آگ کی دعوت دیں گے''(102) ۔پیغمبر خدا(ص) کی یہ پیشین گوئی اسوقت ثابت ہوئی جب عمار جنگِ صفین میں امام علی کے جھنڈے تلے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ مستدرک علی صحیحین میں خالد العربی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ،'' میں اور ابو سعید خدری،حذیفہ بن یمان سے ملے اور ان سے کہا،'' اے ابو عبد اللہ! ہم سے بیان کیجئے کہ آپ نے اختلاف کے بارے میں اللہ کے رسول (ص) کو کیا فرماتے سنا ہے۔ حذیفہ نے کہا ،' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: اللہ کی کتاب،قرآن سے وابستہ رہو،اسکے پیچھے چلو۔ ہم نے عرض کیا کہ اگر لوگوں میںاختلاف ہوا تو ہم کس کے ساتھ رہیں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا،' اس گروہ کو تلاش کرو جس میں 'سمیہ' کا بیٹا (عمار یاسر) ہو اور اسی کے ساتھ رہو کیونکہ وہ اسی طرف جاتا ہے جہاں اللہ کی کتاب جارہی ہے۔میں نے پیغمبر خدا (ص) کو عمار یاسر سے یہ کہتے سنا،'' اے یکذان کے بیٹے! تم اس وقت تک نہیں مرو گے جب تک کہ تاک میں بیٹھاایک ظالم گروہ آپ کو قتل نہیں کریگا''(103) ۔ معاویہ کی بغاوت اور اس کے مظالم سب متوقع ہی تھے۔ چونکہ وہ حضرت عمر کے زمانے میں والیٔ شام بنا،دولت،اقتدار اور محل خانے جو اس نے اپنے لئے بنائے تھے جاری رہے اور اس نے حضرت عثمان کے دور میں اپنی عمارت بہت وسیع کی اور اس جیسے انسان کیلئے یہ سب کچھ چھوڑنا آسان نہیں تھا۔اسکو اسکا مکمل یقین تھا کہ اگر امام علی نے اسکو اپنے عہدے سے برطرف نہیں بھی کیا تو وہ اسکو اس سب سے محروم کردیں گے جو اس نے مسلم بیت المال سے لیا ہے اور اس کو دوسرے مسلمانوں کے برابر ی پر لے آئیں گے۔

۶۰