میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا0%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر اسد وحید قاسم
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: صفحے: 158
مشاہدے: 49235
ڈاؤنلوڈ: 3523

تبصرے:

میں حسینی ہوگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49235 / ڈاؤنلوڈ: 3523
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دور ِعثمان میں بزرگ صحابی ،ابوذر غفاری اور معاویہ کے درمیان کیا پیش آیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی حشمتوں کے پیچھے،عیش پرستی اور قومی سرمایہ کے لوٹ کھسوٹ کے پیچھے پڑاتھا۔معاویہ کے رویہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان نے ابوذر کو مدینہ بلانے کے بعد 'ربذہ' نامی علاقہ میں جلاء وطن کیا۔زید ابن وہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا،''میں ربذہ سے گذرتے ہوئے ابوذر سے ملا، اورپوچھا تم کو کون سی چیز اس ویران علاقہ میں لے آئی ہے؟ تو انہوں نے کہا ،' ہم شام میں تھے۔ ''اور جو لوگ سونا،چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ہیں،پیغمبر آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیدیں (سورۂ توبہ 3 4 ) کے بارے میں معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں اتری ہے بلکہ اہل کتاب کیلئے۔میں نے کہا کہ یہ ہمارے متعلق بھی نازل ہوئی ہے اور ان کے متعلق بھی ''(104)

اسطرح ابوذر غفاری کو جلاوطنی کے سزا دی گئی حالانکہ رسولخدا (ص) نے اس کے سچا ہونے کی ضمانت دی ہے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،'' نہ ہی کسی شجر نے ابوذر جیسے سچے انسان کا سایہ کیا ہے اور نہ ہی کسی صحراء نے ایسا سچا آدمی دیکھا ہے''(105) ۔ اس معاملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاویہ نے کسطرح قرانی آیات کی غلط تاویل کرکے بیت المال کے اپنے لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کو اپنی عیاشی لئے اسطرح بیباک خرچ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا کہ معاویہ کسطرح ایک فقیہ ہوسکتا ہے ! ابو ما لیکا نے کا بیان ہے ،''معاویہ نے نماز مغرب کے بعد ایک رکعت نماز وتر پڑھی اور اس کے ساتھ ابن عباس کا ایک غلام تھا۔ابن عباس آئے اور اپنے غلام سے کہا؛اسکوچھوڑو کیونکہ وہ رسول خدا (ص) کا ایک صحابی ہے!(106) اس واقعہ کو دوسرے طریقہ سے اسطرح بیان کیا گیا ہے کہ،'' ابن عباس نے فرمایا ہے کہ معاویہ ایک 'فقیہ' تھا!(107) ۔جب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ معاویہ نے پچیس سال بحیثیت خلیفہ مسلمین کے گذارے جس سے پہلے وہ والیٔ شام تھا،قاری خودسمجھ سکتا ہے کہ اس نے جعلی احادیث لکھوانے،پھیلانے اور پیغمبر خدا (ص) سے منسوب کرکے اپنے کرتوت کا جواز پیدا کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کس حد تک کیا ہے۔

۶۱

ان تمام ذرائع کے باوجود جو اسنے اپنے کرتوت چھپانے کیلئے کیا،وہ احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں اسطرح صاف درج ہیں جن سے اس نام نہاد خلیفہ مسلمین کے متعلق حقائق کے معلومات کی کسی مغالطہ کی کوئی گنجائش نہیں رہجاتی ہے جسکو اہلسنت'امیر المومنین 'کا لقب بھی دیتے ہیں ''! حاکمیت اور اقتدار کے بارے میں معاویہ کے برتائو کی جڑیں سفیانی خاندان سے پیوست ہیں۔اس کے باپ ابوسفیان نے حضرت عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کہا ِ،' اسکو گیند کی طرح پکڑتے رہو، اس کیلئے جسکی قسم کھا کر ابوسفیان کہتا ہے،میں پُر امید ہوں کہ تم (بنو امیہ) کو بھی یہ ملے گی اور تمہاری نسل کوبھی وراثت میں ملیگی''(108) دوسرے ایسے ہی بیان میں اس نے فرمایا'' اس کو گیند کی طرح پکڑو،کیونکہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ کوئی جہنم'' اسطرح وہ فتحہ مکہ کے بعد جہاں سب مکہ والوں نے اسلام قبول کیا تھا اسلام قبول کرنے کے بہانہ کے اصلی راز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اور اس آگے والے بیان شدہ واقعہ سے دیکھو کہ انہوں نے کونسا اسلام کراہتاََ قبول کیا تھا:

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے،'' ابوسفیان نے کہا،' اللہ کی قسم میں یقین کے ساتھ اس خوف میں رہا کہ رسول (ص) خدا کا پیغام حاوی ہوکے رہے گا یہاں تک کی اللہ نے میری خواہش کے بر خلاف میرے دل میں اسلام داخل کر دیا(109) ۔زبانِ ابوسفیان کی اقرار سے خیال کرو کہ اگر اسکے دل کو بیان کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ کہتا کہ اس میں کیا ہے!

پیغمبر خدا (ص) نے معاویہ کے متعلق کیا فرمایا

صحیح مسلم میں یہ بیان درج ہے۔''پیغمبر خدا نے کچھ لکھنے کیلئے ایک دن عبداللہ ابن عباس کو معاویہ کو بلانے کیلئے بھیجا ۔ابن عباس نے اس کو کھانا کھاتے دیکھاتو واپس آگئے کچھ وقفہ کے بعدا بن عباس پھر گئے اسی طرح تین مرتبہ ابن عباس اس کو بلانے گئے مگر اسے کھانا کھانے میں مصروف پایا ،تیسری مرتبہ جب ابن عباس نے آکربتایا تو اللہ کے رسول نے کہا،' اللہ کبھی بھی اس (معاویہ) کا پیٹ سیر نہ کرے''(110) ۔

۶۲

صحیح مسلم میں ہی یہ بھی درج ہے:'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : ۔۔جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،وہ کنگال اور بے روح انسان ہے''(111) ۔ مسندا حمد بن حنبل میں معاویہ اور عمروعاص کے متعلق روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:''اے اللہ ! ان کو جلد اختلاف میں مبتلا کر اور انکو جہنم میں جگہ دے''۔

جگرخور کے بیٹے معاویہ کے ہاتھوں اپنی زندگی میں ہی اپنے شراب خور ،عیاش اوربدکار بیس سالہ بیٹے یزید کو اپنے بعد مسلمانوں کا امیر المومنین بنانے کیلئے راہ ہموار کرنا انکے متعلق حقائق کا پردہ اٹھانے کیلئے کافی ہے۔ معاویہ نے امام حسن کے ساتھ ہوئے صلح نامہ کو توڑکر احکام الہٰی اور فرمان رسول (ص) کی مخالفت کے ساتھ ساتھ سنتِ خلفائے راشدین اور اہلسنت کے تسلیم شدہ دوسری احادیث کی بھی دھجیاں اڑائیں''۔

شہادتِ امام علی

امام علی کے ہاتھوں لڑی گئی آخری جنگ ''جنگِ نہروان'' ہے۔یہ جنگ آنجناب نے ان لوگوں سے لڑی جنہوں نے آپ کو صفین میں تحکیم ماننے پر مجبور کیا مگر کچھ دنوں بعد مکر گئے،عہدنامہ کو بھی توڑا اور بیعت امام علی سے دغا بازی کی۔بعد میں وہ 'خوارج' یا 'مارقین' کے نام سے موسوم ہوگئے۔ان کو دبانے کے بعد امام علی نے کوششِ صلح کی ناکامی کے بعد شام کے باغیوں کی سرکشی روکنے کیلئے اقدام کرنے شروع کئے مگر امام ایک خارجی بنام ابن ملجم لعنتی کے ہاتھوں شہید کئے جاتے ہیں جب وہ نامراد امام کو دورانَ نماز صبح سجدے کی حالت میںزہریلے خنجر سے زخمی کرتا ہے۔یہ واقعہ مسند خلافت سنبھالنے کے پانچ سال بعد مسجدِ کوفہ میں 19 ماہِ رمضان 4 0ھ بمطابق 26 جنوری 661ء پیش آیا۔انا لا اللہ و انا الیہ راجعون۔امام اس زخم کاری کے بعد صرف تین دن زندہ رہے جن کے دوران انہوں نے اپنے بڑے فرزند اور پہلے نواسئہ رسول (ص)، امام حسن کو منصب امامت حوالہ کیاتاکہ وہ امت کی رہبری کے فرائض سنبھال سکیں۔ منصب خلافت امام حسن کو سپرد کرنے کا جواز امام علی کا بیٹے ہونے کی نسبت سے نہیں تھا بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل کی بناپر بارہ جانشینِ رسول (ص)کی فہرست کے مطابق وہ سلسلۂ امامت کی دوسری کڑی ہیں ۔

۶۳

صلح نامہ اور شہادتِ امام حسن :

امام علی کی شہادت کے بعد اہلِ کوفہ نے امام حسن کی بحیثیتِ جانشین رسول(ص) اور امامِ امت بیعت کی۔مگراس کی مدت چھ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی ۔جب شام یہ خبر پہنچی کی امام علی شہید کئے گئے تو معاویہ نے ایک بڑی فوج جمع کرکے کوفہ کی طرف کوچ کیا تاکہ اما م حسن ابن علی کو دستبر داری پر مجبور کرنے کے بعد خود مسلمانوں کا امیر بنے امام حسن کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کریں۔ جن وجوہات کے تحت آپ صلح کے لئے آمادہ ہوئے وہ یہ تھے:فوج میں پھوٹ، عراق کے اندرونی اور بیرونی خراب حالات اور ملکِ روم کی اہل اسلام پر حملہ کرنے کی سازش جو ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ حملہ آور ہونے کے تاک میں تھا۔ان حالات میں امام حسن اور معاویہ کے درمیان جنگ کی صورت میں جیت رومیوں کی ہوتی نہ کہ امام حسن یا معاویہ کی۔اسطرح امام حسن کے ذریعے صلح کرنے کی وجہ سے اسلام ایک بڑے خطرہ سے محفوظ ہوا۔صلح نامہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھے :

(1): امام حسن کو اقتدار و نظم ونسق معاویہ کے سپرد کرنا تھااس شرط کے ساتھ کہ مذکور الآخر(معاویہ) قرآن اور سنت رسول (ص) کا اتباع کرے۔

(2): معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت امام حسن کا خصوصی حق ہوگا۔اگر ان کو کچھ ہوگیا،تو یہ حق ان کے بھائی امام حسین کو ملیگا۔

(3): امام علی کی شان میں تمام گستاخیاں اور لعن و طعن پرپابندی لگنی چاہئے،چاہے وہ بر سرمنبرہو یا اور کہیں پر۔

( 4 ):کوفہ کے بیت المال میں جمع پچاس لاکھ درہم اما م حسن کی نگرانی میں رہیں گے۔اور معاویہ کو سالانہ ایک لاکھ درہم خراج (ٹیکس) امام حسن کے سپرد کرنا تھا جو کہ امام علی کی صف میں جنگِ صفین اور جمل کے مقتولین کے اہل و عیال کے لئے تھا۔

۶۴

(5): معاویہ کو ضمانت دینی تھی کہ وہ تمام لوگوں کوبلا لحاظ نسل اور ذات چھوڑنا ہے اور انکا تعقب نہ کرنا اور نہ ہی انہیں نقصان پہنچانا۔اور اسکو اس عہد نامہ صلح کے شرائط کی مکمل پاسداری و بجا آوری پر عمل کرنا تھا اور عوام کو اس کیلئے گواہ مقرر کرنا تھا۔

مگر امام حسن 50 ھ بمطابق 670 ء میں اپنی زوجہ جعدہ بنت اشعت ابن قیس کے ہاتھوں زہر دینے سے شہید ہوئے۔ اس عورت کا تعلق اس خاندان سے تھا جو ہمیشہ ذریتِ امام علی کا دشمن تھا۔ معاویہ نے اس کو ایسا سنگین جرم کرنے کیلئے ایک لاکھ درہم دئیے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے امام حسن کو زہر دیا تو وہ اس کی شادی اپنے بیٹے یزید سے کردیگا۔معاویہ امام حسن کی خبر ِ شہادت سن کر بہت ہی خو ش ہوا ، اس نے اس میں اپنے کرتوت کی بجا آوری میں سب سے بڑی رکاوٹ سے چھٹکارا پالیا تھا اور اسطرح اس نے سلطنت ِ بنی امیہ کی بنیاد ڈالی۔اس کے بعد معاویہ کو وہ سب کچھ حاصل ہو گیا جس کے وہ خواب دیکھ رہا تھااس نے اپنے عیاش و فحاش بیٹے یزید کو امت پر زبردستی حکمران معین کردیا۔تو اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق'' کہ خلیفہ اجماع سے منتخب ہوتا ہے''؟ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔

کیا وہ ان ثبوتوں کی مخالفت نہیں کرتے ہیں جن میں ِ اہل بیت کے اماموں کی خلافت کا حکم تھا ؟ کیا انکی نظر میںوہ خلافت جائز ہے جو مشورہ اور اجماع سے نہیں بنی ہے؟ آخر وہ کیسے معاویہ و یزید کی خلافت برحق سمجھتے ہیں؟ اور کیسے وہ ان کو امیر المومنین کے ا لقاب سے نوازتے ہیں !؟ اسلامی تاریخ کے تاریک صفحات الٹ کر ان دونوں امیرالمومنین یزید ابن معاویہ اورمعاویہ ابن ابوسفیان کے کا لے کرتوت ملاحظہ فرمائیںجن کا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں۔

۶۵

انقلابِ کربلا اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام:

امام حسن کی شہادت کے بعد 50ھ بمطابق 670 ء میں شیعیانِ عراق نے امام حسین کو یہ عرضداشت لکھنے شروع کئے کہ معاویہ کو خود ساختہ حاکمِ مسلمان کے عہدہ سے برطرف کریں۔لیکن امام حسین نے جواب دیا کہ معاویہ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے جسکو ہم توڑ نہیں سکتے ہیں۔ جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،اس نے اپنے بیس سالہ اقتدار میں اپنے عیاش و فحاش بیٹے ''یزید'' کی سلطنت کیلئے راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور صلح نامہ کے شرائط کی کوئی پرواہ نہیں کی جن پر عمل کرنا اس نے قبول کیا تھا( یعنی شرعاََ اس پر واجب تھا)اور اہلسنت کے اس عقیدہ کے ۔خلیفہ 'شوریٰ' کے ذریعے اس شرط پر منتخب کیا جانا چاہئے کہ وہ سب سے'' نیک ،دیندار ،خداترس اورمتقی ہو'' کو بھی پائوں تلے روند ڈالا۔اگر آپ ان سب پر غور و فکر کریں گے ،تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے گئے معاویہ کے جرائم کا اندازہ ہوگا۔ اسکی روش باقی خلفائے بنو امیہ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے جاری رکھی اور آج بھی بعض عیاش وفحاش اور رشوت خور مسلمان حکمراںاس کی روش پر عمل پیرا ہیں۔

معاویہ کی وفات کے بعد 60ھ بمطابق 680 ئ میں یزید خلیفہ وقت بن بیٹھا۔ اس کا محل خانہ رشوت اور گناہوں کا مرکز تھا۔اکثر مسلم گروہوں کے مطابق یزید شامیانہ (راتوں)محفلوں میں کھلے عام شراب پیتا تھا۔اسکی تصدیق شدہ عاشقانہ مزاج کی تصویر اس کے ان مخصوص اشعار سے عیاں ہوتی ہے:۔

'' اے حریفانِ شراب،اُٹھو اور گانوں کی صدا سنو، ساغر شراب پیو اور دوسری باتوں کا ذکر چھوڑدو۔مجھے ستارہ اور سارنگی کے نغمہ سے اذان کی آواز سننے کی فرصت نہیں اور حوروں کے بدلے میں نے شیشہ کی پری کو پسند کرلیا''

''اگر دینِ احمد میں شراب پینے کو حرام سمجھا گیا ہے،تو خیر دینِ مسیح پر ہو کر ہی پی لو '' ''خدا نے شراب خوروں کو عذاب سے ڈرانے کیلئے ''ویل لِلشاربین'' نہیں کہا بلکہ قرآن میں نماز گزاروں کیلئے ''ویل لِلمصلین'' کہا ہے ''

۶۶

اس سے ہم کو حیرانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ یزید کی پرورش ایک نصرانی دایہ نے کی ہے۔ تاریخ دانوں نے اسے آوارہ ،بے حیا،تنگ نظر ، خود پسند اور اوباش گردانا ہے جو ہمیشہ عیاشی اور عیش و عشرت میں بے خود رہتا تھا۔اسکے متعلق جمعہ کی نماز بدھ وار کو پڑھنے اور صبح کی نماز دو کے بدلے چار رکعت پڑھنے کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اکثر شراب میں مست ہوتا تھا۔ اسکے متعلق ایسے بھی واقعات درج ہوئے ہیں جنکا بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم نے یزید کی خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ ان حالات پر روشنی ڈالیں جنمیں امام حسین نے دیکھا کہ انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور سنت کو زندہ کرکے حفاظت کی جاسکے کیونکہ انہیں تحریف کا شکار ہوکے ناپید ہونے کا خطرہ لاحق تھا۔اس انقلاب کے پیچھے امام حسین کا اقتدار جمانے یا خلافت پر قابض ہونے کا کوئی مدعاء نہیں تھا کیونکہ انکو معلوم تھا کہ بنی امیہ اس پر قابض ہونے کیلئے پوری طرح سے تیار تھے خاص کر جب اہل عراق بنی امیہ کے خوف سے دستبردار ہوچکے تھے۔

کربلا کے نزدیک امام حسین اپنے ایک خطبہ میں اس انقلاب کے مقاصد اسطرح بیان کرتے ہیں ،

'' اے لوگو! جو کوئی کسی ظالم رہنما کو اس حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کے منع کئے گئے احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے،اللہ کے احکام جاننے کے بعد انکی خلاف ورزی کرتا ہے،اپنے نبی (ص) کی سنت کے برخلاف کرتا ہے، گناہوں اور ظلم کے ساتھ اللہ کی رعایا پر حکومت کرتا ہے تو اللہ اس انسان کو اسی حاکم کے ساتھ نارِ جہنم میں پھینکے گا ''۔دوسرے بیان میں انہوں نے اسطرح فرمایا ہے ،'' اے لوگو! انہوں نے (امویوں) نے شیطان کی پیروی کی ہے،سب سے اچھے رحم دل (محمد(ص))کی مخالفت کی،زمین میں رشوت قائم کی،سنتِ رسول (ص) کی بجا آوری کو معطل کیا،مسلمانوں کے حقوق اپنے لئے حلال کئے،اللہ کے ممنوع کو جائز قرار دیا،اللہ کے اجازت شدہ کو ممنوع کیا،اور میں(حسین ) سب سے زیادہ اسکا حقدار ہوں کہ انکی مخالفت کروں''۔

۶۷

جب امام حسین کو ان کے ساتھ ہوئے عہد نامے کی کوفہ میں غداری اور خلاف ورزی کے متعلق خبر ہوئی،انہوںنے اپنے اہل وعیال اور اصحاب کو جمع کیا جو پہلے ہی ان کے ساتھ تھے اور بلا جھجک ان سے فرمایا:'' لوگوں نے ہم سے بے وفائی کی ہے۔جو کوئی ہم سے الگ ہوناچاہتا ہے، وہ ہوسکتا ہے جن کو جانا تھا وہ چلے گئے ان کے ساتھ صرف وہی رہے جو مکہ و مدینہ سے ان کے ساتھ آئے تھے۔مگر امام حسین اسی جذبہ اور ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے جس سے وہ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے۔کسی شاعر نے انکے حالات کا خاکہ اسطرح کھنچا ہے:'' اگر دینِ محمد (ص) میرے قتل کے بناسیدھی راہ پر نہیں رہ سکتا ہے، میں حاضر ہوںاے خنجر!

وہ فوجِ یزید کے کمانڈر عمر ابن سعد سے ملے جو تیس ہزار یزیدی لشکرلیکر قتلِ امام حسین پر مامور کیا گیا تھا۔ یزید ابن معاویہ کی بھاری اور پیشہ ور فوج کیلئے امام حسین کی چھوٹی سی جماعت کو شہید کرنا بہت ہی آسان تھا۔اس دن اہلبیت کا سانحہ عملایا گیا،انکے ساتھ دن دھاڑے کیسی زیادتی ہوئی۔ یزید ابن معاویہ اس قتلِ عام سے وہ اجر پیش کر رہا تھا جو رسول خدا (ص) نے ان سے اسطرح قرآنی آواز میں مانگا تھا: ''میں تم سے اپنے اہلبیت کی محبت کے سوا کچھ اجرنہیں مانگتا ہوں(شوریٰ 4 2)۔ تاریخ ایسے دلخراش واقعات کی اصلیت پیش کرتی ہے جنکو بیان کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ان میں سے ایک امام حسین کے شیر خوار بیٹے کا جگر سوز قتل جس کو امام دشمنوں کے سامنے میدانِ جنگ میں اسلئے لائے تھا کہ اسکو پانی پلا سکیںکیونکہ ظالموںنے دریائے فرات پر پہرہ بٹھاکر پانی تک رسائی سے محروم کر رکھا تھا۔ شدت تشنگی سے بچے بلک رہے تھے۔امام نے شیر خوار بیٹے کو اس غرض سے ہاتھوں پر لیا تاکہ اس کے لئے کچھ پانی ملے اور ان کے ضمیر اور انسانی ہمدردی کو بیدار کیا جائے۔مگر انہوں نے ایک بھاری تیر سے حملہ کرکے اس شیرخوار کو بھی باپ کی باہوں میں شہید کرڈالا۔(انا للّٰہ و انا الیہ راجعون)۔امام حسین کے جانباز اور اہلبیت رسول (ص) کے رفیق ایک ایک کرکے میدانِ کارزار میں شہید ہوئے۔اس فیصلہ کن لڑائی کے آخری شہید امام حسین تھے ۔وہ سردارِ جوانانِ جنت کو شہید کرنے سے بھی اپنی پیاس بجھا نہ سکے،ان کے بدنِ مبارک سے سرِاطہر کو قلم کرکے دوسرے سرہائے شہدا کے ساتھ نیزوں پر سوار کرکے اصلی قاتل یزید ابن معاویہ کو شام کے محل خانہ پرتحفہ میں بھیجے۔

۶۸

( امام حسین کے بدن مبارک سے لباس بھی لوٹا، بے سر بدنوں پر گھوڑے دوڑائے،خیموں میں لوٹمارکرکے آگ لگائی،آل رسول (ص) کے یتیموں مع مخدرات اہلبیت رسول (ص) کو زندہ جلانے کی وحشتناک اور درندہ صفت کوشش کی،شہدائے بنی ہاشم اوردیگر اصحاب حسین کی بے سر نعشوں کو بے گور و کفن اس ویران میں درندوں کے رحم وکرم پر اسلامی اصولوں کے خلاف چھوڑا،اسیران کربلا جن میں شیر خوار بچے اور رسول (ص) کی نواسیاں تھیں کورسیوں میں باندھ کر شہر،شہر تشہیر کرکے دربارِ ابن زیاد اور یزیدِملعون میں کھڑا رکھکر کر طعنے دیئے گئے۔ مترجم)۔ اور کچھ مسلمان اسی یزید کو'' امیر المومنین ''کہنے کیلئے بہت زور دیتے ہیں۔۔ لاحول ولا قوة الا بااللہ علی العظیم۔۔! ان واقعات کو بیان کرنے سے جن میںاقدام ِ امام حسین کے عظیم مقاصد کی نشان دہی ہوتی ہے،ایک ایسا انقلاب ہے جسکو ایک بہت بڑے اسلامی دانشور ڈاکٹر امر عبد الرحمان نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے :'' امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان کے زندہ رہنے سے ہزار گنا عظیم ہے ''۔ لیکن کچھ لوگ بنی امیہ کے گمراہ کن پروپگنڈہ کا شکار ہوکے ان کی عظمت کو گٹھانا چاہتے ہیں۔ایسے پروپگنڈہ نے تاریخ کو مسخ کرنے کی سخت کوشش کی ہے۔ اور وہ مجرمانہ مسلکی تعصب کے شکار ہوئے۔ اسی لئے وہ ایسی شرمناک تحریفی حقائق قبول کرنے کیلئے مجبور کئے جاتے ہیں جیسا کہ نام نہاد شیخ الا اسلام ابن تیمیہ کے اس خیال سے: '' امام حسین نے اپنے اقدام سے امت اسلام میں انتشار پیدا کیا انہوں نے ایک مسلم حکمران کی نافرمانی کی''۔۔۔!!! اگر ہم اس نام نہاد '' شیخ الاسلام ''سے معاویہ کے متعلق پوچھیں ،جس نے اس وقت کے خلیفۂ مسلمین امام علی سے بغاوت کی،وہ اس میں کوئی امتشار نہیں پائے گا اور اسمیں اسکو معاویہ کا کوئی گناہ بھی نظر نہیںآئیگا۔ حضرت عائشہ کا بھی یہی حال ہے جنہوںنے امام علی کی بغاوت کی۔۔یہ کچھ نہیں ہے ،صر ف ہما ری تاریخِ اسلام کو کھلے عام جھٹلانے کی ایک کوشش ہے؛ورنہ ہم اس کی وضاحت کیسے کر پائیں گے کہ اکثر اہلسنت حضرات اس عظیم تاریخی سانحہ کو کیسے بھلا دیتے ہیں جس میں رسول خدا (ص) کی ذریت کو بڑی بے رحمی اور سفاکانہ طریقہ سے ماراگیا؟

۶۹

معاویہ کی ذریت اور اس کے بیٹے یزید نے بنی امیہ اور بنی عباسی کے نقش قدم پر پوری طرح عمل کیاانہوں نے اپنے خلاف ہر کوشش کو پوری طرح کچل ڈالا خاص کر اس وقت جب خانۂ نبوت کے کسی فرد نے ایسی کوشش کی اور انہیں قتل،غارت گری، جلاوطنی اور ظلم و بربریت کی سزا سے دبایا گیا۔ ایسا ظلم و تشدد اہلبیت رسول (ص) تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بنی امیہ کے مظالم کے شکار دوسرے بھی ہوئے جیسے عبداللہ ابن زبیروغیرہ۔

تاریخ نے مکہ مکرم میں ہونے والے اس وحشتناک واقعہ کو درج کیا ہے جس میں ابن زبیر کو بیدردی سے ذبحہ کیا گیا اور اسکی کھال اتاری گئی۔اس جگہ کی پاکدامنی دورِ جاہلیت میں بھی محفوظ تھی کیونکہ اس کے احاطہ میں جانور بھی مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی چہ جائیکہ انسان۔اور متبرک کعبہ بھی اسکو بنی امیہ کی درندگی سے بچا نہ سکا جب اس نے اس کے پردوںسے اپنے آپ کو چمٹایاتھا۔اسی کعبہ پرنوکیلے پتھروں کی بمباری کی گئی جب عبد الملک بن مروان نے اپنے بدنامِ زمانہ کمانڈر حجاج کو بیگناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی پوری آزادی دی۔ان دونوں کے متعلق حسن البصری کا کہنا ہے کہ،'' اگر عبد الملک نے حجاج کو ایسا کرنے کی صرف ایک بار اجازت دی ہوتی،وہی اس کی تباہی کیلئے کافی تھا۔''عمر ابن عبد العزیز کا کہنا ہے،'' اگر ہر قوم اپنا ایک ظالم پیش کرے اور ہم امویوں سے صرف حجاج کو پیش کردیںتو یہ سب پر سبقت لے جائے گا ''۔

تو کیا ایسے کرتوت بجا لانے والا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حقدار ہے،صرف اس بات پر کہ وہ خلیفہ یا امیر المومنین ہے''؟؟ ! ہمیں اپنی تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنا چاہئے(112) ۔ اس کے کچھ واقعات کا ادراک کرکے ان تمام مسالک کی جڑوں تک پہنچ کر ان کا خلاصہ پیش کرنا چاہئے جن سے آج کے مسلمان وابستہ ہیں۔ان میں وہ واقعات درج ہیں جو حقیقتاََ ہمیں اس فرقہ کی نشان دہی کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہونگے جو ظلم اور نا انصافی سے مبرّاہے۔ان ہی واقعات کے ذریعے مسلمان محمدمصطفیٰ (ص)کی دینی راہِ نجات سے بہک گئے،مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے اور ہر کوئی فرقہ نجات یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

۷۰

ہم میں سے کسی کو بھی ''الہٰی وحی '' کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ہمیں اس فرقہ کا نام بتائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں صحیح اور غلط کا ادراک کرنے کیلئے عقل و دانش سے نوازا ہے جو اس نے بطور دلیل اپنے بندوں کو عطا کی ہے تاکہ وہ آنکھ بند کرکے دوسروں کی نقل کرنے سے باز رہیں۔اور فرمایا ہے ،''۔۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا جاہل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں؟!(بقرہ 170)۔اللہ نے یہ بھی فرمایا،''۔۔جب کہ وہ انکے پاس حق لیکر آیا ہے اور انکی اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے (مومنون 71)اللہ نے کسی بر بھروسہ اور یقین کرنے سے پہلے ہم پر تحقیق اور غور وفکر کرنے کا حکم صادر کیا ہے اور فرمایا ،''اے ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لیکر تمہارے پاس آئے،تو اس کی تحقیق کرو،ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو تم تکلیف دو اور پھر اپنے کئے ہوئے پر نادم ہونا پڑیگا(حجرات 6)۔

کیا سب اصحابِ رسول (ص) عادل تھے

اصحاب کا مسئلہ اور انکی عدالت کا درجہ ایک ایسا معاملہ ہے جو سب سے زیادہ مقابلہ آرائی کا حامل اور حساس ہے۔ اہلسنت کاعقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل اور مساوی ہیں اور ان سے کسی طرح کی غلطی کے امکان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔احادیث رسول (ص) کے بارے میں ان کی رائے کے متعلق ان پر نقطہ چینی یا رائے زنی نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی شک۔ اسطرح اہلسنت وہ سب قبول کرلیتے ہیں جس کے راوی صحابہ ہیں۔اہلسنت کے مطابق جیسا کہ النواوی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ جس مسلمان نے اللہ کے رسول (ص)کو ایک لمحہ کیلئے دیکھا،وہ ''صحابی'' ہے ۔امام احمد بن حنبل ، امام بخاری اور دوسرے محدثوں کے مطابق یہی صحیح ہے(113) ۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق تمام صحابہ عدل و انصاف میں مساوی نہیں ہیں او رقرآن و سنت کی روشنی میں ان پر تنقید کی جاسکتی ہے۔جہاں تک اس جھوٹ کا تعلق ہے کی شیعہ تمام صحابہ کو گالی گلوچ کرنے کے علاوہ کافر کہتے ہیں،ایک انتہائی شرمناک بہتان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۷۱

صحابہ پر تنقید کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انکو کافر کہا جائے جیسا کہ کچھ بیوقوف پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ اگر ایسی تنقید صحیح دلائل کی بنیادپر مشتمل ہے تو کوئی ناراض کیوں ہوتا ہے اور خوامخواہ کی پریشانی مول لیتا ہے؟ صحابہ میں مومن بھی ہیں جنکی تعریف قرآن پاک اسطرح کررہا ہے:'' یقیناََ اللہ صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ(ص) کی بیعت کر رہے تھے،پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اسکے عوض قریبی فتح نصیب کی ''(فتحہ 18)

علامہ لطف اللہ صافی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ درخت کے نیچے بیعت رضوان میں شامل لوگوں میں ان خاص بندوں کا ذکر کررہا ہے جو باایمان تھے اور اللہ ان منافقین سے راضی نہیں ہوسکتا ہے جو وہاں موجود تھے جیسے عبداللہ بن ابی اور عوص بن خولی وغیرہ۔ اس آیت میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ سارے بیعت کرنے والوں کی مدح خوانی میں نازل ہوئی ہے اور یہ ان تمام با ایمان بیعت کرنے والوں کے اچھے افعال و اعمال کی ضمانت پیش نہیں کرتی ہے۔ یہ آیت اس مطلب کے سوا کچھ نہیں بتا رہی ہے کہ اللہ رسول (ص)کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر ان سے راضی ہے۔ یعنی اللہ نے ایسی بیعت قبول کی اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ ان بیعت کرنے والوں سے اللہ کے راضی ہونے سے انکے آخرت میں بھی راضی ہونا لازمی نہیں ہے۔اس کے ثبوت میں وہ ہے جو اللہ نے اسطرح فرمایا،''بیشک جو لوگ آپ (ص) کی بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہی ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر لیتا ہے اور جو عہد الہٰی کو پورا کرتا ہے خدا اسی کو عنقریب اجر عظیم عطا کریگا،( فتحہ10)۔ اگر ان بیعت کرنے والوں میں سے کچھ نے اپنی بیعت توڑی ہوتی یا بغاوت کی ہوتی اور اللہ کی مرضی ان کے ساتھ ہمیشہ رہتی ،تو اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی :''۔۔۔ اور جو کوئی اپنی بیعت سے پیچھے ہٹے گا،وہ اپنی آخرت برباد کرنے کیلئے ہی ایسا کرے گا ( فتحہ 10)۔

۷۲

صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جن کے متعلق اللہ کے رسول (ص) نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ آنجناب (ص) کی رحلت کے بعدالٹے پائوں اپنے پرانے دین پر پلٹ جائیں گے او ر روز قیامت نابودہوجائیں گے۔ اس کی تصدیق صحیح بخاری میں درج سہل ابن سعد کی سند سے روایت شدہ اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں سعد کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا ،'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا۔جو بھی وہاں میرے پاس پہنچے گا وہ آب کوثر پیئے گا اور کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کریگا۔وہ لوگ جو مجھے جانتے ہیں اور میں بھی ان کو جانتا ہوں ،جب وہاں میرے پاس آئیں گے تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہوجائے گا۔اللہ کا رسول (ص) فرمائیگا،'' کہ یہ میرے اصحاب ہیں!'' تو اللہ کا جواب آئیگا،'' آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیسی بدعتیں پھیلائیں''۔ اللہ کے رسول (ص) فرمائیں گے،'' ان کے لئے تباہی،جس نے میرے بعد بدعات پھیلائے، اسکے لئے تباہی''(114) ۔عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے کچھ صحابہ سے فرمایا:'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچو نگا۔ تم میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے۔جب میں ان کو آب کوثر دینے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھ تک پہنچ نہ پائیں گے۔میں کہوں گا،'' اللہ!یہ میرے اصحاب ہیں ! تو اللہ کی آواز آئے گی'' آپ کو پتہ نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیسی کیسی بدعتیں پھیلائیں''(115)

اوپربیان کی گئیں دونوں احادیث میں امت میں بدعات رائج کرنے کا اشارہ ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ کے رسول (ص) اپنے کچھ اصحاب کا موازنہ قومِ یہود و نصاریٰ سے کرتے ہیں جنہوں نے ِ اللہ کے کلام کی تحریف کرکے سیدھی راہ سے منھ موڑلیا۔ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' تم پچھلی امتوں کی بالشت ببالشت اور قدم بقدم پیروی کرو گے اور اگر وہ سوسمار کی بِل میں گھس جائیں گے،تم انکی پیروی کرتے کرتے وہاں بھی گھس جائو گے'' ہم(صحابہ) نے پوچھا ،'' یہودی اور نصرانی ؟! آنحضرت (ص) نے فرمایا،''پھر کون؟!(116)

۷۳

اور صحابہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے متعلق اللہ اپنی کتاب میں اسطرح مخاطب ہے،'' جب وہ کوئی دنیاوی کاروبار یا لالچ دیکھتے ہیں تو اے بنی(ص) تم کوچھوڑدیتے ہیں کھڑا۔۔( جمعہ 11)۔ یہ آیت ان صحابہ کے متعلق نازل ہوئی جنہوں نے رسولخدا (ص) کو جمعہ کے خطبہ کے دوران ہی چھوڑا جب انہوں نے شام سے ایک تجارتی قافلہ کو آتے دیکھا اور آنحضرت (ص) کے ہزاروں صحابہ میں سے صرف بارہ افراد وہاں ٹھہرے۔ اس واقعہ کو بہت سے طریقوں سے نقل اور بیان کیا گیا ہے اور اتنی ہی صحابہ کی تعداد 12نے جنگ احد میں اللہ کے رسول (ص) کا ساتھ دیا،باقی سب فراری ہوگئے جسکی وجہ سے پیغمبر خدا (ص) ان کے اس فعل سے بیزار ہوئے۔برا ء بن عازب سے روایت ہے،''میرا چچا انس ابن نضرجنگ احد میں غیر حاضر تھا اور اسی لئے اس نے کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)! میں پہلے دن غیر حاضر تھا جب آپ (ص) نے مشرکوں سے جنگ کی۔اگر اللہ نے چاہا کہ میں بھی مشرکوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہوجائوں،تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کروں گا۔ جب جنگ احد کا وقت نزدیک آیا اور مسلمان فرار ہوگئے،تو رسولخدا (ص) نے فرمایا ''اے اللہ ! ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،میں انکے اس فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،''(117) ۔ اس کے علاوہ جنگ حنین میں پیش آئے واقعات زیر نظر رکھئے جہاں صحابہ کی خراب حالت نے بہت ہی بدمزگی کی مثال قائم کی۔ قرآن مقدس نے انہیں ایسے نفرت انگیز افعال انجام دینے پر اسطرح سرزنش کیا :''بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا اور اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔پھر اسکے بعد خدا نے اپنے رسول (ص) اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیا کہ یہی کافرین کی جزا اور انکا انجام ہے '' ( توبہ 25۔26)۔ اور صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنکے بارے میں اللہ جلہ شانہ اعلان کررہا ہے ،''کسی نبی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قیدی بنا کر رکھے جبتک زمین میں جہاد کی سختیوں کا سامنا نہ کرے۔

۷۴

تم لوگ تو صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے اور وہی صاحب عزت و حکمت ہے۔اگر اللہ کی طرف سے پہلے فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو فدیہ لیا تھا اس پر عذاب عظیم نازل ہوجاتا'' ( انفال 67۔68)۔ یہ آیت صحابہ کے اس گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جن کا منشا اس کاروان پر قبضہ کرنے کا تھا اور جو ابو سفیان کا کاروان لیجا رہا تھا، اوراس کو جنگ پر ترجیح دی جب اللہ کا رسول (ص) ان سے جنگ بدر کے متعلق ان کی آمادگی اور تیاری کو جانچنے کے سلسلے میں ان سے بات چیت کر رہا تھا۔ صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت (ص) نے جاہلیت اورقبیلہ داری کے طور طریقے اپنانے پرڈانٹ پلائی تھی۔یہ اس واقعہ سے بھی صاف ظاہر ہے جو جابر بن عبداللہ سے بیان ہوا ہے کہ:'' ایک دفعہ ہم ایک مہم میں شامل تھے۔مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک فرد پر حملہ کردیا۔ اس پر انصاری فرد نے پکار کر کہا کہ کون انصار کی مدد کریگا؟ ادہر مہاجربھی چیخا کہ مہاجر کی مدد کون کریگا ؟ جب اللہ کے رسول نے یہ سنا تو فرمایا ،'' یہ کس جاہلیت کی دعوت ہے ''؟(118) ۔ اس جاہلیت کی آواز سے قبیلہ عوص اور قبیلہ خزرج میں جنگ کا ماحول بن گیا جو کہ دونوں انصار کی اکثریت میں سے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں ،''۔۔۔پھر سعد بن معاث کھڑے ہوئے اور کہا،' اے اللہ کے رسول (ص)! میں اس سے نپٹنے کیلئے آپ (ص) پر چھوڑتا ہوں! اگر وہ قبیلہ عوص سے ہے ،تو ہم اس کی گردن ابھی ماریں گے اور اگر وہ خزرج بھائیوں میں سے ہے توآپ ہمیں حکم دیں ہم اس پر عمل کریں گے۔ خزرج کا سربراہ سعد ابن عبادہ جو اس سے پہلے ایک اچھا آدمی تھا کو شاید قبائلی پن نے زیر کیا اور اس نے کہا : تم نے جھوٹ کہا ہے،اللہ کی قسم ! ہم اسے قتل کریں گے کیونکہ تم منافق ہو اور منافقوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہو۔ عوص اور خزرج کے درمیان بحث و تکرار تیز ہوئی اور اس وقت رسولخدا (ص) منبر پر تشریف فرما تھے۔وہ جناب (ص)نیچے آئے اور اور ان کی شرارت کو شانت کیا جب تک وہ خاموش ہوگئے اور خود بھی شانت ہوگئے''(119)

۷۵

صحابہ میںوہ بھی شامل تھے جو علی سے نفرت کرتے تھے،جن کی نفرت منافقت کی نشانی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بیان کیا ہے۔ ابو بریدہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں :'' پیغمبر خدا (ص) نے علی اور خالدبن ولید کو مال خمس جمع کرنے کیلئے روانہ کیا اور میں علی سے نفرت کرتا تھا جس نے اسی وقت غسل کیا تھا جس پر میں نے خالد سے کہا،' کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو؟! جب ہم نبی (ص) کے پاس گئے ،تو میں نے اسے یہ سب کچھ بتا دیا۔انہوں(رسول(ص)) نے مجھ سے فرمایا،' اے بریدہ! کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے کہا ،ہاں۔انہوں نے کہا،'' اس سے نفرت مت کرو کیونکہ خمس میں اس کاحصہ اس سے بہت زیادہ ہے'' ''(120) ۔

صحابہ میں وہ بھی تھے جنہوں نے پیغمبر خدا (ص) کے دانشمندانہ فیصلوں پر اعتراض کیا۔یہ اسوقت نمایاں ہوا جب انہوں نے اسامہ کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا اور اصحاب نے اعتراض کیا اور کچھ نے اس قائد کومقرر کرنے پر شک کیا۔ اس پر اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اس کی سربراہی پر اعتراض مت کرو کیونکہ تم نے اس سے پہلے اسکے والد (زید) کی سرداری پر بھی اعتراض کیا تھا ''(121) ۔

صحابہ میں وہ بھی تھے جنہیں پیغمبر خدا (ص) نے اپنے پاس سے بھگایا تھا جب انہوں نے آنجناب (ص) کو وقتِ آخر وصیت لکھنے پر بھی اعتراض کیا اور ہذیان کہنے کا الزام دیا۔ سعد ابن زبیر عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے جس میں ابن عباس کہتے تھے ،'' پنج شنبہ کا دن! ہائے وہ کیا دن تھا پنج شنبہ کا! یہ کہہ کروہ اتنا روئے کہ آنسوئوں سے سنگریزے تر ہوگئے۔پھر کہا، اسی پنج شنبہ کے دن رسول خدا (ص) کی تکلیف بہت بڑھ گی تھی آنحضرت نے فرمایا:'' میرے لئے کاغذ اور قلم لائو،میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھدوں تاکہ تم پھرکبھی گمراہ نہ ہوسکو'' اس پر لوگ جھگڑنے لگے حالانکہ نبی (ص)کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ہے لوگوں نے کہا: رسول (ص) بیہودہ بک رہے ہیں(نعوذباللہ) اس پر آنحضرت (ص) نے فرمایا:مجھے میرے حال پر چھوڑدو اور میرے پاس سے چلے جائو۔میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کا تم مجھے الزام دے رہے ہو ''(122)

۷۶

صحابہ میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے وصال نبی (ص) کے بعد اقتدار کیلئے جھگڑا کیا یہاں تک کہ کچھ نے کہا کہ ہم میں دو حکمران ہونے چاہیئیں، ایک محاجرین میں سے اور ایک انصار میں سے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے دورِ جاہلیت کا قبائلی نظریہ اور سوچ ترک نہیں کیا تھا جو ان میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی جاری رہا جو حالاتِ سقیفہ میں بیان ہوا ہے۔

صحابہ میں معاویہ اور ابوہریرہ بھی ہیں جن کے متعلق اس تحقیق میں الگ سے بحث ہوئی ہے۔شاید اہلسنت کے ذریعے صحابہ کی شان بڑھانے کے مغالطہ نے صحابہ کا رسول (ص) کے ساتھ چلنے سے جنم لیا ہے مگر یہ اس احترام سے زیادہ نہیں ہے جو ان کے ذریعے انکی بیٹیوں سے نکاح کرنے سے ملتا ہے کیونکہ اللہ نے ازواج رسول (ص) کے بارے میں فرمایا ہے:''اے ازواج پیغمبر جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کریگی،اسکا عذاب بھی دوہرا کیا جائے گا اور یہ بات اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ اور جو بھی تم میں سے خد ا اور رسول (ص) کی اطاعت اور نیک اعمال کریگا اسے ہم دوہرا اجر عطا کریں گے ''(احزاب 30،31)َ۔ اور اس نے ازواج رسول (ص) (حضرت عائشہ و حفصہ) کی نا فرمانی کے متعلق فرمایا ہے:'' اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کروگی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبرائیل اور نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں۔وہ اگر تمہیں طلاق بھی دیدے تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردیگا مسلمہ،مومنہ،فرمانبردار،توبہ کرنے والی،عبادت گذار۔روزہ رکھنے والی۔کنواری اور غیر کنواری سب۔۔۔۔۔۔ خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کیلئے زوجۂ نوح اور زوجۂ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں خدا کے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاو'' ( تحریم 4 ۔10)۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رسول (ص) کے ساتھ زیادہ وقت گذارنابلندیٔ درجات کا باعث نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئیں قرآنی آیات اور احادیث سے اصحاب اور ازواج نبی (ص) کے متعلق نظر آرہا ہے۔

۷۷

ابن عباس سے روایت ہے کہ ،'' میں ایک سال حضرت عمر سے ان ازواج کے متعلق دریافت کرنا چاہتا تھا جنہو ں نے آنحضرت (ص) کی نافرمانی کی تھی مگر میں ان سے ڈرتا تھا۔آخر وہ ایک دن ایک مکان میں داخل ہوئے اور جب باہر آئے تو میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔تو انہوں نے کہا،' وہ عا ئشہ اور حفصہ تھیں۔پھر بولے دور جاہلیت میں ہم عورتوں کو بیکار شَی مانتے تھے لیکن جب اسلام آیا اور اللہ نے انکا ذکر کیا ہم کو احساس ہوا کہ زور زبر دستی کے بجائے اب ان کے تئیں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ میری اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرتبہ تکرار ہوئی،میں اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم ایسی،ویسی ہو تو اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تم میرے بارے میں ایسا کہتے ہو جبکہ تمہاری بیٹی اللہ کے رسول (ص) کو اذیت دیتی ہے؟ اسلئے میںاپنی بیٹی حفصہ کے پاس گیا اور اس سے کہا،'' میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول (ص) کی نافرمانی کرنے سے تنبیہ کرتا ہوں ''!(123) ۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں،'' اللہ کے رسول (ص)نے ایک مرتبہ (اپنی ایک بیوی) زینب بنت جحش کے یہاں شہد تناول فرمایا تھا ۔ میں نے اور حفصہ نے سازش کی کہ جب پیغمبر (ص) ہم میں کسی کے پاس آئیں گے تو ہم ان سے کہیں گے کہ آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے اور جب آنجناب (ص) سے ایسا کہا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں،میں نے زینب کے یہاں شہد تناول کیا ہے اور اب ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ تم قسم کھا ؤ کہ یہ بات کسی کو نہیں بتائو گی(124) ۔ حضرت عایشہ نے یہ بھی کہا ہے،'' ہم ازواج نبی (ص) دو گروہ میں تقسیم تھیں، ایک میں ،مَیں (عایشہ) ،حفصہ، صفیہ اور سوداء اور دوسرے میں ام سلمیٰ اور باقی''(125) ۔

حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے،'' میں ان عورتوں سے حسد کرتی تھی جو اپنا نفس نبی (ص) کے حوالہ کرتی تھیں اور کہتی کہ کیا سچ مچ عورت حضو(ص)ر کوپیش ہوتی تھی؟! جب یہ قرانی آیت نازل ہوئی،''تمہارے لئے نکاح کے پیغام کی پیشکش یا دل ہی دل میں پوشیدہ ارادہ میں کوئی ارادہ نہیںہے۔خدا کو معلوم ہے کہ تم بعد میں ان سے تذکرہ کروگے لیکن فی الحال خفیہ وعدہ بھی نہ لو صرف کوئی نیک بات کہہ دو تو کوئی حرج نہیں ہے اور جب تک کوئی مقرر ہ مدت پوری نہ ہوجائے عقد نکاح کا ارادہ نہ کرنا یہ یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم و بردبار بھی(بقرہ 235) تو میں (عایشہ) نے ان (ص) سے کہا ،'' میں سمجھتی ہوں کہ تمہارا اللہ تمہارے دل کی خواہشات کیسے جلدی پوری کرتا ہے''(126) ۔

۷۸

حضرت عائشہ کا ہی بیان ہے ' کہ خدیجہ کی بہن حالہ بنت خویلد نے ایک دفعہ پیغمبر (ص) سے ملاقات کی اجازت چاہی اور چونکہ وہ خدیجہ کے طریقۂ دخول بیت سے باخبر تھے انہوںنے حیران ہوکر فرمایا ،''اللہ! مجھے یقین ہے کہ یہ حالہ ہے!۔مجھے حسد ہوا جس پر میں نے کہا،'' آپ(ص) اب تک ایک بوڑھی سرخ آنکھوں والی قریش عورت کونہیں بھولے جو کب کی مر چکی ہے اور اللہ نے آپ (ص) کو اُ س سے بہترعطا کی ہے(یعنی خودعائشہ )(127) ۔ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ سے حسد کیا ان سے حسد کیا جو دوسری تمام ازواج نبی میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔وہ آنحضرت (ص) پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگ انہیں (عیاذاً باللہ) جھوٹا کہتے تھے۔ انہوںنے اپنی دولت آنجناب (ص) پر اس وقت نچھاور کردی جب لوگوں نے انہیں محروم کیا تھا اور اللہ نے رسول (ص)کو ان کے ذریعہ ہی صاحب اولاد بنایا۔ یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ حضرت عایشہ جناب خدیجہ سے حسد اسی لئے کرتی تھیں کیونکہ اس کے احسانات کا ذکر اللہ کے رسول (ص) ان کے وفات کے بعد بھی کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے اس دعویٰ کی تردید کرتا ہے کہ اللہ نے رسول (ص) کو خدیجہ سے بہتر عورت عطا کی تھی۔حضرت عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں ازواج رسول (ص) میں خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہ کرتی تھی۔ حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے مگر رسول (ص) ان کا ذکر ہمیشہ کرتے تھے۔اللہ کے رسول (ص) ایک اونٹ ذبحہ کرکے ٹکڑوں میں بانٹ کے حضرت خدیجہ کے دوستوں میں تقسیم کرتے تھے۔ میں آنجناب (ص) کو کہتی تھی کہ شاید دنیا میں خدیجہ جیسی عورت کوئی نہیں ہے؟ ،تو وہ (ص) فرماتے تھے کہ وہ ایسی اور ویسی تھی اور اللہ نے مجھے ان سے صاحب اولاد بنایا''(128) ۔

جو لوگ تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیں، وہ اپنے عقیدہ کی بنیادپر دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،''میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں: جس کی تم پیروی کرو گے ،تمہیں ہدایت ملے گی۔'' حالانکہ اہلسنت کھلے عام صحابہ کی عصمت کے قائل نہیں ہیں،پھر بھی جو کوئی اس حدیث کے صحیح ہونے کا یقین کرتا ہے،اس کو تمام صحابہ کی عصمت ضرور قبول کرنا پڑیگی۔یہ اس لئے ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے رسول (ص) بغیر کسی شر ط وشروط کے کسی بھی اپنے نافرما ن کی مکمل پیروی کا حکم صادر کرے جیسا کہ اس فرضی بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسلئے مذکورہ احادیث اصحاب کی عدالت پر دوبارہ غور وخوض سے جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہیں۔

۷۹

بالخصوص ان اصحاب کے متعلق جنہوں نے زیاد ہ وقت پیغمبر خدا (ص) کے ساتھ گذارا۔تو پھر آپ ان کی عدالت کے متعلق کیا کہیں گے جنہیں پیغمبر خدا (ص) کاصرف ایک بار دیدار کرنے یا ایک لمحہ کیلئے دیکھنے پر ہی ''صحابہ'' کے اعزاز سے نوازا گیا؟ اور اس بارے میں اتنی مبالغہ آرائی کیوں کی جاتی ہے ؟! کیا کوئی ''عدالت'' اور'' تقویٰ'' صرف پیغمبر (ص) کے روئے نازنین پر ایک نظر کرنے سے حاصل کر سکتا ہے؟ یا یہ اخلاص اور نیک ارادوں پر استوارمکمل طریقہ سے آنحضرت (ص) کی پیروی اور اتباع سے حاصل ہوسکتا ہے؟ایسا تضاد جو مضبوط دلیل اور انسانی روش سے رد کیا جاتا ہے اس وقت روشنی کی طرح صاف ظاہر ہوتا ہے جب کچھ اہلسنت دانشور جیسے ابن تیمیہ معاویہ بن ابو سفیان کو نیک خلیفہ عمر بن عبد العزیز پر اس وجہ سے ترجیح دیتا ہے کہ معاویہ صحابی تھا اور عمربن عبدالعزیزتابعی تھا اسکے باوجود کہ عمر۔۔ مشہورنیک اور عادل تھا جبکہ معاویہ مسلمانوں میں مشہور فساد برپا کرنیوالا اور امام علی کی بغاوت کرکے جنگ صفین میں 000،75 ہزار اصحاب و تابعین قتل کرانے کا ذمہ دار ہے۔ اسکے علاوہ اہلسنت کی یہ شہرت کہ عمر ابن عبدالعزیز پانچواں خلیفہ راشد ہے معاویہ کے خلیفہ برحق ہونے کا دعویٰ پوری طرح سے مسترد ہوتا ہے۔ اسی لئے صرف صحابی رسول (ص) ہونے کی بنا پر کوئی بھی انسان عادل ،راشد یا برحق نہیں بن سکتا ہے ۔اس معاملے میں پوچھنے کی اصل بات یہ ہے: اونچا مقام اس کا ہے کہ جس نے اپنے آنکھوں سے رسول خدا(ص) کے ہاتھوں واقع ہوئے معجزات دیکھ کر اسلام قبول کیا یا جس نے ایسا دیکھے بغیر ہی دل سے اسلام قبول کیا ؟! حقیقت تو یہ ہے کہ میں صحابہ کی عدالت اور تقویٰ پر ایسی مغالطہ آرائی کا کوئی جواب نہیں پاتا ہوں جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سب ''صحیح '' تھے صرف ا س دروازہ پر تالا چڑھانا ہے جہاں پر ان صحابہ پر تنقید کی جاتی ہے جنہوں نے زور و شور سے خلافت کو اصلی حقداروں سے باہر دھکیل دیا۔ اسطرح کچھ اہلسنت ان سارے ناقابل تردید ثبوت کو فراموش کرتے ہیں جنمیں اہلبیت ِ رسول (ص) مسلمانوں کے امام بننے کیلئے ہر طرح سے موزوں تھے صرف اس وجہ سے کہ وہ تمام اصحاب کو عادل سمجھتے ہیں۔ وہ اسی لئے اس سب کو صحیح مانتے ہیں جو ان صحابہ نے انجام دیا۔

۸۰