میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا0%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر اسد وحید قاسم
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: صفحے: 158
مشاہدے: 49268
ڈاؤنلوڈ: 3523

تبصرے:

میں حسینی ہوگیا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49268 / ڈاؤنلوڈ: 3523
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جہاں تک انکا تعلق ہے جنہوں نے اس غلط نظریہ کو عام کرنے میں سخت محنت کی،انہوں نے ایسا اسلئے کیا کہ وہ اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ امام اپنے دعوئوں میں حق بجانب تھے۔ اس لئے ان قرآنی آیات اور مستنند احادیثِ رسول (ص) پردہ ڈالنے کی اشدضرورت تھی جن سے ان اماموں کی فضیلت عیاں ہوتی تھی تاکہ تمام صحابہ کی فضیلت کو بڑھا یا جائے جس سے فضیلتِ اہلبیت کو مدھم (کم)کیا جاسکے جس کی وجہ سے وہ امت کی رہبریت کیلئے اللہ اور رسول (ص) کے پسندیدہ تھے اور رحلت نبی (ص) کے بعدامتِ مسلمہ کے بھی ۔اوپربیان ہوئی جعلی حدیث کے متن اور مطلب ،جو کہتا ہے کہ''تمام صحابہ ستارے ''ہیں، اس حدیث ِ رسول (ص)کے بالمقابل وضع کیا گیا ہے جسمیں فرمایا گیا ہے کہ ،'' ستارے اہل زمین کو ڈوبنے سے امان دیتے ہیں جبکہ میرے اہلبیت لوگوں کو مذہبی فتنوں و فسادوں سے امان دیتے ہیں،اب اگر کوئی عرب قبیلہ ان کی مخالفت کریگا ،توہ اختلاف کا شکار ہوجائیگا اور ابلیس کی جماعت بنے گا ''(129) ۔ تمام صحابہ کو عادل ماننے کا سب سے منفی اثر یہ ہوا کہ کتب احادیث ''غلط بیانات'' سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی جڑیں یہود اور نصاریٰ سے پیوست ہیں اور دوسرے توہمات (افسانات) جن سے ملتِ اسلامیہ کی چھبی مشکوک بنا کے پیش کی جاتی ہے۔ ایسی احادیث (بیانات) اسی بنا پر صحیح مان کرقبول کئے گئے کہ وہ صحابہ سے بیان ہوئے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے افعال قابل تنقیدہیں جیسا کہ پہلے ہی بہت سے واقعات میں بیان ہوا ہے۔

شیعہ اور قرآن مجید:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ نبی(ص) پر نازل ہوئی ہے جس میں ہر شئے کا صاف صاف تذکرہ ہے۔ قرآن نبی (ص) کا دائمی معجزہ ہے جس کا مقابلہ کرنے سے بشر عاجز ہے،بلاغت میں،فصاحت میں اور ان مضامین میں جن پر یہ قرآن حاوی ہے حقائق و معارف عالیہ کی باتوں سے قرآن میں تبدیلی،تغیر و تحریف نہیں ہوسکتی اور یہ قرآن جو ہمارے سامنے ہے بعینہ وہی قرآن ہے جو نبی (ص) پر نازل ہوا ہے۔

۸۱

جو اسکے خلاف دعویٰ کریگا،وہ اجماع کے خلاف چلیگا،بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا ۔یا اسکو اشتباہ ہوگا اور اس قسم کے لوگ گمراہی پر ہونگے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے جس کے پاس باطل چیز آہی نہیں سکتی،آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی(130) ۔ ایک عظیم شیعہ محدث شیح صدوق فرماتے ہیں:'' ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ قرآن جو اللہ نے اپنے آخری نبی (ص) پر نازل کیا وہی قرآن آج تمام لوگوںکے ہاتھوںمیںہے ،اس میں کوئی کمی و زیادتی نہیں ہوئی ہے۔جو شخص ہماری طرف تحریف کی نسبت دیتا ہے وہ جھوٹا ہے،(131) ۔ اوپر دئیے گئے حوالات کی تصدیق کرتے ہوئے اخوان المسلمون( ( Muslim Brotherhood کے مشہور دانشور پروفیسر بہنصاوی(( Bahinsawi کہتے ہیں :''شیعہ جعفری ،اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی اس امت میں طلوعِ اسلام سے رائج قرآن کی تحریف کا قائل ہے،وہ کذاب ہے۔۔۔اہلسنت میں رائج قرآن وہی ہے جو شیعوں کے گھروں اور ان کی مساجد میں ہوتا ہے''۔ظہیر اورخطیب(شیعہ مخالف) کی تردید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ''جہاں تک امت مسلمہ کے معلومات ہیں ،قرآن میں کبھی بھی تحریف نہیں ہوئی ہے اور جو ہمارے پاس ہے،وہی قرآن ہے جو اللہ نے اپنے رسول (ص) پر نازل کیا ہے۔(132)

شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاء عن العقیدہ الشریعہ و متاعن المستشرقین( a defense of faith and the islamic legislative system against the charges of the orientalists )

میں لکھتا ہے:''دانشوروں کی ایک محفل میں ،میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ شیعوں کے پاس اور کوئی قرآن ہے جو عام قرآن سے تھوڑا مختلف ہے۔میں نے اسے اسی وقت کہا؛''وہ قرآن کہاں ہے؟اور آج تک کسی انسان حتیٰ کہ کسی جن نے بھی اتنی لمبی تاریخ کے دوران نہیں دیکھا ہے؟ اور ایسا الزام کیوں تراشا جاتا ہے؟اور کیوں لوگوں اور وحی کے متعلق اتنے جھوٹ؟(133) ۔ جہاں تک جھوٹی احادیث کا تعلق ہے جن پر کچھ لوگ بھروسہ کرکے کہتے ہیں کہ قرآن میںتحریف ہوئی ہے جو کہ شیعوں کی کتب احادیث میں درج ہے، ایسے الزامات سراسر رد کئے جاتے ہیں کیونکہ ایسی بہت ساری احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔علامہ نے حضرت عایشہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ:'' اللہ کے رسول (ص) نے رات کے وقت ایک آدمی کو ایک قرآنی سورہ تلاوت کرتے سنا اور اس سے کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے ! اس نے مجھے ایسی آیات یاد دلائیں۔۔۔(134) ۔

۸۲

اس حدیث پر کون بھروسہ کرسکتا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو سارا قرآن یاد نہیں تھا اور وہ قرآن کی کچھ آیات بھول جاتے ہیں۔۔!علامہ بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے: زید بن ثابت سے روایت ہے ،''جب ہم نے تختیوں(قرانی نسخوں)کو جمع کرنا شروع کیا،میں نے سورہ احزاب میں ایک آیت کو کم پایا جو کہ میں اللہ کے رسول(ص) سے بارہا سن چکا تھا اور اسکو میں نے صرف خذیمہ الانصاری کے پاس پایا جس کو اللہ کے رسول(ص) نے ذوالشہادتین کے لقب سے نوازا ہے جسکی شہادت دو مومنوں کے برابر ہے۔۔۔جو اللہ کے ساتھ اپنے وعدہ میں سچے نکلے(135) ۔صحیح بخاری میں ہی زید بن ثابت سے یہ روایت بھی درج ہے''۔۔۔اسطرح میں نے قرآن کاغذ کے اوراق،سبز پتوں اور حافظوں سے جمع کیا یہاں تک کہ میں سورہ ٔبرأت کی کچھ آیات صرف خذیمہ الانصاری کے بغیر کسی کے پاس نہیں پاسکا(136) ۔ تو اس بیان کو اس حقیقت سے کیسے یگانیت ہوسکتی ہے جسمیں قران کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنا ثابت ہے ؟! اور بہت سی احادیث جو کہ بخاری اور اہلسنت کی دوسری صحیح کتابوں اور مسندوں میں بیان ہوئی ہیں ۔ صاف تحریف قرآن کی طرف اشارہ ملتا ہے جس میں ایک روایت عبداللہ بن عباس ،عمر ابن خطاب کے متعلق اسطرح منسوب کرتے ہیں ،'' عمر ابن خطاب باہر گئے۔میں نے انہیں آتے دیکھا اور سعد ابن زید ابن امر ابن نفیل سے میں نے کہا،' آج رات وہ(عمر) ایک ایسی بات بتائے گے جو انہوںنے خلیفہ بننے کے بعد سے آج تک کبھی نہیں بتائی ہے۔اس نے مجھ پر بھروسہ نہیں کیا اور کہا کہ وہ آج کون سی ایسی بات بتائے گے جو انہوں نے آج تک نہیں کہی ہے؟ جب موذن نے اذان تمام کی توعمر ابن خطاب منبر پر گئے اور خطبہ دینا شروع کیا: اللہ کی تعریف کرکے کہا،'' جو میں نے کہا ہے سو کہا ہے،سنو میں آج ایک خاص اعلان کرنے جارہا ہوں جو میرا فرض ہے۔میں نہیں جانتا ہوں کہ یہ شاید میںمرنے سے پہلے ہی بتاتا ہوں۔جو کوئی اسکو سمجھتا ہے اور اسکی اہمیت سے واقف ہے،وہ اسکو اپنے علاقے تک نشر کرتا جائے اور اگر کوئی ڈرتا ہو،اسکو درک نہیں کرسکتا اور میںاسے میرے بارے میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔اللہ نے محمد (ص) کو حق کے ساتھ معبوث کیا اور اس پر کتاب نازل کی جس میں آ یت رجم (سنگسار) بھی تھی جسکو ہم نے تلاوت کیا، سمجھ لیا اور اس پر عمل بھی کیا۔اللہ کے رسول نے رجم کیا اور ان کے بعدہم نے بھی کیا۔مجھے ڈر ہے کہ اگر بہت عرصہ گذر گیا اور لوگ کہیں گے کہ ہم اس قران میں آیت رجم نہیں پاتے ہیں وہ اسطرح اللہ کافرمان چھوڑنے اور اس پر عمل نہ کرنے کہ وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے۔اللہ کی کتاب میں رجم(سنگساری)سچ ہے ان شادی شدہ مرد اور عورتوں کے لئے جن پر بدکاری کرناثابت ہوجائے یا حمل آشکار ہوجائے یا جو اس فعل کا اقرار کریں''(137) ۔

۸۳

بخاری میں ہی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے اس آیت کو موجودہ قرآن میں شامل کرنا چاہا جو اس نے خود اس خوف سے حذف کردی کہ لوگ کیا کہیں گے:''عمر نے کہا،' اگر یہ ممکن نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو میں خود اپنے ہاتھ سے اس آیتِ رجم کو قرآن میں لکھ لیتا اور پیغمبر خدا (ص) کے اس حکم کی تائید کرتا جسمیں چار شواہد ملنے پر بدکا رانسان کوسنگساری کا حکم ملتا تھا(138) ۔جہاں تک ان آیاتِ بینات کا تعلق ہے،تو اس میں کہا گیا ہے،'' جہاں تک بزرگ مرد اور عورت کا بدکاری میں شا مل ہونا ثابت ہو جائے تو انکو پوری طرح سے سنگسار کرنا چاہئے(139) ۔ سنن ابن ماجہ میں بھی یہ اسی طرح لکھا ہے۔

چونکہ ہم سب یک زبان ہوکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے،وہ تحریف سے پاک ہے تو عمر ابن خطاب کو مغالطہ ہوا ہوگا اور اس الجھن کا ماخذ اس آیت ِ رجم کا قرآن میں نہ ہونا بلکہ اس کا کتابِ '' تورات'' میں ہونے سے پیدا ہوا ہوگا جیسا کہ ابن عمر کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے ، ''ایک یہودی اور ایک یہودن جنہوں نے بدکاری کی تھی پیغمبر خدا (ص) کے پاس لائے گئے۔آنحضرت (ص) نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم ایسے (بدکاروں)سے کیا سلوک کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کا چہرہ کالا کرتے ہیں اور بے شرمی پر انکوملامت کرتے ہیں۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ توریت لاکر میرے سامنے تلاوت کرو اگر تم سچے ہو۔انہوں نے ایک کانے( one eyed ) آدمی کو اپنی مرضی سے بلایا اور اسکو تلاوت کیلئے کہا۔ جب وہ ایک آیت پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر ٹھہرا۔پیغمبر (ص) نے اس سے کہا کہ ہاتھ ہٹا،تو جب اس نے ہاتھ ہٹایا،آیت رجم صاف نظر آئی۔اس آدمی نے کہا،' اے محمد (ص) ! انہیں سنگسار کرنا ہے جبکہ ہم خود ہی اسے چھپاتے آئے ہیں۔پیغمبر خدا (ص) نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا''(140) ۔ اس کاامکان ہے کہ عمر ابن خطاب کو اہل کتاب کی توریت اور اللہ کی مقدس کتاب(قرآن) میں مغالطہ ہوا ہے کو'' الجزری'' کی کتاب جسکا نام ہے'ہر ایک شیعہ کیلئے یہ میری نصیحت ہے ''( This is my advice to every shia ) میں درج بیان سے تقویت ملتی ہے۔ اس کتاب میں الجزری کہتاہے۔۔''ایسی تحریف شدہ کتابوں کی تلاوت کیسے ہوسکتی ہے جب اللہ کے رسول (ص) نے توریت کا ایک ورق ہاتھ میں لہرا کے عمر ابن خطاب کو ڈانٹ پلائی تھی اور کہا تھا ،'' کیا میں نے تمہیں صاف و شفاف اسلام پیش نہیں کیا ہے؟! اللہ کے رسول (ص) نے یہ منظور ہی نہ کیا کہ عمر توریت کے ایک ورق کی طرف بھی نظر کریگا''(141) ۔

۸۴

بخاری میں یہ بھی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا ِ''ہم اللہ کی کتاب میں یہ آیت بھی پڑھتے تھے:''اگر تم اپنے والدین سے منہ موڑو گے،تو تم کافر ہو '' یا یہ کفر ہے کہ اگر تم والدین سے منہ موڑو گے''(142) ۔یہ کوئی رازداری نہیں ہے کہ ان دونوں آیات کا قرآن میں کوئی وجود نہیں ہے۔عبداللہ ابن مسعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ یہ دونوں الفاظ '' ذکر( male )اور انثیٰ( female ) اس متبرک آیت میں شامل کرتا تھا:وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ 92:1 القمہ نے کہا ہے،''۔۔۔عبداللہ یہ کیسے پڑھتا ہے وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ؟ میں نے اسکو اسطرح سنایا :وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ وَ النَھَارِ اِذَاتَجَلیٰ وَمَاخَلَقَ الذَکَرَوَالاُنثیٰ ۔۔۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول (ص) نے مجھے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح تلاوت کی''(143) ۔ بخاری نے ایک اور واقعہ اپنی صحیح میں درج کرکے ایک اور اختلاف کو جنم دیا ہے جب وہ اللہ کے رسول (ص) سے یہ منسوب کرتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ تلاوت قرآن چار آدمیوں سے سیکھو:عبداللہ ابن مسعود، سالم غلامِ ابو حدیبیہ،ابی ابن کعب اور معاذ بن جبل(144) ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کے رسول (ص) ہمیں ان اشخاص سے تلاوت قرآن سیکھنے کا حکم دیں جوخودبھی اسے پوری طرح سے یاد نہیں کر پائے؟! ہم اس سوال کا جواب بخاری پر چھوڑدیتے ہیں اور ان پر بھی جو اس کے نقش قدم پر ٹہل رہے ہیں اور اسکی صحیح پر یقین کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حالت بھی ایسی ہی ہے،'' عائشہ سے روایت ہے کہ قرآن میں جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس میں یہ آیات بھی تھیں 'دس مشہور شیرخوار '' اللہ کے رسول (ص) نے وصال فرمایا اور وہ پھر بھی قران میں تلاوت کی جاتی تھیں(145) ۔حضرت عایشہ کے اس دعوی میں ان لوگوں کو کڑا جواب ملاہے جو پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ قرآن کی تحریف کی گئی ہے ورنہ اس کا کیا مطلب ہے جب وہ کہتی ہیں کہ ان آیات کی تلاوت آنحضرت (ص) کے وصال کے بعد بھی جاری تھی؟! ابو اسود اپنے والد سے روایت کرتا ہے،'' ابو موسیٰ عشری نے بصرہ کے ان لوگوں کو پیغام بھیجا جو قرآن کی تلاوت جانتے تھے اور وہ تین سو نفر تھے۔ اس نے ا ن سے کہا:'' ہم ایک سورہ کی تلاوت کرتے تھے جو کہ تقریباََ سورہ ٔبرٔات(توبہ) جیسا بڑا تھا لیکن میں اس سے صرف یہ یاد رکھ پایا ہوں:اگر ابن آدم کو دو دولت بھری وادیاں مہیا ہوتیں،وہ تیسری کی تمنا کرتا اور ابن آدم کی پیٹ کو سوائے خاک کے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی ہے''(146) ۔

۸۵

علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب 'اِتقان فی العلوم القران ' میں رقمطراز ہیں کہ کچھ احادیث قرآن میں صرف ایک سو بارہ 112 سوروں کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ ایکسو چودہ 11 4 کے علاوہ اور دو سوروں حفد اورخل ( Hafd and Khal )کا ذکر کرتے ہیں(147) ۔

اوپر بیان کئے گئے واقعات سے کیا کوئی شیعہ اہلسنت کی طرف تحریف قرآن کے قائل ہونے کا الزام دیتا ہے۔ہرگز نہیں حالانکہ اہلسنت کی صحاح ستہ خاص کر بخاری اور مسلم میں ایسی روایت درج ہیں جنکو وہ ماننے کیلئے واجب جیسا اقرار کر چکے ہیں۔اس سب کا ما حصل صرف دو ممکنات ہیں اور کوئی تیسرا نہیں :

(1):ایسی احادیث صحیح ہیں مگر ان میں راویوں کو مغالطہ ہوا ہے جنہوں نے انکی روایت کی ہیں جیسا کہ رجم(سنگساری) کے بارے میں ہے

(2):ایسی احادیث صحیح نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے دوسرے احادیث سے صاف ظاہر ہے۔

اس طرح اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ہے کہ بخاری اور مسلم جیسی حدیث کتابوں پر ''صحیح '' ہونے پر نظر ثانی کی جائے۔

پھرہم اس زہریلے پروپگنڈے کو کیسے بیان کر پائیں گے جو کچھ قلم کاروں جیسے ظہیر،الخطیب اور ان جیسوں نے شیعوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ،اس بنیاد پر کہ ان کی کتابوں میں بھی کچھ ایسی ضعیف روایات پائی جاتی ہیں جنہیں شیعوں نے کب کا رد کیا ہے اس کے باجود کہ اہلسنت کی ان کتابوں میں اس سے زیادہ ایسی روایات موجود ہیں جنہیں صحیح کا درجہ دیا گیا ہے؟! کانچ سے نبے مکانوں کے مکینوں کو پختہ مکانوں میں رہنے والوں پر پتھر نہیں برسانے چاہیٔیں۔

۸۶

شیعہ اور سنت ِنبی (ص):

کچھ بیوقوفوں کے ذریعے شیعوں کے متعلق یہ جھوٹ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ شیعہ رسول خدا(ص) کی سنت کو رد کرتے ہیںجو کہ ایک ایسی بیہودہ تہمت ہے جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہم آگے شیعوں کا سنت رسول (ص) کے متعلق عقیدہ کے بارے میںکچھ سنی دانشوروں کے خیالات پیش کریں گے۔

اپنی کتاب '' امام جعفر صادق '' میں شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں ''تواتر کے ساتھ روایت شدہ سنت ان کے لئے ایک گواہی ہے جس کی معقولیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور علم تواتر ان کیلئے گہرے علم کی بنیاد پر منحصر ہے۔۔۔ پیغمبر خدا (ص) سے تواتر سے ثابت شدہ پیاری سنت کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ رسول (ص) کے لائے ہوئے پیغام کا انکار ہے۔ جہاں تک اماموں کے اقوال کا انکار ہے، تو وہ گمراہی ہے نہ کہ کفر''(148) ۔ شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاع عن العقیدہ و الشریعہ فی المتاع ال مستشرقین ( a defence of doctrine and shariah against the charges of orientalists ) میں کہتے ہیں''ان جھوٹوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ بکتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے پیرو کار ہیں اور سنی حضرت محمد (ص) کے اور شیعوں کا عقیدہ ہے کی حضرت علی وحی کا زیادہ حقدار تھے یا یہ کہ وحی غلطی سے اوروں کی طرف چلی گئی، یہ قابل مذمت اور حد سے زیادہ بیہودہ تہمت ہے۔شیعہ پیغام محمدی (ص) پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور حضرت علی کا نبی (ص) کے ساتھ رشتے اور سنت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حق ادا کر ہے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ اگلی اور پچھلی امتوں میں کسی فرد کو اللہ کے رسول (ص) کے برابر نہیں مانتے ہیں۔ ایسا الزام ان کے ساتھ کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے'' ؟!(149)

شیعوں اور سنیوں کے درمیان مرتبئہ صحیح سنت نبی (ص) کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے لیکن انہیں سنیوں سے اس میں اختلاف ہے کہ کیسے اور کس طریقے سے ایسی سنت زمانہ نبی (ص) کی نسل سے اگلی نسل تک پہنچائی جائے یا اسکو کیسے پرکھا جائے۔

۸۷

سنی حدیث کی سند کسی صحابی جس کی عدالت پر انہیں یقین ہے سے بیان کرنے کو کافی سمجھتے ہیں کیونکہ انکے ہاں سب صحابہ عادل ہیں۔ان کے یہاں جو بھی حدیث بخاری یا مسلم میں ہے اس پر کبھی بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ ان دو کتابوں کی حیثیت قرآن کے برابر کی ہوگئی ہے جہاں تک انکے صحیح ہونے کا مطلب ہے ورنہ اس کا کیا جواز ہے کہ اکثر سنی ان کتابوں میں درج بیانات کو سر آنکھوں پر لیتے ہیں؟! اس کی توثیق کیلئے ہم شارح صحیح مسلم شیخ ابو امر ابن صلاح کا ذکر کرتے ہیں جو مقدمہ نواع شرح مسلم میں لکھتے ہیں :'' جو سب امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح مانا ہے وہ بالکل مستند ہے۔ اسی طرح بخاری نے جو کچھ اپنی کتاب میں صحیح جانا ہے بالکل مستند ہے۔ یہ اسلئے ہے کہ قوم نے اسکو قبول کیا ہے سوائے ان کے کہ جن کو اجماع کے ذریعے بے توجہ سمجھا گیاہے۔'' وہ پھر کہتا ہے،'' ایک معصوم شخص کی رائے کو نہ چھوٹنے کی بنا پر قوم اپنے اجماع کے ذریعے غلطی کرنے سے محفوظ ہے۔''(150)

شیعوں کیلئے سب سے پہلی شرط سنت کی سند اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں میں سے کسی ایک امام سے منسوب ہونا ضروری ہے جس کی بنیاد رسول خدا (ص) کے اس فرمان سے وابستہ ہے:'' میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہو گے ،تو تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے،ایک قرآن مجید اور دوسرے میرے اہلبیت،میری عترت''(151) ۔ اور اس قرآنی آیت کی بنیاد پر '' بس اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلبیت رسول تم سے ہر رجس کو دور رکھے ''( احزاب 33)۔دوسری بڑی شرط یہ ہے کہ حدیث کو قرانی آیت سے پرکھو کہ کہیں یہ قرآن کے مخالف نہ ہو اور پھر متنِ حدیث، سندِ حدیث اور تواترِ حدیث اور آخر میں عقل و منطق سے موازنہ کرنا۔ کسی بھی حدیث میں کسی ایک شرط کی کمی کی وجہ سے کافی غور و فکر کے بعد ہی قابل توجہ سمجھا جائے گا۔ شیعوں میں احادیث کی چار بڑی کتابیں ہیں، اصول کافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب اور استبصار۔ اور ان کتابوں کی تمام احادیث قابل تحقیق ہیں اس کے بجائے کہ انہیں آنکھ بند کرکے قبول کیا جائے جیسا کہ برادران اہلسنت کرتے ہیں۔

۸۸

شیعہ ا ن کتابوں میں درج سب احادیث کو صحیح نہیں مانتے ہیں کیونکہ شیعوں کے یہاں کسی بھی کتاب کو قرآن کے ہم پلہ کا درجہ نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اہلسنت بخاری اور مسلم کے بارے میں کہتے ہیں۔مثلاََکتاب '' مصادر الحدیث عند الشیعہ و الامامیہ

( sources of hadith according to shia imamia ( میں سید محمد حسین الجلالی اصول کافی میں درج احادیث کی تقسیم اس طرح کرتا ہے : کل احادیث 16,121 صحیح5073=،حسن,302=قوی,144=موثق1118=،اور ضعیف =9475=

کیسی شفافیت سے شیعہ دانشور کافی کے ہزاروں احادیث پرغور کرتے ہیں۔پھر وہ حقیقت کہاں ہے جو کچھ جھوٹے بکتے ہیں جیسے احسان ظہیر اور خطیب اور دعویٰ کرتے ہیں کہ شیعہ اصول کافی کو وہی درجہ دیتے ہیں جو اہلسنت بخاری کو دیتے ہیں۔ یہ دل ہلادینے والا جھوٹ ہے جو وہ اپنی زہریلی کتابوں میں لکھتے ہیں تاکہ کافی اور دوسری کتابوں میں درج ضعیف احادیث بحیثیت صحیح شیعوں کے ساتھ منسوب کرکے قاری کو گمراہ کریں اور شیعوں کو بدنام ۔۔

عصمت نبی (ص)دونوں مکاتب کی روشنی میں:

بہت سے جھوٹوں کے علاوہ کچھ مفادِ خصوصی رکھنے والے لوگ بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کو اللہ کے رسول (ص) پر ترجیح دیتے ہیں ۔میں نے اپنی تحقیق سے یہ پایا کہ شیعہ نبی پاک (ص) کے تقدس کے اتنے معتقد ہیں جو کہ اہلسنت عقیدے سے کافی بہتر ہے۔شیعہ نبی پاک (ص) کی سنت کے پورے پابند ہیں اور انکا عقیدہ ہے کہ جوبھی سنت رسول (ص) کا انکار کرے وہ کافر ہے۔وہ نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ شخصیت تصور کرتے ہیں۔ وہ اہلبیتِ رسول (ص) میں سے بارہ اماموں سے اس لئے وابستہ رہتے ہیں کہ وہ سنت رسول (ص) حاصل کرنے کا سب سے صحیح ذریعہ ہیں۔وہ عصمت نبی (ص) کے متعلق کوئی بھی شک و شبہ نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں آنحضرت (ص) زندگی کے ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں معصوم ہیں،اعلان نبوت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی۔

۸۹

اہلسنت بھی نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ مانتے ہیں مگر وہ آنجناب(ص) کو صرف دینی معاملوں میں معصوم مانتے ہیں جن میں اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ دوسرے معاملوں میں آنحضرت (ص) دوسرے عام لوگوں کی طرح ہے جہاں وہ صحیح اور غلط بھی ہوسکتے ہیں۔آئیے ہم آپ کو اہلسنت کی کتابوں جن کو انہوں نے قرآن کے بعد سب سے صحیح ہونے کا درجہ دیا ہے میں سے درج بیانات سے دکھایئں گے کہ انکے یہاں نبی پاک کی شبیہ کس طرح پیش کی گئی ہے۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ (ص) پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔۔۔۔یہاں تک کہ آپ (ص) کے پاس وحی آگئی اور آپ (ص) غار حرا میں تھے۔فرشتہ آپ (ص) کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو۔آپ (ص) نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبادیا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ (ص) فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے تین بار پکڑ کر زور سے دبایا اور کہا کہ پڑھو۔وہ (ص) کانپتے کانپتے واپس آئے اور حجرہ خدیجہ میں داخل ہوئے اور کہا مجھے کمبل اڑھادو۔ان پر کمبل ڈالا گیا یہاں تک کہ آپ (ص) کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ (ص) نے خدیجہ سے کہاکہ مجھے کیا ہوگیا ہے ؟خدیجہ آپ(ص) کو لیکر اپنے نصرانی چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عضٰی بن قصی جو کہ عربی زبان سے واقف تھا کے پاس لے گئیںجو انجیل مقدس کو عربی زبان میں لکھتا تھا جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا۔وہ بہت بوڑھا آدمی تھا اور اس کی بینائی جا چکی تھی۔اس سے خدیجہ نے کہا،اے میرے چچا کے بیٹے اپنے بھتیجے(محمد(ص)) سے ان کا حال سنو۔ورقہ نے کہا،اے میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھا؟رسول خدا (ص) نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا۔تو ورقہ نے آپ (ص) سے کہا کہ یہ فرشتہ ہے جسے اللہ نے موسیٰ پر نازل کیا۔اے کاش میں اس وقت اس زمانہ میں(جب آپ نبی ہونگے) زندہ ہوتا جب آپ (ص) کی قوم آپ کو(مکہ سے ) نکالے گی۔اللہ کے رسول (ص) نے یہ سن کر تعجب سے فرمایا:کیا وہ لوگ مجھے بیشک نکالیں گے؟(152) ۔

۹۰

کیا اس کو عقل قبول کرسکتی ہے کہ رسول اللہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جو ان پر نازل ہوا وہ نبوت کا منصب تھا اور یہ کہ نصرانی ورقہ بن نوفل آنحضرت (ص) سے زیادہ صاحب علم تھا اور اسی نے آپ کو باخبر کیا ؟؟!

حضرت عائشہ آگے بیان کرتی ہیں جو کہ اس سے زیادہ افسوس ناک ہے جس سے بدن کانپتاہے۔۔۔۔۔''ورقہ مرگیا اور وحی آنا بند ہوگئی یہاں تک کہ رسول (ص)اللہ کو کافی صدمہ ہوا۔ہم نے محسوس کیا کہ اس صدمہ نے آنحضرت(ص) کو اس حد تک گھیر لیا کہ اکثر وہ حضرت (ص)پہاڑ کی چوٹی پر جاکر اپنے آپ کو گراناچاہتے تھے( یعنی خود کشی کرنا چاہتے تھے ،استغفراللہ۔۔مترجم)جبرائیل ان کے پا س آتے اور کہتے،'' اے محمد (ص) آپ بیشک پیغمبر ہیں!آنجناب (ص) کو کچھ راحت ملتی اور آپ واپس آجاتے تھے۔ اگر وحی آنے میں دیر لگتی تھی تووہ جناب (ص) وہی دہراتے تھے ،پہاڑ پر جاتے۔۔جبرائیل آکر اپنی بات پھر دہراتے''(153) ۔

اور کیا کوئی مسلمان باور کرسکتا ہے کہ رسول (ص) ساراقرآن یاد نہیں رکھ پا رہے تھے؟ بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے:کہ اللہ کے رسول (ص) نے مسجد میں ایک آدمی کو قرآن پاک کی کوئی سورة تلاوت کرتے سنا اور کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں ،فلاں آیت یاد دلائی جو میں نے فلاں،فلاں سورة سے چھوڑدی تھی!(154) ۔ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خدا (ص) بھول جاتے تھے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جنگ خندق کے موقعہ پر عمر بن خطاب آنحضرت (ص) کے پاس گئے اور کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)(ص) ،'' میں نماز پڑھنے کی تیاری میں تھا جب سورج غروب ہونے والا تھا جس کے بعد روزہ دار افطار کرنے والے تھے۔'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اللہ کی قسم تم نے پھر نہیں پڑھی ہے۔عمرابن خطاب کہتے ہیں کہ رسول (ص) میرے ساتھ نیچے وادی میں گئے۔ّآنجناب (ص)نے وضو فرمایااور نماز عصراداکی جب کہ سورج پہلے ہی غروب ہوچکا تھا اس کے بعد آنجناب (ص) نے نماز مغرب ادا کی ''(155) ۔

۹۱

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،''نماز کیلئے اذان دی گئی،صف باندھی گئی اور اللہ کے رسول(ص) ہمارے سامنے آئے۔جب آنحضرت (ص) امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،تو انہیں یاد آیا کہ وہ مجنب(بے غسل) ہیں ہم سے فرمایا کی تم یہیں ٹھہرو تاکہ میں پہلے غسل کرکے آوئں۔وہ(ص) غسل کرکے آئے اور ان کے سرمبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔انہوں نے تکبیر کہی اور ہم نے انکے ساتھ نماز پڑھی''(156) ۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے ہم کو نماز عصر صرف دو رکعات پڑھائی اور مسجد سے باہر آکر ایک لکڑی کی تختی پر اپنا ہاتھ رکھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بربنائے شرم ان سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔لوگ جلدی باہر آئے اور آنحضرت(ص) سے پوچھا: کیا نماز آدھی پڑھائی؟ ان میں سے ایک شخص ذُ لیدین تھا جس نے کہا: اے رسول (ص) آپ نے نماز ادھوری کیوں پڑھائی؟! نبی اکرم (ص) نے فرمایا: نہ ہی میں بھولا اور نہ ہی میں نے ادھوری نماز پڑھائی۔لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول (ص) بیشک آپ بھول گئے ہیں! اس پر رسول اکرم نے فرمایا،'' ذُلیدین نے صحیح کہا ہے''(157) ۔

تعجب ہے! اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ ایک یہودی نے رسول (ص) کو جادو سے قابو کیا جس کی وجہ سے رسول (ص) کوایسے کا م انجام دے چکنے کا خیال آتا تھا جو کہ آنجناب نے نہیں کئے تھے! اور ان کو حضرت عائشہ سے پوچھنا پڑتاکہ آیا ان پر وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں! یا آیا وہ اپنی زوجہ کے پاس گئے ہیں یا نہیں ۔۔(افسوس صد افسوس مترجم) حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے،'' پیغمبر خدا (ص) بہت عرصہ تک اس خیال میں رہے کہ انہوں نے اپنی زوجہ سے صحبت کی ہے جب کہ حقیقاََ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ایک دفعہ آنجناب (ص) عائشہ نے مجھ سے کہا: اللہ نے مجھ پر ایک فیصلہ نازل کیا جس کے متعلق میں نے درخواست کی تھی۔دواشخاص میرے پاس آئے،ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائینتی کی طرف بیٹھا۔ پائینتی کی طرف بیٹھنے والے نے سرہانے کی طرف بیٹھنے والے شخص سے پوچھا،'' اس شخص ( محمد(ص)) کو کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا،'' اس پر جادو ہوگیا ہے۔دوسرے نے پوچھا،'' اس پر جادو کس نے کیا؟ اس نے جواب دیا: لبید ابن عصام''(158)

۹۲

حضرت عائشہ سے بھی یہ روایت ہے کہ آ ّنحضرت(ص) پرسحر ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی حرکتیں کرنے کا گمان کرتے تھے جو کہ انہوں نے اس وقت تک نہیں کی تھیں ،جب وہ ایک دن میرے ساتھ تھے ،وہ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور پھر کہا،'' کیا تم نے دیکھا کی اللہ نے مجھ پر ایک ایسا فیصلہ نازل کیا جسکا میں نے سوال کیا؟''(159) ۔

مشہور اہلسنت دانشور شیخ محمد عبدہ ان روایات کو مسترد کرتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ نبی کریم (ص) جادوگری کے شکار ہوئے کیونکہ یہ اس قرآنی آیت کے مخالف ہے ،'' بدذات لوگ کہتے ہیں کہ تم صرف ایک دیوانے کی پیروی کرتے ہو( سورة۔۔۔۔)۔ جہاں تک نبی رحمت (ص) کا اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے کا سوال ہے بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہشام سے روایت کی ہے کہ ،'' جب نبی رحمت (ص) بیمار تھے وہ اپنی بیویوں کے گرد گھوم گھوم کر عائشہ کے خاطرکہتے رہے: کل میں کہاں ہونگا؟ کل میں کہاں ہونگا؟ ۔ حضرت عائشہ نے کہا جب آنحضرت (ص) کی مجھ سے صحبت کرنے کی باری تھی،انہیں تسلی ہوئی''(160) ۔ حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی بیویوں کے پاس جانا ہوتا تھا تو وہ قرعہ اندازی کا سہارا لیتے تھے اور جس بیوی کا نام نکلتا تھا وہ اسکے ساتھ جاتے تھے۔ ہر بیوی کو ایک دن اور رات ملتا تھا لیکن سودہ بنت زماہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دی۔ انس بن مالک سے روایت ہے،'' پیغمبر خدا رات دن ایک گھنٹہ میں گیارہ بیویوں کے پاس جاتے تھے'' انس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایسا کرنے کے قابل تھے؟! انس نے کہا ،'' ہاںہم ایسی باتیں کرتے کرتے کہتے تھے کہ آنحضرت (ص) کو تیس(30) مردوں کی طاقت تھی''!(161) ۔

۹۳

13 اپریل 201 4 بروز اتوار مرکزی جامعہ مسجد (حنفی)پلوامہ کشمیر میں سیرت نبی (ص) پر بولتے ہوئے دیوبند عالم مولانا مفتی نظیر احمد قاسمی جو دارالعلوم بانڈی پورہ کشمیر کے سربراہ ہیں اور مکتب دیوبند کشمیر کے قاضی القضاة ہیں نے صحیح بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: (سی ڈی سے نقل شدہ) نبی (ص) نے ایک جنگ میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ ، 2: ۔نبی (ص) نے اپنے کمرہ میں ہی پیشاب کرنے کیلئے ایک برتن رکھا ہواتھا تاکہ ضرورت پڑنے پرخاص کر رات کے وقت کام آسکے۔3: ۔نبی (ص) کی قوت مردانگی ایک سو جنتی افراد جیسی تھی جو کہ اس دنیا کے ہزار افراد کے برابر ہے۔ یہی روایات سلمان رشدی لعنتی نے اپنی شیطانی کتاب میں تحریر کرکے رسول محترم (ص) کی ذات مقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کی مترجم )

اہلسنت دعویٰ کرتے ہیں کہ نیچے دی گئی آیت نابینا عبداللہ بن مکتوم پر تیوری چڑھانے پر نبی کریم (ص) کہ مذمت میں نازل ہوئی۔ کہاجا تا ہے کہ نبی کریم (ص) عتبہ بن رابیہ،ابوجہل ابن ہشام اور عباس ابن عبدالمطلب کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جس دوران عبداللہ بن مکتوم آئے اور نبی رحمت (ص) سے الہٰی تعلیم کے خاطر کوئی قرآنی آیت سنانے کیلئے کہا جس پر آنجناب (ص) کوغصہ آیا کیونکہ انکی بات چیت میں خلل پڑ گیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا ،'' یہ خاص لوگ کہیں گے کہ نبی رحمت (ص) کا اتباع صرف غلام اور نابینا لوگ کرتے ہیں''۔اسلئے اللہ کے رسول(ص) اس کی طرف سے مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوئے جن کے ساتھ ہم کلام تھے۔آیات یہ ہیں :''وہ ترش رو ہوا اور منہ پھیر لیا،ایک نابینا کے آنے پر۔اور آپ کیا جانتے ہیں شاید وہ پاکیزگی اختیار کرتا ؟ یا وعظ و نصیحت اُسے فائدہ دیتی،اور جو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے''(سورہ عبس آیت 1۔ 4 )۔

شیعہ اس کہانی کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ آیات بنو امیہ کے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئیں جس نے نابینا سے منہ موڑ لیا تھانہ کہ نبی رحمت (ص) کے بارے میں۔علامہ سیدمحمد حسین طبا طبائی اپنی مشہور زمانہ تفسیر قران''المیزان '' میں فرماتے ہیں: یہ آیات قطعاًیہ ثابت نہیں کرتی ہیں کہ یہ آیات اللہ کے رسول (ص) سے مخاطب ہیں بلکہ اور کسی شخص کو مخاطب ہیں کیونکہ ماتھے پرتیوری چڑھانا نبیوں کی صفت نہیں ہے حالانکہ اپنے دشمنوں کے لئے بھی چہ جائیکہ ان مومنوں کے لئے جو کہ ہدایت کیلئے آتے ہیں۔

۹۴

اس کے علاوہ اس شخص کی مذمت غریب سے منہ موڑکر امیروں کی طرف متوجہ رہنے کی پاداش میں ہوئی ہیں جو کہ آداب نبی (ص) کے شایان شان نہیں ہے۔اور اللہ ااخلاق ِنبی (ص) کی تعریف اس طرح کر رہا ہے،'' اے ہمارے نبی یقیناََآپ اخلاق کے عظیم ترین درجہ پر فائز ہیں(سورہ قلم آیت 4 )''۔اب کون اس پر اعتبار کرسکتا ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اللہ اپنے حبیب (ص) کے خلق عظیم کی ضمانت دے اور بعد میں مومن نابینا جوکہ نصیحت لینے آیا تھا سے منہ موڑکر کافرامیروں سے متوجہ رہنے پر مذمت کرے''(162) ۔ ان جیسی روایات پیش کرنے سے اہلسنت نے یہ عقیدہ اپنایا کہ نبی (ص) کی عصمت صرف وحی اور دین کے معاملات میں ہے۔مگر اللہ نے ہمیں متعلقاََ ( absolutely ) اور بلا کسی شرط کے نبی (ص) قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہی فرماتے ہیں جو انکو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے( سورہ نجم آیت 3۔ 4 )۔ اور اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ رسول (ص) جسکا حکم دیں وہ لے لو اور جسکومنع کریں اس سے رک جائو( القران)۔ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کی نبی (ص) کی عصمت متعلق ہے نہ کہ محدود۔ اگر نبیوں کو غلطی کرنے کی اجازت ہوتی تو امت کو پھر ان غلطیوں کا اتباع کرنے کا حکم ہوتا۔ یہ ایسی منطق ہے جسکے بیان سے ہم اللہ کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان روایات کی نشریات جن سے عصمت نبی (ص) مجروح ہوتی ہے،ان میں جعلسازوں کی کارستانی کا عمل دخل ہے تاکہ اس منصوبہ سے امت اسلامیہ کی چھبی مشکوک ہوجائے۔اس جعلسازی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان اصحاب کی پردہ پوشی کی جاسکے جنہوں نے اللہ کے رسول (ص) کوزندگی کے آخری ایام جن میں وہ بیمار تھے اور کاغذ و قلم مانگا تھا تاکہ امت کو گمراہی سے بچنے کیلئے نوشتہ لکھیں کو ہذیان بکنے کی تہمت دی۔تو اس کے بعد ایسی روایات دیکھنے میں کوئی اجنبیت نہیں ہے جنمیں کسی صحابی کو صحیح اور نبی (ص) کو(معازاللہ) غلط کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک روایت نزول حجاب (پردہ) سے منصوب ہے جس میں عمر ابن خطاب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی ازواج پر پردہ کرنے کیلئے کہتا ہے! انس بن مالک سے روایت ہے ،'' عمر نے فرمایا کہ ،' میں نے کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص)! آپ (ص) کے ہاں نیک اور برے لوگ آتے ہیں ،لہذا اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔عائشہ کہتی ہیں کہ نبی (ص) نے کوئی توجہ نہیں دی جس کی بنا پر اللہ نے اس کے لئے آیت نازل کی''(163) ۔

۹۵

اہلسنت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ منافقین کے نماز جنازہ کی ممانعت بھی عمر بن خطاب کی رائے پر نازل ہوئی اور کہتے ہیں کہ منافق عبداللہ بن اُبی کے نماز جنازہ کے لئے نبی (ص) کے اسرار کے خلاف عمر بن خطاب کی تائید میں یہ آیت نازل ہوئی۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ،'' جب عبداللہ بن ابی فوت ہواتو اسکا بیٹا رسول خدا (ص) کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) مجھے اپنی قمیص دیجئے تاکہ میں اپنے باپ کے لئے اسے کفن بناوں اور آپ (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھائیں اور دعائے مغفرت کریں آنحضرت (ص) نے اسے اپنی قمیص دیدی اور کہا ،''جب تم کفن دیکر فارغ ہوجائو تو اذان دیدینا۔ اور جب اذان دی گئی اللہ کے رسول (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھانے آئے جس پر عمر ابن خطاب نے آنحضرت (ص) کو ایک طرف کھینچا اور کہا ،'' کیا اللہ نے آپ (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھانے سے منع نہیں کیا ہے؟ اور کہا آپ اس کیلئے مغفرت چاہیں یا نہ چاہیں اور اگر آپ دعاء مغفرت کریں گے بھی تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کا انکار کیا ہے اور اللہ ہرگز باغیوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اور اے نبی(ص) تم کبھی بھی ان پر نماز جنازہ نہ پڑھانا جو مر جائے اور نہ اس کی قبر پر دعائے مغفرت کے لئے کھڑے ہوناکیونکہ انہوں نے اللہ اور اسکے رسول(ص) کا انکار کیا اور وہ مرے ہیں سرکشی کی حالت میں(توبہ آیت 8 4 )َ۔ خود عمر ابن خطاب سے ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے کہا،''۔۔میں پیغمبر خدا (ص) کے مقابل اپنی جرأت پر بہت زیادہ حیران تھا''(165) ۔اس واقعہ کی اصلی حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھنے اور مغفرت مانگنے کا حقِ اختیار اس آیہ شریفہ کے پس منظر میںدیا گیا تھا،'' ان کیلئے مغفرت مانگو یا مت مانگو اور اگر بہت بار بھی مانگو اللہ انکو بخشنے والا نہیں ہے(سورہ توبہ آیت 80)۔پیغمبر خدا (ص) نے اس خاص منافق پر نمازجنازہ پڑھنے کا فیصلہ ایک بڑے فائدہ کے لئے کیا تاکہ اسکے قبیلہ بنی خز رج کا دل جیت سکیں جن میں سے ایک ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔یہ نماز جنازہ ممانعت سے بہت پہلے پڑھی گئی۔

۹۶

مذکورہ آیت میں تم مغفرت مانگو یا نہ مانگو۔۔ میں ممانعت کا حکم نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر نے سمجھا اور جس کی بنا پر انہوں نے نبی (ص) پر اعتراض کیا اور غلط سمجھا۔ منافقوں پر نماز جنازہ کی ممانعت میں نازل ہوئی آیت کسی بھی صورت میں ثابت نہیں کرتی ہے کہ اللہ کے رسول (ص) عیاذاًباللہ عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھانے میں غلط تھے۔یہ اس وقت غلط ہوسکتا ہے اگر ایسا فعل ممانعت نازل ہونے کے بعد انجام دیا گیا ہو نہ کہ اس سے پہلے ۔

اس واقعہ کا کوئی مقصد نہیں ہے سوائے اس اظہار کے کہ عمر ابن خطاب کتنے غلط تھے اور یہ کہ وہ کس زوور شور سے رسول خدا(ص) پراعتراض کرتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے اور کہا،'' مجھ سے اسلام میں ایک ایسی غلطی ہوئی ہے جیسی کبھی نہیں ہوئی تھی اور وہ اس وقت ہوئی جب نبی رحمت (ص) نے نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔وغیرہ''(166) ۔ ایسا ہی واقعہ ہے جنگ بدر کے قیدیوں سے جزیہ( blood money ) وصول کرنے کا ۔۔۔۔ بقولِ اہلسنت پیغمبر خدا (ص) کو ان قیدیوں کو اس وقت قتل کرنے کے بجائے جزیہ لینے پر اللہ نے ڈانٹ پلائی جب عمر ابن خطاب نے انہیں قتل کرنا چاہا،جس پر یہ آیت عمر ابن خطاب کی تائید میں نازل ہوئی۔ اہلسنت یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر کے ساتھ روتے تھے انہوں نے کہا،'' عمر ابن خطاب سے ایک اختلاف کی وجہ سے ہم پر ایک عذابِ عظیم نازل ہونے والا تھا اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو اس سے صرف عمر ابن خطاب بچ پاتے''(167) ۔ ا س واقعہ کی حقیقت اس طرح ہے: پچھلی آیت صحابہ کو ڈانٹ پلاتی ہوئی جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی جنہوں نے ابو سفیان کے تجارتی کاروان کو ترجیح دی جب انہیں رسول خدا (ص) نے منافقین سے جنگ کرنے کے سلسلے میں ہونے والی تیاری اور آمادگی کے بارے میں مشورہ کے لئے طلب کیا تھا۔ اس آیت میں رسول (ص) کے ذریعے جنگی قیدی بنانے کے لئے ممانعت نہیں ہے بلکہ منافقین سے لڑنے سے پہلے ہی قیدی بنانے پر ممانعت ہے جو کہ کچھ صحابہ کا منشا تھا جن سے پیغمبر (ص) نے منافقین سے یا تو کاروان ضبط کرنے یا بھر جنگ کرنے کے بارے میں مشاورت کی تھی۔ اس پر یقین کرناکیسے مناسب ہوسکتا ہے کہ جو آیت ان کو ڈرانے کے لئے نازل ہوئی جو لڑنا نہیں چاہتے تھے پیغمبر خدا (ص) کو ڈانٹنے کے لئے نازل ہوئی جس نے پہلی ہی منافقین کو قتل کیا تھا؟!۔ قریش میں سے ستر(70) جانباز اس جنگ میں مارے گئے۔

۹۷

ابوہریرہ اور کثرتِ احادیث:

ابوہریرہ کے ذریعے بہت زیاد ہ حدیثیں مروی ہونے کی بنا پر میں نے ان کی زندگی کا کچھ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ محدثوں نے ایک رائے ہوکے قبول کیا ہے کہ ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) کے متعلق سب سے زیادہ احادیث بیان کی ہیں حالانکہ انہوں نے نبی (ص) کے ساتھ صرف ایک سال اور نو مہینے یا زیادہ سے زیادہ تین سال گذارے کتب اہلسنت میں اسکی 537 4 احادیث درج ہیں جنمیں صحیح بخاری کے 44 6 ہیں۔ ابوہریرہ نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ،'' کسی بھی صحابی رسول (ص) نے اتنی احادیث روایت نہیں کی ہیں جتنا کہ میں نے کی ہیں سوائے عبداللہ بن عمر کے کیونکہ وہ لکھ،پڑھ سکتے تھے(اور میں نہیں )''(168) ۔لیکن عبداللہ بن عمر نے کل722 احادیث روایت کی ہیں جن میں بخاری نے صرف سات اور مسلم نے بیس درج کی ہیں۔ ابوہریرہ اپنے سے مروی شدہ کثرت احادیث کی وجہ خود ہی ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے: میرے مہاجر اور انصار بھائی زیادہ تر تجارت اور کار و بار میں مشغول رہتے تھے ۔میں چونکہ مفلس تھا،اسی لیے رسول خدا(ص) کی بارگاہ میں اکثر بیٹھا رہتا تھا تاکہ اپنا پیٹ بھر سکوں اور وہ بھی حلال رزق سے۔اسطرح جب وہ غائب تھے،تومیں حاضر تھا اور جب وہ بھول گئے،میں یاد کر بیٹھا،''(169) ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے،'' کہ بھوک کی شدت سے میں اپنی پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور اپنے ساتھ قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا تاکہ آنجناب (ص) کچھ کھلائیں۔مسکینوں پر سب سے رحم دل جعفر بن ابو طالب تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لیجا کرکھلاتے تھے جو کچھ وہاں موجود ہوتا یہاں تک کہ وہ خوردنی سامان کے خالی ڈبے بھی لاتے تھے جس کو ہم کاٹ کر چاٹتے تھا(170) ۔

ابو ہریرہ نے جعفر ابن ابوطالب کے کھانا کھلوانے کی تعریف اسطرح کی: بعد از رسول (ص)جس کسی نے بھی چپل ُپہنی،یا گھوڑے کی سواری کی یا زمین پر قدم رکھا جعفر ابن ابی طالب سے بہتر کوئی نہیں تھا(171) ۔ تو ابوہریرہ نے جعفر بن ابو طالب کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دینے کیلئے کونسا معیار لاگوکیا؟! صحیح مسلم میں درج ہے کی عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کی پٹائی کی جب انہوںنے اسکو نبی(ص) سے یہ حدیث منسوب کرتے سنا،'' جس نے زبان سے لا الاہ الا اللہ کہا،وہ جنت میں داخل ہوگا '(172)

۹۸

ابن عبد البر نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ۔'' میں نے آپ سے وہ حدیثیں بیان کی ہیں جن کو میں اگر حضرت عمر کے زمانے میں بیان کرتا،وہ مجھے دُرے لگاتے''(173) ۔ فقہ کے راوی رشید رضا سے روایت ہے،'' اگر حضرت عمر اور زندہ رہتے (یعنی ابوہریرہ کے زندہ رہنے تک حیات رہتے) تو اتنی زیادہ حدیثیں ہم تک نہ پہنچ پاتیں''۔مصطفٰی صادق الرافی اسی لئے کہتاہے،''وہ ابوہریرہ ہی پہلا راوی تھا جس پر احادیث وضع کرنے کا الزام ہے''۔ جب جنگ صفین ہوئی،ابوہریرہ نے معاویہ کا ساتھ دیا اور اسکو بنی امیہ کی حمایت کرنے اور ان کے حق میں وضعی احادیث پھیلانے کی عوض میں بہت سا روپیہ ،پیسہ مل گیا۔ مروان بن حکم نے اس کو اسی لئے اپنا ڈپٹی اور شہر کا والی(گورنر) بنایا۔اسطرح اس کی مالی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ایوب بن محمد سے روایت ہے کہ اس نے کہا،'' ہم ایک دفعہ ابوہریرہ کے ساتھ تھے اور وہ دو خوبصو ت سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے اپنی ناک صاف کردی اور کہا،'' یہ کیسے ہوسکتا ہے؟! ابوہریرہ سوتی کپڑے پہن کر ناک صاف کرسکتا ہے؟! مجھے یاد ہے کہ میں منبررسول (ص) اور حجرہ ٔحضرت عائشہ کے نزدیک ترین بیٹھنے والا شخص ہوں جہاں میں ہوش و حواس کھو بیٹھتا تھا۔کوئی مجھے پاگل سمجھ آکے میری گردن پر پیر رکھتا تھا ،میں پاگل نہیں بلکہ بھوکا ہوتاتھا(174) ۔ بنی امیہ کی حمایت کی غرض سے اسنے جان بوجھ کر کچھ احادیث کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اسکی مالی معاونت ہی نہیں بلکہ اسکی جان بھی خطرہ میں پڑ سکتی تھی۔ ابوہریرہ اسکا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے،'' میں احادیث رسول (ص) دو تھیلیوں میں جمع کر چکا تھا۔ایک تھیلی کی احادیث میں نے بیان کی اور اگر میں دوسری تھیلی کی احادیث بھی بیان کرتا،میری گردن کب کی کٹ چکی ہوتی''(175) ۔

۹۹

اس بیان کا ابو ہریرہ کے دئیے ہوئے اس دوسرے بیان کے مقابلے میں کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے جس میں وہ خود کہتا ہے،''لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت زیادہ احادیث روایت کی ہیں۔اگر اللہ کی کتاب میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں ،میں کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرتا،''یقیناََ وہ لوگ ہمارے نازل کردہ واضح بیانات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں جسے ہم لوگوں کیلئے کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ان لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور اصلاح کر لیں اور جس کو چھپایا ہے اسکو واضح کردیں تو ان لوگوں کی میں توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں ''(بقرہ آیت 159۔160)(176) ۔

ان ناقابل تردید ثبوتوں سے ابوہریرہ کی ' اصلیت اور دیانتداری بحیثیت راوی بے نقاب ہوجاتی ہے اور اسکا ہمارے زمانے کے' سرکاری مبلغ ' جیساہونا ثابت ہوتا ہے

ابوہریرہ نے حضرت رسول خدا سے نقل کیا ہے ،'' جب ملک الموت کواللہ نے حضرت موسیٰ کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا،تو وہ ملک الموت سے جھگڑنے لگے اور ایسا طمانچہ مارا جس سے ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ملک الموت وہ آنکھ ہاتھ میں لئے ہوئے اللہ کے پاس واپس پہنچے اور شکایت کی کہ آپ نے مجھے ایک ایسے شخص کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔ اللہ نے جواب دیا کہ واپس جاکر موسیٰ سے کہو کہ ایک بیل پر ہاتھ رکھدو۔ اور ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیںہر بال کے بدلے ایک سال عمر میں اضافہ کیا جائے گا۔چنانچہ ملک الموت پھر حضرت موسیٰ کے پاس تشریف لائے اور ساری گفتگو کہہ سنائی اس پر حضرت موسیٰ نے اللہ سے پوچھاپالنے والے اس کے بعد کیا ہوگا؟ کہا موت: اس پر جناب موسیٰ بولے جب آخر موت ہے! تو آج ہی میری روح قبض کرلے اور اے اللہ مجھے ارض بیت المقدس کے قریب پہنچادے تاکہ روح وہیں قبض ہو ''(179) (یعنی موت دیدے)

۱۰۰