میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا37%

میں حسینی ہوگیا مؤلف:
: ابن حسین بن حیدر
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 158

میں حسینی ہوگیا
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 158 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51432 / ڈاؤنلوڈ: 4084
سائز سائز سائز
میں حسینی ہوگیا

میں حسینی ہوگیا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

جہاں تک انکا تعلق ہے جنہوں نے اس غلط نظریہ کو عام کرنے میں سخت محنت کی،انہوں نے ایسا اسلئے کیا کہ وہ اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ امام اپنے دعوئوں میں حق بجانب تھے۔ اس لئے ان قرآنی آیات اور مستنند احادیثِ رسول (ص) پردہ ڈالنے کی اشدضرورت تھی جن سے ان اماموں کی فضیلت عیاں ہوتی تھی تاکہ تمام صحابہ کی فضیلت کو بڑھا یا جائے جس سے فضیلتِ اہلبیت کو مدھم (کم)کیا جاسکے جس کی وجہ سے وہ امت کی رہبریت کیلئے اللہ اور رسول (ص) کے پسندیدہ تھے اور رحلت نبی (ص) کے بعدامتِ مسلمہ کے بھی ۔اوپربیان ہوئی جعلی حدیث کے متن اور مطلب ،جو کہتا ہے کہ''تمام صحابہ ستارے ''ہیں، اس حدیث ِ رسول (ص)کے بالمقابل وضع کیا گیا ہے جسمیں فرمایا گیا ہے کہ ،'' ستارے اہل زمین کو ڈوبنے سے امان دیتے ہیں جبکہ میرے اہلبیت لوگوں کو مذہبی فتنوں و فسادوں سے امان دیتے ہیں،اب اگر کوئی عرب قبیلہ ان کی مخالفت کریگا ،توہ اختلاف کا شکار ہوجائیگا اور ابلیس کی جماعت بنے گا ''(۱۲۹) ۔ تمام صحابہ کو عادل ماننے کا سب سے منفی اثر یہ ہوا کہ کتب احادیث ''غلط بیانات'' سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی جڑیں یہود اور نصاریٰ سے پیوست ہیں اور دوسرے توہمات (افسانات) جن سے ملتِ اسلامیہ کی چھبی مشکوک بنا کے پیش کی جاتی ہے۔ ایسی احادیث (بیانات) اسی بنا پر صحیح مان کرقبول کئے گئے کہ وہ صحابہ سے بیان ہوئے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے افعال قابل تنقیدہیں جیسا کہ پہلے ہی بہت سے واقعات میں بیان ہوا ہے۔

شیعہ اور قرآن مجید:

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ نبی(ص) پر نازل ہوئی ہے جس میں ہر شئے کا صاف صاف تذکرہ ہے۔ قرآن نبی (ص) کا دائمی معجزہ ہے جس کا مقابلہ کرنے سے بشر عاجز ہے،بلاغت میں،فصاحت میں اور ان مضامین میں جن پر یہ قرآن حاوی ہے حقائق و معارف عالیہ کی باتوں سے قرآن میں تبدیلی،تغیر و تحریف نہیں ہوسکتی اور یہ قرآن جو ہمارے سامنے ہے بعینہ وہی قرآن ہے جو نبی (ص) پر نازل ہوا ہے۔

۸۱

جو اسکے خلاف دعویٰ کریگا،وہ اجماع کے خلاف چلیگا،بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا ۔یا اسکو اشتباہ ہوگا اور اس قسم کے لوگ گمراہی پر ہونگے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے جس کے پاس باطل چیز آہی نہیں سکتی،آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی(۱۳۰) ۔ ایک عظیم شیعہ محدث شیح صدوق فرماتے ہیں:'' ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ قرآن جو اللہ نے اپنے آخری نبی (ص) پر نازل کیا وہی قرآن آج تمام لوگوںکے ہاتھوںمیںہے ،اس میں کوئی کمی و زیادتی نہیں ہوئی ہے۔جو شخص ہماری طرف تحریف کی نسبت دیتا ہے وہ جھوٹا ہے،(۱۳۱) ۔ اوپر دئیے گئے حوالات کی تصدیق کرتے ہوئے اخوان المسلمون( ( Muslim Brotherhood کے مشہور دانشور پروفیسر بہنصاوی(( Bahinsawi کہتے ہیں :''شیعہ جعفری ،اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی اس امت میں طلوعِ اسلام سے رائج قرآن کی تحریف کا قائل ہے،وہ کذاب ہے۔۔۔اہلسنت میں رائج قرآن وہی ہے جو شیعوں کے گھروں اور ان کی مساجد میں ہوتا ہے''۔ظہیر اورخطیب(شیعہ مخالف) کی تردید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ''جہاں تک امت مسلمہ کے معلومات ہیں ،قرآن میں کبھی بھی تحریف نہیں ہوئی ہے اور جو ہمارے پاس ہے،وہی قرآن ہے جو اللہ نے اپنے رسول (ص) پر نازل کیا ہے۔(۱۳۲)

شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاء عن العقیدہ الشریعہ و متاعن المستشرقین( a defense of faith and the islamic legislative system against the charges of the orientalists )

میں لکھتا ہے:''دانشوروں کی ایک محفل میں ،میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ شیعوں کے پاس اور کوئی قرآن ہے جو عام قرآن سے تھوڑا مختلف ہے۔میں نے اسے اسی وقت کہا؛''وہ قرآن کہاں ہے؟اور آج تک کسی انسان حتیٰ کہ کسی جن نے بھی اتنی لمبی تاریخ کے دوران نہیں دیکھا ہے؟ اور ایسا الزام کیوں تراشا جاتا ہے؟اور کیوں لوگوں اور وحی کے متعلق اتنے جھوٹ؟(۱۳۳) ۔ جہاں تک جھوٹی احادیث کا تعلق ہے جن پر کچھ لوگ بھروسہ کرکے کہتے ہیں کہ قرآن میںتحریف ہوئی ہے جو کہ شیعوں کی کتب احادیث میں درج ہے، ایسے الزامات سراسر رد کئے جاتے ہیں کیونکہ ایسی بہت ساری احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔علامہ نے حضرت عایشہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ:'' اللہ کے رسول (ص) نے رات کے وقت ایک آدمی کو ایک قرآنی سورہ تلاوت کرتے سنا اور اس سے کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے ! اس نے مجھے ایسی آیات یاد دلائیں۔۔۔(۱۳۴) ۔

۸۲

اس حدیث پر کون بھروسہ کرسکتا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو سارا قرآن یاد نہیں تھا اور وہ قرآن کی کچھ آیات بھول جاتے ہیں۔۔!علامہ بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے: زید بن ثابت سے روایت ہے ،''جب ہم نے تختیوں(قرانی نسخوں)کو جمع کرنا شروع کیا،میں نے سورہ احزاب میں ایک آیت کو کم پایا جو کہ میں اللہ کے رسول(ص) سے بارہا سن چکا تھا اور اسکو میں نے صرف خذیمہ الانصاری کے پاس پایا جس کو اللہ کے رسول(ص) نے ذوالشہادتین کے لقب سے نوازا ہے جسکی شہادت دو مومنوں کے برابر ہے۔۔۔جو اللہ کے ساتھ اپنے وعدہ میں سچے نکلے(۱۳۵) ۔صحیح بخاری میں ہی زید بن ثابت سے یہ روایت بھی درج ہے''۔۔۔اسطرح میں نے قرآن کاغذ کے اوراق،سبز پتوں اور حافظوں سے جمع کیا یہاں تک کہ میں سورہ ٔبرأت کی کچھ آیات صرف خذیمہ الانصاری کے بغیر کسی کے پاس نہیں پاسکا(۱۳۶) ۔ تو اس بیان کو اس حقیقت سے کیسے یگانیت ہوسکتی ہے جسمیں قران کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنا ثابت ہے ؟! اور بہت سی احادیث جو کہ بخاری اور اہلسنت کی دوسری صحیح کتابوں اور مسندوں میں بیان ہوئی ہیں ۔ صاف تحریف قرآن کی طرف اشارہ ملتا ہے جس میں ایک روایت عبداللہ بن عباس ،عمر ابن خطاب کے متعلق اسطرح منسوب کرتے ہیں ،'' عمر ابن خطاب باہر گئے۔میں نے انہیں آتے دیکھا اور سعد ابن زید ابن امر ابن نفیل سے میں نے کہا،' آج رات وہ(عمر) ایک ایسی بات بتائے گے جو انہوںنے خلیفہ بننے کے بعد سے آج تک کبھی نہیں بتائی ہے۔اس نے مجھ پر بھروسہ نہیں کیا اور کہا کہ وہ آج کون سی ایسی بات بتائے گے جو انہوں نے آج تک نہیں کہی ہے؟ جب موذن نے اذان تمام کی توعمر ابن خطاب منبر پر گئے اور خطبہ دینا شروع کیا: اللہ کی تعریف کرکے کہا،'' جو میں نے کہا ہے سو کہا ہے،سنو میں آج ایک خاص اعلان کرنے جارہا ہوں جو میرا فرض ہے۔میں نہیں جانتا ہوں کہ یہ شاید میںمرنے سے پہلے ہی بتاتا ہوں۔جو کوئی اسکو سمجھتا ہے اور اسکی اہمیت سے واقف ہے،وہ اسکو اپنے علاقے تک نشر کرتا جائے اور اگر کوئی ڈرتا ہو،اسکو درک نہیں کرسکتا اور میںاسے میرے بارے میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔اللہ نے محمد (ص) کو حق کے ساتھ معبوث کیا اور اس پر کتاب نازل کی جس میں آ یت رجم (سنگسار) بھی تھی جسکو ہم نے تلاوت کیا، سمجھ لیا اور اس پر عمل بھی کیا۔اللہ کے رسول نے رجم کیا اور ان کے بعدہم نے بھی کیا۔مجھے ڈر ہے کہ اگر بہت عرصہ گذر گیا اور لوگ کہیں گے کہ ہم اس قران میں آیت رجم نہیں پاتے ہیں وہ اسطرح اللہ کافرمان چھوڑنے اور اس پر عمل نہ کرنے کہ وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے۔اللہ کی کتاب میں رجم(سنگساری)سچ ہے ان شادی شدہ مرد اور عورتوں کے لئے جن پر بدکاری کرناثابت ہوجائے یا حمل آشکار ہوجائے یا جو اس فعل کا اقرار کریں''(۱۳۷) ۔

۸۳

بخاری میں ہی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے اس آیت کو موجودہ قرآن میں شامل کرنا چاہا جو اس نے خود اس خوف سے حذف کردی کہ لوگ کیا کہیں گے:''عمر نے کہا،' اگر یہ ممکن نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو میں خود اپنے ہاتھ سے اس آیتِ رجم کو قرآن میں لکھ لیتا اور پیغمبر خدا (ص) کے اس حکم کی تائید کرتا جسمیں چار شواہد ملنے پر بدکا رانسان کوسنگساری کا حکم ملتا تھا(۱۳۸) ۔جہاں تک ان آیاتِ بینات کا تعلق ہے،تو اس میں کہا گیا ہے،'' جہاں تک بزرگ مرد اور عورت کا بدکاری میں شا مل ہونا ثابت ہو جائے تو انکو پوری طرح سے سنگسار کرنا چاہئے(۱۳۹) ۔ سنن ابن ماجہ میں بھی یہ اسی طرح لکھا ہے۔

چونکہ ہم سب یک زبان ہوکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے،وہ تحریف سے پاک ہے تو عمر ابن خطاب کو مغالطہ ہوا ہوگا اور اس الجھن کا ماخذ اس آیت ِ رجم کا قرآن میں نہ ہونا بلکہ اس کا کتابِ '' تورات'' میں ہونے سے پیدا ہوا ہوگا جیسا کہ ابن عمر کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے ، ''ایک یہودی اور ایک یہودن جنہوں نے بدکاری کی تھی پیغمبر خدا (ص) کے پاس لائے گئے۔آنحضرت (ص) نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم ایسے (بدکاروں)سے کیا سلوک کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کا چہرہ کالا کرتے ہیں اور بے شرمی پر انکوملامت کرتے ہیں۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ توریت لاکر میرے سامنے تلاوت کرو اگر تم سچے ہو۔انہوں نے ایک کانے( one eyed ) آدمی کو اپنی مرضی سے بلایا اور اسکو تلاوت کیلئے کہا۔ جب وہ ایک آیت پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر ٹھہرا۔پیغمبر (ص) نے اس سے کہا کہ ہاتھ ہٹا،تو جب اس نے ہاتھ ہٹایا،آیت رجم صاف نظر آئی۔اس آدمی نے کہا،' اے محمد (ص) ! انہیں سنگسار کرنا ہے جبکہ ہم خود ہی اسے چھپاتے آئے ہیں۔پیغمبر خدا (ص) نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا''(۱۴۰) ۔ اس کاامکان ہے کہ عمر ابن خطاب کو اہل کتاب کی توریت اور اللہ کی مقدس کتاب(قرآن) میں مغالطہ ہوا ہے کو'' الجزری'' کی کتاب جسکا نام ہے'ہر ایک شیعہ کیلئے یہ میری نصیحت ہے ''( This is my advice to every shia ) میں درج بیان سے تقویت ملتی ہے۔ اس کتاب میں الجزری کہتاہے۔۔''ایسی تحریف شدہ کتابوں کی تلاوت کیسے ہوسکتی ہے جب اللہ کے رسول (ص) نے توریت کا ایک ورق ہاتھ میں لہرا کے عمر ابن خطاب کو ڈانٹ پلائی تھی اور کہا تھا ،'' کیا میں نے تمہیں صاف و شفاف اسلام پیش نہیں کیا ہے؟! اللہ کے رسول (ص) نے یہ منظور ہی نہ کیا کہ عمر توریت کے ایک ورق کی طرف بھی نظر کریگا''(۱۴۱) ۔

۸۴

بخاری میں یہ بھی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا ِ''ہم اللہ کی کتاب میں یہ آیت بھی پڑھتے تھے:''اگر تم اپنے والدین سے منہ موڑو گے،تو تم کافر ہو '' یا یہ کفر ہے کہ اگر تم والدین سے منہ موڑو گے''(۱۴۲) ۔یہ کوئی رازداری نہیں ہے کہ ان دونوں آیات کا قرآن میں کوئی وجود نہیں ہے۔عبداللہ ابن مسعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ یہ دونوں الفاظ '' ذکر( male )اور انثیٰ( female ) اس متبرک آیت میں شامل کرتا تھا:وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ ۹۲:۱ القمہ نے کہا ہے،''۔۔۔عبداللہ یہ کیسے پڑھتا ہے وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ؟ میں نے اسکو اسطرح سنایا :وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ وَ النَھَارِ اِذَاتَجَلیٰ وَمَاخَلَقَ الذَکَرَوَالاُنثیٰ ۔۔۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول (ص) نے مجھے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح تلاوت کی''(۱۴۳) ۔ بخاری نے ایک اور واقعہ اپنی صحیح میں درج کرکے ایک اور اختلاف کو جنم دیا ہے جب وہ اللہ کے رسول (ص) سے یہ منسوب کرتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ تلاوت قرآن چار آدمیوں سے سیکھو:عبداللہ ابن مسعود، سالم غلامِ ابو حدیبیہ،ابی ابن کعب اور معاذ بن جبل(۱۴۴) ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کے رسول (ص) ہمیں ان اشخاص سے تلاوت قرآن سیکھنے کا حکم دیں جوخودبھی اسے پوری طرح سے یاد نہیں کر پائے؟! ہم اس سوال کا جواب بخاری پر چھوڑدیتے ہیں اور ان پر بھی جو اس کے نقش قدم پر ٹہل رہے ہیں اور اسکی صحیح پر یقین کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حالت بھی ایسی ہی ہے،'' عائشہ سے روایت ہے کہ قرآن میں جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس میں یہ آیات بھی تھیں 'دس مشہور شیرخوار '' اللہ کے رسول (ص) نے وصال فرمایا اور وہ پھر بھی قران میں تلاوت کی جاتی تھیں(۱۴۵) ۔حضرت عایشہ کے اس دعوی میں ان لوگوں کو کڑا جواب ملاہے جو پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ قرآن کی تحریف کی گئی ہے ورنہ اس کا کیا مطلب ہے جب وہ کہتی ہیں کہ ان آیات کی تلاوت آنحضرت (ص) کے وصال کے بعد بھی جاری تھی؟! ابو اسود اپنے والد سے روایت کرتا ہے،'' ابو موسیٰ عشری نے بصرہ کے ان لوگوں کو پیغام بھیجا جو قرآن کی تلاوت جانتے تھے اور وہ تین سو نفر تھے۔ اس نے ا ن سے کہا:'' ہم ایک سورہ کی تلاوت کرتے تھے جو کہ تقریباََ سورہ ٔبرٔات(توبہ) جیسا بڑا تھا لیکن میں اس سے صرف یہ یاد رکھ پایا ہوں:اگر ابن آدم کو دو دولت بھری وادیاں مہیا ہوتیں،وہ تیسری کی تمنا کرتا اور ابن آدم کی پیٹ کو سوائے خاک کے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی ہے''(۱۴۶) ۔

۸۵

علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب 'اِتقان فی العلوم القران ' میں رقمطراز ہیں کہ کچھ احادیث قرآن میں صرف ایک سو بارہ ۱۱۲ سوروں کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ ایکسو چودہ ۱۱ ۴ کے علاوہ اور دو سوروں حفد اورخل ( Hafd and Khal )کا ذکر کرتے ہیں(۱۴۷) ۔

اوپر بیان کئے گئے واقعات سے کیا کوئی شیعہ اہلسنت کی طرف تحریف قرآن کے قائل ہونے کا الزام دیتا ہے۔ہرگز نہیں حالانکہ اہلسنت کی صحاح ستہ خاص کر بخاری اور مسلم میں ایسی روایت درج ہیں جنکو وہ ماننے کیلئے واجب جیسا اقرار کر چکے ہیں۔اس سب کا ما حصل صرف دو ممکنات ہیں اور کوئی تیسرا نہیں :

(۱):ایسی احادیث صحیح ہیں مگر ان میں راویوں کو مغالطہ ہوا ہے جنہوں نے انکی روایت کی ہیں جیسا کہ رجم(سنگساری) کے بارے میں ہے

(۲):ایسی احادیث صحیح نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے دوسرے احادیث سے صاف ظاہر ہے۔

اس طرح اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ہے کہ بخاری اور مسلم جیسی حدیث کتابوں پر ''صحیح '' ہونے پر نظر ثانی کی جائے۔

پھرہم اس زہریلے پروپگنڈے کو کیسے بیان کر پائیں گے جو کچھ قلم کاروں جیسے ظہیر،الخطیب اور ان جیسوں نے شیعوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ،اس بنیاد پر کہ ان کی کتابوں میں بھی کچھ ایسی ضعیف روایات پائی جاتی ہیں جنہیں شیعوں نے کب کا رد کیا ہے اس کے باجود کہ اہلسنت کی ان کتابوں میں اس سے زیادہ ایسی روایات موجود ہیں جنہیں صحیح کا درجہ دیا گیا ہے؟! کانچ سے نبے مکانوں کے مکینوں کو پختہ مکانوں میں رہنے والوں پر پتھر نہیں برسانے چاہیٔیں۔

۸۶

شیعہ اور سنت ِنبی (ص):

کچھ بیوقوفوں کے ذریعے شیعوں کے متعلق یہ جھوٹ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ شیعہ رسول خدا(ص) کی سنت کو رد کرتے ہیںجو کہ ایک ایسی بیہودہ تہمت ہے جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہم آگے شیعوں کا سنت رسول (ص) کے متعلق عقیدہ کے بارے میںکچھ سنی دانشوروں کے خیالات پیش کریں گے۔

اپنی کتاب '' امام جعفر صادق '' میں شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں ''تواتر کے ساتھ روایت شدہ سنت ان کے لئے ایک گواہی ہے جس کی معقولیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور علم تواتر ان کیلئے گہرے علم کی بنیاد پر منحصر ہے۔۔۔ پیغمبر خدا (ص) سے تواتر سے ثابت شدہ پیاری سنت کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ رسول (ص) کے لائے ہوئے پیغام کا انکار ہے۔ جہاں تک اماموں کے اقوال کا انکار ہے، تو وہ گمراہی ہے نہ کہ کفر''(۱۴۸) ۔ شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاع عن العقیدہ و الشریعہ فی المتاع ال مستشرقین ( a defence of doctrine and shariah against the charges of orientalists ) میں کہتے ہیں''ان جھوٹوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ بکتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے پیرو کار ہیں اور سنی حضرت محمد (ص) کے اور شیعوں کا عقیدہ ہے کی حضرت علی وحی کا زیادہ حقدار تھے یا یہ کہ وحی غلطی سے اوروں کی طرف چلی گئی، یہ قابل مذمت اور حد سے زیادہ بیہودہ تہمت ہے۔شیعہ پیغام محمدی (ص) پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور حضرت علی کا نبی (ص) کے ساتھ رشتے اور سنت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حق ادا کر ہے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ اگلی اور پچھلی امتوں میں کسی فرد کو اللہ کے رسول (ص) کے برابر نہیں مانتے ہیں۔ ایسا الزام ان کے ساتھ کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے'' ؟!(۱۴۹)

شیعوں اور سنیوں کے درمیان مرتبئہ صحیح سنت نبی (ص) کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے لیکن انہیں سنیوں سے اس میں اختلاف ہے کہ کیسے اور کس طریقے سے ایسی سنت زمانہ نبی (ص) کی نسل سے اگلی نسل تک پہنچائی جائے یا اسکو کیسے پرکھا جائے۔

۸۷

سنی حدیث کی سند کسی صحابی جس کی عدالت پر انہیں یقین ہے سے بیان کرنے کو کافی سمجھتے ہیں کیونکہ انکے ہاں سب صحابہ عادل ہیں۔ان کے یہاں جو بھی حدیث بخاری یا مسلم میں ہے اس پر کبھی بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ ان دو کتابوں کی حیثیت قرآن کے برابر کی ہوگئی ہے جہاں تک انکے صحیح ہونے کا مطلب ہے ورنہ اس کا کیا جواز ہے کہ اکثر سنی ان کتابوں میں درج بیانات کو سر آنکھوں پر لیتے ہیں؟! اس کی توثیق کیلئے ہم شارح صحیح مسلم شیخ ابو امر ابن صلاح کا ذکر کرتے ہیں جو مقدمہ نواع شرح مسلم میں لکھتے ہیں :'' جو سب امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح مانا ہے وہ بالکل مستند ہے۔ اسی طرح بخاری نے جو کچھ اپنی کتاب میں صحیح جانا ہے بالکل مستند ہے۔ یہ اسلئے ہے کہ قوم نے اسکو قبول کیا ہے سوائے ان کے کہ جن کو اجماع کے ذریعے بے توجہ سمجھا گیاہے۔'' وہ پھر کہتا ہے،'' ایک معصوم شخص کی رائے کو نہ چھوٹنے کی بنا پر قوم اپنے اجماع کے ذریعے غلطی کرنے سے محفوظ ہے۔''(۱۵۰)

شیعوں کیلئے سب سے پہلی شرط سنت کی سند اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں میں سے کسی ایک امام سے منسوب ہونا ضروری ہے جس کی بنیاد رسول خدا (ص) کے اس فرمان سے وابستہ ہے:'' میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہو گے ،تو تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے،ایک قرآن مجید اور دوسرے میرے اہلبیت،میری عترت''(۱۵۱) ۔ اور اس قرآنی آیت کی بنیاد پر '' بس اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلبیت رسول تم سے ہر رجس کو دور رکھے ''( احزاب ۳۳)۔دوسری بڑی شرط یہ ہے کہ حدیث کو قرانی آیت سے پرکھو کہ کہیں یہ قرآن کے مخالف نہ ہو اور پھر متنِ حدیث، سندِ حدیث اور تواترِ حدیث اور آخر میں عقل و منطق سے موازنہ کرنا۔ کسی بھی حدیث میں کسی ایک شرط کی کمی کی وجہ سے کافی غور و فکر کے بعد ہی قابل توجہ سمجھا جائے گا۔ شیعوں میں احادیث کی چار بڑی کتابیں ہیں، اصول کافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب اور استبصار۔ اور ان کتابوں کی تمام احادیث قابل تحقیق ہیں اس کے بجائے کہ انہیں آنکھ بند کرکے قبول کیا جائے جیسا کہ برادران اہلسنت کرتے ہیں۔

۸۸

شیعہ ا ن کتابوں میں درج سب احادیث کو صحیح نہیں مانتے ہیں کیونکہ شیعوں کے یہاں کسی بھی کتاب کو قرآن کے ہم پلہ کا درجہ نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اہلسنت بخاری اور مسلم کے بارے میں کہتے ہیں۔مثلاََکتاب '' مصادر الحدیث عند الشیعہ و الامامیہ

( sources of hadith according to shia imamia ( میں سید محمد حسین الجلالی اصول کافی میں درج احادیث کی تقسیم اس طرح کرتا ہے : کل احادیث ۱۶,۱۲۱ صحیح۵۰۷۳=،حسن,۳۰۲=قوی,۱۴۴=موثق۱۱۱۸=،اور ضعیف =۹۴۷۵=

کیسی شفافیت سے شیعہ دانشور کافی کے ہزاروں احادیث پرغور کرتے ہیں۔پھر وہ حقیقت کہاں ہے جو کچھ جھوٹے بکتے ہیں جیسے احسان ظہیر اور خطیب اور دعویٰ کرتے ہیں کہ شیعہ اصول کافی کو وہی درجہ دیتے ہیں جو اہلسنت بخاری کو دیتے ہیں۔ یہ دل ہلادینے والا جھوٹ ہے جو وہ اپنی زہریلی کتابوں میں لکھتے ہیں تاکہ کافی اور دوسری کتابوں میں درج ضعیف احادیث بحیثیت صحیح شیعوں کے ساتھ منسوب کرکے قاری کو گمراہ کریں اور شیعوں کو بدنام ۔۔

عصمت نبی (ص)دونوں مکاتب کی روشنی میں:

بہت سے جھوٹوں کے علاوہ کچھ مفادِ خصوصی رکھنے والے لوگ بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کو اللہ کے رسول (ص) پر ترجیح دیتے ہیں ۔میں نے اپنی تحقیق سے یہ پایا کہ شیعہ نبی پاک (ص) کے تقدس کے اتنے معتقد ہیں جو کہ اہلسنت عقیدے سے کافی بہتر ہے۔شیعہ نبی پاک (ص) کی سنت کے پورے پابند ہیں اور انکا عقیدہ ہے کہ جوبھی سنت رسول (ص) کا انکار کرے وہ کافر ہے۔وہ نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ شخصیت تصور کرتے ہیں۔ وہ اہلبیتِ رسول (ص) میں سے بارہ اماموں سے اس لئے وابستہ رہتے ہیں کہ وہ سنت رسول (ص) حاصل کرنے کا سب سے صحیح ذریعہ ہیں۔وہ عصمت نبی (ص) کے متعلق کوئی بھی شک و شبہ نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں آنحضرت (ص) زندگی کے ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں معصوم ہیں،اعلان نبوت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی۔

۸۹

اہلسنت بھی نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ مانتے ہیں مگر وہ آنجناب(ص) کو صرف دینی معاملوں میں معصوم مانتے ہیں جن میں اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ دوسرے معاملوں میں آنحضرت (ص) دوسرے عام لوگوں کی طرح ہے جہاں وہ صحیح اور غلط بھی ہوسکتے ہیں۔آئیے ہم آپ کو اہلسنت کی کتابوں جن کو انہوں نے قرآن کے بعد سب سے صحیح ہونے کا درجہ دیا ہے میں سے درج بیانات سے دکھایئں گے کہ انکے یہاں نبی پاک کی شبیہ کس طرح پیش کی گئی ہے۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ (ص) پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔۔۔۔یہاں تک کہ آپ (ص) کے پاس وحی آگئی اور آپ (ص) غار حرا میں تھے۔فرشتہ آپ (ص) کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو۔آپ (ص) نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبادیا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ (ص) فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے تین بار پکڑ کر زور سے دبایا اور کہا کہ پڑھو۔وہ (ص) کانپتے کانپتے واپس آئے اور حجرہ خدیجہ میں داخل ہوئے اور کہا مجھے کمبل اڑھادو۔ان پر کمبل ڈالا گیا یہاں تک کہ آپ (ص) کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ (ص) نے خدیجہ سے کہاکہ مجھے کیا ہوگیا ہے ؟خدیجہ آپ(ص) کو لیکر اپنے نصرانی چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عضٰی بن قصی جو کہ عربی زبان سے واقف تھا کے پاس لے گئیںجو انجیل مقدس کو عربی زبان میں لکھتا تھا جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا۔وہ بہت بوڑھا آدمی تھا اور اس کی بینائی جا چکی تھی۔اس سے خدیجہ نے کہا،اے میرے چچا کے بیٹے اپنے بھتیجے(محمد(ص)) سے ان کا حال سنو۔ورقہ نے کہا،اے میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھا؟رسول خدا (ص) نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا۔تو ورقہ نے آپ (ص) سے کہا کہ یہ فرشتہ ہے جسے اللہ نے موسیٰ پر نازل کیا۔اے کاش میں اس وقت اس زمانہ میں(جب آپ نبی ہونگے) زندہ ہوتا جب آپ (ص) کی قوم آپ کو(مکہ سے ) نکالے گی۔اللہ کے رسول (ص) نے یہ سن کر تعجب سے فرمایا:کیا وہ لوگ مجھے بیشک نکالیں گے؟(۱۵۲) ۔

۹۰

کیا اس کو عقل قبول کرسکتی ہے کہ رسول اللہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جو ان پر نازل ہوا وہ نبوت کا منصب تھا اور یہ کہ نصرانی ورقہ بن نوفل آنحضرت (ص) سے زیادہ صاحب علم تھا اور اسی نے آپ کو باخبر کیا ؟؟!

حضرت عائشہ آگے بیان کرتی ہیں جو کہ اس سے زیادہ افسوس ناک ہے جس سے بدن کانپتاہے۔۔۔۔۔''ورقہ مرگیا اور وحی آنا بند ہوگئی یہاں تک کہ رسول (ص)اللہ کو کافی صدمہ ہوا۔ہم نے محسوس کیا کہ اس صدمہ نے آنحضرت(ص) کو اس حد تک گھیر لیا کہ اکثر وہ حضرت (ص)پہاڑ کی چوٹی پر جاکر اپنے آپ کو گراناچاہتے تھے( یعنی خود کشی کرنا چاہتے تھے ،استغفراللہ۔۔مترجم)جبرائیل ان کے پا س آتے اور کہتے،'' اے محمد (ص) آپ بیشک پیغمبر ہیں!آنجناب (ص) کو کچھ راحت ملتی اور آپ واپس آجاتے تھے۔ اگر وحی آنے میں دیر لگتی تھی تووہ جناب (ص) وہی دہراتے تھے ،پہاڑ پر جاتے۔۔جبرائیل آکر اپنی بات پھر دہراتے''(۱۵۳) ۔

اور کیا کوئی مسلمان باور کرسکتا ہے کہ رسول (ص) ساراقرآن یاد نہیں رکھ پا رہے تھے؟ بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے:کہ اللہ کے رسول (ص) نے مسجد میں ایک آدمی کو قرآن پاک کی کوئی سورة تلاوت کرتے سنا اور کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں ،فلاں آیت یاد دلائی جو میں نے فلاں،فلاں سورة سے چھوڑدی تھی!(۱۵۴) ۔ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خدا (ص) بھول جاتے تھے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جنگ خندق کے موقعہ پر عمر بن خطاب آنحضرت (ص) کے پاس گئے اور کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)(ص) ،'' میں نماز پڑھنے کی تیاری میں تھا جب سورج غروب ہونے والا تھا جس کے بعد روزہ دار افطار کرنے والے تھے۔'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اللہ کی قسم تم نے پھر نہیں پڑھی ہے۔عمرابن خطاب کہتے ہیں کہ رسول (ص) میرے ساتھ نیچے وادی میں گئے۔ّآنجناب (ص)نے وضو فرمایااور نماز عصراداکی جب کہ سورج پہلے ہی غروب ہوچکا تھا اس کے بعد آنجناب (ص) نے نماز مغرب ادا کی ''(۱۵۵) ۔

۹۱

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،''نماز کیلئے اذان دی گئی،صف باندھی گئی اور اللہ کے رسول(ص) ہمارے سامنے آئے۔جب آنحضرت (ص) امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،تو انہیں یاد آیا کہ وہ مجنب(بے غسل) ہیں ہم سے فرمایا کی تم یہیں ٹھہرو تاکہ میں پہلے غسل کرکے آوئں۔وہ(ص) غسل کرکے آئے اور ان کے سرمبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔انہوں نے تکبیر کہی اور ہم نے انکے ساتھ نماز پڑھی''(۱۵۶) ۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے ہم کو نماز عصر صرف دو رکعات پڑھائی اور مسجد سے باہر آکر ایک لکڑی کی تختی پر اپنا ہاتھ رکھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بربنائے شرم ان سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔لوگ جلدی باہر آئے اور آنحضرت(ص) سے پوچھا: کیا نماز آدھی پڑھائی؟ ان میں سے ایک شخص ذُ لیدین تھا جس نے کہا: اے رسول (ص) آپ نے نماز ادھوری کیوں پڑھائی؟! نبی اکرم (ص) نے فرمایا: نہ ہی میں بھولا اور نہ ہی میں نے ادھوری نماز پڑھائی۔لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول (ص) بیشک آپ بھول گئے ہیں! اس پر رسول اکرم نے فرمایا،'' ذُلیدین نے صحیح کہا ہے''(۱۵۷) ۔

تعجب ہے! اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ ایک یہودی نے رسول (ص) کو جادو سے قابو کیا جس کی وجہ سے رسول (ص) کوایسے کا م انجام دے چکنے کا خیال آتا تھا جو کہ آنجناب نے نہیں کئے تھے! اور ان کو حضرت عائشہ سے پوچھنا پڑتاکہ آیا ان پر وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں! یا آیا وہ اپنی زوجہ کے پاس گئے ہیں یا نہیں ۔۔(افسوس صد افسوس مترجم) حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے،'' پیغمبر خدا (ص) بہت عرصہ تک اس خیال میں رہے کہ انہوں نے اپنی زوجہ سے صحبت کی ہے جب کہ حقیقاََ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ایک دفعہ آنجناب (ص) عائشہ نے مجھ سے کہا: اللہ نے مجھ پر ایک فیصلہ نازل کیا جس کے متعلق میں نے درخواست کی تھی۔دواشخاص میرے پاس آئے،ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائینتی کی طرف بیٹھا۔ پائینتی کی طرف بیٹھنے والے نے سرہانے کی طرف بیٹھنے والے شخص سے پوچھا،'' اس شخص ( محمد(ص)) کو کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا،'' اس پر جادو ہوگیا ہے۔دوسرے نے پوچھا،'' اس پر جادو کس نے کیا؟ اس نے جواب دیا: لبید ابن عصام''(۱۵۸)

۹۲

حضرت عائشہ سے بھی یہ روایت ہے کہ آ ّنحضرت(ص) پرسحر ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی حرکتیں کرنے کا گمان کرتے تھے جو کہ انہوں نے اس وقت تک نہیں کی تھیں ،جب وہ ایک دن میرے ساتھ تھے ،وہ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور پھر کہا،'' کیا تم نے دیکھا کی اللہ نے مجھ پر ایک ایسا فیصلہ نازل کیا جسکا میں نے سوال کیا؟''(۱۵۹) ۔

مشہور اہلسنت دانشور شیخ محمد عبدہ ان روایات کو مسترد کرتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ نبی کریم (ص) جادوگری کے شکار ہوئے کیونکہ یہ اس قرآنی آیت کے مخالف ہے ،'' بدذات لوگ کہتے ہیں کہ تم صرف ایک دیوانے کی پیروی کرتے ہو( سورة۔۔۔۔)۔ جہاں تک نبی رحمت (ص) کا اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے کا سوال ہے بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہشام سے روایت کی ہے کہ ،'' جب نبی رحمت (ص) بیمار تھے وہ اپنی بیویوں کے گرد گھوم گھوم کر عائشہ کے خاطرکہتے رہے: کل میں کہاں ہونگا؟ کل میں کہاں ہونگا؟ ۔ حضرت عائشہ نے کہا جب آنحضرت (ص) کی مجھ سے صحبت کرنے کی باری تھی،انہیں تسلی ہوئی''(۱۶۰) ۔ حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی بیویوں کے پاس جانا ہوتا تھا تو وہ قرعہ اندازی کا سہارا لیتے تھے اور جس بیوی کا نام نکلتا تھا وہ اسکے ساتھ جاتے تھے۔ ہر بیوی کو ایک دن اور رات ملتا تھا لیکن سودہ بنت زماہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دی۔ انس بن مالک سے روایت ہے،'' پیغمبر خدا رات دن ایک گھنٹہ میں گیارہ بیویوں کے پاس جاتے تھے'' انس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایسا کرنے کے قابل تھے؟! انس نے کہا ،'' ہاںہم ایسی باتیں کرتے کرتے کہتے تھے کہ آنحضرت (ص) کو تیس(۳۰) مردوں کی طاقت تھی''!(۱۶۱) ۔

۹۳

۱۳ اپریل ۲۰۱ ۴ بروز اتوار مرکزی جامعہ مسجد (حنفی)پلوامہ کشمیر میں سیرت نبی (ص) پر بولتے ہوئے دیوبند عالم مولانا مفتی نظیر احمد قاسمی جو دارالعلوم بانڈی پورہ کشمیر کے سربراہ ہیں اور مکتب دیوبند کشمیر کے قاضی القضاة ہیں نے صحیح بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: (سی ڈی سے نقل شدہ) نبی (ص) نے ایک جنگ میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ ، ۲: ۔نبی (ص) نے اپنے کمرہ میں ہی پیشاب کرنے کیلئے ایک برتن رکھا ہواتھا تاکہ ضرورت پڑنے پرخاص کر رات کے وقت کام آسکے۔۳: ۔نبی (ص) کی قوت مردانگی ایک سو جنتی افراد جیسی تھی جو کہ اس دنیا کے ہزار افراد کے برابر ہے۔ یہی روایات سلمان رشدی لعنتی نے اپنی شیطانی کتاب میں تحریر کرکے رسول محترم (ص) کی ذات مقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کی مترجم )

اہلسنت دعویٰ کرتے ہیں کہ نیچے دی گئی آیت نابینا عبداللہ بن مکتوم پر تیوری چڑھانے پر نبی کریم (ص) کہ مذمت میں نازل ہوئی۔ کہاجا تا ہے کہ نبی کریم (ص) عتبہ بن رابیہ،ابوجہل ابن ہشام اور عباس ابن عبدالمطلب کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جس دوران عبداللہ بن مکتوم آئے اور نبی رحمت (ص) سے الہٰی تعلیم کے خاطر کوئی قرآنی آیت سنانے کیلئے کہا جس پر آنجناب (ص) کوغصہ آیا کیونکہ انکی بات چیت میں خلل پڑ گیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا ،'' یہ خاص لوگ کہیں گے کہ نبی رحمت (ص) کا اتباع صرف غلام اور نابینا لوگ کرتے ہیں''۔اسلئے اللہ کے رسول(ص) اس کی طرف سے مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوئے جن کے ساتھ ہم کلام تھے۔آیات یہ ہیں :''وہ ترش رو ہوا اور منہ پھیر لیا،ایک نابینا کے آنے پر۔اور آپ کیا جانتے ہیں شاید وہ پاکیزگی اختیار کرتا ؟ یا وعظ و نصیحت اُسے فائدہ دیتی،اور جو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے''(سورہ عبس آیت ۱۔ ۴ )۔

شیعہ اس کہانی کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ آیات بنو امیہ کے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئیں جس نے نابینا سے منہ موڑ لیا تھانہ کہ نبی رحمت (ص) کے بارے میں۔علامہ سیدمحمد حسین طبا طبائی اپنی مشہور زمانہ تفسیر قران''المیزان '' میں فرماتے ہیں: یہ آیات قطعاًیہ ثابت نہیں کرتی ہیں کہ یہ آیات اللہ کے رسول (ص) سے مخاطب ہیں بلکہ اور کسی شخص کو مخاطب ہیں کیونکہ ماتھے پرتیوری چڑھانا نبیوں کی صفت نہیں ہے حالانکہ اپنے دشمنوں کے لئے بھی چہ جائیکہ ان مومنوں کے لئے جو کہ ہدایت کیلئے آتے ہیں۔

۹۴

اس کے علاوہ اس شخص کی مذمت غریب سے منہ موڑکر امیروں کی طرف متوجہ رہنے کی پاداش میں ہوئی ہیں جو کہ آداب نبی (ص) کے شایان شان نہیں ہے۔اور اللہ ااخلاق ِنبی (ص) کی تعریف اس طرح کر رہا ہے،'' اے ہمارے نبی یقیناََآپ اخلاق کے عظیم ترین درجہ پر فائز ہیں(سورہ قلم آیت ۴ )''۔اب کون اس پر اعتبار کرسکتا ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اللہ اپنے حبیب (ص) کے خلق عظیم کی ضمانت دے اور بعد میں مومن نابینا جوکہ نصیحت لینے آیا تھا سے منہ موڑکر کافرامیروں سے متوجہ رہنے پر مذمت کرے''(۱۶۲) ۔ ان جیسی روایات پیش کرنے سے اہلسنت نے یہ عقیدہ اپنایا کہ نبی (ص) کی عصمت صرف وحی اور دین کے معاملات میں ہے۔مگر اللہ نے ہمیں متعلقاََ ( absolutely ) اور بلا کسی شرط کے نبی (ص) قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہی فرماتے ہیں جو انکو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے( سورہ نجم آیت ۳۔ ۴ )۔ اور اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ رسول (ص) جسکا حکم دیں وہ لے لو اور جسکومنع کریں اس سے رک جائو( القران)۔ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کی نبی (ص) کی عصمت متعلق ہے نہ کہ محدود۔ اگر نبیوں کو غلطی کرنے کی اجازت ہوتی تو امت کو پھر ان غلطیوں کا اتباع کرنے کا حکم ہوتا۔ یہ ایسی منطق ہے جسکے بیان سے ہم اللہ کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان روایات کی نشریات جن سے عصمت نبی (ص) مجروح ہوتی ہے،ان میں جعلسازوں کی کارستانی کا عمل دخل ہے تاکہ اس منصوبہ سے امت اسلامیہ کی چھبی مشکوک ہوجائے۔اس جعلسازی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان اصحاب کی پردہ پوشی کی جاسکے جنہوں نے اللہ کے رسول (ص) کوزندگی کے آخری ایام جن میں وہ بیمار تھے اور کاغذ و قلم مانگا تھا تاکہ امت کو گمراہی سے بچنے کیلئے نوشتہ لکھیں کو ہذیان بکنے کی تہمت دی۔تو اس کے بعد ایسی روایات دیکھنے میں کوئی اجنبیت نہیں ہے جنمیں کسی صحابی کو صحیح اور نبی (ص) کو(معازاللہ) غلط کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک روایت نزول حجاب (پردہ) سے منصوب ہے جس میں عمر ابن خطاب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی ازواج پر پردہ کرنے کیلئے کہتا ہے! انس بن مالک سے روایت ہے ،'' عمر نے فرمایا کہ ،' میں نے کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص)! آپ (ص) کے ہاں نیک اور برے لوگ آتے ہیں ،لہذا اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔عائشہ کہتی ہیں کہ نبی (ص) نے کوئی توجہ نہیں دی جس کی بنا پر اللہ نے اس کے لئے آیت نازل کی''(۱۶۳) ۔

۹۵

اہلسنت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ منافقین کے نماز جنازہ کی ممانعت بھی عمر بن خطاب کی رائے پر نازل ہوئی اور کہتے ہیں کہ منافق عبداللہ بن اُبی کے نماز جنازہ کے لئے نبی (ص) کے اسرار کے خلاف عمر بن خطاب کی تائید میں یہ آیت نازل ہوئی۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ،'' جب عبداللہ بن ابی فوت ہواتو اسکا بیٹا رسول خدا (ص) کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) مجھے اپنی قمیص دیجئے تاکہ میں اپنے باپ کے لئے اسے کفن بناوں اور آپ (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھائیں اور دعائے مغفرت کریں آنحضرت (ص) نے اسے اپنی قمیص دیدی اور کہا ،''جب تم کفن دیکر فارغ ہوجائو تو اذان دیدینا۔ اور جب اذان دی گئی اللہ کے رسول (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھانے آئے جس پر عمر ابن خطاب نے آنحضرت (ص) کو ایک طرف کھینچا اور کہا ،'' کیا اللہ نے آپ (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھانے سے منع نہیں کیا ہے؟ اور کہا آپ اس کیلئے مغفرت چاہیں یا نہ چاہیں اور اگر آپ دعاء مغفرت کریں گے بھی تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کا انکار کیا ہے اور اللہ ہرگز باغیوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اور اے نبی(ص) تم کبھی بھی ان پر نماز جنازہ نہ پڑھانا جو مر جائے اور نہ اس کی قبر پر دعائے مغفرت کے لئے کھڑے ہوناکیونکہ انہوں نے اللہ اور اسکے رسول(ص) کا انکار کیا اور وہ مرے ہیں سرکشی کی حالت میں(توبہ آیت ۸ ۴ )َ۔ خود عمر ابن خطاب سے ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے کہا،''۔۔میں پیغمبر خدا (ص) کے مقابل اپنی جرأت پر بہت زیادہ حیران تھا''(۱۶۵) ۔اس واقعہ کی اصلی حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھنے اور مغفرت مانگنے کا حقِ اختیار اس آیہ شریفہ کے پس منظر میںدیا گیا تھا،'' ان کیلئے مغفرت مانگو یا مت مانگو اور اگر بہت بار بھی مانگو اللہ انکو بخشنے والا نہیں ہے(سورہ توبہ آیت ۸۰)۔پیغمبر خدا (ص) نے اس خاص منافق پر نمازجنازہ پڑھنے کا فیصلہ ایک بڑے فائدہ کے لئے کیا تاکہ اسکے قبیلہ بنی خز رج کا دل جیت سکیں جن میں سے ایک ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔یہ نماز جنازہ ممانعت سے بہت پہلے پڑھی گئی۔

۹۶

مذکورہ آیت میں تم مغفرت مانگو یا نہ مانگو۔۔ میں ممانعت کا حکم نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر نے سمجھا اور جس کی بنا پر انہوں نے نبی (ص) پر اعتراض کیا اور غلط سمجھا۔ منافقوں پر نماز جنازہ کی ممانعت میں نازل ہوئی آیت کسی بھی صورت میں ثابت نہیں کرتی ہے کہ اللہ کے رسول (ص) عیاذاًباللہ عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھانے میں غلط تھے۔یہ اس وقت غلط ہوسکتا ہے اگر ایسا فعل ممانعت نازل ہونے کے بعد انجام دیا گیا ہو نہ کہ اس سے پہلے ۔

اس واقعہ کا کوئی مقصد نہیں ہے سوائے اس اظہار کے کہ عمر ابن خطاب کتنے غلط تھے اور یہ کہ وہ کس زوور شور سے رسول خدا(ص) پراعتراض کرتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے اور کہا،'' مجھ سے اسلام میں ایک ایسی غلطی ہوئی ہے جیسی کبھی نہیں ہوئی تھی اور وہ اس وقت ہوئی جب نبی رحمت (ص) نے نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔وغیرہ''(۱۶۶) ۔ ایسا ہی واقعہ ہے جنگ بدر کے قیدیوں سے جزیہ( blood money ) وصول کرنے کا ۔۔۔۔ بقولِ اہلسنت پیغمبر خدا (ص) کو ان قیدیوں کو اس وقت قتل کرنے کے بجائے جزیہ لینے پر اللہ نے ڈانٹ پلائی جب عمر ابن خطاب نے انہیں قتل کرنا چاہا،جس پر یہ آیت عمر ابن خطاب کی تائید میں نازل ہوئی۔ اہلسنت یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر کے ساتھ روتے تھے انہوں نے کہا،'' عمر ابن خطاب سے ایک اختلاف کی وجہ سے ہم پر ایک عذابِ عظیم نازل ہونے والا تھا اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو اس سے صرف عمر ابن خطاب بچ پاتے''(۱۶۷) ۔ ا س واقعہ کی حقیقت اس طرح ہے: پچھلی آیت صحابہ کو ڈانٹ پلاتی ہوئی جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی جنہوں نے ابو سفیان کے تجارتی کاروان کو ترجیح دی جب انہیں رسول خدا (ص) نے منافقین سے جنگ کرنے کے سلسلے میں ہونے والی تیاری اور آمادگی کے بارے میں مشورہ کے لئے طلب کیا تھا۔ اس آیت میں رسول (ص) کے ذریعے جنگی قیدی بنانے کے لئے ممانعت نہیں ہے بلکہ منافقین سے لڑنے سے پہلے ہی قیدی بنانے پر ممانعت ہے جو کہ کچھ صحابہ کا منشا تھا جن سے پیغمبر (ص) نے منافقین سے یا تو کاروان ضبط کرنے یا بھر جنگ کرنے کے بارے میں مشاورت کی تھی۔ اس پر یقین کرناکیسے مناسب ہوسکتا ہے کہ جو آیت ان کو ڈرانے کے لئے نازل ہوئی جو لڑنا نہیں چاہتے تھے پیغمبر خدا (ص) کو ڈانٹنے کے لئے نازل ہوئی جس نے پہلی ہی منافقین کو قتل کیا تھا؟!۔ قریش میں سے ستر(۷۰) جانباز اس جنگ میں مارے گئے۔

۹۷

ابوہریرہ اور کثرتِ احادیث:

ابوہریرہ کے ذریعے بہت زیاد ہ حدیثیں مروی ہونے کی بنا پر میں نے ان کی زندگی کا کچھ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ محدثوں نے ایک رائے ہوکے قبول کیا ہے کہ ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) کے متعلق سب سے زیادہ احادیث بیان کی ہیں حالانکہ انہوں نے نبی (ص) کے ساتھ صرف ایک سال اور نو مہینے یا زیادہ سے زیادہ تین سال گذارے کتب اہلسنت میں اسکی ۵۳۷ ۴ احادیث درج ہیں جنمیں صحیح بخاری کے ۴۴ ۶ ہیں۔ ابوہریرہ نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ،'' کسی بھی صحابی رسول (ص) نے اتنی احادیث روایت نہیں کی ہیں جتنا کہ میں نے کی ہیں سوائے عبداللہ بن عمر کے کیونکہ وہ لکھ،پڑھ سکتے تھے(اور میں نہیں )''(۱۶۸) ۔لیکن عبداللہ بن عمر نے کل۷۲۲ احادیث روایت کی ہیں جن میں بخاری نے صرف سات اور مسلم نے بیس درج کی ہیں۔ ابوہریرہ اپنے سے مروی شدہ کثرت احادیث کی وجہ خود ہی ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے: میرے مہاجر اور انصار بھائی زیادہ تر تجارت اور کار و بار میں مشغول رہتے تھے ۔میں چونکہ مفلس تھا،اسی لیے رسول خدا(ص) کی بارگاہ میں اکثر بیٹھا رہتا تھا تاکہ اپنا پیٹ بھر سکوں اور وہ بھی حلال رزق سے۔اسطرح جب وہ غائب تھے،تومیں حاضر تھا اور جب وہ بھول گئے،میں یاد کر بیٹھا،''(۱۶۹) ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے،'' کہ بھوک کی شدت سے میں اپنی پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور اپنے ساتھ قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا تاکہ آنجناب (ص) کچھ کھلائیں۔مسکینوں پر سب سے رحم دل جعفر بن ابو طالب تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لیجا کرکھلاتے تھے جو کچھ وہاں موجود ہوتا یہاں تک کہ وہ خوردنی سامان کے خالی ڈبے بھی لاتے تھے جس کو ہم کاٹ کر چاٹتے تھا(۱۷۰) ۔

ابو ہریرہ نے جعفر ابن ابوطالب کے کھانا کھلوانے کی تعریف اسطرح کی: بعد از رسول (ص)جس کسی نے بھی چپل ُپہنی،یا گھوڑے کی سواری کی یا زمین پر قدم رکھا جعفر ابن ابی طالب سے بہتر کوئی نہیں تھا(۱۷۱) ۔ تو ابوہریرہ نے جعفر بن ابو طالب کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دینے کیلئے کونسا معیار لاگوکیا؟! صحیح مسلم میں درج ہے کی عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کی پٹائی کی جب انہوںنے اسکو نبی(ص) سے یہ حدیث منسوب کرتے سنا،'' جس نے زبان سے لا الاہ الا اللہ کہا،وہ جنت میں داخل ہوگا '(۱۷۲)

۹۸

ابن عبد البر نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ۔'' میں نے آپ سے وہ حدیثیں بیان کی ہیں جن کو میں اگر حضرت عمر کے زمانے میں بیان کرتا،وہ مجھے دُرے لگاتے''(۱۷۳) ۔ فقہ کے راوی رشید رضا سے روایت ہے،'' اگر حضرت عمر اور زندہ رہتے (یعنی ابوہریرہ کے زندہ رہنے تک حیات رہتے) تو اتنی زیادہ حدیثیں ہم تک نہ پہنچ پاتیں''۔مصطفٰی صادق الرافی اسی لئے کہتاہے،''وہ ابوہریرہ ہی پہلا راوی تھا جس پر احادیث وضع کرنے کا الزام ہے''۔ جب جنگ صفین ہوئی،ابوہریرہ نے معاویہ کا ساتھ دیا اور اسکو بنی امیہ کی حمایت کرنے اور ان کے حق میں وضعی احادیث پھیلانے کی عوض میں بہت سا روپیہ ،پیسہ مل گیا۔ مروان بن حکم نے اس کو اسی لئے اپنا ڈپٹی اور شہر کا والی(گورنر) بنایا۔اسطرح اس کی مالی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ایوب بن محمد سے روایت ہے کہ اس نے کہا،'' ہم ایک دفعہ ابوہریرہ کے ساتھ تھے اور وہ دو خوبصو ت سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے اپنی ناک صاف کردی اور کہا،'' یہ کیسے ہوسکتا ہے؟! ابوہریرہ سوتی کپڑے پہن کر ناک صاف کرسکتا ہے؟! مجھے یاد ہے کہ میں منبررسول (ص) اور حجرہ ٔحضرت عائشہ کے نزدیک ترین بیٹھنے والا شخص ہوں جہاں میں ہوش و حواس کھو بیٹھتا تھا۔کوئی مجھے پاگل سمجھ آکے میری گردن پر پیر رکھتا تھا ،میں پاگل نہیں بلکہ بھوکا ہوتاتھا(۱۷۴) ۔ بنی امیہ کی حمایت کی غرض سے اسنے جان بوجھ کر کچھ احادیث کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اسکی مالی معاونت ہی نہیں بلکہ اسکی جان بھی خطرہ میں پڑ سکتی تھی۔ ابوہریرہ اسکا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے،'' میں احادیث رسول (ص) دو تھیلیوں میں جمع کر چکا تھا۔ایک تھیلی کی احادیث میں نے بیان کی اور اگر میں دوسری تھیلی کی احادیث بھی بیان کرتا،میری گردن کب کی کٹ چکی ہوتی''(۱۷۵) ۔

۹۹

اس بیان کا ابو ہریرہ کے دئیے ہوئے اس دوسرے بیان کے مقابلے میں کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے جس میں وہ خود کہتا ہے،''لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت زیادہ احادیث روایت کی ہیں۔اگر اللہ کی کتاب میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں ،میں کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرتا،''یقیناََ وہ لوگ ہمارے نازل کردہ واضح بیانات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں جسے ہم لوگوں کیلئے کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ان لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور اصلاح کر لیں اور جس کو چھپایا ہے اسکو واضح کردیں تو ان لوگوں کی میں توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں ''(بقرہ آیت ۱۵۹۔۱۶۰)(۱۷۶) ۔

ان ناقابل تردید ثبوتوں سے ابوہریرہ کی ' اصلیت اور دیانتداری بحیثیت راوی بے نقاب ہوجاتی ہے اور اسکا ہمارے زمانے کے' سرکاری مبلغ ' جیساہونا ثابت ہوتا ہے

ابوہریرہ نے حضرت رسول خدا سے نقل کیا ہے ،'' جب ملک الموت کواللہ نے حضرت موسیٰ کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا،تو وہ ملک الموت سے جھگڑنے لگے اور ایسا طمانچہ مارا جس سے ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ملک الموت وہ آنکھ ہاتھ میں لئے ہوئے اللہ کے پاس واپس پہنچے اور شکایت کی کہ آپ نے مجھے ایک ایسے شخص کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔ اللہ نے جواب دیا کہ واپس جاکر موسیٰ سے کہو کہ ایک بیل پر ہاتھ رکھدو۔ اور ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیںہر بال کے بدلے ایک سال عمر میں اضافہ کیا جائے گا۔چنانچہ ملک الموت پھر حضرت موسیٰ کے پاس تشریف لائے اور ساری گفتگو کہہ سنائی اس پر حضرت موسیٰ نے اللہ سے پوچھاپالنے والے اس کے بعد کیا ہوگا؟ کہا موت: اس پر جناب موسیٰ بولے جب آخر موت ہے! تو آج ہی میری روح قبض کرلے اور اے اللہ مجھے ارض بیت المقدس کے قریب پہنچادے تاکہ روح وہیں قبض ہو ''(۱۷۹) (یعنی موت دیدے)

۱۰۰

معاویہ چاہتا تھا کہ توحید اور وحدانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ توحید کے بزرگ جانثار، کہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ہوگئے ،ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا او رناسزا کہے،.

سعدوقاص باطنی طور پر امام کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔ جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ہوئے سب لوگوںنے تہہ دل سے امیر المومنین کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا. سوائے چند افراد کے جنھوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھاکہ سعد وقاص بھی انھیں میں سے ایک تھا.جب عمار نے اسے حضرت علی کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا.عمار نے اس واقعے کو ا مام کی خدمت میں عرض کیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: حسد نے اس کو میری بیعت اور میرا ساتھ دینے سے روک دیا ہے۔

سعد ،امام علیہ السلام کا اتنا سخت مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل دینے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص او ر عبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اور عثمان کا بہنوئی، کو شوری کے عہدہ داروں میں قرار دیا. شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمر، شوری تشکیل دیکر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ہیں ، چاہتا ہے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یہی ہواکہ جس کی پیشنگوئی ہوئی تھی۔

سعد نے ،امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود جب دیکھا کہ معاویہ، علی ـ کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کر رہا ہے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

مجھے اپنے تخت پر بٹھاکر میرے سامنے علی کو برا کہتا ہے ؟ خدا کی قسم اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی تواس سے بہتر ہوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں میری ملکیت میں ہوتیں ۔

۱۔ جس دن پیغمبر نے مدینے میں اسے اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک پرچلے گئے اور علی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

۱۰۱

۲۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ تھا تو پیغمبر نے علی ، فاطمہ، حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا: پروردگارا یہی میرے اہلبیت ہیں۔

۳۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ''قموص'' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی صلاحیت نہ تھی، اور رسول اسلام کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے تاکہ فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ عَلَم کو لیتے اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے .ایک دن عَلَم کو ابوبکر کے ہاتھ میںدیا پھر دوسرے دن عمر کو دیا لیکن دونوں کسی شجاعت کا مظاہرہ کئے بغیر رسول خدا کی خدمت میں واپس آگئے. اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ،اس طرح کی ناکامی پیغمبر خدا کے لئے بہت سخت تھی، لہٰذا آپ نے فرمایا:

''کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ہوںگے اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا''

۱۰۲

جب پیغمبر کی بات کو حضرت علی سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا''اَلَلَّهُمَّ لٰامُعْطِیْ لِمٰا مَنَعْتَ وَ لٰامٰانِعَ لِمٰا اَعْطَیْتَ'' یعنی پروردگارا، جو کچھ عطاکرے گا اسے کوئی لینے والا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔

(سعد کا بیان ہے) جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتا ہے جب پیغمبر خیمے سے باہر آئے سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے میں (سعد)پیغمبر کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید ا س افتخار کا مصداق میں بن جاؤں، اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ہوجائے .اسی اثناء میںپیغمبر نے پوچھا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں. پیغمبر کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبر کی خدمت میں لائے. پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی اس وقت پیغمبر نے اپنی زرہ حضرت علی کو پہنایا،ذو الفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوںمیں دیااور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا، اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جز یہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں. اور اپنے مذہب پر باقی رہیں. اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ،اور جان لو کہ جب بھی خداوند عالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ہوں او رانھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔(۱)

سعد بن وقاص نے ان واقعات کو جن کو میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے مختصر طور پر بیان کیا اور احتجاج کے طور پر معاویہ کی مجلس ترک کری۔

______________________

(۱) صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۔ ۲۲، صحیح مسلم ج۷ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵، قاموس الرجال ج۴ ص ۳۱۴منقول از مروج الذہب

۱۰۳

خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی

اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے حضرت امیر المومنین کی جانثاریوں کے طفیل عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا. یہی وجہ ہے کہ امام کو ''فاتح خیبر'' کہتے ہیں. جب امام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا قلعہ کے پاس پہونچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا، اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاہی باہر چلے گئے. مرحب کا بھائی حارث نعرہ لگاتا ہوا حضرت علی کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاہی حضرت علی کے ہمراہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے او رحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی پر حملہ کیا لیکن کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔

بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی کے سامنے میدان میں آیا، وہ اسلحوں سے لیس تھا. لوہے کی بہترین زرہ اور پتھر کاخود اپنے سر پر رکھے تھا اورایک اور خود اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا، دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا. اسلام و یہودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ہوئی اور اس کو دو ٹکڑے کرتے

ہوئے زمین پر گرادیا. یہودی بہادرکا جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھا وہ بھاگ گیا اور وہ گروہ جو حضرت علی سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوںنے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ہوگئے۔

اب وہ وقت آپہونچا کہ امام قلعہ میں داخل ہوں مگر بند در وازہ امام اور سپاہیوں کے لئے مانع ہوا غیبی طاقت سے آپ نے باب خیبر کو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاہیوں کے داخل ہونے کے لئے راستہ ہموار کردیااور اس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شر یر اور خطرناک عناصر جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں رکھتے یا رکھے ہیں آسودہ کردیا۔(۱)

______________________

(۱) محدثین اور سیرت لکھنے والوں نے فتح خیبر کی خصوصیات اور امام کے قلعہ میں داخل ہونے اور اس واقعہ کے دوسرے حادثات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے دلچسپی اور تفصیلات کے خواہشمند افرادان کتابوں کی طرح مراجعہ کریں جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین ـ کی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت

ابھی ہم نے حضرت علی کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔

تمام افتخارات میں سے ایک افتخار امام کے لئے یہ بھی ہے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبر کے ساتھ ساتھ اور ہمیشہ لشکر کے علمبردار رہے سوائے جنگ تبوک کے ، کیونکہ آپ پیغمبر کے حکم سے مدینہ میں موجودتھے اور پیغمبر اسلام منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے .اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی سے فرمایا: تم میرے اہلبیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ہو. او رمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نہیں رکھتا۔

حضرت علی کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا، لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ افواہ اڑا دی کہ پیغمبراور حضرت علی کے درمیان کشیدگی ہے اور حضرت علی نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ہے۔

ابھی پیغمبر مدینے سے زیادہ دور نہیں ہوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی ـ

ان کی تہمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں پہونچے اور حضرت سے پورا ماجرا بیا ن کیا. پیغمبر نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے حضرت کو تسلی دی اور فرمایا:

۱۰۵

''اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی''

کیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱)

اس حدیث ، جسے دانشمندوں کی اصطلاح میں، حدیث ''منزلت'' کہتے ہیں،نے تمام وہ منصب جو ہارون کے پاس تھے حضرت علی کے لئے ثابت کردیا سوائے نبوت کے کیونکہ نبوت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ہے جسے محدثین اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے:۔

حضرت علی کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن وقاص نے بیان کیا ہے وہ پیغمبر کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ تھا، ان لوگوں نے پیغمبر سے مسیحیت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نہیں کیا لیکن مباہلہ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔

مباہلہ کا وقت آیا پیغمبر نے اپنے اعزاء میں سے صرف چار آدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی واقعے میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن و حسین کے کوئی اور نہ تھا. کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اورایمان میں محکم نہیں تھا۔

پیغمبر اسلام میدان مباہلہ میں عجب شان سے آئے اپنی آغوش میں امام حسین کو لئے ہوئے تھے، ایک ہاتھ سے امام حسن کی انگلیاں پکڑے تھے اور فاطمہ اور حضرت علی آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے وہاںپہونچنے سے پہلے اپنے ہمراہیوں سے کہا میں جب بھی دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۲ ص ۵۲۰، بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۰۷، مرحوم شرف الدین نے اپنی کتاب ''المراجعات'' میں اس حدیث کے تمام ماخذ کو ذکر کیا ہے۔

۱۰۶

پیغمبر کا نوارانی چہرہ اور چار افراد کا چہرہ جن میںتین آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں، نے ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبہوت ہوگئے عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگریہ بددعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ہوئے جہنم میں تبدیل ہو جائے اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے لہٰذا انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیااور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔

عائشہ کہتی ہیں:

مباہلہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چار ہمراہیوں کواپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّمٰا یُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

زمخشری کہتے ہیں:

مباہلہ کا واقعہ اور اس آیت کا مفہوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بڑے گواہ ہیں اور مذہب اسلام کی حقانیت پر ایک اہم سند اور زندہ مثال شمار ہوتے ہیں۔(۱)

______________________

(۱) کشاف ج۱ ص ۲۸۲۔ ۲۸۳، تفسیر امام رازی ج۲ ص ۴۷۱۔ ۴۷۲

۱۰۷

آٹھویں فصل

دشمنوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :'' علی ـ احکام خداوندی کے جاری کرنے میں بہت زیادہ غور و فکر اور سختی سے عمل کرتے تھے اور ہرگز ان کی زندگی میں چاپلوسی اور خوشامدی کا دخل نہیں تھا''

جو لوگ اپنی زندگی میں پاکیزہ مقصد کی تلاش میں رہتے ہیںوہ دن رات اس کی تلاش و جستجو کرتے رہتے ہیں، اور ان چیزوں کے مقابلے میں جو ان کے ہدف کی مخالف ہوں ان سے بے توجہ بھی نہیں رہتے ہیں. یہ لوگ ہدف تک پہونچنے میں جو راستہ طے کرتے ہیں اس میں بعض محبت و الفت کرنے والے ملتے ہیں تو بعض عداوت و دشمنی کرتے ہیں. پاک دل ا ور روشن ضمیر ان کی عدالت پختہ گیری پر فریفتہ ہوئے ہیں لیکن غافل اورغیر متدین افراد ان کی سختی اور عدالت سے ناراض ہوتے ہیں۔

وہ لوگ جو اچھے اور برے کام انجام دیتے ہیں اور مسلمان اور غیر مسلمان کوایک ہی صف میں رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی مخالفت مول لیں ایسے لوگ کبھی مذہبی اور بامقصد نہیں ہوسکتے کیونکہ تمام طبقوں کے ساتھ اتحاد و دوستی، منافقت اور دو رخی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے علاقہ کے حاکم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام طبقے کے لوگ اس سے راضی ہیں. امام نے فرمایا: لگتا ہے کہ وہ شخص عادل نہیں ہے کیونکہ تمام لوگوں کا راضی ہونا اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ وہ منافق اور صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں ہے ورنہ تمام لوگ اس سے راضی نہ ہوتے۔

امیر المومنین علیہ السلام ان لوگوں میں سے ان ہیں جو صلح و آشتی کرنے والوں سے مہر و محبت اور پاکیزہ و صاف دلوں کو بلندی عطا کرتے تھے اوراسی کے مقابلے میں غیظ و غضب کی آگ میں جلنے والوں اور قانون توڑنے والوںکو انھیں کے سینے میں ڈال دیاکرتے تھے۔

۱۰۸

امام عدالت کی رعایت اور کا اصول و قوانین پر سختی سے عمل کرنا صرف آپ کی حکومت کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اگرچہ بہت سے مؤرخین اور مقررین جب امام کی پاکیزگی اور عدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیںتو اکثر آپ کی حکومت کے دوران رونماہونے والے واقعات پر بھروسہ کرتے ہیں .کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی، مگر امام کا عدالت و انصاف اور قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونا رسول اسلام کے زمانے سے ہی ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، اس بنا پر وہ لوگ جو امام کی عدالت و انصاف کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے گاہے بہ گاہے پیغمبر سے حضرت علی کی شکایت کرتے تھے اور ہمیشہ پیغمبر اس کے برعکس کہتے تھے اورکہتے تھے علی قانون الہی کے اجراء میں کسی کی رعایت نہیں کرتا.

زمانہ پیغمبر میں آپ سے متعلق چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم یہاں بطور مثال دوواقعات کو نقل کر رہے ہیں:

۱۔ ۱۰ ھ میں جب پیغمبر اسلام نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ ''یمن'' بھیج دیا پیغمبر نے حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباہلہ کے دن دینے کا دعدہ کیاتھااسے اپنے ہمراہ لائیں اور اسے آپ کے پاس پہونچا دیں، آپ کو ماموریت انجام دینے کے بعد معلوم ہوا کہ پیغمبر خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں اس لئے آپ نے راستے کو کو بدل دیا اور مکہ کی جانب روانہ ہوگئے. آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ،تاکہ جلدسے جلد پیغمبر کے پاس پہونچ جائیں .اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کواپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا اور اپنے سپاہیوں سے الگ ہوگئے اور مکہ سے نزدیک پیغمبر کے پاس پہونچ گئے. پیغمبر اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے اور جب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ سے احرام کی نیت کے متعلق حضرت علی نے جواب دیا: میں نے احرام پہنتے وقت کہا تھا خدایا میں اسی نیت پر احرام باندھ رہا ہوں جس نیت پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام باندھا ہے۔

حضرت علی نے اپنے یمن اور نجران کے سفر اور وہ کپڑے جو لے کر آئے تھے ،سے پیغمبر کو مطلع کیا اور پھر پیغمبر کے حکم سے اپنے سپاہیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ واپس جائیں۔جب امام اپنے سپاہیوں کے پاس پہونچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسم کردیا ہے اور تمام سپاہیوں نے ان کپڑوں کو احرام بنا کر پہن لیا ہے حضرت علی اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس سے کہا: ان کپڑوں کو رسول خدا کے سپرد کرنے سے پہلے تم نے کیوں سپاہیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیاکہ آپ کے سپاہیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطور امانت تقسیم کردوں او رحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔

۱۰۹

حضرت علی نے اس کی بات کو قبول نہیں کیااور کہا کہ تمہیں یہ اختیا رنہیں تھا. پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ہوئے کپڑوں کو جمع کرو، تاکہ مکہ میں پیغمبر کے سپردکریں۔(۱)

وہ گروہ جنھیں عدالت و انصاف اورمنظم و مرتب رہنے سے تکلیف ہوتی ہے وہ ہمیشہ تمام امور کو اپنے اعتبار سے جاری کروانا چاہتے ہیں وہ لوگ پیغمبر کی خدمت میں آئے اور حضرت علی کے نظم و ضبط اور سخت گیری کی شکایت کی، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جاخلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

حضرت علی کی نظر میں ایک گناہگار شخص (خصوصاً وہ گناہگار جو اپنی لغزشوں کو بہت چھوٹاتصور کرے) اس سوار کی طرح ہے جو ایک سرکش او ربے لگام گھوڑے پر سوار ہو. تو یقینا وہ گھوڑا اپنے سوار کو گڑھوں اور پتھروں پر گرا دے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کا مقصد اس تشبیہ سے یہ ہے کہ کوئی بھی گناہ چاہے جتنا ہی چھوٹا کیوںنہ ہواگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو دوسرے گناہوں کواپنے ساتھ لاتا ہے اور جب تک انسان کو گناہ کا مرتکب نہیں کردیتا اور آگ میں نہیں ڈال دیتا اس سے دوری اختیار نہیں کرپاتا. اسی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہے کہ شروع سے ہی اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکھے. اور اسلامی اصول و قوانین کی معمولی مخالفت سے پرہیز کرے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو حضرت علی کے تمام کام اور ان کی عدالت سے مکمل طور پر باخبرتھے، اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اور اس سے کہا کہ شکایت کرنے والوں کے پاس جاؤ اور میرے اس پیغام کو ان تک پہونچادو۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۸۵

(۲)أَلَا وَ اِنَّ الْخَطٰایَا خَیْل شَمْس حَمَل عَلَیْهَا اَهْلُهَا وَخَلَعَتْ لِجَمْهٰا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِیْ النّٰار نہج البلاغہ خطبہ ۱۴.

'' علی کی برائی کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ وہ خدا کے احکام کو جاری کرنے میں بہت سخت ہے اور اس کی زندگی میں ہرگز چاپلوسی اور خوشامد نہیں پائی جاتی۔

۱۱۰

۲۔ خالدبن ولید قریش کا ایک بہادر سردار تھا. اس نے ۷ھ میں مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا .مگر اس کے پہلے کہ وہ قوانین الہی پر عمل پیرا ہوتا، اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیںہوئیں اس میں شریک رہا. یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پر رات میں چھپ کر حملہ کیا اور ان کی فوج کی پشت سے میدان جنگ میں وارد ہوا. او راسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا .اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی سے عداوت و دشمنی کو فراموش نہیں کیا او رامام کی قدرت و طاقت و بہادری سے ہمیشہ حسد کرتا رہا پیغمبر اسلام کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کسی علت کی بنا پر کا میاب نہ ہوسکا۔(۱)

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ہیں:

پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسی گروہ کے ساتھ کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا، اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلۂ بنی زید سے جنگ ہوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا. امام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مال غنیمت تقسیم کردیا اور یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی. اس نے پیغمبر اسلام او رحضرت علی کے درمیان سوء تفاہم پیدا کرنے کے لئے خط لکھا اور اسے بریدہ کے حوالے کیاتاکہ جتنی جلدی ممکن ہو پیغمبر تک پہونچا دے۔

بریدہ کہتا ہے:

میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہونچا اور اس نامہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کیا، حضرت نے اس نامہ کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تاکہ وہ پڑھے اور جب وہ نامہ پڑھ چکا تو میں نے اچانک پیغمبر کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثاردیکھا۔

بریدہ کہتا ہے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ہوا او رعذر خواہی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم

______________________

(۱) اس واقعہ کی تشریح زندگانی امیر ا لمومنین کے چوتھے حصے میں آئی ہے جو حصہ مخصوص ہے امام کی زندگی کے حالات پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے۔

۱۱۱

سے میں نے یہ کام کیا ہے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جب میں خاموش ہوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا. اچانک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خاموشی کو توڑا اور فرمایا:

علی ـ کے بارے میں بری باتیں نہ کہو'' فَاِنَّه مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْهُ وَ هُوَ وَلِیَّکُمْ بَعْدِیْ'' (وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ہیں)

بریدہ کہتا ہے کہ میں اپنے کئے پر بہت نادم تھا چنانچہ رسول خدا سے استغفار کی درخواست کی. ،پیغمبر نے کہا جب تک علی نہ آئیںاور اس کے لئے رضایت نہ دیں میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا. اچانک حضرت علی پہونچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبر سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔(۱)

اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی سے محبت کرنے لگا اور پیغمبر کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اور ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ابوبکر کے اس عمل پر اعتراض کیااورانھیں خلیفہ تسلیم نہیں کیا.(۲)

______________________

(۱) اسد الغابہ ج۱ ص ۱۷۶، والدرجات الرفیعہ ص ۴۰۱

(۲) رجال مامقانی ج۱ ص ۱۹۹منقول از احتجاج

۱۱۲

نویں فصل

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخصوص نمائندہ و سفیر

''حضرت علی نے خدا کے حکم سے سورۂ برائت اور وہ مخصوص حکم جو بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے تھا حج کے موقع پر تمام عرب قبیلے کے سامنے پڑھا ،اور اس کا م کے لئے پیغمبر کی جگہ اور جانشینی کا منصب حاصل کیا''۔تاریخ اسلام اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ جس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اسی دن اپنی رسالت کے اعلان کے بعد فوراً علی کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیا۔پیغمبر اسلام نے اپنی رسالت کے تیس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طور پر توکبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح طور پر امت کی رہبری اور حکومت کے لئے حضرت علی کی لیاقت و شائستگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبر کے بعد حضرت علی کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے رہے اور انھیں عذاب الہی سے ڈراتے رہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب قبیلۂ بنی عامر کے رئیس نے پیغمبر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا بشرطیکہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: ''الامر الی اللہ یضعہ حیث شائ''(۱)

یعنی یہ خدا کے اختیار میں ہے وہ جس شخص کو بھی اس کا م کے لئے منتخب کرے وہی میرا جانشین ہوگا. جس وقت حاکم یمامہ نے بھی قبیلۂ بنی عامر کے رئیس کی طرح سے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی، اس وقت بھی پیغمبر کو بہت برالگااور آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ سے مارا۔(۲) اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام نے متعدد مقامات پر مختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی ـکو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس طرح امت کو متنبہ و متوجہ کیا ہے کہ خدا نے حضرت علی ـکو ہمارا وصی اور خلیفہ منتخب کیا ہے اور اس کام میں پیغمبر کو کوئی اختیار نہیں ہے. نمونہ کے طور پر چند موارد یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۸ ص ۸۴، تاریخ ابن اثیر ج۲ ص ۶۵

(۲) طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۲

۱۱۳

۱۔ آغاز بعثت میں ، جب خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے اعزا و احباب اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔

۲۔ جب پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو اپنے سے حضرت علی کی نسبت کو بیان کیا یعنی وہ نسبت جو ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت میرے اور علی ـکے درمیان ہے اور جتنے منصب ہارون کے پاس تھے سوائے نبوت کے ، وہ سب منصب علی ـ کے پاس بھی ہیں۔

۳۔ بریدہ اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے کہا کہ علی ـمیرے بعد سب سے بہترین حاکم ہے۔

۴۔ غدیر خم کے میدان میں اور ۸۰ ہزار ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کر کے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبر نے سیاسی کاموں کو حضرت علی کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرہ کے ذہنوں کو حضرت علی کی حکومت کی طرف مائل کیا. مثال کے طور پر درج ذیل واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر ا ہوگا کہ شرک اور دوگانہ پرستی کے بارے میں اسلام کا نظریہ حجاز کی سرزمین اور عرب کے مشرک قبیلوں تک پہونچ گیا تھا او ر بتوں اور بت پرستوں کے بارے میں ان میں سے اکثر اسلامی نظریئے سے واقف ہو گئے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،اور ان کے باطل خدا اتنے ذلیل و خوار ہیں کہ صرف دوسروں کے امور انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور نہ خود کو ہی نفع پہونچا سکتے ہیں ،اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نہیں ہیں۔

دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبر کے کلام کو سنا تھا انھوںنے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں، اور بت پرستی چھوڑ کر خدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا او رتوحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پر گونج اٹھی۔

۱۱۴

لیکن متعصب اور بیوقوف لوگ جنھیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اور اپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رہے۔اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام ہر طرح کی بت پرستی اور غیر انسانی کاموںکو اپنے سپاہیوں کے ذریعے ختم کردیں. اور طاقت کے ذریعے بت پرستی کو جو معاشرے کو برباد اور اجتماعی و اخلاقی اعتبار سے فاسد کر رہے ہیں اور حریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ہیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خدا اور اس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میںعید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں اعلان کریں. اور خود پیغمبر یا کوئی اور سورۂ برائت کے پہلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبر کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ہے اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مہینے کے اندر اپنی وضعیت کو معین کریں کہ اگر مذہب توحیدکو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور دوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اور معنوی چیزوں سے بہرہ مند ہو ئیں گے لیکن اگر اپنی دشمنی او رہٹ دھرمی پر باقی رہے تو چار مہینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ہوئے قتل کردیئے جائیں گے۔سورۂ برائت اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیوں کہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا او رارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ''حجة الوداع'' کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں. اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پہونچانے کے لئے منتخب کریں .سب سے پہلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اور سورۂ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی ا ور انھیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تاکہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ اچانک وحی الہی کا نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم ہوا کہ اس پیغام کو خود یا جو آپ سے ہو وہ لوگوں تک پہونچائے ، کیونکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور اس پیغام کے پہونچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر کے اہلبیت میں سے ہے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ہے وہ کون ہے؟

_____________________________

(۱)''لٰایُوَدَّیْهٰا عَنْکَ اِلّٰا اَنْتَ اَوْ رَجُل مِنْکِ'' اور بعض روایتوں میں اس طرح ہے ''او رجل من اہل بیتک'' سیرۂ ابن ہشام ج۴ ص ۵۴۵ وغیرہ

۱۱۵

تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور ابوبکر سے راستے میں ملاقات کرو اوران سے آیات برائت کو لے لو اور ان سے کہہ دو کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے وحی الہی نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان آیتوں کو یا خود یا ان کے اہلبیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کر سنائے، اس وجہ سے یہ ذمہ دار یمجھے سونپی گئی ہے .حضرت علی، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ پر سوار ہوکر جابر اور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ہمراہ مکہ کے لئے روانہ ہوگئے اور حضرت کے پیغام کوابوبکر تک پہونچایا ،انھوں نے بھی (سورۂ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی کے سپرد کردیا۔امیر المومنین علیہ السلام مکہ میں داخل ہوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز سے سورۂ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی، اور چار مہینے کی مہلت جو پیغمبر نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزار کیا. تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چار مہینے کی مہلت ہے جس میں ہمیں اسلامی حکومت کے ساتھ اپنے رابطے کو واضح کرناہے .قرآن کی آیتیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اورابھی چار مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مشرکین نے جوق در جوق مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ہوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ہوگیا۔

بے جا تعصب

جب ابوبکر اپنی معزولی سے باخبر ہوئے تو ناراضگی کے عالم میں مدینہ واپس آگئے اور گلہ و شکوہ کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر کہا: مجھے آپ نے اس کام (آیات الہی کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے) کے لئے لائق و شائستہ جانا، مگر زیادہ دیرنہ گزری کہ آپ نے مجھے اس مقام و منزلت سے دور کردیا، کیا اس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہے؟ پیغمبر نے شفقت بھرے انداز سے فرمایا کہ وحی الہی کا نمائندہ آیا اور اس نے کہا : میرے یا وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی اوراس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) بعض متعصب مؤرخین جو حضرت علی کے فضائل کے تجزیہ و تحلیل میں بہت زیادہ منحرف ہوئے ہیں ، ابوبکر کے اس مقام سے معزول ہونے اور اسی مقام پر حضرت علی کے منصوب ہونے کی اس طرح سے توجیہ کی ہے کہ ابوبکر شفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی بہادری و شجاعت کے مظہر تھے

______________________

(۱) روح المعانی ج۱۰ تفسیر سورۂ توبہ ص ۴۵

۱۱۶

اورالہی پیغام کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اور یہ صفات حضرت علی کے اندر بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔یہ توجیہ: ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اس کے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ پیغمبر نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کام کے لئے میرے اور وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس واقعہ کا دوسرے طریقے سے تجزیہ کیاہے ،وہ کہتا ہے کہ عرب کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی چاہتا تھا کہ کسی عہد و پیمان کو توڑ دے تو اس نقض (عہد و پیمان کے توڑنے) کو خود وہ شخص یا اسی کے رشتہ داروں میں سے کوئی ایک شخص انجام دیتا ہے ورنہ عہد و پیمان خود اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے اسی وجہ سے حضرت علی اس کام کے لئے منتخب ہوئے۔اس توجیہ کا باطل ہونا واضح ہے کیونکہ پیغمبر اسلام کا حضرت علی کے بھیجنے کا اصلی مقصد آیتوں کی تلاوت اور قطعنامہ کا پہونچانا اور عہد و پیمان کا توڑنا نہیں تھا بلکہ سورۂ توبہ کی چوتھی آیت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنے عہد و پیمان پر مکمل عمل کیا ہے ان کا احترام کرو اور عہد و پیمان کی مدت تک اس کو پورا کرو۔(۲)

اس بنا پر اگر عہد کا توڑنا بھی عہد توڑنے والوں کے بہ نسبت اس کام میں شامل تھا تو مکمل طور پر جزئی حیثیت رکھتاہے جب کہ اصلی ہدف یہ تھا کہ بت پرستی ایک غیر قانونی امر اور ایک ایسا گناہ جو قابل معاف نہیں ہے، اعلان ہو۔اگر ہم چاہیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاحکم الہی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ہی حضرت علی کو سیاسی مسائل اور حکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں. تاکہ تمام مسلمان آگاہ ہو جائیں اور خورشید رسالت کے غروب ہونے کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور جان جائیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی سے زیادہ شائستہ کوئی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کی طرف سے تنہاوہ شخص جومشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے منصوب ہوا وہ حضرت علی تھے ،کیونکہ یہ چیز حکومتی امور سے متعلق ہے۔مگر (ہاں) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے بھی کچھ تم سے (وفائے عہد میں) کمی نہیں کی. اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدت کے واسطے مقرر کیا ہے پورا کردو خدا پرہیزگاروں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

______________________

(۲)''الا الذین عاهدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم شیئاً و لم یظاهروا علیکم احداً فأتمُّوا الیهم عهدهم الی مدتهم ان الله یحب المتقین''

۱۱۷

دسویں فصل

مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل

دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ہوئی .وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رہے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ہی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں. اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے ان کو بھی ہمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔(۱)

قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاہے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ہے ارشاد قدرت ہے:

( ام تأمُرُهُمْ أَحلَامُهِمْ بِهٰذَا أَمْ هُمْ قوْمُ طٰاغُونَ ) (۲)

کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہیں (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ہیں یا یہ لوگ سرکش ہی ہیں؟

اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ہوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رہی کہ پھیلتے ہوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ہمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ہے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ہو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ہو جائے. یہاں پر دو صورتیںہیںاور ہم دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:

______________________

(۱) ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔

(۲) سورۂ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

۱۱۸

۱۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ہے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔

پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس اکثر افراداس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے. اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا ہے لیکن اتنی بات ضرور کہناہے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نہیں ہے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔

انقلاب کا ہمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رہے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اہم افراد یا شخص کی ضرورت ہے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورہمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔

تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ہے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اہم افراد کی ضرورت تھی. کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔جناب موسی و عیسی کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نہیں رکھتے تھے، جب کہ جاہلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔ممکن ہے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔

۱۱۹

جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔

جی ہاں. اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ہو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ہوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ہو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ہمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔

یہ وہی بات ہے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ہے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ''حجة الوداع'' کی واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو اس اہم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے

شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ہے .امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ صاحب کتاب ہوتا ہے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتاہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاہے .اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ہوتا ہے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158