فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135034
ڈاؤنلوڈ: 3202


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135034 / ڈاؤنلوڈ: 3202
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اپنے انھوں نے کامل میں اس حدیث کے وجود کی عجیب توجیہ کی کہ اس حدیث کو کامل میں کسی شیعہ نے لکھ دیا ہے اس جملے سے ان کے خیال کے مطابق کامل پر بھی کوئی بات نہیں آتی اور حدیث کے منکر ہونے کا ایک ثبوت بھی مل گیا اسی کو کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا.

4.اب اس سے بڑا لطیفہ ملاحظہ ہو ذہبی لکھتے ہیں حسن بن محمد بن یحیی بن حسن بن جعفر بن عبد اللہ بن حسین بن زین العابدین علی بن حسین شہید علوی ابی طاہر نسابہ کے بھتیجے ہیں اسحاق ابری کے حوالے سے انتہائی بے شرمی کے ساتھ دبرای سے ایسی حدیث نقل کرتے ہیں جس کی اسناد سورج کی طرح روشن ہیں حدیث یہ ہے کہ علی(ع) خیر البشر ہیں.

دبری نے عبدالرزاق سے انہوں نے معمر بن عبد اللہ الصامت سے اور انہوں نے ابوذر سے مرفوعا بیان کیا کہ رسول نے فرمایا: علی(ع) اور ان کی ذریت قیامت تک خاتم الاوصیاء ہے یہ دونوں حدیثیں راوی کے کذب اور اس کے رفض پر دلالت کرتی ہیں( خدا اسے معاف کرے) اس سے ابن زرقویہ اور ابو علی بن شاذان نے روایت کی ہے.

مجھے اس علوی کے افتراء پر تعجب نہیں ہے بلکہ حیرت ہے خطیب پر کہ وہ اس علوی کے ترجمے میں کہتے ہیں مجھ سے حسن بن ابی طالب نے اس سے محمد بن اسحق قطیعی نے اس سے جابر نے مرفوعا بیان کیا کہ رسول(ص) نے فرمایا: کہ علی(ع) خیر البشر ہیں چجو اس سے انکار کرے وہ کافر ہے پھر خطیب کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے اور علوی کے سواء کسی اور نے اس کی روایت نہیں کی ہے بلکہ ان اسناد سے صرف اس علوی نے روایت کی ہے اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے.

میں(ذہبی) کہتا ہوں کہ حافظ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ حدیث”حدیث قلتین اور حدیث ماموں وارث ہوتا ہے کی طرح” ہے بلکہ ان حدیثوں سے کمتر درجہ میں ہے خذلان

۱۰۱

سے خدا کی پناہ اس علوی نے سنہ357ھ میں وفات پائی کاش اس پر جھوٹ کی تہمت نہ لگی ہوتی تو اس کے دروازے پر محدثین کی بھیڑ ہوتی اس لئے کہ وہ بہر حال بہت بزرگ اور سن رسیدہ تھا.(1)

علی(ع) خیر البشر

آپ نے دیکھا علامہ ذہبی نے کتنی آسانی سے آنکھ بند کر کے پہلی حدیث کے جھوٹی ہونے کا یقین کر لیا اور خطیب نے خذلان سے عبرت حاصل کی اس لئے کہ خطیب نے ان کی طرح اس حدیث کے جھوٹی ہونے کا یقین نہیں کیا تھا، حالانکہ یہ حدیث اپنے اسی مضمون کے ساتھ صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت سے روایت کی ہے.(2) ان میں بعض لوگوں نے اسی حدیث کو نبی(ص) تک مرفوع کیا ہے.(3)

حدیث اتنی روشن اور واضح ہے کہ ذہبی کے علوہ اس کی تکذیب کرنے کی جسارت اہل سنت میں سے کسی نے نہیں کی ہے اور چونکہ اس حدیث سے مولاعلی(ع) کی خلافت بلافصل ثابت ہوتی ہے اس لئے مجبور ہو کے اہل سنت کے علماء نے اپنی اپنی سمجھ مطابق اس حدیث کی تاویل کی اور کسی نے کہا کہ اس حدیث کی رد سے علی(ع) اپنے زمانے میں تمام لوگوں میں خیر البشر ہیں اور یہ درجہ خیر اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب لوگوں نے آپ کی بیعت کی(4) تو کسی نے کہا علی(ع)

..................................

1 میزان الاعتدلال فی نقد الرجال، ج2، ص273.272، حسن بن محمد بن محمد بن یحیی کی سوانح حیات میں.

2.الفردوس بماثور الخطاب، ج3، ص62. سیر اعلام النبلاء. ج8،ص305. میان الاعتدال، ج2،ص214، اور ج3، ص 374، اور ج4، ص77. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج4، ص10. تاریخ دمشق، ج42، ص374.373.372، کنزالعمال، ج11، ص625. ینابیع المودة، ج2، ص273.

3.الکامل فی ضعفاء الرجال، ج4، ص10. ولکشف الحشیث، ص243، تاریخ دمشق، ج42، ص373.372، البدیتہ والنہایہ، ج7، ص359، الموضوعات لابن جوزی،ج1، ص273.

4.میران الاعتدال، ج3، ص374 اور ص396. سیر اعلام النبلاء، ج8، ص205.

۱۰۲

خلفاء ثلاثہ کے بعد سب سے افضل ہیں، وغیرہ لیکن کسی نے اس حدیث کے وضعی ہونے کا یقین نہیں کیا، اس کے علاوہ اس حدیث کو بہت ساری احادیث پیغمبر(ص) سے قوت ملتی ہے حدیث پیغمبر(ص) میں علی(ع) کے لئے اس طرح کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں. مثلا علی(ع) امیرالمومنین ہیں.علی(ع) سید المسلمین ہیں قیامت میں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب مرتبہ ہیں، علی(ع) امام المتقین ہیں اور حدیث طیر آئندہ صفحات میں آپ کے سامنے پیش کی جائے گی.

مذکورہ بالا حدیث کی تائید پیغمبر(ص) کے اس قول سے یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی پارہ جگر فاطمہ صدیقہ(ع) سے فرمایا، فاطمہ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ خداوند عالم نے تمام اہل زمین پر نظر کی اور ان میں تیرے باپ اور شوہر کو منتخب کیا.(1)

خود عبداللہ بن مسعود سے سنئے کہتے ہیں ہم آپس میں بات کرتے اور کہتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل علی بن ابی طالب(ع) ہیں عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نے قرآن کے ستر(70) سورہ تو پیغمبر(ص) سے پڑھے لیکن قرآن اس کی نگرانی میں ختم کیا جو لوگوں میں سب سے بہتر تھا یعنی علی بن ابی طالب(ع).(2)

.......................................

1. مستدرک علی الصحیح، ج3، ص140، کتاب المعرفة الصحابہ من مناقب امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) مما لم یخرجاہ ذکر اسلام ایمرالمومنین علی واللفظ لہ مجمع الزوائد، ج9، ص112. کتاب مناقب علی ابن ابی طالب باب منہ فی منزلتہ و مواخاتہ المعجم الکبیر، ج11، ص94.93،فیما رواہ مجاہد عن ابن باس تاریخ دمشق، ج42، ص130.135.136 فی ترجمتہ علی بن ابی طالب. الکشف الحشیث، ص215 فی ترجمتہ محمد بن احمد بن سفیان، میزان الاعتدال، ج4، ص346 فی ترجمتہ عبد الرزاق بن ہمام. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج5، ص313 فی ترجمتہ عبدالرزاق بن ہمام ص331 ترجمتہ عبد السلام بن صالح. تاریخ بغدار، ج4، ص195.196 فی ترجمتہ احمد بن صالح. العلل المتنامعہ، ج1، ص323.224.225 اور بھی دوسرے منابع موجود ہیں.

2.مجمع الزوائد، ج9، ص116. المعجم الاواسط، ج5، ص101. المعجم الکبیر، ج9، ص76.

۱۰۳

اور ابھی کچھ دیر پہلے احمد بن حنبل کا یہ اعتراف کہ فضائل علی میں جتنی حدیثیں ہیں اتنی کسی صحابی پیغمبر(ص) کے بارے میں نہیں ہیں اور قاضی اسماعیل نسائی اور ابو علی وغیرہ کا اقرار کہ حسن اسناد کے ساتھ جتنی حدیثیں فضائل علی(ع) میں ہیں اور کسی صحابی پیغمبر(ص) کی فضیلت میں نہیں ہیں.

حدیث علی(ع) اور ان کی ذریت خاتم الاوصیاء ہیں قیامت تک

دوسری حدیث کا بھی یہی حال ہے امیرالمومنین(ع) نبی اکرم(ص) کے وصی ہیں یہ بات کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ صحابہ اور تابعین کے درمیان یہ بات عام طور سے مشہور اور مسلم ہے کہ نبی(ص) کے وصی علی(ع) ہیں آپ کے چوتھے سوال کا جواب میں بھی یہ بات دلائل و براہین سے ثابت کی جاچکی ہے اور جب یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ نبی(ص)(ع) کے وصی علی ہیں تو پھر وصایت کا آپ کی ذریت طاہرہ میں قیامت تک باقی رہنا بعید از قیاس نہیں ہے اور پھر وصایت کا آپکی ذریت پر خاتمہ بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے عجیب و غریب کہا جائے لیکن برا ہو دشمنی علی(ع) کا کہ ذہبی کے حلق سے یہ بات کسی طرح نہیں اترتی اس لئے کہ اس حدیث میں ذہبی کے لئے دو سقم ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں حدیثیں فضائل علی(ع) میں ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں کا راوی ایک علوی(شیعہ) ہے.

علی(ع) کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے

5.اسی طرح یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں ابن حبان کا کہنا ہے حسن ابن علی بن ذکریا ابو سعید علوی جو کوفہ کے رہنے والے تھے اور بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی وہ ان شیوخ سے روایت کرتے ہیں، جن کو انہوں نے نہیں دیکھا تھا اور ان کے نام سے حدیثیں بیان کرتے ہیں جن سے انہوں نے ملاقات نہیں تھی وہ بغداد میں اس زمانے میں تھے جب میں بھی وہاں موجود تھا میں نے محض جانچنے کی نیت سے ان سے حدیث سننے کا ارادہ کیا تو ان کے حدیثوں کے مجموعہ میں سے ایک جزء کو لیا اس

۱۰۴

میں لکھا تھا کہ ابو ربیع اور محمد بن عبد بن اعلی صنعانی نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے ان سے معمر نے ان سے زہری نے ان سے عروہ نے ان سے ابوبکر صدیق نے ان سے رسول اللہ(ص) نے کہا کہ علی(ع) کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے اس میں اصحاب حدیث کو کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث جعلی ہے نہ تو صدیق نے اس کی کبھی روایت کی اور نہ اس کے راوی ہی سچے ہیں نہ عروہ نے بیان کیا نہ زہری نے بیان کیا ن معمر ہی نے اس طرح کی بات کہی جو شخص اس طرح کی حدیثیں زہرانی اور صنعانی کے نام سے گڑھے اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ مذکورہ بالا دونوں شخص بصرہ کے قابل اعتماد لوگوں میں سے ہیں وہ اہل عقل کے نزدیک اس قابل ہے کہ اس سے روایتیں نقل نہ کی جائیں.

اپنی اولاد کو بتائو کہ حب علی(ع) فرض ہے

احمد ابن عبہ ضبی سے ابن عینیہ نے ان سے ابو زبیر نے ان سے جاب نے ان سے رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہم اپنی اولاد کو حکم دیں کہ و محبت علی(ع) کو فرض سمجھیں یہ حدیث بھی باطل ہے رسول نے مطلقا ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور نہ جابر نے ایسی کوئی بات کہی نہ ابو زبیر نے کہا اور نہ ابن عینیہ نے ان اسناد سے نقل کیا اور نہ ہی ابن عبدہ نے ایسی کوئی حدیث بیان کی ہے اس لئے اس حدیث کے سننے والے کو اس کے موضوع اور جعلی ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہے لہذا میں اس شیخ کے پاس پھر نہیں گیا اور نہ اس سے کوئی حدیث سنی.(1)

میں کہتا ہوں ابن حبان زیادہ سے زیادہ دونوں حدیثوں کی اسناد کو ضعیف سمجھ سکتے تھے لیکن انہوں نے قطعی فیصلہ سنایا کہ مذکورہ بالا دونوں حدیثیں جعلی ہیں ظاہر ہے کہ اس کی وجہ دشمنی اور عداوت علی(ع) ہے اور کچھ نہیں قطعی طور پر پہلی والی حدیث تو متعدد اسناد سے وارد ہوئی ہے.(2)

.....................................

1.المجروحین، ج1، ص241، حسن بن علی بن ذکریا کی سوانح حیات کے ضمن میں.

2. مستدرک صحیحین، ج3، ص152. المعجم الکبیر، ج10، ص76،تاریخ دمشق، ج4، ص9، اور ج42، ص350.351.352.353. 355، حلیتہ الاولیاء، ج5، ص58. میزان الاعتدال،ج6، ص73. ولسان المیزان و کشف الحشیث وغیرہ.

۱۰۵

اور دوسری احادیث بھی اس کے مشابہ ہے لیکن دوسری حدیث میں وہی چیزیں وارد ہوئی ہیں جو دیگر احادیث سے مشابہت رکھتی ہیں.( 1 )

نیز علی(ع) کی محبت اور عداوت سے متعلق مستفیض بلکہ متواتر احادیث ہیں.(2)

حدیث طائر بریاں

6.حدیث طیر بہت مشہور حدیث ہے تمام حفاظ حدیث نے اس کو صحیح قرار دیا ہے حدیث یوں ہے کہ حضور کے پاس ایک بھنا ہوا طائر لایا گیا تو حضور نے دعا کی پالنے والے اپنی محبوب­­ترین مخلوق کو بھیج دے جو اس طائر کو میرے ساتھ کھائے حضور نے دوبارہ دعا کی دونوں بار صرف امیرالمومنین(ع) تشریف لائے اور انس جو اس وقت پیغمبر(ص) کے خادم تھے علی(ع) کو واپس کرتے رہے صرف اس امید پر کہ شاید ان کے قبیلہ کا کوئی آئے اور یہ فضیلت ان کے قبیلے کومل جائے یعنی انصار کو آخر تیسری بار سرکار نے دعا کی اور جب علی(ع) آئے تو رسول(ص) نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا پھر علی(ع) خدمت پیغمبر(ص) میں حاضر ہوئے اور اس طائر کو حضرت کے ساتھ نوش فرمایا:(3)

..........................................

1.تاریخ ومشق، ج58، ص369. الفردوس بماثور الخطاب، ج2، ص244. تاریخ بغداد، ج12، ص351.

2.تاریخ دمشق، ج42، ص287.288. النہایہ فی غریب الحدیث، ج1، ص161. مادہ(بور) میں لسان العرب، ج4، ص87، وہی مادہ(بور)

3.راجع المستدرک علی الصحیحین،ج3، کتاب معرفتہ الصحابہ، ذکر اسلام امیرالمومنین علی، ص141.142. و تاریخ دمشق، ج42، ص247.248.249.250.251.252.253.254.255.256.257.258.259،علی ابن ابی طالب کے ترجمے میں اور ج45، ص84، عمر بن صالح بن عثمان کے ترجمے میں اور ج51، ص59، محمد بن احمد بن الطیب کے ترجمے میں اور محمع الزوائد، ج9، ص125، 126، والمعجم الاوسط، ج2، ص207، اور ج6، ص336، اور معجم الکبیر، ج1، ص253، سنن الترمذی، ج5، ص636، اور سنن الکبری للنسائی، ج5، ص107 اور مسند ابی حنفیہ، ص234. اور مسند البرازج، ج9، ص287، اور معجم الکبیر، ج7، ص82، فیما رواہ ثابت البجلی عن سفینہ، ج10، ص282، اور تاریخ الکبیر، ج2، ص12 احمد بن یزید بن ابراہیم کے ترجمے میں وغیرہ.

۱۰۶

ذہبی مذکرہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں حدیث طیر اگر چہ ضعیف ہے لیکن کثیر طریقوں سے روایت کی گئی ہے میں نے اسے ایک الگ جزء میں جگہ دی ہے ثابت تو نہیں ہے لیکن میں اس کے بطلان کا قائل بھی نہیں ہوں.(1)

ابن کثیر کہتے ہیں: بہر حال اس حدیث کی صحت کے بارے میں دل میں شک موجود ہے اگر چہ یہ کثیر طریقوں سے وارد ہوئی ہے.(2)

میرا خیال ہے کہ ابن کثیر اور ذہبی دونوں حضرات کو ذرا بھی تکلف اور شبہ نہ ہوتا اگر یہ دونوں حدیثیں غیر علی مثلا شیخین کے بارے میں وارد ہوئی ہوتیں اسناد چاہے جتنی کمزور ہوتیں لیکن یہ حضرات آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے.

بغض علی(ع) ہی کا نتہیج ہخ کہ ابوئود جن کا ابھی ابھی ذکر ہوچکا ہے حدیث غدیر کے منکر ہیں نیز حدیث کو رد کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے کہتے ہیں اگر حدیث طیر صحیح ہے تو پھر نبی(ص) کی نبوت باطل ہے اس لئے اس حدیث میں نبی کا حاجب خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے جب کہ نبی کا حاجب خائن ہو ہی نہیں سکتا.(3)

ابودائود کے مذکورہ بالا شگوفہ پر ذہبی کو غصہ آگیا اور انہوں نے سختی سے اس کی تردید کی ہے لکھتے ہیں، ابو دائود کی عبارت بالکل ردی اور بیکار ہے بلکہ ایک منحوس بات ہے حدیث طیر صحیح ہو یا غلط نبوت محمد(ص) بہر حال صحیح ہے بھلا نبوت محمد(ص) اور حدیث طیر میں رابطہ کیا ہے.

پھر ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ بعض صحابہ کیسی بکواس کیا کرتے تھے.

لیکن پھر ذہبی کو ابن دائود پر رحم آگیا ہے یا کسی اور وجہ سے فورا ان کے گناہ میں تخفیف کر دی

............................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص233، ابوبکر عبداللہ بن سلمان بن اشعث کے ترجمے میں.

2.تاریخ دمشق، ج58، ص369، الفردوس بماثور الخطاب، ج2، ص244. تاریخ بغداد، ج12، ص351.

تاریخ دمشق، ج42، ص287.288، النہایہ فی غریب الحدیث، ج1، ص161، مادہ(بور) میں لسان العرب، ج4، ص87، وہی مادہ(بور)

۱۰۷

بلکہ مدح سرائی کردی کہتے ہیں ابو دائود نے اپنے اس قول میں خطائے اجتہاد کی ہے اور انہیں اپنی خطا کا اجر تو ملے گا ہی پھر ثقہ کےلئے بعید نہیں ہے کہ وہ خطا کار نہ ہو یا بھول چوک سے محفوظ ہو ابو دائود یہ اسلام کے بڑے علماء میں سے ہیں اور حفاظ حدیث میں سب سے زیادہ قابل اعتبار شخص ہیں(1) لطف کی بات یہ ہے کہ یہ وہی ذہبی ہیں جو ابھی طعن و تشنیع کے بارے میں لکھ چکے ہیں کہ ایک جماعت نے ابن ابی دائود پر طعن کی ہے اور غیروں کی کیا بات ہے خود موصوف کے کے والد ماجدفرماتے تھے کہ میرا بیٹا ابو دائود کذاب ہے بہر حال میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بات چلے گی تو پھر دور تلک جائے گی.

اہل سنت کی طرف سے نواصب کی تصدیق اور مدح سرائی بھی

اہل سنت حضرات نواصب کی تصدیق کرنے کے جوش میں جو مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں اور جب ان کی مدح و ثناء کرنے لگتے ہیں تو پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتے اور بکتے ہی چلے جاتے ہیں جیسا کہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ابن حجر نواصب کی صداقت گفتار کے دیوانے ہیں اس جوش و خروش اور نواصب پر سنی کے میلان کی کچھ مثالیں پیش کر رہا ہوں.

جوزجانی

1.ان کا تعارف پیش کیا جاچکا ہے ابن حبان کے قول کے مطابق جرح و تعدیل کے ماہر ہیں اور اہل سنت کے یہاں فہرست ثقات میں ان کا نام سر فہرست آتا ہے ابن حبان ان کے سنت میں قوی اور مضبوط ہونے کے قائل ہے مگر یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ کبھی کبھی سنت کے جوش میں حد سے بڑھ جاتے ہیں چنانجہ ان کی اسی حرکت کی وجہ سے ابن حجر نے کہا کہ ان کی طعن کا اعتبار نہیں اور ایک خاص جماعت کے خلاف ان کی طعن قابل اعتبار نہیں ہے.

...................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص233.

۱۰۸

مصعی

2.ان کا مکمل تعارف یوں ہے احمد ابن محمد بن عمرو بن مصعب مروزی کہ ان کا ذکر ذہبی نے کیا ہے اور ان کی خوب خوب تعریف کی ہے پھر لکھا ہے دارقطنی کہتے ہیں کہ مصعی حافظ حدیث اور شیرین زبان تھے سنت میں منفرد اور بدعتی افراد کی تردید میں سخت لیکن خود حدیثیں گڑھتے تھے ابن حبان نے کہا ہے یہ حدیث گڑھا کرتے تھے اور اسناد میں الٹ پھیر کرتے رہتے تھے میرا خیال ہے دس ہزار سے زیادہ ثقات کی سندوں میں الٹ پھیر کر چکے ہیں ان میں صرف تین ہزار حدیثیں میرخ قلم کی گرفت میں آچکی ہیں اپنی حیات کے آخر میں ایسے شیوخ سے حدیث بیان کرنے لگے تھے جنہیں انہوں نے کبھی دیکھا تک نہیں تھا میں نے ان سے پوچھا آپ کا سب سے قدیم شیخ کون ہے کہنے لگے احمد بن سیار پھر علی بن خشرم کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے میں نے ان کی اس دو رخی پالیسی پر اعتراض کیا تو خط لکھ کے معافی مانگنے لگے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اپنے دور کے لوگوں سنت کے حوالے سے بہت سخت تھے سنت کی سب سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے تھے ناموس سنت کے حافظ اور مخالف سنت کے سخت دشمن تھے خدا سے دعا ہے کہ ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے.(1)

حریز بن عثمان حمصی

3.علماء نے صراحت کی ہے کہ یہ شخص پکا ناصبی تھا(2) اور امیرالمومنین(ع) پر لعنت کرتا تھا(3) اور گالیاں بھی دیتا تھا(4) یہ اکثر کہتا تھا میں علی(ع) سے محبت نہیں کرسکتا انہوں نے میرے آباء و اجداد

........................................

1. تذکرة الحفاظ، ج3، ص803.804.

2. الکاشف، ج1، ص319.

3. تاریخ دمشق، ج12، ص348.

4. الضعفاء للعقیلی، ج1، ص321. المجروحین، ج1، ص268. تہذیب الکمال، ج5، ص576. تاریخ بغداد، ج8، ص267.تاریخ دمشق، ج12، ص348. الانساب للسمعانی، ج3، ص51.

۱۰۹

کو قتل کیا ہے.(1)

یحیی بن صالح سے پوچھا گیا تم حریز سے حدیث کیوں نہیں نقل کرتے جواب دیا ایسے شخص سے میں کیسے حدیثیں نقل کروں جس کے ساتھ میں نے سات سال تک نماز فجر پڑھی اور وہ مسجد سے اس وقت تک نہیں نکلتا تھا جب تک حضرت علی(ع) پر (70) مرتبہ لعنت نہیں کرلیتا تھا.(2)

اس ملعون کے بارے می ابن حبان کہتے ہیں علی ابن ابی طالب(ع) پر روزانہ صبح و شام(70) مرتبہ لعنت کرتا تھا لوگوں نے پوچھا ایسا کیوں کرتا ہے؟ کہنے لگا علی(ع) نے میرے باپ اور دادا کے سر کاٹے ہیں.(3)

اس شخص کا دل کتنا گند تھا آپ نے ملاحظہ فرمایا اور ان تمام غلاظتوں کے باوجود بخاری نے اس سے روایتیں نقل کی ہیں(4) اور ابن حجر کہتے ہیں حریز، ابوبکر بن ابی مریم اور صفوان کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو احمد نے کہا ان میں حریز جیسا کوئی نہیں اور حریز سے زیادہ کوئی ثابت نہیں ابراہیم بن جندب نے کہیا ابن معین کہتے تھے 1.حریز، 2.عبدالرحمن بن یزید بن جابر اور 3.ابن ابی مریم یہ تینوں ثقات ہیں ابن مدینی کہتے ہیں ہمارے علماء حدیث برابر اس( حریز) کی توثیق کرتے آئے ہیں وحیم نے کہا حمصی جید الاسناد اور صحیح الحدیث اور ثقہ ہیں فضل بن غسان نے کہا وہ ثابت ہے.(5)

........................................

1. تہذیب الکمال، ج5، ص575. سیر اعلام النبلاء، ج7، ص81. میزان الاعتدال، ج2، ص219. تہذیب التہذیب، ج2، ص209. تاریخ بغداد، ج8، ص267. تاریخ دمشق، ج12، ص348.

2. تہذیب التہذیب، ج2، ص209. تاریخ دمشق، ج12، ص349.

3. مجروحین، ج1، ص268. حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تہذیب التہذیب، ج2، ص209.

4. صحیح بخاری، ج3، ص1302.

5. تہذیب التہذیب، ج2، ص208 حریز بن عثمان کے ترجمے میں.

۱۱۰

معاذ بن معاذ کہتے ہیں: مجھ سے حریز بن عثمان نے حدیث بیان کی اور میں اہل شام میں اس سے زیادہ صاحب فضیلت کسی کو جانتا ہی نہیں.(1) ابن عدی کہتے ہیں: حریز شام کے رہنے والوں میں ثقہ تھا اس کا علی(ع) سے بغض مشہور تھا(2) احمد کہتے ہیں حریز صحیح الحدیث ہے مگر یہ کہ وہ علی(ع) پر حملے کرتا تھا(3) عمرو بن علی کہتے ہیں حریز علی(ع) کی تنقیص کرتا تھا اور آپ کو برا بھلا کہتا تھا مگر اپنی حدیثوں کا حافظ تھا(4) یہی عمر بن عدی دوسری جگہ کہتے ہیں.(5)

ابن عمار کہتے ہیں لوگ حریز پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ علی(ع) کی تنقیص کرتا ہے لیکن اس سے روایتیں نقل کرتے ہیں اور احتجاج بھی کرتے ہیں لوگوں نے اس کو چھوڑا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ.(6)

اس حریز کی صداقت گفتار بھی ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان حضرات کے خلوص نیت پر عش عش کریں جو اس کو ثقہ، ثابت اور صحیح الحدیث وغیرہ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں. اسماعیل بن عباس کہتے ہیں حریز کہہ رہا تھا کہ نبی(ص) سے علی(ع) کے بارے میں جو روایت ہے کہ علی(ع) میرے لئے ویسے ہی ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون یہ حدیث صحیح ہے لیکن لوگوں نے سننے میں غلطی کی ہے پوچھا گیا تو پھر صحیح کیا ہے کہا صحیح یہ ہے کہ حضور(ص) نے ہارون کے بجائے قارون کہا تھا یعنی علی(ع)

........................................

1. تہذیب التہذیب، ج2، ص208. حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تہذیب الکمال، ج5، ص572حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تاریخ بغداد، ج8، ص268. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج2، ص451 حریز بن عثمان کے ترجمے میں.

2. فتح الباری، ج1، ص396.

3. تہذیب التہذیب. ج2، ص208. حریز بن عثمان کے ترجمے میں. الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج1، ص197. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج2، ص451. تہذیب الکمال، ج5، ص572 حریز بن عثمان کے ترجمے میں.

4. تہذیب التہذیب، ج2، ص208 حریز بن عثمان کے ترجمے میں.

5. تہذیب التہذیب، ج2، ص208 حریز بن عثمان کے ترجمے میں.

6. تہذیب التہذیب، ج2، ص208 حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تہذیب الکمال، ج5، ص575 حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تاریخ بغداد، ج8، ص266 حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تاریخ دمشق، ج12، ص347.

۱۱۱

میرے لئے ویسے ہی ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے قارون لوگوں نے کہا یہ روایت تم نے کس سے سنی ہے کہنے لگا ولید بن عبدالملک سے جب وہ منبر پر تھا.(1) ازدی نے ضعیف روایتوں کے ذیل میں یہ حدیث لکھی ہے کہ حریز بن عثمان کہتا تھا کہ جب نبی(ص) اپنے خچر پرسوار ہونے لگے تو علی نے خچر کی حزام( رسی) ڈھیلی کردی تاکہ نبی(ص) گر جائیں.(2)

جوہری اپنی کتاب سقیفہ میں لکھتے ہیں کہ محفوظ نے کہا میں نے یحیی بن صالح و حاظی سے پوجھا کہ تم حریز سے روایت کیوں نہیں لیتے جب کے بڑے بڑے مشایخ نے حریز جیسے لوگوں سے روایتیں لی ہیں کہنے لگے میں حدیث لینے اس کے پاس گیا تو تھا اس نے مجھے ایک کتاب دی میں نے اسے دیکھا اس میں لکھا تھا مجھ سے فلاں نے کہا اس سے فلان نے کہا کہ پیغمبر(ص) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے وصیت کی کہ علی(ع) کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں یہ حدیث پڑھ کے میں نے اس کو کتاب واپس کردی اور اس سے حدیث لینا حلال نہیں سمجھا.(1) !!

الفافا: نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہجو میں اشعار کہتا تھا

4.خالد بن سلمہ العاص بن ہشام المخزومی جو الفافا کے نام سے مشہور تھا ابن حجر نے لکھا ہے احمد اور ابن معین اور مدینی کہتے ہیں یہ ثقہ ہے یہی بات ابن عمار یعقوب بن شیبہ اور نسائی نے بھی کہی ہے ابن حبان نے بھی اس کو ثقہ افراد میں شمار کیا ہے محمد بن حمید نے لکھاہے حریز نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ مرجئہ فرقے کا سردار تھا اور علی(ع) سے بغض رکھتا تھا ابن عائشہ کہتے ہیں سرکاردو عالم کی ہجو میں شعرنظم کرکے بنی مروان کو سناتا تھا.(2)

........................................

1. تہذیب التہذیب، ج2، ص209، حریز بن عثمان کے ترجمے میں. تہذیب الکمال، ج5، ص577. تاریخ بغداد، ج8، ص268. تاریخ دمشق، ج12، ص349. التطریف فی التصحیف، ص44.

2. تہذیب التہذیب، ج2، ص209. ابن جوزی کی ضعفاء اور متروکین نامی کتاب، ج1، ص197. پر النصائح لکافیہ، ص117، نیز شرح نہج البلاغہ، تصحیف، ج4، ص70، کے حوالے میں نقل ہوئی ہے.

1. شرح نہج البلاغہ، ج4، ص70. -2. تہذیب التہذیب، ج3، ص83.

۱۱۲

ابن عباس کا غلام عکرمہ مشہور جھوٹا

5. ابن عباس کا غلام عکرمہ جس کی حمد و ثنا میں ابن حجر نے زمین آسمان کے قلابے ملا دئے ہیں پھر خود ہی کہتے ہیں اس( عکرمہ) کو مسلم نے ترک کر دیا ہے صرف ایک حدیث اسے لی ہے جو سعید بن جبیر کے حوالے سے حج مقرون کے بارے میں ہے مسلم نے بھی اس کو یوں چھوڑ دیا کہ مالک اس پر اعتراض کرتے تھے اور ائمہ کی ایک جماعت نے مالک و عکرمہ کی تکذیب کی سزا بھی دی ہے اور اس کی حمایت میں کتابیں بھی لکھی ہیں البتہ جو لوگ اس کو واہی سمجھتے ہیں اس کی تین وجہ ہے وہ جھوٹا تھا خارجی نظریوں کا حامل تھا اور امراء سے جائزے(انعامات) قبول کرتا تھا اس کے جھوٹ کے بارے میں بھی کچھ اقوال ہیں جن میں شدید قول عبداللہ بن عمر کا ہے انہوں نے نافع سے کہا، دیکھو میری طرف اس طرح جھوٹ کی نسبت مت دو جیسا کہ عکرمہ، ابن عباس کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتا تھا یہی جملہ سعید ابن مسیب نے اپنے غلام برد کے لئے بھی کہا اور جریر بن عبد الحمید یزید بن ابی زیاد کا قول نقل کرتا ہے کہ ایک دن میں علی ابن عبداللہ بن عباس کے پاس گیا تو دیکھا کہ انہوں نے عکرمہ کو باندھ رکھا ہے میں نے پوچھا اس کو کیوں باندھاہے؟ انھوں نے فرمایا یہ ملعون میرے باپ پر جھوٹ باندھتا ہے.(1)

ابن سیرین کے بارے میں ہے کہ اس سے کہتے تھے اگر وہ جنت میں جائے تو مجھے برا نہیں لگے گا مگر ہے وہ جھوٹا.(2)

......................................

1. مقدمہ فتح الباری، ج1، ص424.426.

2. مقدمہ فتح الباری، ج1،ص426.

۱۱۳

عطا نے بھی اس کہ تکذیب کی ہے(1) اور یحیی بن سعید انصاری اور سعید بن جبیر نے بھی اس کو جھوٹا کہا ہے.(2)

عثمان بن مرہ کہتے ہیں میں نے قاسم سے کہا کہ مجھ سے عکرمہ نے یوں کہا میرا بھتیجا عکرمہ جھوٹا تھا ثبوت یہ ہے کہ صبح کو جو حدیث بیان کرتا تھا شام کو اسی حدیث کی مخالفت کرتا تھا.(3)

ابن حجر کہتے ہیں: عکرمہ کا ذکر کرتے ہوئے ایوب نے کہا ہے اس کے پاس عقل کم تھی(4) کہتے ہیں جس دن وہ مرا اس دن کثیر عزہ کی بھی موت ہوئی دونوں کے جنازے مسجد نبوی کے دروازے پر لائے گئے پس لوگوں نے کثیر کے جنازے پر نماز پڑھی اور اس کا جنازہ چھوڑ کے چلے گئے اس کے جنازے میں صرف حبشی شریک ہوئے.(5)

ابن حجر کہتے ہیں اسماعیلی نے اپنی کتاب مدخل میں نقل کیا ہے عکرمہ کے بارے میں لوگوں نے ایوب کو بتایا کہ وہ ٹھیک سے نماز پڑھتا ہے ایوب نے پوچھا کیا وہ نماز بھی پڑھتا تھا.(6)

ان تمام باتوں کے باوجود ابن حجر، عکرمہ کا بھر پور دفاع کرتے ہیں اور اس کو صحیح الحدیث کہتے ہوئے نہیں تھکتے.(7)

.............................................

1. مقدمہ فتح الباری، ج1، ص426. تہذیب التہذیب، ج7، ص238.

2. تہذیب التہذیب، ج7، ص238.

3. مقدمہ فتح الباری، ج1، ص426.

4. تہذیب التہذیب، ج7، ص238.

5. تہذیب التہذیب، ج7، ص240.

6. تہذیب التہذیب، ج7، ص238.

7. تہذیب التہذیب، ج7، ص234. 341.

۱۱۴

مشہور خبیث و زندیق خالد بن عبداللہ قسری

6. خالد بن عبداللہ قسری، بنو امیہ کا گورنر تھا اور وہ ایسا تھا کہ اس کا خاندان کذب سے معروف تھا.(1)

ابن حبان کہتے ہیں: ثقہ افراد میں تھا.(2) ذہبی کہتے ہیں صدوق تھا،(3) اس لئے حدیث لینے والوں میں یہ نام مشہور ہیں.

اسماعیل ابن خالد، حبیب ابن حبیب جرمی، حمید طویل، اسماعیل ابن اوسط بن اسماعیل بجلی وغیرہ(4) بخاری اور ابو دائود بھی اس کے لئے حدیث اخراج کرتے ہیں.(5)

یحیی حمانی نے کہا کہ سیار سے پوچھا گیا کیا تم خالد سے بھی روایت کرتے ہو کہنے لگے کیوں نہیں خالد کذب سے بھی بالاتر ہے.(6)

یہ خالدبن عبداللہ امیرالمومنین(ع) کے سلسلے میں اتنا بڑا ناصبی تھا کہ جب عراق کا گورنرہوا تو امیرالمومنین(ع) پر بر سرعام لعنت کرتا تھا، تاریخ نے اس کے الفاظ محفوظ رکھے ہیں” پالنے والے لعنت بھیج علی بن ابی طالب(ع) بن عبدالملک بن ہاشم پر جو پیغمبر(ص) کے داماد، پیغمبر(ص) کی بیٹی کے شوہر اور حسن(ع) و حسین(ع)کے باپ تھے پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کیا میں نے اشارہ اور کنایہ سے کام لیا ہے...؟(7)

...................................................

1. الاغانی، ج22، ص18.

2. الاغانی، ج6، ص256.

3. میزان الاعتدال، ج2، ص415. المغنی فی الضعفاء، ج1، ص203.

4. تہذیب التہذیب، ج3، ص87.

5. راجع تہذیب التہذیب، ج3،ص87، المغنی فی الضعفاء، ج1، ص203.

6. تہذیب التہذیب، ج3، ص88. الجرح التعدیل، ج3، ص340. سیر اعلام النبلاء، ج5، ص426. بغیتہ الطلب فی تاریخ حلب، ج7، ص3072، تاریخ دمشق، ج16، ص138.

7. شرح نہج البلاغہ، ج4، ص57.

۱۱۵

خالد قسری نے مسجد کوفہ میں ایک بڑا چمکدار طشت لیا اور اس کے لئے فرات سے متصل ایک نہر کھودی پھر ایک عیسائی اسقف کا ہاتھ پکڑے ہوئے مسجد میں لایا پھر اس طشت کے پاس کھڑا ہوا اور اسقف سے کہا میرے لئے برکت کیدعا کر بخدا تمہاری دعائوں میں علی ابن ابی طالب کی دعائوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں.(1) محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان خالد کی خدمت میں پہونچا اس امید میں کہ اس کو کچھ انعام ملے گا لیکن اس کوکچھ بھی نہیں ملا، وہ یہ کہتا ہوا دربار سے واپس گیا نافع ہاشمیوں کے مقدر میں ہے اور ہمیں تو اس دربار سے جو تحفہ ملتا ہے وہ گالیاں ہیں جو خالد، علی بن ابی طالب(ع) کو منبر سے دیا کرتا ہے جب یہ بات خالد کو معلوم ہوئی تو کہنے لگا ہم بنو امیہ کےسب سے محبوب خلیفہ، عثمان ہیں.(2)

ابوجعفر اصفہانی کہتے ہیں! مداینی نے اپنی خبر میں کہا ہے کہ ابن شہاب بن عبداللہ نے بتایا کہ مجھ سے خالد بن عبداللہ قسری نے کہا کہ ایک کتاب لکھو جس میں نسب اور سیرت ہو میں نے کہا میں کتاب تو لکھوں گا لیکن میرے پاس سیرت علی(ع) کے بھی کچھ اجزاء ہیں کیا میں اس کتاب میں ان کو شامل کردوں یہ سنتے ہی وہ بولا ہرگز نہیں یہ تو اس قابل ہے کہ تو اسے جہنم میں ڈال دے.(3)

فراس بن جعدہ بن ہیرہ خالد کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت اس کے سامنے کچھ دانے پڑے ہوئے تھے خالد کہنے لگا کہ ایک ایک دانا اٹھاتا جا علی(ع) پر لعنت بھیجتا جا ہر لعنت کے بدلے میں ایک دینار لیتا جا(4) اس نے ایسا ہی کیا اور اچھی تعداد میں دینار جمع کر لیا اس کا ایک عامل تھا جس کا

.............................

1. انساب الاشراف، ج9، ص63.

2. انساب الاشراف، ج9، ص89.

3. الاغانی، ج22، ص21.

4. الاغانی، ج22، ص22.

۱۱۶

نام خالد بن امی تھا خالد قسری کہتا تھا میرا خالد بن امی امانتداری میں علی(ع) سے افضل ہے،(1) خالد قسری نے ایک دن ابن عباس کے غلام عکرمہ کو دیکھا اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا کہنے لگا مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ غلام علی ابن ابی طالب(ع) سے مشابہ ہے میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح اللہ نے اس حبشی کو سیاہ رو کیا ہے اسی طرح اس(...) کے چہرے کو بھی سیاہ کردے گا(2) اس کی فضول گوئی اور سرکشی کی انتہا یہ ہے کہ بنو مخزوم کا غلام نافع کہتا ہے ایک دن خالد منبر پر گیا اور پوچھنے لگا اے لوگو! کون افضل ہے اپنے اہل و عیال پر کسی نے جس کو خلیفہ بنایا ہے وہ خدا کا رسول اگر تم نہیں جانتے تو خلیفہ کی فضیلت ہم سے سنو! ابراہیم خلیل رحمن نے اللہ سے پانی مانگا تو آب شور پایا اور خلیفہ نے اسی اللہ سے پانی مانگا تو اس نے آب شیرین یعنی

فرات عنایب فرمائی ( زمزم ابراہیم و اسماعیل کی دعا کا نتیجہ ہے اور نہر فرات اس کے خیال کے مطابق شاہان بنو امیہ کی ایجاد ہے.(3)

خالد کہتا تھا لوگ زمزم کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ نہ خالی ہوگا اور نہ سوکھے گا حالانکہ وہ خالی بھی ہوگیا اور سوکھ بھی گیا لیکن البتہ امیرالمومنین(ع) ہشام نے زمزم سے جو نہر نکال کے تمہارے لئے مکہ تک پہنچائی ہے وہ اپنے حال پر باقی ہے اور رہے گی.(2)

زمزم کوزم جولان کے نام سے یاد کرتے ہیں(3) خالد نے ایک نالی کھود کے اسی زمزم کا

...................................

1. الاغانی، ج22، ص22.

2. الاغانی، ج22، ص24.

3. تاریخ طبری، ج3، ص678 سنہ99ھ کے واقعات میں. اخبار مکہ، ج3، ص60. البدایہ والنہایہ، ج9، ص76. البدء والتاریخ، ج6، ص41. الکامل فی التاریخ، ج4، ص250. الاغانی، ج22، ص24. انساب الاشراف، ج9، ص58.

4. انساب الاشراف، ج9، ص58. بقیتہ الطلب فی تاریخ حلب، ج7، ص3085. سیراعلام النبلاء، ج5، ص429. تاریخ دمشق، ج16، ص160.

5. الاغانی، ج22، ص22.

۱۱۷

پانی مکہ تک پہونچایا تھا اور زمز کے کنارے ایک گڈھا کھود دیا تھا پھر خطبے میں کہنے لگا میں تمہارے لئے صحرا کا پانی لایا ہوں، جو ام خنافس یعنی زمزم کے پانی سے مشابہ نہیں ہے.(1)

اکثر کہتا تھا خدا کی قسم امیرالمومنین ہشام خدا کے نزدیک انبیاء خدا سے دیادہ مکرم ہیں(2) کہتا تھآ یہ بتائو پیغمبر(ص) اور جانشین میں فرق ہے یا نہیں؟ رسول(ص) کی حیثیت صرف پیغام لانے والے ہی کی ہے جب کہ خلیفہ اپنے اہل کا جانشین ہوتا ہے وہ کہنا چاہتا تھا کہ ہشام نبی سے بہتر ہے.(3)

اس ملعون کی ماں عیسائی تھی، اس لئے اس نے ایک گرجا گھر بنانے کا حکم دیا لوگ کہنے لگے بلاد اسلام میں گرجے کی کیا ضرورت؟ کہنے لگا ہاں یقینا گرجا بنائیں گے اگر ان کا دین تمہارے دین سے برا ہے تو خدا ان پر لعنت کرے گا(4) اس نے دار الامارہ میں ایک کنبہ اپنی ماں کے لئے بنوایا اور اس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی وہ گرجا اسی طرح بند رہا یہاں تک کہ اس کی ماں کوفے میں آئی اور سب سے پہلا اپنا نجس قدم اس میں رکھا پھر اس نے موذنوں کو حکم دیا کہ جب تک گرجے میں ناقوس نہ پھونکے جائیں گے مسجدوں میں اذان نہ ہوگی.(5)

ایک دوسرے گرجے کا حال بھی سن ہی لیجئخ، ہشام بن کلبی اور ہیثم بن عدی کہتے ہیں: جب خالد ملعون نے اپنی ماں کے لئے کوفہ میں گرجا بنوا لیا تو بصرہ کے نصرانیوں نے بھی اس کی ماں سے بات کی اور اس کی ماں کو ایک خط لکھا جس میں بصرہ میں گرجا بنوانے کی گذارش کی، اس کی ماں نے

........................................

1. انساب الاشراف، ج9، ص58. تاریخ حلب، ج7، ص3085. سیر اعلام النبلاء، ج5، ص429. تاریخ دمشق،ج16.

2. الاغانی، ج22، ص22.

3. الاغانی، ج22، ص24.

4. انساب الاشراف، ج9، ص60.

5. انساب الاشراف، ج9، ص63.

۱۱۸

خالد کو لکھ کے یہ ہدایت دی کہ بصرہ کے نصاری کے لئے بھی ایک گرجا بنوا دے، اس ملعون نے بلال کو لکھا کہ بصرہ میں ایک گرجا بنوا دے اس نے جواب دیا کہ بصرہ والے اعتراض کریں گے خالد نے لکھا بصرہ کے عیسائیوں کے لئے تو بنوا ہی دو خدا بصرہ کے مسلمانوں پر لعنت کرے اگرچہ ان کا دین نصرانیوں کے دین سے برا ہے تو بہر حال لبادین( جگہ کا نام) میں وہ گرجا بنایا گیا شاعر اہل بیت(ع) فرزدق نے اس واقعے کو بڑی حسرت و افسوس کے ساتھ نظم کیا ہے.

فرزدق کے اشعار کا ترجمہ:

یہاں(بصرہ) پر اس کی ماں کے لئے گرجا گھر بنا کے اس میں صلیب رکھ دی گئی ہے اور ہم مسلمانوں کی مسجدیں گرائی جارہی ہے.(1) بلاذری کہتے ہیں: مجھے ابو مسعود نے بتایا کہ خالد نے اپنی ماں کے لئے کوفے کے ڈاکخانے کے پاس اسی گلی میں گرجاگھر بنوایا تھا اس کی ماں نصرانی تھی فرزدق کہتے ہیں میری جان کی قسم اگر جریر نے بجیلہ کو زینت دی تو خالد ملعون نے بجیلہ کو ذلیل کردیا اس نے اپنی ماں کے لئے وہاپ گرجاگھر بنوایا اور اس میں صلیب رکھوائی جب کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی مسجد بھی بنوائی ہے(ترجمہ اشعار فرزدق)

ایک روایت میں آخر کا مصرعہ یوں ہے گرجوں کے لئے ہماری مسجدیں گرائی جارہی ہیں.(2)

مزید ایک لطیفہ سنئے جب بنوا عباس کا دورہ آیا تو ابوعباس سفاح یا دوسری روایت کی بناء پر ابو جہم بن عطیہ جو بنی عباس کی حکومت کا آدمی تھا کے دربار میں اسی خالد کا بھائی اسماعیل بن عبداللہ خطبہ دینے کھڑا ہوا اور اپنی تقریر میں بنی امیہ کے گورنروں کو آڑے ہاتھ لیا تو حجاج، بنی ہیرہ، اور یوسف

.....................................................

انساب الاشراف، ج9، ص63.64.

1. انساب الاشراف، ج9، ص65.

۱۱۹

بن عمر کی خوب خوب مذمت کی لیکن اپنے بھائی خالد کا نام نہیں لیا یہ دیکھ کے حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا اللہ خطیب کو جزاء خیر دے تم نے اہل بیت پر لعنت اور ان کے گورنروں کے تو بخئے ادھیڑ دیئے لیکن خالد کے بارے میں کچھ نہیں کہا اچھا ہم بتا دیتے ہیں خالد کون تھا وہ زوینیہ کا بیٹا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں اکثر سور کا گوشت شراب کے ساتھ جمع رہتا تھا، اس نے ذمی کافروں کو مسلم عورتوں پر مسلط کردیا تھا جو مسلم عورتوں کو پستانوں سے باندھ کے لٹکا دیا کرتے تھے اس نے گرجے بھی بنوائے اور گرجے بنوانے میں کسی تکلیف یا شک سے کام نہیں لیا ابن نوفل نے دو شعر بھی پڑھے جس کا ترجمہ ہے.

اے امیرالمومنین!تم پر واجب ہے کہ خالد سے باز پرس کرے اور اس کے گورنروں سے بھی، کاش تو خالد کو طلب کرتا اس(خالد) نے گرجے گھر بنوائے جس میں اس کی ماں کے لئے صلیب رکھی گئی اور مسجدوں کو خراب کردیا جبکہ ان مسجدوں میں نماز ہوچکی تھی.(1) مبرد نے کہا ہے وہ ملعون مسجدوں کو خراب کرتا تھا اور گرجوں کو بنوایا کرتا تھا.(2)

بلاذری کہتے ہیں عمر بن قیس نے بتایا جب اس( خالد) ملعون سعید بن جبیر اور طلق بن حبیب کو مکہ میں گرفتار کیا تو اس سے پوچھا کیا تم ہماری کرستانیوں پر اعتراض کرتے ہو خدا کی قسم اگر امیرالمومنین ہشام مجھے تحریری حکم دیں تو میں کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادوں.(3)

مدائنی کہتے ہیں کہ وہ: کہتا تھا اگر امیرالمومنین مجھے حکم دیں تو میں کعبہ کی ایک ایک اینٹ

-----------------

1. انساب الاشراف، ج9، ص89.90.

2. الکامل فی اللغتہ والادب والنحو والتصریف، ج3، ص812.

3. انساب الاشراف، ج9، ص59. اغانی، ج22، ص23.سیر اعلام النبلاء، ج5، ص429. تاریخ حلب، ج7، ص3085. المتوارین، ج1، ص60. تاریخ دمشق، ج16، ص161.

۱۲۰