فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135255
ڈاؤنلوڈ: 3207


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135255 / ڈاؤنلوڈ: 3207
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

الگ کر کے شام منتقل کردوں.(1)

بلاذری کہتے ہیں: اس کے ایک نوکر نے ایک آدمی کو مار دیا لوگوں نے اس سے کہا کہ اپنے نوکر سے قصاص لے کہنے لگا واہ میں اپنے ہی نوکر سے قصاص لوں گا ایسا ہوا تو گویا میں نے اپنے نفس سے قصاص لوں گا اور جب اپنے نفس سے قصاص لوں گا تو گویا امیرالمومنین ہشام سے قصاص لیا اور امیرالمومنین سے قصاص لیا تو گویا رسول سے قصاص لیا اور رسول سے قصاص لیا تو خدا سے قصاص لیا.(2) اب آپ ہی بتائیں ایسے آدمی کو جھوٹ سے محفوظ کیسے سمجھا جائے اور پھر کیا ایسے شخص کا شمار ثقات میں ہوسکتا ہے؟!

ابوبکر عبداللہ ابن ابی دائود

7. ابوبکر عبداللہ ابن ابی دائود کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں: یہ امام علامہ حافظ شیخ بغدادی ابوبکر سجستانی بہت سی کتابوں کے مصنف،(3) حدیث طیر کے سلسلے میں ان پر ذہبی کا ایک تبصرہ گذر چکا ہے وہاں ذہبی نے ان کی ان الفاظ میں مدح سرائی کی کہ یہ شخص اسلام کے اکابر علماء اور قابل اعتبار حفاظ میں ہیں؛

دوسری جگہ فرماتے ہیں:ابو احمد بن عدی نے ان کا ذکر اپنی کتاب کامل میں کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر میں نے شرط نہیں رکھی ہوتی کہ ہر مجروح محدث کا تذکرہ کروں گا تو ان کا ذکر نہیں کرتا؛(4)

............................................

1. الاغانی، ج22، ص22.

2. انساب الاشراف، ج9،ص69.اغانی، ج22، ص22. تاریخ حلب، ج7، ص3086. سیر اعلام النبلاء، ج5، ص429. تاریخ دمشق، ج16، ص161.

3. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص221.222.

4. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص227.

۱۲۱

یہ آدمی بھی ناصبی مشہور ہے ثبوت کے لئے حدیث طیر کے بارے میں اس کی تعصب آمیز نا معقول باتیں کافی ہیں جو ابھی گذر چکی ہیں”طعن قرآن” کے باب میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ حدیث غدیر کا منکر ہے جبکہ متواتر اور مشہور ہے.

ایک انتہائی توہین آمیز حدیث امیرالمومنین(ع) کے بارے میں اس نے روایت کی ہے، ابن عدی کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسحق بن ضحاک بن عمرو ابن ابی عاصم نبیل سے سنا کہ اس نے محمد بن یحیی بن منذہ سے خدا کے سامنے گواہی

دے کے کہا کہ مجھ سے علی ابن ابی بکر دائود نے خدا کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ زہری عروہ سے روایت کرتا ہے وہ کہتا تھا کہ علی کے ناخن اتنے بڑھ گئے تھے کہ وہ ازواج رسول کو ان سے نوچتے رہتے تھے.(1)

ذہبی ابن عدی سے اس خبر کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ اصل میں ابن ابی دائود کچھ ہلکے دماغ کا تھا اسی طرح کی افواہ پھیلانے کی وہ سے اس کی گردن اور تلوارکے درمیان ایک بار محض ایک بالشت کا فاصل رہ گیا تھا محمد بن عبداللہ بن حفص ہمدانی جو اصفہان کا رئیس تھا اس طرح کی خبریں سن کے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے ابن ابی دائود کو قید کر دیا تو اصفہان کے امیر نے ابو لیلی کی سفارش پر اسے آزاد کردیا اس کی کسی علوی سے دشمنی تھی لیکن اس کی نسبت ابوبکر کی طرف دی جاتی تھی اور اس غیر مناسب بات پر محمد بن یحیی منذہ حافظ اور محمد بن عباس اخرم اور احمد بن علی بن جارود سے گواہی بھی دلا دی پھر بات میں تندی آتی گئی اور ابولیلی کے قتل کا حکم صادر کر دیا یہ دیکھ کے ذکوانی نے حملے کر کے گواہوں کو زخمی کر ڈالا با وجودیکہ ذکوانی صاحب عظمت و شان شخص تھا اس نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑا اور اسے وہاں سے نکال کر موت سے بچالیا.(2)

---------------------

1. الکامل فی الضعفاء الرجال، ج4، ص266. میزان الاعتدال، ج4، ص113.114. تذکرة الحفاظ، ج2، ص771. سیراعلام النبلاء، ج13، ص220. لسان المیزان، ج3، ص294.

2. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص229.

۱۲۲

بہر حال جہاں تک اس کی وثاقت اور جلالت قدر اور حفظ حدیث کا سوال ہے جس کا ذہبی اور ابن عدی نے بہت ڈھنڈھورا پیٹا ہے تو اس خبر سے ظاہر ہے جو ابھی آپ کی نظر سے گذری اور جس میں اس نے توہین آمیز بکواس کی ہے اس کے علاوہ طعن قرآن کے باب میں بھی اس کی وضاحت ہوچکی ہے خود اس کے باپ بھی کہتے تھے کہ میرا بیٹا عبداللہ جھوٹا ہے اس لئے ابن صاعد نے کہا ہے کہ جس کی توثیق ذہبی کرتے ہیں اس کے بارےمیں اس کے باپ کا قول ہمارے لئے کافی ہے.

( عربی میں مثل مشہور ہے کہ(اهل البیت ادری بما فیها) گھر والے گھر میں کیا ہے زیادہ جانتے ہیں) مترجم غفرلہ.

ابن ابی دائود کے باپ یہ بھی کہتے تھے کہ مصیبت یہ ہے کہ میرا بیٹا عبداللہ عہدہ قضا کا طالب ہے.(1)

ابراہیم بن ارومتہ اصفہانی نے کہا” ابوبکر بن ابی دائود بہت جھوٹا ہے”(2)

ابن عدی کہتے ہیں: میں نے ابوالقاسم بغوی سے سنا کہ ان کے پاس ابوبکر نے ایک خط لکھا جس میں اپنے دادا کی کسی حدیث کے بارے میں پوچھا تو ابوالقاسم نے خط پڑھ کر کہا: میرے نزدیک تو خدا کی قسم تونے علم کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے.)(3)

ان تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود آپ نے دیکھا کہ ذہبی اس کی موافقت میں کس بیقراری سے کوشاں ہیں اور طعن و تشنیع کے باب میں انہوں نے کس کس طرح اس کی حفاظت کی ہے.

“تو مشک ناز کر خون شہیداں میری گردن پر”

..........................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص229.

2. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص229

3. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص229

۱۲۳

عبدالمغیث ابن زہیر

یہ شخص شدت پسند ناصبی ہے لیکن ذہبی اس کے دیوانے ہیں اس کا پورا نام یوں ہے عبدالمغیث بن زہیر ن زہیر ابن علوی اس کے بارے میں ذہبی فرماتے ہیں ابوالعز بن ابوالحراب بغدادی حربی سنہ500ھ میں پیدا ہوئے یہ شیخ ہے، امام ہے،

محدث ہے، زاہد ہے، صالح ہے اسلاف میں سے جو باقی رہ گئے ہیں ان کی پیروی کرنے والا ہے اس نے آثار پر توجہ دی کتابیں پڑھیں نسخے لکھے جمع کیا اور کتابیں لکھیں کہ وہ شخص متورع ہے، دیندار ہے، سچا ہے، دین سے تمسک رکھتا ہے دلوں میں اس کی وقعت اور جلالت کا سکہ بیٹھا ہوا ہے، بہت سی روایتیں بیان کی اور طلبہ کو فائدہ پہونچایا.(1)

لیکناس کے ناصبی ہونے کے ثبوت میں ذہبی کی صرف یہ عبارت کافی ہے کہ اس عبدالمغیث نے فضائل یزید میں کچھ جزئ تالیف کئے اس کتاب میں اس نے بڑی عجیب و غریب چیزیں جمع کی ہیں کاش اس نے یہ کتاب نہ لکھی ہوتی تو بہتر ہوتا بہر حال ابن جوزی نے اس کی اس سیاہ کتاب کی تردید لکھ دی ان سے ناراض ہوگیا اور دونوں میں زبردست عداوت ہوگئی.(2)

اب اس کی صداقت بھی ملاحظہ فرمائیں اور جلالت و افادیت بھی دیکھیں ایک تو یہ کہ فضائل یزید میں کتاب لکھتا ہے اور اس کتاب میں عجائب کا ذخیرہ قرار دیتا ہے دوسرے یہ کہ ذہبی ہی نے لکھا ہے ایک بار کہنے لگا کہ مسلم بن یسار صحابی ہیں اور انہوں نے حدیث استلقا کو صحیح قرار دیا ہے حالانکہ یہ حدیث منکر ہے لوگوں نے کہا پھر تم کیوںاس حدیث کو صحیح مانتے ہو تم بھی انکار کردو کہنے لگا صحابی کی توہین ہوجائے گی.بہر حال ہمیں اس سے کیا مطلب کہ وہ صحابی یا غیر صحابی کی توہین کرتا ہے اور حدیث منکر کو صرف اس لئے صحیح قرار دیتا ہے کہ راوی کی توہین نہ ہو ہم تو اس شخص کے صداقت لہجہ اور جلالت قدر اور توثیق کو کھولنا چاہتے ہیں تاکہ تلاش کرنے والا پھسل کے گر نہ جائے.

..................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج21، ص159.160.

2. سیر اعلام النبلاء، ج21، ص60.

۱۲۴

شیعہ، نواصب کی بہ نسبت صداقت کے زیادہ مستحق ہیں

اگر نگاہ انصاف سے دیکھا جائے اور نگاہوں سے تعصب کی عینک اتار دی جائے تو شیعہ نواصب کی بہ نسبت صداقت گفتار کے زیادہ مستحق ہیں.

اس کے چند اسباب ہیں:

1. ابھی آپ نے دیکھا ہے احمد ابن حنبل وغیرہ نے فضائل علی(ع) کے بارے میں گواہی دی ہے شیعوں کے پاس بے شمار دلائل ہیں اور اپنی حقانیت پر اتنی زبردست دلیلیں رکھتے ہیں جو انہیں اپنے مذہب کےبارے میں استغاثہ بخشی ہیں.

2. شیعوں کے ذہن کی تربیت ایسے معصوم اماموں کے یہاں ہوئی ہے جو صدق و شرف میں امت کے درمیان بہت اونچا مقام رکھتے ہیں تیسرے سوال کے جواب میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے.

جس طرح نواصب اس بات کے حقدار ہیں کہ انہیں کذاب اور افترا پرداز کہا جائے کیونکہ وہ تہی دست ہیں جیسا کہ ابھی احمد بن حنبل کا بیان امیرالمومنین(علیہ السلام) کے حق میں گذر چکا ہے ایک تو وہ تہی دست اور محتاج ہیں دوسرے یہ کہ انہوں نے اپنے معاویہ، عمرو عاص اور مروان بن حکم جیسے رہبروں کی اقتداء کی ہے اور ان کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں چونکہ ہر جنس اپنی جنس سے مانوس ہوتی ہے، نیز ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء اور پیروی کی جاتی ہے.

کبوتر با کبوتر باز با باز کند ہم جنس با ہم جنس پرواز

ہرماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اس خدا کی حمد جس نے ہمیں دین حق اور دین اہل بیت کی ہدایت کی اگر اس نے ہدایت نہ کی ہوتی تو ہم ہرگز ہدایت نہیں پاسکتے تھے.(1)

.............................................

1.سورہ الاعراف، آیت4.

۱۲۵

احادیث کےمقابل غیر متوازن موقف

پانچویں بات یہ ہے کہ حدیثوں کی دنیا میں مقام سیرت و فضائل میں دو طرح کی حدیثیں پائی جاتی ہیں.

1. کچھ حدیثیں وہ ہیں جو فضائل اہل بیت(ع) اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں اسی حساب سے فقہ و عقائد میں بھی وہ حدیثیں اہل بیت(ع) اور محبان اہل بیت کو عام مکتب فکر سے الگ کرتی ہیں.

2. کچھ حدیثیں وہ ہیں جو دشمنان اہل بیت(ع) کے مناقب اور عذر تراشی کے عنوان سے ذکر کی گئی ہیں نیز ایسی حدیثیں بھی بیان کی گئی ہیں جو ان کے فقہی اور عقیدتی جنبہ کو مخصوص کرتی ہیں.

آپ محسوس کریں گے کہ برادران اہل سنت مذکورہ بالا پہلی قسم کی حدیثوں کو لینے میں بڑی چھان بین اور بحث و تمحیص سے کام لیتے ہیں اور راویوں پرسخت جرح کرتے ہیں اور اسناد کی بھی چھان بین کر کے اس حدیث کو غلط یا کم سے کم مجروح ثابت کرنے کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے چاہے حدیث کی اسناد آئینہ کی طرح چمکتی ہوں اور پیمانہ روایت صادقین کی صداقت سے چھلک رہا ہو، حالانکہ انہیں راویوں سے جب دوسری قسم کی حدیث یعنی دشمنان اہل بیت کے مناقب میں حدیث آتی ہے تو یہ حضرات آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے ہیں اور ان حدیثوں کے اعتقاد کے لئے دوسری ضعیف حدیثوںاور راویوں کو پیش کر دیتے ہیں سب سے غلط بات یہ ہے کہ خود ہی سند کو مطعون بناتے ہیں اور محض سند کے مطعون ہونے کی وجہ سے حدیثوں کے منکر اور نا قابل قبول ہونے کا حکم صادر کر دیتے ہیں بلکہ ہر اس حدیث کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کے وضعی ہونے کا حکم لگا دیتے ہیں جو ان کے جذبات کے خلاف اور خواہشات نفس کے منافی ہوتی ہے.

حالانکہ مذکورہ بالا دوسری قسم کی حدیثوں کے بارے میں ذکر ان کا یہ حیرت انگیز رویہ بدل جاتا ہے دشمنان اہل بیت(ع) کے مناقب میں کمزور ترین اسناد سے ذکر ہوئی حدیث بھی ان کے لئے

۱۲۶

ناقابل قبول تو دور کی بات ہے بلکہ واجب التسلیم ہوتی ہے وہ اس حدیث کو اتنا شائع اور اس سے قبل عام کر دیتے ہیں کہ وہ حدیث شواہد سے مستغنی ہوجاتی ہےمیں نے اس ناروا سلوک کی بعض مثالیں کچھ دیر پہلے پیش کی ہیں.

حالانکہ یہ بات طے ہے کہ جب سنت شریفہ صرف روایت اور اسناد ہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے تو بہت ضروری ہے کہ راوی اور سند کے سلسلے میں تعصب اور جانبداری سے کام نہ لیا جائے اور چھان پھٹک کا عمل مضبوط اور محفوظ بنیادوں پر کیا جائے.

اس کے علاوہ میں برادران اہل سنت سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ فضائل اہل بیت(ع) کی حدیثوں پر انصاف سے غور کیا جائے نیز تاریخی شواہد پر منصفانہ نظر رکھی جائے کہ اہل بیت(ع) اور شیعیان اہلی بیت(ع) نے قید و بند اور توبیخ اور تنکیل کا ایک طویل دور گذارا ہے جب فضائل اہل بیت(ع) کی حدیثیں بیان کرنے کے جرم میں زبانیں کاٹ لی جاتی تھیں ہر دور میں حکومت کی پوری پہلی اور آخری کوشش ہوتی تھی کہ فضائل اہل بیت(ع) مٹایا جائے اور دشمنان اہل بیت کےفضائل کی نشر و اشاعت کی جائے محبان اہل بیت(ع) دیواروں میں زندہ چن دیئے جائیں اور ان کے وجود سے قید خانوں کو بھر دیا جائے دشمنان اہل بیت(ع) کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں انعام و اکرام سے نواز کے فکر مال و دولت سے بے نیاز کر دیا جائے کہ وہ بے فکر ہو کے دشمنان اہل بیت(ع) کی منقبت اور اہل بیت(ع) کی مذمت میں زیادہ سے زیادہ حدیثیں گڑھ سکیں تاریخ کے اس المیہ اور حکومتوں کی اس پر تشدد نگرانی اور چوکسی میں، کوئی سچ بولنے میں تکلف محسوس کرتا تھا وہ غریب جھوٹی حدیثیں کیا گڑھتا اس کو تو سچ بولنے کی بھی ہمت نہیں تھی پس ایسے اہل بیت(ع) کے فضائل میں اگر کچھ حدیثیں آگئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حق اور سچ کو غلبہ ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا. انشاء اللہ.

علمائے جمہور کے نزدیک کچھ صحاح ستہ کے بارے میں

برادران اہل سنت کے یہاں پانچ یا چھ کتابیں اصول حدیث کی حیثیت رکھتی ہیں ان کتابوں میں ان کے نظرئیے کے مطابق صرف صحیح حدیثیں پائی جاتی ہیں اس لئے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے اہل سنت

۱۲۷

ان کتاب کی حدیثوں پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں یہاں تک کہ روز بہان لکھتے ہیں، علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحاح ستہ پر تعلیقات کے علاوہ اگر کوئی حلف اٹھائے کہ طلاق قول رسول فعل رسول اور تقریر رسول سے ثابت ہوتی ہے اور اس کی تائید صحاح ستہ نہیں کرے تو طلاق نہیں ہوگی اور میان بیوی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا.(1)

صحت احادیث میں بخاری اور مسلم کی امتیازی حیثیت

صحاح ستہ میں یہ دو کتابیں یعنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری اصح الکتب مانی جاتی ہیں، ان دونوں کتابیں کی صحت پر عام اہل سنت کو اتنا اعتماد کہ ان دونوں کو صحیحین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ جب بولا جاتا ہے تو اس کا اطلاق صرف انہیں دو کتابوں پر ہوتا ہے صحیحین سے تبادر ذہنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری کا ہوتا ہے یہاں تک کہ ابن حجر لکھتے ہیں شیخین یعنی صحیح بخاری اور مسلم نے جو روایتیں اپنی کتابوں میں لکھی ہیں وہ روایتیں قرآن مجید کے بعد صحیح ترین ہیں اور اس پر ایسا اجماع حاصل ہے لہذا صرف نظر نہیں کیا جاسکتا.(2)

ابوعمرو بن صلاح کہتے ہیں ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری نے سب سے پہلے اپنی کتاب صحیح بخاری میں صحیح حدیثیں جمع کیں، ان کے بعد ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری نے اپنی کتاب صحیح مسلم لکھی، حالانکہ انہوں نے بخاری سےبھی حدیثیں لی ہیں اور استفادہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے اساتذہ جو بخاری میں پائے جاتے ہیں وہ صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں، ان دونوں کی کتابیں کتاب خدا کے بعد صحیح ترین ہیں.(3)

نووی کہتے ہیں: فصل، علماء(رحمہم اللہ) کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعد صحیح

...................................

1. دلائل الصادق، ج2، ص380.381.

2. الصواعق المحرقہ، ج1، ص31.

3. مقدمہ فتح الباری،ج1،ص10.

۱۲۸

بخاری اور صحیح مسلم اصح الکتب ہیں تمام کتابوں سے زیادہ فوائد ظاہرہ اور معارف غامضہ کی حامل ہیں یہ بات بھی صحیح ہے کہ مسلم کبھی بخاری سے استفادہ کر لیتے ہیں اور اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ علم حدیث میں کتاب بخاری کی کوئی نظیر نہیں ملتی(1) امام نووی پھر فرماتے ہیں امام حرمین نے کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی حلفیہ بیان دے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور صحیحین میں کوئی حدیث اس طلاق کو صحیح نہیں مانتی یعنی ان کتابوں میں حدیث نبوی سے اس طلاق کی تائید نہ ہوتی ہو تو وہ طلاق نہیں ہوئی وہ حلف اٹھاتا رہے طلاق کے نہیں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ علمائے ان دونوں کتابوں کی صحت پر اجماع کیا ہے.(2)

سیوطی لکھتے ہیں: شیخ یعنی ابن صلاح نے کہا ہے کہ بخاری اور مسلم نے یا ان میں سے کسی ایک نے جو بھی روایت کی ہے وہ قطع کا فائدہ دیتی ہے یعنی مقطوع بالصحة ہے اس سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے جو اس کے علم قطعی ہونے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے قطع نہیں بلکہ ظن حاصل ہوتا ہے، صرف امت نے امام بخاری یا مسلم سے ظن کا فائدہ حاصل کیا ہے اس لئے کہ ان کے لئے ظن پر عمل کرنا واجب ہے اور ظن میں کبھی غلطی بھی ہوسکتی ہے ان کے جواب میں عرض ہے کہ میں بھی پہلے اپنی بات کا رجحان رکھتا تھا اور اسی بات کو مضبوط سمجھتا تھا لیکن پھر مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ میراپہلا نظریہ ہی صحیح تھا اس لئے کہ یہ بات طے ہے کہ جو معصوم من اللہ ہوتا ہے اسے ظن نہیں بلکہ قطع ہوتا ہے اور امت کا اجماع خطا سے محفوظ ہےچونکہ امت کا ان کتابوں کی صحت پر اجماع ہے اس لئے ان کی صحت قطعی ہے امام الحرمین نے یہ صاف لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص حلف اٹھا کر کہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور صحیحین میں قول نبی(ص) سے وہ طلاق ثابت نہیں ہوتی ہو تو طلاق نہیں ہوگی اس لئے کہ مسلمانوں کا ان دونوں کی صحت پر اجماع ہے میں کہوں گا میری مراد تو یہی ہے اس کے علاوہ کوئی نظریہ بھی نہیں ہے.(3)

..............................................

1. شرح النووی علی صحیح مسلم، ج1، ص14.

2. شرح النووی علی صحیح مسلم، ج1، ص19.

3. تدریب الراوی، ج1، ص131.134.

۱۲۹

دہلوی کہتے ہیں: جہاں تک صحیحین کا سوال ہے تو محدثین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ان میں جتنی حدیثیں ہیں چاہے متصل ہوں چاہے مرفوع بہر حال مقطوع بالصحة ہیں اور اپنے جمع کرنے والوں تک متواتر ہیں جو بھی ان دونوں اماموں کی حدیثوں کو کمزور سمجھتا ہے وہ بدعتی ہے اور مومنین کے علاوہ راہ کا سالک ہے.(1)

علماء اہل سنت کہتے ہیں شیخین نے جن روایات کو نقل کیا ہے اس پر عمل کرنا تمام امت مسلمہ کے لئے جائز ہے.(2)

مگر صحیحین پر اجماع نہیں ہے

ابھی آپ نے ابن حجر ہیثمی کا قول ملاحظہ فرمایا کہ دونوں کتابوں کی صحت پر مسلمانوں کی ایک معتدبہ جماعت کا اجماع ہے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے یہی نہ کہ غیر معتدبہ جماعت اجماع سے خارج ہے اور کچھ لوگوں کا ان کتابوں پر احماع نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایتیں ان جذبات اور ہوائےنفس کی مخالفت کرتی ہیں، اب سیوطی کی بات پر بھی توجہ دیں سیوطی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ لوگوں نے اجماع کی مخالفت کی ہے صحیح تو یہ ہے کہ صحیحین کے وکیلوں اور حامیوں کی عبارتوں پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے خود اہل سنت کا

ان کی صحت پر اجماع نہیں ہے چہ جائیکہ پوری امت مسلمہ! اس سلسلے میپ بہت سے علماء نے اجماع کی نفی کی ہے خصوصا ہماے دور میپ اتنے لوگ مخالف ہیں جن کا شمار ممکن نہیں.

غیر سبیل مومنین کے اتباع کی بات، پھر بدعتی بھی

لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے برادران اہل سنت کسی ایک بات کو طے کر لیتے ہیں اور ان لوگوں سے تحاہل عارفانہ کرتے ہیں جو ان کے ہوائے نفس کے مخالف ہیں پھر اپنی اس بات کو صحیح ثابت کرنے

......................................

2. حجة اللہ البالغہ، ج1، ص282 باب طبقات کتب الحدیث.

3. الکشف الحثیث، ص112، انہیں الفاظ میں فتح الباری، ج13، ص457 پر بھی ہے.

۱۳۰

کے لئے زبردستی کا دعوی کرتے ہیں اور مسلسل بکتے رہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے، اس پر اجماع ہے، جو اس کا مخالف ہے وہ بدعتی ہے غیر سبیل مومنین کا تابع ہے اور مسلسل اپنے مفروضہ کو حق کہہ کر شہرت دیتے رہتے ہیں( آپ نے دیکھا کہ صحیحین کے بارے میں اجماع کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے اور خود اپنی عبارتوں کی گرفت میں ہیں اور قلم کی لغزش کو نہیں روک پاتے نتیجہ میں اپنے ہی دعوے کے خلاف لکھتے چلے جاتے ہیں) مترجم غفرلہ.

بدعت اور اتباع غیر سبیل مومنین کا مطلب کیا ہے؟

مشکل یہ ہے کہ ہمارے بڑے بھائی بدعت کا مطلب نہیں سمجھتے اور ہرجگہ بدعت کی تلوار تان دیتے ہیں، بدعت کا مطلب ہے سنت کے خلاف، بدعتی وہ ہے جو ان باتوں کو شرع سمجھے جس کو اللہ نے شرع نہیں قرار دیا ہے اور جس کو پیغمبر(ص) نے شرع بتا کے نہیں پہنچایا ہے، ارشاد ہے( یہ رہبانیت ہے جسے انہوں نے اختراع کر لی ہے ورنہ ہم نے ان پر واجب نہیں قرار دی تھی)(1)

اسی طرح غیر سبیل مومنین کے اتباع کا مطلب مسلمانوں کے مسلمات کے مخالفت نہیں ہوتا، جب کہ صحیحین کی صحت وہ مسلمہ ہے جو متاخرین کے خیال خاص کا مرہون منت ہے.

اسی طرح غیر سبیل مومنین کو بھی سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے، ایک راستہ ہے جو اللہ کا راستہ ہے اللہ اور اللہ کا رسول مسلمانوں کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں اب اگر کوئی اس راستے سے الگ راستہ بنا کے پیغمبر(ص) کو تکلیف پہنچاتا ہے تو کہا جائے گا کہ یہ اتباع غیر سبیل مومنین ہے، اس کو خود قرآن مجید پڑھ کے سمجھئے، ارشاد ہوتا ہے( ہدایتوں کی وضاحت کے بعد بھی جو رسول(ص) کو مشقت میں ڈالے یعنی

...............................

1.سورہ الحدید، آیت 27.

۱۳۱

رسول کو تکلیف پہنچائے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کے اپنے راستے پر چلے تو ہم اس کو ادھر ہی موڑ دیں گے جدھر وہ مڑ رہا ہے اور اس کو جہنم میں جھونک دینگے جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے.(1)

قطع کا دعوی کھلی ہوئی بکواس

حیرت کی بات یہ ہے کہ امام مسلم اور بخاری کے دیوانے ان اصولی کتابوں کے مندرجات پر قطع کا دعوی کرتے ہیں جو بیکار کی بکواس ہے، اس لئے کہ رجال سند میں واسطوں کی کثرت، سنت شریفہ کا دور پیغمبر(ص) میں مشکلات سے دوچار ہونا، جیسے کذب متعمد، وہم اور ایسے قرینوں کا ضائع ہونا جن کے ذریہ حدیث کی مراد و موارد سمجھنے میں سہارا ملتا تھا بعض جھوٹی حدیثوں کا علم سے براہ راست ٹکرائو، یا ان جھوٹی حدیثوں کے وجود سے پیدا ہوتے ہوئے وہم حدیثوں کے معنی کو خلاف ظاہر لینا وغیرہ، وہ اسباب ہیں جن کو ملا جلا ک ایک ایسا ماحول بنتا ہے جو قطع کے لئے تو ہرگز سازگار نہیں ہے پھر ان حضرات کو....

حدیثوں کی صحت پر قطع کیسے حاصل ہوگیا سمجھ میں نہیں آتا

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ماحول میں قطع تو ناممکن ہے البتہ اس بات پر وثوق ہے کہ یہ حدیثیں پیغمبر(ص) سے صادر ہوئی ہیں یا یہ کہ چونکہ ان میں حجیت کے شرائط پائے جاتے ہیں اس لئے ان پر عمل جائز ہے.

اہل سنت کا بیان خود صحیحین کی صحت کے خلاف ہے

صحیحین کی حدیثوں کی صحت پر احماع تو خیر کیا حاصل ہوگا، اہل سنت کے بیانات پر نظر کی جائے تو ان حدیثوں پر وثوق بھی مشکل سے حاصل ہوتا ہے یعنی خود انہیں حضرات کے بیان کو دیکھتے ہوئے انہیں

................................................

1.سورہ نساء، آیت 115.

۱۳۲

ثقہ کہنا بھی مشکل ہے ثقہ حدیثوں کا وہ معیار جو منطق اور عقل وضع کرتی ہے اور س کے ذریعہ عنداللہ حجیت حاصل ہوتی ہے، اس معیار پر وہ پوری نہیں اترتیں، اہل سنت حضرات نے دوسری کتابوں میں صحت حدیث کا جو معیار معین فرمایا ہے اس معیار کی بنا پر صحیحین کی حدیثوں کو ثقہ بھی نہیں کہا جاسکتا، پہلی بات تو یہ ہے کہ خود اہل سنت بھائی صحاح ستہ کے جمع کرنے والوں کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں اور کیفیت جمع کو مشکوک سمجھتے ہیں.

امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح بخاری

1.امام بخاری کے بارےمیں بہت سی باتیں پہلے بھی عرض کی جاچکی ہیں، اہل جرح و تعدیل کے بارے میں اور ان کی جرح کے بارےمیں بھی بات ہوچکی ہے، ان حضرات کا یہ خیال ہےکہ اصحاب جرح و تعدیل پر اگر کوئی طعن کرتا ہےتو اس طعن سے ان حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.

2. اب بخاری کے بارے میں محمد بن یحیی ذہلی کا قول ملاحظہ ہو، محمد بن یحیی ذہلی جمہور اہل سنت کے بڑے علماء میں شمار کئے جاتے ہیں، جب انہیں معلوم ہوا کہ امام بخاری تلفظ بالقرآن کو مخلوق سمجھتے ہیں اور لوگوں نے محض اسی عقیدہ کی وجہ سے امام صاحب سے تعلقات منقطع کرلئے ہیں صرف امام مسلم ان کی مجلس میں جاتے ہیں محمد بن یحیی نے فرمایا، آگاہ ہو جائو جو قرآن کے الفاظ کے مخلوق ہونے کا قائل ہے اس کا ہماری مجلس میں بیٹھنا جائز نہیں ہے یہ سن کے مسلم کھڑے ہوئے اور مجلس کے باہر آئے پھر محمد بن یحیی نے بخاری کے بارے میں کہا: یہ شخص میری موجودگی میں اس شہر میں نہیں رہ سکتا ہے بخاری نے جب یہ سنا تو ان کو خوف ہوا کہ کہیں محمد بن یحیی ان کا قتل نہ کرا دیں پس امام بخاری نے وہ شہر چھوڑ دیا(1) مطاعن اہل جرح و تعدیل کے مطاعن کے باب میں یہ باتیں عرض کی جاچکی ہیں.

..................................

1. سیر اعلام النبلاء، ج12، ص460.

۱۳۳

3. امام بخاری کے اسی عقیدہ کی وجہ سے ابوحاتم رازی اور ابوزرعہ رازی(1) نے ان سے روایت لینے سے منع کیا ہے ابوحاتم رازی ار ابوزرعہ رازی اہل سنت کے بڑے علما میں شمار کئے جاتے ہیں.

4. ذہبی نے اپنی کتاب المغنی فی الضعفاء(2) میں امام بخاری پر اعتراض کیا ہے یہاں تک کہ منادی نے بہت سخت الفاظ میں اس کے ذہبی سے واقع ہونے والے کا انکار کیا ہے.(3)

5. محب ابن ازہرسجستانی لکھتے ہیں میں بصرہ میں سلیمان ابن حرب کی مجلس میں بیٹھا تھا اور اسماعیل بخاری بھی وہاں تشریف فرما تھے لیکن حدیث نہیں لکھ رہے تھے پوچھا گیا یہ حدیث کیوں نہیں لکھ رہے ہیں لوگوں نےکہا جب بخاری واپس جائیں گے تو یہاں کی سنی ہوئی حدیث وہاں لکھیں گے.(4)

احمد بن ابی جعفر کہتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل نے کہا: میں نے بہت سی حدیثیں بصرہ میں سنی اور انہیں شام میں لکھا میں جو حدیثیں سنی انہیں بصرہ میں آکے لکھا میں نے کہا اے ابوعبداللہ!آپ بھولتے نہیں اور ایسی حدیثیں کمال کے ساتھ لکھ لیتے ہیں ہے سن کے وہ خاموش ہوگئے(5)

6. بخاری اپنی کتاب کی شہرت سے پہلے ہی مر گئے اس لئے ان کی روایتوں اور نسخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.

ابو الولید باجی کہتے ہیں: ابو ذرعبد بن احمد ہروی حافظ نے کہا مجھ سے ابو اسحاق مستملی ابراہیم بن احمد نے کہا میں نے کتاب بخاری کو ان کی اصل کتاب سے نقل کیا، ان کی اصل کتاب محمد

..................................

1. الجرح والتعدیل، ج7،ص191.

2. المغنی فی الضعفاء، ج2. ص557.

3. تفیق التعلیق، ج5، ص391.

4. تاریخ بغداد، ج2، ص11. تفیق التعلیق، ج5، ص417؛ فتح الباری، ج1، ص487.

5. فیض التقدیر، ج1، ص24.

۱۳۴

بن یوسف فربری کے پاس تھی میں نے دیکھا کہ وہ کتاب مکمل نہیں تھی، اس میں بہت سے لوگوں کے ترجمے نہیں تھے کہیں حدیثیں تھیں لیکن ان حدیثوں کے راوی کے ترجمے نہیں تھے کہیں راویوں کے ترجمے تھے لیکن ان راویوں سے حدیثیں نہیں تھیں.

مذکورہ بالا بات کی صحت پر دلیل یہ ہے کہ ابواسحق مستملی، ابو محمد سرخسی،

ابوہیثم کشمیہنی اور ابو زید مروزی نے ایک ہی اصل سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان کی روایتوں میں تقدیم و تاخیر پائی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے جہاں بھی رقعہ یا کسی پرچے میں کوئی حدیث پائی اپنے مجموعہ میں اس کا اضافہ کرلیا یہی وجہ ہے کی تم دو ترجموں یا اس سے زیادہ کے درمیان میں کوئی حدیث نہیں پاتے یہ بات بھی اس وقت واضح ہوئی جب ہمارے اہل شہر نے اس کی طرف توجہ دی انہوں نے چاہا کہ جس کی حدیث ہے اس کے حالات بھی وہیں بیان ہوجانا چاہئے اب اس کی تاویل ایسی کرنی چاہئے جو جائز نہیں ہے.(1)

ابن حجر کہتے ہیں کہ بخاری نے سعید بن زید کے اسلام کا تذکرہ سیرت نبوی کے شروع میں کیا لیکن عبدالرحمن بن عوف اور سعید بن زید کے مناقب کا تذکرہ اپنی کتاب میں نہیں کیا ہے حالانکہ دونوں افراد عشرہ مبشرہ کے اصحاب میں شامل ہیں میراخیال ہے کہ یہ نام بخاری کی غلطی سے نہیں ہیں اصل میں بعد والوں کی غلطی ہے جنہوں نے کتاب بخاری کو من و عن نقل نہیں کیا جیسا کہ ابھی لکھا جاچکا ہے کہ امام بخاری صاحب نے مسودہ چھوڑ دیا اور اس مسودہ میں جن کا تذکرہ تھا اس میں حفظ ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور افضلیت، سابقیت اور سن وغیرہ کا کوئی لحاظ نہیں رکھا تربیت کا طریقہ پہلے رائج تھا پس جب کسی کا لحاظ نہیں کیا گیا تو ہر ایک ترجمہ الگ لکھنے لگا اور پھر جیسے جیسے لکھتا گیا بعض کو بعض سے ضم کردیا گیا.(2)

...............................................

1.التعدیل والجرح، ج1، ص310.311.

2. مقدمہ فتح الباری، ج7، ص93.

۱۳۵

کچھ مسلم اور ان کی کتاب کے بارے میں

7. ذہبی کہتے ہیں: مسلم کا مزاج الگ ہے انہوں نے بخاری سے بھی انحراف کیا ہے اور ان سے کسی حدیث کونقل نہیں کیا ہے، اپنی صحیح میں ان کے نام کا حوالہ دیا ہے اپنی کتاب کو ان خطوط پر ترتیب دیا ہے جس سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کی اس نے جو حدیث لکھی وہاں”عن” کا استعمال کیا، اس کے علاوہ راوی کا معاصر ہونا کافی سمجھتے تھے اور دونوں راویوں کی ملاقات کا ہونا ضروری نہیں جانتے تھے یعنی اگر وہ وسائط میں عن فلان عن فلان کہتے تھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ دونوں راوی معاصر ہیں ان کی نظر میں یہ ضروری نہیں تھا کہ ان دونوں نے آپس میں ملاقات بھی کی ہو، جو محدث اس بات کی شرط لگاتا تھا یعنی دونوں راویوں کے ملاقات کی اس کی مسلم توبیخ بھی کرتے تھے، حالانکہ اس شرط کے قائل امام بخاری اور ان کے استاد علی بن مدینی تھے.(1)

8. سعید برذعی کہتے ہیں: میں نے ابوزرعہ سے ملاقات کی جب ان کے سامنے مسلم کا ذکر آیا تو کہنے لگے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کے پہلے آگے بڑھنا چاہا پھر یہیں انہوں نے ایک ایسا عمل انجام دیا جو ان کو آگے بڑھا رہا تھا اور جس کو وہ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے تھے.(2)

9. دوسرے لفظوں میں ابوزرعہ نے کہا؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قبل از وقت آگے بڑھنا چاہا تو ایسا عمل کیا (کتاب لکھی) جس کو وہ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے انہوں نے ایک کتاب لکھی پھر اس کو نیا کارنامہ قرار دیا تاکہ قبل از وقت اس کے ذریعہ اپنی ریاست قائم کریں.(3)

برذعی کہتے ہیں: کہ ان (ابوزرعہ) کے پاس ایک دن کوئی شخص صحیح مسلم لے کے آیا میں وہیں

................................................

1. تہذیب الکمال، ج4، ص419.

2. تاریخ بغداد، ج4، ص272.

3.سئوالات البرذعی، ص675.

۱۳۶

بیٹھا ہوا تھا ابوزرعہ نے صحیح مسلم کو پڑھنا شروع کیا جب انہوں نے اسباط بن نصر سے حدیث دیکھی تو کہنے لگے یہ کتاب صحت سے کتنی دور ہے اس میں اسباط بن نصر جیسے لوگوں سے حدیث ہے، پھر انہوں نے قطن بن نسیر سے بھی حدیث دیکھی کہنے لگے یہ پہلے بھی برا ہے، قطن بن نسیر ثابت سے حدیثیں لے کے انہیں انس کے حوالے سے بیان کرتا تھا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگے امام مسلم احمد بن عیسی مصری سے بھی حدیث لیتے ہیں حالانکہ احمد بن عیسی مصری وہ ہے جس کے بارے میں خود اہل مصر کو ہمیشہ شک رہا پھر اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا یعنی جھوٹ کا شک رہا پھر کہنے لگے یہ شخص( امام مسلم) مذکورہ بالا افراد سے حدیثیں لیتا ہے اور محمد عجلان جیسے لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے اس کہ وجہ سے اہل بدعت کو ہم پر اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ جب ان اہل بدعت پر کسی حدیث سے حجت قائم کی جاتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث کتاب صحیح میں نہیں ہے. برذعی کہتے ہیں میں نے دیکھا ابوزرعہ اس کتاب(مسلم) کی اور اس کے مرویات کی مذمت کرتے رہتے تھے پھر اس کے بعد امام مسلم شہر ( ری) چلے گئے مجھے معلوم ہوا کہ وہاں وہ ابو عبداللہ محمد بن مسلم بن وارہ کے پاس گئے محمد بن وارہ نے انہیں بہت ستایا اور ان کی اس کتاب وجہ سے مذمت کی اور وہی باتیں کہیں جو ابورزعہ کہہ چکے تھے یعنی ان( مسلم) کی کتاب سے اہل بدعت کوہمارے خلاف اعتراض کا موقع ملتا ہے.(2)

10. ابوقریش حافظ کہتے ہیں: میں ابوزرعہ کے پاس تھا کہ مسلم بن حجاج آئے اور ان کوسلام کیا پھر کچھ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے جب وہ چلے گئے تو میں نے ابوقریش سے کہا یہی وہ شخص ہے جس نے صحیح میں 4000ہزار حدیثیں جمع کی ہیں ابو قریش نے کہا اور باقی چھوڑ کیوں دی پھر بولے اس شخص کے پاس عقل نہیں ہے اگر ذرا بھی عقلمند ہوتا تو محمد بن یحیی کو اہمیت دیتا اور اگر ایسا کرتا تو آدمی بن جاتا.(2)

.....................................................

1. تہذیب الکمال، ج1، ص419.420. سیراعلام النبلاء، ج12، ص471. تاریخ بغداد، ج4، ص272. سئوالات البرذعی، ص675.676.

2. سیر اعلام النبلاء، ج12، ص280.281.571، تہذیب الکمال، ج26، ص627

۱۳۷

11. ابراہیم بن ابی طالب نے مسلم سے پوچھا کہ تم نے صحیح میں سوید سے کیسے روایت نقل کی؟ کہنے لگے پھر حفص بن مسیرہ سے حدیثیں کہاں سے لائے ہو؟(1)

عجیب بات ہے اگر ثقہ سے حدیث نہ ملے تو غیر ثقہ سخ حدیث لینا قابل تعریف بات تو نہیں ہے اسی لئے ذہبی نے کہا:(مسلم کی حدیث کو اصول کے لئے نہیں پیش کرنا چاہیئے کاش انہوں نے حفص بن مسیرہ کی حدیثوں کا اندراج کچھ درجہ گھٹا کے کیا ہوتا.(2)

12. ذہبی نے کہا:مکی بن عبدان کہتے ہیں: اسحاق بن راہویہ کے دور میں دائود بن علی اصفہانی نیشاپور پہونچے ان کے اعزاز میں ایک نشست منعقد ہوئی اس مجلس میں یحیی بن ذہلی حاضر ہوئے اور مسلم بن حجاج بھی آئے ایک مسئلہ زیر بحث آیا تو یحیی نے اس مسئلہ پر بات کرنی شروع کی لیکن دائود نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا اے لڑکے تم چپ رہو، مسلم نے دائود کو ڈانٹتے ہوئے دیکھا لیکن یحیی کی مدد نہیں کی یحیی اپنے باپ کے پاس گئے اور ان سے شکایت کی ان کے باپ نے پوچھا دائود تم کو ڈانٹ رہے تھے تو وہاں کون تھا؟ کہنے لگے وہاں تو مسلم بن حجاج بھی تھے لیکن انہوں نے میری مدد نہیں کی ان کے والد نے کہا یہ تو مسلم نے بہت غلط کیا اچھا اب میں نے ان سے جتنی حدیثیں روایت کی ہیں سب واپس لے لوں گا یہ بات مسلم تک پہونچی تو مسلم نے ان سے جتنی حدیثیں لکھی تھیں ایک زنبیل میں جمع کیں اور ان کے پاس بھیج دیں پھر بولے اب ان سے کوئی حدیث نبوی نہیں لوں گا.(3)

13 نووی کہتے ہیں: مسلم نے صلاة پیغمبر(ص) کی صفت میں جہاں حدیثیں لکھی ہیں وہاں بھی کہا ہے کہ یہاں جو کچھ بھی میں نے دیکھا ہے وہ سب صحیح نہیں ہے یعنی اس کتاب صحیح میں صفت صلاة کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ سب کے سب صحیح نہیں ہیں، کہتے ہیں میں نے یہاں صرف

.....................................

1. سیر اعلام النبلاء، ج11، ص418. میزان الاعتدال، ج3، ص347. تہذیب التہذیب، ج4، ص241.

2. سیر اعلام النبلاء، ج11، ص418.

3.سیر اعلام النبلاء، ج12، ص571.572.

۱۳۸

علماء کی مجمع علیہ( جس پر سب نے اتفاق کیا ہے) حدیثیں لکھ دی ہیں نووی کہتے ہیں ان کی یہ عبارت اشکال سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ انہوں نے ایسی حدیثیں لکھی ہیں جس کی صحت میں اختلاف ہے اس لئے کہ ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن کا میں نے ان سے ذکر کیا ہے اور وہ حدیثیں بھی جن کا میں نے ان سے ذکر نہیں کیا ہے اور ان حدیثوں کی صحت میں اختلاف ہے.

شیخ کہتے ہیں: اس کا جواب دو طریقوں سے دیا جاسکتا ہے.

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن حدیثوں کی صحت میں اجماع کی شرطیں موجود تھیں انہوں نے انہیں لکھ دیا اگرچہ ان میں سے بعض حدیثیں بعض کے نزدیک مجمع علیہ کی حیثیت نہیں رکھتیں.

دوسری بات یہ ہے کہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ثقات نے حدیثوں کے متن و اسناد میں اختلاف کیا ہے وہ حدیثیں انہوں نے یہاں ذکر نہیں کی ہیں، لیکن بعض راویوں کی توثیق میں ثقات کا اختلاف ہے اس کا بھی تذکرہ انہوں نے نہیں کیا ہے یہ بات ان کی گفتگو سے بھی ظاہر ہے یہ بات انہوں نے اس وقت بتائی جب ان سے، ابوہریرہ کی روایت کے بارے میں سوال کیا گیا جب نماز میں قرائت(سورہ فاتحہ) کی جائے خاموش رہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ کہنے لگے جی ہاں صحیح ہے پوچھا گیا پھر آپ نے اپنی کتاب میں اس کو کیوں نہیں لکھا؟ کہنے لگے اس کی صحت پر اجماع نہیں اور پھر مذکورہ بالا کلام سے جواب دیا جس کا حوالہ نووی نے دیا ہے.

مذکورہ بالا تمام باتوں کے باوجود ان کی کتابوں میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جن کی اسناد میں اختلاف ہے اس لئے کہ وہ حدیثیں ان کے نزدیک صحیح ہیں اس معاملے میں انہوں نے اپنی لگائی ہوئی شرط کی ان دیکھی کی ہے یا کسی اور سبب سے ایسا کیا ہے، میں نے ان کا ادراک کیا ہے اور اس کی وجہ بھی بیان کی ہے یہ شیخ کے کلام کا آخری حصہ ہے.(1)

.............................................

1. شرح النووی علی صحیح مسلم، ج1، ص16.

۱۳۹

امام نسائی اور ان کی کتاب

14. ابن حجر، احمد بن صالح مصری کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ خطیب نے کہ ا” احمد بن صالح کی حدیثوں سے تمام ائمہ احادیث نے احتجاج کیا ہے سوائے امام نسائی کے” کہا جاتا ہے کہ احمد کی سب سے بڑی خرای یہ تھی کہ خطیب کہتے ہیں: احمد نے اپنی مجلس میں نسائی کے ساتھ زیادتی کی تھی اس لئے امام صاحب ان سے حدیثیں نہیں لیتے تھے یہی وجہ تھی کہ دونوں میں جھگڑا رہتا تھا.(1)

عقیلی کہتے ہیں: احمد بن صالح کسی کے بارے میں اس وقت تک نہیں بولتے تھے جب تک ان سے سوال نہ کیا جائے، ایک بار امام اسائی ان سے ملنے آئے ان کے ساتھ ایسے اصحاب بھی تھے جو وہاں کے رہنے والے نہیں تھے احمد نے امام نسائی سے ملنے سے انکار کردیا امام نسائی کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے جتنی حدیثیں جمع کی تھیں ان میں سے احمد کی حدیثوں کو غلط قرار دیا اور کچھ بر بھلا بھی کہا، حالانکہ اس سے احمد بن صالح کا کوئی نقصان نہیں ہوا وہ تو امام بھی ہیں اور ثقہ بھی ہیں.(2)

میں عرض کرتا ہوں کہ جب راویوں پر طعن و تشنیع اور ان کی روایتوں سے اعراض کی وجہ صرف دلی جذبات اور

تعصب ہو تو پھر توثیق و مدح کی بنیاد بھی تو یہی جذباتیت اور تعصب ہوسکتے ہیں پھر تو نہ جرح قابل اعتماد رہی اور نہ توثیق.

ابن ماجہ پر ایک نظر

15. ابن حجر نے کہا، کتاب سنن ابن ماجہ، میں ضعیف حدیثوں کی کثرت ہے، کہتے ہیں سری کا یہ قول مجھ تک پہنچا کہ ابن ماجہ کی ہر منفرد حدیث اکثر ضعیف ہوتی ہے پھر میں نے دیکھا حافظ شمس الدین محمد بن علی الحسینی نے یہ الفاظ لکھے ہیں ہم نے اپںے شیخ حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا، فرماتے تھے کہ ابن ماجہ کی منفرد حدیثیں ضعیف ہوتی ہیں.(3)

-------------------

1. تہذیب التہذیب، ج1، ص36.

2 التعدیل والجرح ،ج 1 ص 325 فتح الباری ، ج 1 ص 386، تہذیب التہذیب ، ج1 ص36

3.تہذیب التہذیب، ج9، ص428.

۱۴۰