فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135042
ڈاؤنلوڈ: 3203


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135042 / ڈاؤنلوڈ: 3203
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابن ابی دائود پر ایک نظر

ابودائود اپنی، سنن کے بارے میں کہتے ہیں، میں نے اپنی کتاب میں سنن صحیح کو لکھ دیا ہے اور جو حدیثیں بہت کمزور ہیں ان کو لکھنے کے ساتھ ان کی کمزور کی وضاحت بھی کردی ہے.(1)

سیوطی نے ابن ابی دائود کی مندرجہ بالا عبارت پر نوٹ لگایا، اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے جن حدیثوں میں تھوڑی کمزوری دیکھی اس کا بیان کرنا ضروری نہیں سمجھا اور وضاحت کرنی ضروری نہیں سمجھا.(2)

کتاب ترمذی کے بارے میں

16. علامہ ذہبی اور مبارکپور کا قول اس کتاب کے بارے میں گذر چکا دونوں عالموں نے اس کتاب کی تحسین اور تصحیح پر طعن کیا ہے بلکہ ذہبی نے اس طعن کو علماء کی طرف منسوب کیا ہے.

راوی تضعیف و تکذیب بھی کرتے ہیں اور اسی سے روایت بھی لیتے ہیں

17. شیخ مظفر فرماتے ہیں، ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اور ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ امام بخاری جس جماعت کی تضعیف کرتے ہیں اسی جماعت کی روایت کردہ خبروں سے احتجاج بھی کرتے ہیں، یہ بات ان دونوں عالموں کی کتاب میں اس جماعت کے ترجمے سے ظاہر ہوتی ہے، ذہبی اور ابن حجر کی کتاب میں اس جماعت کا ترجمہ موجود ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بخاری نے ان کی تضعیف کی ہے اور انہیں سے روایت بھی لی ہے اس جماعت کے افراد کے کچھ نام مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں( مترجم غقرلہ) جیسے ایوب بن عائذ، ثابت بن،

..................................

1. سیر اعلام النبلاء، ج13، ص213. تدریب الراوی، ج1، ص169. تذکرة الحفاظ،ج2، ص592. المنہل الراوی، ص38.

2. تدریب الراوی، ج1، ص169.

۱۴۱

محمد العاہد، حصین بن عبدالرحیم السلمی، جمران بن اہان، عبدالرحمن بن یزید بن جابر ازدی، کھمس بن منہال، محمد بن یزید اور مقیم بن بحرہ.

میں نے امام بخاری کا تذکرہ خاص طور سے اس لئے کیا کہ وہ اہل سنت کے نزدیک صحیح ترین افراد کے رئیس ہیں، ورنہ ایک حمام میں سب ننگے ہیں مثال کے طور پر ابو دائود نے نعیم بن حماد خزاعی، بنو امیہ کے غلام ولیدبن مسلم اور ہشام بن عمار سلمی کی تکذیب بھی کی ہے اور انہیں سے روایت بھی لی ہے. صالح بن بشیر کے بارے میں کہا اس کے حوالے سے حدیث نہیں لکھنی چاہئے، عاصم بن عبداللہ کے بارے میں بھی یہی الفاظ کہے پھر ان سے روایت بھی لی ہیں، جب کہ خیال ہے کہ ثقہ کے علاوہ وہ کسی سے حدیث لیتے ہی نہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں دائود بن امیہ کے ترجمے میں لکھا ہے.

امام نسائی، عبدالرحمن بن یزید تمیم دمشقی، عبدالرحمن بن مخارق اور عبدالوہاب بن عطا خفاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ سب متروک ہیں پھر انہیں لوگوں سے روایت بھی لیتے ہیں.

اسی طرح ترمذی نے سلیمان بن ارقم ابی معاذ بصری، اور عاصم بن عمرو بن حفص کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دونوں متروک ہیں پھر انہیں سے اپنی سنن میں روایت بھی کی ہے.(1)

مجہول الحال راویوں سے روایت لیتے ہیں

18.شیخ مظفر(رہ) فرماتے ہیں، امام بخاری اور مسلم اگرچہ اہل سنت کے عظیم علماء اور جلیل القدر افراد میں شمار ہوتے ہیں جن کی صحت مسلم ہے لیکن یہ حضرات اکثر اجماع کی مخالفت کرتے ہیں ان کی حدیثیں صحیح ترین حدیثیں مانی جاتی ہے لیکن یہ ایسی جماعت کی حدیثوں سے احتجاج کرتے ہیں جو اصلا مجہول الحال ہے، اس لئے کہ ایک جماعت نے ان مجہول الحال افراد سے ان سے کسی ایک شخص

1.دلائل الصدق، ج1، ص14.13.

۱۴۲

کے حوالے سے روات کی ہے، حالانکہ یہ ایک شخص بھی جس سے روایت کر رہا ہے اس کی قدح یا مدح پر کوئی نص نہیں کرتا، شخص واحد کی روایت سے یہ لوگ احتجاج کرتے ہیں اور اس کی خبر کو کافی سمجھتے ہیں ہم مقام مثال میں ان کا تذکرہ کریں گے ویسے آپ تہذیب التہذیب بھی دیکھیں گے تو میری بات کی تصدیق ہوجائے گی.(1)

ان کے یہاں تدلیس کا عام رواج

19. اہل سنت حضرات کے یہاں حدیثوں میں تدلیس بہت ہوتی ہے، تدلیس کا مطلب ہے راوی کا تشخص اس طرح کہنا کہ اس سے قاری کے ذہن میں دوسرے کے راوی ہونے کا وہم پیدا ہو جائے( مثلا اگر راوی عبداللہ ہے لیکن اہل سنت اس کو کمزور راوی سمجھتے ہیں تو یہ لوگ تدلیس کرنا چاہتے ہیں تو عبداللہ کا نام ولدیت کے ساتھ نہیں لیتے تاکہ قاری اس عبداللہ سے عبداللہ بن عمر سمجھے جو ان کی نظر میں مقبول شخصیت ہے مترجم غفرلہ) جیسے اگر روایت کسی غیر مقبول شخص سے لی گئی ہے لیکن اس مقبول نے روایت غیر مقبول سے لی ہے تو یہ لوگ غیر مقبول والا واسطہ بیان ہی نہیں کرتے اور ابتداء ہی مقبول واسطے سے کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی تدلیس کی کئی صورتیں ہیں.

ذہبی نے عبداللہ بن صالح بن محمد بن جہینی مصری کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ان پر اکثر لوگوں نے طعن کی ہے، بخاری نے عبداللہ بن صالح سے اپنی کتاب صحیح میں روایت بھی لی ہے اور صحیح حدیثوں میں ان روایتوں کو رکھا ہے لیکن تدلیس کے ساتھ یعنی وہ یہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا، اور اس کے نسب کا تذکرہ نہیں کرتے.(2)

بخاری کی تدلیس کی دوسری مثال ملاحظہ ہو، وہ محمد بن سعید مصلوب شامی سے روایت لیتے

.........................................

1.دلائل الصدق، ج1، ص14.13.

2. میزان الاعتدال، ج4، ص122، عبداللہ بن صالح کے ترجمے میں.

۱۴۳

ہیں جو مشہور جھوٹا ہے،(1) حدیثیں وضع کر کے ان تدلیس کردیتا تھا(2) زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا،(3) لیکن اس زندیق سے صرف بخاری ہی نہیں بلکہ ابن ماجہ اور ترمذی بھی روایت کی ہے(4) اور دوسرے محدثین کی بھی اس پر نگاہ کرم ہے.

یہ لوگ اس مشہور جھوٹ سے روایت لینے کے وقت تدلیس کیسے کرتے ہیں یہ ذہبی سے سنئے لکھتے ہیں: زہری، عبادہ بن نسیی؛ اور ایک جماعت نے روایت کی ابن عجلان، ثوری، مروان فزاری، ابو معاویہ، محاربی اور بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی اس سے روایت لی ہے مگر اس کا نام یوں بدل دیا ہےکہ اس پر پردہ پڑ جاتا ہے چونکہ وہ ایک کمزور راوی ہے اس لئے یہ لوگ اس سے روایت کرنے کے وقت تدلیس کرتے ہیں عبداللہ بن احمد بن سوادة کہتے ہیں: انہوں نے سو سے کچھ زیادہ طریقوں سے اس کے نام کو بدلا ہے میں نے ان تمام ناموں کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے(5)

ابن جوزی رقم طراز ہیں: محمد بن سعید بن ابی قیس شامی مصلوب شخص حدیثیں گڑھتا تھا اور لوگوں سے حدیثیں گڑھتا تھا اور لوگوں سے حدیثیں گڑھوا کر بیان کرتا تھا زندیق ہونے کی وجہ سے اس کو پھانسی دی گئی محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس کا نام بدل کے روایت کیا ہے اور اس کا ذکر مبہم رکھا ہے ان کی یہ حرکت شدید عتاب کی مستحق ہے اور انہوں نے لازمی طور پر گناہ کیا ہے اس لئے کہ جو جھوٹے شخص کو تدلیس کر کے پیش کرتا ہے وہ شریعت لینے میں قول باطل کو ترجیح دیتا ہے.(6) اسی طرح کی بات ابن حجر نے بھی لکھی ہے.(7)

.......................................

1 میزان الاعتدال، ج2، ص165. تہذیب التہذیب، ج9، ص163. الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج3، ص65. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج6، ص140.

2. المقتنی فی سردالکنی، ج1، ص353. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج6، ص140. تہذیب التہذیب، ج9، ص163.

3. الجرح والتعدیل، ج7، ص262. میزان الاعتدال، ج6، ص164. الکامل فی ضعفاء الرجال، ص6، ص140، تہذیب التہذیب، ج9، ص163.

4. تہذیب التہذیب، ج9، ص163.

5. میزان الاعتدال، ج6، ص164.166.

6. الضعفاء والمتروکین لابن جوزی، ج3، ص65.

7. تہذیب التہذیب، ج9، ص163.

۱۴۴

البتہ ذہبی نے کوشش کی ہے کہ عوام کا بخاری سے حسن ظن بر قرار رہے اس لئے ان کے جرم تدلیس پر خطاء اجتہادی کی ملمع کاری کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام بخاری نے تو اس مصلوب سے بہت سی جگہوں پر روایت لی ہے لیکن ان کا خیال یہ رہا ہوگا کہ یہ کوئی شخص ہے بلکہ اس کو ایک جماعت خیال کیا ہوگا(1) کہ ان مقامات پر جہاں انہوں نے اس سے روایت لی ہے اس شخص کو واحد نہ سمجھ کے ایک جماعت سمجھا ہوگا اس لئے کہ اس کے نام میں ایک جماعت سے مشابہت موجود ہے پس بخاری نے اس شخص واحد کذاب کے بجائے اس کے نام سے جماعت سمجھا، میں کہتا ہوں یہ توجیہ بعید از قیاس تو خیر ہے ہی اس کے ساتھ ہی بخاری کا ایک دوسرا عیب بھی ظاہر کرتی ہے یعنی وہ رجال کی معرفت نہیں رکھتے تھے.ابن حجر لکھتے ہیں: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بخاری جو امام ہیں ان کے بارے میں عبداللہ بن منذہ نے کہا ہے کہ وہ تدلیس کرتے تھے ابن منذہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بخاری جہاں بھی قال فلاں اور قال لنا فلاں کہتے ہیں وہاں تدلیس کرتے ہیں حالانکہ ابن منذہ کے اس قول سے کسی نے اتفاق نہیں کیا ہے اس لئے بخاری کے اس فلاں لنا فلاں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا جملہ بخاری اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں جس کو انہوں نے اپنے کان سے سنا نہیں ہے بلکہ کسی سے سنا ہے لیکن اپنی یہ شرط پوری نہیں تھی یا شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مجھ سے کہا یا میرے لئے کہا گیا وغیرہ تو یہ انداز تحریر بخاری کی تدلیس کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ان کے فن حدیث کی ایک نئی سنت ہے جو ان کی ایجاد ہے.(2) ابن منذہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جن حدیثوں کو اپنے مشائخ سے نہیں سنا اس کی روایت یوں کرتے ہیں کہ مجھ سے فلاں نے کہا،(3) یہی تدلیس ہے مرحوم شیخ مظفر نے علماء اہل سنت کی تدلیس کے بارے میں بہت طویل گفتگو کی ہے جس کا یہاں پر تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے.(4)

......................................

1. میزان الاعتدال،ج6، ص166.

2. طبقات المدلسین، لابن حجر، ص24.

3. طبقات المدلسین، لابن حجر، ص26.

4. دلائل الصدق، ص15.16.

۱۴۵

رجال حدیث میں عموما تدلیس رائج ہے

برادران اہل سنت کے عام رجال حدیث میں تدلیس اتنی رائج ہے کہ شعبہ لکھتے ہیں: میں نے عمرو بن مرہ اور ابن عون کے علاوہ رجال حدیث میں کسی کو تدلیس سے پاک نہیں پایا.(1)

ذہبی لکھتے ہیں بقیہ عجائب و غرائب کا خالق اور منکرات کا راوی عبدالحق نے غیر حدیث میں لکھا ہے، بقیہ کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کیا جاتا پھر اسی بقیہ سے احدیثیں بھی لی ہیں اور ان حدیثوں کی کمزوری ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے ابوالحسن بن قطان کہتے ہیں( بقیہ) ضعفاء کے حوالے سے روایت کرتا اور تدلیس کرتا اور تدلیس کو جائز سمجھتا تھا اگر ہر بات صحیح ہے تو پھر اس کی عدالت فاسد ہے میں کہتا ہوں خدا کس قسم یہ بات صحیح ہے وہ ایسا کرتا تھا اور صرف وہی نہیں ولید بن مسلم بھی ایسا کرتے تھے بلکہ ایک بڑی جماعت اس نیک کام کو کرتی تھی یہ ایک مصیبت اور بلائ عظیم ہے لیکن انہوں نے یہ کام اجتہاد کی بنیاد پر کیا ہے اس شخص کے نام کو ساقط کر کے انہوں نے تدلیس اس لئے کی ہے کہ وہ شخص عمدا جھوٹ بولتا تھا یہ بہترین عذر ہے جو ان کی طرف سے پیش کیا جاسکتا ہے.(2)

ذہبی نے سیر اعلام نبلاء میں ابوالحسن بن قطان کی ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ہاں مجھے یقین ہے کہ وہ (بقیہ) تدلیس کرتا تھا اس کا رفیق ولید بن مسلک اور دوسرے لوگ بھی تدلیس کے مرتکب ہوتے رہتے تھے لیکن ان کی مجبوری تھی ان کے بارے میں یہ خیال نہیں کیا جاسکتا ہے انہوں نے اپںی حدیثوں کی وضع اسی وجہ سے کی ہے.(3)

ابن جنان لکھتے ہیں: میں حمص یا تو سب سے اہم کام یہ تھا کہ میں وہاں بقیہ کے حالات معلوم کروں میں نے اس کی حدیثوں کی تلاش کی اور ایک نسخہ تیار کیا وہ حدیثیں بھی تلاش کیں جو کوئی

.............................................

1. سیر اعلام النبلاء، ج5، ص197، تہذیب التہذیب، ج8، ص89. التعدیل والجرح، ج3، ص975. میزان الاعتدال، ج5، ص346.

2. میزانالاعتدال، ج2، ص53.54.

3. میزان الاعتدال، ج8، ص528.

۱۴۶

اونچا درجہ نہیں رکھتی تھیں بہر حال سب کچھ دیکھ کے میں نے محسوس کیا کہ بقیہ ثقہ اور مامون ہے لیکن تدلیس کرتا ہے عبداللہ بن عمرو اور شعبہ کے نام سے تدلیس کرتا ہے وہ حدیثیں لیتا ہے مجاشع بن عمرو، سری بن عبدالحمید، عمرو بن موسی میتمی جیسے لوگوں سے ان حدیثوں کو منسوب کردیتا ہے ان ثقات کی طرف جنہیں اس نے اپنے دور میں دیکھا تھا یعنی ان ضعفاء کے اقوال کو ان ثقات کی طرف منسوب کر کے تدلیس کردیتا ہے اب وہ یوں حدیث بیان کرتا ہے عبداللہ نے کہا، مالک نے کہا تو لوگ سمجھتے ہیں کہ عبداللہ نے بقیہ سے کہا اور مالک نے بقیہ سے کہا دونوں راویوں کے درمیان جو ناقابل اعتبار نام ہے وہ ساقط ہو حاتا ہے.(1) ویسے مدلسین کے بارے میں ایک جماعت نے کتابیں اور رسالے لکھے ہیں ان مصنفین کے نام یہ ہیں حسین بن علی کرابیسی،(2) علی بن مدینی،(3) نسائی،(4) دارقطنی،(5) ابوالوفاء حلبی،(6) ابن حجر عسقلانی،(7) اور سیوطی وغیرہ(8)

اہل تدلیس کی مذمت

خطیب بغدادی فرماتے ہیں اکثر اہل علم کے نزدیک تدلیس ایک مکروہ فعل ہے بعض علمائ نے تو اس کی بہت مذمت کی ہے بعض علماء اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ تدلیس سے بری ہیں(9) شعبتہ کہتے

................................................

1. میزان الاعتدال، ج2، ص47.

2. ابن ندیم کی الفہرست، ج1، ص256، کشف الظنون، ج1، ص89.

3. الفہرست، ابن ندیم، ج1، ص322.

4. کشف الظنون، ج1، ص89.

5. کشف الظنون، ج1، ص89.

6. کشف الظنون، ج1، ص89.

7. کشف الظنون، ج1، ص89.

8. الکفایہ فی علم الروایہ، ص355.

9. الکفایہ فی علم الروایہ. ص355.

۱۴۷

ہیں:تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے(1) یہ بھی فرمایا کہ تدلیس زنا سے شدید گناہ ہے تدلیس کرنے کی بہ نسبت میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ آسمان سے پھینک دیا جائوں اسی طرح بہت سے علماء نے اس فعل کی مذمت کی ہے،(2) ابی اسامہ نے کہا: خداوند عالم مدلسین کا خانہ خراب کرے وہ تو میرے ننزدیک کذاب ہیں،(3) ابن مبارک نے کہا: میرے نزدیک تدلیس حدیث سے بہتر یہ ہے کہ میں آسمان سے منھ کے بل پھینک دیا جائوں.(4)

مطعون راویوں سے روایت لیتے ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ بخاری اور مسلم بلکہ اصول ستہ کےہرمولف نے اپنی کتابوں میں ایسے لوگوں سے روایت کرنے میں تکلف سے کام نہیں لیا ہے جو مطعون ہیں حالانکہ ان کی کتابوں پر صحاح کا اعلان ہوتا ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ صحاح ستہ جن کی صحت اور وثاقت کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں ایسے راویوں کی روایتوں سے بھری پڑی ہیں جنہیں جھوٹ، تدلیس اور نصب سے پرہیز نہیں ہے شیخ مظفر مرحوم نے اسی کتاب دلائل صدق کے مقدمہ پر ان افراد کی ایک بڑی جماعت کا تذکرہ کیا ہے اہل سنت کے بڑے عالم ابن حجر نے اس طرح کے لوگوں کی نشان دہی کرنے کے لئے الگ سے ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے فی مقدمہ فتح الباری المطعون من رجال البخاری اس رسالہ میں رجال مطعون کا نام دے کے ابن حجر نے اس کی دفاع کی کوشش کی ہے.

.............................................

1.الکفایہ فی علم الروایہ، ص356.

2. الکفایہ فی علم الروایہ، ص356.

3. الکفایہ فی علم الروایہ، ص356.

4. الکفایہ فی علم الروایہ، ص356.

۱۴۸

ہم اس سلسلے میں مزید جستجو نہیں کرنا چاہتے میرا خیال ہے کہ قاری کو مذکورہ بالا صفحات پڑھنے کے بعد خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جن کتابوں میں مطعون، کاذب، مدلس اور ناصبی افراد سے روایتیں بھری پڑی ہوں کیا انہیں صحاح کا نام دیا جاسکتا ہے یہ سوال مطعون اور بخاری ہی کے لئے نہیں بلکہ ان تمام جھوٹی چھ کتابوں کے لئے ہے انہیں برادران اہل سنت صحاح کے نام سے جانتے ہیں اور اس کی حدیثوں کو قبول کرنے پر اجماع کے دعوے دار ہیں نیز جن کی خبروں کومقطوع الصحتہ مانتے ہیں میں کہتا ہوں ان خبروں کو ثقہ نہیں کہا جاسکتا صحیح اور مقطوع الصحہ ہونا تو دور کی بات ہے.

اصول ستہ میں مرسل اور مقطوع حدیثیں

20. یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صحاح ستہ میں مرسل(1) اور مقطوع(2) حدیثوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے پھر ان کتابوں کے مصنفوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ ایسی احادیث کی صحت کو مقطوع سمجھیں ان کے بعد آنے والوں کے لئے اس طرح کا عقیدہ تو بالکل ہی خارج از قیاس ہے اس لئے کہ بعد والے تو ان حدیثوں کے صدور کے وقت موجود نہیں تھے اور نہ کسی معصوم شخصیت کی طرف رجوع کرسکتے تھے ایسا معصوم جس کی تصحیح یا تکذیب سے حدیثوں کی صحیح معرفت حاصل ہو بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہاں تو ہر دور میں جذبات، اجتہادات اور ظن کی اجارہ داری ہی قطع کی گنجائش کہاں ہے ظن وغیرہ کی حجیت پر اللہ نے کئی آیتیں نازل کی ہیں رہ گئی حدیث صداقت تو ہمارے بڑے بھائی حدیثوں کی چھان بین اور حدیثوں کی نقد و جرح میں بلکہ اخذ اصول میں ہمیشہ سہل انگاری اور تساہلی سے کام لیتے رہے ہیں.

اصول ستہ میں معلوم البطلان حدیثوں کا پایا جانا

امرثانی. ان کتابوں میں ایسی حدیثیں بھی ہیں جو سراسر عقل کے خلاف ہیں اور جس کا باطل ہونا سب کو معلوم ہے عقل،نص صریح نیز کتاب کریم کے مخالف ہیں، کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں.

...............................................

1.صحیح بخاری، ج1، ص150.

2.صحیح بخاری، ج1، ص445، کتاب الجنائز.

۱۴۹

1. ان کتابوں میں ایسی حدیثیں موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ جسم رکھتا ہے مکان رکھتا ہے انتقال زمانی و مکانی کرتا ہے اور اللہ تغیر پذیر بھی( معاذ اللہ) اس سلسلے میں بس اتنا کافی ہے ورنہ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی اور یہاں پر تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے ویسے ہمارے علماء نے اپنی کتابوں میں ان مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے.

2. عائشہ سے شیخین ( مسلم و بخاری) روایت کرتے ہیں فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم پر وحی کی ابتداء رویائے صادقہ سے نیند میں ہوئی پھر آپ پر حق اس وقت آیا جب آپ غار حرا میں ہوا کرتے تھے فرشتہ آپ کے پاس غار میں آیا اور بولا، پڑھئے نبی کہتے ہیں میں نے کہا میں قاری نہیں ہوں پس اس نے مجھ کو پکڑ کے دبا دیا یہاں تک مجھے تکلیف محسوس ہوئی پھر چھوڑ کے کہا پڑھئے: میں نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں اس نے مجھے تیسری بار پکڑا اور دبا کے چھوڑ دیا پھر کہا پڑھئے: اپنے رب کا نام جس نے پیدا کیا.

یہاں تک کہ، انسان کو ان باتوں کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا.

پس سرکار دو عالم(ص) اس حال میں گھر کی طرف جلے کہ آپ کے اعضاء و جوارح میں رعشہ تھا یہاں تک کہ آپ خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے اڑھا دو مجھے اڑھا دو پس لوگوں نے آپ پر کمبل اڑھا دیا تو آپ کے جسم کی لرزش جاتی رہی آپ نے خدیجہ سے فرمایا خدیجہ دیکھو تو مجھے کیا ہوگیا ہے او خدیجہ سے ساری بات بتا دی پھر کہنے لگے مجھے اپنی جان کا خوف ہے ام المومنین نے فرمایا نہیں نہیں اچھائی کی امید رکھئے خدا آپ کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا اس لئے کہ آپ صلہ رحم کرتے ہیں لوگوں کے بار کو اٹھاتے ہیں سچ بولتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبتوں میں حق کی مدد کرتے ہیں.

پھر ام المومنین ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیز ابن قصی کے پاس گئیں ورقہ ام المومنین کے باپ کی طرف سے چچا زاد بھائی تھے ایام جاہلیت میں نصرانی مذہب کے پیرو تھے عربی لکھنا

۱۵۰

جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں انجیل لکھی تھی اب بہت بوڑھے ہوچکے تھے آنکھوں کی بینائی ضائع ہوچکی تھی بہر حال خدیجہ نے ان سے کہا اے ابن عم اپنے بھتیجے کی باتیں سنئیے ورقہ نے کہا اے محمد(ص)! بولو کیا کہہ رہے ہو سرکار دو عالم نے من و عن پوری کہانی سنا دی ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی ناموس ہے جو موسی(ع) پر نازل ہوئی تھی.(1)

مذکورہ بالا روایت کو جو دونوں صحیح یعنی مسلم اور بخاری میں موجود ہے غور سے پڑھئے تو آپ کی سمجھ میں بات آجائے گی کہ یہ روایت کذب و افتراء کے کس درجہ پر فائز ہے؟ یہ روایت بتاتی ہے کہ پیغمبر(ص) کو یہ معلوم نہیں کہ وہ نبی ہیں فرشتہ آیا اس نے آپ کو پڑھایا پھر بھی آپ کو یقین نہیں آیا کہ آپ نبی ہیں حالانکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپ کی ابتداء حیات ہی سے آپ کی ذات میں آثار نبوت و رسالت نمایاں ہوچکے تھے، محدثین کہتے ہیں کہ آپ کی پیشانی پر نور نبوت چمک رہا تھا کہ کفار و مشرکین آپ کی انفرادی حیثیت کے قائل تھے نہیں معلوم تھا تو صرف آپ کو نہیں معلوم تھا نبی ہیں خدیجہ کو بھی کچھ پتہ نہیں تھا وہ آپ کو ورقہ ابن نوفل کے پاس لے کے گئیں وہاں ورقہ ابن نوفل نے محض انداز اور جودت فکر کی بنیاد پر بتایا کہ مبارک ہو آپ نبی ہوگئے یا اللہ ہم کس کی تصدیق کریں ورقہ کے ذہانت کی یا نبی کی نبوت کی یا اس حدیث کی جو نبی(ص) کو درجہ وحی و الہام سے گھٹا کے ایک عام آدمی کی فہرست میں داخل کرتی ہے.

ابوہریرہ کے حوالے سے شیخین کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو ابوہریرہ کہتے ہیں پیغمبر(ص) نے دعا کی پالنے والے میں تجھ سے ایک معاہدہ کرتا ہوں تو اس کی مخالفت نہ کرنا اس لئے کہ میں صرف ایک بشر ہوں پس میں نے اگر کسی مومن کو اذیت دی ہو، گالی دی ہو، لعنت کی ہو یا تازیانہ مارا ہو تو میرے اس فعل کو اس مومن کے لئے نماز، زکوة اور قربانی قرار دینا جس کے ذریعہ تو قیامت تک اس کو خود سے قربت کرتا رہنا.(2)

.............................................

1.صحیح بخاری، ج6، ص256، کتاب البقیر؛ صحیح بخاری، ج1، ص140، کتاب الایمان؛ رسول اللہ پر وحی کا آغاز.

2.صحیح مسلم، ج4، ص3008، کتاب البر والصلتہ والآداب.

۱۵۱

مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کیا وہ سچی ہوسکتی ہے؟ اگر یہ حدیث سچی ہے تو پھر نبی(ص) میں جو صاحب خلق عظیم ہیں اور ان شاہان جور میں جن کی پہچان سرکشی اور ظلم ہے کیا فرق رہا؟ اور جب نبی(ص) صرف ایک بشر ہیں اور بشر بھی ایسے جو جذبات کے محکوم اور بے گناہ مومن پر ظلم کرتے ہیں جب بے گناہ پر ظلم محض جذبات سے متاثر ہوکے کیا جاسکتا ہے تو گناہ گار کی تعریف بھی جذبات سے مغلوب ہوکے کی جاسکتی ہے پھر نبوت اور رسالت کہاں پہنچی؟!

اس حدیث کو صحیح مان لینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبی کی زبان سے کسی کی مدح و ثناء اور نبی کی زبان سے کسی پر لعنت کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نبی کی بشری جذبات کا تقاضہ قرار پاتی ہے حالانکہ ہمارا عقیدہ ہے نبی کسی کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ممدوح کے ایمان کی نشانی ہے اسی طرح نبی کس کی مذمت یا کسی پر لعنت کرتے ہیں تو یہ ملعون کے نفاق کی پہچان ہے اس کے علاوہ یہ حدیث کیا نبی کی ہتک حرمت نہیں کرتی اور یہ حدیث کیا نبی کو لوگوں کی نگاہ اعتبار سے ساقط نہیں کرتی؟(معاذ اللہ من ذالک)

لیکن صاحب بصیرت اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ اس طرح کی حدیث سرکار رسالت پر کھلا ہوا افتراء اور بہتان ہیں ان حدیثوں کو موجودگی کا سبب یہ ہے کہ سرکار رسالت(ص) نے بہت سے منافقین قریش کی اکثر مذمت کی اور ان پر لعنت کی پس آپ کی لعنت اور مذمت کی وزن کو گھٹانے کے لئے منافقین نے اس طرح کی حدیثیں گڑھ کے حفاظ حدیث کے حوالے کردیں یہ سیرت نبی کو گھٹانے کی دوسری کوشش ہے اس لئے کہ وہ لوگ پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے پہلی کوشش کب ہوئی تھی؟ آپ کو یاد ہوگا آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں عبداللہ بن عمر سے ایک روایت گذر چکی ہے، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: میرا طریقہ یہ تھا کہ میں پیغمبر(ص) سے جو کچھ سنتا تھا یاد رکھنے کے خیال سے لکھ لیا کرتا تھا قریش کو یہ بات بہت بری لگی وہ کہنے لگے صاحبزادے یہ تو بہت بری بات ہےکہ آپ نبی سے جو کچھ سنتے ہیں لکھ لیتے ہیں ذرا سوچئے تو نبی ایک بشر ہیں کبھی غصہ میں بولتے ہیں کبھی خوش ہو کے بولتے ہیں( مطلب یہ کہ نبی کے بشری جذبات کو دین نہ بنائو) مترجم غفرلہ.

۱۵۲

ابن عمر کہتے ہیں، پس میں نے حدیثیں لکھنا بند کردیں لیکن جب سرکار رسالت(ص) کو معلوم ہوا تو فرمایا میاں تم لکھتے رہو! اس لئے کہ اس کی قسم جس کی دست قدرت میں میری جان ہے میں نہیں بولتا مگر حق.(1)

سنت نبوی کے باب کو مسدود کرنے کی منافقین کیسی کیسی سازشیں کرتے تھے انشاء اللہ میں اس سلسلے میں وقت پر اپنی عادت سے بطدے کے مزید عرض کروں گا.

(اب ایک مضحکہ خیز روایت پھر ملاحظہ کریں) مترجم غفرلہ

3. مسلم اپنی سند سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، مسلمان ابوسفیان کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے اور اس کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں تھے، اس نے نبی سے عرض کی حسین ترین خاتون ام حبیبہ ہے آپ اس سے نکاح کر لیں فرمایا کر لیا اب دوسری بات بولو کہنے لگا معاویہ کو اپنا کاتب وحی قرار دیں، فرمایا یہ بھی صحیح،تیسری خواہش کیا ہے؟ کہنے لگا مجھے مسلمانوں کے لشکر کا امیر بنا دیں، تاکہ میں کفار سے اسی طرح لڑتا رہوں جیسا زندگی بھر مسلمانوں سے لڑتا رہا.(2)

جمہور اہل سنت کے نمایاں افراد کی ایک جماعت نے اس روایت پر طعن کیا ہے، ابن قیم کہتے ہیں کہ مسلم نے اپنی صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے عکرمہ بن عمار نے کہا مجھ سے ابن عباس نے کہا کہ مسلمان ابوسفیان کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اور اس کے پاس اٹھتے بیٹھتے نہیں تھے الی آخر.

حدیث، اس حدیث کو حفاظ کی ایک جماعت نے مردود قرار دیا ہے اور اس حدیث کو مسلم کے اغلاط میں شمار کیا ہے، چنانچہ ابن حزم کہتے ہیں اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں

...............................................

1.مسند احمد، ج2، ص164. سنن ابی دائود، ج3، ص318. سنن دای، ج1، ص136. المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص176. تحفتہ الاحوذی، ج7، ص357.

2.صحیح مسلم، ج4، ص1945، کتاب فضائل الصحابہ.

۱۵۳

اور اس حدیث کی آفت عکرمہ بن عمار ہے(1) دلیل یہ ہے ک اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ سرکار دو عالم(ص)نے فتح مکہ سے پہلے ام حیببہ سے نکاح کیا تھا جب ان کا باپ کافر تھا.

ابوالفرج جوزی اپنی کتاب “الکشف” میں لکھتے ہیں یہ روایت راویوں کے وہم کا نتیجہ ہے اس کے موہوم ہونے میں گنجائش نہیں،نہ کوئی تردد ہے لوگوں نے عکرمہ پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے، عکرمہ بن عمار جو اس کا راوی ہے جھوٹا ہے یحیی بن سعید انصاری نے اس کی تضعیف کی ہے اور کہا ہے اس کی حدیثیں صحیح نہیں ہوتیں، اسی طرح احمد بن حنبل نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف حدیثوں میں سے ایک ہے بخاری نے تو عکرمہ سے کوئی حدیث ہی نہیں لی البتہ مسلم اس سے حدیثیں لیتے تھے اس لئے کہ یحیی ابن معین نے اس( عکرمہ) کو ثقہ کہا ہے.

ابن جوزی کہتے ہیں؛ میں تو اس بات کا عئل ہوں کہ یہ حدیث ایک وہم ہے، اس لئے کہ تاریخ شاہد ہے کہ ام حبیبہ پہلے عبداللہ بن جحش کے عقد میں تھیں انہیں اولاد بھی ہوئی تھی جو عبداللہ کے نطفے سے تھی پھر دونوں نے ہجرت کی اس وقت دونوں مسلمان تھے اور ہجرت حبشہ کے لئے ہوئی تھی وہاں جا کے عبداللہ بن جحش نصرانی ہوگیا لیکن ام حبیبہ اپنے دین پر باقی رہیں پس سرکار دو عالم(ص) نے شاہ نجاش کے ذریعہ ان کے پاس پیغام بھیجا تو شاہ نجاشی نے پیغمبر(ص) کی تزویج ام حبیبہ سے کردی اور پیغمبر(ص) کی طرف سے چار ہزار دینار مہر ادا کیا یہ بات سنہ7 ہجری کی ہے نبوت (؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اشتباہ ہے احتمالا ثبوت ہوگا نہ نبوت) یہ ہے کے ابوسفیان زمانہ امن میں مدینہ آیا اور اپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر گیا اس نے اہا کہ اپنے نجس جسم کے ساتھ فرش پیغمبر(ص) پر بیٹھ جائے لیک ام حبیبہ نے بستر سمیٹ دیا پس وہ اس سعادت سے محروم رہا اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے معاویہ اور ابو سفیان فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے اور یہ بات بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ پیغمبر(ص) نے ابوسفیان (جیسے مکار) ک مسلمانوں کے لشکر کا امیر بنایا تھا.

................................

1.اگر اس میں آفت عکرمہ بن عمار کی وجہ سے ہے جب کہ وہ تابعین کے پہلے طبقہ میں شمار ہوتا ہے تو پھر کیسے بعد کے راویوں پر یہ بات پوشیدہ رہی یہاں تک کہ مسلم پر یہ سلسلہ منتہی ہوجاتا ہے؟

۱۵۴

البتہ لوگوں نے اس حدیث کو صحی ثابت کرنے کی کوشش میں بڑی فاسد تاویلیں کی ہیں جیسے کسی نے کہا اصل میں ابوسفیان اس حدیث میں تجدید نکاح چاہتا ہے کسی نے کہا یہ بات نہیں ہے اصل میج ابوسفیان سمجھتا تھا کہ بغیر اس کے اذن نکاح ادھورا ہے اس لئے اس نے نبی سے اس طرح کا سوال کیا اورنبی نے بھی سوچا کہ چلو اس کی مرضی یوں ہے تو یوں ہی صحیح اس کا دل تو خوش ہو جائے گا اس لئے نبی نے فرمایا کہ ٹھیک ہے میں(دوبار) صیغہ جاری کر لوں گا کسی نہ کہا ابوسفیان نے سمجھا کہ تخییر کی وجہ سے طلاق ہوگئی تو اس نے اس خواہش سے گویا نبی کو رجوع کرنے کے لئے کہا اور پھر اپنی طرف سے نکاح کی خواہش کی ایک صاحب نے کہا یہ سب کچھ نہیں تھا بلکہ ابوسفیان یہ سمجھ رہا تھا کہ ام حبیبہ سے پیغمبر(ص) ناراض ہیں اور نا پسند کرتے ہیں اس لئے اس نے کہا کہ ایک بار پھر انکحت کہہ دیں تا کہ نکاح استمرار ہو جائے نہ ابتداء نکاح مقصود ہو ایک صاحب بہت دور کی کوڑی لائے کہنے لگے اصل میں ابوسفیان نے اپنے اسلام کی شرط رکھی تھی یہ بات اس کے مسلمان ہونے سے پہلے کی ہے وہ خدمت پیغمبر(ص) میں اسلام لانے کے لئے حاضر ہوا تو کہنے لگا کہ میں تو اسی وقت مسلمان ہوں گا جب آپ میری یہ تین شرطیں مانیں گے یا اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر میں مسلمان ہو جائوں تو آپ مجھے یہ تین فضیلتیں عنایت فرمائیں گے، جناب محب الدین طبری نے اسی آخری تاویل پر اعتماد کیا ہے ان سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں مذکورہ بالا توجیہ فرمائی پھر ایک لمبی تقریر فرمائی بلکہ ایک صاحب نے تو کمال کر دیا کہنے لگے اصل میں ابوسفیان چاہتا تھا کہ سرکار دو عالم(ص) اس کی دوسری بیٹی سے بھی نکاح کر لیں وہ نیا مسلمان تھا اور جمع بین اختین کے مسئلے سے نا واقف تھا یہ مسئلہ اس کی بیٹی ام حبیبہ کو بھی معلوم نہیں تھا یہاں تک کہ ام المومنین نے پیغمبر(ص) سے پوچھا، راوی نے ابوسفیان کی بیٹی کے نام میں غلطی کی ہے. ظاہر ہے کہ یہ تاویلیں اصلا باطل اور فاسد ہیں ائمہ حدیث اور ارباب علم اس طرح کی تاویلوں کو پسند نہیں کرتے اور راویوں کی غلطی کو ان فاسد خیالات کو ڈھال بنا کے نہیں چھپاتے اور اتنی لچر تاویل کو قبول نہیں کرتے ان دلیلوں

۱۵۵

کے بطلان کے لئے تھوڑی سی فکر ہی کافی ہے.

آخری تاویل یوں دیکھنے میں تو ذرا کم فاسد ہے لیکن سوچئے تو تمام تاویلوں سے زیادہ باطل اور جھوٹ کا پلندہ ہے، وہ حدیث خود اپنی در پر صراحت کرتی ہے ملاحظہ فرمائیے، اس تاویل کے مطابق ابوسفیان پیغمبر(ص) سے کہتا ہے میں ام حبیبہ کا نکاح آپ سے کرنا چاہتا ہوں، نبی کہتے ہیں بہتر ہے کر دو، اب اگر ابوسفیان کی مراد اس کی دوسری بیٹی تھی تو نبی کبھی “ہاں” نہیں کہتے کیوں کہ اگر ابوسفیان جاہل مسئلہ تھا نبی(ص) تو مسئلے سے واقف تھے اس تاویل کے غلط ہونے میں بحث و تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہے.(1) میں نے یہ تین حدیثیں تو صرف نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ جن حدیث کی کتابوں کو صحاح کے لیبل سے زینت دی گئی ہے ان کتابوں کے اندر کیسے کیسے خرافات اور غلط روایات کو جگہ دی گئی ہے میں اس سلسلے کو یہیں تمام کرتا ہوں اور صاحبان ذوق کو مزید جستجو کے لئے آواز دیتا ہوں.

صحاح میں اہل بیت(ع) کی مخالفت کا ظہور ہے

امر ثالث : اصول ستہ میں اہل بیت اطہار(ع) کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں بلکہ اصول ستہ کا رجحان فکر اہل بیت(ع) کی مخالفت کی طرف ہے.

1. اس حقیقت کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ ان کتابوں میں اہل بیت اطہار(ع) سے روایتیں نہیں لی گئی ہیں حالانکہ افراد اہل بیت اپنی صداقت اور اپنے تقدس میں لاثانی اور لا جواب تھے جیسے حضرت صادق آل محمد جعفر صادق(ع) اور دوسرے وہ افراد بھی جو اہل بیت(ع) کے خانوادہ سے تھے دوسری طرف ان کتابوں میں ایسے لوگوں سے روایتیں بھری پڑی ہیں جن کی بد کرداری جھوٹ اور فریب کاری نوشتہ دیوار اور اہل بیت(ع) سے دشمنی ظاہر ہے جیسے مروان بن حکم، سمرہ بن جندب اور عمران ابن حطان وغیرہ.

......................................

1.سنن ابن دائود پر ابن قسیم کا حاشیہ، ج6، ص75.76، اور اس سے ملتی جلتی زاد الہاد، ج1، ص109.112، پر ہے فصل ازدواج نبی(ص) سے متعلق، جلاء الافہام، ص248.

۱۵۶

2. دوسری بات یہ ہے کہ ان کتابوں میں فضائل اہل بیت(ع) میں کم سے کم حدیثیں بیان کی گئی ہیں جو تھوڑی بہت حدیثیں اس موضوع پر پائی جاتی ہیں وہ شدید حذف و ترمیم کا شکار ہیں فضائل اہل بیت(ع) میں جو حدیثیں ہیں ان میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ تخفیف کر کے یا تضعیف کر کے اہل بیت(ع) کے مرتبہ کو کم کیا جائے یا کم کر کے پیش کیا جائے اسی طرح دشمنان اہل بیت(ع) کے بارے میں جو حدیثیں ہیں اور ان حدیثوں سے دشمنوں کی تخفیف ہوتی ہے تو یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ان حدیثوں کو تضعیف قرار دیا جائے خاص طور سے مسلم اور بخاری میں یہ حرکت زیادہ کی گئی ہے ان کتابوں میں حقیقت بہت صاف جھلکتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں.

1. سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ بخاری نے حدیث غدیر کو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے حالانکہ حدیث غدیر کی شہرت تواتر سے کہیں زیادہ ہے.

2. حدیث غدیر کے ساتھ مسلم کا رویہ منافقانہ ہے انہوں نے حدیث غدیر میں سرکار دو عالم(ص) کے خطبہ میں سے اس خطبے کو اڑا ہی دیا ہے جس میں ولایت امیرالمومنین(ع) کا ذکر ہے حالانکہ ولایت امیرالمومنین(ع) ہی اس خطبے کا مقصد ہے.

3. حدیث ثقلین ایک ایسی حدیث ہے جو تواتر کی حدوں سے کہیں آگے ہے لیکن بخاری نے اس حدیث کو جگہ نہیں دی ہے.

4. بخاری اور مسلم نے اسود سے روایت کی ہے: لوگوں نے عائشہ سے کہا کہ علی نبی کے وصی ہیں عائشہ نے کہا پیغمبر(ص) نے ان کو وصی کب بنایا آپ آخر وقت میں میرے سینے پر تکیہ کر کے لیٹے تھے یا یہ کہا کہ میری گود میں تھے پس آپ نے طشت مانگا پھر آپ میری گود ہی میں پیٹ کے بل ہوگئے میں تو یہ بھی نہ سمجھ سکی کہ آپ وفات پاچکے ہیں پھر آپ نے علی کو وصی کب بنایا؟(1) لیکن ام سلمہ سے ایک روایت پائی جاتی ہے جو عائشہ کی روایت کے بالکل برعکس ہے فرماتی

..............................................

1.صحیح بخاری، ج3، ص1006، کتاب الوصایا.

۱۵۷

ہیں: اس ذات کس قسم جس کی قسم میں کھاتی ہوں کہ پیغمبر(ص) سے علی(ع) سے زیادہ قریب تھے جب ہم دوسرے دن حضرت کی خدمت میں پہونچے تو آپ بار بار پوچھ رہے تھے علی(ع) آئے؟ علی آئے؟ صدیقہ طاہرہ(ع) نے کہا بابا آپ ہی نے تو انہیں کسی کام سے بھیجا ہے ام سلمہ کہتی ہیں اس کے بعد علی(ع) آگئے ہم نے سمجھا نبی(ص) علی(ع) سے کوئی راز کی بات کہنا چاہتے ہیں اس لئے ہم لوگ حجرے سے باہر نکل گئے اور دروازے پر بیٹھ گئے میں دروازے سے زیادہ قریب تھی پھر رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کو خود سے لپٹا لیا اور علی(ع) کو اپنے داہنے طرف لیٹا کے راز کی باتیں کرتے رہے آپ کا انتقال ہوگیا پس علی(ع) پیغمبر(ص) سے سب سے زیادہ قریب تھے.(1)

ام المومنین ام سلمہ کی اس روایت کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہیں جو امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد طاہرہ سے مروی ہےجس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضور سرور کائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی گود میں وفات پائی اور صرف علی(ع) ہی تھے جو آخری وقت میں پیغمبر(ص) کے پاس موجود تھے.(2)

مندرجہ بالاروایت کی ابن عباس کی گفتگو سے مزید تاکید ہو جاتی ہے کیونکہ ابن عباس نے عائشہ کے بیان کا انکار کیا ہے روایت یوں ہے ابو عطفان کہتے ہیں میں نے ابن عباس سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وفات پیغمبر(ص) کے وقت آپ کا سر اقدس کسی کی گود میں تھا؟ ابن عباس نے کہا ہاں اس وقت آپ علی(ع) کے سینے سے تکیہ لگائے ہوئے تھے میں(ابو غلطان) نے کہا عروہ نے مجھے بتایا کہ ان سے عائشہ نے کہا پیغمبر(ص) نے میری ٹھڈی اور گردن کے درمیان وفات پائی ابن عباس نے کہا کیا تمہاری عقل میں بھی یہی بات آتی ہے نہیں خدا کی قسم پیغمبر(ص) نے وقت

..................................

1.المستدرک علی الصحیحین، ج3، کتاب معرفتہ الصحابہ، مجمع الزوائد،ج9، ص112، المصنف لابن ابی شیبہ، ج6، ص356، مسند اسحاق بن راہویہ، ج1، ص129. 130. مسند احمد ج6، ص300. مسند ابی لیلی، ج12، ص364.404 فضائل الصحابہ لابن حنبل، ج2، ص686. البدایہ والنہایہ، ج7، ص360.

2.الطبقات الکبری، ج2، ص263. فتح الباری، ج8، ص139.

۱۵۸

وفات علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیا تھا علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا میرے بھائی فضل بن عباس نے علی(ع) کی غسل دینے میں مدد کی تھی.(1) اس طرح کی ایک اور روایت جابر ابن عبداللہ انصاری سے بھی ہے کہتے ہیں ہم لوگ عمر کے زمانہ خلافت میں عمر کے پاس بیٹھے تھے کعب احبار کھڑے ہوئے اور عمر سے پوچھا کہ امیرالمومنین(ع) بتائیے رسول(ص) کا آخر کلام کیا تھا عمر کہنے لگے علی(ع) سے پوچھو کعب احبار نے پوچھا علی(ع) کہاں ہیں؟ کہا وہاں بیٹھے ہوئے ہیں کعب احبار علی(ع) کے پاس گئے اور وہی سوال کیا علی(ع) نے فرمایا: اس وقت نبی میرے سینے کا سہارا لئے ہوئے کاندھے سے تکیہ کر کے بیٹھے فرما رہے تھے الصلاة الصلاة کعب نے کہا اس طرح انبیاء کی آخری وصیت ہوتی ہے اور اسی کا انہیں حکم دیا گیا ہے اس بات پر وہ مبعوث بھی ہوتے ہیں کعب نے عمر سے پوچھا اے امیرالمومنین نبی کو غسل کس نے دیا تھا کہنے لگے علی(ع) سے پوچھو کعب نے علی(ع) سے پوچھا تو فرمایا: میں نے غسل دیا تھا اور عباس بیٹھے ہوئے تھے.(2) خود عائشہ سے مروی ہے ایک روایت مندرجہ بالا حقیقت کی تائید کرتی ہے عائشہ سے دو عورتوں نے پوچھا کہ ہمیں غسل کے بارے میں بتائیے کہنے لگیں اس شخص کے بارے میں میں کیا بتائوں جس نے وقت وفات نبی(ص) کے دہن اقدس پر ہاتھ رکھا اور نبی کی جان اس کے ہاتھ میں نکلی پھر اس نے اپنے اسی ہاتھ کو اپنے چہرے پر مل لیا جب لوگوں نے پیغمبر(ص) کے دفن کرنے میں اختلاف کیا تو علی(ع) نے کہا کہ زمین کا وہ ٹکڑا جس پر اللہ کے انبیاء وفات پاتے ہیں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ہوتا ہے دونوں عورتیں کہنے لگیں( کہ جب آپ یہ سب جانتی تھیں) تو آپ نے علی(ع)پر خروج کیوں کیا؟ عائشہ نے کہا یہ تو مقدر کی بات اور تقدیر کا فیصلہ تھا مگر مجھے افسوس اتنا ہے کہ اگر میرے لئے ممکن ہوتا تو زمین پر جو کچھ ہے اس کو میں اس گناہ کا فدیہ بنا دیتی.(3)

........................................

1.الطبقات الکبری، ج2، ص263. فتح الباری، ج8، ص139. کنزالعمال، ج7، ص253.254. حدیث18791.

2.الطبقات الکبری، ج2، ص263. فتح الباری، ج8، ص139.

3.مسند ابی یعلی، ج8، ص279. مجمع الزوائد، ج9، ص112. تاریخ دمشق، ج42، ص394. البدایہ والنہایہ، ج7، ص360.361.

۱۵۹

عائشہ سے دوسری حدیث بھی ملاحظہ ہو کہتی ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا جب آپ میرے گھر میں عالم احتضار میں تھے میرے حبیب کو بلائو میں نے کہا تم پروائے ہو علی بن ابی طالب(ع) کو بلائو وہ پیغمبر(ص) سوائے ان کے کسی کو نہیں بلا رہے ہیں جب علی(ع) آئے تو نبی(ص) سنبھل کے بیٹھ گئے اور اپنی چادر پھیلا کے علی(ع) کو اس میں داخل کر لیا پھر علی(ع) لیٹے رہے یہاں تک کے آپ کی وفات ہوگئی.(1)

ایک ہی واقعہ کے بارے میں عائشہ کا در نظریہ دیکھ کے آپ کو تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ اختلاف نظر اصل میں اختلاف حالات کی دین ہے خصوصا عثمان کے بارے میں جو ان کا رویہ تھا اس کی وجہ سے اس نظریہ پر خاصہ اثر پڑا ہے.

میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا حدیثیں جن میں نبی کے آخری وقت میں علی(ع) کو آپ کے پاس دکھایا گیا ہے مزاج نبوت کے زیادہ مناسب اور شان رسالت کے شایان شان ہے اس لئے ان کی صحت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے یہ بات بالکل بعید از قیاس اور بعید از عقل ہےکہ کائنات آدم و عالم کا آخری نبی اور عالم انسانیت کا قیامت تک کے لئے ہادی اعظم اپنا آخری وقت کسی عورت کی گود میں گذارے جب کہ آخری وقت وہ اہم ترین لمحہ ہوتا ہے جس میں کوئی بھی ناظم اور مدبر اپنے مشن کی کامیابی کا انتظام کرتا ہے اور اپنے مشن کو کامیابی سے چلانے والوں کی محبت میں گذارتا تاکہ اس کو ایک مکمل پروگرام دے سکے، اسی لئے پہلی حدیث میں جب ابن عباس نے راوی سے سنا کہ عائشہ کہتی ہیں نبی نے میں گود میں جان دی تو فورا پوچھا کیا تم کو یہ بات معقول لگتی ہے بہر حال ان تمام باتوں کے با وجود بخاری اور مسلم نے عائشہ کی پہلی حدیث پر اعتبار کیا ہے اور ام سلمہ کی حدیث کو اس کی صحت اور قرین قیاس و عقل ہونے کے باوجود مہمل قرار دیا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لکھا یہاں تک کہ حاکم کو اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی مستدرک میں اس حدیث ک شامل کر لیا تاکہ سمجھ میں آئے کہ بخاری اور مسلم سے یہ حدیث چھوٹ گئی ہے پھر اس حدیث کو دوسری حدیثوں سے تقویت بھی دی.

..................................

1.المناقب للخوارزمی، ص68. تاریخ دمشق، ج42، ص393. ینابیع المودة، ج2، ص163. ذخائر العقبی، ص72.

۱۶۰