فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 4%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153607 / ڈاؤنلوڈ: 4750
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لیکن جو لوگ اہل بیت(ع) کی عصمت کے قائل نہیں ہیں ان کے حق میں بھی وہ فتوے ان تمام مفتیوں کی طرح ہیں جن مفتیوں کے لئے ان کے نزدیک عصمت شرط نہیں ہے اس پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے اس لئے اہل سنت اپنے ائمہ کے فتووں پر عمل کرتے ہیں جب کہ ان کی عصمت کے قائل نہیں ہے.

لیکن چند امور کی وجہ سے ائمہ اہل بیت(ع) کے فتووں کو ترجیح حاصل ہے اور ان پر عمل کرنا واجب ہے.

۱.اہل بیت اطہار(ع) کی باتوں سے جو استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ حضرات اپنی رائے سے فتوی دیا ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے فتوے کی بنیاد وہ علم ہے جو انہیں پیغمبر(ص) سے میراث میں ملا ہے فضیل کی حدیث ملاحظہ کریں، ابوجعفر(ع) نے فضیل سے فرمایا اگر ہم اپنی رائے سے حدیثیں بیان کرنے لگیں تو لوگوں کو گمراہ کردیں گے جیسا کہ ہمارے پہلے والے گمراہ کن تھے( گذشتہ امتوں میں) لیکن ہم تو اپنے پروردگار سے بینہ حاصل کر کے بولتے ہیں یہ وہ بینہ ہے جو نبی(ص) کو خدا نے عنایت فرمایا ہے اور نبی(ص) نے ہمارے لئے کھول کے بیان کردیا.(۱)

جابر کی حدیث میں؛ ابوجعفر(ع) نے فرمایا، اگر ہم لوگوں کو اپنی رائے اور اپنی خواہش سے فتوے دیں گے تم ہم ہلاک ہوجائیں گے لیکن ہم نبوی آثار اور اس علم کی بنیاد پر فتوے دیتے ہیں جو نسل در نسل میراث میں ہمیں ملا ہے اور ہم نے اس کو اس طرح محفوظ رکھا ہے جیسے لوگ اپنے سونے چاندی کو ذخیرہ کرتے ہیں.(۲)

ابوجارود کی حدیث جو امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں سرکار دو عالم(ص) نے مولائے کائنات(ع) کو اپنے پاس بلایا اس وقت آپ مرض موت میں گرفتار تھے آپ نے علی(ع) سے کہا: اے علی(ع) میرے قریت آئو تاکہ میں تمہیں وہ اسرار بتائوں جو اللہ نے مجھے بتائے ہیں اور وہ

................................

۱.بحارالانوار،ج۲، ص۱۷۲.

۲. بحارالانوار، ج۲، ص۱۷۲

۲۰۱

امانتیں دیدوں جن کا اللہ نے مجھے امانت دار بنایا تھا تو پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو وہ سب کچھ دیدیا اور علی(ع) نے حسن(ع) کو اور حسن(ع) نے حسین(ع) کو اور حسین(ع) نے میرے والد ماجد(ع) کو اور میرے والد بزرگوار نے مجھے وہ سب کچھ دیدیا جو ان کے بزرگوں سے ملا تھا، صلوۃ اللہ علیہم اجمعین.(۱)

اور عنبہ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے جعفر صادق(ع) سے ایک مسئلہ پوچھا تو آپ نے اس کا جواب دیا اس نے کہا کہ اگر معاملہ اس طرح ہو تو پھر آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: دیکھو ہم نے جو بھی تم سے کہا ہے وہ قول پیغمبر(ص) سے مستفاد ہے اور ہم لوگ اپنی رائے سے کچھ بھی نہیں کہا کرتے.(۲)

اس کے علاوہ بھی اس مسئلے پر کثیر نصوص پائے جاتے ہیں جن سے تواتر اجمالی مستفاد ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ.(۳)

۲.ائمہ اہل بیت(ع) کے فتوئوں کو دوسروں کے فتوئوں پر مقدم رکھنے کی دوسری وجہ ان کی بارے میں احتمال عصمت ہے شیعوں کی نظر میں تو ان کی عصمت قطعی ہے اور چونکہ ان کی عصمت کے خلاف کوئی دلیل نہیں پائی جاتی اس لئے شیعوں کے یہاں ان کے بارے میں احتمال عصمت ہے جب کہ غیر اہل بیت(ع) کی عصمت کے بارے میں نہ کسی نے دعوا کیا ہے اور نہ کوئی احتمال ہے بلکہ شیعہ سنی دونوں فرقوں ک اجماع ان کے غیر معصوم ہونے پر ہے.

۳.تیسری وجہ وہ دلیلیں ہیں جو ان حضرات کی عصمت پر گذشتہ صفحات میں پیش کی گئیں اب اگر کوئی ان دلیلوں کو ان کی عصمت کے لئے کافی نہیں سمجھتا جب بھی کم سے کم ان دلیلوں سے تو یہ بات بہر ال ثابت ہوتی ہے کہ مسائل میں انہیں کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ان کی حدیثوں اور فتوئوں کو غیر کی حدیثوں اور فتوئوں پر مقدم کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ حضرات دوسروں سے زیادہ علم دین

...................................................

۱. بحارالانوار، ج۲، ص۱۷۴

۲.بحارالانوار، ج۲، ص۱۷۳.

۳.الکافی، ج۱، ص۲۲۱.و بحارالانوار، ج۲، ص۱۷۲.۱۷۹.

۲۰۲

رکھتے اور امت کی امامت کے زیادہ مستحق ہیں.

ابن حجر ہیثمی حدیث ثقلین پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ حضور(ص) نے فرمایا: ان دونوں ( اہل بیت(ع) اور قرآن) سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جاو گے اور ان سے قاصر نہ رہنا ورنہ ہلاک ہو جائو گے ان کو بڑھانے کی کوشش نہ کرنا وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ حضور(ص) کے سابقہ کلمات اس بات کے شاہد ہیں کہ اہل بیت(ع) میں جو لوگ صاحبان مراتب اور متدین ہیں وہ دوسروں پر مقدم ہیں.(۱) ابن حجر کا یہ قول ان روایتوں کے مطابق ہے جو اہل بیت اطہار(ع) سے وارد ہوئی ہیں اور امیرالمومنین(ع) کے اس قول سے بھی جس میں آپ نے فرمایا: کہاں ہیں وہ لوگ جن کو یہ غلط فہمی ہے کہ راسخون فی العلم ہم اہل بیت(ع) کے علاوہ ہیں ان کا قول جھوٹا اور ہمارے خلاف بغاوت ہے کہ اللہ نے ہمیں بلند کیا اور انہیں پست کیا اللہ نے ہمیں عطا کیا اور انہیں محروم کر دیا اللہ نے ہمیں داخل کیا اور انہیں باہر کر دیا ہمارے ہی ذریعہ ہدایت ہوتی ہے اور تاریکی روشنی میں بدلتی ہے ائمہ صرف قریش میں سے ہیں بنو ہاشم کے علاوہ دوسروں کے اندر امامت کی صلاحیت نہیں ہے اور بنو ہاشم کے علاوہ کوئی دوسر اولی ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ہے.(۲) زرارہ کہتے ہیں: میں ابو جعفر محمد(ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک کوفی نے آپ سے امیرالمومنین(ع) کے اس قول کے بارے میں پوچھا تھا کہ مجھ سے جو چاہو پوچھ لو تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کسی خبر کے بارے میں مگر یہ کہ میں اس کی تمہیں خبر دوں گا.امام نے فرمایا کہ ہم اماموں کے پاس کوئی بھی علم نہیں ہے مگر یہ کہ امیرالمومنین(ع) سے حاصل ہوا ہے لوگوں کا جہاں دل چاہے جائیں اصل علم تو یہاں پر ہے یہ کہہ کے اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا(۳) ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر(ع) سے ولد الزنا کو گواہی کے بارے میں پوچھا کہ وہ جائز

......................................

۱.الصواعق المحرقہ، ج۲، ص۴۶۵، تتمہ باب وصیتہ النبی(ص).

۲.نہج البلاغہ، ج۲، ص۲۷.

۳. الکافی، ج۱، ص۳۹۹.

۲۰۳

ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا: جائز نہیں ہے میں نے کہا حکم بن عتیبہ کا خیال ہے کہ جائز ہے.آپ نے فرمایا خدا اس کو معاف نہ کرے خدا نے حکم کے بارے میں کیا فرمایا ہے، یہ تو ایک یاد رکھنے کی چیز ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے اب حکم داہنے بائیں مارا پھرے خدا کی قسم! علم نہیں لیا جاسکتا مگر ان اہل بیت(ع) سے جن پر جبرئیل نازل ہوئے ہیں.(۱)

ابوب مریم کی حدیث ہے کہ ابوجعفر نے سلمہ بن کمیل اور حکم بن عتیبہ سے فرمایا: مشرق و مغرب میں گھومتے رہو بخدا تم دونوں علم نہیں پائو گے مگر وہ جو ہم اہل بیت(ع) سے افادہ ہوا ہے.(۲) بہر حال اگر آپ ان ذوات مقدسہ کی عثمت کے قائل نہیں بھی ہیں جب بھی آپ کو ان حضرات سے اعراض کر کے دوسروں کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے جب کہ آپ غیروں کی عصمت کے بھی قائل نہیں ہیں تو زیادہ سے زیادہ آپ یہ کرسکتے ہیں کہ ان کے اور دوسروں کے درمیان یا تو تخییر کا فیصلہ کریں یا پھر ان حضرات کو دوسروں کے قول پر ترجیح دیں آخر کیا وجہ ہے کہ اہل سنت اہل بیت اطہار(ع) سے اعراض کرتے ہیں جب کہ عقل اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے میرا خیال ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اہل سنت کے ناصبیوں سے بڑے مضبوط اور پائیدار تعلقات ہیں اسی وجہ سے ان حضرات کی فقہ اور عقائد بھی اہل بیت(ع) سے بالکل ہی الگ ہیں برادران اہل سنت اہل بیت(ع) سے سخت ناراض ہوں گذشتہ صفحات میں میرے اس دعوے پر شواہد پیش کئے جاچکے ہیں. آپ کا آٹھویں سوال کے جواب میں یہ سب کچھ عرض کیا گیا امید کرتا ہوں کہ آپ اسے کافی و وافی سمجھیں گے اور آپ جن حقائق کو سمجھانا چاہتے ہیں ان کی وضاحت ہوگئی ہم اللہ کے فضل و احسان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے اور اپنی مکمل توفیق فرمائے اور ہمیں لغزش و ہلاکت سے بچائے، ہم قول و عمل میں خطا اور لغزش سے محفوظ رہنے کے امیدوار ہیں بیشک وہ ارحم الراحمین اور مومنین کا ولی ہے میری توفیق تو بس اللہ ہی کی طرف سے ہے اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں وہ ہمارے لئے کافی اور بہترین وکیل ہے.(۳)

...........................................

۱.الکافی، ج۱، ص۳۹۹.

۲.الکافی، ج۱، ص۳۹۹.

۳.سورہ ھود، آیت۸۸.

۲۰۴

سوال نمبر.۹

شیعوں کے نزدیک اصول دین میں خبر احاد پر عمل کرنا جائز نہیں ہے نیز ان کے یہاں ائمہ کی تشخیص کے لئے کوئی متواتر حدیث بھی نہیں پائی جاتی تو اگر امام کی شخصیت کی پہچان خبر احاد کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اس پر عمل صحیح نہیں ہوگا اور وہ امام جو اس حدیث سے معین ہوتا ہے اس کا اتباع واجب نہیں ہوگا.

عمان الاردن. ۷/۱۲/۲۰۰۰م

جواب : اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو باتوں کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.

امام کی معرفت رکھنا اور امام کے بارے میں علم رکھنا صرف شیعوں ہی پر واجب نہیں ہے

۱.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ مسئلہ جمہور اہل سنت بلکہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس لئے کہ عالم اسلام کے نزدیک یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ امام کی معرفت واجب ہے امام کے سامنے تسلیم ہونا واجب ہے امام کی بیعت اور اطاعت واجب ہے اور جو امام کو چھوڑ دیتا ہے یا نہیں پہچانتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جب کہ میں نے آپ کے سابقہ سوال کے چوتھے سوال کے جواب میں دلیلوں کے ساتھ عرض کیا ہے.

۲۰۵

اور ابھی گذشتہ سوال کے جواب میں حضور سرور عالم(ص) کا یہ قول گذر چکا ہے کہ تمہارے امام تمہاری طرف سے بارگاہ الہی میں وفد ہوتے ہیں تو جسے اپنا وفد بنا کے بھیجو اس کے بارے میں پہلے بہت غور کر لو جب یہ طے ہوگیا کہ معرفت امام قطعی دلیلوں سے واجب ہے نہ کہ کمزور دلیلوں سے.

موضوع امامت پر شیعہ اور غیر شیعہ دلیلوں کے درمیان ایک موازنہ ضروری ہے

مسئلہ امامت کے سلسلے میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس بڑی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو جائے تاکہ اس کی موت جاہلیت پر نہ ہو بلکہ اسلام پر ہ تو اس کو چاہئے کہ وہ دنوں فرقوں کی دیلیوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرے اور یہ دیکھے کہ شیعہ اپنے اماموں کی تعیین و تشخیص کے لئے کیا دلیلیں دیتے ہیں پھر ان کا موازنہ کرنے کے وقت ذات باری کو سامنے رکھے اور یہ سمجھے کہ خداوند عالم اس کے فیصلہ کا شاہد ہے پھر فیصلہ وجدان کے ہاتھ میں دیدے تاکہ وجدان یہ فیصلہ کرے کہ دونوں کی دلیلوں میں قوی تر دلائل کس کے ہیں وجدان جس کے حق میں فیصلہ کرے اس کو اپنے لئے لازم قرار دے اور اسی پرعمل کرے تاکہ جس دن وہ اللہ کے سانے کھڑا ہوگا اور اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اس دن وہ اللہ کے سامنے عذر پیش کرسکے اس لئے کہ اس دن اس سے اس دین کے بارے میں پوچھا جائےگا جو اس پر فرض کیا گیا ان اماموں کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کی امامت میں وہ رہا ہے اور جن سے اس نے دین لیا ہے.

اس منزل موازنہ میں اہل سنت کے طریقوں کی قید نہیں لگانی چاہئے

۲.اس جگہ اہل بیت(ع) کے طریقوں کی قید نہیں لگانی چاہیئے نہ ان کی روایتوں کی اور نہ ان کے مسلمات کی قید لگانی چاہئے چاہے وہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں اس لئے کہ شیعہ نقطہ نظر کو تو شیعہ دلیلوں ہی سے

۲۰۶

ثابت کیا جاسکتا ہے البتہ جب شیعہ اہل سنت کے نظریہ امامت سے بطلان پر دلیلیں لاتے ہیں اور ان کے اس قول پر احتجاج کرتے ہیں کہ استیلاء ( قہر و غلبہ) کے ذریعہ سے جو خلافت حاصل کی جاتی ہے وہ شرعی ہے اس لئے خدا کے وصی یا نبی کی تبلیغ کی کوئی صرورت نہیں ہے تو اس وقت سنی دلیلوں پر بھی نظر کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے کہ شیعہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے کہ جمہور اہل سنت پر ایسی دلیلوں سے احتجاج کریں جو ان کے سامنے قابل تسلیم نہیں ہیں اور ان کے نزدیک حجت قاطعہ کی حیثیت نہیں رکھتی ہے.

تو پہلی بات یہ ہے کہ شیعہ امامت کے بارے میں ہم صرف شیعوں کی دلیل پر نظر کریں گے اور سنی دلیلوں سے اس کو آزاد رکھیں گے اب دوسرا مرحلہ ہے وہ یہ کہ جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ شیعہ اس کو امام مانتے ہیں جس کے بارے میں کلام خدا اور حدیث پیغمبر(ص) میں نص پائی جاتی ہے اور یہ نص پیش بھی کی جا چکی تو پھر اب یہ طے کرنا باقی رہ گیا کہ وہ کون سے اشخاص ہیں جن کی امامت پر نص وارد ہوئی ہے اس لئے کہ امامت اصول دین میں ہے اور امام کے بارے میں علم حاصل کرنا واجب ہے اس کے لئے اخبار احاد کافی نہیں ہیں تو اب معاملہ خاص شیعوں کا ہونا چاہئے شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں ان دلیلوں پر اعتماد کریں جو باعث علم ہوں چاہے جس طریقے سے حاصل ہوں مقصد امامت کے بارے میں علم حاصل کرنا ہے تاکہ وہ امام کو پہچان سکیں اور جاہلیت کی موت سے محفوظ رہیں.

یہ بات تو طے ہے کہ اہل سنت حضرات شیعہ خبروں پر اعتماد نہیں کرتے اور ان پر گمراہی کا الزام رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسی خبریں ہیں جن سے شیعوں کو گمراہ ثابت کیا جاسکتا ہے وہ ان فریقوں سے تجاہل کرتے ہیں جن سے شیعہ اخبار کی تقویت ہوتی ہے ان کے مضامین کی صحت پر یقین حاصل ہوسکتا ہے لیکن شیعہ تو اپنے بارے میں بہر حال جانتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے پاس اپنے نصوص ہیں جن سے اہل بیت(ع) کی حقانیت اور حقیقت ثابت ہوتی ہے چونکہ وہ حق پر ہیں اس لئے افتراء کذب اور بہتان سے مستثنی ہیں ان کے پاس اپنے عقلی اور نقلی قرائن موجود ہیں

۲۰۷

جو ان کی خبروں کو تقویت پہونچاتے ہیں اور ان کے دعوے کو حق ثابت کرتے ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے.

تو اب یوج سمجھ لیک کہ جس طرجمسلمان اور دوسرے مذہیوں کے ماننے والے اسی طر شیعہ اور دوسرے اسلامی فرقے جسے کوئی مسلمان جب دوسرے کے سامنے دین اسلام کو جو ثابت کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے وہ قرآن اور حدیث نبوی(ص) سے تو دلیل دے گا نہیں اس لئے کہ غیر مسلم کے لئے قران اور حدیث نبوی کی حجیت ثابت نہیں ہے اس لئے پہلے وہ اصل دین اور صداقت نبوت کو ان دلیلوں سے ثابت کرے گا جو دلیلیں اس غیر مسلم کے لئے قابل تسلیم اور حامل حجیت ہوں گی اس لئے وہ دلیلیں تو ہرگز کافی نہیں ہوں گی جو صرف مسلمانوں کو قائل کرسکتی ہوں.

لیکن جب بات آگے بڑھے گی اور اسلام کے فرعی مسائل پر گفتگو ہوگی جیسے امامت یا قیامت کی تشریح تو اب یہاں وہ دلیلیں کافی ہوں گی جو عام مسلمانوں کے لئے حجیت ہوں گی جن کے سامنے اسلام کی صداقت ثابت ہوچکی ہے اب ان دلیلوں کی ضرورت نہیں رہےگی جو غیر مسلم کیے لئے حجیت رکھتی ہیں اس لئے کہ یہ مسئلہ غیر مسلم کے لئے مخصوص نہ ہو کے مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے بلکہ اگر کوئی غیر مسلم بھی اسلام کی صداقت پر ایمان لاتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے اس کے لئے بھی وہ دلیلیں کافی ہوں گی جو عام مسلمانوں کے لئے کافی ہوتی ہیں اور ان کا تعلق ان مسائل سے ہے جو اسلام پر متفرع ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ دلیلیں اسلامی پیمانوں کی بنیاد پر ہوں گی اور اسلام کے ماننے والے ان پر ہمیشہ عمل کرتے اور یقین کرتے آئے ہیں ٹھیک اسی طرح اگر کوئی اہل سنت اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے قول کے مطابق امامت صرف اہل سنت کا حق ہے اس لئے کہ ان کی امامت کے بارے میں یقین حاصل ہے تو اب امام کو پہچاننے کے لئے بھی وہ سنی دلیلیں یا غیر شیعہ دلیلیں نہیں تلاش کرے گا بلکہ ان دلیلوں کی طرف رجوع کرے گا جو عقل کے میزان پر پوری اتر کے اہل بیت اطہار(ع) کی امامت کو ثابت کرتی ہیں اور امام کو ترجیح قرار دیتی ہیں.اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں یا ان کی روایتوں میں ایسے نصوص

۲۰۸

موجود ہی نہیں ہیں جو شیعہ مذہب کی تائید کرتے ہیں بلکہ ایسے نصوص اب بھی موجود ہیں البتہ اس حیثیت سے موجود نہیں کہ ایک یہ حدیث سے تمام باتیں ثابت ہوجائیں.

جب بات یہاں تک پہونچ گئی تو مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ شیعوں کے نزدیک امامت کا موضوع اصول دین میں ہے اور اعتقاد کی حیثیت رکھتا ہے امام کی معرفت پر نجات موقوف ہے اور اس سے جاہل رہنے کے نتیجے میں ہلاکت یقینی ہے اس لئے امام کو شخصی طور پر پہچاننا اس کی امامت کے بارے جاننا لازم ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ نے امام کی امامت پر قطعی دلیل قائم کی ہے اور ایسی دلیل جس سے امام کی امامت کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کسی چیز کو معرفت کو لازم و واجب قرار دیے اور اس کی معرفت کے اسباب مہیا نہ کرے.اس لئے عرض کرتا ہوں.

خبر متواتر کس کو کہتے ہیں؟

اگر خبر متواتر سے آپ کی مراد ایسی خبر ہے جس کو ایک ایسی جماعت روات کرتی آئی ہو جس کی صداقت کا علم ہو اور اتنی بڑی جماعت کا جھوٹ پر اجتماع نا ممکن ہو اس لئے کہ وہ کثیر ہیں اور یہی شرط طبقات سند کے تمام طبقوں میں ہو مثلا بیس آدمیوں نے بیس آدمیوں سے کہا ان بیس آدمیوں نے پھر بیس آدمیوں سے کہا اگر تواتر سے مراد آپ کی مذکورہ بالا تواتر ہے تو آپ تو کہہ ہی چکے ہیں کہ کسی بھی امام کے تشخیص کے لئے مذکورہ بالا تواتر حاصل نہیں ہے، لیکن علم آپ کے اس تواتر پر موقوف نہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ آپ کی تعریف کردہ تو بہت سے اپںے مسائل کو حاصل نہیں ہے جن کا علم ضروریات دین یا تاریخی واقعات میں سے ہے جن پر کوئی نص نہیں پائی جاتی بلکہ اسی طرح کے ضروریات دین محض اجماع مسلمین سے ہی حاصل ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے اجماع سے ثابت ہو جاتے ہیں ان ضروریات دین کا علم مسلمانوں نے نبی سے حاصل کیا ہے.

اور اگر آپ کی مراد تئاتر سے یہ ہے کہ خبر اس طرح منتقل ہوتی رہی ہو جو موجب علم ہے چاہے

۲۰۹

اس مذکورہ خبر کا تقاصہ وہ دوسرے اخبار کے ذریعہ ہو یا قرائن کے ذریعہ علم حاصل ہو یا یہ کہ اس خبر کی تائید دوسری خبریں کرتی ہوں تو یہ تواتر اس جگہ حاصل ہے بلکہ امام کے تشخص کے معاملے میں آپ کے اس تواتر سے کہیں بلند مرتبہ وسائل حاصل ہیں مزید وضاحت کے لئے عرض کہ حضرت علی(ع) کی امامت کے بارے میں وہ کئی طرح کے نصوص ہیں.

بالخصوص امیرالمومنین(ع) کی امامت پر نصوص واردہ

پہلی قسم: ان نصوص واردہ کی پہلی قسم تو وہ ہے جو امیرالمومنین(ع) کے حق میں وارد ہوئی ہے، اس سلسلے میں میں کوئی طویل گفتگو نہیں کرنا چاہتا اس لئے کہ آپ کی امامت کا سب کو یقین ہے اور چونکہ بات شیعہ روایتوں کی ہوچکی ہے اس لئے اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ آپ شیعوں کے پہلے امام ہیں.

میں نے یہاں اس طرح کی روایتوں کی طرف اس لئے اشارہ کیا کہ میں نے پہلے یہ عرض کیا تھا کہ نصوص کئی طرح سے وارد ہوتے ہیں تم معلوم ہوجائے کہ نصوص واردہ کی پہلی قسم یہ ہے.

ہاں امیرالمومنین(ع) کی امامت پر لفظ بدل برل کے نص وارد ہوئی ہے ایک ان نصوص واردہ کی ایک قسم وہ ہے جو آپ کی امامت، ولایت، ریاست اور طاعت کے واجب ہونے پر دلیل ہے جیسے حدیثی غدیر، دوسری قسم وہ ہے جس سے آپ کی دینی مرجعیت اور امامت ثابت ہوتی ہے جیسے علی حق اور قرآن کے ساتھ ہیں اور یہ دونوں چیزیں بھی علی(ع) کے ساتھ ہیں اور علی(ع) امت کے ہادی اور اختلاف امت کو دور کرنے والے ہیں وغیرہ.

دونوں مذکورہ قسموں میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں دستیاب ہیں آپ کے چوتھے چھٹے اور آٹھویں سوال کے جواب میں یہ تمام نصوص پیش کئے جاچکے ہیں ان کے تذکرے کی یہاں نہ گنجائش ہے نہ ضرورت بلکہ جس کو تفصیل چاہے وہ اس موضوع پر ہمارے علماء کرام رضوان اللہ علیہم کی کتابیں دیکھیں جنہوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں اسی موضوع پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے.

۲۱۰

دلیلوں کی یہ قسم اپنے مجموعہ کے ساتھ اس نص کی حجیت کا تقاضہ کرتی ہے جو ایک نبی سے آپ کی امامت پر صادر ہوتی ہے اور خاص آپ کی امامت اور عام طور سے اہل بیت اطہار(ع) کی امامت ثابت کرتی ہے نیز اجمالی طور پر آپ کی ذریت میں امامت کو محدود کر کے تفصیلی طور پر ان کی تعیین کرتی ہے.

وہ نصوص واردہ جن میں اہل بیت(ع) کے لئے عموم پایا جاتا ہے

دوسری قسم: ان دلیلوں کی ہے جن میں عمومی طور پر اہل بیت(َع) کے لئے امامت کا ثبوت پایا جاتا ہے ان سے تمسک لازم اور ان کی اطاعت کا وجوب پایا جاتا ہے یہ وہ دلیلیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت(ع) ہی امت کے مرجع ہیں اور انہیں کے ذریعہ امت گمراہی اور ہلاکت سے محفوظ رہے گی اہل بیت(ع) ہی امت کو رشد و ہدایت کا راستہ بتاتے ہیں انہیں کے ذریعہ اختلاف بر طرف ہوتا ہے وغیرہ، چوتھے اور آٹھویں سوال کے جواب میں یہ باتیں بھی عرض کی جاچکی ہیں.

نصوص واردہ کی اس قسم میں اگرچہ اہل بیت اطہار(ع) کے ناموں کی صراحت اس طرح نہیں کی گئی ہے کہ امت کے مرجع کا نام کیا ہے لیکن امیرالمومنین(ع) تو یقینی طور پر اس میں شامل ہیں اس لئے کہ آپ سید اہل بیت ہیں اور اپنی عترت کے سردار ہیں یہ بات حدیث ثقلین پر گفتگو کے وقت ثابت کی جاچکی ہے جہاں یہ ثابت کیا گیا ہے حدیث ثقلین آپ کی امامت پر قوی تر دلیل ہے سابقہ سوالوں کے چھٹے سوال کا جواب دیکھیں.

اس لئے منجملہ وہ تمام موارد جہاں حضور نے ثقلین کی مرجعیت پیش کی ہے یا واقعہ غدیر وغیرہ امیرالمومنین(ع) کے سلسلے میں نص کی حیثیت رکھتے ہیں اب چونکہ امیرالمومنین(ع) اہل بیت(ع) کی ایک فرد ہیں اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ حدیث ثقلین یا وہ نصوص جن عام اہل بیت کو امامت سے مخصوص کیا ہے ان سے صرف امیرالمومنین(ع) ہی مراد ہیں البتہ اس عموم میں بھی مرکزی حیثیت آپ کو حاصل ہے.

۲۱۱

یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے کہ جس طرح امیرالمومنین(ع) کا اہل بیت میں شامل ہونا متعین ہے اسی سے آپ کے دونوں صاحبزادے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کا بھی اہل بیت(ع) میں ہونا شامل ہے اس لئے کہ آپ دونوں حضرات ورود نص کے وقت نبی کے دور میں اہل بیت(ع) موجود تھے اور ان کے علاوہ دوسرں کے بارے میں میں اس طرح کا کوئی احتمال نہیں پایا جاتا.

بلکہ اس دوسری قسم کی حدیثوں میں چونکہ یہ بتایا گیا ہے کہ اہل بیت(ع) ہی امت کا اختلاف دور کریں گے اور اس کو گمراہ سے بچا کے حق کی ہدایت کریں گے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امت کے لئے ہر زمانے میں اہل بیت(ع) کو حیثیت حاصل ہے جب تک امت رہے گی امت کی مرجعیت اہل بیت(ع) کو حاصل ہوگی اور امت جس زمانے میں بھی اختلاف کا شکار یا گمرہی میں گرفتار ہوگی اہل بیت(ع) ہی اس کے نجات وہندہ ہوں گے اس لئے ہر زمانے میں ہل بیت کا وجود لازمی ہے اور امت پر بھی حسین(ع) کے بعد اہل بیت(ع) کے اس فرد کی اطاعت واجب ہے جو اپنے زمانے میں اہل بیت(ع) کی نمایندگی کرنے والا امت کا امام ہوگا زمانے کے ساتھ امام زمانہ کا سلسلہ ہر دور میں باقی رہے گا جیسا کہ میں نے آٹھویں سوال کے جواب میں آخر میں عرض کیا تھا جہاں میں نے یہ دلیل دی تھی کہ دینی معاملات میں اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے.

بلکہ حضور سرورکائنات(ص) کے اس قول سے صراحت ہوتی ہے کہ حدیث میں جن عدول کا تذکرہ ہے وہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں حدیث ہے کہ ہر دور میں ہماری امت کے لئے ہمارے اہل بیت(ع) میں سے ایک عادل ہوگا جو اس دین کو غالیوں کی تحریف باطل کی دخل اندازی سے محفوظ رکھے گا اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کرے گا پس خدا تک تمہاری قیادت کرنے والے تمہارے امام ہیں پس غور کرو کہ تم اپنے دین اور اپنی نمازوں میں کس کی اقتدا کرتے ہوں(۱) اس حدیث میں عدول سے مراد ائمہ اہل بیت(ع) ہی ہیں جن کی امامت میں رہنا جن کی اطاعت امت پر واجب قرار دی جا رہی ہے.

.........................................

۱.کمال الدین و تمام النعمہ، ص۲۲۱، انہیں الفاظ میں قریب الاسناد کے ص۷۷پر بھی ہے. الکافی، ج۱، ص۳۲. مقتضب الاثر، ص۱۶. الفصول المختارة، ص۳۲۵. اس کے علاوہ جمہور کے مصادر آٹھویں سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں( اہل بیت امت کے مرجع ہیں کے ادلہ میں)

۲۱۲

حاصل گفتگو یہ ہے کہ یقینی طور پر تو اس میں امیرالمومنین(ع) اور آپ کے دونوں صاحبزادے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) شامل ہیں اور اجمالی طور پر یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے باقی ائمہ اہل بیت(ع) کی طرف اگرچہ ان کی تعداد اور ان کے اسماء گرامی اس حدیث میں نہیں بتائے گئے ہیں لیکن دوسری حدیثوں میں تو ان حضرات کے نام کی صراحت کی گئی ہے اور ایک ایک کا نام لے کے تعارف کرایا گیا ہے.

وہ حدیثیں جن میں امیرالمومنین(ع) اورآپ کے گیارہ فرزندوں کی امامت کا تذکرہ ہے

تیسری قسم: تیسری قسم ان حدیثوں کی ہے جن میں امیرالمومنین(ع) کی امامت اور آپ کے گیارہ فرزندوں کے اعداد بتائے گئے ہیں لیکن ناموں کی صراحت نہیں کی گئی ہے یا امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے اور باقی ناموں کی نہیں.

امام بارہ ہیں اور امامت انہیں افراد میں منحصر ہے

اماموں کی تعداد میں سنی اور شیعہ حدیثوں میں اتفاق ہے دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ امام بارہ ہوں گے اور بارہ ہیں شیعوں کی حدیثیں اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ امامت انہیں بارہ افراد میں منحصر ہے ایک زیادہ نہ ایک کم.

لیکن اہل سنت کی حدیثیں یہ بتاتی ہے کہ امام بارہ ہیں اور بس ان کی حدیثوں کا ظاہر معنی یہی ہے لیکن ان حدیثوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امامت بس اسی میں محصور ہے اگرچہ ان کے وہاں امام اس عدد سے زیادہ پائے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ جب ان کے یہاں بارہ سے زیادہ پائے جاتے ہیں تو اس عدد کا حدیثوں میں تذکرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے خصوصا ایسی دلیلیں تو بالکل ہی بے فائدہ ہیں جن میں مطلقا عدد کا ذکر ہوا ہے لیکن اماموں کا تعارف نہیں کرایا گیا ہے یا تعارف ہوا

۲۱۳

ہے تو صرف اس لفظ سے کہ وہ قریش میں سے ہوں گے البتہ تعبیر اس طرح ہوتی ہے کہ میرے بعد قریش سے بارہ خلیفہ یا بارہ امام ہوں گے تو ظاہر حدیث انحصار پر دلالت نہیں کرتا لیکن ن حدیثوں کی زبان یہ نہیں ہے ان حدیثوں سے اس بات کو تقویت ضرور ملتی ہے کہ امام بارہ کے عدد ہی میں منحصر ہیں.

بہر حال مقام استدلال میں کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں.

۱.عبداللہ بن مسعود کی حدیث ملاحظہ کریں کہتے ہیں سرکار دو عالم(ص) نے فرمایا: میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے ان کی تعداد موسی کے نقیبوں کے برابر ہوگی(۱) یہ بات تو معلوم ہے کہ جناب موسی کے بارہ نقیب تھے اس بنا پر یہ حدیث صراحت کرتی ہے کہ نقباء موسی اور خلفاء نبی میں عدد کے اعتبار سے مطابقت پائی جاتی ہے.

۲.جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضور(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے سنا حضور(ص) فرما رہے تھے یہ امر پورا نہیں ہوگا جب تک ان کے درمیان ۱۲/خلفاء نہ گذر جائیں پھر آپ نے مخفی طور پر کچھ فرمایا جو میں نے سن نہیں سکا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا حضور(ص) کیا فرمارہے تھے میرے باپ نے کہا حضور(ص) نے فرمایا سب کے سب قریش سے ہوپ گے.(۲) اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ خلفاء کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ دین رہے گا اور ان خلفاء کی تعداد بارہ ہوگی اس معنی کی بہت سی حدیثیں ہیں.

۳.ابن سمرہ عدوی سے روایت ہے کہ میں نے سنا پیغمبر(ص) فرما رہے تھے یہ دین قائم رہے گا یہاں تک کہ اس میں بارہ خلفاء قریش میں سے ہوں پھر قیامت کے قریب جھوٹے خروج

...............................................

۱.کنز العمال، ج۱۲،ص۳۳، حدیث۳۳۸۵۹.نیز ج۶،ص۸۹، حدیث۱۴۹۷۱ میں بھی مذکور ہے. الفتن نعیم بن حماد، ج۱، ص۹۵.رسول خدا کے بعد خلفاء کی تعداد کے بیان میں. البدایہ والنہایہ، ج۶، ص۲۴۸ اخبار، قریش بارہ امام ہوں گے کے ضمن میں. الجامع الصغیر، ج۱، ص۳۵.

۲.صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۵۲. کتاب الامارة، باب لوگ قریش کے تابع ہیں نیز خلافت بھی قریش ہی میں ہے.

۲۱۴

کریں گے(۱)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ بارہ خلفاء کی موجودگی تک غالب اور ظاہر رہے گا اور ان کے بعد جھوٹوں کا دار دورہ ہوگا جو قیامت کی شرطوں میں ہے.

اسی طرح دوسری حدیث بھی ہے جو سمرہ عدوی سے ہی مروی ہے کہ حضور(ص) نے فرمایا یہ امت سیدھے راستے پر چلتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر ظارہ رہے گی یہاں تک کہ اس میں بارہ خلیفہ گذریں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے یہ فرمایا پھر اپنی منزل پر تشریف لائے تو قریش نے آپ سے ملاقات کی اور پوچھا پھر کیا ہوگا فرمایا تو پھر تو تعرج ہوگا ( یعنی قیامت آئے گی).

۴.سمرہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے سنا حضور(ص) فرمارہے تھے میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے جب آپ اپنی منزل پر آئے تو قریش آپ کی خدمت میں آئے اور پوچھا پھر کیا ہوگا فرمایا پھر حرج ہوگا.

قریش کے سوال سے ظاہر ہے کہ انہوں نے حدیث سے حصر سمجھا یعنی خلافت بارہ عدد میں منحصر ہے اور خلافت قریش میں منحصر ہے حدیث اس زمانے کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے جو بارہ عدد خلفاء کی خلافت کے دور سے سازگار ہے قریش نے جاننا چاہا کہ اس زمانے کے بعد کیا ہوگا یہ بھی جان لیں.

.اور انس کی حدیث بھی دیکھتے چلیں حضور(ص) نے فرمایای یہ دین بارہ خلفاء تک قائم رہے گا اور جب وہ خلفاء گذر جائیں گے تو زمین اپنے اہل زمین کے ساتھ برباد ہو جائے گی( الٹ جائے گی)(۲)

................................................

۱.مسند ابی عوانہ، ج۴، ص۳۷۳، کتاب الامر کے آغاز میں، رسول خدا(ص) کے بعد ان خلفاء کی تعداد کے بیان میں جو اپنے مخالفین کی بھی مدد کرتے ہیں خداوند عالم کے ذریعہ انہیں کے ذریعہ دین کو تقویت دے گا اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے جو خوارج کے قول کے بطلان کی دلیل ہے انہیں الفاظ میں مسند احمد، ج۵، ص۸۶.۸۷ جابر

۲.کنز العمال، ج۱۲، ص۳۴، حدیث۳۳۸۶۱.

۲۱۵

اس حدیث سے زیادہ روشن ابوالطفیل کی حدیث ہے ابوالطفیل سے عبداللہ بن عدو نے کہا کہ مجھ سے پیغمبر(ص) نے فرمایا : جب بنی کعب بن لوی کے بارے افراد حکومت کریں گے تو پھر قیامت تک مار پیٹ ہوتی رہے گی.(۱)

اس حدیث سے بھی زیادہ صراحت مسروق کی حدیث ملتی ہے کہتے ہیں ایک دن ہم لوگ عبد اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں قرآن پڑھا رہے تھے پس ایک آدمی نے ان سے پوچھا اے ابوعبدالرحمن کیا آپ لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا تھا کہ اس امت میں کتنے خلیفہ مالک ہوں گے؟ عبداللہ نے کہا کہ جب سے میں عراق آیا ہوں تم سے پہلے کسی نے یہ سوال مجھ سے نہیں کیا ہاں ہم نے پوچھا تھا آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے نقیبوں کے عدد کے برابر بارہ ہوں گے.(۲)

خلفاء کی تعداد کے بارے میں سوال کرنا خلفاء کا بارہ کے عدد میں محصور ہونے کا باعث ہے نہ کہ یہ عدد یعنی ان کے ضمن میں آتا ہے یعنی یہ سوال یہ بتاتا ہے کہ خلفاء کی عدد بارہ ہی میں محصور ہے ایسا نہیں ہے کہ خلفاء بارہ سے زیادہ ہیں اور یہ بارہ بھی ان ہی زیادہ کے ضمن میں آتے ہیں.

یہیں پر مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اس قسم کہ حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ خلفاء اور ائمہ کی عدد بارہ ہیں محصور ہیں، لیکن یہ تعداد اہل سنت کے مذہب کے مطابق نہیں ہے اگر مطابقت رکھتی ہے تو صرف مذہب امامیہ سے مطابقت رکھتی ہے اگرچہ ایک جماعت نے اس غلطی سے رہائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور دور دراز تاویلیں پیش کر کے ان نصوص کو ان کے ظاہری معنی بلکہ سرحی معنی سے موڑنے کی کوشش کی ہے جیسش کہ ہر صاحب فکر کے سامنے یہ بات ظاہر ہے.(۳)

.................................

۱.تاریخ بغداد، ج۶، ص۲۶۳، اسماعیل بن ذواد کی سوانح حیات کے ضمن میں. المعجم الاواسط، ج۴، ص۱۵۵. فتح الباری، ج۱۳، ص۲۱۳. تختہ الاحوذی، ج۶، ص۳۹۴. میزان الاعتدال، ج۱، ص۳۸۳. اسماعیل بن ذواد کی سوانح حیات کے ضمن میں. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج۳، ص۱۲۳. ذواد بن علبتہ خازنی کی سوانح حیات کے ذیل میں.

۲.المستدرک علی الصحیحن، ج۴، ص۵۴۶. کتاب الفتن والملاحم نیز انہیں الفاظ کے ساتھ مسند احمد کی ج۱، ص۳۹۸پر مسند عبد اللہ بن مسعود. مسند ابی لیلی، ج۸، ص۴۴۴، ج۹،ص۲۲۲. المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۱۵۷. تحفتہ الاحوذی، ج۶، ص۳۹۴. تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۳۳، اور اس کے علاوہ مصادر.

۳.فتح الباری کی، ج۱۳، ص۲۱۱.۲۱۵ پر ابن حجر کی گفتگو ملاحظہ ہو.

۲۱۶

ان نصوص صادقہ میں بعض ایسی حدیثیں ہیں جس سے اس قول کو پختگی ملتی ہے کہ ان خلفاء کو اگر کوئی چھوڑ دے گا یا ان سے کوئی عداوت کرے گا تو اس سے خلفاء کو کوئی نقصان نہیں پہونچے گا.

جیسے جابر بن سمرہ کی حدیث کہ کہتے ہیں پیغمبر(ص) منبر سے فرما رہے تھے کہ قریش سے بارہ حاکم ہوں گے کسی کی عداوت بھی انہیں نقصان نہیں پہونچائے گی،(۱) انہیں جابر بن سمرہ سے حدیث ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ خدمت نبی میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا اس امت کے بارہ قائم ہوں گے اور ان کو کسی رسوائی سے کوئی نقصان نہیں پہونچے گا.(۲)

اب برادران اہل سنت کے مذہب کے مطابق خلافت اگر ظاہری اقتدار کے ذریعہ حاصل ہوگی تو ظاہر ہے کہ اس

خلافت کو رسوا کرنے والے خلافت کے لئے نقصان دہ تو ہوں گے اس لئے کہ اس رسوائی سے ان کی سلطنت کمزور بلکہ ختم ہوسکتی ہے اور جمہور کے نزدیک اس کی امامت باطل ہوجائے گی البتہ اگر خلافت نص اور جعل الہی کے ذریعہ ملے گی تو خلیفہ کو لوگوں کی عداوت اور خذلان سے کیا نقصان پہونچ سکتا ہے لوگوں کے اوپر غلبہ حاصل کر کے تو خلافت حاصل نہیں ہوتی ہے کہ ادھر حکومت کی پکڑ کمزور پڑی ادھر خلافت گئی خلافت تو خدا کا عطا کردہ منصب ہے اس لئے خلافت کو نقصان پہونچانے اور خلیفہ سے عداوت رکھنے والوں کو تو نقصان پہونچ سکتا ہے کہ وہ امام برحق کی اطاعت میں کوتاہی کر رہے ہیں خلیفہ اور امام کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا اور امیر المومنین(ع) کا یہ قول” میرے ارد گرد لوگوں کی کثرت میری عزت میں اور لوگوں کو مجھے چھوڑ کے ہٹ جانے سے میری وحشت میں کوئی زیادتی نہیں ہوتی اب کسی بھی صاحب انصاف کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ نصوص مذکورہ کی بنا پر امامت صرف بارہ افراد میں منحصر ہے.(۳)

...................................

۱. مجمع الزوائد، ج۵، ص۱۹۱، کتاب الخلافتہ؛ المعجم الکبیر، ج۲، ص۲۵۶ علی بن عمار کی جابر بن سمرہ سے روایت ذیل میں؛ فتح الباری، ج۱۳، ص۲۱۲.

۲.المعجم الاوسط، ج۳، ص۲۰۱؛ المعجم الکبیر، ج۲، ص۱۹۶؛ کنز العمال، ج۱۲، ص۳۳، حدیث ۳۳۸۵۷.

۳.سورہ مائدہ، آیت ۱۰۵.

۲۱۷

مذکورہ بالا حدیثوں پر غور کریں ان کے علاوہ کچھ حدیثیں ایسی ہیں جن میں یہ جملہ ہے کہ (خلفاء) سب قریش سے ہوں گے اور کچھ حدیثوں میں ارشاد ہوا کہ سب کے سب ہدایت اور دین حق پر عمل کرتے ہوں گے دوسری حدیثوں میں ہے ائمہ قریش میں سے ہوں گے اسی طرح کچھ حدیثوں میں ہے کہ( بارہ کے بارہ) خلفائ راشدین اور مہتدین ( ہدایت کرنے والے اور ہدایت یافتہ ہوں گے)

ان تینوں طرح کے حدیث اور طائفہ اولی کی حدیثوں کو دیکھنے کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ائمہ اورخلفاء قرشی ہیں سب کے سب ہدایت اور دین حق پر عمل کرنے والے ہیں سب کے سب راشدین اور مہتدین میں ہیں اور ان بارہ افراد کے علاوہ کسی کی امامت کو شرعی حیثیت حاصل نہیں ہے.

جب ان حدیثوں کا مطالعہ کرچکے تو اب ضروری ہے کہ ان خلفاء کا دوسری نصوص اور دلیلوں کے ذریعہ ایک تعارف و تشخص پیش کر دیا جائے، اس کے پہلے چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ حضور سرور

دو عالم(ص) خلافت و امامت کو بیان کرنے کے وقت صرف یہ کہہ کے خاموش ہوجائیں کہ وہ قریش ہی سے ہوں گے اس لئے کہ اس طرح قریش کی ہر فرد امامت و خلافت کی دعویدار ہوسکتی ہے اور امت کے اندر خلافت کے لئے لوٹ مار اور اختلاف پیدا ہوسکتا ہے جیسا کہ ہوا نبی کے لئے ضروری ہے کہ خلافت کو قریش میں محدود کرنے کے بعد ان خلفاء کا مکمل تعارف اور تشخص بھی کرادیں تاکہ اختلاف و افتراق سے بچا سکیں.

ائمہ بنی ہاشم میں سے اور علوی ہوں گے

ائمہ اثنا عشر والی حدیثوں میں سے کچھ وہ ہیں جن میں ارشاد ہوا ہے کہ امام بارہ ہوں گے(۱) اور وہ بنی ہاشم میں سے ہوں گے ان سوالوں میں تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا گیا تھا کہ

..............................

۱.ینابیع المودۃ، ج۲، ص۳۱۵، ج۳، ص۲۹۰.۲۹۲.

۲۱۸

امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ سنوا ائمہ قریش میں سے ہیں اور بنو ہاشم کی شاخ میں سے ہیں.(۱)

اس سلسلے میں کثیر حدیثیں شیعہ طریقوں سے وارد ہوئی ہیں جن کا احصاء ممکن نہیں ہے ان حدیثوں میں صراحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ائمہ امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد طاہرہ(ع) میں سے ہیں اور ان حدیثوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان بارہ اماموں میں پہلے امام امیرالمومنین(ع) ہیں اور باقی گیارہ آپ کی اولاد طاہرہ میں سے ہیں( جو جانے پہچانے اور روشن چہروں والے ہیں جنہیں صرف وہ نہیں پہچان پاتا جس کی آنکھ تعصب کی سیاہ عینک چڑھی ہوئی ہے) مترجم غفرلہ.

امامت صرف علی(ع) و فاطمہ(ع) کی اولاد میں منحصر ہے

فضیلتوں کی ہے معراج فاطمہ زہرا جسے بھی گود میں لے لے امام ہوجائیں.

اب جو حدیثیں میں پیش کرنے جا رہا ہوں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان حدیثوں کو خاص فاطمیین کے معنی پر محمول کیا گیا ہے.

۱.حدیث ثقلین وغیرہ کو غور سے پڑھیں اسی طرح کی حدیثوں میں عترت کی لفظ کا اطلاق فاطمیین پر ہوتا ہے اس لئے کہ ان حدیثوں میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے اہل بیت(ع) اور عترت نبی کی تقدیم کا حکم، ان کی اطاعت کا واجب ہونا ان سے تمسک کا واجب ہونا.

یہ بات محتاج وضاحت نہیں ہے کہ اہل بیت(ع) سے مراد خود حضور سرور عالم(ص)، مولائے کائنات علی ابن ابی طالب امیرالمومنین(ع)، صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا(ع) اور حسن اور حسین علیہم السلام ہیں بہت سی حدیثوں میں اس مطلب کا تذکرہ کیا گیا ہے پس ثابت ہوا کہ اہل بیت(ع) میں سے امت کے مرجع اور امام المبین کی ذات میں سے ہوں گے اس لئے کہ اہل بیت(ع) کا لفظ انہیں پر صادق آتا ہے اور انہیں سے منسوب ہے.

۲.ان حدیثوں کو توجہ سے پڑھیں جن میں بتایا گیا کہ بارہ امام اہل بیت(ع) میں سے

....................................

۱.نہج البلاغہ، ج۲، ص۲۷.

۲۱۹

ہوں گے.

۳.ان حدیثوں پر غائرانہ نظر ڈالیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ائمہ ذریت نبی(ص) اور عترت نبی ہی میں سے ہوں گے.

ان حدیثوں کی بناء پر وہ علویین دائرہ امامت سے خارج ہوجاتے ہیں جو ذریت نبی اور امام حسن(ع) و حسین(ع)سے نہیں ہیں.

مذکورہ مضامین کی حدیثیں اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے جس کو طلب ہو اس کو چاہئے کہ مطلوبہ مصادر میں تلاش کرے.(۱)

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ائمہ اہل بیت(ع) کی امامت پر دلالت کرنے والی حدیثیں تو طریق ائمہ سے ہی مروی ہیں اس لئے ان حدیثوں سے ان کی امامت پر احتجاج ممکن نہیں ہے پہلے ائمہ کے طریقوں سے ان اماموں کی امامت ثابت کرو اس کے بعد ان کے قول کو مقام استدلال میں پیش کرو.تو میں عرض کروں گا، کہ ہم ان کے دعوائے امامت کے ذریعہ ان کی امامت کہاں ثابت کر رہے ہیں ہم تو ان روایتوں کے ذریعہ ان کی امامت ثابت کر رہے ہیں جو مروی تو انہیں کے طریق سے ہیں لیکن حدیثیں نبی کی ہیں یعنی ائمہ کے اقوال سے نہیں بلکہ نبی کی حدیثوں سے اپنے امام کی امامت ثابت کر رہے ہیں البتہ یہ حدیثیں انہیں اماموں سے مروی ہیں اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ائمہ ہدی علیہم السلام راویوں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور سچے ہیں حالانکہ عام راویوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اوثق و اصدق کہا جاسکے، اس کے علاوہ ان کے دعوائے امامت کو بھی کمزور نہیں سمجھنا چاہئے اس لئے کہ جمہور اہل بیت(ع) ان کے علم، ورع اور امانت داری کو تسلیم کرچکے ہیں پھر یہ کہ وہ امامت سے وہ منصب مراد لیتے ہیں جس کا تعین خدا کرتا ہے اور ابلاغ نبی کرتے ہیں اس سلسلے میں

..........................................

۱.کمال الدین و تمام النعمہ، باب۲۲،۲۳، ۲۴، ص۲۱۱.۲۸۶. بحارالانوار، ج۲۳،ص۱۰۴.۱۵۴، اور ج۳۶، ص۱۹۲.۳۷۳. نیز ا دو کے علاوہ.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447