فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135272
ڈاؤنلوڈ: 3207


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135272 / ڈاؤنلوڈ: 3207
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کچھ اور باتیں بھی پیش کی جائیں گی جو نفع بخش ہوں گی.بہر حال ہم اس مقام پر ان کی روایتوں کو کافی سمجھتے ہیں اور دوسروں سے بے نیاز ہیں.

جمہور کی اہل بیت(ع) کی شایان شان روایتیں

جمہور اہل سنت کے یہاں بھی مذکورہ بالا مضامین کی روایتیں پائی جاتی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ اہل بیت(ع) ہی امامت کے مستحق اور امت کے امام ہیں.

1.سابقہ سوال کے جواب آخر میں ایک روایت پیش کی گئی تھی کہ ہماری امت کے ہر دور میں ہمارے اہل بیت(ع) سے ایک عادل ہوگا جو اس دین سے مبطلین کی تحریف اور ان کی مداخلت کی اور جاہلوں کے تاویل کی نفی کرے گا، سنو ہمارے ائمہ بارگاہ الہی میں تمہارے وفد ہیں پس سوچو کہ تمہارا وفد کون ہونا چاہئے.(1)

2.حضور کا یہ قول ستارے اہل زمین کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں اور ہمارے اہل بیت(ع) ہماری امت کو اختلاف سے بچاتے ہیں،(2) عرض کیا جاچکا کہ یہ وصف حاصل ہی نہیں ہوسکتا مگر اس کو جو ہر دور میں امت کا مرجع ہو نیز انہیں ہر دور میں اختلاف سے بچا سکے.

3.حضور(ص) کا یہ قول؛ جو چاہتا ہے کہ میری زندگی جئے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے چو انگوروں کا ایک باغ ہے جس کو اس نے اپنے دست قدرت سے لگایا ہے اور وہی جنت خلد ہے، تو اس کو چاہئے کہ وہ علی اور ان کے بعد ان کی ذریت سے تولا کرے، اس لئے کہ یہ ہرگز تمہیں ہدایت کے دروازے سے نہیں نکالیں گے اور گمراہی کے دروازے میں داخل نہیں کریں گے.-- 4. موفق بن احمد نے اپنے اسناد سے امام باقر(ع) سے اور انہوں نے اپنے والد ماجد سے انہوں نے امام حسین(ع) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: میں نے اپنے جد رسول اللہ(ص) سے سنا

.....................................................

1.آٹھویں سوال کے جواب میں منابع کا ذکر تیسری جلد کے ص162 پر ہوچکا ہے.

2. آٹھویں سوال کے جواب میں منابع کا ذکر تیسری جلد کے ص165 پر ہوچکا ہے.

۲۲۱

کہ آپ فرماتے تھے جو میری زندگی جینا چاہتا ہے اور میری موت مرنا چاہتا ہے اور اس جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اور انگوروں کی ایک بیل اپنے دست قدرت سے بوئی ہے جس میں اپنی روح پھونک دی ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ علی(ع) کی ذریت طاہرہ ائمہ ہدی اور تاریکی کے چراغوں سے علی(ع) کے بعد محبت کرے اس لئے کہ یہ لوگ کبھی باب ہدایت سے نہیں نکالیں گے اور باب ضلالت میں داخل نہیں کریں گے جو ہلاکت کے دروزے تک لے جائے.

ابن شہر آشوب کہتے ہیں: مجھے ابوالموید مکی خطیب خوارزم نے چایس آدمیوں کے حوالے سے لکھوایا باسناد حسین بن علی(ع) کہ امام حسین(ع) نے فرمایا: میں نے نبی(ص) کو کہتے سنا کہ حضرت نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ میری زندگی

جئے... مذکورہ بالا حدیث ہے جو متفاوت الفاظ میں بیان کی گئی ہے.(1)

5. جابر کی حدیث بھی دیکھ لیں کہتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا میں تمام نبیوں کا سردار ہوں علی(ع) تمام وصیوں کے سردار ہیں اور ہمارے اوصیاء میرے بعد بارہ ہوں گے جن کا پہلا علی(ع) ہے اور آخری قائم مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)(2)

6.ابن عباس کی حدیث ہے، حضور(ص) نے فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ میری زندگی جئے اور میری موت مرے اور اس جنت عدن میں رہے جسے میرے پروردگار نے بویا ہے اس کو چاہئے کہ میرے بعد علی(ع) سے محبت رکھے، علی(ع) کے چاہنے والے سے محبت کرے، اور میرے بعد(اولاد علی(ع) سے ہونے والے) اماموں کی اقتداء کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں، میری ہی طینت سے بنائے گئے ہیں، انہیں رزق طور کے پر علم و فہم دیا گیا ہے، میری امت میں سے جو لوگ ان کی فضیلت کو جھٹلائیں ان پر وائے ہے. اور ان لوگوں پر وائے ہے جو میری عترت سے مجھے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اللہ میری شفاعت نہ پہونچائے.(3)

...........................................

1.مناقب آل ابی طالب، ج1، ص250. ینابیع المودة، ج1، ص382. المناقب، خوارزمی، ص75.

2.ینابیع المودة، ج3، ص291.

3.حلیتہ الاولیاء، ج1، ص86، علی ابن ابی طالب کی بحث اور اخبار قزوین ج2، ص485 میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا.

۲۲۲

7.ابن عباس ہی سے حدیث ہے کہ حضور(ص) نے فرمایا میرے خلفاء اور اوصیاء میرے بعد دنیا پر اللہ کی حجت ہیں وہ بارہ ہیں جن کا پہلا علی(ع) اور آخری میرا فرزند مہدی( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)

8.ابن عباس سے دوسری حدیث ہے کہتے ہیں میں نے سنا پیغمبر(ص) کہہ رہے تھے میں اور علی، حسن اور حسین اور ادلاد حسین( علیہم السلام) میں سے نو امام مظہر اور معصوم ہیں.(1)(2) 9. چوتھی حدیث بھی ابن عباس ہی سے ہے رسول اللہ(ص) نے فرمایا اے علی(ع) میں علم کا شہر اور تم اس کا دروازہ ہو شہر میں ہرگز نہیں آیا جاتا مگر دوازے کی طرف سے.جھوٹا ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ محمد(ص) (رسول) سے محبت کرتا ہے اور تم سے بغض رکھتا ہو اس لئے کہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو، تمہار گوشت میرا گوشت ہے اور تمہارا خون میرا خون ہے تمہاری روح میری روح ہے اور تمہارا باطن میرا باطن ہے اور تمہار اعلان میرا اعلان ہے تم میری امت کے امام اور اان پر میرے بعد میرے خلیفہ ہو خوش بخت ہے وہ جو تمہاری اطاعت کرے بدبخت ہے وہ جو تمہاری نافرمانی کرے فائدہ میں وہ ہے جو تم سے تولا رکھے اور گھاٹے میں ہے وہ جو تم سے عداوت رکھے. جس نے تم کو لازم جانا کامیاب ہوا جو تم سے جدا ہو جائے ناکام ہوا. تمہاری مثال اور تمہاری اولاد سے جو امام ہیں ان کی مثال میرے بعد یوں ہے جیسے نوح کا سفینہ، جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے الگ ہوا غرق ہوگیا. تم لوگ ستاروں کی طرح ہو کہ جب بھی کوئی ستارہ ڈوبتا ہے دوسرا ستارہ نکل آتا ہے یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا.(3)

10.حضور سرور کائنات(ص) کا یہ قول اے لوگو! فضل، شرافت، منزلت اور ولایت(4) صرف پیغمبر(ص) اور ذریت پیغمبر(ص) کا حق ہے تمہیں بیہودہ لوگ دھوکہ نہ دے دیں.

...............................................

1.ینابیع المودة، ج3، ص295 اور انہیں الفاظ میں اس روایت کو فرائد السمطین ص383 پر نقل کیا گیا ہے.

2.ینابیع المودة، ج2، ص316، اور ج3، ص291.

3.ینابیع المودة، ج1، ص95،390،391.

4.ینابیع المودة، ج2، ص382،465.

۲۲۳

11.سلمان فارسی کی نبی(ص) سے حدیث ہے جس میں آپ(ص) نے علی(ع) سے فرمایا اے علی(ع)! داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنو تو مقربین میں سے ہو جائو گے. علی(ع) نے پوچھا یا رسول اللہ(ص) مقربین کون ہیں فرمایا: جبرئیل اور میکائیل پوچھا یا رسول اللہ(ص) کس چیز کو انگوٹھی پہنوں فرمایا: عقیق احمر کی یہ وہ پہاڑ ہے جس نے وحدانیت پروردگار کا اقرار کیا اور میری نبوت اور تمہاری اور تمہاری اولاد کی ولایت و نیز امامت تمہارے چاہنے والوں کے لئے جنت اور تمہاری اولاد کے شیعوں کے لئے فردوس کا اقرار کیا.(1)

12.سلمان فارسی ہی سے مروی ہے، میں پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت امام حسین(ع) ان کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ حسین(ع کی آنکھوں کا بوسہ لے رہے تھے اور لبوں کو چوس رہے تھے اور فرما رہے تھے تم سردار ہو سردار کے فرزند ہو سردار کے بھائی ہو تم امام ہو امام کے فرزند ہو امام کے بھائی ہو تم حجت خدا ہو حجت خدا کے فرزند ہو حجت خدا کے بھائی ہو اور تم نو حجتوں کے باپ ہو جن کا نواں ان کا قائم ہوگا.(2)

13.آٹھویں سوال کے جواب میں حدیث پیش کی جا چکی ہے کہ علی(ع) اور اس کی ذریت قیامت تک خاتم الاوصیاء ہیں.(3) اس سلسلے میں ذہبی کا کلام اور اس پر ایک نظر بھی کی جا چکی ہے.

14.امیرالمومنین(ع) نے خطبہ میں فرمایا: خبر دار ہو جائو آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں کی جیسی ہے جب بھی ایک تازہ ڈوبتا ہے دوسرا اس کی جگہ نکل آتا ہے.(4)

15. کمیل بن زیاد نخعی سے گفتگو میں آپ نے فرمایا: ہاں! خدا کی قسم زمین ہرگز اللہ کی حجت قائم کرنے سے پہلے خالی نہیں ہوگی تاکہ اللہ کی حجتیں اور بینات باطل نہ ہوں وہ لوگ عدد کے اعتبار

......................................

1.مناقب، خوارزمی، ص346.

2.ینابیع المودة، ج3، ص394.

3.اس کا مدرک آٹھویں سوال کے جواب میں گذر چکا ہے.

4. نہج البلاغہ، ج1، ص194، انہیں لفظوں میں ینابیع المودة، ج1، ص391،95. ج3، ص450 پر لکھا ہے.

۲۲۴

سے تو قلیل ہیں لیکن خدا کے نزدیک عظیم قدر و منزلت کے حامل ہیں انہیں کے ذریعہ اللہ اپںی حجتوں کو قائم کرتا ہے تا کہ وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کو ادا کر دیں اور اپنے جیسے لوگوں میں اس کو بودیں ان کے پاس حقیقت امر کے علم نے ہجوم کر رکھا ہے یہ وہ ابدان ہیں جن کی روحیں ملاء اعلی پر معلق ہیں وہ زمین پر اللہ کےخلفاء اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے لوگ ہیں.(1)

مذکورہ بالا جملے یہ بتا رہے ہیں کہ امام ایک منصب الہی کا نام ہے جس کو خداوند عالم جعل کرتا ہے گو یا کہ یہ جملے مذہب امامیہ کے عقائد کی تشریح کر رہے ہیں ان جملوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام خدا کی طرف سے علوم کا حامل ہوتا ہے پھر سابق اس علم کو لاحق کے حوالے کرتا ہے کہ زمانہ ان کے وجود سے خالی نہیں رہتا.

16. اور کچھ ایسے نصوص انشائ اللہ پیش کئے جائیں گے جن میں سے کچھ نصوص کی تائید جمہور اہل سنت کی کتابوں سے بھی ہوتی ہے.

اور اس کا علم تو خدا ہی کو ہے جمہور اہل سنت کے یہاں کتنے نصوص ضائع ہوگئے یا انہوں نے عمدا ضائع کر دیئے اس لئے تو وہ حدیثیں ان کے عقائد کے خلاف بلکہ ان کے اساسی دعوی کے خلاف ہیں خصوصا اس لئے بھی کہ یہ حضرات اہل بیت(ع) پرہمیشہ ظلم کرتے رہے اور فضائل و مناقب اہل بیت(ع) کی نشر و اشاعت کو سختی سے رد کرتے رہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں عرض کیا جا چکا ہےخصوصا آٹھویں سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں.

...............................................

1.تذکرة الحفاظ، ج1، ص11، احوال امیر المومنین علی ابن ابی طالب انہیں الفاظ میں. حلیتہ الاولیاء نے ج1، ص180 احوال علی بن ابی طالب تہذیب الکمال، ج24، ص221. احوال کمیل بن زیاد بن نھیک میں. نہج البلاغہ،ج4، ص37.38. کنز العمال، ج301، ص263.264، حدیث29390. مناقب خوارزمی، ص366. ینابیع المودة، ج1، ص89. ج3، ص454. تاریخ دمشق، ج14، ص118. احوال حسین بن احمد بن سلمہ میں. ج50، ص254. احوال کمیل بن زیاد بن نھیک میں اور بعض حضرات نے صفوة الصفوة، ج1، ص331. احوال ابوالحسن علی بن ابی طالب میں ان فضائل سے متعلق کچھ جملے ذکر کئے ہیں.

۲۲۵

امیر المومنین علیہ السلام اورحسنین علیہما السلام کی مرویات سے احتجاج کرنا بالکل صحیح ہے

گذشتہ معروضات پر نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام اور حسنین علیہما السلام کے

ارشادات کو ائمہ کے تعین و تشخص کے لئے مقام احتجاج میں پیش کرنا بالکل صحیح ہے(1) اس لئے کہ حضور سرور کائنات نے مولا علی(ع) سے ان کی ذریت کے بارے میں اور ان کی گھر کے اور اہل بیت(ع) کے اماموں کے بارے میں جو کچھ فرمایا ظاہر ہے چونکہ مکالمہ براہ راست اور بلا واسطہ ہوا اس لئے مولائے کائنات منزل یقین میں ہیں. بلکہ ان حدیثوں سے بھی احتجاج کرنا صحیح ہوگا جو ابو محمد الحسن بن علی اور ابو عبداللہ الحسین بن علی علیہما السلام سے وارد ہیں(2) اس لئے کہ یہ حضرات بھی نبی(ص) سے براہ راست روایت کرتے ہیں اور نبی کی طرح منزل یقین میں ہیں اس سلسلے میں عنقریب مزید عرض کیا جائے گا.

اب یہاں پر دو باتیں تشنہ بیان رہ گئی ہیں.

اہل بیت(ع) کے بارہ اماموں کے بارے میں انبیاء سابقین کی پیشین گوئیاں

1.بارہ اماموں کے اہل بیت(ع) میں سے ہونے پر جو دلیلیں حاصل ہیں اور جو دینی اور تاریخی نصوص ملتے ہیں من جملہ ان انبیاء ما سبق کی بشارتیں بھی ہیں جو سابقہ ادیان کے انبیاء کی مبارک زبانوں پرجاری اور ساری رہی ہیں اور ادیان سابقہ کی کتابوں اور صحیفوں میں پائی جاتی ہیں یہ بشارتیں خاتم الانبیاء(ص) کے تتمہ کے طور پر وارد ہوئی ہیں اور ان ادیان کے علماء اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ بعض علمائ نے اس کا اقرار بھی کیا ہے.

.......................................

1.بحار الانوار، ج36، ص373و374 وغیرہ.

2.بحار الانوار، ج36، ص383.385، وغیرہ.

۲۲۶

ہم صرف ایک بشارت کو تبرکا پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں. غیبت نعمانی میں لکھا ہے ابن عقدہ،محمد بن ہمام، عبدالعزیز اور عبد الواحد جو عبد اللہ بن یونس کے بیٹے ہیں عبد الرزاق بن ہمام سے روایت کرتے ہیں وہ معمر بن رشد سے وہ ابان بن ابی عباس سے وہ سلیم بن قیس ہلالی سے کہتے ہیں: جب ہم جنگ صفین میں امیر المومنین(ع) کے ساتھ جا رہے تھے تو ایک نصرانی عالم کی قیام گاہ کے پاس اترے اتنے میں اس قیام گاہ سے ایک بزرگ شخص باہر نکلا جس کا چہرہ خوبصورت اور ناک نقشہ حسین تھا اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی وہ چلتا ہوا امیرالمومنین(ع) کے پاس آیا اور سلام کر کے کہنے لگا میں جناب عیسی بن مریم کے حواریوں میں سے ایک حواری کی اولاد ہوں وہ حواری جناب عیسی کے بارہ حواریوں میں سے سب سے افضل تھے عیسی کے محبوب تر اور سب سے زیادہ سعادت مند تھے جناب عیسی نے انہیں اپنا وصی بنایا تھا اور انہیں کو اپنا علم، کتابیں اور حکمت ودیعت کی تھیں.

آج تک اس حواری کے گھر والے اس کے دین پرباقی رہے اور اس سے متمسک رہے نہ انہوں نے کفر اختیار کیا اور نہ ارتداد کیا. وہ کتابیں بھی میرے پاس محفوظ ہیں جنہیں جناب عیسی بن مریم نے لکھوایا تھا اور میرے باپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا. ان کتابوں میں وہ باتیں ہیں جس کولوگ جناب عیسی کے بعد کرنے والے ہیں. اس میں ہر بادشاہ کا نام ہے اور( اس میں لکھا ہوا ہے) کہ اللہ عرب میں جناب ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد کی اولاد میں سرزمین مکہ سے متعلق تہامہ نامی جگہ پر ایک شخص کو بھیجے گا اور کہا کہ اس کتاب میں بارہ نام ہیں اس کتاب میں حضور کی بعثت کی تاریخ، ولادت کی تاریخ آپ کی ہجرت اور ان لوگوں کے بارے میں جو پیغمبر(ص) سے قتال کریں گے تفصیل سے بیان کیا ہے، ان کے بارے میں بھی وضاحت ہے جو نبی کہ نصرت کریں گے اورجو آپ سے دشمنی کریں گے. حضور کی مدت حیات کے بارے میں بھی ہے اور ان واقعات کے بارے میں بھی لکھا ہے جو ان کی امت کو پیش آنے والے ہیں، یہاں تک کہ جناب عیسی بن مریم آسمان سے اتریں گے اس کتاب میں تیرہ نام دیئے گئے ہیں جو جناب ابراہیم خلیل اللہ کے فرزند جناب اسماعیل کے نسل

۲۲۷

سے ہوں گے، وہ لوگ خدا کی مخلوقات میں سب سے بہتر،خدا کے محبوب تر ہوں گے، اللہ ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوگا جو ان کی معصیت اللہ کی معصیت ہوگی ان کے نام ان کے نسب ان کی صفات ان میں سے ہر ایک کتنے دن زندہ رہے گا، ایک کے بعد سب کچھ لکھا ہوا ہے اسی میں یہ بھی لکھا کہ ان میں سے کتنے آدمی پردہ غیب میں ہوں گے اور اپنے دین کو اپنی قوم سے چھپائیں گے. اور کون ظہور کرے گا اور کون لوگ اس کی قیادت میں رہیں گے یہاں تک کہ جناب عیسی بن مریم آسمان سے اتریں گے اور اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے پھر اس امام سےکہیں گے آپ لوگ امام ہیں کسی کو بھی آپ سے آگے بڑھنے کا حق حاصل نہیں ہے اور جناب عیسی اس امام کوآگے بڑھائیں گے اور اس کے پیچھے نماز پڑھیں گےوہ جناب عیسی اور تمام لوگوں کی امامت کرے گا.

ان میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر اور افضل رسول اللہ(ص) ہیں ان کا نام محمد(ص) ہے ان کو ان کے تمام اوصیاء ( اور تمام امت) اور ان اوصیاء کی اطاعت کرنے والوں اور ان سے ہدایت پانے والوں کے برابر اجر ملے گا،ان (محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اور بھی نام ہیں: عبداللہ، یس، فتاح، خاتم، حاشر، عاقب، ماحی، قائد، نبی اللہ، صفی اللہ، جنب اللہ. جب بھی وہ ذکر کریں گے ان کا ذکر ہوگا وہ خدا کے نردیک اکرم المخلوقات اور محبوب ترین ہیں اللہ نے کوئی بھی ملک مکرم اور نبی مرسل نسل آدم سے نہیں پیدا کیا جو ان کے برابر ہو، خدا کے نزدیک سب سے بہتر ہیں اور ان سے زیادہ خدا کا کوئی محبوب نہیں ہے، قیامت کے دن وہ عرشالیہ پر بیٹھیں گےاور جس کی شفاعت کریں گے وہ بخش دیا جائےگا ان کے نام کے بارے میں قلم نے لوح محفوظ پر صداقت سے لکھ دیا: محمد رسول اللہ(ص).

ان کے بھائی وصی و وزیر ان کی امت میں ان کے خلیفہ اور ان( محمد(ص)) کے بعد خدا کے محبوب تر روز محشر لواء کےحامل، ماں اور باپ کی طرف سے ان کےچچا کے بیٹے علی بن ابی طالب(ع) نبی(ص) کے بعد ہر مومن کے ولی ووصی ہیں پھر محمد(ص) اور علی(ع) کےفرزند میں گیارہ مرد ہوں گے

۲۲۸

ان میں پہلے نمبر پر دو کے نام ہارون کے بیٹے شبرو شبیر کے نام پر ہوں گے اور چھوٹے بیٹے کی نسل سے نو افراد ہوں گے ایک بعد بعد ایک ان کا آخر وہ ہوگا جس کے پیچھے عیسی نماز پڑھیں گے.(1) اس روایت کے علاوہ دوسری روایتیں بھی ہیں جو مذکورہ حقیقت کو بیان کرتی ہیں(2) جہاں جہاں موقع ملےگا ہم ان کی طرف اشارہ کرتے جائیں گے انشائ اللہ.

اس سلسلہ میں کچھ شہادتیں موجودہ کتاب توریت سے بھی

شیخ حسن طبرسی اپنی کتاب اعلام الوری میں جہاں نبی(ص) آخر کے بارے میں انبیاء کی بشارتوں کو بیان کیا ہے وہیں لکھتے ہیں: نبی کریم(ص) کے بارے میں انبیاء کی بشارتوں کے سلسلے میں مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس پر اعتماد کرتا ہوں اس نے کہا کہ توریت میں لکھا ہے: جب اسماعیل کی اولاد میں نبی آخر الزمان ظاہر ہوں گے تو ان ی صفت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے « لا شموعیل شهشخواهنی بیراختما او ثوهربیث اتوهربتی واتو بما دمادشینم آسور نسیئم و اناتیتو الکوی» کا دل یعنی اسماعیل کی نماز قبول کی اور میں نے اس میں برکت دی اور میں نے اس کو نمو عنایت کیا اس کو کثرت اولاد عنایت کی اس کے بیٹے کے ذریعہ جس کا نام محمد ہوگا اور اس کے نام کے عدد (92) ہوں گے، اس کی نسل سے ہم ایسے بارہ اماموں کو پیدا کریں گے جو بادشاہوں گے اور ہم اس کو کثیر تعداد میں قوم عنایت کریں گے. (3) اربلی کہتے ہیں: مجھ سے بعض یہود نے توریت کے بارے میں حکایت کی ہے اور میں نے خود عربی توریت میں دیکھا ہے اور راویوں نے بھی اس کو نقل کیا ہے: کہ اسماعیل کی نماز میں نے قبول کی اور اس کو برکت دی اس کی اولاد کو بڑھایا ان کی تعداد کو کثیر کیا، بمادماد( یعنی محمد) سے جس کے نام کے عدد حروف تہجی کے اعتبار سے بانوے(92) ہوں گے اس کے نسل سے بارہ امام بادشاہ پیدا کروں گا

......................................

1. نعمانی کی کتاب الغنیہ، ص 74.75. انہیں سے صاحب بحارالانوار نے، ج 36 ، ص 210.112. پر انہیں الفاظ میں لکھا ہے.

2. کافی، ج1، ص515.517، بحارالانوار، ج15، ص236.239،241.247. اور ج36، ص212.213، 214.225.

3.اعلام الوری با اعلام الہدی، ج1، ص59.

۲۲۹

اور اس کو کثیر تعداد پر مشتمل قوم عنایت کروں گا اس مذکورہ مطلب کی ابتدا عبرانی زبان میں یوں ہوتی ہے«لاشموعیل شمعیشوخو» (1)

مجھ سے کچھ نو مسلم مسیحی نے بتایا کہ ان کے پاس عہد قدیم کا ایک محفوظ نسخہ ہے جس کا تعلق آٹھویں صدی عیسوی سے ہے اس میں تمام باتیں موجود ہیں جس کا تذکرہ علامہ طبرسی نے کیا ہے لیکن ابھی وہ نسخہ میری نظرسے نہیں گذراہے.

ایک دوسرے مسیحی نے بھی مجھ سے ایسی ہی بات کہی ہے بلکہ نبی اور اہل بیت(ع) کے بارے میں اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات کہی لیکن چونکہ وہ باتیں ضبط تحریر میں نہیں ہیں اس لئے ان کا بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.بہر حال اس دور میں عہد قدیم کے جونسخے ہیں ان میں بھی اس مضمون کی قریب المعنی عبارتیں ہیں البتہ نبی(ص) کے نام کو مصلحتوں کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے. سفر تکوین کے سترہویں اصحاب میں لکھا ہے : لیکن اسماعیل نے تیری بات اس بارے میں سنی اور میں اس وجہ سے اسے برکت دوں اورمیں اس کی نسل میں بے پناہ اضافہ کروں گا اس کی نسل میں 12. رئیس پیدا ہوں گے اور اس کومیں عظیم امت بنائوں گا.اسی سے قریب المعنی وہ عبارت ہے جسے علامہ مجلسی نے عبرانی توریت کے حوالے سے حکایت کی ہے( جیسا کہ ان سے اہل کتاب کی ایک قابل اعتبار جماعت نے بیان کیا تھا(2) ابن کثیر کا ایک بیان بھی ابھی ذکر کیا جائے گا جسے انہوں نے اہل کتاب کے درمیان موجود توریت ہے.(3) اور یہ دونوں طبرسی اور اربلی سے متاخر ہیں.میرا خیال ہے کہ کتاب مذکور سے نبی(ص) کا نام حذف کرنے کی حرکت بہت بعد میں ہوئی ہے

...............................................

1.کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ، ج1، ص22.

2.بحارالانوار، ج36، ص214.

3.تاریخ ابن کثیر، ج6، ص25. ان روایتوں میں جو بارہ امام سے متعلق ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ سب قریش سے ہوں گے.

۲۳۰

اور اہل کتاب سے یہ بعید بھی نہیں ہے. قرآن مجید نے اس معاملے میں پہلے ہی پیشن گوئی کر دی تھی اور یہ لوگ چونکہ اس خدا کی طرف سے نازل کردہ ہدایت و بیانات کو چھپایا کرتے تھے، کلمات کو ان کی جگہوں سے تحریف کردیا کرتے تھے خدا پر ایسا افتراء اور الزام لگاتے تھے جس کا کتاب سے کوئی لگائو نہیں، اس دور میں بھی اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں جسے یہود کوخون مسیح سے بری کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ بات ان کے سابقہ تعلیمات کے خلاف ہے.اہل کتاب نے ہر دور میں اپنی کتاب میں اپنے مزاج کے مطابق تحریف کی ان باتوں کو معلوم کرنے کے لئے ان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا جب ہی معلوم ہو سکے گا کہ ان کی ان تحریفات کے اسباب کیا ہیں.جیسا کہ انہوں نے نبی کے بارہ پیشوائوں کے بارے میں حکایت کی ہے کہ ان بارہ اماموں میں مولائے کائنات جو پہلے امام ہیں ظاہر ہے کہ اولاد نبی نہیں ہیں یا تو انہوں نے اکثریت پرمحمول کر کے امیرالمومنین(ع) کوبھی نبی کی اولاد میں شامل کر دیا ہے یا عترت کی غلط تفسیر کی ہے اور عترت کے معنی اولاد لئے ہیں چونکہ ان کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ نبی کی عترت میں بارہ امام ہوں گے تو اس کو عربی میں منتقل کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا کہ عترت سے مراد ان کی اولاد ہے اس طرح کی غلطیان ترجمے میں ہوتی رہتی ہیں.

ابن کثیر کہتے ہیں

اس موضوع کے سلسلے میں ابن کثیر فرماتے ہیں: اس وقت جو توریت اہل کتاب کے پاس ہے اس میں اس معنی کی عبارت ہے: خدا نے ابراہیم کو اسماعیل کی بشارت دی اور یہ کہا( اولاد اسماعیل کو) بڑھائے گا اور کثیر کرے گا اور ان کی ذریت میں بارہ(12) عظیم اشخاص پیدا ہوں گے. اس کے بعد ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ہمارے استاد ابن تیمیہ کہتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی بشارت جابر بن سمرہ کی حدیث میں دی گئی ہے اور یہ بات طے ہے کہ یہ حضرات زمانے کے اعتبار سے الگ الگ قوموں میں

۲۳۱

ہوں گے اور جب تک یہ لوگ موجود نہ ہوجائیں قیامت نہیں آئے گی یہودیوں میں جو لوگ نئے مسلمان ہوئے ان میں سے اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ان کا خیال ہے کہ یہ بارہ(12)، وہی حضرات ہیں جن کا دعوی رافضی فرقہ کرتا ہے اور ان کی پیروی کرتا ہے.(1)

ابن کثیر کے کلام پر مجھے کچھ کہنا ہے

میں ابن کثیر سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے شیخ ابن تیمیہ جو بھی فرمائیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں کچھ علامتیں اور دلیلیں پڑھی ہیں جن کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں اور اپنی کتابوں کی دلیلوں اور عبارتوں سے وہ آپ اور آپ کے استاد کے استاد سے زیادہ واقف ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ تعصب اور غلطی سے پاک اور موضوعیت مسئلہ سے زیادہ قریب ہیں. دوسری بات جو آپ نے ابن تیمیہ کے حوالے سے فرمائی ہے اس سے ایک بات بہر حال ثابت ہو جاتی ہے کہ بارہ چاہے الگ الگ امتوں میں زمانے کے اعتبار سے ظاہر ہوں لیکن امامت کا انحصار انہیں بارہ مقدس افراد میں ہے بلکہ حدیثیں تو اس حقیقت پر صریحی دلالت کرتی ہیں. لہذا آپ حدیثوں کا مطالعہ فرمائیں.

امامت صرف عہد الہی ہے

2.دوسری بات یہ ہے کہ ان عبارتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان نصوص کی بنیاد پر اور دوسرے بہت سے نصوص کو دیکھتے ہوئے امامت ایک ایسا امر ہے جو معہود من اللہ ہے اور لوگوں کو امام بنانے سے کوئی امام نہیں بنتا بلکہ نبی اور امام کے ذریعہ بھی کوئی امام نہیں بن سکتا. نبی اور امام کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اس عہد الہی کو لوگوں تک پہونچا دیں اور بس.

.............................

1.تاریخ ابن کثیر، ج6، ص249.250.

۲۳۲

شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنیاد بھی یہی ہے اور ان کی دعوت کا ہدف بھی یہی ہے. فرقہ شیعہ اپنی دعوت اسی بنیاد پر پیش کرتا آیا ہے اور ہمیشہ اسی عقیدے پر استدلال پیش کرتا رہا ہے. چودہ سو سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ اب شیعہ کے ساتھ اثناعشری کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ تمام اسلامی فرقہ میں ممتاز ہوتے ہیں.

انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اہل سنت کو ان کثرت سے پائے جانے والے نصوص پر غور کرنا چاہئے جو ان کی کتابوں میں ہیں اور ائمہ اثنا عشر کے تذکرے پر مشتمل ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر حدیثوں میں صراحت نہیں کی گئی ہے لیکن برادران اہل سنت کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ حدیثیں بہر حال ایسے افراد پر منطبق نہیں ہوتیں جنہوں نے قہر و غلبہ کے ذریعہ حکومت حاصل کی لیکن( افسوس تو اس بات کا ہے کہ) برادران اہل سنت انہیں لوگوں کی امامت کے قائل ہیں. ظاہر ہے کہ ائمہ اثنا عشر کا حدیثوں میں تذکرہ ہے وہ ان لوگوں سے الگ ہیں جنہوں نے قہر نہیں کی، نہ زبردستی لوگوں سے بیعت لی. اور پھر بھی وہ امام ہیں پس ماننا پڑے گا کہ ان کی امامت اللہ کی طرف سے معین ہوتی ہے. اکثر حدیثوں میں جہاں اثنا عشری اماموں کا تذکرہ ہوا ہے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی عدد نقباء بنی اسرائیل کے برابر ہوگی ان کے چھوڑنے والوں کا خذلان اور عداوت کرنے والوں کی عداوت انہیں کوئی نقصان نہیں پہونچائے گی. میں نے اس طرح کی حدیثوں کے بعد اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کیا ہے.

اسی طرح کچھ حدیثیں اہل سنت کے طریقوں سے امیرالمومنین(ع) کے حق میں بھی وارد ہوئی ہیں مثلا یہ کہ وہ سید امیرالمومنین امام المتقین ہیں وہ مومنین کے امیر، ان کے ولی اور ان کے اولی

۲۳۳

ہیں(1) ان کے علاوہ اور بہت سارے صفات بیان ہوئے ہیں جن سے آپ کی امامت ثابت ہوتی ہے ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں بہت پہلے کی ہیں یعنی آپ کی بیعت تو سنہ30ھ کے بعد سرکار دو عالم(ص) کی وفات کے برسوں بعد ہوئی جب یہ حدیثیں جو اہل سنت کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں وہ سرکار دو عالم(ص) سے مروی ہیں جو آپ کی بعثت سے بہت پہلے کا زمانہ ہے ان حدیثوں سے بھی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے. آپ کی امامت عہد الہی ہے اور لوگوں کے بیعت کی محتاج نہیں ہے.

یہی بات امامت کی رفعت و شان کے مناسب بھی ہے. اس لئے کہ امامت ایک منصب ہے جس کا لگائو امت کی ذمہ داریوں میں سے ہے دین اسلام کی عظیم ذمہ داریوں کا کام ہوچکا. اسلام خدا کا دین ہے اور اس کے ذمہ دار افراد کے انتخاب کی ذمہ داری بھی خدا کی ذمہ داری ہے. ہماری خدا سے یہی دعا ہے کہ ہماری صحیح راستہ کی طرف ہدایت کرے اور ہمیں حق اور ہدایت پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں ہر گمراہی اور کجی سے محفوظ رکھے.

حدیثوں کی روشنی میں امام کو پہچانئے

حدیثوں کی چوتھی قسم: یہ وہ حدیثیں ہیں جو ایک ایک کر کے اماموں کا تعارف کراتی ہیں ان کے نام ان کے صفات اور ان کی ذمہ داریوں کو بتاتی ہیں. البتہ ایسی حدیثیں بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے کچھ پیش کی جاتی ہیں:

1.امام ابو جعفر محمد باقر(ع) سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک کتاب تھی جس کو آپ نے اپنے اہل بیت(ع) کخ سامنے پڑھی وہ کتاب سرکار دو عالم(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے لکھوائی یعنی

.....................................

1.ان کے بعض مصادر اور حوالے چوتھے سوال کے جواب میں،ج،ص ذکر کئے جا چکے ہیں اسی طرح انہیں بعض مصدر و منبع سابق سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں بیان کئے جا چکے ہیں.

۲۳۴

تحریر امیرالمومنین(ع) کی تھی اور کلمات پیغمبر(ص) کے تھے اس میں ائمہ اثناء عشر کے اسماء گرامی، ان حضرات کی مختصر حیات اور ان کی ذمہ داریوں کا تذکرہ ہے.(1)

2.اسحق بن عمار امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہمارے پاس ایک صحیفہ ہے جو رسول اللہ نے امیرالمومنین(ع) کے لئے لکھوایا تھا. پھر اس کتاب کا تذکرہ کیا جس کا ہم نے ابھی گذشتہ حدیث میں ذکر کیا ہے.(2)

3.حدیث لوح، جابر بن عبداللہ انصاری نے ایک تختی دیکھی تھی جو معصومہ عالم(ع) کے پاس تھی اس تختی میں ائمہ اثناء عشر کے اسماء گرامی تھے اور اس میں وہ تمام چیزیں مذکورہ تھیں جو سابق کتاب میں لکھی گئی ہیں.

یہ روایت متعدد طریقوں سے بکر بن صالح سے انہوں عبدالرحمن بن سالم سے انہوں نے ابو عبداللہ امام جعفر صادق(ع) سے بھی مروی ہے.(3)

4.ایک دوسری حدیث لوح، اس حدیث میں صرف ائمہ علیہم السلام کے اسماء طاہرہ دیئے گئے ہیں اور ان کے والدین کے نام ہیں لیکن اس میں مذکورہ کتاب کا کوئی تذکرہ نہیں ہے روایت ہے کہ اس تختی کے بارے میں امام محمد باقر(ع) نے جابر سے پوچھا تھا تو جابر نے ان سے بیان کیا.(4)

5. ایک اور حدیث لوح لیکن بطریق اختصار. محمد باقر(ع) نے فرمایا: مجھ سے جابر کہتے ہیں: میں معصومہ عالم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے دست مبارک میں ایک سنہری تختی تھی جس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں اس میں بارہ نام تھے اس کے اوپری حصہ پر

................................

1.بحار الانوار، ج36، ص201. کمال الدین و تمام النعمہ، ص312.313.

2.بحارالانوار،ج36، ص200.

3.کافی، ج1، ص527.528. بحارالانوار، ج36، ص195.198.

4.بحارالانوار، ج36،ص195. کمال الدین و تمام النعمہ، ص306.307.

۲۳۵

تین نام تھے اس کے وسط میں تین نام تھے اس کے آخر میں تین نام تھے اور کنارے پر تین نام تھے میں نے شمار کیا تو وہ بارہ تھے. میں نے صدیقہ سے پوچھا یہ کن لوگوں کے نام ہیں؟ معصومہ نے فرمایا:یہ اوصیاء کے نام ہیں ان میں سب سے پہلے میرے چچا زاد بھائی علی ہیں اور میری اولاد سے گیارہ اوصیاء ہیں ان کا آخر قائم آل محمد(عج) ہے. جابر کہتے ہیں : میں نے دیکھا اس میں تین جگہ محمد محمد محمد اور چار جگہ علی، علی علی، علی لکھا تھا.(1)

اس حدیث کے بارے میں دو سلسلہ سند ہیں جس میں جابر بن یزید نے محمد باقر(ع) سے یہ حدیث نقل کی. اور

چار سندیں ایسی ہیں جس میں حسن بن محبوب نے ابوالجارود سے انہوں نے امام محمد باقر(ع) سے اس حدیث کو نقل کیا.(2)

6.اسی طرح ایک اور حدیث ہے. لوح، جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس تختی کی جو عبارت موجود تھی اس عبارت کا تقابل انہوں نے اس تختی سے کیا جو امام محمد باقر(ع) کے پاس تھی دونوں تختیوں کی عبارتیں ایک تھیں اور دونوں میں ائمہ اثناء عشر کے اسمائ مبارکہ تھے اور ان حضرات سے متعلقہ امور کا مختصر بیان بھی تھا اور یہ مطالب ایک ایسی روایت میں ہیں جس کا سلسلہ سند امام جعفر صادق(ع) سے ملتا ہے.(3)

7.جابر جعفی کی حدیث یہ کہتے ہیں میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا کہ اللہ نے اپنے نبی پر یہ آیت نارل فرمائی” اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اللہ کے رسول کی اور صاحبان امر کی جو تم میں سے ہیں” تو میں نے عرض کیا اے خدا کے نبی آپ نے اللہ اور اس کے رسول کے متعلق ہمیں معرفت بخشی اب آپ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بتائیے جن کی اطاعت کو اللہ نے آپ کی اطاعت کے برابر بتایا ہے؟

.............................................

1. بحارالانوار، ج36، ص201، انہیں الفاظ میں کمال الیدن و تمام النعمہ، ص311، اعلام الوری یا اعلام الہدی، ج2، ص178 پر موجود ہے.

2.بحار الانوار، ج36، ص202.203. امالی صدوق، ص291.292.

3.بحار الانوار، ج36، ص202.203.امالی صدوق، ص291.292.

۲۳۶

سرکار دو عالم(ص) نے فرمایا: اے جابر یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بعد میرے خلیفہ اور مسلمانوں کے امام ہوں گے ان میں سب سے پہلے علی بن ابی طالب(ع) پھر حسن(ع) پھر حسین(ع)، پھر علی بن الحسین (ع)، پھر محمد بن علی(ع)، جو توریت میں باقر کے نام سے مشہور ہیں.( اے جابر تم عنقریب ان سے ملاقات کرو گے اور جب ان سے ملنا تو انہیں میرا سلام کہہ دینا.)

پھر صادق بن جعفر(ع)، پھر موسی بن جعفر(ع)، پھر علی بن موسی(ع)، پھر محمد بن علی(ع)، پھر علی بن محمد(ع)، پھر حسن بن علی(ع)، پھر میرا ہم نام محمد(ع) اور میری کنیت کا حامل( ابوالقاسم(ع)) خدا کی زمین میں

اسکی حجت اور اس کے بندوں میں بقیتہ اللہ بن حسن بن علی علیہم السلام ہوگا یہ وہی ہے جس کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب کی فتح عنایت فرمائے گا یہ وہی ہے جو اپنے شیعوں اور اپنے چاہنے والوں کی نظر سے پوشیدہ ہو جائے گا. اور اس کی امامت کا قائل نہیں ہوگا مگر وہ جس کے دل کا اللہ نے امتحان لے لیا ہے.(1)

8.علی بن عاصم امام جواد(ع) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے اپنے آباء طاہرین سے اور انہوں نے امام حسین(ع) سے امام حسین(ع) کہتے ہیں : میں اپنے جد پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے نزدیک ابی بن کعب بیٹھے ہوئے تھے... اس حدیث میں نبی ابی بن کعب سے امام حسین(ع) کی عظمت اور آپ کی نو طیب و طاہر فرزندوں اور ان کے اسمائ گرامی کی خبر دیتے ہیں ہر ایک کی دعا کا تذکرہ کرتے ہیں. اور آخر میں ابی بن کعب سوال کرتے ہیں: یا رسول اللہ(ص) ، اللہ ان اماموں کے حالات کس طرح بیان کرتا ہے؟ فرمایا خدا نے مجھ پر بارہ صحیفے ناز کئے ہر صحیفے کے خاتمہ پر اس امام کا نام ہے جس امام کے بارے میں وہ صحیفہ ہے اور اس صحیفے میں اس امام کی صفتیں لکھی ہیں.(2)

...................................................

1.اعلام الوری با ا علام الہدی، ج2، ص181.182. انہیں الفاظ میں اس روایت کو ان کتابوں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں: کمال الدین و تمام النعمہ، ص253، بحارالانوار، ج36، ص249.250.

2.بحارالانوار، ج36، ص204.209، انہیں الفاظ میں اس روایت کو دیکھ سکتے ہیں عیون اخبار الرضا(ع)، ج2، ص62.65. کمال الدین و تمام النعمہ، ص264.269.

۲۳۷

9. حدیث مفضل بن عمر امام صادق(ع) سے انہوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے انہوں نے امیرالمومنیں(ع) سے، امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا جب مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا تو مجھ پر میرے رب نے وحی کی پھر آپ نے فضائل اہل بیت(ع) اور ان کی ولایت کے ضروری ہونے کے اعتبار سے طولانی حدیث بیان فرمائی جس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ: خدا نے فرمایا اے نبی سر اٹھائو میں نے جب اپنا سر اٹھایا تو علی(ع) فاطمہ(ع)حسن(ع) حسین(ع) علی ابن الحسین(ع) محمد بن علی(ع) جعفر بن محمد(ع) موسی بن جعفر(ع) علی ابن موسی(ع) محمد بن علی(ع) علی ابن محمد(ع) حسن ابن علی(ع) کے انوار مقدسہ کے ساتھ خود کو پایا ان سب کے درمیان میں محمد ابن الحسن(ع) القائم المہدی(عج) کے نور کو دیکھا جو چمکتے ہوئے ستارے کے مانند تھا. میں نے پوچھا پالنے والے یہ کون لوگ ہیں؟ جواب ملا یہ ائمہ ہدی ہیں اور یہ قائم آل محمد(ص) ہے.(1)

10.اسی طرح کی حدیث ابو سلمی سے ہے کہ جو سرکار دو عالم(ص) کے اونٹ چراتے تھے کہتے ہیں کہ مجھ سے حضور(ص) نے فرمایا: جب مجھے شب معراج آسمانوں پر لے جایا گیا تو خدائے عزیز نے مجھ سے فرمایا.... پھر آپ نے ائمہ اثنائ عشری کے فضائل میں ایک طویل گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آپ نے ائمہ اثناعشری کی وہاں پر تصویریں دیکھیں اور انہیں ان کے نام سے پکارا. اس حدیث میں ہے کہ اے محمد(ص)! یہ حجتیں ہیں اور یہ تمہاری عترت کے منتقم ہیں( انتقام لینے والے).(2)

انہیں ابوسلمی سے دوسری حدیث بھی ہے جو شاید اس حدیث سے کچھ مختصر ہے.

محدثین کہتے ہیں کہ اس کو خوارزمی نے ابوسلمی کی طرف منسوب کیا ہے. اور علی بن ذکریا

......................................

1.کمال الدین و تمام النعمہ، ص252.253، انہیں الفاظ میں آپ اس روایت کو ان کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں. بحارالانوار، ج36، ص245. کفایہ الاثر، ص152.153.

2.بحار الانوار، ج36، ص216.217. اور انہیں لفظوں کے ساتھ ص261.262، پر بھی ہے. مائتہ منقبتہ،ص37.39. مقتضب الاثر، ص11، الغنیہ شیخ طوسی کی ص247.248. الطرائف ص173.

۲۳۸

بصری، محمد بن بدر، محمد بن جعفر قرمیسی، اور ابن عیاش بن کشمرد نے اس حدیث کی سند کو ابوسلمہ تک پہونچایا ہے.(1)

11.جابر جعفی سے حدیث ہے. کہتے ہیں : میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب سے سنا کہ امام محمد بن

علی(ع) ( یعنی امام باقر(ع)) مکہ میں فرمارہے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا کہہ رہے تھے پیغمبر(ص) نے فرمایا: جب مجھے شب معراج آسمانوں پر لے جایا گیا... تو اس حدیث میں بھی اہل بیت اطہار(ع) کے بہت فضائل ہیں اور حدیث بہت بڑی ہے اس کے آخر میں یہ بیان ہے کہ حضور(ص) نے ان بارہ اماموں کی تصویریں وہاں دیکھیں اور ایک ایک کر کے ان کے اسماء مبارکہ کو ملاحظہ فرمایا پھر سالم نے حدیث مذکورہ کی کعب احبار کے سلسلہ سند میں سے ایک بیان سے تائید کی اور ہشام بن عبداللہ دستوانی( جو اس حدیث کے سلسلہ سند میں سے ایک ہیں) ان کی تائید ایک یہودی کے کلام سے بھی ہوتی ہے جو اپنے اسلام کو حدیث کی وجہ سے چھپاتا ہے.(1)

12. حدیث ثمالی میں ہے کہ ثمالی نے امام جعفر صادق(ع) سے اور آپ نے اپنےآباء کرام سے انہوں نے نبی سے انہوں نے جبرئیل سے انہوں نے اللہ سے. اس حدیث میں مولائے کائنات کے فضائل ہیں اور انہیں کی نسل کے گیارہ اماموں کی رفعت و شان کے بارے میں ایک تفصیلی گفتگو ہے اور ان کی امامت کے اقرار کو لازم قرار دیا گیا ہے. اسی حدیث میں ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے سرکار دو عالم(ص) سے ائمہ اثنا عشر کے بارے میں پوچھا تو سرکار دو عالم(ص) نے ان ائمہ اثنا عشر کے اسماء گرامی اور ان کے القاب بتائے.

پھر فرمایا: یہی لوگ ہمارے خلفاء ہماری اولاد اور ہماری عترت ہیں جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی، اس نے میری نا فرمانی کی

.................................................

1. اثبات الہداۃ بالخصوص والمعجزات، ج3، ص222.

2..بحارالانوار، ج36، ص222.224، اور انہیں لفظوں میں صاحب مقتب الاثر نے ص26پر لکھا ہے.

۲۳۹

جس نے ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا اس نے میرا انکار کیا. اللہ نے انہیں کی وجہ سے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے روک دیا ہے مگر یہ کہ خدا اس کی اجازت دے، انہیں کے ذریعہ اللہ زمین کی حفاظت کرتا ہے تاکہ زمین اپنے اہل کو برباد نہ کردے.(1)

13.امام حسن عسکری(ع) سے روایت ہے جس میں آپ اپنے آباء طاہرین(ع) کے حوالے سے کہتے ہیں: کہ رسول(ص) نے فرمایا جو چاہتا ہے خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ امن کی حالت میں ہو اور پاک و پاکیزہ اور یہ کہ اس کو یوم آخر قیامت کی پریشانیاں غم زدہ نہ کریں، اے علی(ع) ! اس کو چاہئے کہ وہ تم سے اور تمہارے دونوں فرزند امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے محبت کرے اور ان کی اولاد میں ہونے والے امام سے تولا کرے. اور اسی کے ساتھ آپ نے ائمہ اثنا عشری کے اسمائ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا ان کے شیعوں کے فضائل کو بیان کیا ہے.(1)

14.جناب سلیم بن قیس کی حدیثہے جس میں قیس نے امیرالمومنین(ع) اورانہوں نے پیغمبر(ص) سخ نقل کیا. یہ حدیث بہت طولانی ہے پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو مخاطب کرکے فرمایا: اے علی(ع) مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم بھول جائو گے یا جاہل رہ جائو گے لیکن ان لوگوں کے بارے میں لکھ لو جو میرے بعد تمہارے شریک ہونے والے ہیں. پوچھا یا رسول اللہ ہمارے شرکاء کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہیلوگ ہیں جن کا اللہ نے قرآن کیاس آیت میں تدکرہ کیا ہے: کہا اے ایمان لانے والو اطاعت کرو اللہ کی اور رسول اورصاحبان امر کی جو تم میں سے ہیں. مولائے کائنات نے کہا یا رسول اللہ آخر وہ کون لوگ ہیں فرمایا اے علی(ع) وہ ہمارے اوصیاء ہیں ( جو ہمارے بعد ہمارے جانشین ہیں) میں نے کہا : یا رسول اللہ(ص) ان کے نام بتائیں فرمایا: اےعلی(ع) پہلے تم ہو پھر اپنا دست مبارک

...........................................

1. کمال الدین و تمام النعمہ، ص258.259 اور انہیں الفاظ میں کتابوں میں دیکھیں : بحارالانوار، ج36، ص251.253. کفایة الاثر، ص144.145. احتجاج، ج1، ص87.88.

2.بحارالانوار، ج36، ص258. انہیں لفظوں کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. مناقب آل ابی طالب،ج1، ص252. شیخ طوسی کی کتاب الغنیہ، ص122.

۲۴۰