فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135079
ڈاؤنلوڈ: 3204


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135079 / ڈاؤنلوڈ: 3204
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حدیث آئی ہے جس میں بیان کرتے ہیں! جب امام حسن(ع) نے معادیہ ابن ابی سفیان سے صلح کر لی تو لوگ ان کے پاس آئے اور آپ کے فیصلے پر اعتراض کیا. تو آپ نے فرمایا تم پر وائے ہو، تمہیں کیا معلوم کہ میں کیا جانتا ہوں! بخدا میں نے جو کچھ اپنے شیعوں کے حق میں کیا ہے وہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جس پرسورج چمکتا اور غروب ہوتا ہے. کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہارا واجب الاطاعت امام ہوں اور جوانان جنت کے سردارھ میں سے ہوں لوگوں نے کہا : ہاں آپ نے صحیح ارشاد فرمایا....(1)

اس کے علاوہ بھی دو باتیں قابل غور ہیں:

1. امام حسن(ع) نے امیرالمومنین(ع) کے بعد جو قیام کیا ظاہر ہے کہ یہ قیام بغیر نص کے ہو ہی نہیں سکتا. طائفہ ثالثہ میں اس طرح کی حدیثیں گزر چکی ہیں. اس کے علاوہ اس دور کے شیعوںکا آپ کی امامت پر اجماع ہے اور اس اجماع کی بنیاد بھی پیغمبر(ص) اور مولائے کائنات(ع) کی وارد شدہ نصوص پر ہے. آپ کی امامت اور آپ کے قیام بالحق کا اعتراف تو بعض جمہور اہل سنت نے بھی کیا ہے، ابن کثیر ائمہ اثنا عشر کے نام اور ان کا تعارف پیش کرتے ہیں اس لئے کہ امام بارہ ہوں گے یہ حدیث تو ان کے وہاں بھی مشہور اور معروف ہے. بہر حال ابن کثیر ب اماموں کو معین کرتے ہیں تو لکھتے ہیں: بارہ امام یوں ہیں پہلے تو چار خلیفہ ابوبکر عمر عثمان اور علی(ع) ان حضرات کی خلافت تحقیق شدہ ہے، پھر اس کے بعد امام حسن بن علی(ع) جیسا کہ ان کی خلافت واقع ہوئی اور ان کی خلافت کی تصریح مولائے کائنات علی(ع) نے کی تھی اور اپنا وصی قرار دیا تھا اور اہل عراق نے امام حسن(ع) سے بیعت کی تھی....(2)خود امام حسن(ع) کا وہ خطبہ جو آپ نے اپنے والد ماجد امیرالمومنین(ع) کی شہادت کے

..............................

1.اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات، ج5، ص128. کمال الدین و تمام النعمہ، ص316، کفایہ الاثر، ص225. الاحتجاج، ج2، ص9. بحار الانوار، ج44، ص19. ج15، ص132.

2.البدایہ والنہایہ، ج6،ص249. وہ روایتیں جو کہتی ہیں کہ امام بارہ ہوں گے اور سب کے سب قریش سے ہوں گے.

۲۸۱

بعد دیا تھا وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت امامت و خلافت صرف آپ کا اور آپ کے اہل بیت(ع) کا حق تھا، چنانچہ اس خطبہ میں فرماتے ہیں : اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا ہے وہ جان لے کہ میں حسن بن علی(ع) ہوں میں فرزند نبی(ص) ہوں، میں فرزند وصی ہوں، میں فرزند بشیر ہوں میں فرزند نذیر ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جو خدا کی طرف اجازت خدا سے بلانے والا ہے ، میں روشن چراغ کا فرزند ہوں، میں اہل بیت(ع) میں سے ہوں وہ اہل بیت(ع) جس پر جبرئیل نازل ہوتے ہیں اور جن کے پاس جبرئیل آسمانوںپربلند ہوتے ہیں، میں الل بیت(ع) میں سے ہوں جن سے اللہ نے ہر برائی کو دور رکھا ہے اور ایسا پلک و پاکیزہ کیا ہے جیسسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے، میں ان اہل بیت(ع) میں سے ہوں جس کی محبت اللہ نے مسلمانوں پر فرض کی ہے، اسی سلسلہ میں خدا فرماتا ہے “ اے حبیب آپ کہہ دیں کہ میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو اور جو نیکی کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کریں گے” اور نیکی سے مراد ہم اہلبیت(ع) سے محبت ہے.(1) اور ابن عباس کے بارے میں ہے کہ جب امام یہ خطبہ دے چکے تو ابن عباس نے اٹھ کے لوگوں سے کہا: اے لوگو! یہ تمہارے نبی کے فرزند اور تمہارے امام کے وصی ہیں تم ان کی بیعت کرو یہ سنتے ہی لوگوں نے بیعت کی.(2)

دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے خطبے میں فرمایا: میرے حبیب میرے جد رسول

..................................

1.المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص188. کتاب معرفتہ الصحابہ، حسن بن علی ابی طالب کے فضائل ان کی ولادت و شہادت انہیں الفاظ میں ہے. الندیہ الطاہرہ، ص74. ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ج1، ص138. اس صفحہ پر کچھ امام حسن(ع) کے فضائل سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی ہیں اس میں حضرت علی(ع) کی شہادت پر امام حسن(ع) نے خطبہ دیا ہے ابھی نقل کیا ہے. مقاتل الطالبین، ص33. شرح نہج البلاغہ، ج16، ص30. نظم دار السمطین، ص147. ینابیع المودة، ج1، ص40.41. ج2، ص212.213. ج3، ص363.364، بحار الانوار، ج43، ص361.اور دوسرے مصادر بھی ہیں.

2.الارشاد ، ج2، ص18. اعلام الوری فی اعلام الہدی، ص407. بحار الانوار، ج43، ص362.

۲۸۲

اللہ(ص) نے فرمایا تھا کہ صاحبان امر 12 امام ہوں گے جو آپ کے اہل بیت(ع) اور چنندہ افراد میں سے ہوں گے ان میں سے ہر ایک یا مقتول ہوگا یا مسموم.(1)

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے بھائی امام حسین(ع) ( جو اس وقت موجود تھے انہوں) نے آپ کی امامت قبول فرمائی تھی. اس لئے وہ تمام حدیثیں امام حسن(ع) کی امامت پر دالات کرتی ہیں جو امام حسین(ع) کی امامت پر دلالت کرتی ہیں چاہے وہ نبی(ص) سے وارد ہوئی ہوں یا مولا علی(ع) سے.

وہ حدیثیں جس میں صرف امام حسین(ع) کا تذکرہ ہے

1.جو حدیثیں پیغمبر(ص) سے اس موضوع کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور بتاتی ہیں کہ امامت آپ کی ذریت میں ہوگی، ان کی دو قسمیں ہیں

ایک مجموعہ ان حدیثوں کا ہے جن میں امام علی(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) اور ذریت حسین(ع) کی امامت پر نص وارد ہوتی ہے اور یہ حدیثیں مجموعہ ثانیہ اور ثالثہ میں گذر چکی ہیں البتہ ان حدیثوں میں امام حسین(ع) کی امامت پر خاص طور سے نص نہیں ہے.

حدیثوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امامت ذریت حسین(ع) سے مخصوص ہے اور امامت اولاد حسین(ع) ہی میں رہے گی اور یہ حدیثیں بھی بہت زیادہ ہیں.(2)

البتہ ان میں سے اکثر حدیثیں خود انہیں اثنا عشر ائمہ سے وارد ہوئی ہیں جو آپ کی اولاد میں سے ہیں اس لے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حدیثوں سے احتجاج صحیح نہیں ہے اس لئے کہ ان حدیثوں سے احتجاج ان کی امامت کی فرع ہے لیکن یہ اعتراص اس لئے قابل توجہ نہیں ہے کہ ان میں اکثر حدیثیں وہ ہیں جو نبی(ص) سے مروی ہیں اور ان حضرات نے یہ دعوی اپنی طرف سے نہیں

......................

1.بحار الانوار، ج43، ص364.

2.بحار الانوار، ج25،ص254. 255. ج43، ص245.254.ج44، ص221.222.232.233.234.

۲۸۳

کیا ہے. یہ بات بوی مسلم ہے کہ ان حضرات کی روایتیں صداقت اور دوسری جہتوں کے لحاظ سے کسی سے بھی کم نہیں ہیں بلکہ غیروں سے کہیں زیادہ بلند مرتبہ اور رفیع الشان ہیں جیسا کہ میں نے کئی بار عرض کیا ہے پھر آیندہ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان حضرات کا دعوی کتنا اہم ہے.بہر حال جو بھی ہو یہ نصوص اگرچہ صراحتہ امامت حسین(ع) پر دلالت نہیں کرتی لیکن ان کی امامت پر دلالت بطور ملازمت ہے اس لئے کہ یہ بات واضح ہے کہ ان کی ذریت کو امامت مل ہی نہیں سکتی جب تک حسین(ع) کی طرف انتقال امامت نہ ہو جیسا کہ باقی نصوص میں صراحت کی گئی ہے.

2.کچھ خاص حدیثیں بھی اس مقام پر نقل کی جارہی ہیں جیسے مفض بن عمر کی حدیث ہے جس میں مفضل بن عمر نے بیان کیا ہے کہ امام حسن(ع) نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے پاس پیغام بھیجا اور تاکید فرمائی کہ میری شہادت کے بعد وہ امام حسین(ع) کی امامت کو تسلیم کر لیں اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی اس بات کو تسلیم اور امام حسین(ع) کی فضیلت کا اعتراف کیا آپ کخ رفعت مقام کو قبول کیا اور ایک روایت بیان کی جس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ نے سرکار دو عالم کو اختیار دیا تھا کہ حضور ابراہیم ( اپنے فرزند) کو باقی رہنے دیں جو آگے چل کے امام ہوں یا امام حسین(ع) کو امامت کے لئے باقی رہنے دیا جائے ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے اب امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی امامت میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی حسین(ع) کی ذریت میں نو امام(ع) کی امامت پر روایتیں:

اب وہ نصوص پیش کی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا کہ باقی ائمہ اثناعشر کون ہوں گے میں نے اس کے پہلے بہت سی حدیثیں مقام استدلال میں پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ باقی نو امام ذریت حسین(ع) سے ہیں اور یہ نصوص طاہرہ اس کثرت سے پائی جاتی ہیں جن کو حد تواتر حاصل ہے.

ان حدیثوں میں کچھ حدیثیں وہ ہیں جن میں قرآن مجید کی آیتوں سے استدلال کیا گیا ہے جیسے اولو الارحام... صاحبان رجم دوسرے کے وارث ہیں. کتاب خدا پر اللہ ہر چیز کا جاننے

۲۸۴

والا ہے. اس آیت سے مراد یہ ہے کہ امام سابق سے امامت لاحق کی طرف منتقل ہوتی ہے جو اس امام سے اقرب ہے وہ اس امام سابق کا ولد صلبی ہے یہ الگ بات ہے کہ امام حسین(ع) کے پہلے یہ قاعدہ جاری نہیں تھا اس لئے کہ آیت تطہیر نے آکے امامت کے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا تھا اور نبی نے قرآن مجید کی اس آیت اور اس کی تفسیر میں ارشاد فرمایا تھا کہ مولا علی(ع) امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) امام ہیں جیسا کہ آپ نے دوسری حدیثوں میں ان تینوں بزرگواروں کو امامت کا اعلان عام کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ایک دوسرے پر کسی کو فوقیت حاصل نہیں مگر رتبہ اور سن کے اعتبار سے.اولوالارحام والی آیت نازل ہونے کے بعد امیرالمومنین(ع) کو بھی یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے علاوہ کسی اور کی امامت پر نص کرتے اس لئے کہ آپ کی اولاد میں صرف انہیں دونوں کو امامت کا حق حاصل تھا اس لئے آیت تطہیر اور حدیث پیغمبر(ص) سے ان حضرات کی امامت پر نص وارد ہوچکی تھی.اسی طرح امام حسن(ع) کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کی امامت پر نص فرماتے اس لئے کہ خدا اور نبی(ص) کی طرف سے ایک امام منصوص یعنی امام حسین(ع) موجود تھے.لیکن امام حسین(ع) جب شہادت کی طرف بڑھ رہے تھے تو آپ کی امامت میں مذکورہ نص کے اعتبار سے کوئی شریک نہیں تھا کہ جسے آپ امام بننے سے منع کرتے اور اس کے حق میں آیہ قرآنی کو جاری ہونے سے روکتے لہذا یہ بات طے ہوگئی کہ صلب حسین(ع) میں امامت منتقل ہوگی اس لئے کہ آیہ کریمہ اولو الارحام اولی... کا تقاضا یہی تھا اور اس پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی.

آیہ وافی ہدایتہ( واولو الارحام....) سے عوام الناس انہیں بھی ذریت حسین(ع) کی امامت پر دلیل دیتے ہیں جن تک باقی ائمہ اثنا عشر کے اسماء گرامی کی صراحت والی حدیثیں نہیں پہونچ سکیں کیونکہ وہ حدیثیں ظہور اور شہرت کے لحاظ سے ان حدیثوں کی طرح نہیں ملتی جیسی مولا علی(ع) اور

۲۸۵

حسنین(ع) کے اسماء مبارکہ کے لئے ملتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان حصرات کی امامت پر کوئی دلیل نہیں ہیں میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان حدیثوں کو ویسی شہرت حاصل نہیں ہے جیسی مولائے علی(ع) اور امام حسن(ع) و حسین(ع) کے بارے میں حدیثوں کو شہرت حاصل ہے خصوصا جب ہم دیکھتے ہیں آیت تطہیر کے نزول کے وقت یہ حضرات موجود تھے اور ان کا اہل بیت میں ہونا درجہ یقینی اور مسلم ہے جیسا کہ خاص اور عام نصوص طاہرہ ان حضرات کی امامت پر دلالت کرتی ہیں جیسے ثقلین اور وہ حدیثیں جن میں یہ مضمون ہے: امام بارہ ہوں گے اور سب کے سب ذریت نبی(ص) سے.

اسی طرح ان احادیث سے بخوبی واضح ہے کہ اولوالارحام والی آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ امامت، حسین(ع) کے بعد ان کی ذریت اور نسل کے درمیان جاری رہے گی، اور ہر امام سے ان کے بیٹے کی طرف منتقل ہوگی اس لئے کہ وہ اپنے باپ سے قریب تر ہے نہ کہ بھائی اور چچا زاد بھائیوں کی طرف. اور ائمہ ہدی(ع) سے نصوص کا فیضان بھی اسی دعوے پر نص ہے.(1)

جب آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی تو اب ہم ان نو اماموں کے بارے میں جو ذریت حسین(ع) میں ہیں ایک ایک کر کے سب کی امامت پر حدیثیں پیش کرنا چاہتے ہیں اور آپ ان حدیثوں میں ان نصوص کا اضافہ کر لیجئے گا جن میں ائمہ اثنا عشری کے اسمائ مبارکہ کی صراحت کی گئی ہے اور میں نے اسے چوتھے گروہ میں ذکر کیا ہے.

ابومحمد علی بن الحسین زین العابدین(ع) کی امامت پر نصوص

امام زین العابدین علی بن الحسین(ع) کی امامت پر ابھی 19/عدد حدیثیں گذر چکی ہیں ان حدیثوں میں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی امامت پر نص کے ساتھ علی ابن الحسین(ع) کی امامت پر بھی نص ہے. 19/ حدیثیں تو وہ ہیں جن میں آپ کے نام کی صراحت کی گئی ہے اور وہ حدیثیں ایسی ہیں جن میں آپ کے نام کی طرف اشارہ ہے لیکن تصریح نہیں کی گئی ہے لہذا ان حدیثوں

...............................

1.الکافی، ج1،ص285.286.بحارالانوار، ج25، ص249.261. اور دوسرے بھی مصادر اس سلسلے میں ہیں.

۲۸۶

کو نظر میں رکھتے ہوئے کچھ حدیثوں کا اضافہ کیا جارہا ہے.

1.فضیل کی حدیث امام محمد باقر(ع) سے ہے جس میں امام فرماتے ہیں کہ جب امام حسین(ع) عراق جانے لگے تو ام المومنین ام سلمہ کو کتاب دی وصیت کی نیز دوسرے اسرار امامت کے حوالے کئے اور یہ فرمایا کہ جب میرا سب سے

بڑا بیٹا آپ کے پاس آئے تو جو کچھ میں نے آپ کو دیا ہے اس کے حوالے کر دیجئے گا جب امام حسین(ع) کی شہادت ہوگئی اور لٹا ہوا قافلہ مدینہ واپس آیا تو ام سلمہ نے علی ابن الحسین(ع) کو وہ امانتیں ودیعت کیں.(1)

2.اسی طرح کی حدیث ابو بکر حضرمی سے ہے لیکن وہ جناب جعفر صادق(ع) کے ارشادات پر مبنی ہے.(2)

ابھی گذشتہ صفحات میں ابو جارود کے حوالے سے ایک حدیث گذر چکی ہے جو امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی امامت پر نص تھی اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام حسین(ع) نے فاطمہ بنت حسین(ع) کے حوالے وصیت کی تھی تاکہ وہ علی بن الحسین(ع) کو آپ کی شہادت کے بعد دیدیں. بظارہ دونوں روایتوں میں اختلافات بلکہ منافات نظر آتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ امام حسین(ع) نے دو وصیتین کی ہوں ایک ظاہری وصیت جس کا امانت دار فاطمہ بنت الحسین(ع) تھیں اور دوسری باطنی وصیت جس کی امانت دار ام سلمہ تھیں.

3.یہ حدیث محمد بن وہبان سے ہے انہوں نے احمد بن محمد بن شرقی سے انہوں نے احمد بن ازہر اللہ بن عتبہ سے نقل کیا کہ ابن عتبہ کا بیان ہے کہ میں حسین ابن علی(ع) کی خدمت میں تھا اسی وقت علی ابن الحسین(ع) جو ابھی کمسن تھے تشریف لائے امام حسین(ع) نے انہیں اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگایا دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر فرمایا : میرے باپ تم پر قربان ہوں، تمہاری

..........................................

1.بحار الانوار، ج46، ص18؛ شیخ طوسی کی کتاب الغنیہ، ص195.196.

2.الکافی،ج1، ص304، بحار الانوار، ج46، ص19؛ ابن شہر آشوب کی کتاب المناقب، ج3، ص 308؛ اعلام الوری باعلام الھدی، ج1، ص483.

۲۸۷

خوشبو کتنی پاک ہے اور تمہارے عادات و اطوار اور اخلاق کتنے اچھے ہیں! تم اپنی خوشبو اور حسن اخلاق میں مجھے حصہ دار بنائو. عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کس کی طرف رجوع کریں گے. فرمایا: میرے اسی فرزند ( علی بن الحسین(ع)) کی طرف میرا یہ بیٹا ابوالائمہ ہے میں کہا مولا یہ تو ابھی بہت چھوٹے ہیں فرمایا: ہاں لیکن اس کا فرزند محمد جب اس کی تکمیل کرے گا اس قت وہ نو سال کا ہوگا پھر خاموش ہو جائے گا اور وہ علم کو یوں شگافتہ کرے گا جیسا کہ شگافتہ کرنے کا حق ہے.(1)

4.جعفر بن زید بن موسی(ع) اپنے والد سے وہ اپنے آباء طاہرین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ام اسلم نبی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اس وقت آپ ام اسلم کے گھر میں تھے ام اسلم نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یا رسول اللہ(ص) میں نے کتابوں میں پڑھا ہے اور جانتی ہوں کہ، نبی کا وصی ہوتا ہے تو آپ کا وصی کون ہے؟ آپ نے فرمایا: اے ام اسلم جو میرے فعل و کردار کا مالک ہو وہی میرا وصی ہوگا پھر آپ نے زمین سے تھوڑے کنکر اٹھائے انہیں دست مبارک میں رکھ کے مل دیا وہ آٹے کی طرح ہوگئے آپ نے اس کو گیلا کر کے اس پر اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دی فرمایا جو یہ عمل کرے ہی میر وصی ہوگا میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی ام اسلم کہتی ہیں میں وہاں سے نکلی اور امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، وصی پیغمبر(ص) کون ہے؟ فرمایا ہاں ابھی بتاتا ہوں آپ نے زمین پر پڑے ہوئے کنکروں پر ہاتھ مارا اور وہ آٹے کی طرح صفوف ہوگئے آپ نے اس کو گوندھ کے اس پر اپنی انگوٹھی کی مہر لگا دی اور فرمایا ام اسلم جو یہ عمل کرے وہی وصی ہے. کہتی ہیں پھر میں امام حسن(ع) کی خدمت میں آئی اور میں نے کہا: کیا آپ ہی اپنے باپ کے وصی ہیں؟ تو آپ نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح کیا پھر میں امام حسین(ع) کی خدمت میں آئی میں آپ کو ابھی بچہ ہی سمجھتی تھی بہر حال میں نے پوچھا مولا

.....................................

1.بحار الانوار، ج46، ص19؛ کفایتہ الاثر، ص234.235.

۲۸۸

کیا آپ اپنے بھائی کے وصی ہیں میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں. امام حسین(ع) نے فرمایا : میں اپنے بھائی کا وصی ہوں اے ام اسلم آپ کنکر مجھے دیں میں ثابت کروں گا پھر آپ نے بھی وہی عمل انجام دیا جو آپ کے بزرگوں نے انجام دیا تھا.

جب ام اسلم بوڑھی ہوگئیں یہاں تک کہ شہادت امام حسین(ع) کے بعد زین العابدین(ع) کا زمانہ آیا اور ام اسلم زین العابدین(ع) کی خدمت میں پہونچیں تو انہوں نے پوچھا آپ کے والد کا وصی کون ہے کیا آپ ہیں؟ فرمایا: ہاں اور آپ نے وہی عمل انجام دیا جو آپ کے آباء طاہرین(ع) نے انجام دیا تھا.(1)

حالانکہ اس طرح کی روایتیں معجزات و کرامات کے ذیل میں آتی ہیں لیکن میں نے نصوص کے ذیل میں اس روایت کو اس لئے داخل کیا ہے کہ معجزہ اور کرامت، امامت اور صاحب منصب الہی ہونے پر بہت بڑی نص ہے.

5.اسی طرح حبابتہ الوالبیہ کی ایک حدیث ہے حبابہ کہتی ہیں: میں نے امیر المومنین علی بن ابی طالب(ع) کو شب جمعہ میں دیکھا پھر میں امام کے پیجھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ صحن مسجد میں جا کے بیٹھ گئے. میں نے آپ سے عرض کیا اے امیرالمومنین(ع)! خدا آپ پر رحم کرے امامت کی دلیل کیا ہے. فرمایا: اے حبابہ ذرا زمین پر پڑے ہوئے وہ کنکر تو اٹھانا میں نے کنکر اٹھا کے آپ کو دیئے آپ نے ان کنکروں کو دست مبارک میں لیا اور مٹھی میں لیکے مجھے واپس کیا تو میں نے دیکھا ان کنکروں پر آپ کی مہر ہوچکی تھی اور مہر مبارک کا نقش ابھر چکا تھا.

امیرالمومنین(ع) نے فرمایا: اے حبابہ! جب کوئی امامت کا دعوی کرے تو تم اس سے یہی دلیل مانگنا اس لئے کہ امام مفترض الطاعہ اپنے ہر ارادے کو عمل میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے اس کے لئے کوئی چیز بھی بعید مشکل نہیں ہے.

..................................

1.الکافی، ج1، ص355.356. اسی روایت کو دوسری سندوں کے ساتھ جس میں سند جمہور بھی شامل ہے اس سے بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ بحار الانوار، ج25، ص185.190 میں لکھا ہے.

۲۸۹

حبابہ کہتی ہیں میں انتظار کرتی رہی یہاں تک کہ امیرالمومنین(ع) کی شہادت ہوئی اور امام حسن(ع) کا دور آیا ایک دن میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ وہیں بیٹھے تھے جہاں اس دن میں نے امیر المومنین(ع) کو بیٹھے ہوئے

دیکھا تھا لوگ آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے. آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا حبابہ. میں نے کہا مولا حاضر ہوں. فرمایا تمہارے پاس جو ہے مجھے دیدو میں نے کنکر آپ کی خدمت میں پیش کئے آپ نے ان کنکروں پر اپنی مہر کر دی جس طرح سے امیر کائتات نے کی تھی. حبابہ کہتی ہے اس کے بعد میں امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت آپ مسجد نبوی(ص) میں تشریف رکھتے تھے آپ نے مجھ کو قریب بلایا اور نزدیک بٹھاتے ہوئے فرمایا کے اے حبابہ دلالت ہی میں دلیل ہے اس چیز کی جس کو تم چاہتی ہو. کہ تم امامت کی دلیل چاہتی ہو. میں نے عرض کیا مولا یہی بات ہے. فرمایا تمہارے پاس جو کچھ ہو لائو میں نے کنکر پیش کئے آپ نے ہاتھ میں لیا اس پر مہر کا نقش ابھر گیا پھر مجھے واپس کردیا.

حبابہ کہتی ہیں جب امام زین العابدین(ع) کا دور آیا اس وقت میں بہت بوڑھی ہوچکی تھی میرے جسم میں رعشہ پڑ گیا تھا اور عمر ایک سو تین سال کی ہوچکی تھی ہانپتی کانپتی خدمت امام میں پہونچی تو دیکھا امام زین العابدین(ع) رکوع و سجود میں مصروف ہیں مجھے زیادہ دیر تک کھڑا ہونا مشکل تھا میں دلالت ( ثبوت کی فراہمی) سے مایوس ہوکر واپس پلٹی اتنے میں امام نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اسی وقت میرا شباب پلٹ پڑا میں جوان ہوچکی تھی میں نے امام سے پوچھا مولا دنیا کتنی گذر گئی اور کتنی باقی ہے فرمایا حبابہ جہاں تک گذرنے کا سوال ہے تو جو گذر گیا ٹھیک ہی تھا لیکن اب دنیا میں باقی تو کچھ نہیں ہے. پھر فرمایا حبابہ تمہارے پاس جو کچھ ہے لائو میں نے کنکر خدمت میں پیش کئے آپ نے اس پر مہر لگا کر مجھے دے دیا.

حباب کہ تی ہیں پھر میں ابو جعفر(ع) محمد باقر(ع) اور ابو عبداللہ جعفر صادق(ع) ابوالحسن(ع) موسی کاظم(ع) اور امام علی رضا(ع) کی خدمت میں پہونچی اور سب نے اپنے آباء طاہرین(ع) کی طرح ان کنکروں پر

۲۹۰

اپنی مہر لگا دی.(1)

شیخ کلینی فرماتے ہیں: امام علی رضا(ع) کے دور میں حبابہ صرف نو سال زندہ رہیں جیسا کہ محمد بن ہشام کا بیان ہیں.

6. ان دونوں حدیثوں کی طرح ایک حدیث ابو ہاشم جعفری کی بھی ہے جس کو انشاء اللہ اس وقت پیش کیا جائے گا جب امام حسن عسکری(ع) کی امامت پر نصوص پیش کی جائیں گی.(2)

7. امام باقر(ع) سے یہ روایت متعدد اسناد سے ذکر ہوئی ہے محمد بن حنفیہ اور زین العابدین(ع) کے درمیان مسئلہ امامت پر خلوت میں ایک گفتگو ہوئی تھی جس میں آپ نے انہیں اس سلسلہ میں اختلاف کرنے سے منع کیا.

اس حدیث میں ہے کہ ان سے امام زین العابدین(ع) نے فرمایا اے چچا آپ مجھ سے اس چیز کا دعوی بالکل نہ کریں جس کا آپ کو حق نہیں ہے میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جاہلوں کے گروہ میں شاملنہہوں. اے چچا میرخ والد بزرگوار نے عراق کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ہی مجھے وصی بنا دیا تھا شہادت سے ایک گھنٹہ پہلے مجھے یہ عہدہ سپرد کر دیا تھا. ثبوت کے طور پر یہ پیغمبر(ص) کا اسلحہ ہے جو صرف میرے پاس ہے بیشک خدائے عزوجل نے امام حسین(ع) کے بعد وصی اور امام مقرر فرمایا ہے اگرآپ اس بات کو جاننا چاہتے ہیں تو چلیں حجر اسود کے پاس چلتے ہیں اور اس کو حاکم بنا کے فیصلہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت امام برحق کون ہے

................................

1.الکافی، ج1، ص346.347. انہیں لفظوں کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار، ج25 ، ص175.177؛ کمال الدین و تمام النعمہ، ص536.537؛ ابن شہر آشوب کی مناقب، ج1، ص257؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص408.409؛ کشف الغمہ، ج2، ص157.

2.الکافی، ج1، ص347؛ بحار الانوار، ج50، ص302.303؛ شیخ طوسی کی الغنیہ، ص203.204. جناب ثاقب کی کتاب، مناقب ص561.562؛ الحزائح والجرائح، ج1، ص428؛ اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص139؛ کشف الغمہ، ج3، ص228.229.

۲۹۱

اس گفتگو کے بعد دونوں بزرگوار حجر اسود کے پاس پہونچے اور محمد حنفیہ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے پھر حجر اسود کو پکار کے پوچھا کہ اس وقت امام کون ہے حجر اسود نے کوئی جواب نہیں دیا پھر حضرت علی(ع) ابن الحسین(ع) نے دعا کی اور حجر اسود سے پوچھا میں تجھ سے اس خدا کا واسطہ دے کے پوچھتا ہوں جس نے تیرے اندر انبیاء اوصیاء اور تمام لوگوں کی میثاق قرار دی ہے تو ہم دونوں کو بتا کہ حسین بن علی(ع) کے بعد وصی اور امام کون ہے کہتے ہیں یہ جملہ سنتے ہی حجراسود میں جنبش ہوئی اور اتنی واضح حرکت ظاہر ہوئی کہ لگتا تھا حجر اسود اپنی جگہ چھوڑ دے گا پھر خداوند عالم نے حجر اسود کو فصیح اور واضح عربی زبان میں گویا کیا. حجر اسود نے کہا خدا کی قسم وصایت اور امامت حسین ابن علی(ع) کے بعد علی ابن الحسین(ع) بن علی بن ابی طالب(ع) اور ابن فاطمہ0ع) بنت رسول اللہ(ع) تک منتقل ہوچکی ہے. راوی کا بیان ہے کہ امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں یہ سن کے محمد بن حنفیہ وہاں سے اس حال میں اٹھے کہ ان کے دل میں علی ابن الحسین(ع) کی ولا تھی.(1)یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ سید حمیری نے اس واقعہ کو اپنی نظم کا زیور پہنایا اور اپنے شعار کو زینت دی ملاحظہ ہو.

ترجمہ اشعار:

1.مجھے زمانے کے بار بار بدلنے پر تعجب ہے اور صاحب بیان ابو خالد کے معاملے پر بھی.

2.اور اس پر جس نے امامت کے مسئلہ پر میں طیب و طاہر نور جنت سے بحث کی جب کہ بحث کی کوئی گنجائش نہیں تھی.

3. یعنی جب کہ علی بن الحسین(ع) سے ان کے چچا امانت واپس لینے میں کوئی تکلف اور نرمی نہیں رکھتے تھے.

4.حب انہوں نے حجر اسود کو حاکم بنایا تو اس نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا جبکہ علی(ع)

-----------------

1.الکافی، ج1، ص348؛ انہیں لفظوں کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. بحار الانوار، ج46، ص111؛ بصائر الدرجات، ص522؛ مختصر بصائر الدرجات، ص15. احتجاج، ج2، ص46.47. اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص485.

۲۹۲

ابن الحسین(ع) کے سوال کا جواب دیدیا.(1)

یہ راویت اگرچہ از قسم کرامت و معجزات ہے اور اس میں امام سابق کی نص نہیں ہے لیکن حجر اسود کی طرف سے نص ہے حجر اسود وہ پتھر ہے جس نے انبیاء کی میثاق پورا کیا اور یہ وہ پتھرہے جو قیامت میں مبعوث ہوگا اور لوگوں کی

وعدہ وفائی کی گواہی دے گا لہذا یہ گواہی کسی بھی امام کی نص سے کسی طرح کمتر درجہ نہیں ہے.(2)

8.جناب جابر امام باقر(ع) سے ایک روایت کرتے ہیں جس میں امام زین العابدین(ع) کی والدہ گرامی کے امام حسین(ع) تک پہونچنے کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے اس حدث میں ہے کہ امیرالمومنین(ع) نے ان سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے عرض کیا میرا نام تو جہاں شاہ ہے. امیرالمومنین(ع) نے فرمایا نہیں بلکہ تمہارا نام شہر بانو ہے. پھر امام حسین(ع) سے فرمایا اے ابو عبداللہ اس خاتون سے تمہاری نسل میں اہل ارض کا سب سے بہتر انسان پیدا ہوگا.(3)

یاد رہے کہ شیعوں کے عقیدے کے مطابق زمین پر سب سے بہتر انسان امام وقت ہوتا ہے بلکہ بعض کتابوں میں یہ روایت یوں ہے کہ امیرالمومنین(ع) نے امام حسین(ع) کو خطاب کر کے فرمایا

................................

1.اعلام الوری باعلام الہدی ، ج1، ص486. ابن شہر آشوب کی کتاب مناقب ابی طالب، ج3، ص288.

2.مستدرک علی الصحیحین، ج1، ص628. اول کتاب مناسک، شعب الایمان، ج3، ص451. شرح زرقانی، ج2، ص408. اخبار مکہ، ج1، ص92. نصب الرایہ، ج3، ص38. تدوین فی اخبار قزوین، ج3، ص151. اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مدارک اور منابع ہیں جیسے علل الشرائع، ج2،ص424.423. 425. 426. کمال الدین وتمام النعمہ، ص3. تہذیب الاحکام، ج5، ص102. مختصر بصائر الدرجات، ص218، 219، 220. امالی شیخ، ص477. ثاقب فی مناقب، ص349. بحار الانوار، ج5، ص245. 246.، ج30، ص690. ان کے علاوہ اور بہت سے منابع اور مدارک ہیں.

3. الکافی، ج1، ص466.467.؛ انہیں لفظوں کے ساتھ قلمبند کیا ہے. بحار الانوار، ج46، ص9 پر.

۲۹۳

عنقریب اس خاتون سے تمہار وہ بیٹا ہوگا جو تمہارے بعد اہل زمین پر سب سے بہتر انسان ہوگا یہ خاتون ذریہ طیبہ کی ماں ہیں یہ اوصیاء کی مادر گرامی ہیں.(1)

نصوص امامت زین العابدین(ع) پر ایک نظر

خاص زین العابدین(ع) کی امامت پر اس وقت جلدی میں جو حدیثیں میسر ہوسکیں اسے میں نے پیش کر دیا اب اگر ائمہ اثنا عشری کی امامت کے سلسلہ میں جو حدیثیں دوسرے گروہ میں پیش کی گئی ہیں انہیں بھی اس مجموعہ میں شامل

کر لیا جائے تو 80 حدیثوں سے زیادہ ہوتی ہیں یعنی آپ کی امامت پر نصوص کی کثرت ہے اور اس استدلال کو نظر میں رکھیں کہ« وَ أُولُوا الْأَرْحامِ‏ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ » (2) یعنی اولوا الارحام میں سے بعض بعض کا وارث ہیں تو ظاہر ہے کہ ذریت حسینیہ کا انحصار امام زین العابدین(ع) کی ذات گرامی میں ہے اور امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد آپ ہی امام حسین(ع) کے خلف اکبر ہونے کی وجہ سے قریب ترین وارث ہیں.

ابو جعفر محمد باقر(ع) کی امامت بھی منصوص من اللہ ہے

2.محمد باقر(ع) شیعوں کے پانچویں امام

جن حدیثوں سے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی امامت پر استدلال کیا گیا ہے ان میں 16/ حدیثیں تو وہ ہیں جن میں امام محمد باقر(ع) کے نام پر بھی صراحت ہے اور حدیثیں وہ ہیں جن میں آپ کے نام کی طرف اشارہ ہے. پھر حبابہ الوالبیہ کی حدیث جس کا ذکر چوتھے امام کی امامت میں ہوچکا ہے اس میں بھی امام محمد باقر(ع) کی امامت پر نص ملتی ہے. اور ابو ہاشم جعفری کی حدیث جو امام حسن عسکری(ع) کی امامت کے سلسلے میں آنے والی ہے اس میں بھی آپ کی امامت پر نص ہے ان حدیثوں کے علاوہ اب کچھ دوسری حدیثیں ملاحظہ فرمائیں:

.....................................

1.بحار الانوار، ج46، ص11.

2.سورہ انفال، آیت75.

۲۹۴

1.عثمان بن خالد کہتے ہیں جس مرض میں زین العابدین(ع) کی وفات ہوئی اسی مرض کی حالت میں امام نے اپنی تمام اولاد کو جمع کیا آپ کے بیٹے محمد، حسن، عبداللہ، عمر، زید اور حسین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے امام نے اپنے فرزند محمد بن علی کو اپنا وصی بنایا اور آپ کا لقب باقر قرار دیا اپنی اولاد کے تمام امور محمد باقر(ع) کے ہاتھ میں دیئے آپ نے اپنی وصیت میں جو نصیحت فرمائی تھی اس کے الفاظ یہ تھے ( اے فرزند بیشک عقل روح کو چلانے والی ہے)(1)

2.مالک بن اعین جہنی کی حدیث ہے کہ علی ابن الحسین(ع) نے ا پنے فرزند محمد بن علی(ع) کو اپنا وصی بنایا اور فرمایا اے فرزند میں اپنے بعد تم کو اپنا خلیفہ بناتا ہوں ہمارے بعد تمہارے درمیان جانشین کی حیثیت سے کوئی نہیں آئے گا مگر یہ کہ اللہ قیامت کے دن اس کر گردن میں آگ کا ایک طوق پہنا دے گا. میں اس بات پر کی خدا نے تمہیں میرا وصی قرار دیا ہے خدا کی حمد اور اس کا شکر کرتا ہوں اے فرزند تم بھی اپنے ولی نعمت کا شکر ادا کرو...(2)

3.زہری کی حدیث ہے کہ میں حضرت علی ابن الحسین(ع) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ مرض موت میں گرفتار تھے اس کے بعد آپ کے فرزند جناب محمد بن علی(ع) حاضر ہوئے تو امام نے بہت دیر تک محمد باقر(ع) سے راز کی باتیں کی پھر فرمایا نور نظر تم پر حسن خلق واجب ہے. زہری کہتے ہیں میں نے زین العابدین(ع) سے پوچھا اے فرزند رسول(ص) اگر خدا نہ خواستہ کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جس کو بہر حال ہونا ہے( یعنی آپ کی وفات ہوجائے) تو ہم کس کی طرف آپ کے بعد رجوع کریں؟ آپ اپنا خلیفہ کس کو بناتے ہیں؟ حضرت نے اپنے بیٹے محمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اے ابوعبداللہ ( یہ زہری کی کنیت ہے) میرے اس فرزند کی طرف رجوع کرنا یہی میرا وصی، میرا وارث میرے علم کا راز دار اور میرے علم کا معدن ہے میں نے عرض کیا فرزند رسول آپ نے اپنے سب سے بڑے صاحبزادے کو کیوں نہیں وصی بنایا؟ فرمایا : اے ابو عبداللہ امامت کا معیار بزرگی

............................

1.بحار الانوار، ج46، ص330؛ کفایہ الاثر، ص239.240.

2.بحار الانوار، ج46، ص332، کفایتہ الاثر، ص241.243.

۲۹۵

اور کمسنی نہیں ہے بلکہ پیغمبر(ص)نے ہم سے جس طرح جس کے بارے میں عہد لیا ہے ہم اسی عہد کے پابند ہیں ہم نے اسی طرح لوح اور صحیفہ میں لکھا ہوا پایا ہے ہم نے عرض کیا اے فرزند رسول پھر پیغمبر(ص) نے امامت کے عہد میں کیا تعداد مقرر کی ہے یعنی آپ کے کتنے اوصیاء ہوں گے؟ فرمایا : ہم نے صحیفہ اور لوح میں پایا ہے کہ 12 /بارہ اوصیاء ہیں ان کے اسماء گرامی اور ان کے آباء کرام کے اسماء گرامی لوح میں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا صلب محمد(ص) سے سات اوصیاء ہونے والے ہیں انہیں میں مہدی موعود( صلواۃ اللہ علیہم اجمعین)(1)

4.عیسی بن عبداللہ نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا سے سنا وہ کہتے ہیں: علی بن الحسین(ع) مرض موت میں اپنے بیٹوں کی طرف متوجہ ہوئے اس وقت آپ کی تمام اولاد موجود تھی، پھر آپ اپنے فرزند محمد بن علی(ع) کی طرف متوجہ ہوئے پس فرمایا اے محمد یہ صندوق تم لے لو اور اپنے گھر لے جائو اس میں درہم و دینار تو نہیں ہے، لیکن یہ علم سے بھرا ہوا ہے.(2)

5.اسی حدیث کے قریب المعنی اسماعیل بن محمد بن عبداللہ بن علی بن الحسین(ع) کی حدیث ہے کہتے ہیں امام ابو جعفر(ع) نے فرمایا: کہ امام زین العابدین(ع) نے کہا نور نظر یہ صندوق لے جائو. باقر(ع) کہتے ہیں اس صندوق میں پیغمبر(ص) کا اسلحہ تھا.(3)

6.عیسی بن عبداللہ بن عمر ابوعبداللہ الصادق(ع) سے راوی ہیں کہ اس صندوق میں پیغمبر(ص) کے اسلحے اور آپ کی کتابیں تھیں.(4)

7.ابوبصیر کہتے ہیں محمد باقر(ع) نے فرمایا کہ میرے والد ماجد نے جو وصیت مجھے کی تھی اس میں ہدایت بھی تھی کہ نور نظر جب میں مرجائوں تو مجھے تمہارے علاوہ کوئی غسل نہیں دے گا اس

.................................

1.بحار الانوار، ج46،ص332.333. کفایتہ الاثر، ص241.242.

2.کافی،ج1، ص304. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں: بحار الانوار، ج46، ص229؛ بصائر الدراجات، ص185.

3.کافی، ج1، ص305. ابن شہر آشوب کی کتاب مناقب، ج3، ص341.

4.بحار الانوار، ج46، ص229؛ بصائر الدرجات، ص201.

۲۹۶

لئے کہ امام کو غیر امام غسل نہیں دے سکتا.(1)

8.ابان بن عثمان امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک حدیث میں فرمایا: جابر ایک بار علی بن حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے وہاں پر ان کے فرزند جناب محمد بن علی(ع) بھی موجود تھے لیکن ابھی وہ کمسن تھے، جابر نے پوچھا مولا یہ کون ہے؟ فرمایا یہ میرا بیٹا ہے اور میرے بعد صاحب امر ہے اس کا نام محمد باقر(ع) ہے.(2)

9.ابوخالد کابلی کی ایک طویل حدیث ہے جس میں وہ زین العابدین(ع) سے روایت کرتے ہیں، ابوخالد کہتے ہیں میں نے امام سے عرض کیا: مولا امیرالمومنین(ع) سے یہ قول نقل کیا جاتا ہے کہ زمین خدا کے بندوں کے لئے حجت خدا سے خالی نہیں رہتی تو پھر آپ کے بعد امام اور خدا کی حجت کون ہوگا؟ فرمایا: میرا بیٹا محمد، توریت میں اس کا نام باقر ہے وہ علم کو یوں شگافتہ کرے گا جو کہ شگافتہ کرنے کا حق ہے، وہی میرے بعد حجت اور امام ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا جعفر جسے اہل آسمان اس کو صادق کے نام سے جانتے ہیں.(3)

حضرت محمد باقر(ع) کی امامت پر دلالت کرنے والی نصوص پر ایک نظر

امام محمد باقر(ع) کی امامت پر یہ 9 نصوص ہیں جسے میں نے جلدی جلدی میں مہیا کر کے لکھ دی ہیں چوتھے گروہ میں ائمہ اثناء عشر کے اسماء مبارکہ پر حدیثوں سے نص ثابت کی گئی ہے اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو 80 حدیثوں سے زیادہ ہوتی ہیں، پھر ذریت حسین(ع) والی حدیثوں کو بھی شامل کر لیں اس لئے کہ ذریت حسین(ع) کا انحصار امام محمد باقر(ع) اور آپ کے بھائیوں پر ہے امام محمد باقر(ع) کے بھائیوں میں کسی کے لئے امامت کا دعوی اگر پایا بھی جاتا ہے تو نص کے ذریعہ اس دعوے

.................................................

1.بحار الانوار، ج46، ص229. انہیں الفاظ کو نقل کیا ہے اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5، ص264.265.

2.اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات، ج5، ص263. انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں امالی شیخ صدوق، ص435.

3.بحار الانوار، ج36، ص386، ج47، ص9، کمال الدین و تمام النعمہ، ص391. اعلام الوری باعلام الھدی، ج2، ص195.

۲۹۷

پر دلیل نہیں پیش کی جاتی اور نہ امامت سے وہ امامت مراد ہوتی ہے جوشیعہ اثناء عشری فرقے کے عقیدے میں پائی جاتی ہے، اس لئے کہ اگرچہ زیدیہ فرقہ جناب زید کی امامت کا قائل ہے لیکن وہ انہیں محض اس لئے امام مانتا ہے کہ انہوں نے تلوار کے ساتھ قیام کیا تھا نہ کہ نص کی بنیاد پر، اس کے علاوہ زید شہید نے امام زین العابدین(ع) کی وفات کے بہت دنوں بعد قیام کیا اب اگر اس دور میں جو زین العابدین(ع) اور قیام زید شہید کے درمیان کی مدت ہے اگر محمد باقر(ع) کی امامت نہ مانی جائے تو پھر یہ مسلمہ عقیدہ چھوڑنا پڑے گا کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہتی، جب کہ یہ عقیدہ کثرت سے پائی جانے والی نصوص اور احادیث نبوی(ص) سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں. سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے.

جعفر صادق بن محمد باقر(ع) کی امامت پر واردہ نصوص

3.ابوعبداللہ جعفر بن محمد صادق(ع) گلدستہ امامت کا چھٹا گلاب

امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی امامت پر جو حدیثیں پیش کی گئی ہیں ان سات حدیثوں میں حضرت صادق(ع) کا نام اور تین حدیثوں میں آپ کی طرف اشارہ موجود ہے، اس کے علاوہ حبابہ والبیہ والی حدیث جس میں جعفر صادق(ع) کے جد امجد علی ابن الحسین(ع) کی امامت پر نص ہے اس میں بھی امام جعفر صادق(ع) کا تذکرہ ہے اور ابوخالد کابلی کی حدیث جس میں محمد باقر(ع) کی امامت پر نص ہے اس میں بھی آپ کے نام اور لقب اور آپ کی امامت پر نص پائی جاتی ہے ابھی ہم ابو ہاشم جعفری کی حدیث جس میں ابو محمد حسن عسکری(ع) کی امامت پر نص ہے وہ عنقریب پیش کرنے ولے ہیں اب ان مذکورہ نصوص کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل حدیثوں کا بھی اضافہ کر لیں:

1.ابوصباح کنانی کہتے ہیں: ابو جعفر محمد باقر(ع) نے دیکھا کہ ابو عبداللہ صادق(ع) چلے آرہے ہیں مجھ سے فرمایا ان کو دیکھ رہے ہو یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے خدائے عزوجل نے فرمایا ہے ہم ان لوگوں پر احسان کرنا چاہتے ہیں جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے لہذا ہم انہیں

۲۹۸

امام بنائیں گے اور انہیں کو وارث قرار دیں گے.(1)

2.متعدد اسانید کے ساتھ ایک حدیث طاہر سے مروی ہے جس میں طاہر کہتے ہیں: میں ابوجعفر(ص) کی خدمت میں تھا اتنے میں جعفر(ع) آئے ابو جعفر محمد(ع) نے فرمایا یہ( جعفر صادق(ع)) خیر البریہ ہیں یا یہ کہ یہ سب سے بہتر ہیں.(2)

3.جابر بن جعفی محمد باقر(ع) سے راوی ہیں کہ محمد باقر(ع) سے قائم کےبارے میں سوال کیا گیا آپ نے اپنا ہاتھ ابو عبداللہ امام صادق(ع) پر رکھا اور فرمایا خدا کی قسم یہی قائم آل محمد(ص) ہے.

عنبسہ کہتے ہیں جب محمد باقر(ع) کی شہادت ہوگئی تو میں ابوعبداللہ امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور محمد باقر(ع) کے اس جملے کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا جابر ٹھیک کہتے ہیں پھر فرمایا: کیا تم نہیں سمجھتے کہ قائم آل محمد(ع) اصل میں سابق امام جگہ پر کھڑا ہوتا ہے اسی لئے اسے قائم کہتے ہیں.(3)

4.عبد الاعلی کی حدیث امام صادق(ع) سے ہے، حضرت نے فرمایا: یہاں جو کچھ ہے سب میرے والد نے مجھے ودیعت کیا ہے کیونکہ جب میرے والد( امام باقر(ع)) کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کچھ گواہ لائو میں نے قریش کے چار افراد کو بلایا ان میں عبداللہ بن عمر کا غلام نافع بھی تھا اس کے بعد محمد باقر(ع) نے مجھ سے فرمایا لکھو یہ وہ وصیت ہے جسے یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کی تھی اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے دین منتخب کیا ہے اسلام کی حالت میں ہی مرنا پھر حضرت محمد بن علی(ع) نے جعفر بن محمد(ع) سے وصیت کی اور انہیں حکم دیا کہ مجھے اسی چادر کا کفن دیا جائے جس میں میں جمعہ پڑھتا ہوں اور میرے اسی عمامے میں مجھے دفن کیا جائے پھر قبر کو

...........................................

1.کافی، ج1، ص306؛ ارشاد، ج2،ص180.

2.کافی، ج1، ص306.307؛ امامت و تبصرہ ، ص65؛ ارشاد، ج2،ص180. اعلام الوری باعلام الہدی، ج1،ص518؛ کشف الغمہ، ج2،ص380.

3. کافی، ج1، ص307. ھدایتہ الکبری، ص243. اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص581.

۲۹۹

چوکور بنا دیا جائے اور چار انگل اونچا کردیا جائے میری قبر میں دفن کے وقت جعفر صادق(ع) ہی اتریں، پھر محمد باقر(ع) نے گواہوں سے کہا: اب آپ لوگ جائیں خدا آپ لوگوں پر رحم کرے جب گواہ چلے گئے تو میں ( جعفر صادق(ع)) نے اپنے والد سے پوچھا بابا اس میں تو کوئی خاص بات ایسی نہیں تھی جس کے لئے شہادت کی ضرورت پڑی، امام نے کہا بیٹا میں اس بات کرنا گوار سمجھتا ہوں کہ تم پر غلبہ کیا جائے اور لوگ یہ کہیں کہ جعفر صادق(ع) محمد باقر(ع) کے وصی نہیں ہیں اس لئے کہ انہوں نے جعفر صادق(ع) کو وصی نہیں بنایا تھا میں چاہتا ہوں کہ یہ شہادت تمہارے لئے دلیل بن جائے.(1)

مذکورہ حدیث کے صدر مطلب سے کے میرے والد ماجد نے جو کہا تھا ودیعت فرمایا تھا چھٹے امام کی امامت پر نص حاصل ہوجاتی ہے اور حدیث کا باقی حصہ دلالت کرتا ہے کہ امام کی وصیت اپنے وارث کے لئے ہے اور ان خاص امور کے بارے میں وصیت اس کے حق میں ہے جس کے اندر وصی بنانے والے کی نظر میں علامت امامت پائی جاتی ہے، اس لئے امام محمد باقر(ع) نے جعفر صادق(ع) کو وصیت کرنے کے وقت چار گواہ طلب کر لئے تھے حالانکہ جن چیزوں کے بارے میں آپ نے وصیت کی ہے وہ اتنی اہم نہیں ہے کہ اس کے لئے شہادت اور گواہی وغیرہ کی کوئی ضرورت پڑے.

امام جعفر صادق(ع) کی امامت پر دوسری نصوص بھی پائی جاتی ہیں لہذا عبدالاعلی کی حدیث میں ہے کہ میں نے جعفر

صادق(ع) سے پوچھا کہ اگر امر امامت کا دعوی کرے تو اس کے پاس کیا دلیل ہونی چاہئے! یا اس کی امامت کے انکار کے لئے کیا دلیل ہونی چاہئے؟ تو فرمایا اس سے حلال اور حرام کے بارے میں سوال کیا جائے پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تین دلیلیں ہیں جو صرف اس کے اندر جمع ہوتی ہیں جو اس کا مالک ہوتا ہے.

..............................

1.کافی، ج1، ص307؛ روضتہ الواعظین، ص308، ارشاد، ج2،ص 181، اعلام الوری اعلام الہدی، ج1، ص518.519. مناقب ابن شہر آشوب، ج3،ص398. کشف الغمہ، ج2، ص380.381.

۳۰۰