فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135228
ڈاؤنلوڈ: 3207


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135228 / ڈاؤنلوڈ: 3207
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سوال نمبر۔8

اہل سنت اور شیعہ قرآن مجید کی حجت اور اس کے صدور قطعی پر متفق ہیں، اختلاف صرف حدیث و سنت کے مآخذ او اسے حاصل کرنے کے طریقوں میں ہے اہل سنت صرف وہی حدیثیں لیتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور سرورکائنات سے ان تک پہونچی ہیں، لیکن شیعہ حضرات(پیغمبر(ص) کی حدیثوں کے ساتھ ساتھ) اپنے اماموں سے بھی روایت لیتے ہیں، چاہے رسول اور امام کے درمیان کتنا ہی زیادہ فاصلہ زیادہ کیوں نہ ہو اس لئے کہ شیعہ حضرات ائمہ کی عصمت کے قائل ہیں حالانکہ جو لوگ اماموں سے روایت لیتے ہیں وہ ان کی نظر میں غیر معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی حالت اہل سنت کے راویوں سے مختلف نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ( جب دونوں راوی غیر معصوم ہیں) تو شیعہ حضرات اہل سنت کی کتابوں پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟

خاص طور سے وہ شیعہ جو راویوں کے ثقہ ہونے کے قائل ہیں چاہے وہ راوی سنی ہی کیوں نہ ہو؟ اور اس کی روایت مذہب شیعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو سنت کے لئے ضروری نہیں ہے جب سائل ہی کے قول کے مطابق دونوں کے راوی غیر معصوم ہیں تو سنی حضرات شیعہ کی کتابوں پر کیوں اعتماد کرتے؟ سنیوں کے لئے یہ بات اس لئے لازم نہیں ہے کہ سنی صرف پیغمبر(ص) سے روایت لیتے ہیں اور ائمہ کی عصمت کے قائل نہیں ہیں۔

۲۱

جوابا عرض ہے کہ آپ کے مندرجہ بالا گفتگو میں دو باتیں بہت اہم اور قابل غور ہیں:

1۔ آپ کا یہ کہنا کہ اہل سنت کی کتابیں شیعوں کے نزدیک قابل اعتماد و رجوع کیوں نہیں ہیں خاص طور سے ان شیعوں کے نزدیک جو راوی کے لئے صرف ثقہ ہونا ضروری سمجھتے ہیں چاہے راوی مذہب شیعہ کے خلاف ہو یا صرف اس کی روایت مذہب شیعہ کے خلاف ہو ظاہرا اس سوال کی عبارت دقیق نہیں ہے اور اس سوال کرنے والے کا مقصد یہ ہے کہ( خاص طور سے وہ شیعہ جو ثقہ راوی کی روایت پر عمل کرنا جائز سمجھتے ہیں چاہے وہ راوی ان کے مذہب کے خلاف یا روایت ہی مذہب شیعہ کے خلاف ہو)

عرض ہے کہ جہاں تک روایت لینے کے جواز کا سوال ہے نہ کہ اس روایت پر عمل کرنے کا تو روایت لینا غیر ثقہ کافر سے بھی جائز ہے جیسا کہ تاریخی واقعات اور وہ حدیثیں جو احکام شرعیہ میں قابل اعتماد نہیں ہوتیں سب کا یہی حال ہے۔

مذہب شیعہ کے مخالف روایتوں پر عمل کرنا جائز نہیں

کوئی بھی شیعہ ایسی روایتوں کے بارے میں جواز عمل کا قائل نہیں ہے، جو شیعہ مذہب کے خلاف ہو، چاہے راوی کتنا ہی ثقہ کیوں نہ ہو بلکہ شیعہ ثقہ کی روایت بھی اگر مذہب شیعہ کے خلاف ہے تو اس پر عمل کرنے کو کوئی جائز نہیں سمجھتا اس لئے کسی بھی رای و نظریہ کو شیعہ نظریہ اس وقت کہا جاۓ گا جب شیعوں کا اجماع اس پر ثابت ہوجاۓ او اسی صورت میں اسے مذہب ائمہ اہل بیت(ع) کہا جاسکتا ہے جو بلاشک و تردید حق ہے کیونکہ وہ حضرات معصوم ہی اسی لئے ان کا مذہب حق ہے اور جو اس مذہب کے خلاف ہے وہ باطل محض ہے واجب ہےکہ اس سے اعراض کیا جاۓ، اس مذہب کے خلاف جو روایتیں آتی ہیں یا تو ان پر توجہ نہ کی جاۓ یا پھر ایسی روایتوں کو ائمہ حضرات کے علم پر چھوڑ دیا جاۓ یا پھر ان کی تاویل کر لی جاۓ۔

۲۲

مخالف: مذہب شیعہ رای اگر ثقہ ہے تو اس کی روایت پر عمل کرنا شیعوں کے نزدیک بر بناۓ شہرت جائز ہے؟

اگر کوئی مسئلہ شیعوں کے درمیان اختلاف کا موضوع ہو یا شیعہ علماء کا اس مسئلہ پر متفق ہونا معلوم نہ ہو یا شیعہ علماء نے اس مسئلہ کا ذکر ہی نہ کیا ہو، یا بعض شیعہ علماء نے اس کا ذکر نہ کیا ہو تو صرف ایسی صورت میں مخالف مذہب شیعہ راوی اگر ثقہ ہے تو اس کی روایت پر عمل جائز ہے، جیسا کہ ہمارے علماء کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے جب کہ یہ قول ان کے درمیان مشہور ہے۔ اگر چہ بعض حضرات اس کے مخالف ہیں مگر مشکل یہ ے کہ شیعوں کے اصول جرح و تعدیل اتنے سخت ہیں کہ ان کے معیار پر کسی راوی کا ثقہ اترنا مشکل ہے البتہ اگر اصول جرح و تعدیل پر راوی گہرا اترتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی روایت پر عمل ہمارے نزدیک جائز ہے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ راوی جرح و تعدیل کے ان اصولوں پر پورا اترے جو شیعوں کے نزدیک قابل اعتمار ہیں اور جس پر شیعہ بھروسہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جن راویان اہل سنت کی وثاقت شیعوں کے اصول جرح و تعدیل پر کامل پائی گئی ہے ان کی روایتوں پر بہت سے علماۓ شیعہ نے اعتبار کیا ہے جیسے اسماعیل بن ابی زیاد سکونی، حفص ابن غیاث، غیاث بن کلوب وغیرہ،

جن کی اہل سنت حضرات توثیق یا جرح کرتے ہیں ان پر اعتبار کرنے کی شیعوں کے یہاں کوئی گنجائش نہیں

ہمارے علماء جس راوی کی توثیق نہیں کرتے ہم اس کو ثقہ نہیں سمجھتے اس لئے کہ اہل سنت کے اصول جرح و تعدیل پر اعتماد ممکن نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جرح و تعدیل کی بنیاد نفسانی تاثرات ہیں جو مقام استدلال میں ان عقلائی طریقوں کے مناسب نہیں جن پر تمام امور میں ہمارے عمل کا

۲۳

دارومدار ہے اور انہیں کے ذریعہ خدا کی حجت قائم ہوتی ہے۔

اہل سنت کو چاہیئے کہ وہ اپنے جرح وتعدیل کے اصولوں پر نظر ثانی کر کے ان کے پاک و صاف کرلیں اور طریقہ استدلال کو منظم کرلیں اگر یہ کام ممکن ہو لیکن یہ کام وہ اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ان کے سامنے پہلے سے دلائل اور نشانیاں قائم نہ کردی گئی ہوں۔

عام معنائے صحابی کے دائرے میں آنے والے ہر صحابی کی روایت قابل قبول نہیں

( امر اول) اہل سنت کے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جو صحابی ہے اس کی روایت قبول کرنا جائز ہے صحابی ان کے نزدیک اس کو کہتے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سنی ہو اس لئے کہ ان کے نزدیک ہر صحابی بہر حال عادل ہے یہاں تک کہ صحابیت کی اس تعریف میں، معاویہ بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ، مروان بن حکم، ابوہریرہ، سمرۃ بن جندب اور ابوالعادیہ قاتل عمار جیسے، بہت سے لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔

اہل سنت کا یہ نظریہ کہ” صحابہ سب کے سب عادل ہیں” واضح پر پر باطل ہے اور اس کا باطل ہے اور اس کا باطل ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے بطلان سے انکار اور ہٹ دھرمی کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے کہ کسی غلط بات کے صحیح ہونے پر اصرار کرنا، غلط افراد کو مقدس صفات سے منسوب کرنا اور ان کی طرف اچھے کلمات منسوب کرنے سے نہ غلط صحیح ہوسکتا ہے اور نہ جھوٹے سچے ہوسکتے ہیں نہ باطل حق ہوسکتا ہے اس بات کو میں نے کئی جگہ بہت وضاحت کے ساتھ عرض کیا ہے خصوصا آپ سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔ میں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ال سنت کے

۲۴

معناۓ صحابیت کو اگر صحیح تسلیم ہیں تو اس کے مطابق صحابی کا پرکھنا ضروری ہے اور اس منزل میں جس کا شریعت سے وابستہ ہونا ثابت ہوجاۓ وہ عادل ہے بلکہ مرتبہ عدالت سے بھی بڑھ کے مقام تقدیس میں قابل احترام ہے اور اس کی حدیث قبول کرنا ضروری ہے لیکن جو حدود شریعت سے نکلا ہوا ہے وہ فاسق ہے۔ بلکہ اس سے بھی پست یعنی مقام نفاق میں ہے اور اس کی بیان کردہ حدیث کو رد کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر خارجی قرائن سے اس کی وثاقت اورجھوٹ سے پرہیز ثابت ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی روایت قبول کی جائیگی یا نہیں اس میں اختلاف ہے اور جو شخص مجہول الاحوال ہے اس سے حدیث لینے میں توقف کیا جاتا ہے اور اس کے امر کو خدا پر چھوڑ دیا جا تا ہے وہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اسی پر مجہول الاحوال راوی کا حساب منحصر ہے۔

مندرجہ بالا مطالب علمی طریقہ استدلال اور عقلی میزان کا تقاضا ہیں صاحباں معرفت انہیں قواعد پر اپنے تمام امور میں عمل کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ مخلوق پر اللہ کی طرف سے حجت قائم ہوتی ہے لیکن اہل سنت بہر حال اس قاعدے سے خارج ہیں اس کی وجہ وہ شبہات وشکوک ہیں جن کو مذہبی اختلاف نے جنم دیا ہے اکثر حکومتوں نے ان شبہات کو ہوا دی ہے اور تعصب کی وجہ سے دلوں میں راسخ ہوگئے ہیں اور جتنا زمانہ گزرتا گیا یہ شبہات تعصب کی وجہ سے پختہ محکم ہوتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ جب مستقل ایک دین کی صورت اختیار کر گئے جن کو مانا جانے لگا اور مقدس مفاہیم ومطالب کی صورت میں آگئے جن سے بلا حدود بے نہایت دفاع کیا جاۓ لگا۔

چنانچہ ذہبی کہتے ہیں: “لیکن صحابہ تو ان کی بساط سمٹ چکی ہے جو کچھ ان کے درمیان ہوتا تھا ہوچکا ثقات کی طرح انہوں نے بھی غلطیاں کی ہیں۔

ان میں سے کوئی بھی غلطی سے سالم نہ رہا پھر بھی اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو بہت معمولی ہے نقصان دہ ہرگز نہیں ہے اس لئے کہ انہیں صحابہ کی عدالت اور ان کے منقولات کی قبولیت پر عمل ہو

۲۵

رہا ہے اور انھیں منقولات ہی کے ذریعہ ہمارا تدین بھی ہے”

دوسری جگہ یہی ذہبی کہتے ہیں کہ: میں نے اپنی کتاب میزان الاعتدال میں بہت سے ان ثقات کا تذکرہ کیا ہے جن کے ذریعہ بخاری، مسلم اور دوسرے محدثین نے احتجاج کیا ہے اور ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شخص راوی یقینا ثقات میں سے ہے مگر اس کا نام مصنفات جرح میں موجود نہیں ہے اورجن راویوں کو میں نے اپنے نزدیک ضعیف ہونے کی باوجود ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہی بتانا ہے کہ ضعیف قابل اعتراض نہیں ہے، میرے نزدیک ایسے بھی راوی گذرے ہیں جو میری نظر سےصحیح اور ثقہ ہیں اگر ان کے بارے میں کوئی بات کہی بھی گئی ہے تو اس پر توجہ نہیں دینی چاہیئے اس لئے کہ ہم اگر یہ دروازہ کھول دیں تو اس میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد داخل ہو جاۓ گی جن میں تابعین اور ائمہ بھی شامل ہوجائیں گے اس لئے کہ کسی نہ کسی تاویل کی وجہ سے بعض صحابہ، بعض دوسرے صحابہ کو کافر کہتے ہوۓ دیکھے گئے ہیں لیکن خدا ان تمام صحابیوں سے راضی ہے اور ان کو بخش چکا ہے ان کا آپس میں اختلاف اورجھگڑا کرنا ہمارے لئے اصلا قابل توجہ نہیں ہے وہ معصوم بہر حال نہیں تھے اگر خوارج ان کوکافر کہتے بھی ہیں تو اس سے ان کی روایتوں کا درجہ گھٹتا نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں خوارج اور شیعوں کی گفتگو محض ان پر طعن کرنے والوں کی جرح ہے۔ لہذا اپنے رب کی حکمت کو دیکھو اور ہم اللہ سے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔(1)

بطور عموم عدالت صحابہ پر ابوزرعہ کا استدلال

ابوزرعہ سے منقول ہے کہ ( جب بھی تم دیکھو کہ کوئی شخص اصحاب کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے اس لئے کہ پیغمبرخدا(ص) ہمارے نزدیک بہر حال حق ہیں قرآن بہر حال حق ہے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ الرواۃ الثقات، ص22۔ 23، متکلم۔

۲۶

قرآن و سنت نبی کوہم تک پہونچانے والے صحابہ ہی ہیں تو ان مقدس صحابہ پر اعتراض کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں کو مجروح کردیں تاکہ قرآن و سنت باطل ہوجائیں اصل میں اصحاب پر اعتراض کرنے والے بے وقوف ہی جرح کے زیادہ مستحق اور زندیق ہیں۔):

مذکورہ دلیل کی تردید:ابوزرعہ کی آنکھوں پر تعصب کی عینک ہے اس وجہ سے وہ چند باتوں کو نہیں دیکھ سکے۔

1۔ کتاب و سنت کو ہم تک پہونچانے والے صرف صحابہ ہی نہیں ہیں بلکہ تابعین اور تبع تابعین بھی ہیں، بلکہ وہ تمام لوگو ہیں جو زمانے کے اعتبار سے طبقات میں تقسیم ہیں کیا سب کی عدالت کے قائل ہیں اگر کوئی بعض کی جرح کرتا ہے تو کیا وہ بھی زندیق ہے؟

( چونکہ صحابہ کے بعد والے طبقات نے ہم تک کتاب اور سنت پہونچائی ہے تو آپ کے حکم کے مطابق ان پر جرح کرنے والا تو زندیق ہی ہوا) تو پھر صرف صحابہ ہی سے کیوں مخصوص کرتے ہیں؟

2۔ انبیاۓ گذشتہ، ان کی کتابیں اور شریعتیں سب حق ہیں اور آپ کے اصول کے مطابق انبیاۓ ماسبق کی آواز پر جس نے بھی لبیک کہا اور ان کی باتیں سنی وہ سب لوگ عادل و صا دق ہیں اور ان پر اعتراض کرنے والے زندیق ہیں۔

3۔ جو اہلیت تقدیس نہ رکھتا ہو اس کی تقدیس کرنا ناقابل تصدیق کی تصدیق کرنا، صحیح حدیث کو سقیم کے ساتھ مخلوط کرنا اور لوگوں پر حقیقت و حق کو مشتبہ و مشکوک کرنا ہے یہ ایسے کام ہیں جن سے زنادیق کا ہدف حاصل ہوتا ہے اور ان کے لئے اللہ تعالی کے دین، رسول خدا(ص) اور ان کی حدیث شریف پر عیب بیان کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ صحابہ کے باہمی اختلافات اور محدثیں کی کمزوریوں نے زنادقہ کے لئے کافی گنجائش پیدا کردی تھی جب کہ صحابہ کے کردار کی نقاب کشائی اور

۲۷

حقدار کو اس کا حق دینے اور حاملان حدیث صحابہ وغیر صحابہ پر تنقید کرنے، سچ اورجھوٹ کے درمیان تمیز دینے، حدیث شریف کوجھوٹی ومن گڑھت حدیثوں سے الگ کرنے سے زنادقہ کے راستے بند ہوجاتے ہیں یہ سعی وکوشش زنادقہ کو اپنے ہدف تک نہیں پہونچنے دیتی اس لئے کہ خالص حق ہر قسم کے عیوب ونقائص سے خالی ہوتا ہے۔

جناب ذہبی کہتے ہیں: (ضعیف راویوں کے باے میں دیندار و متقی ناقدین کا ناصحانہ کلام، دین خدا کی خیر خواہی اور سنت رسول خدا(ص) کی مدافعت کے لئے ہوتا ہے)(1) مذکورہ بالا مطالب اتنے واضح ہیں کہ ان کی مزید وضاحت کرنا گویا کلام کو طول دینا ہے لیکن لوگ اپنے اپنے معشوق کے سلسلے میں الگ الگ مذاہب کے قائل ہوتے ہیں۔ اور جو کسی چیز سے عشق کرتا ہے تو وہ اس کی آنکھ کو اندھا کرتا ہے۔

صحابہ کے بارے میں اہل سنت کی غفلت کا نتیجہ

ابوزرعہ جیسے لوگوں نے صحابہ کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا ہے اس کی وجہ سے اہل سنت حضرات صحابہ کے چہرے سے نقاب نہ ہٹاسکے اور نہ ہی ثقہ راویوں کو غیر ثقہ سے تمیز دے سکے یہاں تک کہ صحابہ کے بارے میں جرح و تعدیل کا معیار کھو بیٹھے اور مجہول راویوں کی کثرت میں اضافہ ہوگیا اور ان کے حالات پردہ جہالت میں رہ گئے۔ ان حالات کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اب اس دور میں اگر وہ صحابہ کے حالات کی تحقیق کرنا چاہیں اور شبہات سے اپنا دامن بچا کے عقلی طریقہ استدلال حاصل کر کے تقلید محض کے راستے کو چھوڑنا چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے اور عقل و ادراک کی کسوٹی پر صحابہ کے کردار کو اور نہ ہی کوئی ایسے موارد رہے جن پر اعتماد کر کے وہ صحابہ کا صحیح چہرہ دیکھ سکیں اور صدیاں گذرجانے کے بعد بھی نہیں جانچ سکتے اس لئے کہ اب ان کے پاس ان کی بے توجہی کی وجہ سے صحابہ کے صحیح حالات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سیر اعلام النبلاء، ج13، ص682، عبدالرحمن بن حاتم کی سوانح حیات میں۔

۲۸

نہیں رہے وجہ معرفت کے راستے ان کے لئے منقطع ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فرضی وجعلی واقعات پر ڈٹے رہنے پر مجبور ہیں وہ فرضی واقعات کو مقدس خیال کرتے ہیں اور اس کا دفاع کرتے ہیں ان مفروضات کی کمزوریوں سے نظر چراتے ہیں مگر یہ کہ انھیں میں سے کوئی حقیقت پسند، تعصب اور ہٹ دھرمی کی دیواروں کو توڑ کر صحابہ کے کردار کا نقد و تعدیل کے ذریعہ جائزہ لے لے پھر تو اجمالی اور تفصیلی طور سے ان مفروضات کو چھوڑ ہی دے گا۔

اہل سنت کی نظر میں رجال جرح و تعدیل مطعون ہیں

امر دوم:

اہل سنت کی نظر میں جرح و تعدیل کرنے والے مطعون ہیں اور ان پر دو طرح کی طعن کی جاتی ہے:

قسم اول:

طعون خاصہ، جو آحاد افراد کے لئے ہے ہم ان سے کچھ کا مختصرا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ مالک ابن انس( یعنی مالکی مذہب کے بانی) صاحب مذہب

دیکھئے یہ مالک ابن انس ہیں جو ایک مستقل مذہب کے امام ہیں حمید بن اعرج سے روایت کر کے اس کی توثیق بھی کی ہے لیکن جب حمید کے بھائی نے ان پر حملہ کیا اور امام صاحب کو معلوم ہوا کہ وہ حمید کا بھائی ہے تو عجب جملہ فرمایا” اگر میں جانتا کہ حمید بن قیس اس کا بھائی ہے تو ہرگز حمید سے روایتیں نہ لیتا”(1)

ابن المدینی کہتے ہیں: امام مالک نے حمید اعرج کا ذکر موثق لوگوں میں کیا ہے، پھر کہنے لگے اس کے بھائی!( حمید) کو ضعیف قرار دیا “(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، ج5، ص8، تہذیب التھذیب ج7، ص432۔

1۔ تھذیب التھذیب، ج3، ص41۔

۲۹

امام صاحب پر حمید بن قیس کے بھائی نے حملہ کیا تھا تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حمید بن قیس کا اس میں کیا قصور تھا جس کی وجہ سے امام صاحب نے اس سے روایتیں لینا ترک کردیا اور اس بچارے کو ثقہ کہنے کے بعد ضعیف قرار دیدیا۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ابن حجر اسی حمید بن قیس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابن قیس کو ابوزرعہ، احمد بن حنبل، ابوداؤد، ابن خراش، بخاری، یعقوب بن ابی سفیان اور ابن سعد نے ثقہ قرار دیا ہے”(1)

اگر راوی کی جرح کرنے میں لوگوں پر نفسانیات کی حکومت ہوسکتی ہے تو پھر راوی کی توثیق و تعدیل کرنے میں نفسانیات کی حکومت سے بچنے کی ضمانت کیا ہے؟ ابھی آئندہ صفحات میں طعون معاصرین یعنی بعض صحابہ کا دوسرے بعض صحابہ کو طعن کرنے اور ان طعون کے سلسلے میں گفتگو کرتے وقت جو اختلافات مذہب کی وجہ سے ہوۓ ہیں کچھ دوسرے طعون بھی امام مالک کے بارے میں آئیں گے۔

2۔ یحیی بن سعید قطان

یحیی بن سعید قطان نے جب ہمام بن یحیی بن دینار کی جرح کی تو اس جرح کے بارے میں احمد بن حنبل نے کہا کہ” یحیی بن سعید نے اپنی کمسنی کے زمانے میں کوئی گواہی دی تھی جس کو ہمام نے قبول نہیں کیا تھا یحیی بن سعید

اسی وجہ سے ہمام کی جرح کرتے تھے یعنی یہ جرح انتقام کی وجہ تھی”۔(2)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام احمد بن حنبل، یحیی بن سعید پر صریحی طور پر تہمت لگا رہے ہیں کہ یحیی کو حمام سے ناحق دشمنی تھی اب اگر یحیی کسی کی جرح یا تعدیل کرتے ہیں تو ان کی جرح و تعدیل پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تھذیب التھذیب، ج3، ص234۔

2۔ تھذیب التھذیب، ج11، ص61۔

۳۰

3۔ یحییٰ بن معین

ذہبی، یحیی بن معین کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابوعمرو بن عبدللہ نے کہا: ہم نے محمد بن وضاح سے روایت کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ میں نے یحیی بن معین سے امام شافعی کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ ثقہ نہیں ہیں ابن عبداللہ بھی کہتے ہیں کہ ابن معین کے بارے میں یہ صحیح ہے کہ وہ شافعی پر اعتراض کرتے تھے میں کہتا ہوں کہ ابن معین نے ایسا کر کے خود اپنے آپ کو اذیت پہونچائی ہے لوگ شافعی کے بارے میں ان کے قول پر توجہ نہیں دیتے تھے اور نہ ہی معتبر شخصیت کے بارے میں ان کے قول پر کوئی توجہ دیتا تھا ور اسی طرح جب وہ کسی کی توثیق کرتے تھے تو لوگ ناقابل اعتماد سمجھتے تھے لیکن” ان کی جرح و تعدیل کو قبول کرتے ہیں اور بہت سے حفاظ حدیث پر ان کو مقدم کرتے ہیں اور اس وقت تک مقدم کرتے ہیں جب تک وہ اپنے اجتہاد میں جمہور اہل سنت کی مخالفت نہیں کرتے اگر جمہور اہل سنت کسی کو ضعیف سمجھتے ہیں اور وہ انفرادی طور پر موثق یا اہل سنت کسی کو موثق سمجھتے ہیں اور وہ ضعیف ہے تو ایسی صورت میں تمام ائمہ کے قول کو تسلیم کیا جاتا ہے نہ کہ شاذ و نادر اقوال کو۔ ان کا تو ہر آدمی کے بارے میں اقوال بدلتا رہتا ہے اور ان کے بیان سے خطاۓ اجتہادی ظاہر ہوتی ہے جس کے ہم خود قائل ہیں اس لئے کہ وہ بہر حال انسان ہیں معصوم نہیں ہیں بلکہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ انہوں نے شیخ امام شافعی کی توثیق بھی کردی ہے ایک ہی آدمی کے بارے میں ان کا اجتہاد وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور وہ سوال کرنے والے کو کسی بھی آدمی کے بارے میں وقت سوال کے لحاظ سے جواب دیتے ہیں جس کی بنیاد ان کا ذاتی اجتہاد ہوتا ہے”۔

کاش کہ ذہبی نے اسی پر اکتفا کیا ہوتا لیکن وہ آگے چل کے کہتے ہیں” اور امام شافعی کے بارے میں ابن معین کا کلام کسک اجتہاد کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کا بیان ھوای نفس کی وجہ سے زبان کی تیزی اور ان کی عصبیت کا نتیجہ ہے، ابن معین محدث ہونے کے باوجود اپنے مذہب میں غالی حنفیوں میں

۳۱

سے تھے( یعنی انتہا پسند تھے) حافظ ابو حامد بن شرتی لکھتے ہیں کہ یحیی بن معین اور ابو عبید دونوں امام شافعی کے بارے میں برا نظریہ رکھتے تھے خدا کی قسم ابن شرتی نے سچ کہا ہے کہ ان دونوں نے اپنے عالم زمانہ کے بارے میں اپنی ہی ذات کو بگاڑ لیا تھا”(1)

احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ ابن معین نے شجاع سے ملاقات کی تو اس کو “ یا کذاب” یعنی اے جھوٹے! کہہ کر خطاب کیا۔ شجا ع نے برجستہ جواب دیا کہ اگر میں جھوٹا نہیں ہوں تو خدا تجھ کو ذلیل کرے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ابن معین کو شیخ (شجاع) کی بد دعا لگ گئی”۔(2) آئندہ صفحات پر امام احمد کا موقف ابن معین اور ان کے جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں پیش کیا جاۓ گا۔

ابوزرعہ، یحیی بن معین کے بارے میں کہتے ہیں:” ان سے فائدہ نہیں حاصل کیا جاسکا اس لئے کہ وہ لوگوں کے بارے میں خرافات کہتے رہتے تھے”۔(3) اور منقولات ابن حجر میں اسی جیسے اور بہت سے اقوال علی ابن مدینی کی طرف سے ابن معین کے بارے میں وارد ہوۓ ہیں۔(4)

جب ابوالازہر نے فضائل میں عبدالرزاق کی حدیث کو معمر سے روایت کی اور انھوں نے عبید اللہ سے اور انھوں نے

ابن عباس سے اور انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا:” تم دنیا میں سردار ہو آخرت میں سردار ہو” اس حدیث کی خبر یحیی ابن معین کو دی گئی اور اس وقت اہل حدیث کی ایک جماعت ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی تو انھوں نے کہا یہ جھوٹا نیشاپوری کون ہے جو عبدالرزاق سے اس حدیث کو نقل کر رہا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ الرواۃ الثقات، ص29۔31۔

2۔ تھذیب الکمال، ج12، ص386۔ تاریخ بغداد، ج9، تہذیب التہذیب، ج4 ص275۔ سیر اعلام النبلاء، ج9، ص353۔ میزان الاعتدال، ج3، ص364۔

3۔ تہذیب التہذیب، ج11، ص248۔ سیر اعلام النبلاء، ج11، ص90۔

4۔ تہذیب الکمال، ج31، ص550۔ تہذیب التہذیب، ج11، ص248۔

۳۲

ابوالازہر کھڑے ہوگئے اور کہا: وہ نیشاپوری میں ہوں۔ یہ سن کر یحیی مسکراۓ اور بولے مگر تم تو جھوٹے نہیں ہو اور ان کی سلامتی حواس پر خوش بھی ہوۓ۔ پھر کہا اس حدیث کا گناہ اس کے سرجاۓ گا جس نے تم سے یہ حدیث بیان کی ہے”(1)

آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یحیی نے کس طرح ابوالازہر کی تکذیب کر ڈالی پھر اپنے ہی خیال کی تردید کر کے کہنے لگے راوی جھوٹا نہیں، حدیث جھوٹی ہے۔ اور اس جھوٹ کا مرتکب وہ جس نے حدیث تم سے بیان کی ہے۔ یعنی اس کے راویوں پر جھوٹ کی تہمت لگا دی، حالانکہ اس حدیث کے تمام راوی اہل سنت کے اعلام اور ثقہ افراد ہیں اور اگر یہ بھی مان لیا جاۓ کہ ان راویوں کی وثاقت ان کے نزدیک ثابت نہیں تھی پھر بھی حدیث کی تکذیب کو فعل مستحسن نہیں قرار دیا جاسکتا اس لئے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ غیر ثقہ راوی کی ہر روایت جھوٹ ہی ہو۔

شاید ابن معین کے پاس اس حدیث کو تکذیب کرنے کی وجہ یہ ہو کہ یہ حدیث ان کے مذہب اور ان کی خواہش کے مطابق نہیں ہے خصوصا اس حدیث کا آخری حصہ جہاں حضوراکرم(ص) نے فرمایا” تمہارا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے تمہارا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے اور تمہارے دشمن کے لئے ویل ونفرین ہے”(2)

یا اس لئے ابن معین مولا علی علیہ السلام کے فضائل کو برداشت نہ کر پاۓ کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں یا یہ کہ دشمنِ علی علیہ السلام کو دوست رکھتے ہیں۔

جیسے معاویہ، عمرو بن عاص اور ان کے جیسے دوسرے لوگ جنھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی اور علانیہ طور سے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ آپ کو گالیاں دیں اور ان کی بھر پور کوشش یہی رہی کہ نور علی علیہ السلام کو بجھا دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تہذیب التہذیب، ج1، ص10۔ المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔ سیر اعلام النبلاء، ج9،ص575۔ تہذیب الکمال، ج1، ص262۔ تاریخ بغداد، ج4، ص41۔42۔

2۔ المستدرک علی الصحیحین، ج73، ص138۔

۳۳

جب ابن معین کے نزدیک حدیث و راوی کی تکذیب کا یہی معیار ہے جب کہ اس مضمون کی حدیثیں استفاضہ( یعنی کثرت) کی حد تک ہیں تو پھر حدیث و راوی کی تصدیق کا معیار کیا ہوگا؟ خصوصا شیعوں کے لئے جن کے دلوں کو اللہ نے امیرالمومنین کی محبت، ان کے دوستوں سے دوستی، ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کی وجہ سے نورانی کر رکھا ہے۔

4۔ علی بن مدینی

ابن المدینی ابو الحسن علی ابن عبداللہ بن جعفر جن سے بخاری اور دوسرے صاحبان صحاح نے روایت کیا ہے لیکن احمد بن حنبل نے ان کی تکذیب کی ہے(1) اور جھوٹا کہا ہے اور عمرو بن علی نے بھی ان کے بارے میں کچھ کلام کیا ہے۔(2)

ترمذی اپنی سند سے کہتے ہیں کہ: ( ابن داؤد نے معتصم سے کہا اے امیرالمومنین! امام احمد ابن حنبل کا خیال ہے کہ خدا آخرت میں دکھائی دے گا حالانکہ آنکھیں صرف محدود چیز پر ٹھہرسکتی ہیں اور اللہ کی کوئی حد نہیں، معتصم نے کہا پھر تمہارے پاس امام احمد ابن حنبل کی تردید کے لئے کیا دلیل ہے؟ تو ابن داوؤد نے کہ اے امیرالمومنین! میرے لئے

رسولخدا(ص) کا قول ہے۔اس نے پوچھا وہ کیا ہے؟ کہا مجھ سے جریر ابن عبد اللہ کے حوالے سے حدیث بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ ایک بار ہم مہینے کی چودھویں رات میں سرکار دو عالم(ص) کے ساتھ تھے حضرت نے بدر کامل کا غور سے دیکھا پھر فرمایا تم لوگ جس طرح آج چاند دیکھ رہے ہو اسی طرح اپنے رب ذوالجلال کو عنقریب دیکھو گے اور اس کے دیکھنے سے سیر نہیں ہوگے۔ معتصم نے کہا ( یہ حدیث تو امام احمد ابن حنبل کے نظریے کی تائید کرتی ہے) تمہیں اس حدیث میں شک کیوں ہے؟

-----------------------

1۔ تہذیب التہذیب، ج7،ص209۔ تہذیب الکمال، ج21، ص27۔ تاریخ بغداد، ج11، ص458۔

2۔ تہذیب الکمال، ج21، ص22۔ 23۔ سیراعلام النبلاء، ج11، ص52۔ 53۔ تاریخ بغداد، ج11، ص458۔

۳۴

ابن داؤد نے کہا میں اس حدیث کی اسناد پر غور کر رہا ہوں۔ یہ بات تو پہلے دن ہوئی پھر ابن ابی داؤد وہاں سے بغداد چلے آۓ جہا ں علی بن مدینی تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ابن ابی داؤد ابن مدینی کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور بات کرنے سے پہلے ہی دس ہزار درہم دیکے کہا کہ یہ خلیفہ نے آپ کیلئے بھیجا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ آپ کے نان ونفقہ کا ذمہ حکومت کے حوالے ہے یہ دس ہزار درہم ابن مدینی ک دو سال کے لئے کافی تھا پھر کہا اے ابوالحسن رؤیت خدا کے بارے میں جریر بن عبداللہ والی حدیث کیا ہے؟ ابن مدینی نے کہا حدیث تو صحیح ہے۔ پوچھا اس کو غلط قرار دینے کی بھی کوئی گنجائش ہے ابن مدینی نے کہا قاضی صاحب مجھے اس برے فعل سے معاف کیجئے۔ ابن ابی داؤد نے کہا اے ابوالحسن یہ مسئلہ وقت کی ضرورت ہے۔ پھر ابی داؤد نے ابن مدینی کو خلعت اور خوشبو دی نیز زین و لجام کے ساتھ ایک عدد گھوڑا بھی پیش کیا( یہ نوازش دیکھ کر آخر شیخ صاحب پگھل ہی گئے) اور ابن مدینی نے کہدیا کہ اس حدیث کے سلسلہ سند میں ایک ایسا آدمی ہے جس کی روایت پر نہ عمل کرنا چاہئے۔ اور نہ اس سے روایت لینی چاہئے پوچھا وہ کون ہے؟ کہا وہ قیس ابن ابی حازم ہے جو ایک گنوار عرب ہے جو کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے یہ سن کے ابن ابی داؤد نے ابن مدینی کی پیشانی کو بوسہ دیا اور معانقہ کیا جب دوسرا دن ہوا اور لوگ دربار معتصم میں حاضر ہوۓ تو ابن ابی داؤد نے کہا اے امیرالمومنین! رؤیت پروردگار کے ثبوت کے لئے جریر کی حدیث سے استدالال کیا جاتا ہے حالانکہ اس

روایت کو جریر سے قیس بن ابی حازم نے روایت کیا ہے اور وہ ایسا گنوار عرب ہے جو کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے۔(1)

ابوبکر مروذی کہتے ہیں میں نے ابوعبداللہ احمد بن حنبل سے کہا کہ علی ابن مدینی ولید بن مسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عمر کے حوالے سے کہا کہ اس کو اس کے خالق پر چھوڑ دو۔ ابوعبداللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تہذیب الکمال، ج21، ص22۔ 23۔ سیراعلام النبلاء، ج11، ص52۔ 53۔ تاریخ بغداد، ج11، ص458۔

۳۵

نے کہا وہ جھوٹ بولتے ہیں مجھ سے اس حدیث کی روایت ولید بن مسلم نے دوبار کی ہے دونوں بار کہا ہے کہ حدیث اس طرح ہے:

“ اس کو اس کے عالم کے حوالے کردو میں۔ ( ابوبکر مروذی) نے ابو عبداللہ سے کہا کہ عباس عنبری نے جب یہ حدیث عسکر میں بیان کی تو میں نے ابن مدینی سے کہا لوگ اس حدیث میں آپ کا انکار کرتے ہیں کہنے لگے میں نے یہ حدیث تم سے بصرہ میں بیان کی تھی اور یہ بھی کہا کہ ولید نے اس حدیث میں غلطی کی ہے یہ سن کے ابوعبداللہ کو غصہ آگیا کہنے لگے۔ جب مدینی یہ چاہتے ہیں کہ ولید غلط کار ہے تو اس سے حدیثیں کیوں لیتے ہیں؟ ایک غلط کار تو غلط حدیثیں ہی بیان کرے گا”(1)

ابن حجر کہتے ہیں کہ ابراہیم حربی سے پوچھا گیا کیا علی ابن مدینی پر جھوٹ کی تہمت بھی لگائی جاتی تھی؟ کہنے لگے نہیں بلکہ جب وہ حدیث بیان کرتے تھے تو اس حدیث میں اپنی طرف سے کوئی کلمہ اضافہ کردیتے تھے تاکہ ابن داؤد اس سے خوش رہیں۔ پوچھا گیا کیا علی بن مدینی احمد کو برا کہتے تھے؟ ابراہیم حربی نے کہا یہ بات بھی نہیں ہے البتہ جب وہ اپنی کتاب میں احمد سیمروی کی کوئی حدیث دیکھتے تھے تو کہتے تھے اس کو دیوار پر دے مارو، مقصد یہ تھا کہ قاضی ابن ابی داؤد خوش رہیں”۔(2)

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں علی ابن مدینی کا حدیث میں تحریف کرنا محض اس لئے ہے کہ ابن ابی داؤد راضی رہیں کوئی فعل مستحسن نہیں تھا جو ثقہ ہے اس پر طعن کرنا اور اس کی حدیث کو دیوار پر دے مارنا۔ یہ ساری باتیں محض ابن ابی داؤد کی خوشی کے لئے تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان افعال کی موجودگی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تاریخ بغداد، ج11، ص458۔ تہذیب التہذیب، ج7، ص309۔ تہذیب الکمال، ص21، ص26۔27۔ سیرالاعلام النبلاء، ج11، ص55۔

2۔ تہذیب التہذیب، ج7، ص310۔ تہذیب الکمال، ص21، ص26۔29۔ سیرالاعلام النبلاء، ج11، ص57۔

۳۶

علی ابن مدینی کو سراہا نہیں جاسکتا علی ابن مدینی کو ابن داؤد کی خاطر داری اتنی ہی عزیز تھی تو انھیں ابن ابی داؤد کے سامنے ان کی ناپسندیدہ باتون کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہئے تھا یا پھر اپنے گھر بیٹھے رہتے اور ان سے عطایا قبول نہ کرتے( کم سے کم اطاعت مخلوق میں معصیت خالق کرنے سے تو بچ جاتے)۔

عقیلی کہتے ہیں: کہ مجھ سے احمد بن محمد سلیمان رازی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں میں نے ازہربن جمیل سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے ہم یحیی بن سعید القطان کی خدمت میں بیٹھے تھے اس وقت سہل بن حسان بن ابی جروبہ، اور ابن مدینی اور شاذ کوفی اور سلیمان صاحب بصری، قواریری اور سفیان الراس بھی آگئے پھر عبدالرحمن بن مہدی آۓ اور ابو سعید کو سلام کر کے بیٹھ گئے یحیی نے ان سے پوچھا کیا بات ہے میں آپ کے چہرے کو پریشان حال دیکھ رہا ہوں۔ کہنے لگے گزشتہ شب میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی وجہ سے خوف زدہ ہوں۔ یحیی نے کہا خدا خیر ہی کرے گا۔ علی ابن مدینی نے پوچھا ابوسعدی تم نے دیکھا کیا ہے؟

کہنے لگے ہم نے دیکھا کہ اصحاب کا ایک گروہ اوندھا کر دیا گیا ہے یعنی پیٹ کے بل لٹا دیا گیا ہے۔ علی(ع) نے کہا یہ تو بد خوابی ہے عبدالرحمن نے کہا اے علی خاموش ہوجا! بخدا تو بھی انھیں اوندھے لوگوں میں سے ہے۔ علی نے کہا ہاں میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور اللہ کہتا ہے ہم جس کو درازی عمر دیتے ہیں ان کو خلقت کی طرف پلٹا دیتے ہیں عبدالرحمن نے کہا لیکن خدا کی قسم یہ اس اس طرح کا معاملہ تیرے ساتھ نہیں ہے۔

ابن حجر کہتے ہیں میں نے احمد بن حنبل کی کتاب، کتاب العلل ان کے بیٹے کے پاس پڑھی، میں نے ان میں بہت سی حدیثیں دیکھیں جو ان کے باپ احمد نے علی ابن عبداللہ کے حوالے سے لکھی تھیں پھر علی ابن عبداللہ کے اسم کو مٹا دیا گیا تھا اور وہاں لکھ دیا گیا تھا ہم سے ایک آدمی نے بیان کیا پھر پوری حدیث ہی اڑا دی گئی تھی۔ میں نے عبداللہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا میرے والد علی

۳۷

بن عبداللہ کے حوالے سے حدیثیں لکھتے تھے پھر ان کا نام لکھنا بند کردیا حتی ان سے حدیثیں لینا بھی بند کردیا، حضرمی کہتے ہیں مجھ سے عمر بن محمد نے علی بن مدینی کا ذکر کر کے کہا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ” ہم سے مجاہد نے بیان کیا” چھوٹ گیا ہے جس کو صرف اعمش نے لیث بن سلیم سے لے کر روایت کی ہے”(1)

5۔ احمد بن حنبل

امام احمد بن حنبل جرح و تعدیل کے نمایاں افراد میں ایک ہیں اور اہل سنت کے نزدیک ایک مانی ہوئی شخصیت ہیں لیکن بعض لوگوں نے ان کے جرح و تعدیل پر طعن کیا ہے۔

ابوبکر بن ابی حنیفہ نے لکھا ہے کہ یحیی بن معین سے کہا گیا کہ احمد بن حںبل کہتے جتھے کہ علی بن عاصم ثقہ تھے۔ کہنے لگے خدا کی قسم ان کے نزدیک بنام”علی” کوئی محدث ثقہ نہیں تھا اور نہ ان سے کبھی انھوں نے کوئی حدیث لی۔ آج علی ان کی نظر میں ثقہ کیسے ہوگئے؟۔(2)

آپ نے دیکھ لیا کہ ابن معین، احمد کے اوپر صریحا اتہام رکھ رہے ہیں۔ اور ان کی توثیق پر طعن کر رہے ہیں۔ ( احمد بن حنبل کے ثقہ راویوں میں ایک صاحب عامر بن صالح بن عبداللہ زبیری بھی ہیں احمد ان کی توثیق کرتے ہیں جب کہ) ابن معین نے عامر بن صالح کو کذاب کہا ہے۔(3) دار قطنی نے کہا ہے کہ عامر بن صالح متروک ہے۔(4) اور نسائی کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ الضعفاء للعقلی، ج3، ص235۔239۔

2۔ الجرح والتعدیل، ج6، ص198۔ تہذیب التہذیب،ج7، ص304۔ تہذیب الکمال، ج20، ص517۔ تاریخ بغدادی، ج11، ص455۔

3۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج2، ص72۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔ المجروحین لابن حبان، ج2، ص188۔ المغنی فی الضعفاء، ص323۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔ الکاشف،ج1، ص23۔ تہذیب الکمال، ج14، ص46۔

4۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج2، ص72۔ المغنی فی الضعفاء، ص323۔ الکاشف، ج1، ص523۔ تہذیب الکمال، ج14، ص48۔ تاریخ بغداد، ج12، ص236۔

۳۸

ہے۔(1) اور ازدی کہتے ہیں ذاہب الحدیث ہے۔(2) ذہبی کہتے ہیں کہ واہیات بکتا ہے۔(3) ابن عدی کہتے ہیں اس کی حدیثیں ثقات سے چرائی ہوئی ہیں۔(4) ابونعیم کہتے ہیں کہ وہ ہشام بن عروہ سے ممنوعات روایتیں نقل کرتا ہے جو کچھ بھی نہیں ہے۔(5) اس کے بارے میں ابوزرعہ سے پوچھا گیا تو کہنے لگا اکثر قابل انکار حدیثیں بیان کرتا ہے۔(6) ابن حبان نے کہا ہے کہ صحیح افراد سے جعلی حدیثیں بیان کرتا ہے۔ اس کی حدیثوں کو کتاب میں لکھنا جائز نہیں ہے مگر از راہ تعجب و مسخرہ جگہ دی جاسکتی ہے۔(7)

ابن حجر کہتے ہیں: وہ متروک الحدیث ہے۔(8) حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: ہشام بن عروہ سے ممنوعات( وہ روایتیں جن کو نقل کرنے سے روکا گیا ہے) بیان کرتا ہے۔(9) ان تمام باتوں کے باوجود جناب احمد بن حنبل اس کی توثیق کرتے ہیں اور اس سے حدیثیں لیتے ہیں۔ ذہبی نے کہا ہے:” احمد ابن حنبل نے اس شخص سے زیادہ حدیثیں کسی اور کے حوالے سے نہیں بیان کی ہیں اور جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ وہ ثقہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج2، ص72۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، ج5، ص83۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔ تہذیب الکمال، ج14، ص47۔

2۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج2، ص72۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔ تہذیب الکمال، ج14، ص47۔

3۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔

4۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، ج5، ص83۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔ تہذیب الکمال، ج14، ص47۔

5۔ الضعفاء لابی نعیم، ص124۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔

6۔ سئوالات البرذعی، ص426۔

7۔ المجروحین لابن حبان، ج2، ص188۔ الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی، ج2، ص72۔ تہذیب التہذیب، ج5، ص62۔ تہذیب الکمال، ج14، ص47۔

8۔ تقریب التہذیب، ج1، ص287۔

9۔ المدخل الی الصحیح، ص182۔

۳۹

او جھوٹ نہیں بولتا”(1) اس شخص نے علماۓ جرح و تعدیل کے ذہنوں کو بھڑکا دیا ہے گویا ہر نقاد حدیث اس کے بارے میں لکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ چنانچہ احمد بن محمد قاسم نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین نے کہا عامر بن صالح کذاب ہے خبیث ہے خدا کا دشمن ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ میں نے یحیی سے کہا: احمد ابن حنبل تو عامر ابن صالح سے روایت لیتے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم نے اس بوڑھے کو اس کی حیات ہی میں چھوڑ دیا تھا میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے کہنے لگے مجھے حجاج اعور نے بتایا کہ میرے پاس عامر ابن صالح آیا ار میرے حوالے سے کچھ حدیثیں لکھیں جن کی روایت ہشام بن عروہ پھر ابوتمیمہ اور لیث بن سعد سے کی تھی اورہ وہ ( عامر بن صالح) چلا گیا پھر ان حدیثوں کو ہشام سے روایت کرنے لگا۔ یحیی نے یہ بھی کہا کہ احمد ابن حںبل جنون کا شکارہ ہیں جو عامر بن صالح سے حدیثیں بیان کرتے ہیں۔(2)

محمد ابن عقیل بھی کہتے ہیں: مقبلی نے اپنی کتاب “ العلم الشامخ “ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام احمد اپنے فضل و ورع کے باوجود مسئلہ خلق قرآن میں ایسا مبتلا ہوۓ کہ انھوں نے اس مسئلہ کو عقیدہ توحید کے برابر بلکہ اس سے کچھ زیادہ قرار دیدیا پھر لکھتے ہیں وہ ہر اس راوی کی روایت کو رد کردیا کرتے تھے جو اس مسئلہ میں سند کے سلسلے میں خیانت کرتے تھے پھر ان کا تعصب کچھ اور بڑھ گیا اب وہ اس کے بھی تردید کردیا کرتے جو اس مسئلہ میں خاموشی اختیار کرتا( یعنی نہ انکار کرتا نہ اقرار کرتا) ایسے شخص کے بارے میں کہتے فلاں شخص واقفی اور ذلیل ہے وقت کے ساتھ ان کے نظریات میں غلو آتاگیا اور تعصب میں زیادتی ہوتی گئی پھر لکھتے ہیں کہ امام احمد فرماتے تھے میں ایسے شخص سے روایت نہیں لیتا جس نے مسئلہ خلق قرآن میں کسی قسم کا کوئی جواب دیا ہے جیسے یحیی بن معین۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔ الضعفاء، ص323۔

2۔ میزان الاعتدال، ج4، ص17۔الکامل فی ضعفاء الرجال، ج5، ص83۔

3۔ العتب الجمیل علی اہل الجرح والتعدیل، ص130۔

۴۰