فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135078
ڈاؤنلوڈ: 3204


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135078 / ڈاؤنلوڈ: 3204
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ذہبی نے احمد بن حنبل کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ فرماتے تھے جس جس نے خلق قرآن کے مسئلہ میں (میرے خلاف ) جواب دیا ہے اس سے میں روایت ہی نہیں لیتا جیسے یحییٰ اور ابونصر تمار و غیرہ۔(1)

ظاہر ہے کہ جب مسئلہ خلق قرآن سے اختلاف، اما صاحب کی نظر میں کس کی جرح کا سب سے بڑا سب تھا اور اس کی جرح میں امام صاحب اتنی عجلت سے کام لیتے تھے حالانکہ وہ غریب راوی اپنی جگہ پر ثقہ بھی ہوتا تھا تو پھر جو شخص مسئلہ خلق قرآن کے علاوہ دوسرے مسائل میں اگر امام صاحب سے اختلاف رکھتا ہو تو وہ ان جرح سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مثلا صحابہ کی عدالت میں توقف کا مسئلہ۔ ولاۓ اہل بیت اور دشمنان اہل بیت سے عداوت کا مسئلہ، ظاہر ہے کہ امام احمد بن حنبل ان تمام باتوں کے قائل تھے جو ان مسائل میں ان کا مخالف یا متوقف ( یعنی اظہار نظر نہیں کرتا) ہے وہ تو امام صاحب کی جرح سے محفوظ ہی نہیں رہ سکتا ہے۔ پھر وہ لوگ جو ناحق تعدیل میں توقف کرتے ہیں وہ بھی امام صاحب کی جرح سے محفوظ نہیں رہ سکتے اس سلسلے میں مزید ثبوت جنھیں چاہیئے آنے والے صفحا ت میں پیش کروں گا۔ انشائ اللہ۔

6۔ محمد بن یحییٰ ذہلی

محمد بن یحییٰ ذہلی کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں۔ آپ امام، اسلام کے بزرگ اور نیشاپور کے حافظ ہیں خراسان میں علم کی بزرگی انھیں پر منتہی ہوتی ہے یہ ثقہ بھی ہیں محتاط بھی ہیں۔ دیندار بھی ہیں اور سنت کی پیروی کرنے والے بھی ہیں ابوحاتم نے کہا ہے: محمد بن یحییٰ اپنے زمانے کے امام ہیں۔ ابوبکر بن زیاد نے کہا ہے محمد بن یحیی حدیث میں امیرالمومنین ہیں ۔۔۔۔(2)

ان تمام صفات کے باوجود محمد بن یحییٰ صاحب کی ذہنی سطح ملاحظہ فرمائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ میزان الاعتدال، ج7، ص222۔

2۔ تذکرۃ الحفاظ، ج2، ص530۔

۴۱

حسن بن محمد بن جابر کہتے ہیں کہ جب محمد بن اسماعیل بخاری نیشاپور میں تشریف لاے تو محمد بن یحییٰ نے لوگوں سے کہا کہ “ اس شیخ کے پاس جاؤ یہ عالم اور مرد صالح ہے اس سے حدیثیں سنو! لہذا لوگ ان کے پاس جانے لگے اور ان سے حدیثیں سن کر قبول کرتے تھے نتیجہ میں محمد بن یحییٰ کی مجلس میں سناٹا چھا گیا پھر محمد بن یحییٰ امام بخاری سے حسد کرنے لگے اور ان پر اعتراض کرنے لگے”(1)

ابوحامد شرقی کہتے ہیں کہ محمد بن یحییٰ کہا کرتے تھے کہ قرآن کلام خدا ہے اور ہر جہت سے غیر مخلوق ہے چاہے وہ جہاں لے جایا جاۓ۔ جو اس عقیدے کا پابند ہے وہ لفظوں سے مستغنی ہے او قرآن کے بارے میں اس کے علاوہ جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے مستغنی ہے جو قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل ہے وہ کافر ہے اور ایمان سے خارج ہوچکا ہے۔ اس کی بیوی پر طلاق ہے اس سے توبہ کرائی جاۓ اگر توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن مار دی جاۓ اس کا مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جاۓ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاۓ۔ اس مسئلہ پر جو توقف کرتے ہوۓ (نظریہ دیئے بغیر) اور یہ کہتا ہے کہ میں قرآن کو مخلوق کہتا ہوں نہ غیر مخلوق وہ مثل کافر ہے اور جو کہتا ہے کہ قرآن کو جب میں پڑھتا ہوں تو میرے الفاظ مخلوق ہیں ایسا شخص بدعتی ہے اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا نہیں چاہئے اور نہ اس سے بات کرنی چاہئے ہماری مجلس سے اٹھ کے جو محمد بن اسماعیل بخاری کی مجلس میں چلا جاۓ اس کو جھوٹا کہو محمد بن اسماعیل کی مجلس میں بیٹھنے والا اسی کا ہم مذہب ہے۔(2)

حاکم نے کہا میں نے محمد بن صالح بن ہانی سے سنا وہ کہہ رہے تھے میں نے احمد بن مسلمہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے بخاری کی خدمت میں عرض کیا کہ اے ابوعبداللہ یہ آدمی(یعنی ذہلی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تاریخ بغداد، ج2، ص30، تفلیق التعلیق، ج5، ص430۔ 431۔

2۔ تاریخ بغداد، ج2، ص31۔32۔

۴۲

خراسان میں بہت مقبول ہے خصوصا اس شہر میں اور اپنی بات پر بہت بضد ہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا جواب دینے کی صلاحت نہیں رکھتا اب آپ نے کیا سوچا ہے۔ امام بخاری نے اپنی داڑھی پکڑی اور کہا میرے امور خدا کے حوالے ہیں اور بیشک اللہ دیکھنے والا ہے، پالنے والا تو جانتا ہے کہ میں بنشاپور میں فخر و انبساط کے لئے اور اترانے کے لئے نہیں آیا ہوں نہ مجھے ریاست کی طلب ہے میرا نفس وطن کی واپسی پر تیار نہیں ہوتا اس لئے ک وہاں میرے مخالفین کا غلبہ ہے یہ شخص (ذہلی) مجھ سے میری فضیلت کی وجہ سے حسد کرتا ہے یہ فضیلت صرف خدا کا عطیہ ہے پھر کہنے لگے اے احمد کل میں یہاں سے چلا جاؤں گا تاکہ میری غیر موجودگی میں صرف اس آدمی کی حدیثیں لو۔(1)

7۔ جوزجانی

ان کا پورا تعارف ابراہیم بن یعقوب جوزجانی مسعدی ہے۔ ان کے بارے میں ابن حیان لکھتے ہیں یہ حروی المذہب تھے حالانکہ اس کے مدعی بھی نہیں تھے سنت کے بہت سخت پابند تھے اور حدیثوں کے حافظ تھے لیکن کبھی کبھی ان کی شدت پسندی حد سے بڑھ کے تشدد میں بدل جاتی تھی۔(2)

ابن حجر کہتے ہیں: جوزجانی کی جرح کو قبول نہ کرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے اس شخص کی جرح کررہا ہو جس کی اس سے دشمنی ہو اور وہ دشمنی بھی مذہبی اختلاف کی بنیاد پر ہو تو اس کے بارے میں جوزجانی کی جرح نہیں قبول کرنی چاہئے۔ کوئی بھی صاحب عقل اگر تھوڑا سا فکر سے کام لے تو اس کو معلوم ہوجاۓ گا کہ اہل کوفہ کے بارے میں جوزجانی کی راۓ کیوں خراب ہے وجہ یہ ہے کہ جوزجانی شدید ناصبی تھے اور اہل کوفہ شیعہ مشہور ہیں آپ دیکھیں گے کہ کوفہ کی جرح کرنے میں وہ بہت تیز زبان ہیں اور سخت الفاظ استعمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تفلیق التعلیق، ج5، ص434۔

2۔ تہذیب التہذیب، ج1، ص159۔ الثقات لابن حبان، ج8، ص81،82۔

۴۳

کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے قلم کی زد سے اعمش، ابونعیم، عبیداللہ بن موسی اور دوسرے اساطین و ارکان حدیث بھی محفوظ نہیں ہیں۔

میں عرض کرتا ہوں کہ جب جوزجانی صرف تعصب کی وجہ سے ایسے شخص کی جرح کرتا تھا جو جرح کا مستحق نہیں تھا تو پھر کیسے اطمینان کیا جاۓ کہ وہ اپنے اسی تعصب کی وجہ سے ان لوگوں کی تعدیل وتوثیق نہیں کرتا تھا جو اس کے مستحق نہیں ہوتے؟

اس کے علاوہ وہ ناصبی اور امیرالمومنین(ع) سے منحرف بھی تھا جیسا کہ ابن حجر نے اپنے سابقہ کلام میں اس بات کی تصریح کی ہے۔(1)

ابن عدی کہتے ہیں: جوزجانی حضرت علی(ع) کے معاملے میں اہل دمشق کی طرف شدت سے مائل تھا۔(2) دار قطنی کہتے ہیں اس(جوزجانی) کے اندر علی(ع) سے اںحراف پایا جاتا تھا ایک بار اس کے دروازے پر اصحاب حدیث جمع تھے کہ اس کے گھر سے ایک کنیز ایک چوزہ لے کے نکلی تاکہ اس کی ذبح کرے لیکن ذبح کرنے والا نہیں مل رہا تھا تو جوزجانی نے عجیب جملہ کہا: سبحان اللہ آج ایک مرغی ذبح کرنے پر کوئی تیار نہیں ہوتا اور علی نے روز روشن میں بیس ہزار سے بھی زیادہ مسلمانوں کو ذبح کر ڈالا۔(3)

ظاہر ہے کہ جب جوزجانی دشمن علی(ع) اور ناصبی تھا تو وہ منافق بھی ہوا چونکہ احادیث نبوی(ص) سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس موضوع پر ہم آگے بھی گفتگو کریں گے ابھی تو یہ عرض کرنا ہے کہ ایک ناصبی، دشمن علی(ع) کے پاس دین کہاں رہا خصوصا ہم شیعوں کی نظر میں وہ دیندار کیسے ہوسکتا ہے؟ اس لئے کہ ہم شیعیان علی(ع) امیرالمومنین(ع) کے حق کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہمارا دین ہی ولاۓ علی(ع) ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ مقدمہ فتح الباری، ص390۔

2۔ تہذیب التہذیب، ج1، ص159۔میزان الاعتدال، ج1، ص205، الکامل فی ضعفاء الرجال، ج1، ص310، تذکرۃ الحفاظ، ج2، ص549۔

3۔ تہذیب التہذیب، ج1، ص159

۴۴

8۔ ابوحاتم رازی

راویان حدیث کے ایک نقاد ابو حاتم محمد ابن ادریس بھی ہیں ان کے بارے میں ذہبی کے خیالات ملاحظہ ہوں لکھتے ہیں: اگر ابوحاتم کسی کو ثقہ قرار دیں تو ان کے قول سے تمسک کرو اس لئے کہ وہ توثیق نہیں کرتے مگر صرف صحیح الحدیث آدمی کی البتہ اگر وہ کسی کے بارے میں جرح کریں یا یہ کہیں کہ اس کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا تو توقت کرو اور یہ دیکھو کہ اس آدمی کے بارے میں دوسروں نے کیا کہا ہے اگر کسی نے اس کی توثیق کی ہے تو پھر ابوحاتم کی جرح پر توجہ مت دو اس لئے کہ ابوحاتم رجال حدیث پر خواہ مخواہ اعتراض کیا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ حجت جنہیں ہے یا وہ قوی نہیں ہے یا سیس طرح کے الفاظ سے انھیں نوازا ہے۔(1) ذہبی دوسری جگہ لکھتے ہیں جرح و تعدیل کے معاملے میں مجھے ابوزرعہ کی گفتگو بھلی لگتی ہے پتہ چلتا ہے کہ ابوزرعہ اہل خبرہ اور صاحب ورع ہیں جب کہ ابوحاتم جراح ہیں ان کے بیانات باکل ہی ابوزرعہ کے خلاف ہیں۔(2)

9۔ ترمذی

ان کے بارے میں ذہبی نے طعن کی ہے۔ ایک حدیث کے بارے میں جو یحییٰ بن یمان سے مروی ہے بات ہو رہی تھی تو ذہبی نے کہا ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے جب کہ اس کی سند میں تین راوی ضعیف ہیں۔ اس بناء پر ترمذمی کی تحسین سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے اس لئے تحقیق کے وقت اس روایت میں ضعیف راویوں کا غلبہ پایا جاتا ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سیر اعلام النبلاء، ج13، ص360۔

2۔ سیر اعلام النبلاء، ج13، ص81۔

3۔ میزان الاعتدال، ج5، ص493۔

۴۵

ذہبی نے کثیر بن عبدالمزنی کے بارے میں ایک گفتگو میں کہا کہ علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔(1)

مبارکپوری صاحب کہتے ہیں ترمذی کی تحسین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ ان کے اندر تساہل پایا جاتا ہے۔(2) ذہیبی اسماعیل ابن رافع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ متروک ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ ترمذی اصل میں تلبیس ( خلط ملط) کرتے ہیں جہاں وہ لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے ان( اسماعیل بن رافع) کی تضعیف کی ہے۔(3)

میں عرض کرتا ہوں کہ جب امام ترمذی تلبیس فرمایا کرتے تھے تو ان پر کیسے اعتماد کیا جاۓ اور اگر تلبیس نہیں کرتے تھے تو پھر ذہبی پر کیسے اعتماد کیا جاۓ جو ان پر تلبیس کا الزام لگا رہے ہیں۔

10۔ ابن حبان

یہ بھی رجال حدیث کے نقادوں میں سے ہیں۔ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں امام ابوعمرو بن صلاح نے ان کا تذکرہ طبقات شافعیہ میں کیا ہے۔ انھوں نے حدیثوں میں تصرف کر کے فاحش غلطیاں کی ہیں۔ ابوعمر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ وہ بہت وہمی ہیں ان کے کچھ اوہام کی چھان بین حافظ ضیاء الدین نے کی ہے ابواسماعیل انصاری شیخ الاسلام کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن عمار سے ابوحاتم بن حبان کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے میں نے انھیں دیکھا تھا ہم لوگوں نے انھیں سجستان سے نکال دیا تھا ان کے پاس علم تو بہت زیادہ تھا۔ لیکن دین بہت کم تھا ابواسماعیل انصاری کہتے تھے کہ میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تحفتہ الاحوذی، ج2، ص93۔

2۔ میزان الاعتدال، ج7، ص231۔

3۔ میزان الاعتدال، ج1، ص384۔

۴۶

نے عبدالصمد بن محمد سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے والد فرمایا کرتے تھے لوگ ابن حبان کے خلاف تھے اس لئے کہ وہ کہتا تھا نبوت تو صرف علم اور عمل کا نام ہے۔ اس قول کی وجہ سے لوگوں نے اس کو زندیق قرار دے دیا اور اس کا باکل ہی چھوڑ دیا ان لوگوں نے جب اس بارے میں خلیفہ کو لکھا تو خلیفہ نے اس کے قتل کا حکم دیدیا۔(1)

11۔ 12۔ ابن منذہ اور ا بونعیم اصفہانی

ابن حجر نے ابونعیم احمد بن عبداللہ کے بارے میں میں لکھا ہے کہ وہ نمایاں افراد میں بڑے سچے انسان تھے۔ ان کے بارے میں شک کرنے والا بغیر کسی دلیل کے شک کرتا ہے لیکن یہ بھی خدا کی طرف سے ان کی سزا ہے اس لئے کہ وہ ابن منذہ کو غلط کہتے تھے۔ ابن منذہ بھی ابونعیم کے بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ رکیک باتیں کہتے تھے جن کی حکایت میں پسند نہیں کرتا۔ اور دونوں میں سے ہر ایک کا قول دوسرے کے بارے میں قبول نہیں کرتا بلکہ میرے نزدیک دونوں مقبول ہیں۔(2)

میں کہتا ہوں کہ جب ابونعیم محض ذاتی بغض کی بنیاد پر ابن منذہ پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کے جرح و تعدیل پر کیسے اعتماد کیا جاۓ اس لئے کہ جو خواہشات نفس کی سواری کا سوار ہے وہ یقینا ایسا کرے گا پھر ایسے شخص کے مسلم جھوٹ اور صواب و خطا میں تفریق کیسے کیا جاسکتی ہے۔ یہی بات ابن منذہ کے بارے میں کہی جاۓ گی کہ جب ابونعیم اعلم بھی تھے صدوق بھی تھے تو پھر ابن منذہ ان کے بارے میں بغیر دلیل با تیں کر کے خود کو ذلیل ہی تو کررہے ہیں۔ ابن منذہ ابونعیم کے بارے میں ایسی غلط باتیں کرتے ہیں کہا ابن حجر ان کو نقل کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں مزید گفتگو وہاں کی جاۓ گی جہاں بعض معاصرین پر ان کے ہم عصروں کی جرح کا ذکر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ میزان الاعتدال، ج6، ص99۔ تذکرۃ الحفاظ، ج3، ص 921۔922۔

2۔ میزان الاعتدال، ج1، ص251۔ لسان المیزان، ج1، ص201۔

۴۷

13۔ حاکم نیشاپوری

ذہبی نے حاکم نیشاپوری کے بارے میں جرح کی ہے۔ ابن قتیبہ کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں عبداللہ مسلم ابن قتیبہ ابومحمد بہت سی کتابوں کے مصنف اور بڑے سچے انسان تھے۔

خطیب نے کہا ہے: دیندار اور فاضل تھے۔ حاکم نے کہا ہے: امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قتیبی بڑا جھوٹا ہے۔ میں کہتا ہوں: یہ بہت گندی بات اور بکواس اور ایسے شخص کا کلام ہے جس کے دل میں خوف خدا نہیں ہے۔(1)

ان کے بارے میں اسی لئے حاکم نے کہا ہے کہ “ یہ کھلی بکواس اور ورع کی کمی کا نتیجہ ہے میں نے تو اس قول سے پہلے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ قتیبی جھوٹا ہے بلکہ خطیب نے کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے” مجھے احمد بن سلامہ نے حماد حرانی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے سلفی سے سنا کہ وہ حاکم کے اس قول پر معترض تھے کہ “ ابن قتیبہ

سے روایت جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں” قتیبہ توثیقات میں سے اور اہل سنت ہیں۔

پھر کہتے ہیں: لیکن حاکم نے محض اختلاف مذہب کی وجہ سے قتیبہ پر اعتراض کیا ہے۔(2)

ابن حجر کہتے ہیں: ابن قتیبہ سلفی کا؟!” مذہب کے باعث اختلاف” سے مقصد ناصبی ہونا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ابن قتیبہ اہل بیت(ع) سے منحرف تھا اور حاکم اس کی ضد تھے۔(3)

14۔ ابن حزم

ابن حزم کے بارے میں ابن خلکان نے کہا ہے: وہ علماۓ متقدمین پر بہت اعتراض کرتے تھے کوئی عالم بھی ان کی زبان کے ڈنک سے محفوظ نہیں رہا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے دل ان سے متنفر ہوگئے اور وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ میزان الاعتدال، ج4، ص198۔

2۔ سیراعلام النبلاء، ج13، ص299۔

3۔ لسان المیزان، ج3، ص358۔

۴۸

اپنے وقت کے فقہاء کے اعتراض کے اعتراض کا ہدف بن گئے لوگ ان سے بغض رکھنے لگے اور ان کے قول کی تردید کرنے لگے لوگوں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کردیا کہ وہ گمراہ ہیں اور ان کو برا کہنے لگے۔ ابولعباس بن العریف جن کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ہے کہا کرتے تھے: ابن جزم کی زبان اور حجاج بن یوسف کی تلوار بھائی بہن ہیں۔ یہ بات انہوں نے اس لئے کہی تھی کہ ابن حزم ائمہ پر بہت کثرت اور شدت سے اعتراض کرتے تھے۔(1) ابن حزم نے ترمذی کے بارے میں کہا کہ وہ مجہول ہیں اس کے جواب میں ذہبی کہتے ہیں: ابو محمد بن حزم کے اس قول پر توجہ نہیں دینی چاہیئے جو انہوں نے اپنی کتاب الایصال میں فرائج بیان کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ترمذی مجہول ہیں اصل میں ابن حزم ترمذی کی معرفت نہیں رکھتے شاید انہیں ترمذی کی دو کتابیں العلل اور جامع دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔(2) ترمذی کے بارے میں ابن حزم کے مذکورہ قول پر تعقیب کرتے ہوۓ ابن حجر لکھتے ہیں:ترمذی کے بارے میں ایسی بات کہہ کے ابن حزم نے اپنی ہی جہالت کا اعلان کر دیا یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ممکن ہے کہ ابن حزم، ترمذی کو نہ جانتا ہو اور ان کے حفظ و تصانیف سے نا واقف ہو اس لئے کہ اس آدمی نے امت کے مشہور حفاظ و ثقات کے بارے میں بھی بات کہی ہے اور یہی عبارت دہرائی ہے. جیسے ابوالقاسم بغوی، اسماعیل بن محمد بن صفار. اور ابو العباس الصم جیسے لوگ ( ان کے بارے میں بھی ان سے یہی بکواس ہے).

ابن حزم کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں: ابن حزم ائمہ کو خطاب کرنے میں ادب کا لحاظ نہیں رکھتا تھا بلکہ گندی عبارتوں، گالیوں اور لڑنے جھگڑنے پر اتر آتا تھا اس کو ابھی اس کے عمل کے اعتبار سے ملی ائمہ کی جماعت نے اس کی کتابوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اس کو چھوڑ دیا اور اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ وفیات الاعیان، ج3، ص327۔

2۔ میزان الاعتدال، ج6، ص289۔

۴۹

سے نفرت کرنے لگے ایک مرتبہ اس کی کتابیں بھی جلا دی گئیں. ابوبکر بن عربی نے علی بن محمد کے بارے میں کتاب القواصم والعواصم کے حاشیہ پر لکھا ہے ابن حزم نے نشو نما پائی. شافعی مذہب سے اس کا تعلق تھا پھر خود کو داؤد سے نسبت دی اس کے بعد سب کو چھوڑ چھاڑ کے صرف اپنے نظریات پر مستقل ہوگیا اور خود کو تمام اماموں کا امام سمجھنے لگا کبھی اپنی ری کو خود ہی وضع کرتا کبھی مرتفع کرتا خود ہی فیصلے کرتا خود ہی شریعت بناتا، دین خدا کی طرف ایسی باتوں کی نسبت دیتا جس کا دین خدا سے کوئی تعلق نہیں علماء کے خلاف ایسی باتیں کہتا جس کا کوئی عالم بھی قائل نہیں تھا مقصد یہ تھا کہ اس باتوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں علماء سے نفرت پیدا ہوجائے. ابوالعباس ابن عریض کہتے ہیں کہ ابن حزم کی زبان اور حجاج بن یوسف کی تلوار حقیقی بہنیں تھیں.

ابن حجر اس کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کے حافظہ میں بڑی وسعت تھی مگر یہ کہ اپنے حافظہ پر بھروسہ کر کے تعدیل و تجریج اور راویوں کے ناموں کے بارے میں وہ خوش فہمی کا شکار ہوگیا. اور لوگوں پر حملے کرنے لگا اس کو برے اوہام نے گھیر لیا. یہاں تک کہ اندلس کے مورخ ابومروان ابن حبان کہتے ہیں : لوگوں کے دلوں میں ابن حزم کی طرف سے بڑھتے ہوئے بغض کا سبب یہ تھا کہ اس کا بنی امیہ کی طرف جھکائو تھا وہ بنی امیہ کے گذشتہ اور موجود افراد سے بھی شدید محبت کرتا تھا اور ان کی امامت کو صحیح جانتا تھا یہاں تک کہ لوگ اس کو ناصبی کہنے لگے. اس کی دشمنی علم یقین کی آگ سے بھی زیادہ روشن ہے.(1)

15. ابن جوزی

ابن جوزی کا پورا نام ابوالفرج عبد الرحمن ے. ابن اثیر، ابن جوزی ابوالفرج عبد الرحمن کے بارے میں کہتے ہیں : لوگوں پر کثرت سے اعتراض کرتا تھا خصوصا ان علماء پر جو اس کے مذہب کے خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1. لسان المیزان، ج4، ص198. 200. علی بن احمد سعید بن حزم کے احوال میں.

۵۰

تھے.(1) اور اس کے بارے میں ابوالفداء کہتے ہیں: وہ علماء پر کثرت سے اعتراض کرتا تھا.(2) ذہبی کہتے ہیں: ابن جوزی کی تالیفات میں کثرت سے اوھام ہیں اس نے جلدی جلدی میں جو سمجھ میں آگیا لکھ دیا اور پھر دوسری تصنیف کی کوشش کرنے لگا.(3)

سیوطی لکھتے ہیں: ابن جوزی نے اپنی کتاب میں ایسی حدیثیں بھر دی ہیں جن کی وضع پر تو کوئی دلیل نہیں لیکن وہ حدیثیں ضعیف ہیں. بلکہ ان میں کچھ حسن اور صحیح حدیثیں بھی ہیں تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ایک حدیث صحیح مسلم سے بھی ہے جیسا کہ میں عنقریب وضاحت کروں گا. ذہبی کہتے ہیں : ابن جوزی اپنی کتاب میں اکثر حسن اور قوی حدیثوں کو جعلی حدیثوں کی فہرست میں ڈال دیتا ہے.(4)

سیوطی ابن جوزی کے بارے میں مزید فرماتے ہیں! تاریخ کبیر میں کہا: ابن جوزی کا حافظ صنعت کے اعتبار سے قابل تعریف نہیں ہے. بلکہ اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ ان کے حافظہ میں اطلاعات کی کثرت ہے اور انہوں نے بہت کچھ جمع کر رکھا ہے.(5) اسی طرح کے کلمات ابن جوزی کے بارے میں اکثر لوگوں نے لکھے ہیں.

16. ذہبی

جوزی کی طرح امام ذہبی نے بھی تعصب میں مشہور ہیں ان کو اہل بیت(ع) اور ان کے ساتھیوں (شیعوں) سے خاص تعصب ہے آپ کا اسم گرامی محمد بن احمد بن عثمان ہے. ذہبی میزان الاعتدال اور سیر اعلام

...............................................

1. الکامل فی التاریخ، ج10، ص276، سنہ597ء، کے واقعات میں.

2. المختصر فی اخبارالبشر، ج3، ص101، سنہ597ئ کے واقعات میں.

3. تذکرة الحفاظ، ج4، ص1347، ابن جوزی کے حالات میں.

4. تدریب الراوی، ج1، ص278.

5. طبقات الحفاظ، ص480.481، ابن جوزی کے حالات میں.

۵۱

النبلاء جیسی مشہور اور جلیل القدر کتابوں کے مئولف ہیں اہلسنت کے نزدیک بڑے جلیل القدر اور واجب التعظیم ہیں، ان کی حدیثوں سے اہل سنت احتجاج بھی کرتے ہیں ان تمام فضائل کے باوجود زیادہ تر لوگوں نے ان کے تعصب کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس درجہ ان پر طعن کی ہے جس کو دیکھتے ہوئے ان کی جرح و تعدیل پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.

ذہبی کے بارے میں سبکی کے خیالات

ان کےشاگرد رشید سبکی فرماتے ہیں: انصاف یہ ہے کہ ہمارے استاد کے بارے میں جو کہا جاتا وہ ان سے بالاتر ہیں. اور سچائی اس بات کی مستحق ہے کی راستہ چلنے والا اس کو ترجیح دے( حق تو یہ ہے کہ) ہمارے استاد ذہبی حنبلی مذہب کی طرف بہت زیادہ مائل تھے اپنے دور کے اہل سنت کو بہت تنگ کرتے تھے ان کے نیزہ قلم کا نشان ابوالحسن اشعری تھے اس لئے کہ اہل سنت کے قافلے کے رہنما و سردار تھے یہی وجہ ہے کہ ذہبی نے اہل سنت کے کسی عالم کی سوانح حیات نہیں لکھی اور نہ انہیں کبھی خیر سےموصوف کیا مگر یہ کہ جب وہ بالکل مجبور ہوگئے تو انہوں نے تاریخ کبیر جیسی کتاب لکھی اور کیا عمدہ کتاب لکھی ہے کاش ان کے اندر تعصب نہ ہوتا.(1)

پھر وہی سبکی آگے بڑھ کے لکھتے ہیں:

اس طرح کے لوگوں میں ایک ہمارے استاد ذہبی بھی ہیں علم بھی رکھتے ہیں صاجب دیانت بھی لیکن اہل سنت پر افراطی حملے کرتے ہیں لہذا ان پر اعتماد کرنا روا نہیں ہے.

میں نے حافظ صلاح الدین خلیل بن کیکلدی علائی کی ایک تحریر سے یہ عبارت نقل کی ہے جو ذہبی کی حیثیت پر نص کرتی ہے لکھتے ہیں شیخ حافظ شمس الدین ذہبی کے دین و ورع اور شرافت جو لوگوں کے درمیان مشہور ہے اس میں کوئی شک نہیں کرسکتا، لیکن ان پر مذہب اثبات کا غلبہ ہے تاویل ہیں

.......................................................

1.طبقات الشافعیتہ الکبری، ج9، ص301، 104، محمد بن احمد بن عثمان بن قاہماز کے واقعات میں.

۵۲

سے متنفر ہیں اور تنزیہ سے غافل ہیں ان کے نظریوں کا شدید اثر یہ ہوا کہ وہ اہل تنریہ سے بالکل منحرف اور اہل اثبات کی محبت میں دیوانے ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ اگر وہ اہل اثبات میں سے کسی کے حالات زندگی لکھتے ہیں تو اس کے اوصاف کو تفصیل سے لکھتے ہیں اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اس کی غلطیوں سے غفلت برتتے ہیں اور تا امکان ان کی تاویل کرتے ہیں لیکن اگر وہ اہل تنزیہ میں سے کسی کے بارے میں کہتے ہیں تو اس کی معمولی باتوں کو بھی پکڑ لیتے ہیں جیسے امام الحرمین اور غزالی وغیرہ. ایسے لوگوں کے صفات کو کم کر کے لکھتے ہیں اور ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے طعن کی ہے ان کے اقوال کثرت سے نقل کرتے ہیں. پھر انہیں اقوال کو دوبارہ لکھتے ہیں اور وضاحت سے لکھتے ہیں مشکل یہ ہے کہ ایسی غلطی کو وہ ان کا دین سمجھ لیتے ہیں اور اس کے دین کو سمجھ نہیں پاتے، خوبیوں سے اعراض کرتے ہیں چاہے جتنی روشن ہوں لیکن وہ ان کو بیان نہیں کرتے. اپنے مخالف مذہب کی اگر چھوٹی غلطی بھی پکڑ لیتے ہیں تو فورا اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، ہمارے ہم عصروں کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے اگر کسی حالات کو وہ نہیں لکھ پاتے جب بھی اپنے نوک قلم سے ایک زخم لگا ہی دیتے ہیں اور یہ لکھ دیتے ہیں کہ خدا اس کی اصلاح کرے ان تمام باتوں کا سبب صرف مذہبی اختلاف ہے. ہمارے استاد ذہبی کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے حقیقت اس سے کچھ زیادہ ہی ہے وہ ہمارے شیخ اور ہمارے معلم ہیں لیکن حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے. ہمارے شیخ تعصب کی ان حدوں کو پہونچے ہوئے ہیں کہ ان کی حالت دیکھ کر ہنسی آتی ہے. کبھی کبھی وہ اظہار تعصب میں مسخرے لکھتے ہیں. میں ان علماء مسلمین سے خوف زدہ ہوں جنہوں نے ہم تک شریعت نبویہ پہونچائی ہے چونکہ قیامت کے دن شیخ ذہبی سے اپنا حساب ضرور لیں گے ان میں سے اکثر اشعری ہیں اور ہمارے شیخ کی حالت یہ ہے کہ جب کسی اشعری پر قلم اٹھاتے ہیں تو ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیتے ہیں میرا عقیدہ ہے کہ یہ علماء قیامت

۵۳

کے دن اس پروردگار کی بارگاہ میں ان سے مخاصمت کریں گے جس کی عدل پرور بارگاہ میں ان علماء کا ادنی بھی شیخ ذہبی سے کہیں زیادہ وجاہت رکھتا ہے میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے شیخ کے ساتھ نرمی برتے اور ان علماء پر الہام کردے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور اس معاملے میں ان کی شفاعت کریں.

جہاں تک مشائخ کا سوال ہے تو ان حضرات نے ان کی گفتگو پر غور کرنے سے منع کیا ہے. اور ان کے قول پر اعتبار کرنے سے روکا ہے ان کی تاریخی کتابوں میں سے صرف ان واقعات اور ان عبارتوں کو نقل کرنے کی اجازت دی ہے جن کو پڑھ کے ان پر عیب نہ لگایا جاسکے.

جہاں تک شیخ علائی کے قول کی بات ہے تو وہ مارے شیخ کے دین، ورع اور شرافت کے قائل ہیں لہذا ہمارا بھی اعتقاد یہی ہے اور جب میں ان کے قلم سے علماء پر حملے کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوٹ کہ شاید انہیں باتوں کو وہ دین سمجھتے ہوں حالانکہ انہوں نے جو لکھا ہے ان میں سے کچھ باتوں کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ ہے اور وہ بھی جھوٹ سمجھتے تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے وہ باتیں وضع نہیں کی ہیں. اسی طرح مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی کتاب میں ایسی باتیں لکھتے ہی اس لئے تھے کہ ان کی شہرت ہوجائے. اور مجھے یقین ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ ان ان باتوں کو سننے والا ان کی صحت پر یقین کرے محض اس لئے کہ جس کے بارے میں وہ بات کر رہے ہیں اس سے بغض ہے اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ان سے نفرت کریں. جالانکہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کس کے بارے میں جو الفاظ استعمال کررہے ہیں ان الفاظ کے مدلِّلات کیا ہیں؟ ان کی نیت بس یہ تھی کہ وہ اپنی اس تیزی قلم سے اپنے مذہب کی نصرت کررہے ہیں حالانکہ وہ علم شرعیہ سے واقف بھی نہیں تھے.

۵۴

اب رہ گئی ان کی شرافت اور علم کی باتیں تو ان کے مرنے کے بعد جب مجھے ان کے کلام کو دیکھنے کی ضرورت ہوئی بھی تو غور کرنے کے بعد پتہ چلا کہ شیخ علائی نے ان کی شرافت نقس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے سب ڈھول کا پول ہے میں ان کے کلام کا حوالہ دئیے بغیر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا لہذا پہلے ان کے کلام کو دیکھتے اور جو چاہے ان کے قلمی کاناموں کو دیکھ سکتا ہے پھر ان کے کلام کو دیکھنے والے سے میرا ایک سوال ہے کہ کیا جب انسان غضبناک ہوتا ہے تو آپ کو شریف لگتا ہے یا غیر شریف؟ میرا مطلب ہے کہ پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ وہ غضبناک کب ہوتے ہیں وہ غضبناک اس وقت ہوتے ہیں جب اپنے مذہب کے خلاف ان تین مذاہب یعنی حنبلی، شافعی اور مالکی والوں کے بارے میں کچھ لکھنا شروع کرتے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ شخص جب ان میں سے کسی کے بھی حالات زندگی کو لکھنے لگتا ہے تو اس پر شدید غضب طاری ہوتا ہے اس کے باوجود وہ فرط غضب میں الفاظ کے معنی بھول جاتا ہے نتیجہ مقام ذم میں جو الفاظ وہ استعمال کرتا ہے اگر اس کے معنی سے باخبر ہوتا ہرگز استعمال نہیں کرتا.

مثال کے طور پر فخرالدین رازی کو لیجئے مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ذہبی نے فخرالدین رازی کا نام ضعفاء کی فہرست میں لکھا ہے. اسی طرح سیف آمدی کا نام بھی ضعفاء کی فہرست میں ہے جب میں ان کے نام ضعیف راویوں کی فہرست میں دیکھا تو سوچا کہ یہ دونوں راوی کب سے ہوگئے جب کہ ان غریبوں نے کبھی کوئی روایت بیان نہیں کی نہ کسی نے ان پر جرح کی اور نہ میں نے یہ سنا کہ کسی نے ان کو ان علوم میں ضعیف قرار دیا ہو جو ان سے نقل کئے جاتے ہیں. پھر اس کتاب میں اس کی گنجائش کہاں سے نکل گئی. پھر میں نے کسی کو نہیں دیکھا فخرالدین رازی کو فخر کے نام سے پکارے یا لکھے کیونکہ لوگ ان کو یا امام رازی لکھتے ہیں یا ابن خطیب لکھتے ہیں. جب ان کا ترجمہ ( سوانح) کوئی لکھتا ہے تو انکا نام محمدین کی فہرست میں لکھا جاتا ہے مگر ہمارے شیخ نے ان کا نام(ف) کی فہرست میں لکھ کے فخر کے نام سے یاد کیا ہے.

۵۵

پھر ہمارے شیخ اپنی کتاب کے آخر میں قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میں نے اس میں ہوائے نفس اور تعصب کو دخیل بنایا ہے. میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑی ہوائے نفس کیا ہوگی؟ ہونا یہ چاہئے تھا کہ یا تو وہ اپنے قلم کو قابو میں رکھتے یا ان کا تذکرہ ہی نہ کرتے. اب تو ان سے پوچھا جائے گا آپ نے غیر رواۃ کا تذکرہ کیوں کیا؟ یا پھر یہ سمجھ لوں کہ آپ کی یہ حرکت ہوائے نفس کا تقاضا نہیں ہے؟ ظاہر ہے شیخ جی جب اس حد تک پہونچ چکے ہیں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ العیاذ باللہ ان کے دل پر ( تعصب) کی مہر لگی ہوئی ہے.(1)

سبکی مزید لکھتے ہیں : لیکن ہمارے استاذ ذہبی کی تاریخ ( خدا انہیں معاف کرے) اپنے حسن اور جمال میں ان کا جواب نہیں رکھتی لیکن اس کے اندر تعصب کی افراط ہے. کاش خدا ان کو گرفتار نہ کرے.اس لئے کہ اس تاریخ میں انھوں نے اہل دین پر کثرت سے حملے کئے ہیں اہل دین سے میری مراد وہ فقہاء ہیں جو اللہ کی مخلوقات میں درجہ اصطفے پر فائز ہیں شیخ نے شافعی اور حنفی اماموں پر بڑی زبان درازیاں کی ہیں اور پھر اشاعرہ پر کثرت سے حملہ کر کے مجسمہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں.

سوچئے جب اتنے بڑے حافظ اور نمایاں امام کا یہ حال ہے تو عام مورخین کے بارے میں کیا کہا جائے. یہی ہے کہ مورخین کی طرف سے کی گئی مدح یا ذم کو قبول نہ کیا جائے.

مگر اس شرط کے ساتھ جو امام الائمہ، حبر الامتہ شیخ امام والد ماجد نے لگائی ہے. میں نے ان کے دست مبارک سے یہ عبارت ان کے مجامع میں دیکھی ہے وہ لکھتے ہیں : میں ذہبی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے کرتے اس وقت فکر کرنے پر مجبور ہوگیا جب شیخ ذہبی موفق ابن قدامہ حنبلی کے حالات بیان کرنے لگے اور پھر فخرالدین بن عساکر کے بارے میں گفتگو شروع کی انھوں نے

........................................

1.طبقات الشافعیہ الکبری، ج2، ص13. 15 عنوان جرح و تعدیل میں ایک قاعدہ! احمد بن صالح کی سوانح سے متعلق

۵۶

قدامہ حنبلی کے حالات کو بہت طول دیا اور فخر رازی کے حالات میں کوتاہی کردی. کوئی بھی صاحب عقل ذہبیی کی اس چالاکی کو سمجھ سکتا ہے اس طویل و تقصیر کی بنیاد مذہبی اختلاف ہے ان میں سے ایک حنبلی ہے تو دوسرا اشعری. سب کے سب خدائے عالمین کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا حساب دینے والے ہیں.

سبکی نے کچھ اور باتیں کی ہیں لیکن ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہے.

ذہبی کے بارے میں قنوجی اور سخاوی کیا کہتے ہیں

سخاوی کہتے ہیں : حافظ شام ابن ناصرالدین نے ذہبی برزالی اور مزی کا ایک تقابلی جائزہ لیا پھر یہ فیصلہ دیا ہے کہ صدر اول کے رجال کے بارے میں مزی کو تفوق حاصل ہے برزالی دونوں زمانے کے رجال اور اپنے ماضی قریب کے رجال کے بارے میں اچھی معرفت رکھتے ہیں. جب کہ ذہبی دونوں زمانے کے درمیان متوسطین کے بارے میں اچھی معرفت رکھتے ہیں اور ان بعض مشائخ نے اس معاملے میں ان کی تائید کی ہے.

لیکن برزالی اور مزی پر جب لوگوں کی سوانح بیان کرتے ہیں تو ہوائے نفس کا غلبہ کم ہوتا ہے جب کہ ذہببی کا معاملہ اس کے خلاف ہے. حافظ مرابط محمد بن عمر غرناطی اور تاج ابن سبکی نے ذہبی پر بڑی سخت تنقید کی ہے اور لوگوں کے حالات بیان کرنے کے بارے میں ان پر سخت اعتراض کیا ہے ان دونوں نے ان کی طرف سخت تعصب کو منسوب کیا ہے اور ان کی تحریر سوانح اس تعصب سے کہیں خالی بھی نہیں ہے خصوصا جب وہ حشویہ اور ان کے مخالف افراد کے حالات بیان کرتے ہیں( تو تعصب میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں).

اب قارئین غور کریں کہ جب اہل سنت افراد امام ذہبی کے ہم مذہب ہیں ان کے بارے میں ذہبی کا یہ حال ہے تو شیعہ تو ان کے مذہب کے خلاف ہیں ان کے بارے میں انھوں نے کیا کیا نہیں لکھا ہوگا چو ان کی کتابوں کو دیکھے گا اس

۵۷

پر ان کا ناصبی ہونا واضح ہوجائے گا ویسے ہم بھی اس بات کے کچھ شواہد آنے والے صفحات میں پیش کریں گے. انشاء اللہ.

طعون عامہ کے بارے میں گفتگو کے دوران گذشتہ افراد کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں پر بعض افراد کی طعن آئے گی.

القسم الثانی

قسم دوم وہ طعون عامہ جن کی وجہ سے اہل سنت کے تمام ارباب جرح و تعدیل کی وثاقت سلب ہوجاتی ہے اس لئے کہ ان طعون کی وجہ سے سب کا حال ایک جیسا ہے.

معاصرین ایک دوسرے پر طعن کرتے ہیں

اہل سنت کے علماء اپنے معاصرین پر کھل کے طعن کرتے تھے گویا انھوں نے اس کو اپنا دستور بنالیا تھا. گذشتہ صفحات میں آپ نے دیکھا کہ حسن بن محمد بن جابر بن یحیی ذہلی نے محض حسد کی بناء پر امام بخاری پر کیسے کیسے اعتراض کئے. ابن حجر کے مطابق ابو نعیم صرف ہوائے نفس کی وجہ سے ابن منذہ پر طعن کرتے تھے اور ابن منذہ بھی ابونعیم کے بارے میں اتنی فحش باتیں کرتے تھے کہ جن کا ذکر مناسب نہیں ہے ان تمام باتوں کے باوجود دونوں بزرگوار ابن حجر کے نزدیک مقبول ہیں ابن حجر نے اپنی اس گفتگو کے آخر میں لکھا ہے کہ اگر علماء اپنے معاصرین پر اعتراض کرتخ ہیں تو اس اعتراض پر توجہ نہیں دینی چاہئے خصوصا جب یہ معلوم ہو کہ یہ طعن عداوت، حسد، یا اختلاف مذہب کا نتیجہ ہے. اس لئے کہ ان کمزوریوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کی اللہ حفاظت کرے. میرا خیال ہے کہ کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں علماء نے اپنے معاصرین پر تنقید نہ کی ہو انبیاء اور صدیقین کی بات دوسری ہے تم اگر چاہو تو اس طرح کے واقعات سے دفتر کا دفتر پر کرسکتے ہو. یہی ابن حجر، عمر بن علی کے بارے میں لکھے ہیں کہ علی ابن مدینی نے علی ابن عمر پر حملے کئے.

۵۸

حاکم کہتا ہے کہ عمرو بن علی بھی ابن مدینی کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے حالانکہ خدا نے دونوں کو ایسا جلیل القدر مرتبہ دیا جو ان کے باہمی الزامات سے بہت بلند ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاصرین علماء جب اپنے ہم عصر افراد کے بارے میں باتیں کریں تو اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ جو بات مفسر کے عنوان سے نہ ہو اس کے بیان میں کوئی ضمانت نہیں ہے.

ذہبی فرماتے ہیں: اقران ( معاصر) تو ایک دوسرے پر اعتراض کرتّے رہتے ہیں اس سلسلے میں کافی مواد موجود ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اسے مختصر کرتے ہوئے روایت نہ کی جائے بلکہ ترک کردیا جائے اور طعن و تشنیع کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور آدمی کا معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہونا چاہئے.

ابن ابی دائود وہ بزرگ ہیں جو غدیر خم کی حدیث پر معترض ہیں. صرف اتنا ہی نہیں.(1) بلکہ اس حدیث کے منکر ہیں.(2) ذہبی، ابن ابی دائود کے باپ ہیں ان کے سلسلہ میں لکھتے ہیں احمد بن یوسف ارزق کہتے ہیں. میں نے ابوبکر ابن ابی دائود کو کہتے سنا کہ تمام لوگ ہمارے ہم مشرب ہیں سوائے اس کے کہ لوگ مجھے بغض علی کا الزام دیں.

حافظ بن عدی کہتے ہیں شروع شروع میں ابن ابی دائود کی طرف عداوت کی نسبت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ابن فرات نے انھیں بغداد سے نکال کر واسط بھیج دیا لیکن ابن عیسی نے ان کو واپس کردیا جس کی وجہ سے ابن ابی دائود فضائل علی(ع) میں حدیثیں بیان کرنے لگے( میں حافظ بن عدی کہتا ہوں کہ ابن ابی دائود) بڑے دل، گردے کے آدمی تھے اور ابن ابی دائود، و ابن

...............................

1.سیر اعلام النبلاء، ج14، ص274، محمد بن جریرکی سوانح حیات میں. تذکرة الحفاظ، ج2، ص713، محمد بن جریر بن یزید بن کثیر کی سوانح حیات میں.

2. معجم الادبائ، ج18، ص84، محمد بن جریر طبری کے احوال میں.

۵۹

جریر اور ابن صاعد و ابن عیسی کے درمیان جنھوں نے ابن دائود کو اپنا مقرب بنا رکھا تھا

اختلافات پیدا ہوگیا نتیجہ میں ابن جریر ان کے پیچھے پڑ گئے اب مجمد بن عبد اللہ قطان کہتے ہیں کہ میں ابن جریر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے کہا اب تو ابن ابی دائود لوگوں کے درمیان فضائل علی(ع) بیان کررہے ہیں تو ابن جریر نے کہا ابن دائود کی آواز اصل میں چوکی دار کی تکبیر ہے (یعنی ریا کاری ہے) میں ( حافظ بن عدی) کہتا ہوں ابن جری کا اعتراض

قابل توجہ نہیں ہے اس لئے کہ ابن ابی دائود اور ابن جریر میں عداوت تھی.(1)

ذہبی پھر کہتے ہیں

ابن ابی دائود ( قدوة المحدثین حافظ ابوبکر عبداللہ حافظ کبیر ابو دائود کے فرزند) لیکن مجھے نہیں معلوم ان کے باپ نے ان میں کیا دیکھا کہ جھوٹا کہہ دیا میں نے علی ابن عبداللہ بن داہری سے سنا ہے کہ انہوں نے محمد بن احمد بن عمرو سے انہوں نے علی بن حسین بن جنید سے انہوں نے ابو دائود سے سنا کہ میرا بیٹا عبد اللہ کذاب ہے. پھر ابن عدی کہتے ہیں کہ ابن صاعد کہا کرتے تھے ابن دائود کے بارے میں ہم لوگوں کے لئے اس کے باپ کا قول ہی کافی ہے میں کہتا ہوں ابن صاعد کے قول پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے جس طرح ابن دائود جب ابن صاعد کی تکذیب کرتا ہے تو ہم اس کو قبول نہیں کرتے. اسی طرح معاملے میں ابن جریر کا قول بھی ناقابل اعتبار ہے اس لئے کہ ان حضرات کے اندر ایک دوسرے سے عداوت تھی. معاصرین جب ایک دوسرے کے بارے میں اظہار خیال کریں تو توقف کرو. رہ گیا ابن دائود کے بارے میں ان کے باپ کا قول تو ظاہر ہے کہ ان کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ میرا بیٹا حدیث میں جھوٹا ہے. ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ میرا بیٹا مقام گفتگو میں جھوٹا ہے نہ کہ حدیث نبوی بیان کرنے میں. گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ عبداللہ بھی جوان

.......................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص230، ابوبکر سجستانی کی سوانح حیات میں.

۶۰