فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135041
ڈاؤنلوڈ: 3203


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135041 / ڈاؤنلوڈ: 3203
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مامون کے بارے میں قفطی کی باتیں

عبداللہ سہل بن نوبخت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے قفطی نے جو خیالات کا اظہار کیا ہے مناسب لگتا ہے کہ اس مقام پر انہیں بھی پیش کردوں. قفطی لکھتے ہیں مامون نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ آل امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) منصور اور منصور کے بعد جو بھی ارباب اقتدار آئے ان کے ظلم کی وجہ سے خوف اور مایوسی کی زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں. اس نے یہ بھی دیکھا کہ عوام کی نگاہوں سے ان کے حالات بالکل ہی پوشیدہ ہیں جس کی وجہ سے عوام ان کے بارے میں حسن ظن رکھنے لگی ہے اور ان کو نبی پیغمبر(ص) جیسا درجہ دینے لگی ہے ان کی تعریف اپنے الفاظ میں اس طرح کی ہے جو شریعت کی حدوں سے نکل کے غلو میں داخل ہے. پہلے تو مامون نے ارادہ کیا کہ اس عوام کو ان کے خیالات کی بنا پر سزا دے. پھر سوچا اس سے مخالفت پیدا ہوگی اور عوام کو ضد ہوجائے گی تو ان خیالات کی حوصلہ افزائی ہوگی. لہذا ان حالات پر مامون نے بہت غور کیا اور کہا کہ آل امیرالمومنین(ع) کی عظمت، ان کی جلالت و تقدس کا سکہ دلوں پر صرف اس لئے بیٹھا ہوا ہے کہ وہ لوگ عوام کے درمیان کھل کے نہیں آتے اگر وہ عوام کے درمیان آجائیں اورعوامی روابط بن جائے تو ان میں جو فسق و ظلم ہیں وہ عوام پر ظاہر ہوجائیں گے اور وہ عوام کی نگاہوں سے گر جائیں گے. ان کے فضائل، نقائص میں تبدیل ہوجائیں گے. پھر اس نے سوچا اگر انہیں ظاہر ہونے کا حکم دیا جائے گا تو وہ خوف زدہ ہوجائیں گے اور زیادہ پوشیدہ ہو جائیں گے پھر ہمارے بارے میں بدگمان بھی ہو جائیں گے بہترین رائے یہ ہے کہ انہیں میں سے کسی ایک کو آگے بڑھا کے ان کا امام بنایا جائے جب وہ اس بات کو محسوس کریں گے تو خود ہی مانوس ہوں گے اور آہستہ آہستہ عوام میں آجائیں گے اورعوام کے درمیان جب آجائیں گے تو عام آدمیوں کی سی حرکتیں ہی کریں گے اس لئے کہ وہ عام آدمی ہیں، تو عوام کے دل سے ان کی جلالت قدر جاتی رہے گی اور دلوں پر ان کے تقدس کی جو دھاک بیٹھی ہے ختم ہوجائے گی پھر معاملہ اپنی پہلی حالت پر واپس ہو جائے گا اپنے اس نظریہ کو اچھی طرح جانچ پرکھ کے

۴۰۱

اس رائے کو سب سے زیادہ مناسب سمجھا اور خاص لوگوں سے بھی اس کے اندر کی بات کو ( سازش) کو پوشیدہ رکھا اور فضل بن سہل سے کہا کہ میں آل امیرالمومنین(ع) سے کسی ایک شخص آگے لانا چاہتا ہوں اب تم غور کر کے بتائو کہ وہ کون ہونا چاہئیے اس کے تمام لوگوں نے اجماعی طور پر یہ طے کیا کہ اس کے لئے موزون ترین شخص امام رضا(ع) ہیں پھر یہ طے ہوا کہ یہ کام فضل بن سہل کے ہاتھوں سے انجام پائے حالانکہ فضل بن سہل یہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ اس کے اندر کیا سازش ہے انہوں نے علم نجوم سے ولی عہدی کا وقت نکالا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ ساعت ہے جب کہ طالع سرطان ہے اور اس میں مشتری ہے. عبداللہ بن سہل بن نوبخت کہتا ہے کہ میں نے سوچا کہ اس بیعت کے بارے میں مامون کی نیت معلوم کروں کہ کس حد تک مخلص ہے. مخلص ہے بھی یا نہیں اس کا ظاہر اس کے باطن سے ملتا ہے یا نہیں. اس لئے کہ یہ بہت بڑی بات ہے اسی ہدف کے تحت میں نے بیعت کے پہلے اس کے پاس ایک رقعہ اس کے خاص خادم کے ہاتھ سے بھیجا جو اس کے نزدیک ثقہ اور بہت اہم اور معین تھا. میں نے اس رقعہ میں لکھا تھا کہ یہ بیعت ایسے لمحات میں ہورہی ہے جو نحس ہے اور بیعت درجہء کمال کو نہیں پہونچ پائے گی. اس کے بعد تقریبا وہی باتیں ہیں جو ابھی صولی والی روایت میں لکھی گئیں.(1) آپ نے قفطی کی عبارت پڑھ لی مامون کی نیت کا پتہ چل گیا جہاں تک شیعہ راویان حدیث اور مورخین کا سوال ہے تو ان کے یہاں کثرت سے اس مضمون کی روایتیں ملتی ہیں، کہ امام رضا(ع) نے اس ظالم کی ولی عہدی سے سختی سے انکار کیا تھا آپ نے یہ خبر بھی دیدی تھی کہ یہ کام سر انجام کو نہیں پہونچے گا بلکہ آپ نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ عنقریب یہی ظالم آپ کو قتل کرنے والا ہے.

مامون کا اپنے رویہ سے خود خوف زدہ ہونا

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مامون امام رضا(ع) کو ولی عہد بنانے کی سازش میں کامیاب ہوگیا امام رضا(ع) نے جبر و اکراہ ہی سہی ولی عہدی قبول کر لی اور امام کی بیعت بھی ہوگئی لیکن اس کے

...............................

1.تاریخ الحکماء کتاب اخبار العلماء باخبار الحکماء، ص221.223سے.

۴۰۲

فورا ہی بعد مامون کو یہ احساس شدت سے ستانے لگا کہ اس میں اس کی حکومت کے لئے بہت غلط ہوگیا ہے اور اس کی یہ حمایت بھری سازش خود اس کے لئے خوف و دہشت کا سبب بن گئی اس لئے کہ اب تک جو چراغ ہدایت زمانے کی تندتیز آندھیوں سے محفوظ بنی ہاشم اور شیعوں کا گلیوں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں روشنی پہونچا رہا تھا اچانک اس ولی عہدی کی وجہ سے دربار شاہی میں آفتاب بن کے چمکنے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ چھوٹے چھوٹے چراغوں میں روشنی نہ رہی. امام رضا(ع) عوام کے درمیان آئے اور لوگ آپ کے فضائل و کرامات بے نظیر جلالت، تقدس اور شان امامت کے گرویدہ ہونے لگے اب یہ فیض صرف شیعوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عام مسلمان یا کہوں کہ عام انسان اس آفتاب عدالت کو دیکھنے اور اس کے نور سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اور لوگ آل محمد(ص) کے فضائل کا سر بازار اور بھرے دربار میں اعتراف کرنے لگے مزید یہ کہ آپ جب خراسان کا سفر کر رہے تھے تو دوران سفر آپ کے فضائل آپ سے آگے آگے تھے ولی عہدی کے وقت بھی خدا کی کرامت اور خاص توجہ آپ کی طرف تھی اور آپ کے ذاتی فضائل اور شخصی سیرت لوگوں کے دلوں کو بری طرح آپ کی طرف کھینچ رہی تھی، یہاں تک کہ جب آپ نے سلسلتہ الذہب کی حدیث نیشاپور میں بیان فرمائی تو اس حدیث کی اہل حدیث اورعوام کے دلوں پر ایک دھاک بیٹھ گئی.

اہل حدیث کے دلوں پر اس حدیث کے سلسلہء اسناد نے ایک عجیب اثر کیا اس لئے کہ حدیث خالص معصوم واسطوں

سے روایت کی گئی تھی امام(ع) نے اپنے آباءکرام سے یہ سلسلہ سرکار دو عالم تک ملایا تھا اتنا پاک و پاکیزہ سلسلہ تھا کہ اکثر لوگوں نے یہ یہ کہہ دیا کہ یہ اسناد اگر مجنون پر پڑھ دی جائے تو جنون سے نجات پا جائے گا.(1) آٹھویں سوال کے جواب کے آخر میں یہ بات گزر چکی ہے. جادو وہ ہے جو سر چڑھ کے بولے، حق بلند کیا نہیں جاتا ہے خود مامون کواس سلسلہ اسناد کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑا چنانچہ جب وہ امام رضا(ع) کی ولی عہدی کی بیعت کرا رہا تھا

......................................

1.صواعق محرقہ، ج2، ص595.

۴۰۳

اس وقت اس کی زبان پر حق ظاہر ہوگیا اور اس نے اس حق اعلان اپنے کیا ان الفاظ سے کیا” اے لوگو! تمہارے پاس علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام کی بیعت کا وقت آگیا ہے خدا کی قسم اگر میں یہ اسماء مبارکہ کو گونگے پر پڑھ دوں تو وہ خدا کی اجازت سے بولنے اور سننے لگیں گے”.(1)

جب آپ کی بیعت مدینہ میں لی گئی تو عبدالجبار بن سعید بن سلیمان ماحقی کھڑا ہوا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دینے کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ تمہارا ولی عہد کون ہے؟ جواب ملا نہیں. کہا تمہارے ولی عہد علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ہیں پھر ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ” ان کے آبائے طاہرین(ع) میں سات نام آتے ہیں یہ بادلوں سے سیراب ہونے والے لوگوں میں سب سے بہتر افراد ہیں.(2) آپ کی جلالت قدر اور عزت کا رعب خود مامون کے دل پر اتنا تھا کہ جب آپ کو زہر دے کے شہید کردیا تو مگر مچھ کے آنسو کی بہانے لگا اور اظہار افسوس کرنے لگا بہت مجبوری کی حالت میں صرف یہ دکھانے کے لئے کہ وہ آپ کی بہت زیادہ عزت کرتا ہے اپنے باپ ہارون کے پہلو میں آپ کو دفن کیا اور آپ کا قبلہ اپنے باپ سے مقدم کرایا بلکہ شہادت امام کے بعد بھی امام سے تعلق خاطر کا اظہار کرتا رہا اور آپ کے فرزند امام جواد(ع) کو خود سے قریب کرلیا تاکہ دنیا سمجھے کہ امام رضا(ع) کا چاہنے والا ہے اور آپ کی غیر موجودگی میں ان کی اولاد سے حسن سلوک کر رہا ہے.شہادت امام کے بعد بھی اس نے آپ ہی کے نام پر سکہ ڈھلوائے ولی عہدی کے بعد اس مملکت میں رائج سکہ پر امام رضا(ع) کا اسم گرامی کندہ کیا جانے لگا تھا اس طریقہ کو اس نے آپ کی شہادت کے بھی باقی رکھا بہت دنوں پہلے میں نے عراق میوزم میں وہ سکے دیکھے تھے اور اس کے بارے میں مجھے مسکوکات اثر یہ کے مدیر نے بتایا تھا ظاہر ہے کہ ان سکوں کو اتنے دنوں تک باقی رکھنے

......................................

1.عیون اخبار رضا، ج1، ص158. امالی شیخ صدوق، ص758. روضتہ الواعظین، ص229.

2.عیون اخبار رضا،ج1، ص157. مقاتل الطالبین، ص377. ارشاد، ج2، ص263.262. بحارالانوار، ج49، ص155.

۴۰۴

اور موجود رہنے کا سبب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ لوگ اس کو تبرک سمجھتے رہے اور اس کی برکت کی وجہ سے اس کی حفاظت کرتے رہے.بہر حال یہ تعلق خاطر یہ اظہار یگانگت اور یہ اظہار افسوس محض اس لئے تھا کہ مامون اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اس کو امام رضا(ع) کا قاتل سمجھیں یہ خوف بھی تھا کہ اگر لوگوں کو یہ یقین ہوجائے گا کہ جگر بند موسی کا قاتل ہوں تو لوگ مجھ سے انتقام لیں گے اور ضرورت لیں گے.

مامون کے بعد دوسرے عباسی خلفاء آئے، امامت فرزندان رضا(ع) کو میراث میں ملی تاریخ شاہد ہے کہ عباسی خلافت کے ہر بادشاہ کے دور میں فرزند رضا(ع) کو ایک خصوصیت اور امتیاز حاصل رہا یہاں تک کہ متوکل عباسی کی شکل میں تاریک ترین دور آیا یہ وہ ملعون خلیفہ ہے جس نے فاطمین ( یعنی اولاد فاطمہ(س)) پر ظلم وستم کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے اس نے ال رسول پر بڑے بڑے مظالم کئے شیعیان اہل بیت(ع) کو طرح طرح سے ستایا یہاں تک کہ قبر حسین(ع) کو منہدم(1) کر کے اس پر ہل چلوا دیا(2) حرمتیں پا مال کردیں برے افعال انجام دئیے اور اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے کینہ پروری کی بنا پر یا سرکشی کی بنا پر چاہے جس وجہ سے ہو اہل بیت(ع) کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا لیکن اس کے دل پر ہمارے ائمہ اہل بیت(ع) کی ایک ہیبت بیٹھی ہوئی تھی اور ظاہری طور پر ہی سہی ابوالحسن علی بن محمد ہادی(ع) کی عزت کیا کرتا تھا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ائمہ اہل بیت(ع) کا

............................

1.طبقات الشافعیہ الکبری، ج2، ص54. نجوم زاہرہ، ج2، ص283. اسحاق بن یحیی کی مرمر گورنری کے بیان میں. تاریخ طبری، ج5، ص312، سنہ236ھ ق کے واقعات میں. کامل فی التاریخ، ج6، ص108، سنہ236ھ ق سے متعلق واقعات میں اس باب کے ذکر میں جس میں متوکل کی حرم امام حسین بن علی بن ابی طالب(ع) سے بے حرمتی اور جسارت کو بیان کیا گیا ہے. ہدایہ و نہایہ، ج10، ص315،سنہ236ھ ق، کے واقعات میں. شذرت الذھب،ج1، ص86. سنہ236ھ ق کے حوادث میں. تاریخ الخلفاء، ج1، ص347 حالات متوکل باللہ میں.مآثر الانافتہ، ج1، ص231. متوکل باللہ کے سلسلےمیں حوادث و مجربات اس کی خلافت کے دوران.

2.طبقات الشافعیہ الکبری، ج2، ص54.

۴۰۵

تقدس خدا کی طرف سے دلوں پر واجب قرار دیا گیا تھا اور ان حضرات کی جلالت قدر اور عظمت اتنی روشن تھی کہ اس سے تجاہل کرنا یا چشم پوشی کرنا ممکن ہی نہیں تھا اس لئے کہ ان کے کردار اور ان کی عظمت پر بچپن سے حجت ثابت ہوتی ہے امامت کا عقیدہ پختہ ہوتا ہے اور ہر طرح کے عذر کو قطع کیا جاتا.

مسلمان امام رضا(ع) اور آپ کے آباء طاہرین(ع) کے مزارات کا احترام کرتے ہیں

شہادت امام رضا(ع)کے بعد آپ کی قبر مرجع خلائق اور درد مندوں دلوں کا کعبہ بن گئی مسلمانوں کے وفد زیارت کے لئے آنے لگے اس میں الحمد اللہ سنی شیعہ کی قید نہیں ہے بلکہ عام مسلمان مزار اقدس کی زیارت کو خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بارگاہ الہی میں مزار اقدس کے توسل سے اپنی مشکلات کے حل اور اپنی قضائے حاجت کے لئے دعا کرتے ہیں خدا کا شکر ہے کہ اس سرچشمہ فیض سے سب ہی فائدہ اٹھاتے ہیں کیا شیعہ اور کیا سنی، بلکہ زیارت کے لئے تو غیر مسلم بھی آتے ہیں.یہ ابن حبان ہیں یہ وہی حضرت ہیں جن کا نام آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں آیا ہے یہی حضرت ہیں جو جعفر صادق(ع) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں امام صادق(ع) کی روایتوں سے احتجاج کرتا ہوں مگر ان روایتوں سے نہیں جو ان کی اولاد بیان کرتی ہیں. اس کے باوجود امام رضا(ع) کی قبر کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(ع) کے مزار کی کئی بار زیارت کی ہے جب بھی مجھ پر کوئی مشکل آتی ہے میں مشہد مقدس میں چلا جاتا ہوں مقام طوس میں امام رضا(ع) کی زیارت کرتا ہوں آپ کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرتا ہوں اور اللہ میری مشکل حل کردیتا ہے میں نے اس بات کا بارہا تجربہ کیا ہے اور ہمیشہ مجھے ایک ہی نتیجہ ملا ہے یعنی زیارت رضوی حلال مشکلات ہے وسیلہ رضوی سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں خدا ہمیں مصطفی(ص) اور اہل بیت مصطفی(ع) کی محبت پر موت دے.(1)

........................

1. ثقات، ج8، ص457. علی بن موسی رضا(ع) کے احوال میں.

۴۰۶

ابوبکر محمد بن مومل بن حسن بن عیسی کہتے ہیں ہم ایک بار اہل حدیث کے امام ابوبکر بن خزیمہ اور انہیں کے ہم مرتبہ ابو علی ثقفی کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ مشائخ کی ایک جماعت بھی تھی یہ سب لوگ سرزمین طوس پر امام رضا(ع) کی زیارت کے لئے جارہے تھے جب ہم وہاں پہونچے تو اس بقعہ مبارکہ کے لئے ابن خزیمہ کا تواضع اور تضرع دیکھ کے حیرت زدہ رہ گئے.(1) میں کہتا ہوں کہ یہ خصوصیت صرف مزار رضا(ع) سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے آباء کرام کے مزارات مقدسہ کے فیضان کا بھی یہی حال ہے اور آپ کی اولاد میں جو ائمہ اہل بیت(ع) ہیں ان مشاہد مقدسہ کا بھی یہی عالم ہے کہ عاشقین و زائرین کے لئے کعبہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور غم زدہ افراد کی بہترین پناہ گاہ ہیں سنئے شیخ الحنابلہ ابو علی خلال کیا کہتے ہیں “ مجھے جب بھی کسی فکر نے ستایا اور کسی مشکل نے تنگ کیا میں نے موسی بن جعفر(ع) کے مزار پر پناہ لی ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے میری مشکل حل کی”(2) آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جلالت قدر اور تقدس ان حضرات کو یوں ہی حاصل ہوگیا تھا، نہیں بلکہ یہ تمام باتیں ان حضرات کی امامت پر ایک ٹھوس دلی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی(ص) کے بعد یہ حضرات خداوند عالم کے محبوب ترین بندے ہیں اور خدا کی نظر میں بس یہی وہ لوگ ہیں جن کے اندر قیادت کی صلاحیت ہے اور امت کی کشتی کو طوفان سے نجات دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے.زیادہ حیرت ناک تو یہ ہے کہ:

1.بعض ائمہ ھدی(ع) نے امامت کی ذمہ داریاں بالکل ابتدائے جوانی میں سنبھالیں جس وقت انسانی شہوت عروج پر ہوتی ہے بلکہ بعض حضرات تو بچپنے ہی میں اس عظیم منصب پر فائز ہوگئے جیسے حضرت محمد بن علی جواد(ع) اور علی بن محمد ہادی علیہما السلام انسان کی زندگی کا یہ دور ایسا ہوتا ہے جس

........................

1. تہذیب التہذیب، ج7، ص339، علی بن موسی رضا(ع) کے احوال میں.

2. تاریخ بغداد، ج1، ص120. بغداد کی ان قبور سے متعلق باب میں جو علمائ اور زہاد سے مخصوص ہیں.

۴۰۷

سے کسی سنحیدگی اور مستقل مزاجی کی توقع نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ امامت کی عظیم ذمہ داریاں اور شیعہ قوم کی قیادت. لیکن تاریخ شاہد ہے منصب الہی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کمسنی کبھی رکاوٹ نہیں بنی.

2.دوسری بات جو بہت زیادہ قابل تعجب ہے وہ یہ ہے کہ خاندان میں دس افراد ہیں اور باپ سے بیٹے کا سلسلہ صرف نسبی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ علم، کمال، ہیبت اور جلالت میراث یہ سب بالکل برابر سے ملی ہے اور بغیر کسی تفاوت و اختلاف کے یہ سلسلہ نسلا بعد نسل اس خاندان کے دسویں فرد تک پہنچا اور کسی بھی فرد میں تقدس و جلالت کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی بلکہ دوست دشمن سبھی ان کی عظمتوں کا اعتراف ہر دور میں کرتے رہے ہیں. ایسی بات نہیں ہے کہ اس سلسلہ نسب میں صرف یہی افراد ہیں بلکہ ان کے معاصر انہیں آباء کرام اور انہیں اجداد کرام کی نسل سے دوسرے افراد بھی ان کے دور میں موجود ہیں لیکن مرکزیت اور مرجعیت صرف اسی سلسلے کے حصے میں آتی ہے اور امام کا وارث وہی فرزند ہوتا ہے جس کی امامت کا امام سابق اعلان کرتا ہے یوں بھی نہیں ہے کہ اس امام کا حکومت ساتھ دیتی ہے یا حکومت کی طرف سے اس کا پیروپیگنڈہ کیا جاتا ہے بلکہ حکومت تو سخت مخالف ہے اور یہ حضرات حکومت کی شرعی حیثیت کے قایل بھی نہیں ہیں پھر بھی امت میں ان کی شخصیت نا قابل انکار اور قابل احترام ہے کیا امامت کی تاریخ کا یہ تسلسل آپ کو معجزہ نہیں محسوس ہوتا؟

آخر اماموں کے دوسرے بیٹے بھی تو تھے وہ آثار امامت کے وارث کیوں نہیں ہوئے. قانون توارث( ایک دوسرے سے میراث پانا) کے تحت تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ اگر کسی امام کے پانچ بیٹے ہیں تو اس امام کی خصوصیات یا اور اخلاقی صفات سب میں تھوڑا تھوڑا کسی میں کم کسی میں زیادہ پایا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ جو وارث امام ہے اس میں امام سابق کی تمام خصوصیات بھر پور انداز میں موجود ہیں جب کہ دوسرے بیٹوں میں دسواں بیسواں بلکہ بعض

۴۰۸

اوقات دسواں حصہ بھی نہیں پایا جاتا جس سے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ امامت کا ایک روشن معجزہ اور واضح دلیل ہے. اور یہ کہ این سعادت بزور بازو نیست بلکہ خداوند عالم نے انہیں خاص طور پر کچھ ایسی خصوصیت بخشی کہ وہ عام بشریت سے ممتاز ہوگئے. توجہ و عنایت الہی نے انہیں اپنے احاطے میں لے لیا اور سارے عالم انسانیت سے انہیں ممتاز کردیا تاکہ دلیلیں قائم ہوں حجتیں ثابت ہوں اور عذر منقطع ہوجائے تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جو نجات پائے وہ دلیل کی بنیاد پر نجات پائے.(1)

4.معجزات سے متعلق اور اسی جملہ سے سابق روایتوں کی تصدیق ہوتی ہے اور یہی آیت ان پر موید ہے اور موجود مدعا پر شاہد ہے. چوتھا قرینہ وہ ہے جس کی طرف میں نے چھٹے سوال کے جواب میں اشارہ کیا تھا کہ حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ بہت واضح اور روشن ہوتا کہ کوئی دشمن حق یا ہٹ دھرم اس کا انکار نہ کر سکے یا کوئی جاہل عذر و تقصیر نہ پیش کرسکے. اپنی جہالت کو خدا کے سامنے عذر اور بہانے کے عنوان سے نہ پیش کرسکے تا کہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کی بنیاد پر اور جو زندگی پائے وہ بھی دلیل کی بنیاد پر(2) اسی لئے حضور سرورکائنات(ص) فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تمہیں عالم نور میں چھوڑا ہے جس کی راتیں دنوں کی طرح روشن ہیں اب سوائے ہلاک ہونے والے کے کوئی گمراہ ہو ہی نہیں سکتا.(3)

مندرجہ بالا حدیث اور آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ، ہردور میں کسی ناطق بالحق( سچ بولنے والا) کا ہونا ضروری

ہے بلکہ اصول فطرت ہے ایسا ناطق جو عالم انسانیت کو حق کی دعوت دیتا ہو اور غفلت سے متنبہ کرتا ہو لوگ حق کو تلاش کریں اور اس کی دلیلوں پر غور کریں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر انسان ترک حق میں اپنی غفلت کی وجہ سے معذور ہوگا اور اس پر عقاب بھی نہیں ہوگا یہ ان تمام دلیلوں

..............................

1.سورہ انفال، آیت42.

2.سورہ انفال، آیت42.

3.اس کا حوالہ ج2، ص334، پر چھٹے سوال کے جواب میں گزر چکا ہے.

۴۰۹

کے خلاف ہے جو سابق میں دی گئیں.حضور سرور عالم(ص) کی مشہور حدیث میں اس حقیقت کو صراحت سے بیان کردیا گیا ہے جہاں حضور نے فرمایا کہ ہماری امت میں ہمیشہ ایک ایسا گروہ موجود رہے گا جو حق کا اظہار کرے گا اس گروہ کو چھوڑ دینے والے کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکیں گے یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں باقی رہیں گے کہ امر خدا ان تک پہنچے گا.(1)

اس سے دو باتیں بہر حال طے ہوگئیں پہلی بات تو یہ کہ امت مسلمہ کبھی گمراہی پر اجتماع نہیں کرے گی جیسا کہ اکثر افراد نے صراحت کی ہے. بلکہ اس نظریہ پر امت کا اتفاق ہوچکا ہے کہ امت گمراہی پر اجتماع نہیں کرے گی.

دوسری بات یہ ہے کہ بعض فرقوں کا مٹ جانا اور ان کے درمیان داعی الی الحق کا ظاہر نہ ہونا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ فرقے باطل اور حق کے مخالف تھے.اور جب فرقہ شیعہ یہ بات ثابت کرچکا ہے کہ حق اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہے اور نجات صرف اہل بیت(ع) کے اتباع اور ان کے اقتدا میں ہے اہل بیت(ع) ہی وہ حبل اللہ ہیں جن کے تمسک سے نجات ممکن ہے اور اہل بیت(ع) ہی وہ سفینہ ہیں جن کے سہارے سے پار اترنا ممکن ہے تو فطری طور پر اس حق پرست فرقہ کی طرف دوسروں کو توجہ دینی چاہئے چونکہ یہ وہ فرقہ ہے جو امامت و خلافت کو اہل بیت(ع) کا حق سمجھتا ہے اور جب دوسرے فرقوں کا بطلان ثابت ہوچکا ہے تو اب مان لینا چاہئے کہ حق فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے ساتھ ہے اور اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.

اب مجھے کہنے دیجئے کہ فرقہ امامیہ اثنا عشریہ یعنی وہ فرقہ جو بارہ امام کی امامت کا قائل ہے اس لئے بھی قابل ترجیح ہے کہ

اس کا وجود اور اس کی کچھ خصوصیات دوسرے فرقوں کے بطلان پر شہادت دیتی ہیں چاہئے وہ فرقہ اہل بیت(ع) کی طرف منسوب ہو یا اہل بیت(ع) سے ان کی کوئی نسبت نہ ہو.

.............................

1.صحیح مسلم، ج3، ص1523. اور انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

۴۱۰

1.شیعوں کا اس دور تک باقی رہنا اور ان کی دعوت کا ہر دور میں اور اس دور میں ظہور ہر دور میں ان کی طرف سے آواز اور دعوت کا انتشار تاکہ غافل جاگ جائیں اور عذر رفع ہوتا رہے اس کے ساتھ ہی ان فرقوں کا نام و عذر مٹ جانا جن کی صحن تاریخ میں کبھی دھوم مچی تھی لیکن اب ان کا کہیں وجود نہیں ہے جیسے واقفیہ اور فطحیہ وغیرہ.

2.اس حقیقت کا مسلم الثبوت ہونا کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہتی اور زمین پر ایک ایسے امام کا وجود ہر دور میں رہتا ہے جس کی معرفت واجب اور جس کی اطاعت فرض ہوتی ہے اور چوتھے سوال کے جواب میں یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ مذکورہ امامت نص سے ثابت ہونا چاہئے نہ کہ قہر و غلبہ کے ذریعہ یا ایسے راستوں سے جس کی کوئی منطقی دلیل نہیں جس طرح خوارج اور جمہور کا نظریہ ہے کہ امام وہ ہے جس کو لوگوں نے بیعت کر لی ہو. اور جیسے خروج بالسیف جیسا کہ زیدیہ فرقہ کا عقیدہ ہے اسی طرح اور دوسرے راستے.

3.شیعوں کا یہ عقیدہ کہ امام بارہ ہیں اور خاص طور پر یہ بات نصوص امامت سے متعلق دوسرے گروہ میں ثابت ہوچکی ہے اور یہ بات بھی بہت روایتوں سے ثابت ہوچکی ہے کہ امامت ایک عہد ہے جو معہود من اللہ ہے جیسے خدا نے پہلے نبی کو عطا کیا پھر نبی نے اپنے بعد والوں تک اس عہد کو پہنچایا.

4.قاعدہ لطف الہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام کو معصوم ہونا چاہئے سابقہ سوالوں میں پانچواں سوال کے جواب میں قاعدہ لطف الہی پر ایک تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور اسی کی تائید میں آٹھویں سوال کے جواب کے آخر میں اس جگہ پر عرض کیا جا چکا ہے جہاں بیان کیا گیا ہے کہ سنت شریفہ کے لئے کتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں.

مندرجہ بالا تمام اسباب تقاضا کرتے ہیں کہ فرقہ شیعہ کو ترجیح دی جائے اس لئے کہ یہی ایک فرقہ ہے جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ حق اہل بیت(ع) کے ساتھ ہے اور امت اہل بیت(ع) میں محصور ہیں.اور جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ شیعہ فرقہ حق اور نجات پانے والا ہے تو یہ بات بھی مان لینی چا

۴۱۱

ہئے کہ یہ فرقہ حقہ، جس کی امامت پر اجماع کرے اور جس کو امام تسلیم کرے وہی امام برحق ہے اس لئے کہ ائمہ اہل بیت(ع) میں سے جس کی امامت پر بھی اس فرقہ کا اجماع ہوچکا ہے اس کی امامت صحیح اور برحق ہے. کیونکہ ائمہ اثنا عشر کے مجموعہ کے ہر فرد کی امامت پر متواترہ نصوص موجود ہیں حالانکہ ان نصوص کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ گذشتہ صفحات میں مذکورہ قرائن ہی ان حضرات کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے کافی ہیں. اگر نصوص موجود ہیں تو یہ نصوص ان قرائن کی تصدیق کے لئے وارد ہوئے ہیں.

بہر حال ائمہ اثنا عشر کی امامت پر جلدی میں جو نصوص مجھے میسر ہوئے ہیں وہ پیش کردئیے، جو قرینے میری سمجھ میں آئے بیان کر دئیے اور میں نے آپ کے تمام سوال کے جواب دینے میں اختصار سے کام لیا. لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میرے پاس مواد نہیں اور حوالوں کی کمی ہے بلکہ اس اختصار کا سبب یہ ہے کہ ہمارے علما نے اس موضوع پر بہت تفصیل سے کتابیں لکھی ہیں لہذا ضرورت کے مطابق میں نے جواب دے دیا ہے اب اگر تفصیل کی ضرورت ہو تو ان کتابوں کی طرف رجوع کریں.

ہمیں بہر حال اس بات کا اطمینان حاصل ہے کہ ہم نے متعدد ذرائع سے اتمام حجت کی کوشش کی ہے اور ان دلیلوں کو پیش کرنے کے بعد مطمئن ہیں کہ جب ہم خدا کی بارگاہ میں جائیں گے اور اس کے سامنے کھڑے ہوں گے تو قیام حجت کے لئے ہمارے یہ جوابات کافی ہوں گے( چونکہ) “ اس خدا کی تعریف ہے کہ اس نے ہمیں اس راستے کی ہدایت فرمائی اور اگر خدا ہمیں ہدایت نہیں کرتا تو ہم ہرگز ہدایت نہیں پاتے. بیشک ہمارے پروردگار کی طرف سے پیغمبر(ص) برحق آئے.”(1) میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دنیا و آخرت میں مجھے قول ثابت( صحیح بات اور سچے و خاص عقیدے) پر باقی رکھے اور ہمیں ہلاکت خیز وادیوں سے محفوظ رکھے. اس لئے کہ وہی سب سے زیادہ رحک کرنے والا اور مومنین کا ولی ہے.

...............................

1.سورہ اعراب، آیت43.

۴۱۲

دوسرے فرقوں کے پاس کیا فرقہ امامیہ سے قوی تر دلیلیں ہیں؟

آخر کلام میں مجھے جو اہم ترین بات عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ ایسا تو نہیں کہ مسئلہ امامت صرف فرقہ امامیہ سے مخصوص ہے لیکن ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ امامت شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ تو ملت اسلامیہ کا عام معاملہ ہے اس لئے کہ جو امام وقت کو پہچانے بغیر مرجاتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے جیسا کہ نصوص اور حدیثوں سے ثابت ہے.

اس لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خدا اور قیامت سے خوف کھائے اور اپنے امام کو پہچان لے تاکہ جاہلیت کی موت سے محفوظ رہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان دلیلوں پر بہت غور کرے جن کے ذریعہ خدا نے ان لوگوں کی امامت کو بیان کیا ہے پھر شیعہ فرقے کی دلیلوں کو سامنے رکھے اور اپنی دلیلوں کا شیعہ فرقے کی دلیلوں سے ایک موازنہ کرے پھر جذبات اور روایت پرستی سے دل کو پاک کر کے وجدان اور ضمیر کے ہاتھ میں فیصلہ دیدے اور انسان اپنے بارے میں خوب اچھی طرح جانتا ہے.(1) پھر دیکھے کہ وجدان و ضمیر کا کیا فیصلہ ہے؟ قوی تر کون ہے اور کمزور کون؟ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ تاکہ قیامت کے دن جب منادی آواز دے کہ” انہیں روکو ان سے پوچھا جائے گا تمہیں کیا ہوا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے تھے”(2) جب وہ دن آئیگا کہ ہر شخص اپنے نفس سے لڑے گا اور ہر نفس کو اس کے عمل کے مطابق پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں ہوگا”(3) اس دن خدا کو جواب دے سکے اور اپنے پروردگار کے سامنے معقول عذر پیش کرسکے.چونکہ اس دن ہر آدمی اپنے امام کے ساتھ بلایا جائے گا لہذا جس کے داہنے ہاتھ میں نامہ

...............................

1.سورہ قیامت، آیت14.

2.سورہ صافات، آیت24.25.

3.سورہ نحل، آیت111.

۴۱۳

اعمال دیا جائے گا وہ اپنا نامہ اعمال پڑھ رہے ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہیں ہوگا اور جو اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ قیامت میں بھی اندھا ہی ہوگا اور راستے کے اعتبار سے گمراہ ہوگا.”(1)

میں نے اپنے ان معروضات سے حق تبلیغ و نصیحت کو ادا کردیا اب ہر آدمی کو اختیار ہے کہ وہ اپنا راستہ منتخب کرلے.” اور خدا نے یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھا دے راستے تو غلط بھی ہوتے ہیں اور خدا چاہے تو تم سب کی ( زبردستی) ہدایت کردے.”(2)

بہر حال ان تمام کوششوں کے باوجود مجھے اس بات کا احساس ہے کہ جواب کافی تو ہوگیا وافی نہیں ہوسکا ہے، اس کا سبب وقت کی کمی ہے جس کی وجہ سے میں شواہد اور داخلی قرینوں کو کم کر کے پیش کرنے میں مجبور تھا. بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ اس طرح گفتگو کا مقصد محض مناظرہ نہیں ہوگا بلکہ ہماری یہ گفتگو حقیقت تک پہونچنے میں مددگار ہوگی اور حق کو پہچنوانے میں معاون ہوگی تاکہ حق کا حق ادا کیا جاسکے اور ذمہ داری کو سمجھ کے اس سے عہدہ بر آمد ہوسکے.

ذمہ داری کو سمجھئے اور خطرناک انجام سے بچنے کو کوشش کیجئے

آخر کلام میں ایک ایسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں جس پر ہرمسلمان کو متوجہ ہونا چاہئے کہ اور کسی بھی حال میں اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں میں شدید اختلاف ہوا اس اختلاف کی وجہ چاہے جو رہی ہو لیکن ہر اختلاف کا ایک ہدف ہوتا تھا وہ ہدف کبھی دینی اغراض کو حاصل کرنا تھا کبھی دنیاوی مقاصد کے لئے جد وجہد کا نتیجہ تھا کس کا مقصد کیا تھا کون شرارت پسند اور کون صلاح چاہتا تھا اس کا علم خدا کے پاس ہے اور وہی فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے( لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اختلافات تو بظاہر ختم ہوگئے لیکن امت میں ان کے نتائج فرقوں کی صورت میں ظاہر ہیں) یہ نتیجے مثبت رہے ہوں یا منفی لیکن بانی

.........................................

1.سورہ اسراء، آیت71.72.

2.سورہ نحل، آیت9.

۴۱۴

اختلاف کو اس کا پھل دنیا میں بھی بھوگتنا پڑا اور آخرت میں بھی اس کے ذمہ داروں کو بہر حال جواب دینا پڑے گا” پھر ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا”(1) اس لئے کہ اللہ کا مفاد کسی سے وابستہ نہیں ہے اور نہ اللہ کی کسی سے کوئی رشتہ داری ہے بلکہ ہم سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ عزت دار اور مستحق اکرام صرف وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کی اطاعت کرنے والا صاحب تقوی ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ذلیل وہ ہے جو سب سے زیادہ بدکردار اور اس کا نافرمان ہے.لیکن میں نے عرض کیا کہ اختلافات کے نتائج آنے والی نسلوں میں بھی مرتب ہوئے جس کا انجام یہ ہوا کہ مسلمانوں میں کتنے فرقے پیدا ہوگئے. ا گر چہ ان اختلافات کے پیدا ہوئے زمانہ گذر گیا اور بظاہر اذہان ان کے اچھے یا برے اثرات کی طرف متوجہ بھی نہیں ہیں لیکن اس کے نتائج کو آخرت میں بھوگتنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے ہم خیال اور ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ محشور کئے جائیں گے جو جس کی پیروی کرے گا اور جو جس فریق کی حمایت کرے گا وہ اسی فریق کے ساتھ محشور ہوگا. اسلام کے دور اول میں اختلافات ہوئے فرقے بنے لوگوں نے تحریکیں چلائیں اب وہ لوگ تو موجود نہیں ہیں لیکن ہم لوگ ان تحریکوں کے بارے میں جانتے ہیں ان اختلافات کے حصہ دار ہیں ہم میں سے ہر ایک ماضی سے جڑا ہوا ہے اور کسی نہ کسی کے موقف کی حمایت کرتا ہے یہ طے شدہ بات ہے کہ ہم جن کے فعل سے راضی ہیں جس کے فعل کو پسند کرتے ہیں جن لوگوں کی تحریکوں کو اچھا سمجھتے ہیں انہیں لوگوں کے ساتھ محشور ہوں گے اس لئے کہ جو جس قوم کے فعل سے راضی رہتا ہے اس کے ساتھ ہوتا ہے انسان اس کے ساتھ ہوتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے. بیشک لوگوں کے اندر رضا اور غضب دونوں ہی پائے جاتے ہیں جیسا کہ نبی(ص) اور اہل بیت(ع) نے ارشاد فرمایا ہے.

...........................

1. سورہ نجم،آیت41.

۴۱۵

سکونی امام صادق(ع) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جیسے امام صادق(ع) اپنے والد سے اور وہ علی(ع) سے کہ” رسول اللہ(ص) نے فرمایا جو کسی کے عمل کو دیکھے اور اس کو ناپسند کرے وہ گویا کہ اس عمل کو نہیں دیکھ رہا ہے اور جو کوئی کسی آدمی کے عمل کو انجام دینے کے وقت موجود نہ ہو لیکن اس عمل سے راضی ہو وہ گویا کہ اس عمل کا شاہد ہے.”(1) اور عبداللہ کی حدیث میں ملتا ہے ہے کہ” ایک شخص حضور سرور عالم(ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت کرتا ہو لیکن ان سے ملحق نہ ہو سرکار نے فرمایا انسان تو اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس سے محبت کرتا ہے.”(2) عبداللہ بن صامت کہتے ہیں ابوذر نے کہا کہ” میں نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) ہم ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہیں جن کے اعمال کو ہم نے دیکھا نہیں ہے فرمایا: ابوذر تم انہیں کے ساتھ ہو جن سے تم محبت کرتے ہو. میں نے عرض کیا ہم بھی انہیں جیسے ہیں فرمایا بیشک تم بھی ویسے ہی ہو.”(3) اور امیرالمومنین(ع) نے ارشاد فرمایا کہ” بیشک انسان کے اندر رضا اور غضب دونوں چیزیں ہیں( اور وہ رضا و سخط پر اجماع کرتا ہے) لہذا جو کسی کام سے راضی ہے.

..................................

1.وسائل الشیعہ، ج11، ص409. باب 5 اوامر و نواہی اور اس سے متعلق ابواب سے حدیث2.

2.صحیح بخاری، ج5، ص2283. کتاب الادب، باب علامتہ حب فی اللہ عزوجل جیسا کہ ارشاد رب ہے” اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو نتیجہ میں خدا بھی تم کو دوست رکھے گا” اور انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ کریں: صحیح مسلم، ج4،ص2034. کتاب البر والصلہ والادب، باب المراجع من احب. صحیح ابن حبان، ج2، ص316. باب الصحبتہ والمجالستہ ذکر الخبر المرخصی، قول، من زعم ان خطاب ھذا الخبر قصد بہ التخصیص دون العموم. اور اس کے علاوہ بھی بہت سے منابع و مدارک ہیں.

3.المعجم الاوسط، ج8، ص85. اور انہیں الفاظ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں. الکامل فی ضعفاء الرجال، ج3، ص59، خلیل بن مرہ کے احوال میں.

۴۱۶

وہ اس میں داخل ہے اور جو کسی کام کو ناپسند کرتا ہے وہ اس خارج ہے(1) اس طرح کی اکثر حدیثیں ہیں.(2)

اللہ جب یہودیوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اکثر انہیں یہودیوں سے خطاب ہوا ہے جو زمانہ پیغمبر(ص) موجود تھے اسی وجہ سے اس آیت میں بھی خطاب انہیں یہودیوں سے ہے جو نبی(ص) سے براہ راست مخاصمت کررہے تھے قرآن میں ارشاد ہوا کہ وہ لوگ” کہنے لگے ہم سے تو اللہ نے یہ عہد لیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی ایسی قربانی نہ پیش کرے جس کو( آسمان سے) آگ اتر کے جلادے آپ ان سے کہیں کہ میں کوئی اکیلا رسول تھوڑا ہی ہوں تمہارے یہاں تو مجھ سے پہلے بھی پیغمبر(ص) تمہاری مطلوبہ نشانیوں کے ساتھ آچکے ہیں اور وہ معجزے بھی لائے تھے جس کا تم مطالبہ کررہے ہو لہذا تم سچے ہو تو انہیں کیوں قتل کیا؟”(1) دیکھئے یہاں اللہ انبیاء کے قتل کو ان یہودیوں سے منسوب کر رہا ہے جو نبی کے دور میں تھے حالانکہ قتل ان کے آباء و اجداد نے کیا تھا( لیکن چونکہ وہ اپنے اسلاف کے عمل پر راضی تھے اس لئے اللہ نے انہیں بھی قاتل قرار دیا.)

سرکار صادق آل محمد(ص) سے بھی اس مضمون کی متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں، کہ چونکہ یہودی اپنے اسلاف کے فعل سے راضی تھے اور ان سے اظہار برائت نہیں کررہے تھے اس لئے اللہ نے اسلاف کے فعل کی نسبت ان کی طر ف دی اور انہیں بھی گناہ میں شامل بتایا ہے اگر چہ عملی طور پر

............................

1. وسائل الشیعہ، ج11، ص411. باب 5 اوامر و نواہی اور اس سے متعلق ابواب سے حدیث9.

2. ملاحظہ فرمائیں: صحیح بخاری، ج3، ص1349. کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عمر بن خطاب ابو حفص قریشی عدوی اور ج5، ص2283، کتاب الادب، باب ماجاء فی الرجل ویلک. اور صحیح مسلم، ج4، ص2033.2032 کتاب البر والصلہ والادب، باب المرئ مع من احب. اس کے علاوہ بھی بہت سے منابع و مدارک ہیں.

3. سورہ آل عمران، آیت183.

۴۱۷

وہ اس قتل میں شریک نہیں تھے.(1)

نتیجہ یہ نکلا کہ ایک صاحب عقل اور سمجھ دار آدمی کو چاہئیے کہ اپنے نفس کے بارے میں سوچے اور اپنے معاملات میں

محکم فیصلے کرے، دین کے بارے میں صاحب بصیرت ہو اپنے عقیدوں کے لئے دلیل رکھتا ہو اس سے محبت کرے جو محبت کے لائق ہے اور اس سے اظہار برائت کرے جو اظہار برائت کے لائق ہے اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے اور دوسروں کے عقیدے کو ضعیف کرنے کے لئے محکم دلیلوں سے استدلال کرے لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور اس نے بے سوچے سمجھے ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملائی تو وہ اسلاف کے گناہوں میں شریک مانا جائے گا اب اگر اسلاف صاحب کردار ہوئے تو وہ ان کے اچھے اخلاق و کردار کا ثمرہ پائے گا اور اگر وہ خدا نخواستہ برے ہوئے تو ان سے محبت کرنے والا بھی دینا و آخرت دونوں جگہ نقصان اٹھائے گا. یہ( اس کے حق میں) واضح گمراہی ہوگی.(2)

یاد رکھو فیصلہ کا دن قریب ہے جلد ہی پردے اٹھ جائیں گے اور حقیقت منکشف ہوجائے گی جب دلوں کے بھید جانچے جائیں گے اور چھٹکارے کا وقت نہیں رہے گا” جب وہ لوگ جن لوگوں نے پیروی کی تھی پیروی کرنے والوں سے تبرا کریں گے( اور اپنے ہی چاہنے والوں سے اظہار برائت کریں گے) اس وقت وہ عذاب کو دیکھ رہے ہوں گے اور ان سے اسباب منقطع ہوچکے ہوں گے پھر ان کی پیروی کرنے والے کہیں گے کاش ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جاتا تو ہم بھی ان سے تبرا کرتے جس طرح آج یہ ہم سے تبرا کر رہے ہیں اس طرح اللہ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا تاکہ انہیں اپنے اعمل پر پچھتاوا ہو لیکن وہ آگ سے نکلنے والے نہیں ہیں.”(3)

............................

1. وسائل الشیعہ، ج11، ص412. باب 5 اوامر و نواہی اور اس سے متعلق ابواب سے حدیث13.14. اور ص509، بات39، مذکورہ باب سے، حدیث5،6.

2.سورہ حج، آیت81.

3.سورہ بقرہ، آیت166.167.

۴۱۸

مذکورہ بالا عبارت میں نے محض متوجہ کرنے اور مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لئے پیش کی ہے ( ورنہ) “ انسان اپنے نفس کے اوپر صاحب بصیرت ہے( یعنی انسان اپنے نفس کی حالت سے با خبر ہے)”(1) اور میں اگر کسی بات سے تمہیں روکتا ہوں تو اس کا مقصد تمہاری خواہ مخواہ مخالفت نہیں بلکہ جتنی اصلاح کرسکتا ہوں میں کوشش کرتا رہوں گا اور مجھے توفیق نہیں ملتی مگر اللہ سے، میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی سے امید لگاتا ہوں.”(2)

میں خدا کی بارگاہ میں اس کے امتنان و کرم کے حوالے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو مستجاب الدعا لوگوں میں قرار دیے اور اپنی راہنمائی میں ہدایت دے ہم اس کے چاہنے والوں سے محبت اور اس کے دشمنوں سے عداوت کریں ہمارے لئے( صحیح انتخاب میں) وہ اپنی تائیدات و ( غلط انتخاب) تسدید میں اضافہ کرتا رہے اور ہمیں اپنے دین شریعت کی تحقیق و توضیح کی توفیق عنایت فرمائے، اور شک و شبہ کو دفع کرنے کی صلاحیت دے ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے دین کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ سے دعوت دیں اور یہ دعوت بھی خلوص اور حسن نیت کی بنیاد پر ہو، خدا ہم سب کو خواب غفلت اور ضرر رساں اونگھ سے بیدار رکھے، مخذولین ( معتوب اور گمراہ لوگوں) کی سستی سے دور رکھے ہمیں بیکار کے لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ سے دور رکھے ہٹ دھرمی اور استکبار( تکبر و غرور) سے دور رکھے، ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کو جب اس نے پکارا تو اس نے لبیک کہا. وہ نصیحت کرتا ہے تو اثر لیتے ہیں، اور وہ یاد دلاتا ہے تو یہ لوگ یاد رکھتے اور راستہ دکھاتا ہے تو لوگ بصیرت حاصل کرتے ہیں. بیشک وہی سیدھے راستے کی ہدایت کرنے والا ہے اور وہ ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے.

..........................

1. سورہ قیامت، آیت14.

2.سورہ ھود، آیت88.

۴۱۹

والحمد للہ رب العالمین و لہ الشکر والصبر ابدا دائما سرمدا. تمام تعریف اس خدا کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والا دائمی شکر اسی کے لئے ہے. اور خدا کا درود ہو اس کے امانتدار پیغمبر(ص) اور ان کی با برکت روشن اور منتخب آل پاک(ع) پر اور سلام ہو بار بار ہزار بار، اللہ کی رحمت و برکت اور سلام ہو آپ پر اور آپ کے بھائیوں پر.

۴۲۰