فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135227
ڈاؤنلوڈ: 3207


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135227 / ڈاؤنلوڈ: 3207
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

رعنا ہے پھر بڑا ہو کے سردار بن جائے گا.(1)

ذہبی اسی سلسلے میں پھر خامہ فرسا ہیں کہ بخاری نے اپنی کتاب میں اپنے رجال کے بارے میں ایک اچھی فصل ذکر کی ہے. ابراہیم ابن سعد اور صالح بن کیسان ان کا شمار رجال بخاری میں ہوتا ہے اور ابن اسحاق سے کثرت سے روایتیں بیان کی ہیں. بخاری فرماتے ہیں کہ اگر مالک کے بارے میں صحیح ہے کہ وہ ابن اسحاق سے کدورت رکھتے تھے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اس لئے کہ آدمی کسی ایک دو بات میں اپنے ساتھی سے اختلاف کر کے اس پر تہمت لگا سکتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام امور میں اس پر تہمت لگا رہا ہے.

بخاری کہتے ہیں: ابراہیم بن منذر نے محمد بن فلیح کے حوالے سے کہا کہ امام مالک ہمیں شیخین قریش ( عمر و ابوبکر) سے روایت کرنے کو منع کرتے تھے حالانکہ ان کی کتاب موطا میں ان دونوں سے کثیر روایتیں موجود ہیں. لوگوں کے اعتراض سے اکثر افراد محفوظ نہیں ہیں جیسے شعبی پر ابراہیم کا اعتراض اور عکرمہ پر شعبی کا اعتراض نیز شعبی سے پہلے کے افراد پر شعبی کا اعتراض کچھ لوگوں نے تو اپنے معاصرین کی عزت نفس اور چان پر بھی حملہ کیا ہے لیکن واضح دلیل کے بغیر اس طرح کی باتوں پر توچہ نہیں دینی چاہئے ان باتوں سے ان کی عدالت بھی ساقط نہیں ہوتی جب تک برہان اور واضح حجت نہ قائم ہو جائے. اس سلسلے میں بہت باتیں کی گئی ہیں میں نے (بخاری) کہا کہ ائمہ جرح و تعدیل نادر غلطیوں سے محفوظ نہیں ہیں ان کے دلوں میں کینہ اور بغض موجود تھا اس لئے وہ آپس میں تلخ کلامی بھی کر لیا کرتے تھے لیکن یہ بات بہر حال مسلم ہے کہ معاصرین کا کلام ایک دوسرے کے بارے میں صرف خرافات ہے اور اس کا اعتبار نہیں ہے خصوصا جب کسی شخص کی توثیق ایک ایسی جماعت کررہی ہو جس کے قول سے انصاف کی بو آتی ہو یہ دونوں (یعنی محمد بن فلیج اور مالک) ایک دوسرے کے دشمن

------------------

1. تذکرة الحفاظ، ج2، ص767.772، ابن ابی دائود کی سوانح حیات میں.

۶۱

تو تھے ہی اور دونوں ایک دوسرے کی نکتہ چینی کرتے تھے لیکن مالک کا رویہ محمد کے بارے میں کبھی نرم ہوجاتا تھا جب کہ محمد، مالک کے بارے میں کبھی بھی نرمی سے نہیں پیش آتے تھے. نتیجہ میں مالک بلند ہوگئے اور ستارے کی طرح چمکنے لگے یہ بلندی اعمال کے نتیجہ میں ان کو ملی تھی خصوصا ان کی اس محنت کے صلہ میں جو انھوں نے سیرت کے بارے میں کی تھی. ویسے احکام کے معاملے میں ان کی حدیثیں اتنی قابل توجہ نہیں ہیں بلکہ صحت کے مرتبہ سے کم ہو کر حسن کے مرتبہ تک پہنچتی ہیں. شواذ کو مستثنی کر لیں اس لئے کہ شواذ منکر حدیثوں میں شامل ہیں.ظ(1)

ظاہر ہے کہ اس طعن کی برگشت طعن کرنے والے کی دینی کمزوری اور قلت ورع کی طرف ہوتی ہے. لہذا اس کی طعن و جرح بلکہ توثیق و تعدیل پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ جب اس کے دین نے ہوائے نفس کے تقاضے، دشمنی اور حسدکی وجہ سے اپنے حریف پر طعن کرنے سے نہیں روکا تو احسان یا کسی فائدہ وغیرہ کی امید کی وجہ سے غیر مستحق کی مدح وتعدیل کرنے سے بھی نہیں روکے گا.اسی طرح طعن صرف حریفوں ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے لوگوں پر بھی ہوگی حتی وہ افراد بھی جو باعتبار زمانہ بہت سابق ہیں چونکہ یہ واضح ہے کہ محبت و بغص حریفوں یا ہم عصروں سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے.

جرح وبحث اور رائے، مذہب اور سلوک ( مسلک ) کے اعتبار سے

مذہبی اختلاف، نظریاتی اختلاف یا چال چلن وغیرہ کے اختلاف کی بنیاد پر جرح و تضعیف کرنا وثاقت کے منافی نہیں ہے، ارباب جرح و تعدیل میں اس طرح کی باتیں عام ہیں. گذشتہ صفحات میں مسئلہ خلق قرآن کے مخالفین مے بارے میں احمد ابن حنبل کا کلام گذر چکا اور ابن خبان نے ابن جوزی پر کیسے کیسے حملے کئے اور آخر میں یہ لکھ دیا کہ آدمی تو سنت میں سخت ہے لیکن کبھی حد سے تجاوز کر جاتا ہے

.......................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج7، ص40. 41 ابن اسحاق کی سوانح حیات میں.

۶۲

جوزجانی کے بارے میں ابن حجر کا کلام بھی پیش کردیا گیا یحیی بن معین کا شافعی کے بارے میں ذہبی کے حوالے سے جو نظریہ تھا وہ بھی گزر چکا اور ذہبی کا اپنے مذہب کے مخالفین کے بارے میں جو موقف تھا اس سلسلے میں سبکی وغیرہ کی گفتگو بھی گزر چکی. امیرالمومنین کے ایک صحابی ہیں ان کو حارث اعور ہمدانی کے نام سے جانا جاتا ہے، قرطبی کہتا ہے”کہ شفیعی نے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے” لیکن ایسا نہیں

ہے اور نہ حارث سے کبھی جھوٹ ظاہر ہوا بلکہ شفیعی نے محبت علی(ع) کا انتقام لیا ہے چونکہ وہ مولا علی(ع) سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ابوبکر کے مقابلہ میں ان کی تفضیل کے قائل تھے اور ان کو سب سے پہلا مسلمان سمجھتے تھے.

ابو عمرو ابن عبداللہ کہتے ہیں: مجھے یقین ہے کہ شعبی کو حارث ہمدانی کے بارے میں اپنے قول کی سزا ضرور ملے گی کہ مجھ سے حارث ہمدانی نے بیان کیا اور وہ(حارث) جھوٹوں میں سے ایک ہے(قول شعبی).(1)

ابن حجر کہتے ہیں: یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ ایک جماعت دوسری جماعت پر اگر طعن کرتی ہے تو اس طعن کا سبب اعتقادی اختلاف ہوتا ہے اس لئے قاری کو ہوشیار ہونا چاہیئے اور اس طرح کے اختلاف کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہے مگر یہ کہ اس کے حق ہونے کا یقین ہو جائے اسی طرح ایسا ہوتا ہے کہ صاحبان ورع کی جماعت ایسے ایسے لوگوں کی عیب جوئی کرتی ہے جو امور ضبط و احتیاط کے ہوتے ہوئے اس تضعیف کا کوئی اثر نہیں ہے اور خدا ہی توفیق دینے والا ہے.

سب سے زیادہ بعید اعتبار اس شخص کو ضعیف قرار دینا ہے جس نے بعض راویوں کو کسی ایسے امر کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہو جس میں اس کے غیر پر حمل ہوا ہو یا اس سخت رویہ کی وجہ سے ضعیف

.........................................

1. تفسیر القرطبی، ج1، ص5.

۶۳

قرار دیا ہو جو حریفوں کے درمیان ہوتا ہے. اور اس سے زیادہ سخت بات یہ ہے کہ کوئی ضعیف راوی کسی قابل اعتبار اور اوثق شخص کی تضعیف کرے یا کوئی معمولی راوی جلیل القدر یا عارف حدیث کی تضعیف کرے تو یہ سب معتبر نہیں ہے.(1)

سبکی کہتے ہیں: جرج کرنے کے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ جارح اور مجروح کے عقائد کیا ہیں. اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جرح محض اختلاف عقائد کی بنیاد پر ہوتی ہے یعنی جارح اور مجروح کے عقیدے الگ الگ ہوتے ہیں اور جارح اسی بنا پر مجروح کی جرح کرتا ہے. رافعی نے اپنے مندرجہ قول میں اسی طرف اشارہ کیا ہے.

راویوں کا تذکیہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تذکیہ کرنے والے مذہبی تعصب اور ذاتی عداوت سے پاک ہوں، اس لئے کہ اس بات کا امکان بہر حال ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں خامیوں کہ وجہ سے کسی عادل کی جرح اور فاسق کا تذکیہ کر دیا جائے.

اکثر ائمہ جرح و تعدیل میں اس طرح کی غلطی کرتے ہیں، یہ حضرات کسی کی جرح محض اختلاف عقائد کی وجہ سے کردیتے ہیں اور جب تحقیق ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جارح خطا کار اور مجروح صحیح و درست ہے. شیخ الاسلام سید المتاخرین تقی الدین بن دقیق نے اس غلطی می طرف اشارہ کیا ہے اپنی کتاب الاقتراح میں لکھتے ہیں مسلمانوں کی آبرو آگ کا ایک گڑھا ہے جس کے کنارے محدثین اور حکام کا گروہ کھڑا ہے.

متدرجہ بالا قول کے ثبوت کےلئے مقام مثال میں ہم بعض محدثین کا قول خود امام بخاری کے بارے میں پیش کرسکتے ہیں جو ابوزرعہ ابو حاتم نے بخاری کو محض اس لئے ترک کردیا کہ وہ مسئلہ خلق قرآن میں مخلوق کے قائل ہے کیا مسلمانوں میں کوئی ایسا بھی

------------------

1.مقدمہ فتح الباری، ج1، ص385.

۶۴

ہے جو یہ کہنے کی جرت کرسکے کہ بخاری متروک ہیں حالانکہ وہ فن حدیث کے علمبردار اور اہل سنت والجماعت کے قافلہ سالار ہیں اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان قابل مدح افعال کو قابل مذمت قرار دیں. حق تو یہ ہے کہ مسئلہ لفظ (یعنی الفاظ قرآن) میں اپنی جگہ برحق تھے اس لئے کہ خدا کی مخلوق میں جس کے پاس ذرا بھی عقل ہے وہ اس بات میں شک کرہی نہیں سکتا کہ اس کے افعال حادثہ، خدا کی مخلوق ہیں اور تلفظ بھی اس افعال میں ہے اس لئے قرآن پڑھنے کے وقت اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ خدا کی مخلوق ہیں امام احمد نے اس افعال حادثہ کے لفظ کی بد صورتی کی وجہ سے، مخلوق ہونے سے انکار کر دیا ہے. اس طرح ابو حاتم بن حبان کے بارے میں بعض مجسمہ کا یہ کہنا ہے کہ ان کے پاس دین بہت کم تھا ہم نے اسے سجستان سے نکال دیا اس لئے کہ وہ اللہ کی حد کا انکار کرتے تھے. خدا را کوئی مجھے بتائے کہ شہر بدر ہونے کا زیادہ مستحق کون ہے آیا وہ اپنے پروردگار کو محدود قرار دیتا ہے یا وہ جو خدا کو جسمیت سے منزہ سمجھتا ہے اس طرح مثالیں بہت ہیں اور اسی طرح کے لوگوں میں ہمارے یہ شیخ ذہبی ہیں جو بڑے ذی علم و دیانت دار تو ہیں لیکن اہل سنت کے اوپر حد سے زیادہ اعتراض اور حملے کرنے والے ہیں ان کی جرح پر اعتماد کرنا بالکل ناجائز ہے.(1)

اہل سنت کے امام اور ان کے ہم پلہ افراد میں کوئی بھی طعن سے محفوظ نہیں ہے

اسی لئے اہل سنت کے کلمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی طعن سے محفوظ نہیں ہے یہاں تک کہ ائمہ اہل سنت اور ان کے ہم پلہ افراد بھی امام شافعی کے بارے میں ان کے مخالفوں کی جرح آپ نے پڑھی، احمد بن حنبل پر جو اعتراضات ہوئے وہ بھی آپ کی نظر سے گزرے امام ابو حنیفہ کے بارے میں خطیب بغدادی کے طعن کرنے والوں کے بہت سے جملے نقل کئے ہیں نیز مالک کے بارے میں

-------------

1.طبقات الشافعیہ الکبری، ج2، ص12.13، احمد بن صالح کی سوانح حیات میں.

۶۵

ذہبی کا کلام گزر چکا ہے اور یہ بھی لکھتے ہیں امام مالک امت کے درمیان ستارے کی طرح رہبری کرتے ہیں لیکن یہ بھی طعن سے محفوظ نہیں. اگر کوئی مالک کے کسی قول سے احتجاج کرتا ہے تو مخالف خود مالک ہی کی شخصیت کو مجروح کردے گا اسی طرح اوزاعی بھی ثقہ اور حجت ہیں اور کبھی کبھی محدثین سے متنفر اور وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں. زہری کے بارے میں ان کے یہاں بہت مشکوک اور قابل غور امر ہے.یا امام لفظوں کا مطلب سمجھنا ذرا مشکل ہے. اسی طرح زہری کے بارے میں ایسے شخص سے بھی گفتگو کی ہے جو سمجھ نہیں رکھتا یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سیاہ خضاب کیا فوجی لباس پہنے اور ہشام بن عبد الملک کی خدمت میں رہے اور یہ دروازہ ہمیشہ وسیع ہے پانی جب دو قلہ تک پہونچ جائے تو اس پر گندگی کا اثر نہیں ہوتا مومن کی نیکیوں کا پلہ برائیوں سے بھاری ہو جائے تو وہ کامیاب ہے اگر ثقہ کے بارے میں کہی ہوئی باتیں مئوثر ہیں تو پھر ثقہ کا اثر کیوں نہیں ہے؟(1)

ان سب باتوں کے بعد ایسے اصول و ضوابط کو وضع کرنا کیسے ممکن جو عقلائی طور پر مقبول ہوں جو جرح و تعدیل اور حدیث کو رد یا قبول کرنے کا شرعی معیار ہو بخاری کا گذشتہ قول عجیب ہے تمام خامیوں کے باوجود عدالت ساقط نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی قطعی دلیل اور یقینی برہان حاصل نہ ہو میں پوچھتا ہوں کہ ایک آدمی کسی عادل پر محض ہوائے نفس کی وجہ سے حملے کرتا رہے اس کی عدالت کو مجروح کرتا ہے کیا اس طعن کرنے والے کی عدالت ساقط ہونے کے لئے اس سے بھی زیادہ روشن دلیل کی ضرورت ہے؟ یا کوئی قابل اعتبار آدمی جو عادل بھی ہے کس کی جرح کرتا اور اس پر طعن کرتا ہے کیا مجروح کی عدالت ساقط ہونے کے لئے اس سے بھی اقوی دلیل کی ضرورت ہے؟

البتہ اس میپ کوئی شک نہیں کہ کسی کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے ایسی دلیل بہر حال

-----------------

1.الروات الثقات المتکلم فیھم بما لا یوجب درھم، ص25. 26.

۶۶

چاہئے جو قاطع اور شبہات سے بالاتر ہو.ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے ذہبی کا قول پڑھا کہ پانی جب دو قلہ تک پہنچ جائے.اب ذہبی صاحب سے کون پوچھے کہ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ پانی جب دو قلہ تک پہونچ جائے تو گندگی اس پر اثر نہیں کرتی اور مومن کی نیکیوں کا پلہ اگر برائیوں سے بھاری ہو جائے تو وہ فلاح پانے والوں میں ہے میں عرض کرتا ہوں ذہبی صاحب یہاں بات عقاب و ثواب کی نہیں ہو رہی ہے کہ کہا جائے برائیاں اچھائیوں کی وجہ سے دور ہو جاتی ہیں.(1) یہاں بات عدالت اور وثاقت کی ہو رہی ہے اتنی حسین حدیثیں سن کے ہم کیا کریں گے ہمیں یہ بتائیے کہ کسی بھی راوی پر اعتبار کیسے کیا جائے اور ثبوت وثاقت کے کیا اصول ہیں؟ ہم کس راوی کے بارے میں آپ حضرات کے گذشتہ بیان کی موجودگی میں ضبط کا اصول کیسے واضح کریں؟ سب سے زیادہ ہنسی آتی ہے عبداللہ بن دائود کے بارے میں خود ان کے والد ماجد کے قول پر کہ میرا بیٹا جھوٹا ہے اور پھر ذہبی صاحب کی تاویل بھی کچھ کم نہیں ہے کہ موصوف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹا ہے مگر اپنی بات چیت میں جھوٹا ہے حدیث نبوی بیان کرنے میں جھوٹا نہیں ہے. یا اللہ جب ذہبی جیسے علماء ایسی رکیک اور بعید از قیاس

تاویلیں کریں گے تو بات مزید الجھ جائے گی یا نہیں. اس طرح کی تاویلیں التباس امر( بات کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں) اور ضیاع علم کا سبب بنتی ہیں.

قارئین کرام. اس موضوع پر ابھی ہم اتنا ہی لکھنا کافی سمجھتے ہیں لیکن ارباب ذوق کو کوشش کی دعوت ضرور دیں گے.

.................................................

1.سورہ ہود، آیت 114.

۶۷

پردے میں رہنے دیں پردہ اٹھائیں

بعض اہل حدیث کی جرح عمدا ترک کی جاتی ہے اور اس کے حالات کو پرد خفاء میں رکھا جاتا ہے. ارباب جرح و تعدیل بعض راویوں کے حالات کو عمدا پردے میں رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں عمدا جرح کرنا چھوڑ دیتے ہیں راوی کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنی حدیث کی حفاظت کے لئے. یعنی حدیث کو مضبوط اور قوی کرنے کے لئے.

علماء اہل سنت کے یہاں تدلیس (دھوکہ) ایک دستور کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ حاکم تدلیس کی قسموں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں. میں تدلیس کی یہ چھ قسمیں بیان کردی ہیں تاکہ علم درایہ کا طالب علم غور کرے اور اقل پر اکثر کا قیاس کرے. میں ان ائمہ حدیث کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا جو تدلیس ایسے جرم کے مرتکب ہوتے رہے ہیں مقصد اپنی حدیث اور حدیث کے راویوں کی حفاظت کرنا ہے.(1)

ذہبی کہتے ہیں: اسی طرح چوتھی صدی اور اس کے بعد کے ان بزرگوں کو جن کی تضعیف کی گئی ہے میں نے قابل توجہ نہیں سمجھا اس لئے کہ اگر میں یہ دروازہ کھول دیتا تو پھر کتاب و اجزاء کے راویوں میں سے کوئی راوی محفوظ نہیں رہتا. شاذ و نادر کی بات دوسری ہے.(2)

ذہبی مزیدلکھتے ہیں: یہ بات سب جانتے ہیں کہ راوی کو بچانا اور اس کی پردہ پوشی کرنا بے حد ضروری ہے تیسری صدی کا نقطہ اختتام متقدمین اور متاخرین کے درمیان حد فاصل ہے اگر میں اس صدی کے راویوں کی کمزوری کو بیان کرنا شروع کردوں تو میرے ساتھ صرف چند افراد رہ جائیں گے اس لئے کہ اس صدی کے اکثر راوی یہ بھی نہیں سمجھتے تھےکہ وہ کیا روایت کررہے ہیں اور نہ حدیث کی

...........................................

1.معرفتہ علوم الحدیث، ص111.

2.المغنی فی الضعفاء. ص4.

۶۸

شان جلالت سے واقف تھے انھوں نے بچپن میں روایتیں سنیں اور جب بوڑھے ہوگئے تو ان روایتوں سے احتجاج کی ضرورت محسوس کی.(1) پھر انھوں نے جن کے سامنے حدیث پڑھی اور سماع کے جس طبقہ پرحدیث ثابت ہوئی اسی پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یہی اصول علم حدیث میں مبسوط طور پر بیان ہوئے ہیں.(2)

اب حضرات قارئین! میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مجروح راویوں کی حفاظت کیسے ہوجائے گی؟

دوسری بات یہ کہ جب ارباب جرح و تعدیل کا اصول ہے کہ وہ راویوں کی اصلی حالات کو چھپاتے ہیں پھر خیانت کار ناقدوں کی توثیق پر کیسے اعتماد کیا جائے اور ان کی توثیق پر اعتماد کر کے کسی بھی راوی کی روایت کو کیسے قبول کرلیا جائے.

راوی کے حالات، جرح کا تقاضا کرتے ہیں جو توثیق کے خلاف ہیں آپ راوی کے اصلی حالات کو موجب جرح ہیں چھپا دیتے ہیں تو پھر حجیت کہاں باقی رہی؟

جو ہم اس راوی کی حدیث لے لیں ایسے میں تو تمام راوی مشکوک ہوگئے تو پھر حدیث کس سے لیں؟

پھر راوی کے اصلی حالات کو چھپا کے خود ارباب جرح و تعدیل کیا تدلیس کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں ان کا فریضہ تو یہ تھا کہ راوی کے تمام حالات مالہ و ما علیہ( جو اس کے خلاف ہو اور جو اس کی حمایت میں) حدیث کے ردّ و قبول میں جن کی مداخلت ہے بیان کردیتے.

1.لسان المیزان، ج1، ص9 اصل خطبہ کرتے وقت.

2.میزان الاعتدال، ج1، ص115 مقدمہ میں.

۶۹

حدیثیں قبول کرنے میں اہل سنت کے غیر متوازن اصول

مسلمانوں کا ہر فرقہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہی مومن ہے اور اس کے عالاوہ سب لوگ باطل اور حق سے منحرف ہیں یہ ایک فطری بات ہے چنانچہ اہل سنت حضرات بھی دوسرے فرقوں کی طرح خود کو حق پر سمجھتے ہیں اور خودکو مومن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو حق سے خارج سمجھتے ہیں اچھا یہ کوئی اہم بات نہیں ہے اہم بات کسی بھی فرقے کی وہ دلیلیں ہیں جو وہ اپنی حقانیت کے ثبوت میں رکھتا ہے اور ہم اس وقت ان دلیلوں کی تحقیق کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے.

پھر اہل سنت حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شیعوں اور ناصبیوں کے درمیان درمیانی حیثیت رکھتے ہیں یعنی بیچ کی چیز ہیں.

شیعوں کی طرح تفضیل علی(ع) کرتے ہیں اور ناصبیوں کی طرح علی(ع) کو گالی بکتے ہیں یہاں پہ یہ بات اتنی اہم نہیں ہے کہ جس پر آپ کا وقت لیا چائے بلکہ اہم بات ان کے فریقین کی روایات اور احادیث اخدکرنے میں موقف کی ہے میرا خیال ہے کہ رد و قبول حدیث کے دو طریقوں میں سےکوئی ایک طریقہ ہونا چاہئے تھا.

1. پہلا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ : اہل سنت حضرات کسی بھی غیر سنی سے کوئی حدیث قبول نہ کریں چاہے راوی ثقہ ہو چاہے غیر ثقہ بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ عادل ہے یا نہیں اس لئے کہ عدالت ایمان کی فرع ہے بلکہ معیاریہ ہوناچاہئےکہ راوی صرف جھوٹ سے پرہیز ہی نہ کرتا ہو بلکہ عادل بھی ہو اور اہل سنت کا ہم مذہب ہو شیعہ یا ناصبی نہ ہو ناصبی سے میری مراد ناصبیوں کے وہ تمام فرقے ہیں جو عثمانی اور خوارج وغیرہ کہے جاتے ہیں اگر مندرجہ بالا اصول کو اپنا لیا جائے تو ہرسنی کسی بھی غیر سنی کی روایت پر عمل نہیں کرے گا اس لئے کہ غیر اہل سنت بدعتی اور ایمان سے خارج ہوتا ہے جو اہل سنت کےعقیدے کا مخالف ہے اس کی

۷۰

روایت نا قابل عمل ہے جیسا کہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا امام احمد بن حنبل مسئلہ خلق قرآن کے معاملے میں رویت پروردگار کے معاملے اسی اصول پر عمل پیرا ہیں اور اپنے مخالف کی کوئی روایت قبول نہیں کرتے.

2. دوسری صورت یہ نکلتی ہے کہ اہل سنت حضرات یہ طے کر لیں کہ راوی اگر ثقہ ہو اور جھوٹا نہ ہو تو اس کی بات وہ قبول کرں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے راوی مذہب میں ان کا مخالف ہو اور ہم عقیدہ نہ ہو جیسا کہ شیعوں کے نزدیک مشہور ہے( آپ کے قول کے مطابق سوال نمبر 8 ملاحظہ فرمائیں).

اہل سنت ثقہ راوی سے حدیث لے لیتے ہیں چاہے وہ راوی ان کا ہم مذہب نہ ہو

مندرجہ بالا اصولوں میں دوسرا اصول اہل سنت کے یہاں جاری ہے وہ ثقہ راویوں سے روایت لے لیتے ہیں چاہے وہ راوی ان کے مذہب کا مخالف ہو سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو بہت سے آثار نبوت ضائع ہو جائیں گے.(1)

جوزجانی فرماتے ہیں: اہل کوفہ میں ایک قوم وہ بھی ہے جس کا مذہب قابل تعریف نہیں ہے لیکن وہی لوگ کوفہ میں ہل حدیث کے راس و رئیس ہیں جیسے ابواسحق. منصور اعمش اور زبید بن حارث وغیرہ. ایسے لوگوں سے حدیث ان کی صداقت بیان کی وجہ سے لی جاتی ہیں.(2)

.......................................................

1:-میزان الاعتدال، ج1، ص118. ابان بن تغلب کی سوانح حیات میں.

2:- احوال الرجال، ص78.80 فائدہ ابی ورقاء کے ترجمے میں، نیز انھیں الفاظ کے ساتھ میزان الاعتدال، ج3، ص97. زید بن حارث یافی کے ترجمے میں، اسی میں(اور ابو اسحاق جوزجانی نے کہا. اسی کی تکرار ہے معمولی عبارت میں کہ وہ اہل کوفہ میں سے تھے...)

۷۱

علی بن مدینی لکھتے ہیں: اگر اہل بصرہ کو قدریہ ہونے کی وجہ سے ترک کردیا اور اہل کوفہ کو اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ وہ شیعہ ہیں تو حدیث کی کتابوں میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا اور سب خراب ہو جائے گا.

خطیب بغدادی لکھتے ہیں : علی ابن مدینی کے اس قول “ کتابیں خراب نہ ہوجائیں گی کا” مطلب یہ ہے کہ حدیثیں ضائع ہوجائیں گی.(1)

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مذکورہ بالا اصول کا استعمال وہ صربف ایک جگہ کرتے ہیں اور دو باتیں ایسی ہیں جو ان کے اس اصول سے میل نہیں کھاتے.

اہل سنت مذہبی تعصب کی وجہ سے ثقہ راویوں سے حدیث نہیں لیتے

1.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک جگہ ایسی ہے جہاں ان حضرات کا مذکورہ بالا اصول ٹوٹ جاتا ہے اور یہ اختلاف مذہب کی بنا پر شیعہ راوی سے بھی حدیث نہیں قبول کرتے ہیں اگر کوئی راوی اپنے فرقے کی طرف دعوت دے رہا ہو تو اس کی حدیث بھی نہیں لیتے اور اگر رافضی ہے تو مطلقا نہیں لیتے ان کا گریز اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ ثقہ ہیں بلکہ اس گریز کی وجہ ان فرقوں سے اہل سنت کہ کینہ پروری اور ان کی دعوت سے عداوت ہے.

ذہبی کہتے ہیں:پھر سب سے بڑی بدعت ہے رفضکامل، اس میں غلو ابوبکر و عمر کے درجوں

...............................

1.الکفایتہ فی علم الرویہ، ص129، باب ذکر بع المنقول عن ائمه اصحاب الحدیث فی جواز الرواة عن اهل الاهو و الو البدع (یعنی اصحاب الحدیث ائمہ سے بعض منقول روایت کے بارے میں جو اہل ہوا و ہوس اور اہل بدعت سے اخذ روایت کو جائز سمجھتے ہیں)

۷۲

کو گھٹانا. یا اس فعل کی طرف دعوت دینا ایسے لوگوں کی حدیث سے نہ حجت قائم ہوتی ہے نہ عزت میں اضافہ ہوتا ہے.(1)

سیوطی فرماتے ہیں: راہ صواب یہ ہے کہ رافضیوں اور اسلاف کو گالی بکنے والوں کی روایت قبول نہیں کرنی چاہئے اس

لئے کہ مسلمان کو گالی بکنے والا فاسق ہے لہذا اصحابہ اور سلف کو گالی بکنے والا تو بدرجہ اولی فاسق ہے ابن مبارک نے کہا ہے عمر بن ثابت سے حدیثیں اخذ نہ کرو وہ اسلاف کو گالیاں دیتے تھے.(2)

یونس بن خباب اسیدی کے ترجمہ میں ابن حجر لکھتے ہیں کہ دوری نے ابن معین سے کہا کہ یونس بن خباب برے آدمی ہیں عثمان کو گالی دیتے تھے ساجی نے کہا یونس آدمی سچے ہیں لیکن لوگوں نے ان کے عقیدہ کی خرابی کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا ہے، ابن معین نے کہا ثقہ تھے لیکن عثمان پر سب کرتے تھے، اپنی کتاب الثقات میں ابن شاہین نے کہا کہ عثمان بن ابی شیبہ نے کہا یونس بن خباب ثقہ اور صدوق ہیں ابن حبان نے کہا ان سے روایت لینا حلال نہیں ہے حاکم ابو احمد کہتے ہیں یونس بن خباب کو یحیی اور عبد الرحمن نے چھوڑ دیا ہے اور بہت اچھا کیا ہے اس لئے کہ وہ عثمان کو گالیاں دیتے تھے اور جو شخص کسی بھی ایک صحابی کو گالی دے وہ اسی لائق ہے کہ اس سے روایت نہ لی جائے.(3)

خطیب بغدادی نے اپنی اسناد سے عبداللہ بن مبارک کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابن مبارک نے کہا ابوعصمتہ نے ابو حنیفہ سے پوچھا کہ ہم آثار نبوت کس سے لیں آپ کس کے بارے میں حکم دیتے ہیں؟ فرمایا ہر اس آدمی سے روایت لو جو اپنے خواہشات میں عادل ہو سوائے شیعہ کے اس لئے

............................................

1.میزان الاعتدال، ج1، ص118 ابان بن تغلب کے سوانح حیات میں.

2.تدریب الراوی ، ج 1، ص326، 327النوع الثالث والعشرون صفة من تقبل روایة وما یتعلق ( قبول روایت اور اس سے متعلق تیسویں قسم)

3.تہذیب التہذیب، ج11، ص385 یونس بن خباب اسیدی کی سوانح حیات میں.

۷۳

کہ ان کے عقیدہ کی اصل ہی اصحاب محمد کو گمراہ ثابت کرنا ہے اور اس سے بھی روایت مت لو جو سلطان کا ملازم ہے میں یہ نہیں کہتا سلطان ان سے جھوٹ بلواتا ہے ایسے کام کا حکم دیتا ہے جس کا کرنا جائز نہیں بلکہ سلطان کی ملازمت میں رہنے والے لوگ سلطانوں کے لئے راستے ہموار کرتے ہیں تاکہ عوام ان کے غلام بن جائیں اس لئے یہ دونوں گروہ ( شیعہ اور ملازمین سلطان) اس قابل نہیں ہیں کہ مسلمان کا امام بنیں.(1)

لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں صاحب دعوت کو سزا دینا یا اس کی دعوت سے گریز کرنے سے وہ جس حق کا حامل ہے وہ حق چھپ جائے گا اور یہ کوئی قابل ستائش بات نہیں ہے محض آپ کے فرقے کے خلاف دعوت دینے کی وجہ سے اس لئے حق نہ لیا جائے اور آثار نبوت کو ضائع کردیا جائے خصوصا حدیث کے مقابلے میں ان لوگوں سے حدیث نہ لی جاتی جن کی امانت داری مسلم اور قوت حفظ تسلیم شدہ ہے.

اہل سنت کی نواصب کے ساتھ جانبداری اور شیعوں سے گریز. ایک غیر متوازن نظریہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بد نام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

دوسرے : ایک طرف شیعہ ہیں دوسری طرف نواصب ہیں بیچ میں اہل سنت ہیں لیکن اس درمیانی فرقے کے تعلقات میں طرفین کی نسبت سے توازن نہیں پایا جاتا.

برادران اہل سنت نواصب کے تمام فرقوں سے مثلا عثمانیہ اور خوارج وغیرہ سے کثرت سے روایت کرتے ہیں اور ساتھ ہی تصریح بھی کرتے رہتے ہیں کہ یہ لوگ ناصبی ہیں اور مولا علی(ع) کو

..............................................

1..الکفایتہ فی علم الرویہ، ص126، باب ذکر بع المنقول عن ائمہ اصحاب الحدیث فی جواز الرواة عن اہل الھو و الو البدع،اور اسی کے مانند سیوطی کی مفتاح الجنة ص38.

۷۴

گالی دیتے ہیں بلکہ مولا علی(ع) کا بغض ان کے دلوں میں جڑ پکڑ چکا ہے بعض حضرات تو ان کی توثیق میں افراط اور زیادہ روی کا شکار ہوگئے ہیں جیسے ابو دائود کا قول کہ گمراہ اور خواہشات نفس کے پجاری کہتے ہیں بگڑے ہوئے لوگوں میں خوارج سب سے زیادہ صحیح الحدیث ہوتے ہیں ان سے زیادہ صحیح الحدیث کوئی نہیں پھر اسی مقام مدح میں عمران بن حطان اور ابو احسان اعرج کو بیان کرتے ہیں( دونوں بد بودارخارجی ہیں) مترجم غفرلہ(1)

رہی بات عثمانیوں کی وہ جمہور سے اس درجہ خلط ملط ہوگئے ہیں کہ نواصب اور اہل سنت میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے خصوصا عثمانی نواصب. جنہوں نے خود کو اہل سنت میں اس طرح ملا دیا ہے کہ پہچاننا مشکل ہے کہ کون سنی ہے اور کون عثمانی ایسا ہوتا ہے کہ اہل سنت کسی شخص کی انتہائی تعریف کرتے ہیں مثلا وہ سنت کا سخت پابند ہے اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں لیکن جب تحقیق کی جاتی ہے تو یہ آدمی اہل بیت کا دشمن اور خاندان امیہ کا چاہنے والا اور دشمنان اہل بیت سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرنے والا ثابت ہوتا ہے یہ بات اتنا واضح ہے کہ اس کے لئے دلیل دینے کی بھی ضرورت نہیں اس بات کے کچھ شواہد بیان کئے جاچکے ہیں.

لیکن غریب شیعہ محض محب علی(ع) ہونے کی وجہ سے اس لائق نہیں ہے کہ برادران اہل سنت اس سے حدیث لیں شیعہ ان کی نظر میں کبھی اکثر اور کبھی مطلقا مہجور ہے یہ حضرات ہمیشہ اس فرقے کو اپنی زبان سے زخم لگاتے رہتے ہیں.

حالانکہ اگر شیعہ صرف اس وجہ سے مطعون ہیں کہ اصحاب پر اعتراض کرتے ہیں تو نواصب کے حملوں کا نشانہ تو بہت سے اصحاب ہیں وہ بھی ایسے اصحاب جنھوں نے اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) کا

.......................................

1.الکفایتہ فی علم الروایہ، ص130، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص214 عمران بن حطان کی سوانح حیات میں میزان الاعتدال، ج5، ص285 عمران بن حطان کے ترجمے میں، تہذیب التہذیب، ج8، ص113 عمران بن حطان کے ترجمے میں تہذیب الکمال، ج22، ص323، تدریب الراوی، ج1، ص326.

۷۵

دامن تھام رکھا ہے اور ان سے ہی ہدایت پاتے ہیں نواصب جب اہل بیت کو برا کہتے ہیں اور ان سے بغض کا اظہار کرتے ہیں تو شیعوں کی کچھ زیادہ ہی دل آزاری ہوتی ہے.

خوارج کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

شیعہ تو صحابہ کو صرف برا کہتا ہے اور ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جب کہ خوارج امیرالمومنین(ع) کہ براہ راست تکفیر کرتے ہیں اور انھیں صریحا کافر کہتے ہیں.حالانکہ امیرالمومنین علی(ع) کی مقدس ذات شیعہ اور سنی دونوں فرقوں میں اتفاقی طور پر قابل احترام ہے شیعہ تو آپ کو سید الصحابہ مانتے ہی ہیں سنی بھی آپ کو کم سے کم سادات صحابہ میں شمار کرتے ہیں لیکن خارجی اور عثمانی نواصب آپ کو علی الاعلان گالیاں دیتے ہیں اور لعنت کرتے ہیں حالانکہ دونوں فریق کے درمیان مشہور حدیث ہے کہ جو علی(ع) کو گالی دے وہ نبی(ص) کو گالی دیتا ہے اور جو علی(ع) سے بغض رکھے وہ نبی(ص) سے بغض رکھتا ہے. علی(ع) کے بارے میں سرورکائنات نے علی(ع) ہی سے خطاب کر کے فرمایا کہ تم کو محبوب نہیں رکھے گا مگر مومن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق. یہ باتیں آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں عرض کی جا چکی ہیں.(1)

علی(ع) وہ ہیں جن کے حق میں احمد بن حنبل فرماتے ہیں. ہم تک کسی صحابی کے فضائل علی(ع) کے فضائل سے زیادہ نہیں پہنچے.(2) دوسری جگہ امام موصوف فرماتے ہیں. اصحاب پیغمبر(ص) کے فضائل میں اتنی حدیثیں وارد نہیں ہوئیں جتنی علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل میں ہیں.(3)

............................................

1. مسند احمد، ج 1، ص128، 95 مسند علی بن ابی طالب، فتح الباری، ج 1، ص63، المسند المستخرج علی صحیح مسلم، ج 1، ص157، سنن ترمذی، ج5، ص463، کتاب کتاب المناقب، مجمع الزوائد، ج9، ص133، صحیح مسلم، ج1، ص76، صحیح ابن حبان، ج15، ص367.

2.فتح الباری، ج7، ص74.

3.المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص116، فیض التقدیر، ج4، ص355، شواہد التنزیل للحکانی، ج1، ص27، تہذیب التہذیب، ج7، ص297، تاریخ دمشق، ج42، ص418.

۷۶

زرقانی کہتے ہیں: احمد نسائی اور اسماعیل قاضی کا متفقہ فیصلہ ہے کہ عمدہ اسانید کے ساتھ علی(ع) کے فضائل میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کسی کے بارے میں نہیں ہوئیں.(1) نیشاپوری کہتے ہیں: حسن حدیثیں جتنی علی(ع) کے فضائل میں وارد ہوئیں ہیں کسی صحابی کے فضائل میں وارد نہیں ہوئیں.(2)

ان تمام باتوں کے باوجود خوارج اہل سنت کے نزدیک زیادہ مستند اور مقبول ہیں اور علی(ع) کے چاہنے والے متروک اور نا مقبول ہیں. جیسا کہ ابھی گذشتہ صفحات میں ابو دائود سے نقل کیا گیا. ابن ابی دائود خوارج کو مقبول سمجھنے میں انہوں نے دو نام لئے تھے عمران بن حطان اور حسان اعرج. ان میں سے عمران ابن حطان کا تعارف یہ ہے کہ جب اشقی الآخرین عبدالرحمن بن ملجم ملعون نے مولا علی(ع) اشعار میں ڈھل گئے دو شعر کا ترجمہ ملاحظہ ہو.

ترجمہ اشعار: کیا کہنا اس تقوی کی ضربت کا جو محض عرش والے کے رضا حاصل کرنے کے لئے لگائی گئی تھی. میں تو جب اس ضربت کو یاد کرتا ہوں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی یہ ایک ضربت خدا کے نزدیک میزان اعمال میں تمام دنیا کے اعمال سے گراں تر ہے.(3)

لیکن ان اشعار کا خالق بخاری کی نظر میں بلکہ غیر بخاری کی نظر میں بھی اتنا مقبول ہے کہ اس سے حدیثیں لی جاتی ہیں اور اس کی رواتیں قبول کی جاتی ہیں.(4)

............................................

1.شرح الزرقانی، ج1، ص241، اور اس کی مانند الاستیعاب میں، ج3، ص1115.

2.فیض القدیر، ج4، ص355.

3.الاصابتہ، ج5، ص303، المحلی، ج10، ص484، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص215.

4.صحیح بخاری، ج5، ص2194، صحیح ابن حبان، ج11، ص439،مجمع الزوائد، ج4، ص192، السنن الکبری البیہقی، ج3، ص266، سنن ابی دائود، ج4، ص72، والسنن الکبری للنسائی، ج5، ص466.

۷۷

شیعوں سے گریز کیوں اور نواصب کی طرف میلان کیوں. ابن حجر کی توجیہ

ابن حجر عسقلانی نے اعتراف کیا ہے کہ شیعہ اور نواصب کے درمیان اہل سنت کا رویہ یقینا غیر متوازن ہے اسی لئے ابن حجر اپنے مذہب کا دفاع کرتے ہیں:میں سوچتا تھا کہ آخر ہمارے علماء کا رویہ غیر متوازن کیوں ہے یعنی نواصب کی اکثر توثیق کی جاتی ہے.(1) جب شیعوں کو مطلقا کمزور سمجھا جاتا ہے. جب کہ مولا علی(ع) کے بارے میں یہ حدیث متفق علیہ ہے کہ ان سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور بغض نہیں رکھے گا مگر منافق. ( مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو دیکھتے ہوئے نواصب جو بغض علی(ع) کے حامل ہیں وہ بہر حال منافق ہیں اور شیعہ جو محبت علی(ع) کے دعوے دار ہیں وہ بہر حال مومن ہیں. پھر اہل سنت کا میلان نواصب کی طرف اور اہل سنت کا شیعوں سے گریز ابن حجر کی سمجھ میں نہیں آتا ہے) مترجم غفرلہ.

آخر ابن حجر کی سمجھ میں اس اشکال کا جواب (ع) کا آہی گیا لکھتے ہیں کہ تھوڑا سا غور کرنے سے اس اشکال کا جواب مجھے مل گیا. وہ یہ کہ بغض علی(ع) کا نفاق ہونا یہاں ایک سبب سے مقید ہے اور وہ ہے علی کا نبی کی نصرت کرنا. اس لئے کہ انسان کو جس سے نقصان پہنچتا ہے اس کا بغض دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور جس سے فائدہ پہنچتا ہے اس کی محبت دل میں گھر کرجاتی ہے یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے.

وہ حدیث جس میں حب و بغض علی(ع) کے نتائج معین کئے گئے ہیں عموم پر دلالت نہیں کرتی ہے. اس لئے کہ علی(ع) سے محبت کرنے والے تو کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یہاں تک علی(ع) و ہ بھی بلکہ خدا تک کہنے لگتے ہیں حالانکہ خدا ان کے اتہام اور افتراء پردازی سے بہت بلند ہے.

اس کے علاوہ اسی طرح کی حدیث تو انصار کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے اور علماء نے اس حدیث کی شرح بھی یہی کی ہے کہ چونکہ انصار نے نبی کہ نصرت کی اس لئے ان کی محبت ایمان اور

...................................

1.العتب الجمیل علی اہل الجرح والتعدیل کتاب کے ص35 پر ابن جمر سے نقل کرتے ہیں غالبا کی جگہ غالبا استعمال کرتے ہے.

۷۸

بغض نفاق ہے تو انصار اور علی دونوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے کہ ان کی محبت ایمان اور بغض نفاق سبب دونوں حدیث میں ایک ہی ہے یعنی نبی

کہ نصرت لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ نواصب میں اکثر صادق اللہجہ اور دیانت دار جانتے ہیں برخلاف شیعوں کے شیعہ زیادہ­تر جھوٹے اور حدیثوں کے معاملے میں غیر محتاط ہوتے ہیں.

ایک بات یہ بھی ہے کہ نواصب علی کو عثمان کا قاتل سمجھتے ہیں یا کم سے کم قتل عثمان میں علی(ع) کا تعاون ان کے نزدیک مسلم ہے اس لئے علی(ع) سے بغض رکھنا ان کے خیال میں دینداری کا تقاضا اور پھر بغض علی(ع) رکھنے والوں میں ان لوگوں کا بھی اضافہ ہوجاتا ہے جن کے عزیز و اقارب علی(ع) سے جنگ کرنے میں مارے گئے.(1)

ابن حجر اپنی طویل گفتگو میں میری سمجھ سے مندرجہ ذیل دو باتیں کہنا چاہتے ہیں:

حدیث “حب علی علیہ السلام ایمان “اور “غض علی علیہ السلام نفاق” پر ایک نظر

امر اول: ابن حجر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حدیث میں حب علی(ع) کو ایمان اور بغض علی(ع) کو کفر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ علی(ع) نے نبی کی نصرت کی تھی لہذا جو علی(ع) سے محض نصرت نبی کی وجہ سے بغض رکھتاہے وہ یقینا منافق ہے لیکن نواصب منافق نہیں ہیں اس لئے کہ ان کا بغض علی(ع) سے مندرجہ بالا سبب سے نہیں ہے وہ علی(ع) سے اس لئے بغض رکھتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق علی(ع) نے عثمان کو قتل کیا یا علی(ع) عثمان کے قتل میں مددگار تھے یا اس لئے کہ ان کے اعزہ و اقارب علی کے ہاتھوں مارے گئے ہیں.

ابن حجر پہلے ہی بات صاف کرچکے ہیں کہ حدیث میں عموم نہیں ہے اس لئے کہ محبت

............................................

1.تہذیب التہذیب، ج1، ص410 حماذہ بن زیارالازدی کی سوانح حیات میں.

۷۹

علی(ع) میں علی(ع) کے چاہنے والے کبھی بکنے لگتے ہیں لہذا جو علی(ع) سے اس لئے دشمنی کرے کہ وہ ناصر نبی(ص) ہیں وہ منافق ہے اور نواصب کے بغض کا سبب حب عثمان ہے اس لئے وہ منافق نہیں.

میں کہتا ہوں یہ بڑی عجیب و غریب توجیہ ہے اس لئے کہ نبی کی نصرت صرف امیرالمومنین(ع) ہی نے تو نہیں کی ہے دوسروں نے بھی نصرت کی ہے لہذا یہی بات تمام نصرت کرنے والوں کے حق میں جاری ہوگی چاہے وہ جیسا بھی ہو نبی کی نصرت کرنے والے تو کفار و مشرکین بھی ہیں جیسے ہشام بن عمرو بن حارث اور زبیر بن ابوامیہ مخزومی اور زمعہ بن اسود اور ابو البختری بن ہشام یہ وہ ہیں جنہوں نے نبی کی بڑے کٹھن اوقات میں نصرت کی تھی جب سرکار شعب ابی طالب میں قطع تعلقات کی زندگی گزار رہے تھے تو انھوں نے کوشش کی تھی کہ وہ معاہدہ جو کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اور نبی کے قطع تعلق کے بارے میں جس میں قسمیں کھائی گئی تھیں اس کو توڑ دیا جائے اس وقت بنو ہاشم شعب ابو طالب میں محصور تھے. اس طرح مطعم بن عدی نے بھی اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کی تھی بلکہ توڑ دیا تھا اس کے علاوہ جب نبی(ص) طائف سے با حال پریشان مکہ تشریف لائے تھے اور کوئی پناہ دینے کی ہمت نہیں کر رہا تھا تو یہی مطعم بن عدی تھا جس نے حضور کو پناہ دی تھی اور اپنی پناہ میں مکہ پہونچایا تھا تو کیا نصرت نبی کہ وجہ سے ان لوگوں کی محبت بھی ایمان اور ان کا بغض نفاق ہوسکتا ہے؟

اگر ابن حجرعسقلانی کی توجیہ مانی جائے تو جواب ہاں میں ہوگا.

( ابن حجر صاحب کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک حدیث کی توجیہ کردینے سے فضائل علی(ع) کم نہیں ہوجائیں گے البتہ قاری آپ کے خیالات پڑھ کے آپ کے ایمان، کفر و نفاق کے بارے میں ایک محکم فیصلہ تک پہونچ جائے گا) مترجم غفرلہ.

۸۰