فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۳

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ 0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 447

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 447
مشاہدے: 135051
ڈاؤنلوڈ: 3204


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 447 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135051 / ڈاؤنلوڈ: 3204
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مولائے کائنات کے بارے میپ یہہی ایک حدیث تو وارد نہیں ہوئی اس مضمون کی یا اس سے ملتے جلتے مضمون کی بے شمار حدیثیں ہیں آپ کس کس کی توجیہ کریں گے اور اگر آپ یہ طے کر لیں کہ ہر حدیث کی ایسی توجیہ کریں گے تو پھر حدیث پیغمبر(ص) کا معنی گنجلک اور بے مفہوم ہو کے رہ جائے گا اس لئے کہ حدیث کی توجیہ اس کے غیر معنی کی طرف کرنے سے حدیث اپنا مفہوم کھو دیتی ہے اور بات بلاغت پیغمبر(ص) پر آتی ہے جبکہ پیغمبر(ص) صاحب حکمت اور حامل فصل خطاب ہیں.

اس کے علاوہ مولائے کائنات نے آپ کی اس توجیہ کو آپ کے بہت پہلے اپنے ایک جملہ سے غلط قرار دیا ہے مولا علی(ع) اپنے دور خلافت میں لوگوں کو اپنی نیت اور اپنے مقاصد جنگ سے سے با خبر رکھنےکے لئے ارشاد فرماتے ہیں اگر میں اپنی اس تلوار کو مومن کی گردن پر رکھ کےکہوں کہ مجھ سے دشمنی کرو ورنہ تیرا گلا کاٹ دوں گا جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق کو دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب اس شرط پر دیدوں کہ وہ مجھ سے محبت کرے گا جب بھی محبت نہیں کرے گا اس لئے کہ نبی کی زبان صداقت نے میرے لئے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اے علی(ع) تم سے مومن دشمنی نہیں کرسکتا اور منافق محبت نہیں کرسکتا ابن حجر آپ اس بات کو مانیں یا نہ مانیں آپ کے بڑے اس کو مانتے تھے چنانچہ عمرو نے دیکھا ایک شخص مولا علی(ع) کو گالی دے رہا ہے فورا اس سے کہا میرا خال ہے کہ تو منافق ہے.

ایک سے ایک صحابہ کا بیان آپ کی اس توجیہ کی تردید کرتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ عہد پیغمبر(ص) سے ہی منافقین کو بغض علی(ع) کے ذریعہ پہچانتے تھے.(1)

................................................

1.سنن الترمذی، ج5، ص635، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص139، حلیتہ الاولیاء، ج6، ص295، تذکرة الحفاظ، ج2، ص673، مجمع الزاوائد، ج9، ص132، فضائل الصحابہ لابن حنبل، ج2، ص579.

۸۱

اس دور کے تاریخی شواہد بھی یہ بتاتے ہیں کہ علی(ع) کے دشمن نے کبھی یہ نہیں کہا کہ چونکہ علی نے نصرت پیغمبر(ص) کی ہے اس لئے ہم علی(ع) کے دشمن ہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ علی(ع) حق کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرتے علی(ع) حق کے معاملے میں پتھر سے زیادہ سخت ہیں ظاہر ہے کہ علی(ع) نے اگر ان کے ساتھ نرمی کہ ہوتی یا ڈھیل دی ہوتی تو وہ علی(ع) سے ہرگز دشمنی نہیں کرتے.اور جو علی(ع) سے دشمنی کرتا تھا اس کو دوست رکھتا تھا(1) اس نے کہا پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو مسلمان فوج کے ایک دستہ پر امیر بنا کے یمن بھیجا ایک دوسرے دستے پر امیر بنا کے خالد بن ولید کو جیل کی طرف بھیجا اور ہدایت یہ دی تھی کہ جب دونوں دستے ملاقات کریں اکٹھا ہوجائیں تو دوستوں کے مشترکہ امیر علی(ع) ہوں گے دونوں دستوں نے اس حال میں ایک دوسرے سے ملاقات کی اور اس درجہ مال غنیمت حاصل کیا کہ اس سے قبل اتنا مال کبھی نہیں پایا تھا اور اس کے پانچویں حصہ سے علی(ع) نے ایک کنیز خریدی تو خالد بن ولید نے جب یہ دیکھا تو بریدہ کو بلایا اور کہا علی(ع) نے مال غنیمت میں سے صرف ایک کنیز لی ہے جا کے پیغمبر(ص) کو خبر کر دے میں مدینہ حہونا مسجد پیغمبر(ص) میں آپ کے حجرے کے قریب پہنچا مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا علی(ع) نے مال خمس سے ایک کنیز لی ہے میں نبی کو اس خیانت کے بارے میں بتانے آیا ہوں اگر بات نبی تک پہونچ گئی تو علی(ع) نبی(ص) کی نگاہ سے گر جائیں گے پیغمبر(ص) یہ ساری باتیں پس دیوار سے سن رہے تھے حالت غضب میں باہر نکلے فرمایا اے لوگو!آخر تم علی(ع) کی منزلت گھٹانے کی فکر میں کیوں رہتے ہو؟ یاد رکھنا جو علی(ع) کو گھٹاتا ہے جو علی(ع) سے الگ ہوا وہ مجھ سے بھی الگ ہو گیا میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) مجھ سے ہے علی(ع) کی خلقت میری طینت سے

------------------

2.مجمع الزوائد، ج9، ص127، مسند بن حنبل، ج5، ص350، فضائل الصحابہ لابن حنبل، ج2، ص690، فتح الباری، ج8، ص66،نیل الاوطار، ج7، ص110.

۸۲

ہے اور میری خلقت طینت ابراہیم(ع) سے ہے جب کہ میں ابراہیم سے افضل ہوں اور بعض کی ذریت بعض سخ افض بھی ہے اور اللہ دیکھنے والا اور جاننے والا ہے(قرآن) اے بریدہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے بعد تم لوگوں کا علی(ع) ہی سرپرست ہے صرف ایک کنیز لے لی تو اتنا واویلا ہورہا ہے ارے علی(ع) کا حق اس سے بھی بہت زیادہ ہے بریدہ یہ سن کے بہت پریشان ہوا کہا یا رسول اللہ(ص) آپ کی صحبت سے مشرف ہوں اور صحبت کا واسطہ دیتا ہوں ایک بار پھر مجھ سے بیعت لے لیں نبی نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور میں نے پھر آپ کے ہاتھ پر بہ نام اسلام بیعت کر کے دوبارہ اسلام کی تجدید کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی(ع) کی محبت اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور مسلمان بغیر محبت علی(ع) کے مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اسی وجہ سے بریدہ نے اپنے اسلام کی تجدید کو ضروری سمجھا انہیں بریدہ سے دوسری حدیث بھی ملاحظہ ہو کہتے ہیں میں علی(ع) سے زیادہ کسی سے بغض نہیں رکھتا میرے بغض علی(ع) کی انتہا یہ تھی کہ میں قریش کے ایک آدمی سے محض اس لئے محبت کرتا تھا کہ وہ علی(ع) کا دشمن تھا ایک بار رسول نے لشکربھیجا اس لشکر کا سردار وہی شخص تھا میں نے اس کے ساتھ صرف اس لئے جانا پسند کیا کہ وہ علی(ع) کا دشمن تھا اس شخص نے ایک خط میں علی(ع) کی شکایت لکھی اور نبی کے پاس بھیجنا چاہا تو میں نے اس سے یہی کہا کہ مجھے اس خط کے مصدق کے طور پر بھیج دو میں خط لئے خدمت پیغمبر(ص) میں پہنچا اور آپ کے لئے خط پڑھنا شروع کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں پس نبی نے میرا ہاتھ پکڑا اور خط مجھ سے لے لیا پھر پوچھا اے شخص کیا تو علی(ع) سے بغض رکھتا ہے میں نے کہا بے شک میں یہ نیک کام کرتا ہوں فرمایا علی(ع) سے بغض نہ رکھ اور اگر تو علی(ع) سے محبت کرتا ہے تو پھر زیادہ محبت کر اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد(ص) کی جان ہے علی(ع) اور علی(ع) کا خمس میں جو حصہ ہے اس

۸۳

کے مقابلے میں یہ کنیز بہت کم ہے.

عمر بن شاس اسلمی سے سنئے! وہ بھی اسی طرح کی ایک حدیث رکھتے ہیں کہتے ہیں میں علی(ع) کے زیر قیادت یمن کے لئے نکلا علی(ع) نے اس سفر میں بہت سختی کی یہاں تک کہ میں ان کا دل ہی دل میں دشمن ہوگیا جب میں مدینہ واپس آیا تو مسجد نبوی میں ایک ایک کو پکڑ کے علی(ع) کی شکایت کرتا پھر رہا تھا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ یہ خبر پیغمبر(ص) تک پہونچی حضرت نے فرمایا اے عمرو! تم نے مجھے اذیت دی میں نے کہا میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں آپ کو اذیت دینے سے حضرت نے فرمایا جو علی(ع) کو اذیت دیتا ہے در اصل وہ مجھے اذیت دیتا ہے.

ابو رافع اسی عمر بن شاس کے بارے میں کہتے ہیں: جب ہ یمن سے واپس آیا تو علی(ع) کی مذمت کرتا پھر رہا تھا اور آپ کی شکایت کرتا تھا آخر پیغمبر(ص) نے اسے بلا بھیجا اور فرمایا عمرو مجھے بتا کہ وہ علی(ع) کی کیوں شکایت کر رہا ہے کیا علی(ع) نے اس کے اوپر کسی فیصلے میں ظلم کیا ہے یا اس کو حصہ کم دیا ہے اس نے کہا بخدا نہیں ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہے فرمایا پھر کیوں بکواس کرتا پھر رہا ہے کہنے لگا حضور میں بغض علی(ع) میں مجبور ہوں( میرا دل محبت علی(ع) پر آمادہ نہیں ہوتا اور بغض علی(ع) میں نفس پر قابو نہیں رہتا) مترجم غفرلہ.

پس سرکار کے روئے اقدس پر غضب کا ایسا اثر ہوا کہ آپ کے چہرے سے ظاہر ہونے لگا فرمایا جو علی(ع) سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اور مجھ سے بغض رکھتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو علی(ع) سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے.

اس سلسلے کی آخری دیث سعد بن وقاص سے سن لیں کہتے ہیں: میں اور میرے ساتھ دو آدمی مزید مسجد نبوی میں بیٹھے علی(ع) کی غیبت کررہے تھے کہ اتنے میں سرکاردوعالم اس حال میں تشریف لائے کہ چہرہ قدس سے آثار غضب ظاہر ہو رہے تھے ہم نے آپ کے غضب سے اللہ کی پناہ مانگی

۸۴

حضور نے اسی عالم میں فرمایا: ارے میرے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم لوگوں کو کیا کروں اور کیسے سمجھائوں کہ علی کو اذیت دینے والا مجھے اذیت دیتا ہے( ہزار بار کہہ چکا) مترجم غفرلہ.

علامہ بن حجر عسقلانی یہ تو چند نمونے تھے جو آپ کی خدمت میں حاضر کئے گئے اس کے علاوہ بھی بہت حدیثیں ہیں جن سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ علی(ع) سے بغض رکھنے والے نہ تو اس لئے بغض علی(ع) رکھتے ہیں کہ نبی کی نصرت کی تھی اور نہ بغض علی(ع) کا سبب علی(ع) کی طرف سے نصرت پیغمبر(ص) کا ہونا ہے بلکہ یہ اندر کی بات ہے جس کا راز دشمنان علی(ع) کی مائوں کے سوا کوئی نہیں جانتا. مترجم.

ایمان اور نفاق کے درمیان پہچان کا نام علی(ع) ہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولا علی(ع) کی محبت ایمان کی نشانی اور علی کی دشمنی نفاق کی پہچان ہے اور مندرجہ بالا حدیثوں میں اسی بات کو لفظ بدل بدل کے واضح کیا گیا ہے. خصوصا پیغمبر(ص) کے عا لم معنی کی طرف انتقال کے بعد جب فتنے اٹھے اور حقیقت مشتبہ ہوگئی بہت مشکل تھا اس لئے کہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا تھا اور آفتاب رسالت غروب ہوچکا تھا لیکن ماہتاب امامت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور اس کی روشنی صراط مستقیم پر براہ راست پڑ رہی تھی اس لئے علی(ع) کی ذات اقدس نفاق کی وادی کے درمیان حد فاصل اور حق و باظل کے مابین امتیاز قرار پائی میرے اس دعوے کی دلیل میں چند حدیثیں حاضر خدمت ہیں.

حضور(ص) نے فرمایا: “اے علی(ع) تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومنین کہ پہچان نا ممکن تھی”(1) حضور(ص) نے فرمایای میرے بعد فتنے ہوں گے جب ایسا ہو تو ( اے مسلمانوں) علی کے دامن کو مضبوطی سے تھام لینا اس لئے کہ قیامت کے دن علی(ع) ہی سب سے پہلے مجھے دیکھیں گے اور سب

------------

1.کنز العمال، ج13، ص152، حدیث3677.

۸۵

سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے وہی صدیق اکبی ہیں اور وہی اس امت میں حق اور باطل کے درمیان فاروق ہیں وہی مومنین کے یعسوب ہیں اور مال، منافین کا یعسوب ہے.(1)

ابو رافع کہتے ہیں : میں ربذہ میں ابوذر غفاری کی زیارت کو پہونچا جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو مجھ سے اور میرّ ساتھ والوں سے ابوذر نے کہا اے ابو رافق عنقریب فتنہ اٹھنے والا ہے پس خدا سے ڈرنا اور اس وقت تم پر علی بن ابی طالب(ع) کی پیروی واجب ہے پس انھیں کے پیچھے پیچھے چلنا میں نے پیمبر(ص) سے سنا ہے کہ وہ علی(ع) سے فرما رہے تھے کہ اے علی(ع)تم وہ پہلے شخص ہو جو مجھ پر ایمان لائے اور تم ہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کرو گے تم ہی صدیق اکبر ہو اور تم ہی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہو اےعلی(ع) تم مومنین کے یعسوب ہو اور مال کافرین کا یعسوب ہے تم میرے بھائی اور وزیر اور میرے ترکہ میپ سب سے بہتر ہو تم ہی میرے قرض کو ادا کروگے اور میرے وعدوں کو پورا کروگے.(2)

اس حدیث سے ملتی جلتی دوسری حدیث ابن عباس سے بھی ہے کہ آپ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی( اے حبیب) تم منذر (ڈرانے والے) ہو اور ہر قوم کا ہادی ہوتا ہے تو سرکاردو عالم نے علی(ع) کے شانے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا میں ڈرانے والا ہوں اور یہ ہر گروہ کا ہادی ہے پھر علی(ع) کے کاندھے کی طرف اشارہ کیا فرمایا اے علی(ع) تم ہی ہادی ہو میرے بعد ہدایت پانے والے صرف تم سے ہی ہدایت پائیں گے.(3)

.....................................................

1.الاستیعاب، ج4، ص1744، ابولیلی غفاری کی سوانح حیات کے ضمن میں،الاصابہ، ج7،ص357، میزان الاعتدال، ج1، ص339، لسان المیزان، ج1، ص357.

2.شرح نہج البلاغہ، ج13، ص228.

3.تفسیر طبری، ج13، ص108، تفسیر ابن کثیر، ج2، ص503، فتح الباری، ج8، ص376، روح المعانی، ج13، ص108، الدر المنثور،ج4، ص608.

۸۶

اب میں پھر ابن حجر عسقلانی کی توجیہ کی طرف واپس آتا ہوں چلئے دیکھتے ہیں کہ ابن حجر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پھر کون سے لطیفے تخلیق کرتے ہیں انھوں نے حدیث کی خلاف ظاہر تاویل کر کے کئی جگہ ٹھوکر کھائی ہیں.

علی(ع) نے نواصب کے آباء و اجداد کو قتل کیا صرف اسی وجہ سے نواصب کے لئے بغض علی(ع) جائز ہے؟

1.ابن حجر فرماتے ہیں انسانی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے فائدہ پہونچتا ہے اس سے محبت ہوجاتی ہے اور جس سے نقصان پہنچتا ہے اس سے دشمنی ہوجاتی ہے.

لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے علی(ع) نے نواصب کے آباء و اجداد کو قتل کیوں کیا؟ کیا انہوں نے حکم الہی کی پیروی میں قتل کیا یا اس لئے کہ وہ سب کے سب خدا کے دشمن اور حکم خدا پر خروج کے مرتکب ہوتے تھے ارشاد ہوتا ہے جو لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہوا ہرگز پائو گے جو خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے رہتے ہیں ان (مومنین) کے باپ دادا ہوں یا بیٹے بھائی ہوں یا قبیلے والے، ان پر واجب ہے کہ وہ امیرالمومنین سے محبت کریں اس لئے کہ آپ نے حکم خدا کو نافذ فرمایا.(1)

اگر وہ علی(ع) سے محبت نہیں کرتے تو وہ کھلے ہوئے منافق قرار پائیں گے جیسے وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے صرف اس لئے بغض رکھتے تھے کہ رسول نے ان کے محبوب افراد کو قتل کرایا اس لئے کہ قتل ہونے والے ان سے دوستی کا دم بھرتے تھے جو خدا سے جنگ کررہے تھے اور وہ محبوب خدا کے دشمن تھے اور

.................................................

2.سورہ مجادلہ، آیت22.

۸۷

اس کے دشمن تھے جو حکم خدا کو نافذ کرنے والا ہے لہذا ناصبیوں کا امیرالمومنین(ع) سے بغض رکھنا اس اعتبار سے ان کے نفاق میں تاکید ہوجاتی ہے.

مذکورہ حدیث کا مخصوص کرنا اس کے ظاہری معنی سے خروج نہیں لازم آتا

ابن حجر نے فرمایا:

2.دوسری بات یہ ہے کہ حدیث”علی(ع) کی محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق ہے” عموم پر دلالت نہیں کرتی اس لئے کہ دیکھا گیا ہے کہ غلو کرنے والے دشمن خدا اور رسول بھی علی(ع) سے محبت کرتے ہیں.

1.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف سے مراد مخصوص وہ لوگ ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں اس لئے کہ ایمان اور نفاق کا تعلق انھیں لوگ سے ہے نیز انھیں میں مومن، منافق اور فاسق کی تقسیم ہوتی نہ کافر کی.

2. دوسری بات اگر آپ کے کہنے کے مطابق عموم مان بھی لیا جائے تو عموم کا دائرہ مسلمانوں کو بھی سمیٹ لے گا اس لئے کہ عموم کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ سب کو سمیٹ لیتا ہے لیکن حدیث کی دلالت التزامی کافروں سے خطاب ہونے کی باوجود تضمنی طور پر مسلمانوں کو بھی شامل ہوگی اس لئے کہ حدیث میں ایمان و نفاق کی قید کا تقاضہ ہے کہ مسلمان بھی مخاطب قرار پائیں تو اب حدیث کی دلالت تضمنی بتائے گی کہ علی(ع) کا چاہنے والا مومن اور ان کا دشمن منافق ہے لہذا اس اعتبار سے بھی یہ حدیث نواصب کے نفاق پر دلالت کرتی ہے اور ہم یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں.

انضار کی فضیلت اپنی جگہ اور اس حدیث کی حجیت اپنی جگہ

3.ابن حجر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کیا خاص بات ہے اس طرح کی حدیث تو انصار کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے.

۸۸

جوابا عرض ہے کہ اس طرح کی حدیث اگر انصار کے بارے میں بھی وارد ہوتی ہے تو مان لینے میں کیا حرج ہے؟ مان لیا کہ انصار سے بعض رکھنے والا منافق ہے چاہے جس سے بغض رکھتا ہو، ابھی آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں میں نے امیر کائنات(ع) کے حوالے سے عرض کیا ہے کہ سقیفہ میں کیا ہوا تھا، قریش کے اکثر لوگ منافق تھے اور انصار کو سرعام برا بھلا کہتے تھے انصار سے کھلم کھلا دشمنی، انصار کی اذیت رسانی، انصار سے بے توجہی اور ان کی توہین تو منافقین قریش کا شعار بن چکی تھی. عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابوسفیان جیسے لوگ تو انصار کے ستانے کا موقع ڈھونڈتے تھے البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حدیث کے عنوان میں وہ حضرات ہیں جو من جملہ انصار شمار کئے جاتے تھے شاذ و نادر نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ شاہد ہے کہ انصار میں بھی منافقین بہر حال پائے جاتے تھے ظاہر ہے کہ ان سے محبت اور دشمنی ایمان اور نفاق کا معیار نہیں بن سکتی، اسی مضمون کی حدیث انصارکے لئے بھی اور امیرالمومنین(ع) کے لئے بھی ہے تو اس حدیث کی فضیلت میں انصار کے ساتھ امیرالمومنین(ع) کی شرکت سے کیا حدیث باطل ہو جائے گی.

دوسری بات یہ ہے کہ انصار کا دشمن منافق ہے اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ نواصب کے لئے علت نفاق بغض انصار ہے. یہ جملہ اسی طرح کا ہے جیسے ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ جو مومنین سے محبت کرے گا وہ ان کے ساتھ محشور ہوگا یا جو کفار سے بغض رکھے گا وہ قیامت میں کفار کی طرح عریان ہونے سے محفوظ رہے گا بر خلاف اس حدیث کے جو امیرالمومنین(ع) کے لئے وارد ہوئی ہے اس میں ایک فرد واحد کو ہر عنوان سے مجرد کر کے صرف اسی فرد کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ خاص ذات علی(ع) سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے.

3. تیسری بات یہ ہے کہ اگر بادی النظر میں یہ مان بھی لیا جائے کہ انصار کے بارے میں آپ نے جو تاویل کی ہے وہ صحیح ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہی تاویل مولا علی(ع) کی

۸۹

فضیلت والی حدیث میں صحیح ہوگی جب کہ میں نے ابھی یہ ثابت کیا کہ آپ کی تاویل حدیث کے خصوص کو عموم میں بدلنے سے قاصر ہے.

منافق دیندار سچے مگر شیعہ...نہیں

آپ فرماتے ہیں یعنی ابن حجر کہ نواصب اکثر دین دار اور سچے ہوتے ہیں بر خلاف شیعوں کے کہ ان میں زیادہ تر جھوٹے اور حدیثوں کے نقل کے سلسلہ میں غیر محتاط ہیں.

ابن حجر کا یہ احتمال دو باتوں کی وجہ سے ہے

1. پہلی بات یہ ہے کہ انھوں نے جب حدیث کو اس کے معنائے ظاہری کے خلاف محمول کیا تو اس قرینے سے یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ ناصبی سچا اور شیعہ جھوٹا ہے اس لئے کہ جب حدیث کے معنی اپنے ظاہری الفاظ کے مطابق نہیں ہیں تو اب حدیث کا مفہوم اپنے ظاہر معنی سے نکل جاتا ہے اور ابن حجر اس کو اپنی تاویل کی روشنی میں سمجھنے پر مجبور ہیں کہ نفاق کی، حدیث پیغمبر(ص) کی روشنی میں ایک ہی علامت ہے اور نہ علی(ع) سے بغض رکھنا ہے ابن حجر نے تاویل کر کے حدیث کے معنی ہی بدل دیئے، اب ظاہر ہے نواصب میں بغض علی(ع) پایا تو جاتا ہے لیکن ابن حجر کی نظر میں وہ منافق نہیں ہیں اس لئے کہ وہ بڑے پرہیزگار، دیانتدار ہیں بس ثابت ہوا کہ وہ اپنے دعوای اسلام میں جھوٹے نہیں ہیں اگر چہ عقیدے میں غلط ہیں.

ناصبی کے نفاق کی وضاحت

اگر ابن حجر نے نفاق اور ایمان کا مطلب وہ لیا ہے جو ابھی مندرجہ بالا سطروں میں عرض کیا گیا ہے تو میں جواب میں عرض کروں گا کہ پہلے ابن حجر یہ بتائیں کہ دینداری کیا ہے، میری نظر میں تو دینداری کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام باتوں پر ایمان لانا جو اللہ نے نازل کیا ہے اور جو کچھ اللہ نے ان پر فرض کیا

۹۰

ہے اس پر ایمان کے لئے دل کو آمادہ کرنا اور صدق دل سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ فرائض کی انجام دہی ہے اور ایسا ایمان اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک دل کی فضا ک تعصب اور جذبات کی آلودگییوں سے پاک نہ کرلی جائے نیز ان تمام دلیلوں پر غور نہ کر لیا جائے جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قائم کی ہیں تا کہ بندہ حقیقتوں کا ادراک کر سکے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اللہ کی رضا کا طالب ہو جائے. اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے جب کوئی سمجھدار انسان کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے علاج کے لئے شفا کی خاطر اچھے سے اچھے ڈاکٹروں کی تلاش، کافی محتاط انداز میں کرتا ہے، تعویذ گنڈا اور غیر عقلی طریقوں کی طرف متوحہ نہیں ہوتا معالجہ اور دوا کی تلاش کے وقت جذبات اور تعصبات سے کام نہیں لیتا بلکہ اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ شفاء کامل حاصل کرے حضور والا جسم کی شفا اور بدن کی سلامتی سے زیادہ روح کی سلامتی، دین کی سلامتی اور رضائے پروردگار کا حصول ضروری ہے اس لئے ایمان اور دیانت داری کہاں رہی؟

بہر حال اگر تمام انسان خلوص و توجہ کے ساتھ حقیقت پانا چاہیں تو ضرور پہونچ جائیں گے اس لئے کہ خداوند عالم نے حجتوں کی وضاحت کردی اور حقتک پہونچنے پہونچانے کے لئے دلیلیں قائم کر رکھی ہے ارشاد ہوتا ہے کہ،( خدا اس وقت تک کسی قوم کو گمراہ نہیں چھوڑتا جب تک یہ نہ بتا دے کہ ان کو کن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے) (قراآن)

اس حقیقت کی وضاحت آپ کے لئے چھٹے سوال کے جواب میں بخوبی ذکر کردی گئی ہے.

اور اگر بادی النطر میں یہ مان بھی لیا جائے کہ کچھ ایسے حقایق ہیں کہ جس کے ذریعہ ایمان اور نفاق کو پہچانا جاسکتا ہے جب ناصبیوں کےعقیدے کے باطل ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں صرف تھوڑا تدبر کی ضرورت ہے مثلا 1. یہ دیکھیں کہ یہ عقیدہ کس ماحول کی

۹۱

پیداوار ہے. 2. یہ دیکھیں کہ اس عقیدے کی حوصلہ افزائی اور ترویج کن لوگوںنے کی؟ 3. اس عقیدے کی ترویج کے لئے جو وسیلے اور اپنائے گئے ان پر غور کریں. 4. یہ دیکھیں کہ اس عقیدے کے کس طرح کے حامل افراد ہیں؟ اس طرح کی بے شمار دلیلیں ہیپ جو اس عقیدے کو باطل ٹھہراتی ہیں اور ان دلیلوں کو حاصل کر لینا کوئی مشکل نہیں ہے خصوصا صاحبان علم اور حاملان حدیث کے لئے.

لیکن افسوس! عشق اور دل کا میلان اس کا کوئی علاج نہیں ہے جب انسان کا دل کسی چیز کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو انسان عقل سے زیادہ جذبات کا شکار ہوجاتا ہے یہاں تک کہ دین میں کاٹ چھانٹ شروع کرتا ہے دین کو بھی دہ ایک حد تک مانتا ہے جب تک دین اس کی خواش کو نقصان نہیں پہونچاتا اور اس کے جذبات کو فائدہ پہونچاتا ہے وہ دین کو مانتا ہے، لیکن جہاں سے دین اس کے دل کے معاملات میں دخل دینے لگتا ہے ہیں سے انسان تعصب اور لڑائی جھگڑے کا راستہ اپنا لیتا ہے اور حق کو چھپانے کے لئے کبھی تکذیب کا سہار لیتا ہے تو کبھی تسخیر اور خاطر خواہ تاویلوں پر تکیہ کرتا ہے اور اسی کا نام نفاق ہے یاد رکھئے ! صرف ایمان کے فقدان اور دین کے اصلا انکار کرنے کا نہیں ہے بلکہ منافق ہونے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ انسان دین کی ان چیزوں سے ایمان اٹھالے جو ہیں تو دین ہی کی باتیں لیکن اس کو عقلی نہیں لگتی اور صرف ایسی چیزوں پر ایمان لائے جو اس کے خواہشات نفس کو نقصان نہ پہونچاتی ہوں یا اس کے جذبات کے مطابق ہوں.

اہل سنت کے ایک قدر آور عالم دین اما احمد بن حنبل نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے عبد اللہ احمد بن حنبل کہتے ہیں :میں نے اپنے والد احمد بن حنبل سے پوچھا! بابا ! علی(ع) اور معاویہ کا کیا قصہ ہے؟ کہنے لگے بیٹا! پہلے یہ بات سمجھ لو کہ علی(ع) کے کثیر دشمن تھے انھوں نے علی(ع) کے اندر خامیاں تلاش

۹۲

کرنے کی بھر پور کوششیں کیں لیکن نا کام رہے تو پھر وہ ایسے شخص کے پاس گئے جو علی(ع) سے جنگ و جدال کرتا رہتا تھا اور انہوں نے اسی کی آڑ میں اپنے دل کا بخار نکالا.(1)

ان باپ بیٹے کی گفتگو سے ایک بات و ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ دشمنان علی(ع) کے پاس علی(ع) سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایسی دلیل تھی جس پر تکیہ کر کے وہ بغض علی(ع) کو صحیح قرار دیتے جز خواہشات نفس کے جو نفاق کی علامت ہے.

یہیں پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ صرف صدق لہجہ اور دین میں ظاہرداری کرنا نواصب کو منافق حدیثیں اپنے مفاد سے الگ ہوجائیں گی جن میں امیرالمومنین(ع) کو ناحق حق و باطل قرار دیا ہے اور آپ ہی کی ذات اقدس ایمان و نفاق نیز ہدایت و ضلالت میں حد فاصل کھینچتی ہے.

یہ بھی ایک حیرت انگیز ہے کہ ناصبی افراد ان حدیثوں کو زور و شور کے ساتھ روایت بھی کرتے ہیں جس میں حضرت علی(ع) کو فارق حق و باطل قرار دیا گیا ہے اور پھر آپ سے اعلانیہ اظہار دشمنی کا بیان بھی دیتے ہیں. وجہ یہ بتاتے ہیں کہ علی(ع) نے ان کے آبا و اجداد نیز ان کے گھر والوں کو قتل کیا ہے اور ان ناصبیوں کے حمایتی ان کے صاحب دین و صادق اللہجہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایسے لوگ منافق تو ہو ہی نہیں سکتے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ حدیث پیغمبر(ص) سے مقام عمل میں صرف اس وجہ سے اختلاف کرنا کہ وہ حدیثیں کسی ذات یا ان کی خواہشات کے خلاف وارد ہوئی ہیں کیا اس سے بھی بڑا نفاق کچھ ہوسکتا ہے؟

بہر حال ابن حجر عسقلانی کے نواصب کی مدح سرائی کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس نے

..............................

1.تاریخ الخلفاء، ج1، ص199، معاویہ ابن ابی سفیان کی سوانح حیات کے ضمن میں. فتح الباری، ج7، ص104، تحفتہ الا حوذی، ج10

۹۳

شیعوں اور ناصبیوں کے درمیان اہل سنت کے غیر متوازن نظریہ کی توجیہ کی ہے کہ منافق بغض علی(ع) کو دین سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں وہ بہت سخت ہیں لہذا وہ دیانتدار ہیں این حجر نے عمدا ان حدیثوں سے چشم پوشی کی ہے جن میں امیرالمومنین(ع) کو مومن و منافق کے درمیان علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس سلسلے میں دو باتوں پر توجہ دیں.

نواصب کا علی(ع) سے بغض اہل سنت کی نظر میں دیانت ہے

1. ابن حجر کہتے ہیں: امیرالمومنین(ع) سے بغض رکھنا ناصبیوں کی دیانتدارای کی وجہ سے ہے اس لئے کہ وہ بغض علی(ع) کو دین سمجھتے ہیں اگرچہ یہ غلط اعتقاد ہے لیکن یہ بغض کسی تمرد اور مفاد کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کے دین کا تقاضہ ہے.

میں کہتا ہوں انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جس طرح آپ نواصب کی طرف سے دفاع کررہے ہیں اسی طرح شیعوں کی طرف سے بھی دفاع کرتے ہوئے اسی اصول کو جاری کرتے اور یہ کہہ دیتے کہ شیعوں کے دل میں حب علی(ع) بھی ان کے دین اور دیانت داری کی وجہ سے ہے اس لئے کہ شیعوں نے حب علی(ع) کا دین ہونا ایسی دلیلوں سے حاصل کیا ہے جس کی تمامیت میں شک کی گنجائش نہیں ہے اگرچہ میں(ابن حجر) کا مخالف ہوں لیکن سمجھ میں بات نہیں آتی کہ آپ ایک اصول بناتے ہیں اور نواصب کے بارے میں اس کو جاری کردیتے ہیں لیکن اسی اصول کو شیعوں کے بارے میں آپ جاری نہیں کرتے بغض علی(ع) نواصب کا دین ہے وہ علی(ع) سے اظہار دشمنی میں سختی کریے تو دیندار قرار پائیں اور اسی بات کو ان کے ثقہ ہونے کی دلیل قرار دیا جائے ٹھیک اسی طرح شیعہ حب علی(ع) کو دین سمجھتے ہیں لیکن آپ محض حب علی(ع) کی وجہ سے شیعوں کو جھوٹا کہتے ہیں بلکہ مطلقا تکذیب کرتے ہیں.

۹۴

اب مجھ سے سنئے اگر شیعوں کے تشیع کو آپ مفاد و تمرد کا تقاضہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا شیعہ ہونا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہے اور دینداری نہیں ہے تو آپ یہاں ہٹ دھرمی اور زبردستی سے کام لے رہے ہیں آپ کا کلام خود عناد اور تمرد کی طرف اشارہ کرتا ہے اس لئے کہ اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو نواصب کی دلیلیں شیعوں کی دلیلوں کے مقابلے میں اتنی کمزور ہیں کہ دونوں کو ایک ہی میزان نظر میں نہیں تولا جاسکتا نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواصب کی دلیلیں شیعوں کی دلیلوں سے قوی­تر ہیں اور اس وجہ سے نواصب کو صاحب حجت اور اہل دین سمجھنا تو دور کی بات مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا.

مزید لطف کی بات یہ ہے کہ اہل سنت حضرات مع ابن حجر عسقلانی کے اس بات پر متفق ہیں کہ امیرالمومنین(ع) کی نظر میں خلفاء ثلاثہ کی خلافت شرعی تھی امیرالمومنین(ع) عثمان کی خلافت کو بھی جائز اور شرعی سمجھتے ہیں شیعہ جب ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہیں تو یہ حضرات سختی سے انکارکرتے ہیں اور پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ علی(ع) عثمان کی خلافت کو جائز اور شرعی مانتے تھے لیکن جب نواصب اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ علی(ع) نے عثمان کو قتل کیا یا قتل عثمان کا اشارہ کیا تو اہل سنت نواصب کے اس قول کو ان کے دیانت داری کا ثبوت مانتے ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ علی(ع) نے اہل سنت کے قول کی مطابق اپنے چائز خلیفہ کو قتل کیا، یا قتل کرنے کی کوشش کی یہ کیسے ممکن ہے؟ یعنی جب شیعہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کسی خلافت کو جائز نہیں سمجھتے تھے تو سنی کہتے ہیں یہ شیعوں کا تعصب اور عناد ہے اور جب نواصب کہتے ہیں کہ علی(ع) نے اپنے جائز خلیفہ کو قتل کیا یا قتل کا اشارہ کیا تو سنی کہتے ہیں یہ جملہ نواصب کی دینداری پر دلیل ہے، ارے سبحان اللہ، تو مشق ناز کر خون شہیداں میری گردن پر(غالب)

۹۵

نواصب اپنے اس باطل عقیدہ کی وجہ سے اہل سنت کی نظر میں نہ متعصب ہیں نہ معاند ہیں بلکہ وہ اہل دین ہیں بغض علی(ع) ان کی مجبوری ہے صاحبان حق ہے صادق اللہجہ ہیں قابل توثیق ہیں ان کی روایتیں قبول کرنے کے لائق ہیں. (شاید یہ نظریہ عدل جہان گیری کا تقاضہ ہے)مترجم غفرلہ

اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ اہل سنت کی نواصب دوستی کی وجہ سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان حضرات کے یہاں بھی دین کی تعریف نواصب کے سرداروں سے موالات کرنا ہے نواصب کے ان سردار اور قائدوں نے جنہوں نے نواصب کو گمراہ کیا اور خطاکاری کے تاریک غار میں انہیں قید کردیا جیسے معاویہ، عمرو عاص اور ان کی کشتی میں سوار ہونے والے تمام لوگ.

نواصب کیسے سچے ہوتے ہیں اس جھوٹ کو بھی دیکھ لیں

2.ابن حجر فرماتے ہیں: اکثر وہ افراد جو نواصب سے متصف ہیں اپنی صداقت گفتار میں مشہور اور دین سے متمسک ہوتے ہیں بخلاف ان لوگوں کے جو تشیع سے موصوف ہیں کی ان میں اکثر جھوٹے اور حدیثوں میں غیر محتاط ہوتے ہیں.

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے بھی ثابت کیا کہ اہل سنت نواصب کی محبت میں دیوانے ہوچکے ہیں اور اس دیوانگی کی انتہا یہ ہے کہ اپنی کتابوں کو وہ نواصب کی مدح و ثنا سے سیاہ کئے رہتے ہیں اور ان کے نظریوں کا دفاع کرتے رہتے ہیں بلکہ ان میں گھل مل چکے ہیں اور اکثر اوقات یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس گروہ میں ناصبی کون ہے اور سنی کون؟

ہمارے سنی بھائی صرف نواصب کی طرفداری نہیں کرتے بلکہ نواصب سے خود کو ملحق کرتے ہیں اور ان کی مدح و ثنا کرتے اور ان کے موقف کا دفاع کرتے ہیں جنہوں نے نواصب کو گمراہ کیا اور انہیں بغض علی(ع) کی طرف بلایا اور صراط مستقیم سے الگ کر کے شیطان ملعون کے راستے پر ڈال دیا

۹۶

جیسے معاویہ، عمرو بن عاص، مروان بن حکم اور ان کے اتباع. یعنی نواصب کی تعریف اور طرفداری کرنا سنیوں کا دستور ہے جو قدیم دور سے چلا آرہا ہے دوسری بات یہ ہے کہ نواصب کے لئے ان کتابوں میں جتنی مدح و ثنا کے الفاظ وارد ہوتے ہیں شیعوں کے لئے اتنی ہی بلکہ ان سے زیادہ تعصب اور عناد کے الفاظ وارد ہوتے ہیں جو تشیع کے رفض پر مبنی ہے اس کے بارے میں ذہبی فرماتے ہیں: اب تقیہ اور نفاق ان کا اوڑھنا بچھونا ہے پھر اس حالت میں ان سے حدیثیں کیسے نقل کی جائیں؟ اور روایتیں کیسے قبول کی جائیں؟ حاشا و کلا(1)

پھر ذہبی فرماتے ہیں: اشہب کہتا ہے کہ مالک سے روافض کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے دیکھو ان سے بات نہ کرنا اور ان سے روایت بھی نہ لینا اس لئے کہ وہ جھوٹے ہیں حرملہ کہتا ہے میں نے شافعی سے کہتے ہوئے سنا روافض سے زیادہ جھوٹی گواہی دینے والا میں کسی کو نہیں سمجھتا، مومل بن اہاب کہتے ہیں میں نے یزید ابن ہارون کو کہتے سنا ہر صاحب بدعت سے حدیث لے لو اگر وہ کوئی فرقہ نہ رکھتا ہے مگر خبر دار روافض سے حدیث مت لینا وہ بالکل جھوٹے ہوتے ہیں محمد بن سعید ابن اصبہانی کہتے ہیں میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے جس سے بھی ملاقات کرو اس سے علم لے سکتے ہو لیکن روافض سے نہیں، روافض حدیثیں گڑھتے ہیں اور انہوں نے وضع حدیث کو اپنا دین بنا لیا ہے.(2)

ابراہیم بن شیبہ کہتے ہیں: اگر شیعوں میں یہ دو آدمی عباد بن یعقوب اور ابراہیم بن محمد بن میمون نہ ہوتے تو شیعوں سے حدیث لینا صحیح نہیں تھا.(3)

........................................

1.میزان الاعتدال، ج1، ص118، ابن بن تغلب کی سوانح حیات میں.

2.میزان الاعتدال، ج1، ص146، ابراہیم بن حکیم بن ظہیر کوفی کی سوانح حیات کے ضمن میں.

3.تہذیب التہذیب، ج5، ص95، عباد بن یعقوب رواجنی کے ترجمے میں.

۹۷

شیعوں کو جمہور اہل سنت جھوٹا کیوں کہتے ہیں

اگر آپ نے سابقہ سوالوں میں سے تیسرے سوال کا جواب پڑھا ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے اہل سنت کی طرف سے

شیعوں پر کذب و افتراء کے الزام کی بناء سنیوں کو برا، بھلا نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ اہل سنت شیعوں کو جھوٹا کہتے ہیں اس کی بھی ایک وجہ ہے چونکہ اہل سنت اہل بیت(ع) سے منہ موڑ چکے ہیں اور دشمنان اہل بیت(ع) سے ان کی خوب بنتی ہے اس لئے وہ شیعوں کے دشمن ہیں شیعوں کا ان کی نظر میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ (شیعہ) فضائل اہل بیت(ع) کو اجاگر کرتے ہیں اور دشمنان اہل بیت(ع) کے نقائض بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے شیعوں کو یقین ہے کہ دشمن اہل بیت(ع) جھوٹا اور افترا پرداز ہوتا ہے چونکہ سنی فضائل اہل بیت(ع) سے ناواقف ہیں اور دشمنان اہل بیت(ع) کے حامی ہیں اس لئے وہ شیعوں پر جھوٹ اور کذب کا الزام لگاتے ہیں بلکہ یقین رکھتے ہیں اس لئے کہ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا دشمن ہوتا ہے.

سنیوں اور شیعوں کی تکذیب کے کچھ پر لطف واقعے

اہل سنت شیعوں کی تکذیب کے بڑے عجیب و اسباب بتاتے ہیں جنہیں پڑھ کے ہنسی آتی ہے.

1.گذشتہ صفحات میں آپ نے پڑھا کہ یحیی بن معین نے ابوالازہر احمدبن ازہر کی صرف اس لئے تکذیب کی ہے کہ وہ نبی(ص) کے اس قول کے راوی تھے کہ آپ(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا: “تم دنیا میں بھی سردار ہو اور آخرت میں بھی”.

معاویہ کے عیوب بیان کرنے والا بھی سنیوں کی نظر میں جھوٹا ہے

2. ذہبی کہتےہیں: ابراہیم بن حکم بن ظہیر کوفی شیعی کہ جس کیشریک نے جرح کی ہے، ابو حاتم نے ان کو کذاب کہا ہے ابو حاتم کہتے ہیں چونکہ یہ معاویہ کے نقائص بیان کرتے ہیں اس لئے ہم نے ان

۹۸

سے جتنی روایتیں لی تھیں ان سب کو پھاڑ کے پھینکے دیا.(1)

ابوحاتم کی اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ابراہیم ابن حکم کو ثقہ سمجھتے تھے اور ان سے روایت بھی لیتے تھے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ شخص معاویہ کی خامیاں بھی بیان کرتا ہے تو محض اسی وجہ سے وہ ابوحاتم کی نگاہ اعتبار سے گر گئے اور ان کی تمام روایت کردہ حدیثوں کو انہوں نے برباد کر دیا گویا ابوحاتم کو یہ بات قطعی طور پر معلوم تھی کہ معاویہ صرف خیر ہی خیر ہے اس میں کذب کی کوئی گنجائش نہیں جو معاویہ کی خامیاں روایت کرتا ہے وہ بداہتا جھوٹا ہے اور اس سے روایت لینا بہت بڑا گناہ ہے حالانکہ ابھی گذشتہ صفحات میں عرض کیا گیا ہے کہ احمد ابن حنبل نے معاویہ کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا ہے میں عرض کرتا ہوں ان باپ بیٹوں کی گفتگو کے علاوہ بھی ایسی دلیلیں موجود ہیں جو معاویہ کے فسق اور نفاق پر صریحا دلالت کرتی ہیں.

مجھے علم کے ہزار باب عطا ہوئے(حدیث)

3.ذہبی کہتے ہیں: مجھ سے حبان نے ان سے ابویعلی نے ان سے کامل بن طلحہ نے ان سے ابن لہیقہ نے ان سے حیی بن عبداللہ نے ان سے عبدالرحمن حنبلی نے ان سے عبداللہ بن عمرو نے کہا: رسول(ص) نے بیماری کے عالم میں فرمایا: میرے بھائی کو بلائو لوگوں نے ابوبکر کو بلا دیا آپ نے موصوف کو دیکھتے ہی منہ موڑ لیا پھر فرمایا میرے بھائی کو بلائو لوگوں نے عثمان کو بلا دیا آپ نے انھیں دیکھتے ہی رخ پھیر لیا لوگوں نے علی(ع) کو بلایا آپ نےعلی(ع) کو اپنی چادر میں لے لیا اور ان پر جھک گئے جب علی(ع) چادر کے باہر نکلے تو لوگوں نے پوچھا پیغمبر(ص) کیا فرما رہے تھے علی(ع)نے کہا:

..................................

1. میزان الاعتدال، ج1، ص146، ابراہیم ابن حکیم بن ظہیر کوفی کی سوانح حیات ے ذیل میں.

۹۹

پیعمبر(ص) نے مجھے علی کے ہزار باب تعلیم کئے ہر باب سے مجھ پر ہزار ہزار باب علم کے کھل گئے.

(ذہبی کہتے ہیں) یہ حدیث منکر ہے بلکہ موضوع جیسی لگتی ہے(1) پھر ایک طویل گفتگو کے بعد ذہبی لکھتے ہے اس حدیث کے بارے میں احمد کا یہ کہنا کہ حدیث« علمنی الف باب» مشکوک ہے اس لئے کہ اس حدیث کی سند میں ابن لہیعہ ہے وہ حد سے زیادہ شیعہ ہے لیکن میں نے ( ذہبی نے) اس سے ابن لہیعہ کے بارے میں ایسی بات نہیں سنی اور نہ میں یہ اتنا ہوں کہ وہ اپنے تشیع میں حد سے زیادہ بڑھا ہوا تھا صرف وہ شخص اپنے جھوٹ کی وجہ سے بدنام نہیں ہے.

پس میرا خیال ہے کہ کس نے کتاب کامل میں یہ حدیث داخل کر دی ہے اس لئے کہ کامل کے مولف سے بھی جھوٹ کی امید نہیں کی جاتی وہ شیخ الحدیث ہیں اور سچے ہیں میرا یہی خیال صحیح ہے کہ کسی رافضی نے کامل میں یہ حدیث داخل کردی اور کامل کے مولف اس کو سمجھ نہیں پائے اور خدا بہتر جانتا ہے.(1)

آپ نے ملاحظہ کیا چونکہ اس حدیث میں امیرالمومنین(ع) کی فضیلت اور ابوبکر اور عثمان کی تنقیص ہے اس لئے جلدی سے اس حدیث کا انکار کر دیا گیا مجھے یقین ہے اگر معاملہ الٹا ہوتا تو جتنی جلدی اس حدیث کی تکذیب ہوتی ہے اس سے زیادہ جلدی اس کی تصدیق کردی جاتی.

پھر ذہبی کی بے چینین دیکھئے جیسخ پتنگے لک گئے ہوپ کہنے لگے اصل میے یہ حدیث کسی شیعہ کی شرارت ہے اس نخ کتاب کامل میپ یہ حدیث داخل کردی اور کامل کے مولف بے چارے جو شیخ اور قابل اطمینان ہیں اس بات کو سمجھ نہیں پائے اصل میں شیخ ذہبی نے پہلے بھر پور کوشش کی کہ اس حدیث کی اسناد میں کوئی نقص نکالیں جب انہیں علی(ع) میں کوئی نقص نہیں ملا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ اس حدیث کو قبول کر کے حدیث کے مضمون کو مان لیتے اور بغض علی(ع) میں سے توبہ کر لیتے لیکن خدا برا کرے نواصب کے محبوں

.............................................

1.سر اعلام النبلاء، ج8، ص24، عبداللہ بن لہیقہ کی سوانح حیات میں.

1. سیر اعلام النبلاء، ج8، ص26، عبداللہ بن لہیقہ کی سوانح حیات میں.

۱۰۰