اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32086
ڈاؤنلوڈ: 2917


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32086 / ڈاؤنلوڈ: 2917
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے رسول(ص) کی بزرگی پر حرف آتا ہے. اور آپ کی عظمت جاتی رہتی ہے ایک مرتبہ روایت کرتی ہیں کہ:

رسول(ص) اپنا رخساران کے رخسار پر رکھے ہوئے حبشیوں کا تماشا دیکھ رہے تھے.

کبھی رسول(ص) عائشہ کو کندھے پر اٹھائے ہوئے دکھائے جاتے ہیں اور کبھی ان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے کہ جس میں عائشہ پر غالب آجاتی ہیں. اور رسول(ص) منتظر رہتے ہیں یہاں تک کہ آنحضرت(ص) موٹے تازے ہوجاتے ہیں. اور پھر مقابلہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تمہاری کاٹ ہے. کبھی آنحضرت(ص) اپنے گھر میں عائشہ کو اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ عورتیں دف و مزمار بجاتی رہتی ہیں یہاں تک کہ ابوبکر جھڑکتے ہیں.

صحاح میں اور نہ جانے ایسی کتنی توہین آمیز روایات ہیں جن کا مقصد صرف رسول اسلام(ص) کی عظمت کو داغدار بنانا ہے. مثلا یہ روایت کہ:

آنحضرت(ص) پر سحر کردیا جاتا تھا تو آپ(ص) یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ میں کیا کر رہا ہوں کیا کہہ رہا ہوں یہاں تک کہ آپ خیال کرتے تھے کہ ازواج میں سے کوئی ان کے پاس آئی ہے جب کہ کوئی نہیں آتی تھی.(1)

اسی طرح یہ روایت کہ:رسول(ص) صبح تک حالت جناب میں باقی رہتے تھے.(2)

____________________

1.بخاری جلد/4 ص68 و جلد/7 ص29

2.بخاری جلد/2 ص232 وص234

۱۰۱

یا آپ گہری نیند سوجانے کے بعد اٹھتے تھے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنے لگتے تھے.(1)

نماز میں شک ہوجاتا تھا تو یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ کتنی رکعت نماز پڑھی ہے.(2)

رسول(ص) یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ روز قیامت ان کا کیا ہوگا.(3) اور ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا.کھرے ہوکر پیشاب کرتے ہیں، اصحاب ان سے دور ہٹ جاتے ہیں اور رسول(ص) انہیں آواز دیتے ہیں تاکہ وہ قریب آجائیں اور وہ اس وقت تک پاس رہیں جب تک وہ فارغ نہ ہوجائیں.(4)

جی ہاں ! رسول(ص) اپنی زوجہ عائشہ بنت ابوبکر کی اتنی ناز برداری کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ انہیں کی ناز برداری کے لئے خود اور لوگوں کو جنگل میں عائشہ کے ہار کی تلاش کے لئے مقید کردیا تھا جبکہ نہ آپ کے پاس پانی تھا اور نہ ہی وہاں آس پاس کہیں پانی تھا. یہاں تک کہ لوگوں نے عاجز آکر عائشہ کے والد ابوبکر سے انکی شکایت کی پس ابوبکر آئے اور انہیں سرزنش کرنے لگے اور رسول(ص) اپنی زوجہ کے پہلو میں سوتے ہی رہے.

بخاری و مسلم نے اپنی صحیح کے باب تیمم میں عائشہ سے روایت

____________________

1.بخاری جلد/1 ص44 وص171

2.بخاری جلد/1 ص123 و ص65

3.بخاری جلد/2 ص71

4.صحیح مسلم جلد/2 ص157 باب المسح علی الخفین

۱۰۲

کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

ایک مرتبہ ہم رسول(ص) کے ساتھ سفر میں تھے جب ہم"بیدا" (بیابان) یا بذات الجیش(1) میں پہونچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا. رسول(ص) اور دوسرے لوگ اسے تلاش کرنے کے لئے ٹھہر گئے جب کہ ان کے پاس یا کہیں آس پاس پانی موجود نہ تھا. لوگ ابوبکر کے پاس آئے اور کہنے لگے: کیا آپ نے عائشہ کی حرکت کو نہیں دیکھا، رسول(ص) اور ان کے ساتھ دوسرے لوگوں کو پریشان کردیا ہے، جبکہ ان کے پاس یا کہیں آس پاس پانی نہیں ہے: پس ابوبکر آئے جبکہ رسول اللہ(ص) عائشہ کے زانو پر سر رکھے ہوئے سورہے تھے، ابوبکر نے کہا: عائشہ تم نے رسول اللہ(ص) اور تمام لوگوں کو معطل کر دیا ہے، حالانکہ یہاں یا ان کے پاس پانی نہیں ہے. عائشہ کہتی ہیں کہ ابوبکر مجھ پر بہت غضبناک ہوئے اور بہت کچھ کہا اور کوکھ میں مارتے رہے مگر ان کی تعظیم کے لئے اس لئے نہ اٹھ سکی کہ میرے زانو پر رسول(ص) کا سر تھا، یہ پورا واقعہ گذر گیا رسول(ص)سوتے ہی رہے یہاں تک کہ اسی پانی نہ ہونے کہ حالت میں صبح ہوگئی تو خدا نے آیت تیمم .فتیمموا.... نازل فرمائی. اسید ابن خضیر کہ جو نقباء میں سے ایک ہیں کہتے ہیں: اے آل ابوبکر یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہےتمہارے اور بہت سے برکات ہیں. عائشہ کہتی ہیں جب میرے اونٹ کو اٹھایا گیا تو میرا ہار اس کے نیچے سے

____________________

1.خیبر اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے

۱۰۳

نکل آیا.(1)

ایک اسلام شناس مومن اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتا ہے کہ رسول(ص) نماز کو اتنی حقیر سمجھتے تھے اور مسلمانوں کو ایسے جنگل میں قید کردیا تھا جہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے ہمراہ تھا، یہ سارا قصہ آپ کی زوجہ کے ہار کے لئے تھا. اور پھر مسلمان نماز چھوٹ جانے کا افسوس کرتے ہیں اور اس کی ابوبکر سے شکایت کرتے ہیں ابوبکر عائشہ کے پاس جاتے ہیں دیکھا رسول(ص) اپنی زوجہ کے زانو پر سر رکھے سورہے ہیں، اور اس طرح نیند میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ابوبکر کے داخل ہونے اور عائشہ کو ان کی ڈاٹ پھٹکار سے آپ(ص) کو مطلق خبر نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان کے کوکھ میں مارنے کا علم ہوتا ہے رسول(ص) کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو پانی کے لئے زحمت میں مبتلا کریں، نماز کا وقت آجائے اور آپ زوجہ کو آغوش میں سر رکھے سوتے ہی رہیں.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ روایت معاویہ ابن ابوسفیان کے زمانہ میں گڑھی گئی ہے. جس کی کوئی اساس نہیں ہے. ورنہ ایسے واقعہ کی ہم کیا تفسیر کریں گے کہ جس میں تمام صحابہ واقف تھے لیکن عمر ابن خطاب کو اس کی کوئی اطلاع نہیں تھی. انہیں معلوم نہیں تھا جیسا کہ تیمم کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا چنانچہ بخاری و مسلم دونوں نے اپنی اپنی صحیح میں اس کو نقل کیا ہے.اس بحث میں مہم بات یہ ہے کہ ہم رسول(ص) کے خلاف سازش کو پہچانیں یہ بہت ہی پست اور رکیک سازش تھی جو رسول(ص) کی شخصیت کو مجروح کر رہی تھی، اور ان کی قدر و منزلت کو اس قدر داغدار بنا رہی تھی کہ آج ( جبکہ فسق و فجور کا دنیا میں عام رواج ہے) بھی ان باتوں کو کوئی انسان اپنے لئے برداشت نہیں کرسکتا ہے اس شخصیت کے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/1 ص86 ،صحیح مسلم جلد/1 ص191

۱۰۴

بارے میں ہمارا کیا فریضہ ہے تاریخ بشریت میں جسکی مثال نہیں اور جس کے اخلاق کی شہادت پروردگار اس طرح دے رہا ہے کہ " وہ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں. میرا عقیدہ ہے کہ یہ سازشیں حجۃ الوداع اور بروز غدیر علی علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کرنے کے بعد شروع ہوئیں کیونکہ ریاست و حکومت کی طمع رکھنے والوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب ہمارے پاس اس نص کی مخالفت میں سرکشی اور فساد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے خواہ پچھلے پائوں کی طرف لوٹنا پڑے. اس طرح نبی(ص) کے مقابلہ میں آنے والے افراد کے سلسلہ میں آپ صحیح فیصلہ کرسکیں گے خواہ اسی سر کشی کا تعلق نوشتہ لکھنے سے ہو یا جیش (لشکر) اسامہ میں شرکت نہ کرنے کی صورت میں ہو، اسی طرح وہ رسول(ص) کی وفات حسرت آیات کے بعد بھی سرکشی سے دست بردار نہیں ہوئے مثلا لوگوں سے جبرا(ابوبکر کی) بیعت لینا، بیعت نہ کرنے والوں کو جلا دینے کی دھمکی دینا کہ جن میں علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسنین(ع) بھی شامل تھے لوگوں کو حدیث رسول(ص) نقل کرنے سے منع کرنا، ان کتابوں کو جلا دینا جو احادیث رسول(ص) سے مملوتھیں. صحابہ کو اس لئے قید کرنا تاکہ وہ احادیث رسول(ص) بیان نہ کرسکیں اسی طرح ان صحابہ کو قتل کر دینا. جنہوں نے ابوبکر کو زکوۃ دینے سے منع کردیا تھا کیونکہ ابوبکر ان کے نزدیک خلیفہ نہیں تھے. نبی(ص) کی موجودگی میں انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی فاطمہ زہرا(س) کے حق فدک، خمس اور میراث کو غصب کر لینا اور ان کے دعوے کو جٹھلانا حضرت علی علیہ السلام کو کسی قسم کی کوئی ذمہ داری اور عہدہ نہ دینا، بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو مسلمانوں کا حاکم بنا دینا، صحابہ کو نبی(ص) کے آثار و تبرکات کی تعظیم سے منع کرنا، اذان سے آپ کے نام نامی کو نکالنے کی کوشش کرنا، مدینہ منورہ کو کافر لشکر کے لئے مباح کردینا کہ جس نے جو چاہا کیا، منجنیق کے ذریعہ خانہ کعبہ پر آگ برسا کر جلا دینا حرم خدا میں صحابہ کے خون کی ہولی کھیلنا، عترت رسول(ص) کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرنا اور ان پر سب وشتم کرنا

۱۰۵

اور لوگوں کو لعنت کرنے کا حکم دینا، اہلبیت(ع) کے شیعوں اور دوستوں کو یہاں تک کہ (دین خدا) ایک کھیل اور مذاق بن کے رہ گیا اور قرآن کو پارہ پارہ کیا جانے لگا.

اس سازش کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اس کے آثار و نتائج امت اسلامیہ میں سرایت کرتے چلے آرہے ہیں اور جب مسلمان معاویہ اور یزید سے خوش رہیں گے. اور ان کے افعال کو حقیقت کے جامہ میں پیش کرتے رہیں گے اور یہ کہتے رہیں گے کہ ان سے خطائے اجتہادی ہوئی ہے. انہیں (معاویہ و یزید کو) اس کا بھی خدا کے یہاں ایک اجر ملے گا. اور جب تک مسلمان شیعیان اہلبیت(ع) کے خلاف کتاب و مقالات لکھتے رہیں گے اور ان پر لعن طعن کرتے رہیں گے، اور جب تک حرم خدا اور حج کے زمانہ میں شیعیان اہلبیت(ع) کے خون بہانے کو مباح سمجھتے رہیں گے اس وقت تک اس سازش کا سلسلہ جاری رہے گا. اور ظہور حضرت مہدی(عج) تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا.

میرے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ میں اس کا پورے طریقہ سے انکشاف کروں یا اس کی تفصیلی کیفیت کو قلم بند کروں، لیکن میری شائستہ کوشش یہی ہوگی کہ میں ان ذلت آمیز روایات سے رسول(ص) اور آپ کی عصمت کا دفاع کروں. اور ذہین اور آزاد طبیعت مسلمان کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کروں گا کہ رسول(ص) کو خدا نے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، اور آپ کو قمر و سراج منیر قرار دیا. وہ جلیل القدر با عظمت اور خدا کی نشانی ہیں، خلق خدا میں آپ پاکیزہ ترین انسان ہیں. ایسی روایات پر ہمارا خاموش بیٹھ جانا ممکن نہیں ہے. کہ جن کے گڑھنے کا مقصد رسول(ص) کی عظمت کو گھٹانا اور آپ(ص) کی قدر ومنزلت کو گرانا ہے. ہرگز نہیں ایسی روایات پر کبھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اگر چہ اہلسنت کا ان پر اتفاق ہے. اور انہوں نے اپنی صحاح اور مسانید میں انہیں نقل بھی کیا ہے. یہی نہیں بلکہ اگر ان روایات

۱۰۶

پر تمام اہل ارض اتفاق کر لیں تو بھی ہمارے لئے خدا کا یہ قول کافی ہے( وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ‏ عَظِيمٍ ) یہ قول فیصل ہے اس کے علاوہ تمام اقوال باطل و بیکار ہیں.

سیدالانام، ضلالت و گمراہی سے نجات دلانے والے، منادی امنیت و سلامت کے بارے میں یہی شیعوں کا قول ہے.

( فاعتبروا يا أولي‏ الألباب )

رسول(ص) کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

یقول الامام علی(ع)" حَتَّى‏ أَفْضَتْ‏ كَرَامَةُ اللَّهِ‏ سُبْحَانَهُ إِلَى مُحَمَّدٍ ص فَأَخْرَجَهُ مِنْ أَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْبِتاً وَ أَعَزِّ الْأَرُومَاتِ مَغْرِساً مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِي صَدَعَ مِنْهَا أَنْبِيَاءَهُ وَ انْتَجَبَ مِنْهَا أُمَنَاءَهُ عِتْرَتُهُ خَيْرُ الْعِتَرِ وَ أُسْرَتُهُ خَيْرُ الْأُسَرِ وَ شَجَرَتُهُ خَيْرُ الشَّجَرِ نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وَ بَسَقَتْ فِي كَرَمٍ لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وَ ثَمَرٌ لَا يُنَالُ فَهُوَ إِمَامُ مَنِ اتَّقَى وَ بَصِيرَةُ مَنِ اهْتَدَى سِرَاجٌ لَمَعَ ضَوْؤُهُ وَ شِهَابٌ سَطَعَ نُورُهُ وَ زَنْدٌ بَرَقَ لَمْعُهُ سِيرَتُهُ الْقَصْدُ وَ سُنَّتُهُ الرُّشْدُ وَ كَلَامُهُ الْفَصْلُ وَ حُكْمُهُ الْعَدْلُ أَرْسَلَهُ عَلَى حِينِ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَ هَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ وَ غَبَاوَةٍ مِنَ الْأُمَمِ... فبالغ‏ صلّى‏ اللّه‏ عليه‏

۱۰۷

و آله‏ في‏ النّصيحة، و مضى على الطّريقة، و دعى إلى الحكمة و الموعظة الحسنة....

مُسْتَقَرُّهُ خَيْرُ مُسْتَقَرٍّ وَ مَنْبِتُهُ أَشْرَفُ مَنْبِتٍ فِي مَعَادِنِ الْكَرَامَةِ وَ مَمَاهِدِ السَّلَامَةِ قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَهُ أَفْئِدَةُ الْأَبْرَارِ وَ ثُنِيَتْ إِلَيْهِ أَزِمَّةُ الْأَبْصَارِ دَفَنَ بِهِ الضَّغَائِنَ وَ أَطْفَأَ بِهِ النَّوَائِرَ. أَلَّفَ بِهِ إِخْوَاناً وَ فَرَّقَ بِهِ أَقْرَاناً أَعَزَّ بِهِ الذِّلَّةَ وَ أَذَلَّ بِهِ الْعِزَّةَ كَلَامُهُ بَيَانٌ وَ صَمْتُهُ لِسَانٌ‏ أَرْسَلَهُ‏ بِحُجَّةٍ كَافِيَةٍ وَ مَوْعِظَةٍ شَافِيَةٍ وَ دَعْوَةٍ مُتَلَافِيَةٍ أَظْهَرَ بِهِ الشَّرَائِعَ الْمَجْهُولَةَ وَ قَمَعَ بِهِ الْبِدَعَ الْمَدْخُولَةَ وَ بَيَّنَ بِهِ الْأَحْكَامَ الْمَفْصُولَةَ

أَرْسَلَهُ‏ بِالضِّيَاءِ وَ قَدَّمَهُ فِي الاصْطِفَاءِ فَرَتَقَ بِهِ الْمَفَاتِقَ وَ سَاوَرَ بِهِ الْمُغَالِبَ وَ ذَلَّلَ بِهِ الصُّعُوبَةَ وَ سَهَّلَ بِهِ الْحُزُونَةَ حَتَّى سَرَّحَ الضَّلَالَ عَنْ يَمِينٍ وَ شِمَالٍ".

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں: یہاں تک کہ یہ الہی شرف محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہونچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین اور ایسی اصلوں سےکہ جو نشو و نما کے لحاظ سے بہت با وقار تھیں پیدا کیا. اس شجرہ سے کہ جس سے بہت سے انبیاء پیدا کئے اور جس میں

۱۰۸

سے اپنے امین منتخب فرمائے، ان کی عزت بہترین عزت اور قبیلہ بہترین قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے جو سر زمین حرم پر اگا اور بزرگی کے سائے میں بڑھا جس کی شاخین دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں وہ پرہیز گاروں کے امام، ہدایت حاصل کرنے والوں کے لئے (سرچشمہ) بصیرت ہیں، وہ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لو دیتی ہے وہ ایسا روشن ستارہ ہیں جس کا نور ضیاء پاش اور ایسا چقماق جس کی ضو شعلہ فشاں ے، ان کی سیرت ( افراط و تفریط سے بچ کر) سیدھی راہ پر چلنا اور سنت کی ہدایت کرنا، ان کا کلام حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا اور حکم عین عدل ہے. اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا کہ جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا. بد عملی پھیلی ہوئی تھی، اور امتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی، پس نبی(ص) نے لوگوں کو سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا. خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور لوگوں کو حکمت و دانش کی طرف بلاتے رہے......(1)

رسول اکرم(ص) کا مقام بہترین مقام ہے، اور مرزبوم بہترین مرزبوم ہے ان کی طرف نیک لوگوں کے دل جھکا دئے گئے ہیں خدا نے ان کی وجہ سے فتنے دبائے ہیں اور( عداوتوں کے) شعلے بجھادئے ہیں، بھائیوں میں الفت پیدا کی اور جو (کفرمیں) اکٹھے تھے انہیں علیحدہ علیحدہ کردیا ( اسلام کی پستی اور ذلت کو عزت بخشی اور کفر کی عزت و بلندی کو ذلیل کردیا ان کا کلام (شریعت

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر93

۱۰۹

کا) بیان اور سکوت ( احکام کی) زبان ہے...(1)

اللہ نے انہیں روشنی کے ساتھ بھیجا اور انتخاب کی منزل میں سب سے آگے رکھا تو ان کے ذریعہ سے تمام پراگندگیوں اور پریشانیوں کو دور کیا، اور غلبہ پانے والوں پر تلسط جمالیا... مشکلوں کو سہل اور دشواریوں کو آسان بنایا. یہاں تک کہ دائیں بائیں (افراط و تفریط) کی سمتوں سے گمراہی کو دور ہٹایا.(2)

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر94

2. نہج البلاغہ خطبہ نمبر211

۱۱۰

تیسری فصل

اہلبیت علیہم السلام سے متعلق

تیسرا سوال: اہلبیت(ع) کون ہیں؟

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ‏ لِيُذْهِبَ‏ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً. ) احزاب/33

(اے) اہلبیت(ع) اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے.

اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں کہ یہ آیت ازواج نبی(ص) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ اس مدعی پر آیت کے سیاق و سباق سے استدلال کرتے ہیں، پس ان کے زعم کے مطابق خدا نے نبی(ص) کی ازواج سے رجس کو دور کیا اور پاک

۱۱۱

و پاکیزہ کر دیا. اہل سنت کے بعض افراد نے اہلبیت(ع) میں ازواج نبی(ص) کے ساتھ ساتھ علی(ع)،فاطمہ(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) کا بھی اضافہ کیا ہے. لیکن عقل و نقل اور تاریخ اس کی تردید کرتی ہے. کیونکہ اہلسنت اپنی صحاح میں روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت پانچ اشخاص یعنی محمد(ص)، علی(ع) فاطمہ(ع) حسن(ع) وحسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے. اور رسول(ص) نے خود اس آیت کو انہیں افراد سے مخصوص کیا ہے. جب علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسنین(ع) چادر کے نیچے آگئے اس وقت آپ نے فرمایا پروردگارا! یہی میرے اہلبیت ہیں ان سے رجس کو دور فرما اور پاک و پاکیزہ رکھ.اہلسنت کے علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے. میں ان میں سے بعض کا ذکر کر رہا ہوں.

صحیح مسلم "باب فضائل اہلبیت النبی(ص) جلد/2 ص368----صحیح ترمذی جلد/5 ص30

مسند امام احمد بن حنبل جلد/1ص330----------مستدرک الحاکم جلد/3ص123

خصائص امام نسائی ص49--------------تلخیص الذہبی جلد/2 ص150

معجم الطبرانی جلد/1ص65-----------شواہد التنزیل للحاکم الحسکانی جلد/2ص11

البخاری فی التاریخ الکبری جلد/1 ص69--------------الاصابہ لابن حجر العسقلانی جلد/2 ص502

۱۱۲

تفسیر الفخر الرازی جلد/2 ص700----- 13 ینابیع المودت للقندوزی حنفی ص107

مناقب الخوارزمی ص23- 15 السیرت الحلبیہ جلد/ 3 ص212

السیرت الدحلانیہ جلد/3 ص329 17 السد الغابہ لابن الاثیر جلد/2 ص12

18 تفسیر الطبری جلد/23 ص6 19 الدر المنثور للسیوطی جلد/5 ص198

20 تاریخ ابن عساکر جلد/1 ص185 21 تفسیر الکشاف للزمخشری جلد/1 ص193

22 احکام القرآن لابن عربی جلد/2 ص166 23 تفسیر القرطبی جلد/14 ص182

24 الصواعق المحرقہ لابن حجر ص85 25 الاستیعاب لابن عبد البر جلد/3 ص37

26 العقد الفرید لابن عبد ربہ جلد/4 ص311 27 منتخب کنز العمال جلد/5 ص96

28 مصابیح السنہ للبغوی جلد/2 ص278 29 اسباب النزول للواحدی جلد/2 ص203

30 تفسیر ابن کثیر جلد/3 ص483

ان کے علاوہ اہلسنت والجماعت کے اور بہت سے علماء نے بھی اس کو قلمبند کیا ہے. ہم اتنے ہی پر اکتفا کر کے آگے بڑھتے ہیں.

۱۱۳

جب ان سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ خود رسول(ص) نے اس آیت کا مصداق بیان فرمایا ہے تو پھر آپ(ص) کے قول کے بعد صحابہ یا تابعین یا ان مفسرین کے اقوال کی کیا حقیقت ہے کہ جو اس آیت کو معاویہ کی خوشنودی اور اس سے بخشش لینے کی طمع میں ان معانی پر حمل کرنا چاہتے ہیی جو خدا و رسول(ص) کی مراد نہیں ہیں.اس طرح رسول(ص) نے ایک اور موقع پر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اہلبیت(ع) میں ان کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جب آیہ مباہلہ یعنی فقل تعالوا(1) الخ نازل ہوئی تو آپ(ص) نے علی(ع)، فاطمہ(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) کو ساتھ لیا اور فرمایا: یہی میرے بیٹے، مرد اور عورت ہیں. پس تم اپنے مردوں بیٹوں اور عورتوں کو لائو.

مسلم کی روایت میں" اللهم هائولاء اهلی" کی لفظ ہے.(2)

جن علمائے اہلسنت والجماعت کے مصادر کا میں نے ذکر کیا ہے ان سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ آیت مذکورہ پانچ افراد کی شان میں نازل ہوئی ہے. ہم اس آیت کا مصداق ازواج نبی رضی اللہ عنہن ہی کو تسلیم کرتے اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کا دعوی کیا ہوتا خصوصا ام سلمہ و عائشہ کو بھی اس پر اصرار نہیں ہے. بلکہ ان میں سے ہر ایک نے یہی روایت کی ہے کہ یہ آیت رسول(ص)، علی(ع) فاطمہ(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) سے مخصوص ہے. ازواج کے اس اعتراف کو مسلم و ترمذی، حاکم وطبری، سیوطی و ذہبی اور ابن اثیر وغیرہ نے تحریر کیا ہے.

____________________

1.سورہ آل عمران آیت/61

2.صحیح مسلم جلد/7 ص121. فضائل علی ابن ابی طالب(ع) کے باب میں

۱۱۴

پھر رسول(ص) نے اس شک اور اشکال کو خود ہی رفع کردیا تھا. کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ مسلمان قرآن پڑھیں گے اور آیت کے سیاق و سباق سے اہلبیت(ع) کی لفظ کو دوسروں پر حمل کریں گے لہذا جو چیز اہلبیت(ع) کے زمرہ سے ازواج نبی(ص) کو خارج کرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول(ص) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد امت کو بتانے کے لئے چھ مہینے تک نماز سے قبل علی(ع) و فاطمہ(ع) اور حسنین(ع) کے دروازہ پر تشریف لے جاتے تھے اور فرماتے تھے: انما یرید اللہ الخ رسول(ص) کے اس عمل کو ترمذی نے اپنی صحیح کی جلد/ 5 ص21 پر اور حاکم نے مسدترک کی جلد/3 ص158 پر اور ذہبی نے اپنی تلخیص میں. احمد بن حنبل نے مسند کی جلد/3 ص259 پر ابن اثیر نے اسد الغابہ کی جلد/5 ص521 پر حسکانی نے شواہد التنزیل کی جلد/3 ص11پر، سیوطی نے درمنثور کی جلد/5 ص199 پر طری نے اپنی تفسیر کی جلد/22 کے ص6 پر، بلاذری نے انساب الاشراف کی جلد/2ص104 پر طبری نے اپنی تفسیر کی جلد/22 کے ص483 پر اور ہیثمی نے مجمع الزوائد کی جلد/9 کے ص168 پر تحریر کیا ہے اور جب ہم ان میں ائمہ اہلبیت(ع) اور شیعہ علماء کا اضافہ کرتے ہیں کہ جن کو اس سلسلہ میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، اور حسن(ع) و حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے. پھر دشمنان اہلبیت(ع) اور معاویہ و بنی امیہ کے گماشتوں کی مخالفت کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی کہ جو نور خدا کو اپنی پھونک سے بجھا دینا چاہتے ہیں. خدا اپنے نور کا کامل کر کے رہے گا اگرچہ کافرون کو یہ برا ہی کیوں نہ لگے.

یہاں اس بات کا نکشاف ہوجاتا ہے کہ نبی(ص) کی تفسیر سے ہٹ کر تفسیر کرنے ولے ہر زمانہ میں وہ افراد رہے ہیں جو بنی امیہ و بنی عباس کے زرخرید غلام تھے یہ وہ ناصب افراد تھے کہ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے اگرچہ یہ سارے کے سارے فقہا و علماء کے لباس میں ملبوس تھے.

۱۱۵

اس بات کو عقل بھی کہتی ہے کہ آیت تطہیر میں ازواج نبی(ص) شامل نہیں ہیں.

1.جب ہم عائشہ کو دیکھتے ہیں کہ اس بات کی دعویدار ہیں کہ نبی(ص) تمام ازواج میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت فرماتے تھے. اور ان سب سے زیادہ قریب تھیں یہاں تک کہ دیگر ازواج کو ان سے پرخاش ہوگئی تھی. جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ازواج نبی(ص) نے کہلوایا کہ بنت ابوبکر کے سلسلہ میں عدل سے کام لیں. تو یہ بھی اہلبیت(ع) میں صاف طور سے نظر نہیں آتیں اور نہ ہی ان کے چاہنے والوں میں سے کسی نے یہ کہنے کہ جرات کی ہے کہ عائشہ اس آیت کے نزول کے دن کساء کے نیچے تھیں، پس محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال و افعال سے زیادہ کسی کے قول و فعل کی عظمت نہیں ہے اور ان کی اس میں کوئی عظیم حکمت تھی کہ انہوں نے اس آیت کے روز نزول اپنے اہلبیت(ع) ہی کو کساء کے نیچے جمع کیا اور بس، یہاں تک کہ جب ام المومنین ام سلمہ نے کساء کے نیچے آنے کا ارادہ کیا اور اپنے شوہر رسول(ص) سے اجازت طلب کی تو آپ(ص) نے داخل کساء ہونے سے منع کردیا. اور فرمایا تم خیر پر ہو.

2.پھر آیت اپنے مفہوم خاص و مفہوم عام کے لحاظ سے عصمت پر دلالت کررہی ہے، کیونکہ رجس کا دور کرنا ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں، رذیلوں کے دور کرنے کو شامل ہے. خصوصا جب ہم طہارت کی نسبت خدا کی طرف دیتے ہیں. جبکہ مسلمان اپنے بدنوں کی طہارت پانی اور مٹی سے کرتے ہیں کہ جس سے باطنی جسم پاک نہیں ہوسکتا ہے. پس خدا نے اہلبیت(ع) کی روح کو طاہر کیا اور عقل و قلب کو اس طرح پاک و پاکیزہ کردیا کہ شیطانی وسوسوں اور معصیت کے ارتکاب کا امکان ہی ختم ہوگیا. پس ان کے قلوب حرکات و سکنات میں اپنے خالق کے لئے صاف و شفاف اور مخلص رہے.

3.وہ سب انسانیت کے لئے طہارت کا نمونہ تھے کہ جن میں

۱۱۶

زہد، تقوی، اخلاص،علم وحلم، شجاعت و مروت، و عفت و پاکیزگی، دنیا سے علیحدگی اور خدا سے تقرب شامل ہے. تاریخ نے ان کی طول حیات میں ایک بھی گناہ کی نشاندہی نہیں کی ہے.

جب یہ حقیقت واضح ہوگئی تو اب ہم ازواج نبی(ص) کے سلسلہ میں پہلی مثال کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ یہ کہ عائشہ نے بلند مرتبہ، عالی شان اور بڑی شہرت حاصل کی تھی کہ جو نبی(ص) کی کسی دوسری زوجہ کو حاصل نہ ہوسکی. نہ صرف ان میں سے کسی کو یہ مرتبہ مل سکا بلکہ اگر ان سب کے ہم تمام فضائل کو جمع کرلیں تب بھی عائشہ بنت ابوبکر کے عشر عشیر تک نہیں پہونچیں گی. اس کے تو اہلسنت بھی قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ نصف دین تو عائشہ سے لیا گیا ہے.

اور اگر ہم تعصب سے الگ ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر حقیقت بینی سے کام لیں تو کیا یہ بات معقول ہے کہ وہ تمام گناہ اور معاصی سے پاک تھیں؟ یا خداوند عالم نے نبی(ص) کے بعد وہ طہارت کا حصار ان سے ہٹایا تھا. آئیے حقیقت تلاش کریں.

۱۱۷

عائشہ نبی(ص) کی حیات میں

عائشہ کو جب ہم رسول(ص) کے ساتھ دیکھتے ہیں تو ان کی زندگی میں بہت سے گناہ اور معصیت نظر آتی ہیں. عائشہ نے بہت سے موقعوں پر حفصہ کے ساتھ مل کر ایسی شرارتیں کیں کہ نبی(ص) نے خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا جیسا کہ بخاری و مسلم میں مرقوم ہے. اور دونوں نے نبی(ص) کے خلاف سازش بھی کی جیسا کہ صحاح اور تفاسیر کی کتابوں میں نقل ہوا ہے. ان میں سے دو واقعوں کا ذکر خدا نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے.

جس طرح اس کے قلب و عقل پر رشک طاری تھا کہ جس کی وجہ سے وہ نبی(ص) کے سامنے بے ادبی کیا کرتی تھی. نبی(ص) ایک مرتبہ خدیجہ کا ذکر خیر فرما رہے تھے کہ عائشہ نے کہا کہ مجھ میں اور خدیجہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، وہ ایسی بڑھیا تھی جس کے گالوں پر جھڑیاں پڑگئی تھیں. آپ کو خدا نے اس سے بہتر عطا کی

۱۱۸

ہے عائشہ کی اس بات سے رسول(ص) اتنے غضبناک ہوئے کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے.(1) ایک مرتبہ آپ کی ازواج میں سے ایک نے آپ(ص) کی خدمت میں کھانے کا ایک کاسہ بھیجا(رسول(ص) اس وقت عائشہ کے گھر میں تھے) نبی(ص) بھوکے تھے لیکن عائشہ نے کاسہ پھینک دیا.(2) ایک مرتبہ نبی(ص) سے کہا: آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں خدا کا نبی(ص) ہوں(3) اور کبھی آپ پر غضبناک ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں عدل سے کام لو جب کہ ان(عائشہ) کے والد وہاں موجود تھے. انہوں نے عائشہ کو اتنا مارا کہ خون بہہ نکلا.(4) ان کے رشک کی یہ انتہا تھی کہ اسماء بنت نعمان پر اس وقت تہمت لگائی جب وہ نبی(ص) کی زوجیت میں آئیں اور کہا کہ نبی(ص) اس عورت کو بہت زیادہ پسند فرماتے ہیں جو دخول کے وقت اعوذ باللہ منک کہتی ہے. اس سے عائشہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ شریف و سادہ عورت جب یہ بات کہے گی تو نبی(ص) اسے طلاق دے دیں گے.(5) رسول(ص) کے سامنے ان کے بے ادبی کی حد ہوگئی تھی. ایک مرتبہ نبی(ص) نماز پڑھ رہے تھے اور یہ پیر پھیلائے سامنے بیٹھی تھیں جب آپ سجدہ میں جاتے ہیں تو پیر سمیٹ لیتی ہیں، اور جب کھڑے ہوتے ہیں تو پھیلا دیتی ہیں.(6)

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4ص231 باب تزویج النبی(ص) خدیجہ اسی طرح صحیح مسلم میں ہے.

2.صحیح بخاری جلد/6ص157 باب الغیر8

3. احیاء علوم الدین امام غزالی جلد/2 ص29 کتاب ادب النکاح

4. کنز العمال جلد/7ص116 احیاء العلوم

5. طبقات ابن سعد جلد/8 ص145، اصابہ لابن حجر جلد/4ص233، تاریخ یعقوبی جلد2 ص29 =

۱۱۹

ایک مرتبہ عائشہ اور حفصہ نے نبی(ص) کو اتنا پریشان کیا کہ آپ نے ایک مہینے کے لئے ازواج سے علیحدگی کی اختیار کر لی اور چٹائی پر سوتے رہے.(1) اور جب خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:

( تُرْجِي‏ مَنْ‏ تَشاءُ مِنْهُنَّ وَ تُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشاءُ ) سورہ احزاب/50

ان میں سے جس کو چاہیں آپ الگ کردیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں. تو بے حیائی کے ساتھ نبی(ص) سے کہتی ہیں کہ میں نے آپ کے پروردگار کو آپ کی خواہشات نفسانی ہی کے بارے میں تعجیل کرتے دیکھا ہے.(2) جب عائشہ کو غصہ آتا تھا( اور زیادہ تر آنا تھا) تو آپ(ص) کو نبی(ص) کہنا چھوڑ دیتی تھی. محمد(ص) بھی کہہ کے نہیں پکارتی تھیں بلکہ ابراہیم کے باپ کہہ کے صدا دیتی تھیں.(3) عائشہ نبی(ص) کی طرف سے زیادہ بدگمان رہتی تھیں، ان کی طرف سے نالاں رہتی تھیں لیکن نبی(ص) رئوف و رحیم تھے، آپ(ص) کا اخلاق بلند اور صبر مستحکم تھا آپ اکثر عائشہ سے فرمایا کرتے تھے" اے عائشہ اپنے شیطان کو روکو" اور اکثر آپ عائشہ و حفصہ بنت عمر کے بارے میں خدا کی تہدید پر افسوس کیا کرتے تھے، کتنی مرتبہ انہیں کی وجہ سے قرآن نازل ہوا. عائشہ و حفصہ کے بارے میں ارشاد ہے.

____________________

=6. صحیح بخاری جلد/ 3 ص101 باب الصلوة علی الفراش

1. صحیح بخاری جلد/3 ص105

2. صحیح بخاری جلد/6 ص128 ص24 باب ھل للمراة تہب نفسہا لاحد

3. صحیح بخاری جلد/6 ص158 باب غیرت النساء ووجدھن

۱۲۰