اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 291
مشاہدے: 32573
ڈاؤنلوڈ: 3111


تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32573 / ڈاؤنلوڈ: 3111
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

( إِنْ‏ تَتُوبا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُما وَ إِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ ) تحریم آیت/3

تم دونوں توبہ کرو تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے. یعنی یہ حق سے منحرف ہوگئی ہیں.(1) اور خدا کا یہ قول کہ:

( وَ إِنْ‏ تَظاهَرا عَلَيْهِ‏ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَ جِبْرِيلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ ) تحریم آیت/3

اور اگر اس کے خلاف تم سازش کروگی تو یاد رکھو، اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبرئیل اور نیک مؤمنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں. عائشہ و حفصہ کے لئے خدا کی طرف سے یہ کھلی تنبیہ ہے، عائشہ اکثر حفصہ کے کہنے کے مطابق عمل کیا کرتی تھیں ایک جگہ خداوند عالم دونوں کے بارے میں فرماتا ہے:

( عَسى‏ رَبُّهُ‏ إِنْ‏ طَلَّقَكُنَ‏ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْواجاً خَيْراً مِنْكُنَّ مُسْلِماتٍ مُؤْمِناتٍ ) تحریم آیت/4

وہ اگر تمہیں طلاق بھی دے دے گا تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر مسلمہ و مومنہ بیویاں عطا کردے گا.عمر ابن خطاب کہتے ہیں یہ آیتیں عائشہ و حفصہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں.(2) اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ سے بہتر تو مسلمانوں کی مومنہ عورتیں ہیں.

____________________

1.صحیح بخاری جلد/3 ص106 باب الغرفہ والعلیہ من کتاب المظالم

2.صحیح بخاری جلد/ 6 ص69 و ص71 باب و اذا امر النبی الی بعض ازواجہ

۱۲۱

نبی(ص) نے ایک مرتبہ انہیں وحیہ کلبی کی بہن کو دیکھنے کے لئے بھیجا کہ آپ(ص) اس سے نکاح کرنا چاہتے تھے، آپ نے عائشہ سے کہا کہ جائو دیکھ کر آئو جب وہ دیکھ کر واپس آئیں تو ان پر حمیت وغیرت طاری ہوچکی تھی، رسول(ص) نے دریافت کیا عائشہ تم نے اسے کیسا پایا؟ کہنے لگیں میں نے تو ان میں کوئی خاص بات نہیں دیکھی، آپ(ص) نے فرمایا: یقینا تم نے کوئی انوکھی بات ان میں دیکھی ہے اور تم اسے چھپا رہی ہو، تم نے اسے اتنے خوبصورت اور حسین دیکھا کہ جس سے تمہیں اپنی ہوا اکھڑنے کا خوف لاحق ہوگیا. عائشہ نے کہا: یا رسول اللہ(ص) بھلا آپ(ص) سے کوئی راز پوشیدہ رہ سکتا ہے اور کون آپ سے کوئی بات چھپا سکتا ہے.(1)

جو کچھ عائشہ نے نبی(ص) کے ساتھ کیا ہے ان میں سے اکثر سازشیں ایسی تھیں جن میں حفصہ بنت عمر بھی شریک رہتی تھی. عجیب! ہم ان دونوں عورتوں (عائشہ و حفصہ) میں ایسے تعلقات و فکری ہم آہنگی دیکھتے ہیں جیسی ان دونوں کے والد ابوبکر وعمر میں تھی مگر یہ کہ آپ کی ازواج میں عائشہ ہمیشہ قوی و جری رہیں. ہاں حفصہ بنت عمر اسے ہر چیز کے بارے میں اکسایا کرتی تھی بالکل اس طرح جس طرح ابوبکر جہاں کمزور پڑتے تھے وہاں عمر آگے بڑھتے تھے، وہ اس طرح معاملہ میں قوی و جرات مند تھے آپ نے گذشتہ بحثوں میں ملاحظہ فرمایا کہ ابوبکر اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی کمزور تھے اصلی حاکم عمر ابن خطاب تھے، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ جب عائشہ حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کے لئے مدینہ سے بصرہ کی طرف چلیں تو دیگر ازواج نبی(ص) سے بھی گذارش کی کہ تم بھی میرے ساتھ چلو لیکن حفصہ بنت عمر کے علاوہ اور کسی نے عائشہ کی بات کو تسلیم نہ کیا اس نے بھی عائشہ کے ساتھ چلنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے بھائی عبداللہ ابن عمر

____________________

1. طبقات ابن سعد جلد/8 ص115، کنز العمال جلد/6 ص294

۱۲۲

نے اسے روکا اور اس پر ناراض ہوئے تو اس نے رخت سفر کھول دیا.(1) اسی لئے خداوند عالم نے عائشہ اور حفصہ دونوں کو ایک ساتھ تہدید کی ہے. چنانچہ فرمایا ہے:

( وَ إِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَ جِبْرِيلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ )

اور اس کے خلاف اگر تم اتفاق کروگی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست اور جبرئیل و نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں. تحریم آیت4 اسی طرح یہ قول:

( إِنْ تَتُوبا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُما ) تحریم آیت/3

تم دونوں توبہ کرو تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے. یقینا سورہ تحریم میں خداوند عالم نے ان دونوں (عائشہ و حفصہ) اور دوسرے ان مسلمانوں کو آگہی کے لئے ایک مثال دی ہے جو ام المومنین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گی. کیونکہ وہ رسول(ص) کی بیوی ہیں. ہرگز نہیں : خداوند عالم نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک مرد و عورت کو آگاہ کردیا ہے کہ زوجیت کوئی فائدہ یا نقصان پہونچانے والی نہیں ہے خواہ شوہر رسول(ص) ہی کیوں نہ ہو. خدا کے نزدیک جو ضرر رساں یا سودمند ہے وہ انسان کے اعمال ہیں چنانچہ ارشاد ہے:

( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ كانَتا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَيْنِ فَخانَتاهُما، فَلَمْ يُغْنِيا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ قِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ ) . تحریم آیت10

____________________

1.شرح ابن ابی الحدید جلد/2 ص80

۱۲۳

خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے نوح اور لوط کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن دونوں نے ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہونچایا اور ان سے کہدیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جائو. تحریم آیت/10

اور مومنوں کے لئے خدا نے زن فرعون کی مثال پیش کی ہے اور ان کا یہ قول نقل کیا ہے:

( رَبِ‏ ابْنِ‏ لِي‏ عِنْدَكَ‏ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها فَنَفَخْنا فِيهِ مِنْ رُوحِنا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِماتِ رَبِّها وَ كُتُبِهِ وَ كانَتْ مِنَ الْقانِتِينَ ) تحریم آیت/11/12

پروردگار میرے لئے اپنے یہاں بہشت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی کارستانی سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں (کے ہاتھ) سے چھٹکارا عطا فرمایا. اور (دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں تھی.

ان آیات کے بعد تمام لوگوں پر یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ زوجیت اور صحبت میں اگرچہ بہت سے فضائل ہیں لیکن یہ دونوں عذاب خدا سے

۱۲۴

نجات نہیں دلاسکتی، ہاں جب صالح اعمال سے منسلک ہونگی تو یہ بات دوسری ہے اور اگر برے اعمال ہوں گے تو عذاب بھی دوگنا ہوگا کیونکہ خدا کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس شخص پر کم عذاب کرے کہ جس نے قریب والے کی طرح کہ جس کے گھر میں قرآن نازل ہوتا ہے. وحی نہ سنی ہو اور انسان نے حق پہچاننے کے بعد اس جاہل کی طرح حق کا انکار کردیا ہو جو حق سے واقف نہ ہو.

اب قارئین محترم ان کی بعض روایات کو تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں. تاکہ ان اشخاص کو پہچانا جاسکے کہ جنہوں نے علی(ع) کو خلافت سے الگ رکھنے کے لئے بڑے بڑے کھیل کھیلے اور آپ سے برسر پیکار رہے.

اور آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی طہارت اور ان سے رجس کے دور ہونے میں اتنا ہی بعد ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے. اکثر اہلسنت تو گڑھی ہوئی حدیثوں کے پیروکار ہیں کیونکہ انھوں نے بغیر سوچے سمجھے بنی امیہ کا اتباع کیا ہے.

خود اپنے خلاف

ہمیں عائشہ کی کہانی خود ان کی زبانی سننی چاہیئے اور یہ کہ حسد نے کیسے انہیں راہ راست سے دور کر دیا تھا اور نبی(ص) کے ساتھ وہ کس بد اخلاقی سے پیش آتے ہوئے کہتی ہیں:

ایک روز زوجہ نبی(ص) صفیہ نے آپ(ص) کی خدمت میں کھانا بھجوایا، رسول(ص) میرے یہاں تھے جب میں نے کنیز کو کھانا لاتے دیکھا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں کانپنے لگی پس

۱۲۵

میں نے پیالہ توڑ دیا اور کنیز کو بھگا دیا، پھر کہتی ہیں کہ. میں نے جب رسول(ص) کے چہرہ پر نظر کی تو غضب کے آثار دیکھے تو کہا کہ آج میں رسول(ص) سے پناہ چاہتی ہوں کہ مجھ پر لعنت و ملامت نہ کریں. آپ نے فرمایا تم امان میں ہو. میں نے کہا: یا رسول اللہ(ص) اس کا کفارہ کیا ہے؟ فرمایا: اس کے کھانے کے مثل کھانا اور پیالے کے مثل پیالہ.(1)

عائشہ پھر فرماتی ہیں کہ: آپ کو ایسی ایسی صفیہ مبارک ہو، مجھ سے نبی(ص) نے فرمایا: تم نے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے کہ اگر اسے دریا کے پانی میں ملا دیا جائے تو سارا پانی گندا ہو جائے.(2)

سبحان اللہ! ام المومنین کا اخلاق کہاں ہے. اور ان حقوق کا نام و نشان کہاں ہے. جو اسلام نے ان پر فرض کئے ہیں. مثلا غیبت ، چغلی خوری؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا یہ قول کہ" آپ کو ایسی ایسی صفیہ مبارک ہو" اور رسول(ص) کا یہ کہنا کہ" تم نے بہت بڑی بات کہی ہے اگر اس کو دریا کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ بھی گندہ ہوجائے" عائشہ نے اپنی سوتن صفیہ کے بارے میں کتنی بڑی بات کہی ہے.

میرا خیال تو یہ ہے کہ اس حدیث کے راویوں نے عائشہ کی عظمت کے پیش نظر اور اس حدیث کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے لفظِ کذا کذا ( ایسی ایسی) کا

____________________

1.مسند امام احمد ابن حنبل جلد/6 ص277، سنن نسائی جلد/2 ص148

2.صحیح ترمذی سے زرکشی نے ص73 پر نقل کیا ہے

۱۲۶

اضافہ کردیا ہے. جیسا کہ ان کی عادت ہے.

ام المومنین عائشہ دیگر امہات المومنین سے اپنے حسد کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ:

میں نے ماریہ سے زیادہ کسی سے حسد نہیں کیا ان سے میرا حسد اس لئے تھا کہ وہ اتنی خوبصورت اور ایسے بالوں والی تھی کہ رسول(ص) اس پر رشک کیا کرتے تھے، رسول(ص) نے اولین بار اسے حارث ابن نعمان کے گھر میں اتارا تھا، وہ ہم سے خوف کھاگئی تو رسول(ص) نے اسے اس کے خاندان میں منتقل کردیا، آپ(ص) وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے، آپ(ص) کا وہاں تشریف لے جانا ہمارے اوپر اور شاق گذرتا تھا، پھر خدا نے انہیں لڑکا عطا کیا اور ہم ایسے ہی رہ گئے.(1)

عائشہ اس بارے میں کہ ان کا حسد ان کی سوتن ماریہ سے ان کے فرزند ابراہیم تک پہونچ گیا کہتی ہیں کہ:

جب ابراہیم پیدا ہوئے تو رسول(ص) اسے لے کر میرے پاس آئے اور فرمایا: میری طرف دیکھو!(یہ بالکل) میری شبیہ ہے. میں نے کہا کہ: مجھے تو آپ کی شبیہ نہیں لگتا. رسول(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں اس کا گورا رنگ اور موٹا پن نظر نہیں آتا؟ عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا جو زیادہ بچوں والی عورت کا دودھ پئے وہ گورا اور موٹا ہوگا.(2)

____________________

1.طبقات ابن سعد جلد/8ص212، الانساب الاشراف جلد/1ص449، اصابہ فی معرفة الصحابہ للعسقلانی

2.طبقات ابن سعد جلد/1ص37 ترجمہ ابراہیم بن النبی(ص)، اسی طرح انساب الاشراف میں ہے

۱۲۷

ان کا حسد تمام حدود سے تجاوز کرچکا تھا جب انہیں رسول(ص) کے بارے میں شک ہوتا اور بدگمانی و وسواس کا بھوت سر چڑھتا تو ایسی حرکتیں کرتیں جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اکثر ایسے لیٹ جاتی تھیں جیسے سو رہی ہیں جبکہ رسول(ص) انہیں کے گھر میں سوئے ہوتے تھے پھر بھی وہ اپنے شوہر کے تعاقب میں رہتی تھیں اور ا ندھیرے میں ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی تھیں اور تعاقب کر کے دیکھتی تھیں کہ آپ کہاپ تشریف لے جارہے ہیں. آپ کے سامنے میں انہیں کی بیان کردہ روایت پیش کررہا ہوں جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں نقل کیا ہے کہتی ہیں کہ:

ایک شب رسول(ص) میرے پاس تشریف لائے ردا کو ایک طرف رکھ دیا اور نعلین اتار کر اپنے پائوں کے پاس رکھ لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئے، تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ آپ(ص) یہ سوچ کر کہ میں(عائشہ) سو رہی ہوں جلدی سے اپنے ردا اٹھائی نعلین پہنی اور دروازہ کھو کر روانہ ہوئے میں نے روسری باندھی، دو پٹہ ڈالا، اور مقنع اوڑھا پھر ان کا تعاقب کیا. یہاں تک کہ وہ بقیع (قبرستان) پہونچ کر ٹھہر گئے. آپ(ص) کافی دیر تک کھڑے رہے پھر تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور واپس ہوئے، میں بھی واپس ہوئی وہ تیز تیز چلنے لگے تو میں نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی، انہوں نے اور تیزی اختیار کی تو میں دوڑنے لگی، وہ گھر میں داخل ہوئے تو میں ان سے پہلے پہونچ کر لیٹ گئی تھی، رسول(ص) داخل ہوئے اور فرمایا: اے عائشہ تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اپنے شوہر سے بدظن ہو؟ عائشہ

۱۲۸

کہتی ہیں میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے.

آپ(ص) نے فرمایا کہ: تم بتائوگی یا لطیف و خبیر مجھے اس کی خبر دے گا. عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ ہی بتائیے. آپ نے فرمایا: تم ہی وہ سیاہی تھیں جسے میں نے اپنے سامنے دیکھا تھا. میں نے کہا ہاں. اس سے میرا دل کانپ اٹھا. پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ گمان تھا کہ خدا و رسول(ص) تم پر ظلم کریں گے.(1)

ایک مرتبہ میں نے رسول(ص) کو اپنے پاس نہ پایا تو میں نے سوچا کہ آپ کسی کنیز کے پاس پہونچ گئے ہیں ان کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ(ص) سجدہ میں سر رکھے ہوئے فرما رہے ہیں" رب اغفر لی"(2)

پھر فرماتی ہیں کہ:

ایک شب رسول(ص) میرے پاس سے کہیں چلے گئے مجھ پر جنون طاری ہوگیا، تھوڑی دیر بعد آپ(ص) تشریف لے آئے اور میری حرکت دیکھ لی اور فرمایا: اے عائشہ تمہیں کیا ہوگیا ہے یہ بد گمانی؟ میں نے کہا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں آپ(ص) جیسے انسانوں کو تلاش نہ کروں؟ رسول(ص) نے فرمایا: کیا تم پر

____________________

1.صحیح مسلم جلد/3 ص64، مسند احمد ابن حنبل جلد/2 ص421

2. مسند احمد ابن حنبل جلد/6 ص147

۱۲۹

شیطان سوار ہوگیا تھا....(1)

یہ آخری روایت ہے جو واضح طور سے اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ جب انہیں بدگمانی ہوتی تھی تو ان سے عجیب و غریب حرکت دیکھنے میں آتی تھی. جیسے برتن توڑ دینا، لباس پھاڑ ڈالنا اسی لئے تو عائشہ نے اس روایت میں کہا ہے کہ جب رسول(ص) واپس آئے اور میری حرکت دیکھی تو کہا کہ: تمہارے اوپر شیطان سوار ہوگیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ہے شیطان اکثر عائشہ پر سوار رہتا تھا یا ان میں حلول کر جاتا تھا. یقینا اس بدگمانی اور غیرت و حسد کی وجہ سے شیطان نے ان کے قلب کا راستہ دیکھ لیا تھا. رسول(ص) سے اس روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: مرد کے لئے غیرت، ایمان، اور عورت کے لئے کفر ہے.

اگر مرد اپنی زوجہ کے سلسلہ میں غیرت دار ہے تو اس لئے کہ شرعی لحاظ سے یہ جائز نہیں ہے کہ زوجہ میں اس کا کوئی شریک ہو لیکن عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کے سلسلہ میں غیرت دار ہو کیونکہ خداوند عالم نے مرد کے لئے ایک سے زیادہ زوجہ رکھنے کو مباح قرار دیا ہے. پس ایک صالحہ اور مومنہ عورت کہ جس کو خدا کے احکام کا یقین ہے وہ نفس کی ریاضت کی بنا پر سوتن کو قبول کر لیتی ہے. خصوصا جب اس کا شوہر عادل اور صرف خدا سے ڈرتا ہو پس اگر سید البشر نمونہ کمال و عدل صاحب خلق عظیم متعدد ازواج رکھے تو ان کے لئے کیا اشکال ہے؟ جس طرح عائشہ کی محبت میں واضح تناقض ہے اسی طرح اہلسنت کے اس قول میں بھی تناقض ہے کہ آنحضرت(ص) تمام ازواج میں

____________________

1.مسند احمد ابن حنبل جلد/6 ص115

۱۳۰

سب سے زیاہ عائشہ سے محبت فرماتے تھے. اور وہی آپ کے نزدیک معزز تھیں یہاں تک کہ انہوں نے یہ روایت گڑھ دی کہ ازواج نبی(ص) میں سے بعض نے اپنی راتیں بھی عائشہ کو ھبہ کر دی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ رسول(ص) عائشہ سے بہت زیادہ محبت فرماتے ہیں ان کے بغیر نہیں رہ سکتے کیا یہ ممکن ہے؟ جبکہ ہم یہ دیکھ تے ہیں کہ وہ عائشہ کے حسد کی توجیہ کرنے کے سلسلہ میں پریشان ہیں، بلکہ قضیہ اس کے برعکس ہے یعنی دیگر ازواج نبی(ص) کو عائشہ پر حسد کرنا چاہئیے تھا کیونکہ آنحضرت(ص) کو ان سے شدید محبت تھی. انہیں کی طرف مائل تھے، جیسا کہ اہلسنت کی روایت اور ان کا گمان ہے، اور جب وہ رسول(ص) کی چہیتی تھیں تو پھر ان کے حسد کے کیا معنی؟

تاریخ میں یہ بات کہیں نہیں ملتی مگر احادیث و سیَر کی کتابیں ان کی فضیلت سے بھری پڑی ہیں اور یہ کہ وہ رسول(ص) کی ایسی ناز و نخرے والی اور چہیتی بیوی تھیں کہ جس کی جدائی آنحضرت(ص) برداشت نہیں کرسکتے تھے.میرا عیدہ تو یہ ہے کہ یہ خرافات امویوں کی ایجاد ہیں جو عائشہ کو دوست رکھتے اور انہیں فضیلت دیتے تھے کیونکہ عائشہ نے بھی ان کے لئے بہت کچھ کیا تھا، جیسا کہ وہ چاہتے تھے اسی مناسبت سے حدیث بیان کر دیتی تھیں اور ان کے دشمن علی بن ابی طالب(ع) سے جنگ کی تھی.

اسی طرح میرا عقیدہ یہ بھی ہے کہ رسول(ص) عائشہ کو ان کی نازیبا حرکتوں کی بنا پر قطعی پسند نہیں کرتے تھے. جیسا کہ ہم ان کی حرکتیں بیان کرچکے ہیں! رسول(ص) جھوٹ بولنے والی، غیبت کرنے والی، عیب جوئی کرنے والی کو کیسے دوست رکھ سکتے ہیں اور اسے کیونکر پسند فرماسکتے ہیں. جو خدا و رسول(ص) کو ظالم سمجھتی ہو، خدا و رسول(ص) اسے کیسے دوست رکھ سکتے ہیں جو رسول(ص) کی ٹوہ میں رہتی ہو، آپ(ص) کے گھر سے بغیر اجازت کے اس لئے نکل جاتی ہے تاکہ دیکھے کہ آپ(ص) کہاں تشریف لے گئے ہیں. آپ(ص) اسے کیونکر

۱۳۱

محبوب رکھ سکتے ہیں جو آپ(ص) کے سامنے آپ(ص) کی ازواج کو برا بھلا کہتی ہو. رسول(ص) اسے کس طرح عزیز رکھ سکتے ہیں جو آپ(ص) کے فرزند ابراہیم سے بغض رکھتی ہو اور ان کی ماں ماریہ پر بہتان لگاتی ہو.(1) رسول(ص) اسے کیونکر دوست رکھ سکتے ہیں جو آپ(ص) کے اور آپ(ص) کی ازواج کے درمیان جھوٹ کی نسبت دیتی ہو. کبھی آپ کے اور ان کے درمیان دشمنی پیدا کرا دینا چاہتی ہو. کہ جو طلاق کا باعث بنے. رسول(ص) اسے کیسے جان و دل سمجھ سکتے ہیں جو آپ کی لخت جگر زہرا(ع) سے بغض رکھتی ہو. اور آپ(ص) کے ابن عم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے اتنا بغض رکھتی ہو کہ حضرت علی(ع) کا نام لینا بھی گوارہ نہ کرتی ہو اور کبھی ان سے خوش نہ رہتی ہو.(2) یہ تمام چیزیں تو آنحضرت(ص) کی حیات طیبہ کی ہیں لیکن اب رسول(ص) کی وفات کے بعد کے واقعات بیان کئے جا رہے ہیں. خدا و رسول(ص) ان تمام باتوں کو دوست نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ارتکاب کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اللہ حق ہے اور رسول(ص) حق کا نمونہ ہیں. ممکن نہیں ہے کہ آپ حق پر نہ ہونے والے کو دوست رکھیں. عنقریب آنے والی بحثوں میں ہم اس بات کو جان جائیں گے کہ رسول(ص) عائشہ سے قطعی طور پر خوش نہ تھے بلکہ آپ(ص) نے تو امت کو اس کے شر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.(3) میں نے اپنے ان بزرگوں سے پوچھا جو عائشہ کی محبت میں تفریط سے کام لیتے ہیں کہ نبی(ص) عائشہ سے کیوں اتنی محبت

____________________

1. اس سلسلہ میں علامہ جعفر مرتضی عاملی کی کتاب"حدیث الانک ... ملاحظہ فرمائیں

2. صحیح بخاری جلد/3 ص135" باب هبة الرجل لامراته من کتاب الهبة و فضلها.

3. الطبقات الکبری لابن سعد جلد/2 ص29

۱۳۲

کیوں نہیں فرماتے تھے؟ انہوں نے متعدد جوابات دیئے لیکن سب رکیک و بیکار.ایک صاحب نے جواب دیا عائشہ کم سن اور خوبصورت تھیں. رسول(ص) نے فقط اسی باکرہ سے دخول کیا. عائشہ نے کسی دوسرے سے شادی نہیں کی تھی. دوسرے نے کہا اس لئے کہ عائشہ ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں جو آپ کے یار غار ہیں. تیسرے نے جواب دیا چونکہ عائشہ نے رسول(ص) سے نصف دین سیکھا اور وہ عالمہ و فقیہہ تھیں.

چوتھے نے کہا: چونکہ جبرئیل ان کی صورت میں نازل ہوتے تھے اور اسی وقت آتے تھے جب آپ(ص) عائشہ کے گھر میں ہوتے تھے.

قارئین محترم جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ان جوابات میں سے کسی ایک کی بھی بنیاد دلیل پر استوار نہیں ہے. اور نہ ہی اسے حقیقت وعقل سے واسطہ ہے. عنقریب ہم ان کو دلیلوں سے باطل کریں گے. پس جب رسول(ص) عائشہ سے ان کے حسن و خوبصورتی کی بناء پر محبت فرماتے تھے اور یہی ایسی باکرہ تھیں جن سے رسول(ص) نے دخول کیا تو وہ کون سی چیز تھی جس نے رسول(ص) کو ایسی حسین و جمیل عورتوں سے نکاح کرنے سے باز رکھا جن کا کوئی ثانی نہ تھا جن کا حسن قبائل عرب میں ضرب المثل تھا. جو فقط آپ کے اشارہ کی منتظر تھیں. جیسا کہ مورخین نے عائشہ کے رشک کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ عائشہ زینب بنت جحش، صفیہ بنت حیی اور ماریہ قبطیہ کے حسن پر رشک کیا کرتی تھیں کیونکہ یہ سب عائشہ سے زیادہ حسین تھیں.

ابن سعد نے طبقات کی جلد/8 ص148 پر اور ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی جلد/5 ص299 پر روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے ملیکہ بنت کعب سے نکاح کیا وہ حسن و جمال میں یکتا سمجھی جاتی تھیں، ایک مرتبہ ان کے پاس عائشہ آئیں اور کہا تمہیں.

۱۳۳

اپنے باپ کے قاتل سے نکاح کرتے ہوئے شرم نہیں آئی. ( عائشہ کے اکسانے سے) اس نے رسول(ص) سے طلاق مانگی آپ(ص) نے طلاق دیدی تو اس کے خاندان والے رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ص) وہ بچی ہے اس کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اور پھر اسے بہکایا گیا ہے پس آپ رجوع کر لیجئے، لیکن رسول(ص) نے انکار کردیا. اس کے باپ کو فتح مکہ کے دن خالد ابن ولید نے قتل کیا تھا.

یہ روایت واضح طور پر اس بات کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ رسول(ص) کو کمسن اور حسین و خوبصورت سے نکاح کرنے کا شوق نہیں تھا. اگر شوق ہوتا تو ملیکہ بنت کعب کو طلاق نہ دیتے، کیونکہ وہ کمسن بھی تھی اور حسن و جمال میں یکتا بھی.اور اس جیسے اور واقعات مختلف طریقوں سے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ عائشہ نے نیک و شریف مومنات کو دھوکے دئیے اور انہیں رسول(ص) کی زوجیت سے محروم کردیا، جیسا کہ اسماء بنت نعمان کو طلاق دلوادی، ہوا یہ تھا کہ عائشہ کو ان کے حسن و جمال پر رشک ہوگیا تھا، اس نے اسماء کو فریب دیا اور کہا کہ نبی(ص) اس عورت کو بہت چاہتے ہیں جو دخول کے وقت ان سے" اعوذ باللہ منک" ( میں آپ سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں) کہتی ہے. اور ملیکہ کو اس کے باپ کا قتل یاد دلاکر جذباتی بنا دیا تھا. اور اسے یہ باور کرایا تھا کہ تمہارے باپ کے قاتل رسول(ص) ہیں اور کہا تمہیں اپنے باپ کے قاتل سے نکاح کرتے ہوئے شرم نہ آئی. اس غریب کے پاس اس کے سوا اور کیا چارہ کار تھا کہ رسول(ص) سے طلاق طلب کرے. ہمیں یہاں یہ سوال کرنے کا حق پہونچتا ہے کہ رسول(ص) نے ان مذکورہ دونوں نیک و شریف عورتوں کو کیوں طلاق دے دی کہ جو عائشہ کی چال بازیوں کا شکار ہوئی تھیں؟

ہمارے لئے ہر چیز سے پہلے یہ فرض کرنا ضروری ہے کہ رسول(ص) معصوم

۱۳۴

ہیں اور معصوم کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے وہ تو صرف وہی کام انجام دیتا ہے جو حق ہوتا ہے.

لہذا ان دونوں کی طلاق میں ضرور کوئی حکمت پوشیدہ تھی جسے خدا اور اس کا رسول(ص) جانتا تھا جس طرح عائشہ کے ناشائستہ افعال کے باوجود طلاق نہ دینے میں کوئی حکمت تھی. آنے والی بحثوں میں ہم اس کی وضاحت کریں گے.

پہلی عورت یعنی اسماء بنت نعمان کی سادگی اور سادہ لوحی تو اسی وقت ظاہر ہوگئی تھی جب اس پر عائشہ کی حیلہ بازی کارگر ہوگئی تھی اور جب رسول(ص) نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہدیا" اعوذ باللہ منک" ( میں آپ سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں) رسول(ص) نے اس کی بات کو قبول کر لیا باوجویکہ وہ حسن و جمال میں یکتا تھی لیکن اس کی بیوقوفی کی بنا پر رسول(ص) نے اپنے پاس رکھنا گوارا نہ کیا. ابن سعد نے اپنی طبقات کی آٹھویں جلد کے ص145 پر ان عباس سے نقل کیا ہے کہ: رسول(ص) نے اسماء بنت نعمان سے نکاح کیا کہ جو اپنے زمانہ کی حَسین­ترین عورت تھی.شاید رسول(ص) اس واقعہ کے ذریعہ یہ بات بتانا جاہتے ہیں کہ عقلمندی جمال و خوبصورتی سے بہتر ہے. کتنی ہی حسین و جمیل عورتوں کو ان کی کند ذہنی برے کاموں کی طرف کھینچ لے گئی.لیکن ملیکہ بنت کعب کہ جو عائشہ کے فریب میں اس لئے آگئی تھی کہ وہ (رسول(ص)) تمہارے باپ کے قاتل ہیں پس رسول(ص) نے اس غریب کے ساتھ آنے والے حادثات کی بنا پر زندگی گزارنا گوار نہ کیا. ( اگر چہ وہ کمسن تھی اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ خود اس کے خاندان والوں نے کہا تھا) کیونکہ یہ کند ذہنی کبھی بہت بڑے بڑے مصائب کا سبب بن جاتی ہے خصوصا عائشہ کی موجودگی میں تو اور خوف تھا. بوہ ہمیشہ ان سے کھیلا کرتی اور کبھی رسول(ص) کے ساتھ

۱۳۵

خوشگوار زندگی نہ گزار پاتی لاریب اس کے علاوہ اور بہت سے اسباب ہونگے جنہیں رسول(ص) ہی جانتے تھے.

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ رسول(ص) خوبصورتی، جسمانی شہوتوں اور جنسیات کی طرف نہیں دوڑتے تھے جیسا کہ بعض جاہل و ناواقف اور بعض مستشرقین کا گمان ہے کہ محمد(ص) حسِین و جمیل عورتوں کو اہمیت دیتے تھے.ہم دیکھ چکے ہیں کہ رسول(ص) نے کس طرح مذکورہ دو عورتوں کو طلاق دے دی اگرچہ وہ دونوں کمسن اور حسین ہی نہیں بلکہ اپنے زمانہ کی حسین­ترین تھیں جیسا کہ تاریخ و احادیث کی کتابوں میں نقل ہوا ہے پس اس شخص کی بات کی کوئی حقیقت نہیں جو یہ کہتا ہے کہ رسول(ص) عائشہ کو کم سنی اور خوبصورتی کی بنا پر زیادہ چاہتے تھے.لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) عائشہ سے اس لئے زیادہ محبت رکھتے تھے کہ وہ ابوبکر کی بیٹی تھیں. تو یہ بات بالکل غلط ہے، ہاں ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں ہ ابوبکر کی وجہ سے عائشہ سے رسولے(ص) نے نکاح کیا تھا کیونکہ رسول(ص) نے بہت سے خاندانوں کی عورتوں سے سیاست کی بنا پر نکاح کئے تھے تاکہ ان خاندانوں میں محبت و مودت بڑھ جائے اور بغض و نفرت ختم ہو جائے اسی بنا پر معاویہ کی بہن ام حبیبہ بنت ابوسفیان سے آپ(ص) نے نکاح کیا تھا. تاکہ کسی کو کوئی پرخاش نہ رہے. کیونکہ وہ رحمۃ للعالمین تھے. کبھی تو آپ کی محبت عرب کے قبائل و خاندانوں سے تجاوز کر کے یہود و نصاری و قبطیوں کی دامادی تک پہونچ جاتی ہے اور اس کی وجہ یہی تھی تا کہ مختلف مذہب والے ایک دوسرے سے قریب ہوجائیں.

خصوصا جب ہم سیرت کی کتابوں کے لب لباب سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تو یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ابوبکر نے خود رسول(ص) سے عائشہ سے نکاح کرنے کی خواہش کی تھی اسی طرح عمر نے بھی اپنی بیٹی حفصہ سے نکاح کرنے کی

۱۳۶

خواہش کی تھی اور رسول(ص) نے دونوں کی خواہش کا بھرم رکھا کیونکہ آپ کا قلب تمام اہل ارض کے لئے وسیع تھا. خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( وَ لَوْ كُنْتَ‏ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ‏ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ .) آل عمران آیت/159

اے پیغمبر اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے.

اور جب ہم عائشہ کی بیان کردہ روایت کو دیکھتے ہیں کہ جس میں انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ:

رسول(ص) کو داخل ہوئے تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ انھوں نے گمان کیا کہ میں سو رہی ہوں آپ(ص) نے آہستہ سے ردا اٹھائی دروازہ کھولا اور بند کر کے چلدئیے اس روایت سے عائشہ کے سلسلہ میں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ رسول(ص) ان کے بغیر صبر ہی نہیں کرسکتے تھے.(1)

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کوئی خیالی پلائو نہیں ہے بلکہ صحاح اہلسنت میں اس کی دلیلیں موجود ہیں مسلم وغیرہ نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ عمر ابن خطاب نے فرمایا: جب نبی(ص) نے اپنی ازواج سے علیحدگی اختیار کر لی تو میں مسجد میں داخل ہوا تو لوگ کنکریاں پھینک رہے تھے اور کہہ رہے تھے رسول(ص) نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے، جبکہ انہیں پردہ کا حکم نہیں دیا تھا. میں نے کہا میں انہیں

____________________

1.صحیح مسلم جلد/3 ص64. مسند امام احمد جلد/6 ص221

۱۳۷

ضرور سمجھائوں گا. عمر کہتے ہیں کہ میں عائشہ کے پاس پہونچا اور کہا:

اے بنت ابوبکر اب تمھاری یہ جرات ہوگئی کہ تم رسول(ص) کو اذیت دینے لگی ہو. عائشہ نے کہا اے پسر خطاب آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ کا الزام آپ ہی کے سر! عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں حفصہ کے پاس پہونچا اور اس سے کہا اب تمہاری یہ جرات ہوگئی ہے کہ تم رسول(ص) کو اذیت دو! خدا کی قسم تم اس بات کو جانتی ہو کہ رسول(ص) تمہیں پسند نہیں کرتے ہیں اگر میں نہ ہوتا تو اب تک تمہیں طلاق دے چکے ہوتے. ( یہ سن کر) حفصہ پر شدید رقت طاری ہوگئی.(1) یہ روایت صریح طور پر ہمیں یہ بات بتاتی ہے کہ نبی(ص) حفصہ بنت عمر سے محبت نہیں رکھتے تھے. بلکہ سیاسی مصلحت اور اقتضائے زمانہ کی وجہ سے رکھے ہوئے تھے.

اور جو چیز ہمارے اس یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ ہمارا مسلک صحیح ہے وہ یہ کہ عمر ابن خطاب خدا کی قسم کھا کر کہہ رہے ہیں کہ رسول(ص) حفصہ سے محبت نہیں رکھتے تھے. پھر عمر نے یہ کہکر ہمارے یقین میں اور اضافہ کردیا کہ حفصہ جانتی ہے کہ رسول(ص) اس سے محبت نہیں رکھتے ہیں. یہ ایک تلخ حقیقت ہے. کہتے ہیں خدا کی قسم تم جانتی ہو کہ رسول(ص) تمہیں قطعی پسند نہیں فرماتے ہیں. اس کے بعد ہمارے لئے اس بات میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ رسول(ص) نے بعض عورتوں سےسیاست کی بناء پر نکاح کیا تھا جیسا کہ عمر ابن خطاب کے قول سے ظاہر ہے کہ اگر میں نہ ہوتا تو رسول(ص) تمہیں طلاق دے دیتے.(2)

____________________

1.صحیح مسلم جلد/4 ص188 فی باب الایلاء و اعتزال انساء و تخییرھن و قولہ تعالی: و ان تظاہرا علیہ.

۱۳۸

یہ روایت ہمیں اس سلسلہ میں ایک اور فکر دیتی ہے کہ نبی(ص) نے عائشہ بنت ابوبکر کو سیاست کی بنا پر طلاق نہیں دی اور ابوبکر کی بنا پر اس کی اذیتوں پر صبر کرتے رہے ورنہ حفصہ اس کی زیادہ حقدار ہیں کہ رسول(ص) اس سے محبت کرتے کیوں کہ اس سے عائشہ بنت ابوبکر کے عشر عشیر بھی ایسی چیز صادر نہیں ہوئی جو رسول(ص) کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی. جب ہم بنی امیہ کی عائشہ کے فضائل میں گڑھی ہوئی حدیث سے قطع نظر اصل واقعہ کی تحقیق کریں گے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ رسول(ص) کو عائشہ سے کتنا صدمہ پہونچا ہے. اور کتنی مرتبہ آپ ان پر غضبناک ہوئے ہیں. اب ہم ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس کو بخاری اور بہت سے اہلسنت کے محدثین نے نقل کیا ہے. اس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ رسول(ص) کو عائشہ سے کتنی نفرت تھی. خود عائشہ بھی اس بات کو جانتی تھیں کہ ان کے شوہر نامدار رسول(ص) ان سے کتنی نفرت کرتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/7 کے باب قول المریض انی وجع او وارئساہ" میں تحریر کیا ہے.

میں نے قاسم ابن محمد سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ عائشہ نے واراساہ( یعنی ہائے میرا سر پھٹا) کہا! تو رسول(ص) نے فرمایا اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو میں تمہارے لئے خدا سے دعا کرتا! عائشہ نے کیا: وامصیبتاہ! خدا کی قسم میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ میرا مرجانا پسند کرتے ہیں.اگر ایسا ہوگیا تو آپ اپنی آخری عمر تک دوسری ازواج سے لطف اٹھاتے رہیں گے.(1)

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7ص8 من کتاب المرضی والطب

۱۳۹

کیا یہ روایت آپ کو یہ بات بتاتی ہے کہ نبی(ص) عائشہ سے محبت فرماتے تھے؟؟

آخر کار ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ بنی امیہ اور ان کے راس و رئیس معاویہ ابن ابوسفیان رسول(ص) سے بغض رکھتے تھے.

میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ کسی کو بڑھانے یا گرانے میں ان کے پاس ایک ہی پیمانہ تھا. اور وہ محمد(ص) اور ان کے اہلبیت علی(ع)، فاطمہ(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) سے شدید دشمنی اور بے انتہا بغض و حسد تھا. پس جو شخص رسول(ص) کا مخالف اور آپ کے اہلبیت اطہار(ع) کا دشمن ہوتا تھا اسے فضیلت دیتے تھے اور اس کی شان میں احادیث گڑھواتے تھے اسے مقرب بناتے تھے بڑے بڑے عہدوں سے سرفراز کرتے تھے بخشش سے نوازتے تھے اور لوگ اس کا احترام کرنے لگتے تھے.اور جو شخص رسول(ص) کا محب اور آپ کا دفاع کرنے والا ہوتا اس کی تذلیل کرتے مرتبہ سے گراتے بہتان لگاتے اس کی مذمت کے لئے احادیث گڑھواتے.

عمرا ابن خطاب اسی بنا پر بنی امیہ کی حکومت کے زمانہ سے مسلمانوں کے درمیان اسلام کی عظیم شخصیت بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ بات بات میں رسول(ص) کی مخالفت کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی حیات کے آخری لمحات میں آپ پر ہذیان کا بہتان لگا دیا. لیکن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کہ جو آپ کے لئے ایسے ہی تھے جیسے موسی کے لئے ہارون تھے. جو خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے تھے جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے تھے، جو ہر ایک مومن کے مولا تھے ان پر مسلمانوں کے منبروں سے اسی(80) سال تک لعنت کی جاتی رہی.اسی طرح عائشہ جو رسول(ص) کو خون کے گھونٹ پلاتی رہی.

۱۴۰