اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟13%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 291

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 291 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36886 / ڈاؤنلوڈ: 4875
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

اور اپنے پروردگار کے حکم کی مخالفت کی طرح رسول(ص) کے حکم کی مخالفت کرتی رہی. آپ کے جانشین سے جنگ کی انہی کی وجہ سے بڑے بڑے فتنوں نے سر اٹھایا کہ جن سے مسلمان بخوبی آگاہ ہیں جن میں ہزاروں (بے گناہ) مسلمانوں کا خون بہہ گیا وہ اسلام کی مشہورترین عورت ہوگئی. انہی سے احکام لئے جانے لگے. لیکن فاطمہ زہرا سیدہ نساء العالمین(ع) کہ جن کی ناراضگی سے خدا ناراض ہوتا ہے اور جن کی خوشنودی سے خدا راضی ہوتا ہے. وہ نسیا منسیا ہوگئیں. مخفیانہ طور پر رات میں دفن کی گئیں. جبکہ انہیں جلانے کی دھمکی دی گئی، بطن مبارک میں بچہ کو شہید کردیا گیا. اہلسنت میں سے ایک مسلمان بھی ان کی کسی ایک حدیث سے واقف نہیں ہے کہ جو انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کی ہے.

اسی طرح یزید ابن معاویہ اور زیاد انب ابیہہ، ابن مرجانہ، ابن مردان، اور حجاج اور ابن عاص وغیرہ جو قرآن اور نبی(ص) کی زبان میں فاسق و ملعون ہیں یہ سب امیرالمومنین اور مسلمانوں کے ذمہ دار بن گئے لیکن حسن(ع) و حسین(ع) سیدا شباب اہل الجنہ اس امت کے نبی(ص) کی اولاد، عترت رسول(ص) جو امت کے لئے باعث امان تھے انہیں قتل کیا گیا. قید میں ڈالا گیا، زہر دیا گیا.

اسی طرح ابو سفیان جیسے منافق کہ جو ہمیشہ رسول(ص) کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہا اس کی شان میں قصیدے پڑھے جانے لگے. اس کا شکر ادا کیا جانے لگا، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اس نے امان پائی، لیکن ابوطالب کہ جنہوں نے پوری عمر ہر طرح نبی(ص) کی حمایت و مدد کی اور حفاظت و پرورش کی، جو نبی(ص) کے مشن کی حمایت و مدد کی بنا پر اپنے خاندان والوں کی تک و تاژ کا نشانہ بنے رہے یہاں تک کہ نبی(ص) کے ساتھ تین سال تک شعب مکہ میں مقید رہے اور اسلام کی مصلحت کے پیش نظر

۱۴۱

اپنا ایمان چھپائے رہے تاکہ قریش سے کچھ رسم و راہ باقی رہے اور وہ مسلمانوں کو تکلیف نہ پہونچائیں. ابوطالب(ع) کی مثال مومن آل فرعون کی سی ہے کہ جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے. لیکن ان کی جزا جہنم کے شعلے بتائے کہ جہاں ان کے پاؤں جلا کر دماغ کو پگھلا دیا جائے گا. اسی طرح معاویہ ابن ابی سفیان طلیق ابن طلیق العین ابن اللعین، احکام خدا اور رسول(ص) کا مذاق اڑانے والا اسلام کی اہانت کرنے والا. اپنے مقصد کے حصور کے لئے نیکو کار لوگوں کو تہ تیغ کرتا ہے اور رسول(ص) پر کھلم کھلا لعنت کرتا ہے.(۱) اس شخص کو کاتب وحی کہا جانے لگا ( آج بھی اہل سنت کہتے ہیں) کہ خدا نے اپنی وحی کا امین جیرئیل، محمد(ص) اور معاویہ کو قرار دیا ہے. یہاں تک کہ سیاسی اور صاحب حکمت و تدبیر بن گیا. لیکن ابوذر غفاری کہ جن سے زیادہ سچے انسان پر نہ آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اٹھایا. وہ فتنہ پرور ہوگئے. انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے اور ربذہ جلا وطن کردیا جاتا ہے. سلمان و مقداد اور عماء و حذیفہ بلکہ ہر مخلص صحابی کہ جو حضرت علی علیہ السلام سے محبت رکھتے تھے انہیں قتل کیا گیا ڈرایا گیا خوفزدہ کیا گیا.اسی طرح خلفاء کے پیروکار معاویہ کے حامی اور ظالم حکومت

____________________

۱.اسی سلسلہ میں شاعر کہتا ہے:

عاندوا احمد(ص).. و عادوا علیا(ع) و تولوا منافقا و غویّاً

و اسرّوا سب النبی نفاقا حین سبّوا جهرا اخاه علیاً

انہوں نے" احمد(ص)" سے عناد اور علی(ع) سے عداوت کی اور منافق و گمراہوں سے محبت و دوستی کا رشتہ قائم کیا منافقانہ انداز سے نبی(ص) پر مخفی طور سے سب و شتم کیا جب کہ آپ(ص) کے بھائی علی(ع) پر کھلم کھلا لعنت کی.

۱۴۲

لیکن ایجاد کردہ مذاہب کے پجاری اہلسنت والجماعت بن گئے حالانکہ انہوں نے اسلام کو تباہ کیا اور جس نے ان کی مخالفت کی اس کو کافر کے لقب سے نوازا، خواہ ائمہ اہلبیت طاہرین(ع) کا اتباع کرنے والا ہو.

لیکن مکتب اہلبیت(ع) کا اتباع کرنے والے باب مدینہ العلم کے پیروکار جو سب سے پہلے اسلام لائے، جس کے ساتھ ساتھ حق رہتا تھا، اور شیعیان اہلبیت(ع) ائمہ معصومین(ع) کی اقتدا کرنے والے بدعتی اور گمراہ ہوگئے. اور ان کی مخالفت کرنے والے ان سے جنگ و جدال کرنے والے مسلمان ٹھہرے.وَ لَا حَوْلَ‏ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

ارشاد ہے:

( وَ إِذا قِيلَ‏ لَهُمْ‏ لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قالُوا إِنَّما نَحْنُ مُصْلِحُونَ* أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَ لكِنْ لا يَشْعُرُونَ* وَ إِذا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَما آمَنَ النَّاسُ قالُوا أَ نُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ وَ لكِنْ لا يَعْلَمُونَ ) بقرہ/ آیت/۱۳

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نہیں ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان اختیار کر لیں حالانکہ اصل میں یہی بیوقوف ہیں اور انہیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے.

اب ہم عائشہ سے رسول(ص) کی محبت کے موضوع کو چھیڑیں گے

۱۴۳

کیونکہ انھوں نے رسول(ص) سے آدھا دین حاصل کیا تھا اور آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ آدھا دین تم اس حمیرہ سے حاصل کرو. یہ حدیث باطل ہے اس کے صحیح ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے. اور نہ ہی عائشہ کی بیان کردہ روایت مضحکہ خیز احکام کے بارے میں صحیح ہے. رسول اللہ(ص) ایسی حدیث بیان نہیں کرتے تھے. اس سلسلہ میں رضاعت کبیر والا مسئلہ ہمارے لئے کافی ہے. کہ جس کو خود عائشہ نے رسول(ص) سے نقل کیا ہے اور اس کو مسلم نے اپنی صحیح اور مالک نے اپنی موطا میں نقل کیا ہے. اس سلسلہ میں ہو اپنی کتاب" لاکون مع الصادقین" میں سیر حاصل بحث کرچکے ہیں. تفصیل بحث کو شائقین اسی میں ملاحظہ فرمائیں.

اس روایت شنیعہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) کی تمام ازواج نے رضاعت کبیر پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے اور اس حدیث کا انکار کیا ہے یہاں تک کہ اس روایت کا راوی بھی ایک سال تک اس روایت کو لفظی طور پر بیان کرنے سے ڈرتا رہا.

اور جب ہم صحیح بخاری کے باب" یقصر من الصلاة اذا خرج من موضعه" کے باب میں دیکھتے ہیں تو وہ زہری سے اور زہری نے عروہ سے اور عروہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ:

سب سے پہلے جو دو رکعت نماز فرض کی گئی اور پڑھی گئی وہ نماز سفر ہے، حالانکہ وطن میں پوری نماز پڑھی جاتی ہے، زہری کہتے ہیں : میں نے عروہ سے کہا کہ عائشہ کو کیا ہوگیا تھا کہ وہ پوری نماز پڑھتی تھیں؟ انھوں نے کہا کہ عثمان کی طرح انہوں نے بھی تاویل کر لی تھی.

مسلم نے اپنی صحیح کے باب" صلاة المسافرین و قصرها " میں

۱۴۴

اور بخاری نے اس سے واضح عبارت میں زہری سے اور زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ:

سب سے پہلے جو دو رکعت نماز فرض کی گئی اور پڑھی گئی وہ نماز سفر ہے حالانکہ حضر میں نماز پوری ہے. زہری کہتے ہیں کہ میں نے عروہ سے کہا کہ عائشہ کو کیا ہوگیا کہ وہ سفر میں پوری نماز پڑھتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ عائشہ نے ایسے ہی تاویل کر لی جیسے عثمان نے کی تھی.

یہ تو واضح تناقض ہے کہ ایک مرتبہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نماز مسافر دو رکعت فرض کی گئی ہے لیکن خدا کے حکم اور رسول(ص) کے عمل کی مخالفت کرتی ہیں اور عثمان کی سنت کو زندہ رکھنے کے لئے احکام خدا ورسول(ص) میں رد و بدل کردیتی ہیں. ایسے ہی اور بہت سے احکام اہلسنت کی صحاح میں نظر آتے ہیں لیکن وہ انہیں سمجھ نہیں پاتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر ابوبکر وعمر کی تاویل اور عثمان و عائشہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کی تاویل پر عمل کرتے ہیں.

پس جب حمیرا نے رسول(ص) نے نصف دین حاصل کیا اور جیسے چاہا احکام خدا میں تاویل کر لی تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول(ص) ان سے قطعی راضی نہ ہونگے اور لوگوں کو ان کی اقتدا کا حکم نہ دیا ہوگا. صحیح بخاری اور اہلسنت کی دیگر صحاح میں ایسا اشارہ ملتا ہے کہ عائشہ کی اتباع میں خدا کی معصیت ہے.

لیک جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) عائشہ سے اس لئے الفت رکھتے تھے کہ عائشہ سے نکاح کرنے سے قبل جبرئیل ان (عائشہ) کی صورت میں آنحضرت(ص) کے پاس آئے اور نکاح کے بعد اسی وقت نازل ہوتے تھے جب رسول(ص) عائشہ کے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے. یہ ایسی روایات ہیں جنہیں سن کر

۱۴۵

دیوانوں کو بھی ہنسی آجائے. میں نہیں جانتا کہ جس صورت میں جبرئیل نازل ہوتے تھے وہ فوٹو گرافی والی صورت تھی یا لکڑی کا مجسمہ تھا. اس لئے کہ اہلسنت اپنی صحاح میں روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر نے عائشہ کو خرموں کا طبق دے کر آنحضرت(ص) کی خدمت میں بھیجا تا کہ نبی(ص) انہیں دیکھ لیں کیونکہ ابوبکر نے رسول(ص) سے یہ خواہش کی تھی کہ آپ میری بیٹی سے نکاح کر لیجئے، کیا وہاں کوئی ایسا داعی تھا کہ جس کی بنا پر جبرئیل عائشہ کی صورت میں نازل ہوتے جبکہ عائشہ آپ(ص) کے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر ہی رہتی تھیں. میرا عقیدہ ہے کہ ماریہ قبطیہ کی صورت میں جبرئیل کو نازل ہونا چاہئیے تھا. کیونکہ وہ رسول(ص) سے دور مصر میں رہتی تھیں اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ آجائیں گی، وہ اس بات کی زیادہ مستحق تھیں کہ جبرئیل ان کی صورت میں رسول(ص) کے پاس آئیں اور ان سے پیدا ہونے والے ابراہیم کی بشارت دیں.

لیکن یہ روایات سب تو عائشہ کی گڑھی ہوئی ہیں کہ جن کے پاس اپنی سوتنوں پر فخر کرنے کے لئے کوئی چیز نہ تھی مگر یہی خیالی واقعات اور داستان، یا یہ روایات بنی امیہ نے عائشہ سے گڑھوائیں تا کہ ان کے ذریعہ سادہ لوح لوگوں میں عائشہ کی فضیلت کا بول بالا کیا جائے.

اور یہ بات کہ جبرئیل محمد(ص) کے پاس اسی وقت تشریف لاتے تھے جب آپ(ص) عائشہ کے گھر میں آرام فرما ہوتے تھے تو یہ پہلی بات سے بھی قبیح اور نفرت آور ہے. اور یہ بات قرآن کریم سے آشکار ہے کہ جب انہوں (عائشہ) نے رسول(ص) کے خلاف منصوبہ بنایا تو خدا نے انہیں تہدید کی اور اسی طرح انہیں جبرئیل اور صالح مومنین اور ملائکہ کے ذریعہ ڈرایا.

پس ہمارے علماء اور بزرگوں کے اقوال خیالی اپج ہیں اور ظن حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہونچاتا ہے.

۱۴۶

ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو ہمیں بھی بتاؤ تم تو صرف خیالات کا اتباع کرتے ہو اور اندازوں کی باتیں کرتے ہو.

عائشہ نبی(ص) کے بعد

جب ہم نبی(ص) کی وفات کے بعد ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں، جب ان کے لئے کھلی فضا تھی اور جب ان کے والد ابوبکر امت اسلام کے خلیفہ اور رئیس بن گئے تھے اور عائشہ کو اسلامی حکومت میں بے پناہ عظمت ملی تھی کیونکہ رسول(ص) ان کے شوہر اور والد رسول(ص) کے خلیفہ تھے.

یا جیسا کہ خود ان کا گمان ہے یا جیسا کہ انہیں یہ توہّم ہوگیا تھا کہ وہ ازواج نبی(ص) میں سب سے افضل ہیں اور یہ افضلیت کسی خاص چیز کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اس بات کی بنا پر کہ رسول(ص) نے ان سے حالت بکر میں نکاح کیا تھا. ( معاذ اللہ) ان کے علاوہ رسول(ص) کو اور کوئی عورت باکرہ نہیں ملی تھی اور جب رسول(ص) نے داغِ جدائی دیا تو اس وقت یہ پورے شباب پر تھیں. رسول(ص) کی وفات کے وقت عائشہ کی عمر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سال تھی اس طرح وہ آنحضرت(ص) کے ساتھ چھ یا آٹھ سال رہیں، ابتدائی چند سال تو بیچگانہ کھیل کود میں گذرے حالانکہ اس وقت وہ رسول(ص) کی زوجیت میں، اور جیسا کہ رسول(ص) کی کنیز بریرہ نے عائشہ کے بارے میں کہا" یہ کمسن تھیں اور آٹا گوندھتے گوندھتے سوجایا کرتی تھیں. کتا آتا تھا اور آٹا کھاجاتا تھا."

ہاں اٹھارہ سال میں لڑکی جو ان بالغ ہوجاتی ہے جیسا کہ آجکل

۱۴۷

کہا جاتا ہے. اور انہوں نے اپنی نصف عمر رسول(ص) اور اپنی دسیوں سوتنوں کے ساتھ گذاری اور بھی عورتیں تھیں جن کا تذکرہ ہم حیات عائشہ کے ذیل میں نہیں کرسکتے ہیں ان پر وہ اپنی سوتن سے بھی زیادہ غضبناک رہتی تھیں، کیونکہ رسول(ص) ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور ہیں جناب فاطمہ(ع) زہرا بنت رسول(ص) جن کی مادر گرامی خدیجہ ہیں. آپ جانتے ہیں خدیجہ کون ہیں؟ وہ صدیقہ کبری ہیں کہ جن پر جبرئیل نے سلام بھیجا اور انہیں یہ بشارت دی کہ جنت میں تمہارا ایسا مکان ہے جہاں کوئی شور و غل نہیں ہے.(۱)

رسول(ص) خدیجہ کے سلسلہ میں کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.

اور جب آپ خدیجہ کا ذکر فرماتے تو رشک و حسد سے عائشہ کا جگر پاش پاش ہوجاتا. اور دل جلنے لگتا، آپے سے باہر ہوجاتی اور خدیجہ کی شان میں دل کھول کرگستاخی کرتیں اور اپنے شوہر کے جذبات کی کوئی پروا نہ کرتی. خدیجہ کے بارے میں آپ نے عائشہ ہی سے بخاری، احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ:

عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے رسول(ص) کی کسی زوجہ پر اتنا رشک و حسد ہیں ہوا جتنا خدیجہ پر ہوا ہے.(۲)

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۲۳۱ صحیح مسلم باب فضائل ام المومنین خدیجہ جلد/۷ ص۱۳۲

۱۴۸

کیونکہ رسول(ص) اکثر ان کا تذکرہ اور تعریف کیا کرتے تھے. میں نے کہا کیا آپ قریش کی بڑھیا کا تذکرہ کیا کرتے ہیں جس کے گالوں میں جھریاں پڑگئی تھیں... مرگئی، خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کی ہے. عائشہ کہتی ہیں کہ میری اس بات سے رسول(ص) کے چہرہ کا رنگ ایسا متغیر ہوگیا کہ اس قبل میں نے کبھی آپ کی یہ حالت نہیں دیکھی تھی، ہاں جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے چہرہ پر ایسے اثرات نمودار ہوتے تھے، اور آپ نے فرمایا: خدا نے مجھے اس سے بہتر عطا نہیں کی ہے. وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کافر تھے. اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تھا. اس نے اپنا مال اس وقت میرے سپرد کیا جب لوگوں نے مجھے محروم کر رکھا تھا. خدا نے اس کے بطن سے مجھے اس وقت اولاد نرینہ عطا کی جب میری کسی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول(ص) کی اس تردید سے اس شخص کا دعوی باطل ہو جاتا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ عائشہ ازواج نبی(ص) میں افضل اور نبی(ص) کی چہیتی زوجہ تھیں اور یہ تاکید بھی ہوتی ہے کہ جدیجہ کی طرف سے عائشہ کے رشک و حسد میں اس وقت اور زیادہ شدت آگئی تھی جب رسول(ص) نے سرزنش کرتے ہوئے پھٹکارا اور عائشہ کو خبردار کیا کہ خدا نے مجھے خدیجہ سے اچھی زوجہ نہیں دی ہے. ایک جگہ رسول(ص) ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ہوس پرست نہیں ہیں اور خوبصورتی و بکارت کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں، کیونکہ آنحضرت(ص) سے قبل خدیجہ دو شادیاں کرچکیں تھیں اور آپ(ص) سے پچیس(۲۵) سال بڑی تھیں. اس کے باوجود رسول(ص) انہیں دوست رکھتے ہیں. اور ان کا ذکر کرتے ہیں تھکتے ہیں. میری جان کی قسم نبی(ص) کا یہ اخلاق تھا کہ وہ خدا کے لئے دوست رکھتے تھے اور خدا کے لئے بغض رکھتے تھے. اور پھر حقیقی روایات اور اس گڑھی ہوئی روایت میں واضح فرق ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص)

۱۴۹

عائشہ سے زیادہ لگاؤ رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ کی دیگر ازواج نے ایک مرتبہ ایک عورت کو آپ کی خدمت میں بھیجا اور کہلوایا کہ بنت قحافہ کے بارے میں عدل سے کام لیں.

کیا ہم ام المومنین عائشہ سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی سیدہ خدیجہ کو نہیں دیکھا اور نہ ان سے ملاقات کی تو آپ انہیں عجوزہ حمراء الشدقین کیسے کہتی ہیں؟ کیا ایک عام مومنہ کا یہی اخلاق ہوتا ہے کہ جس پر غیر کی غیبت کرنا حرام ہے. جبکہ وہ زندہ ہو تو اس میت کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہونے چاہئیے جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پہونچ گئی ہے. اس زوجہ رسول(ص) کی غیبت میں تمہارا کیا کردار ہونا چائیے جس کے گھر میں جبرئیل نازل ہوتے تھے اور جسے جبرئیل نے جنت میں ایسے قصر کی بشارت دی تھی کہ جس میں کوئی شور و ہنگامہ نہیں ہے.(۱)

اور تاکید کے ساتھ یہ عرض ہے کہ جو بغض و حسد عائشہ کے دل میں خدیجہ کی طرف سے موجیں مار رہا تھا اسے نکالنا چاہئیے تھا ورنہ دل پھٹ جاتا عائشہ کو فاطمہ(ع) بنت خدیجہ کے علاوہ اور کوئی نہ ملا وہ یا انہیں کی ہم عمر تھیں راویوں کے اختلاف کی رو سے کچھ بڑی تھیں.

اور یہ بات بھی تاکیدا عرض ہے کہ رسول(ص) کو خدیجہ سے گہری محبت تھی وہی ان کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا(ع) سے بھی تھی فقط فاطمہ(ع) ہی اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہیں.

عائشہ کے حسد میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا تھا جب وہ (رسول(ص))

____________________

صحیح بخاری جلد/۴ ص۲۳۱، صحیح مسلم. باب فضل خدیجہ ام المؤمنین

۱۵۰

فاطمہ(ع) کی تعظیم کرتے اور ان کو سیدہ نساء اہل الجنة کہتے سنتی تھیں.(۱) پھر خدا نے ان کے بطن سے حسن(ع) و حسین(ع) سیدا شباب اہل الجنة مرحمت کئے. پھر عائشہ دیکھتی تھیں کہ رسول(ص) فاطمہ(ع) کے گھر تشریف لے جاتے اور وہاں نواسوں کی تربیت میں راتوں کو جاگتے گذارتے دیکھتی تھیں اور رسول(ص) فرماتے: میرے دونوں بیٹے اس امت کے پھول ہیں اور ان دونوں کو دوش مبارک پر سوار کرتے تو عائشہ کے حسد میں اس سے اور اضافہ ہو جاتا کیونکہ وہ بانجھ تھیں، اور اس حسد میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا جب ابوالحسنین(ع) فاطمہ(ع) کے شوہر بھی شامل ہو جاتے اس حسد کا کوئی خاص سبب نہیں تھا صرف رسول(ص) ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے، یا عائشہ کے والد پر رسول(ص) علی(ع) کو ہر موڑ پر مقدم رکھتے تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عائشہ ان باتوں کو دیکھتی تھیں. وہ یہ بھی دیکھتی تھیں کہ ابن ابی طالب(ع) ہر موڑ پر ان کے والد سے بازی لے جاتے ہیں عائشہ ہمیشہ اپنے والد کو رسول(ص) کی محبت کا مرکز بنانا چاہتی تھیں اور انہیں سب پر فوقیت دلانا چاہتی تھیں وہ جانتی تھیں کہ میرے باپ جنگ خیبر سے اپنے لشکر کو لے کر ناکام واپس لوٹے ہیں اور رسول(ص) نے رنجیدہ ہو کر فرمایا ہے کہ کل میں اس شخص کو علم دونگا جو اللہ اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں جو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ے فراری نہیں ہے. اور وہ فاطمہ(ع) کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) کی ذات ہے. پھر علی(ع) خیبر فتح کر کے اور صفیہ بنت حیی کو لے کر واپس آتے ہیں اور رسول(ص) صفیہ سے نکاح کر لیتے ہیں جس سے عائشہ کے دل کو سخت صدمہ پہونچتا ہے. آپ جانتے ہیں رسول(ص) نے عائشہ کے والد ابوبکر کو سورہ برائت دیا تھا اور حاجیوں میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا لیکن بعد میں علی(ع) ابن ابی طالب کو بھیجا اور آپ نے

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۴ ص۲۰۹ و جلد/ ۷ ص۱۴۳

۱۵۱

ابوبکر سے سورہ برائت لے لیا ان کے والد روتے ہوئے واپس آئے اور رسول(ص) سے اس کا سبب دریافت کیا تو رسول(ص) نے انہیں جواب دیا کہ: خدا نے مجھے حکم دیا ہے میرے پیغام کو تم یا تمہارے اہلبیت(ع) ہی میں سے کوئی پہونچا سکتا ہے.آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ رسول(ص) نے اپنے ابن عم علی(ع) کو اپنے بعد مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا. اور صحابہ و ازواج حضرت علی(ع) کی خدمت میں مبارکبادی کے لئے پس سب سے پہلے ان کے والد ہی یہ کہتے ہوئے پہونچے"بخ‏ بخ‏ لك‏ يا ابن ابی طالب، أصبحت و امسیت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة" ( اے ابن ابی طالب مبارک ہو آپ ہر مومن و مومنہ کے مولی ہوگئے.)آپ کو معلوم ہے کہ رسول(ص) نے ابوبکر کو ایک سترہ(۱۷) سالہ جوان کی قیادت میں سفر کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا. جس کے داڑھی بھی نہیں آئی تھی.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عائشہ ان حالات سے بہت متاثر تھیں، اس لئے کہ ان کے دل میں باپ کا ڈر تھا اور باپ کے لئے خلافت کی امنگ تھی. اور قریش کےرؤساء کے درمیان ہونے والی سازش میں شریک تھیں اسی وجہ سے فاطمہ(ع) اور علی(ع) کی طرف سے بغض میں اضافہ ہوگیا تھا. اور پوری کوشش اس بات پر صرف کر رہی تھیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو ایسی راہ ہموار کی جائے حو ان کے باپ کے حق میں مفید ہو اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے رسول(ص) کی جانب سے اپنے باپ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز جماعت پڑھا دیں، جب ان کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ رسول(ص) نے اس ذمہ­داری کو سنبھالنے کو لئے پیغام بھیجا ہے، اور جب رسول(ص) اسلام کو اس سازش کی خبر ملی تو آپ(ص) نکلنے کے لئے بے چین ہوگئے اور آپ نے ابوبکر کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا. اور خود لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی اور عائشہ سے غصہ کے عالم میں کہا کہ یوسف کےساتھ بھی تمہاری جیسی عورتیں تھیں( اس سے یہ مراد ہے کہ اس کی سازشیں غلط تھیں)

۱۵۲

اس مسئلہ میں جس کو عائشہ نے مختلف انداز سے روایت کیا ہے اگر کوئی غور و فکر کرے تو اس میں واضح تضاد نظر آئے گا. اس لئے کہ رسول اللہ(ص) نے اس واقعہ سے تین سال پہلے ان کے باپ کو لشکر میں شامل ہونے کو کہا تھا. اور حکم دیا تھا کہ اسامہ بن زید کی قیادت میں وہ چلے جائیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ لشکر کا سردار امام جماعت ہوتا ہے. تو ابن زید اس لشکر میں ابوبکر کے امام تھے. جب عائشہ نے اپنے باپ کی توہیں کا احساس کیا اور اس میں رسول(ص) کے مقصد کو سمجھ لیا اور یہ جان لیا کہ رسول(ص) نے اس لشکر میں علی(ع) کو نہیں بھیجا کہ جس میں انصار و مہاجر میں قریش کے رؤسا شامل ہیں اور اکثر اصحاب کی طرح یہ بھی جان لیا کہ رسول(ص) چند دن کے مہمان ہیں اور شاید وہ عمر کی اس رائے سے موافق تھیں کہ جو اس نے کہا تھا کہ( معاذ اللہ) رسول(ص) کو ہذیان ہوگیا ہے. اور وہ نہیں جانتے کہ کیا کررہے ہیں اور ان کی قاتل غیرت سے انہیں اس بات پر اکسایا کہ وہ علی(ع) کے مقابلے میں اپنے باپ کی قدر و منزلت کو بڑھانے کے لئے جو بن پڑے وہ کر گزرے. اور اسی کام کے لئے انہوں نے اس بات کا انکار کیا کہ رسول(ص) اسلام نے علی(ع) کے لئے وصیت فرمائی ہے اور اسی لئے انہوں نے یہ کوشش کی کہ ضعیف العقل انسانوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ رسول(ص) کو انہیں کے حجرے میں موت آئی ہے. لہذا ایک حدیث گڑھ لی کہ رسول اللہ(ص) نے مرض کے عالم میں عائشہ سے فرمایا کہ: اپنے بھائی اور باپ کو بلاؤ میں ان کے لئے ایک کتبہ لکھ دوں. ممکن ہے کہ عنقریب کوئی دعویدار پیدا ہوجائے اور اللہ اور رسول اللہ(ص) اور مومنوں نے سوائے ابوبکر کے سب کو منع کیا ہے. کیا کوئی ہے کہ جو عائشہ سے پوچھے: کہ کس چیز نے ان لوگوں کو بلانے سے روکا؟

۱۵۳

علی(ع) کے خلاف عائشہ کا موقف

حضرت علی علیہ السلام کے خلاف عائشہ کے موقف میں ایک محقق کو عجیب و غریب بات ملے گی جس کے معنی صرف اہلبیت(ع) نبی(ص) سے عداوت و دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتے. تاریخ نے حضرت علی(ع) ایسے بے نظیر انسان سے عائشہ کے بغض و نفرت کو محفوظ کیا ہے. ان کا بغض و حسد اس حد تک پہونچ گیا تھا کہ وہ آپ کے نام لینے کو بھی برداشت نہیں کرتی تھیں.(۱) اور ایک آنکھ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں. جب عائشہ نے قتل عثمان کے بعد سنا کہ لوگوں نے حضرت علی(ع) کو ہاتھ پر بیعت کرلی ہے تو کہتی ہیں مجھے آسمان کا زمین پر گر پڑنا گوارا تھا لیکن علی(ع) کا خلیفہ بننا گوارا نہیں ہے. ان کو خلافت سے الگ کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کی اور آپ سے جنگ کے لئے بڑا لشکر جمع کر لیا. اور جب حضرت علی(ع) کو شہادت کی خبر سنی تو سجدہ شکر ادا کیا.کیا آپ کو میرے ساتھ ساتھ اہلسنت والجماعت پر تعجب نہیں ہوتا کہ جو اپنی صحاح میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا:اے علی آپ سے وہی محبت رکھے گا جو مومن ہوگا اور وہی دشمنی رکھے گا جو منافق ہوگا.(۲)

اور کبھی صحاح و مسانید اور تواریخ میں تحریر کرتے ہیں کہ عائشہ

____________________

۱.صحیح بخاری جلد/۱ص۱۶۳، و جلد/۳ ص۱۵۳ و جلد/۵ ص۱۴۰

۲.صحیح مسلم ج/۱ ص۶۱، صحیح ترمذی جلد/۵ ص۳۰۶، سنن نسائی جلد/۸ ص۱۱۶

۱۵۴

امام علی(ع) سے بغض رکھتی تھیں وہ آپ کے نام کو بھی سننا پسند نہیں کرتی تھیں کیا یہ بات عورت کی ماہیت پر ان لوگوں کی طرف سے گواہی نہیں ہے؟

اسی طرح بخاری اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا:

فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس خدا کو غضبناک کیا.(۱)

پھر یہی بخاری روایت کرتے ہیں کہ فاطمہ(ع) دنیا سے کوچ کرگئیں حالانکہ وہ ابوبکر سے ناراض تھیں اور مرتے دم تک ان سے کلام نہیں کیا.(۲) کیا ان کی تمام عقلا سمجھتے ہیں اسی لئے تو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ حق اس وقت آشکار ہوتا ہے جب باطل پرست اسے چھپانا چاہتے ہیں. امویوں کے انصار و مددگاروں نے جھوٹی حدیثیں گڑھی ہیں.بے شک قرآن کے روز نزول سے قیامت تک لوگوں پر خدا کی حجت قائم رہے گی والحمد للہ رب العالمین.امام احمد ابن حنبل نے بیان کیا ہے کہ ابوبکر ایک مرتبہ رسول(ص) کے پاس آئے اور باریاب ہونے کی اجازت طلب کی لیکن داخل ہونے سے قبل عائشہ کے چیخنے کی آواز سنی کہ جو نبی(ص) سے کہہ ہی تھیں خدا کی قسم میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ علی(ع) کو مجھ سے اور میرے والد سے زیادہ چاہتے ہیں. یہی کلمات عائشہ نے

____________________

۱.بخاری جلد/۴ ص۲۱۰

۲.صحیح بخاری جلد/۵ ص۸۲ وجلد/۸ ص۳

۱۵۵

تین مرتبہ دہرائے.(۱)

حضرت علی(ع) سے عائشہ کو اس قدر بغض تھا کہ علی(ع) کو نبی(ص) کے پاس ایک منٹ بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں اور نبی(ص) سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکیں.

ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

ایک روز رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو ( اپنے) قریب بلایا آپ(ع) تشریف لائے اور آپ(ع) عائشہ کے درمیان بیٹھ گئے تو عائشہ نے کہا(علی(ع)) تمہیں میرے پہلو ہی میں بیٹھنے کی جگہ ملی ہے.

یہی معتزلی روایت کرتے ہیں کہ: ایک روز رسول(ص) اور حضرت علی(ع) باہم گفتگو کرتے ہوئے چلے جارہے تھے باتوں کا سلسلہ طویل ہوگیا تو عائشہ آئیں جب کہ وہ پیچھے پیچھے آرہی تھیں اور آپ دونوں کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگیں: تم دونوں بہت دیر بات کر چکے. عائشہ کی اس حرکت پر رسول(ص) کو بہت غصہ آیا.(۲)

ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ عائشہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں دیکھا کہ آپ حضرت علی(ع) سے رازدارانہ گفتگو فرمارہے ہیں. یہ کیفیت دیکھ کر عائشہ چیخ پڑیں اور کہا اے ابن ابی طالب(ع) آخر تم میرے درپے کیوں ہو؟

____________________

۱.مسند احمد ابن حنبل جلد/۴ ص۲۴۵

۲.شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد/۹ ص۱۹۵

۱۵۶

مجھے رسول(ص) کے ساتھ رہنے کا ایک وقت ملتا ہے... عائشہ کی یہ بات سن کر رسول(ص) غضبناک ہوئے.

عائشہ نے اپنے حسد اور سخت مزاجی و نوک زبان کی بنا پر رسول(ص) کو کتنی ہی مرتبہ غضبناک کیا.

کیا رسول(ص) اس مومن یا مومنہ سے خوش ہوں گے جس کا دل آپ کے ابن عم، آپ کی عترت کے سردار کی دشمنی سے لبریز ہو کہ جس کے بارے میں آپ فرماچکے ہیں کہ وہ خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں.(۱) جس کے بارے میں یہ فرماچکے ہوں کہ جو علی(ع) کو دوست رکھتا ہے وہ مجھے دوست رکھتا ہے(۱) اور جس نے علی(ع) کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدا کو غضبناک کیا.(۲)

اپنے گھروں میں رہو....

خداوند عالم نبی(ص) کو ازواج کو ان کے گھروں میں رہنے کا حکم دیتا ہے. اجنبی لوگوں کی نمائش کے لئے گھروں سے نکلنے کو منع کرتا ہے انہیں قرآن پڑھنے، نماز قائم کرنے، زکواۃ کی ادائیگی اور خدا ورسول(ص) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے.نبی(ص) کی ازواج نے اس پر عمل کیا. تمام ازواج نے خدا و رسول(ص) کے حکم کی اطاعت کی، رسول(ص) نے اپنی وفات سے قبل اپنی ازواج کو اس طرح ڈرایا

____________________

۱.بخاری و مسلم، فضائل علی(ع) ابن ابی طالب جلد/۷ ص۱۳۰

۲-مستدرک حاکم جلد/۳ ص۱۳۰ حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر اسے صحیح تسلیم کیا ہے.

۱۵۷

کہ تم میں سے ایک اونٹ پر سوار ہوگی اور اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے. عائشہ کے علاوہ اس پر سب نے عمل کیا. لیکن عائشہ نے ہر ایک کی مخالفت کی اور انھوں نے تمام تحذیرات کا ٹھٹھا کیا. مورخین نے تحریر کیا ہے. حفصہ بنت عمر بھی عائشہ کے ساتھ خروج کرنا چاہتی تھیں. لیکن ان کے بھائی عبداللہ نے انھیں روکا اور آیت سنائی تو انھوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور نہیں گئیں. لیکن عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر چلیں اور ان پر جواب کے کتے بھونکے.

طہ حسین اپنی کتاب الفتنہ الکبری میں تحریر فرماتے ہیں کہ عائشہ ایک چشمہ کی طرف سے گذریں تو وہاں کے کتے ان پر بھونکنے لگے تو عائشہ نے اس جگہ کے بارے میں معلوم کیا ان سے بتایا گیا کہ اسے حواب کہتے ہیں یہ سن کر عائشہ بہت گھبرائیں اور کہا مجھے واپس لے چلو، میں نے رسول(ص) سے یہ فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے کسی پر حواب کے کتے بھونکیں گے. یہ حالت دیکھ کر عبداللہ ابن زبیر آئے اور انہیں اس ارادہ سے باز رکھا اور بنی عامر کے چالیس افراد سے یہ جھوٹی گواہی دلوائی کہ یہ حواب نہیں ہے.

میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ عائشہ کی ( بے جا فضیلت والی) حدیثیں بنی امیہ کے زمانہ اس لئے وضع کی گئیں ہیں تاکہ ان کی معصیتوں کو بلکا کیا جاسکے ان کا گمان ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے عائشہ کو اس طرح فریب دیا کہ چالیس آدمیوں ان کے سامنے خدا کی قسم کھلوا کر کہلوا دیا کہ یہ حواب نہیں ہے. لہذا عائشہ معذور ہیں. وہ ناقص العقل اور لاغر ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کم عقل لوگوں کو اس قسم کی روایات کے بارے میں نرم کر لیں اور انہیں یہ بات باور کرادیں کہ جب عائشہ حواب کے پاس سے گذریں اور انہوں نے کتوں کی آواز سنی تو اس جگہ کے بارے میں معلوم کیا اور بتایا گیا کہ یہ حواب ہے تو وہ بہت گھبرائیں اور کہا

۱۵۸

مجھے واپس لے چلو. جن احمق لوگوں نے معصیت خدا کے سلسلہ میں عائشہ کے عذر کے لئے یہ روایت تراشی اور وہ حکم خدا یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ عائشہ نے جو حکم رسول(ص) کی مخالفت کی ہے اس کے لئے عذر تراش لیں حکم رسول(ص) یہ تھا کہ گھروں میں رہنا واجب ہے اور اونٹ پر سوار ہونا یہ قضیہ دریائے حواب پر پہونچنے سے پہلے اور کتوں کے بھونکنے سے پہلے کا ہے.

کیا اہل سنت کو ام المومنین عائشہ کے لئے کوئی عذر مل سکتا ہے کہ انہوں نے ام المومنین ام سلمہ کی نصیحت پر عمل نہیں کیا تھا جس کو مورخین نے اس طرح نقل کیا ہے:

جب ام سلمہ نے عائشہ سے کہا کہ میں تمہیں اس دن کا واقعہ یاد دلاتی ہوں جب رسول(ص) آگے آگے چلے جارہے تھے اور ہم بھی ان کے ہمراہ تھے کہ ایک مرتبہ رسول(ص) ٹاٹ کے ٹکڑے پر بیٹھ گئے اور حضرت علی(ع) سے تنہائی میں گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کا سلسلہ طویل ہوگیا تو تم نے ان پر ہجوم کرنا چاہا تو میں نے تمہیں اس سے روکا لیکن تم اس سے باز نہ آئیں اور ان کے پاس پہونچ گئیں تو تھوڑی دیر بعد روتی ہوئی واپس آئیں تو میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ تم نے کہا جب میں ان کے پاس پہونچی تو وہ رازدارانہ باتیں کر رہے تھے، میں نے علی(ع) سے کہا مجھے ہفتے میں رسول(ص) کے ساتھ رہنے کے لئے ایک دن ملتا ہے اور آج میری باری ہے، اے ابن ابی طالب رسول(ص) کو چھوڑ دو. پس رسول(ص) میری طرف بڑھے حالانکہ غیظ سے آپ کا چہرہ سرخ تھا. کہا پچھلے پاؤں چلی جاؤ. خدا کی قسم جو بھی انہیں غضبناک کرتا ہے وہ

۱۵۹

دائرہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے. میں شرمندہ ہو کر لوٹ آئی پھر عائشہ کہتی ہیں ہاں مجھے یاد ہے.

ام سلمہ کہتی ہیں آج میں تمہیں وہ واقعہ یاد دلاتی ہوں جب میں اور تم رسول(ص) کی خدمت میں تھیں تو رسول(ص) نے فرمایا تھا. تم میں سے کوئی اونٹ پر سوار ہوگی جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے. وہ صراط مستقیم سے منحرف ہوگی. ہم نے کہا اس سے ہم خدا و رسول(ص) کی پناہ چاہتے ہیں. تو رسول(ص) نے تمہاری پشت پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے حمیرا کہیں وہ عورت تم ہی نہ ہو.

عائشہ نے کہا: ہاں مجھے یاد ہے پھر ام سلمہ نے کہا تمہیں کیا وہ واقعہ بھی یاد ہے؟

جب تمہارے والد ابوبکر اور عمر آئے اور ہم دونوں پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی تھیں اور وہ جس ارادہ سے آئے تھے وہ بات شروع کی یہاں تک کہ ان دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ(ص) ہم نہیں جانتے کہ کب تک آپ کے شرف سے فیض یاب ہیں اگر آپ ہمیں یہ بتاتے جائیں کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہوگا تو ہمارے لئے آسانی ہوجاتی تو آپ(ص) نے ان دونوں سے فرمایا:

"مجھے معلوم ہے اس کا حقدار کون ہے لیکن اگر میں تمہیں بتادوں تو تم ضرور اس سے اسی طرح جدا ہوجاؤ گے جس طرح بنی اسرائیل نے ہارون سے جدائی اختیار کر لی تھی"

وہ دونوں خاموش رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے. ان کے جانے کے بعد ہم رسول(ص) کی خدمت میں پہونچے اور میں نے

۱۶۰

عرض کی آپ کا ہم پر ایک سو ایک حق ہے، یا رسول اللہ(ص) آپ کی امت کا خلیفہ کون ہوگا؟ آپ(ص) نے فرمایا: جو جوتی ٹانک رہا ہے ہم آپ(ص) کے پاس آئے تو دیکھا علی(ع) ہیں تو تم نے کہا: یا رسول اللہ(ص) ہم نے صرف علی(ع) کو دیکھا ہے آپ(ص) نے فرمایا وہی ہیں"

عائشہ کہتی ہیں: ہاں مجھے یاد ہے، اب ام سلمہ نے ان سے کہا: اے عائشہ ان تمام باتوں کے باوجود تمہیں کون سی چیز خروج پر مجبور کر رہی ہے؟ عائشہ نے کہا: میں لوگوں کی اصلاح کے لئے نکل رہی ہوں.(1)

پس ام سلمہ نے انہیں سخت انداز میں خروج سے منع کیا اور ان سے کہا:

اسلام کا ستون قائم ہے اسے عورتیں صدمہ نہیں پہونچا سکتیں اور اگر اس میں رخنہ پیدا ہو جائے تو عورتیں اسے صحیح نہیں کرسکتیں ایسے معاملات میں عورت کی انتہائی کوشش چشم پوشی اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت ہونا چاہئے اسی طرح عائشہ نے بہت سے مخلص صحابہ کی بھی نصیحتیں نہیں سنیں. طبری نے اپنی تاریخ میں جاریہ ابن قدامہ سعدی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ سے کہا:

اے ام المومنین، قسم خدا کی قتل عثمان ابن عفان آپ کے گھر سے نکلنے اور اونٹ پر سوار ہونے سے زیادہ سنگین نہیں ہے، اس لئے کہ خدا نے آپ پر پردہ واجب کیا ہے اور

____________________

1.شرح ابن ابی الحدید، جلد/2 ص77

۱۶۱

عزت بخشی ہے لیکن آپ نے پردہ کو پس پشت ڈال دیا ہے اورعزت کو خاک میں ملادیا، جو تمہاری جنگ و قتال دیکھ رہا ہے وہ تمہارا قتل ہونا بھی دیکھے گا اگر آپ اپنی رضا سے آئی ہیں تو واپس لوٹ جائیں. اور اگر جبرا لائی گئی ہیں تو لوگوں سے مدد طلب کیجئے.(1)

کمانڈر ام المومنین

مورخین نے لکھا ہے کہ کل اور کی باگ ڈور عائشہ کے ہاتھ میں تھی جس کو چاہتی تھیں منصب و عہدہ عطا کرتی تھیں منصب الگ کردیتی تھیں، انہیں کے حکم سے سب کچھ ہوتا تھا. یہاں تک کہ ایک مرتبہ طلحہ و زبیر کے درمیان نماز کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا ہر ایک چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھائے عائشہ نے اس میں مداخلت کی اور دونوں کو معزول کر دیا. اور اپنے بھانجے عبداللہ ابن زبیر کو امامت دے دی. یہی اپنے خطوط دے کر دوسرے شہروں میں پیغامبر بھیجتیں اور حضرت علی(ع) کے خلاف ان سے مدد طلب کرتی تھیں اور ان میں جاہلیت کی حمیت کو ابھارتی تھیں.

یہاں تک کہ عرب کے اہل طمع اور اوباش بیس(20) ہزار سے زیادہ کی تعداد میں حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے اور آپ کو خلافت سے الگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے. عائشہ نے وہ فتنہ پیدا کیا کہ جس میں ام المومنین کی مدد و دفاع کے نام پر

____________________

1.تاریخ طبری جلد/6 ص482

۱۶۲

بے شمار لوگ قتل کئے گئے، مورخین کا کہنا ہے کہ جب عائشہ کے ہوا خواہوں نے والی بصرہ عثمان ابن حنیف پر چڑھائی کی اور ان کے ساتھ چالیس بیت المال کے محافظوں کو گرفتار کر لیا تو ان کو عائشہ کے سامنے پیش کیا گیا. عائشہ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا. پس لوگوں نے انہیں بکریوں کی طرح ذبح کر دیا. کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد ایک سو چالیس تھی. کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے مسلمان تھے جنہیں صبر کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا.(1)

شعبی نے مسلم ابن ابی بکر سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

جب طلحہ و زبیر بصرہ آئے تو میں نے اپنی تلوار حمائل کر لی اور ان دونوں کی مدد کرنا چاہتا تھا پس جب میں عائشہ کے پاس پہونچا تو دیکھا کہ وہ حکم چلا رہی ہیں اور کچھ باتوں سے روک رہی ہیں. یہاں مجھے رسول(ص) کی ایک حدیث یاد آگئی جو خود میں نے آنحضرت سے سنی تھی آپ فرما رہے تھے کہ:

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتو میں ہوتی ہے.

پس میں واپس آگیا.

اسی طرح بخاری نے مسلم ابن ابی بکر سے روایت کی ہے ان کا قول ہے:

____________________

1.تاریخ طبری جلد/5 ص178 شرح نہج البلاغہ جلد/2 ص501

۱۶۳

جنگ جمل کے دوران مجھے ایک کلمہ کے ذریعہ فائدہ پہونچا. جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ فارس میں کسری کی بیٹی حکومت کر رہی ہے تو آپ نے فرمایا:

وہ قوم فلاح و بہبود کا منہ نہیں دیکھ سکتی جس کے امور کی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں ہو.(1)

ایک ہی وقت میں ام المومنین عائشہ کا مضحکہ خیز اور شک آور موقف سامنے آتا ہے کہ وہ خدا اور رسول(ص) کی معصیت کرتے ہوئے گھر سے نکلتی ہیں اور صحابہ سے کہتی ہیں کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو.

وہ تعجب خیز بات یہ ہے!! آپ اس کی وجہ جانتے ہیں؟

ابن ابی الحدید اپنی شرح میں،اور دوسرے مورخین نے تحریر کیا ہے کہ عائشہ نے بصرہ سے زید ابن صوحان عبدی کو ایک خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا یہ خط ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر زوجہ رسول(ص) کی طرف سے ان کے بیٹے زید ابن صوحان کے نام ہے.

اما بعد: تم اپنے گھر میں(بیٹھے) رہو اور لوگوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کی مدد سے روکو! امید ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے وہی اطلاع ملے گی جسے میں دوست رکھتی ہوں. کیونکہ میری اولاد میں تم معتمد ہو.

والسلام

____________________

1.صحیح بخاری جلد/8 ص97، باب الفتن، نسائی جلد/4 ص305، مستدرک جلد/4 ص525

۱۶۴

اس مرد صالح نے انہیں وہی جواب لکھا جو ان کے شایان شان تھا. لکھتے ہیں.

یہ خط زید ابن صوحان کی طرف سے عائشہ بنت ابوبکر کے نام:

اما بعد! خدا نے کچھ چیزیں تم پر اور کچھ ہم پر واجب کی ہیں تمہارے اوپر گھر میں رہنا واجب ہے اور ہم پر جہاد کرنا واجب ہے. آپ کا خط ملا جس میں آپ نے مجھے خدا کی حکم کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیا ہے. جو خدا نے تم پر واجب کیا ہے اسے میں انجام دوں اور جو مجھ پر واجب ہے تم اس پر عمل کرو میں نزدیک تمہاری اطاعت واجب نہیں ہے اور آپ کا یہ خط لائق جواب نہیں ہے.

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عائشہ نے جنگ جمل کے لشکر کی قیادت ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی قیادت کی حرص میں مبتلا تھیں اور اس کے لئے وہ طلحہ و زبیر کو حکم دیتی تھیں، عامل و حکام کو خط لکھتی تھیں اور انہیں مختلف طریقوں سے طمع دے کر مدد طلب کرتی تھیں.

انہیں باتوں کی وجہ سے وہ اس مرتبہ پر پہونچیں اور بنی امیہ میں خوب شہرت پائی اور ان کی توجہ کا مرکز قرار پائیں. جو چیز ان کی عظمت و سطوف کا سبب بنی وہ ان کا حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں آجانا تھا. کیونکہ حضرت علی(ع) کے مقابلہ میں شیر دل افراد، شہرت یافتہ پہلوان اور دلیر بھاگتے ہی نظر آتے تھے. لیکن عائشہ میدا میں ڈٹی رہیں. مدد طلب کرتی رہیں لوگوں کو گھروں سے باہر نکال دیتیں....

۱۶۵

.................... اس لئے عقلیں متحیر، مورخین میں وہ لوگ پریشان ہیں جو جنگ جمل صغری میں علی(ع) کی آمد سے قبل ان کے موقف کو سمجھ گئے ہیں اور جنگ جمل کبری میں علی(ع) کی آمد کے بعد عائشہ نے لوگوں کو کتاب خدا کی طرف دعوت دینا شروع کر دی اور اپنے اس عناد کے سبب کہ جو انہیں اپنے بیٹوں سے تھا جو خدا و رسول(ص) کے مخلص تھے جنگ کرنے پر مصر ہیں.

نبی نے عائشہ اور ان کے فتنہ سے ڈرایا

یقینا نبی(ص) اپنے خلاف ہونے والی سازش کو بخوبی جانتے تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ جانتے تھے کہ مردوں کے خلاف عورتیں فتنہ پھیلانے میں مہارت رکھتی ہیں. جس طرح آپ(ص) کو معلوم تھا کہ عورتوں کے مکر اتنے ہی عظیم ہوتے ہیں کہ اس کے ذریعہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں. خصوصا آپ اس بات کو پہچان چکے تھے کہ آپ کی زوجہ عائشہ اس میں غلطی سے دوچار ہوگئیں. کیونکہ ان کی طبیعت میں آپ کے خلیفہ علی(ع) کی طرف سے خصوصا اور اہل بیت(ع) کی طرف سے عموما بغض و کینہ بھرا ہوا ہے. کیوں نہ ہو آپ خود اپنی زندگی میں عائشہ کو اور اہل بیت(ع) سے ان کو دشمنی کو ملاحظہ فرما چکے تھے. اسی لئے کبھی عائشہ پر غضبناک ہوتے اور کبھی آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہو جاتا. ہر مرتبہ ہی کوشش فرماتے تھے کہ عائشہ کو یہ بات باور کرا دیں کہ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست ہے اور جو علی(ع) سے بغض رکھتا ہے وہ دشمن خدا اور منافق ہے. لیکن افسوس یہ احادیث ان کے نفوس میں اتر گئیں جو حق کو حق صرف اپنے فائدہ کے لئے سمجھتے ہیں.

۱۶۶

اسی لئے جب رسول(ص) کو یہ معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس کو خدا نے اس امت کی آزمائش و امتحان کے لئے مقرر کردیا ہے جس طرح گذشتہ امتوں کو آزمائش میں مبتلا کیا تھا. ارشاد ہے:

( الم أَحَسِبَ‏ النَّاسُ‏ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا ءَامَنَّا وَ هُمْ لَايُفْتَنُونَ ) عنکبوت آیت/2

کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.

اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا.

یقینا رسول(ص) نے متعدد بار اپنی امت کو اس سے ڈرایا یہاں تک کہ ایک روز آپ کھڑے ہوئے اور عائشہ کے گھر کی طرف رخ کر کے فرمایا یہ فتنہ گاہ ہے. یہاں سے اس طرح فتنہ پھوٹے گا جس طرح شیطان کے سینگھ نکلتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کے باب"ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)" میں نافع سے اور انھوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا رسول(ص) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا: "یہاں فتنہ ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا"(1) اس طرح مسلم نے اپنی صحیح میں عکرمہ ابن عمار سے اور انہوں نے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص46

۱۶۷

سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ: ایک روز رسول(ص) عائشہ کے گھر سے نکلے اور فرمایا:

کفر کا سر یہاں ہے جو شیطان کے سینگھ کی طرح نکلے گا.(1)

اہل سنت کی اس توجیہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ رسول(ص) کی مراد مشرق ہے یہ تو گڑھی ہوئی بات ہے کیونکہ وہ ام المومنین عائشہ کو اس تہمت سے بچانا چاہتے ہیں.

نیز صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے کہ: جب طلحہ و زبیر اور عائشہ بصرہ پہونچے تو علی(ع) نے( اپنے بیٹے) حسن(ع) اور عمار کو ہمارے پاس کوفہ روانہ کیا. یہ دونوں(حسن(ع) عمار) منبر پر گئے بس حسن(ع) ابن علی(ع) منبر کے سب سے اونچے زبز پر تشریف فرما ہوئے اورعمار ان سے نیچے، ہم لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے میں نے عمار یاسر کو فرماتے سنا کہ: عائشہ بصرہ پہونچ گئیں ہیں قسم خدا کی اگرچہ وہ دنیا و آخرت میں ہمارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدائے تعالی نے تمہیں اس میں مبتلا کر دیا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم خدا کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی.(2)

اللہ اکبر: یہ خبر بھی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ عائشہ کہ اطاعت بھی معصیت ہے اور ان سے روگردانی اور ان کے خلاف قیام کرنے میں

____________________

1.صحیح مسلم جلد/8 ص181

2.صحیح بخاری جلد/8 ص97

۱۶۸

خدا کی اطاعت ہے.

جیسا کہ ہم اس بحث میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ بنی امیہ کے( زر خیز) راویوں نے آخرت کا اضافہ کر دیا ہے چنانچہ کہدیا" وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں" تاکہ لوگوں کو فریب دیا جاسکے کہ خدا نے ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے اور داخل جنت کر دیا ہے اور ( اب بھی) ان کے شوہر حبیب خدا رسول(ص) ہیں. ورنہ عمار کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ عائشہ آخرت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں.

یہ دوسرا حیلہ ہے کہ جو بنی امیہ کے زمانہ میں روایت گڑھنے والوں نے عائشہ کے لئے گڑھ دیا تھا. اور جب بھی وہ کوئی حدیث لوگوں کی زبان پر جاری دیکھتے تھے تو اس کا انکار و تکذیب نہیں کرسکتے تھے تو اس میں کسی فقرہ یا کلمہ کا اضافہ کر دیتے تھے. یا اس حدیث کے بعض الفاظ بدل دیتے تھے تاکہ اس حدیث کا زور ختم کر دیں یا اس کے مخصوص معنی ہی کو ختم کر دیں. جیسا کہ انہوں نے حدیث" انا مدینة العلم و علی بابها" میں" ابوبکر اساسها و عمر حیاطها و عثمان سقفها" کا اضافہ کر دیا ہے.

یہ بات انصافور محقق پر مخفی نہیں ہے لہذا وہ ان اضافوں کو باطل قرار دیتے ہیں کہ جن سے گڑھنے والوں کی ضعیف العقلی اور احادیث نبوی کے نور حکمت سے دوری واضح ہو جاتی ہے.

پس جب وہ اس قول کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ ابوبکر اس کی اساس تو اس کے یہ معنی نکلتے ہیں کہ رسول(ص) کا سارا علم ابوبکر کے علم سے ماخوذ ہے اور یہ کفر ہے. جس طرح ان کے اس قول کہ عمر اس کی دیوار ہیں کے یہ معنی ہیں کہ عمر اس شہر میں لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے یعنی لوگوں کو علم حاصل نہیں کرنے دیتے

۱۶۹

اور ان کا یہ قول کہ عثمان اس کی چھت ہیں تو یہ سرے سے باطل ہے کیونکہ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں چھت پڑی ہو اور یہ محال بھی ہے جس طرح انہوں نے یہ ملاحظہ کیا کہ عمار خدا کی قسم کھا کے کہتے ہیں کہ عائشہ دنیا و اخرت میں نبی(ص) کی زوجہ ہیں تو یہ غیب کی خبر ہے ورنہ عمار کو حق کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ نا معلوم شئی کے بارے میں قسم کھائیں؟ کیا اس سلسلہ میں کتاب خدا میں کوئی آیت ہے یا یہ کوئی حدیث ہے جو رسول(ص) نے عمار سے بیان فرمائی تھی؟

پس حدیث صحیح ہے کہ عائشہ بصرہ پہونچ چکی ہیں وہ تمہارے نبی(ص) کی زوجہ ہیں لیکن خدا نے ان کے ذریعہ تمہیں اس لئے امتحان میں مبتلا کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا وہ.

ہم اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیںکہ اس نے ہمیں عقل سے نوازا ہے کہ جس کے ذریعہ ہم حق کو باطل سے جدا کرتے ہیں اور ہمارے لئے راستہ کو واضح کیا پھر ہمیں متعدد چیزوں میں مبتلا کیا تاکہ روز قیامت ہمارے اوپر حجت قائم ہوجائے.

خاتمہ بحث

ہماری پوری گذشتہ بحث میں اہم پہلو یہ تھا کہ ام المومنین زوجہ رسول(ص) عائشہ بنت ابوبکر اہل بیت میں شمار نہیں ہوئی ہیں. جن کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھا اور ہر رجس سے پاک رکھا ہے وہ معصوم ہیں.

عائشہ کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام بہت ہی حسرت و یاس اور ندامت میں گذارے ہیں. اپنے

۱۷۰

اعمال کو یاد کرتی ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں. شاید خدا ان کے گناہوں کو بخش دے. کیونکہ اپنے بندوں کے راز سے فقط وہی واقف ہے وہی ان کی نیتوں سے با خبر ہے، وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے. اور سینہ میں مخفی بھید سے واقف ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ہم میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم اس کی کسی مخلوق کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ کریں، اس کا اختیار تو خدا ہی کو ہے. چنانچہ ارشاد ہے.

( لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ إِنْ‏ تُبْدُوا ما فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشاءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ ) بقرہ/284

اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی کل کائنات ہے تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈال دو وہ سب کا حساب لے گا، وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب کرے گا.اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے.

اس لحاظ سے ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان کی شخصیت کو گرائیں یا ان پر لعنت کریں لیکن ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ان کی اقتدا نہ کریں اور ان کے اعمال کو اچھا نہ سمجھیں بلکہ ان ہی حقیقت کی وضاحت کے پیش نظر لوگوں کے درمیان بیان کریں، ممکن ہے اس سے انہیں حق کی ہدایت ملے.

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں.

"ولا تکونوا سبابین و لا لعانین و لکن قولوا: کان من فعلهم کذا و کذا لتکون ابلغ فی الحجة"

۱۷۱

سب و شتم اور لعن و طعن کرنے والے نہ بن جائو لیکن اتنا بہر حال کہو کہ ان کے کارنامے یہ ہیں. تا کہ حجت تمام ہو جائے.

اہل بیت(ع) کے متعلق اہل ذکر کا نظریہ

سردار عترت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:.

"تَاللَّهِ لَقَدْ عُلِّمْتُ‏ تَبْلِيغَ‏ الرِّسَالاتِ‏ وَ إِتْمَامَ الْعِدَاتِ وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتِ، وَ عِنْدَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَبْوَابُ الْحُكْمِ وَ ضِيَاءُ الْأَمْرِ."

خدا کی قسم مجھے پیغاموں کے پہونچانے وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے ہم اہل بیت نبوت وہ ہیں جن کے پاس علم و معرفت کا خزانہ ہے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں.

"أَيْنَ‏ الَّذِينَ‏ زَعَمُوا أَنَّهُمُ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ دُونَنَا كَذِباً وَ بَغْياً عَلَيْنَا أَنْ رَفَعَنَا اللَّهُ وَ وَضَعَهُمْ وَ أَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ وَ أَدْخَلَنَا وَ أَخْرَجَهُمْ بِنَا يُسْتَعْطَى الْهُدَى وَ يُسْتَجْلَى الْعَمَى إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِي هَذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ لَا تَصْلُحُ عَلَى سِوَاهُمْ وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ‏"

................................

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر118

۱۷۲

کہاں ہیں وہ افراد جھوٹے ہیں ہم پر ستم روا رکھے ہوئے ہیں، وہ دعویدار علم و حکمت ہیں جب کہ راسخون فی العلم ہم ہیں اللہ نے ہمیں بلند کیا ہے اور انہیں پست قرار دیا ہے ہمیں منصب امامت سے سر فراز کیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے ہم وہ ہیں جن سے ہدایت کے متلاشی ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور گمراہی و تاریکی دور کی جاسکتی ہے. بلاشبہ امام قبیلہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ قبیلہ نبی ہاشم ہے جن کے صلب سے امام یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گے امامت وہ منصب جلیلہ ہے جو کسی کو زیب نہیں دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.(1)

"نَحْنُ‏ الشِّعَارُ وَ الْأَصْحَابُ وَ الْخَزَنَةُ وَ الْأَبْوَابُ لَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ وَ هُمْ كُنُوزُ الرَّحْمَنِ إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا وَ إِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا."(2)

ہم اہل بیت(ع) رسول(ص) کے قرابتدار اور اصحاب خاص اور مخزن نبوت و باب العلم ہیں. جو شخص کسی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ درواہ سے آئے جو دروازہ کو چھوڑ کر

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر142

2. نہج البلاغہ خطبہ نمبر152

۱۷۳

کسی اور راہ سے داخل ہو وہ چور کہلائے گا، اہل بیت وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کی بے شمار آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں اگر ہم بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بولنے کا حق نہیں.

"هم‏ عيش‏ العلم‏ و موت الجهل، يخبر حلمهم عن علمهم، و ظاهرهم عن باطنهم، و صمتهم عن حكم منطقهم، لا يخالفون الحقّ و لا يختلفون فيه، هم دعائم الإسلام، و ولائج الاعتصام، بهم عاد الحقّ في نصابه، و انزاح الباطل عن مقامه، و انقطع لسانه عن منبته، عقلوا الدّين عقل وعاية و رعاية، لا عقل سماع و رواية، فإنّ رواة العلم كثير و رعاته قليل."(1)

اہل بیت علم کے لئے باعث حیات اور جہالت کے لئے سبب مرگ ہیں ان کا حلم ان کے علم کا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کا پتہ دیتی ہے. وہ نہ تو حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں. وہ اسلام کے ستون اور محافظت کے ذمہ­دار ہیں ان کی وجہ سے حق اپنی جگہ پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان اس کی جڑ سے کٹ گئی، انہوں نے دین کو سمجھ کر

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر236

۱۷۴

اور اس پر عمل کر کے پہچانا نہ کہ روایت و سماعت سے جانا. یوں تو علم کے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہو کر نگہ داشت کرنے والے کم ہیں.

"عِتْرَتُهُ‏ خَيْرُ الْعِتَرِ وَ أُسْرَتُهُ خَيْرُ الْأُسَرِ وَ شَجَرَتُهُ خَيْرُ الشَّجَرِ نَبَتَتْ فِي حَرَمٍ وَ بَسَقَتْ فِي كَرَمٍ لَهَا فُرُوعٌ طِوَالٌ وَ ثَمَرٌ لَا يُنَالُ.(1)

نَحْنُ‏ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا يَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا يَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.(2)

رسول(ص) مقبول کی عترت بہترین عترت ہے اور سیرت بہترین سیرت ہے. شجرہ نبوت بہترین شجرہ ہے اور ایسا شجرہ ہے جو سرزمین حرم پر اگا اور بزرگی کے سائے میں بڑھا اس کی شاخین دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں.

ہم اہل بیت، نبوت کے درخت، رسالت کی قیام گاہ، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن، اور حکمت کے سرچشمہ ہیں، ہماری نصرت کرنے والا رحمت کے لئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر الہی کا منتظر رہنا چاہیئے

____________________

1. نہج البلاغہ خطبہ نمبر94

2. نمبر107

۱۷۵

"نَحْنُ‏ النُّجَبَاءُ وَ أَفْرَاطُنَا أَفْرَاطُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَا وَصِيُّ الْأَوْصِيَاءِ وَ أَنَا مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ حِزْبِ رَسُولِهِ وَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ حِزْبِ الشَّيْطَانِ وَ الشَّيْطَانُ مِنْهُمْ فَمَنْ شَكَّ فِينَا وَ عَدَلَ عَنَّا إِلَى عَدُوِّنَا فَلَيْسَ مِنَّا

فَأَيْنَ‏ تَذْهَبُونَ‏ وَ أَنَّى‏ تُؤْفَكُونَ‏ وَ الْأَعْلَامُ قَائِمَةٌ وَ الآْيَاتُ وَاضِحَةٌ وَ الْمَنَارُ مَنْصُوبَةٌ فَأَيْنَ يُتَاهُ بِكُمْ وَ كَيْفَ تَعْمَهُونَ وَ بَيْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِيِّكُمْ وَ هُمْ أَزِمَّةُ الْحَقِّ وَ أَعْلَامُ الدِّينِ وَ أَلْسِنَةُ الصِّدْقِ فَأَنْزِلُوهُمْ بِأَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْآنِ وَ رِدُوهُمْ وُرُودَ الْهِيمِ الْعِطَاشِ.(1)

أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ ص إِنَّهُ يَمُوتُ مِنْ مَاتَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ وَ أَعْذِرُوا مَنْ لَا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَيْهِ وَ هُوَ أَنَا أَ لَمْ أَعْمَلْ فِيكُمْ بِالثَّقَلِ الْأَكْبَرِ وَ أَتْرُكْ فِيكُمُ الثَّقَلَ الْأَصْغَرَ قَدْ رَكَزْتُ فِيكُمْ رَايَةَ الْإِيمَانِ.(2)

ہم اشراف قریش ہیں ہماری بلندی انبیاء کی بلندی ہے ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے اور فتنہ پروروں کا گروہ شیطان

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر85

2....... نمبر85

۱۷۶

کا گروہ ہے.

اے لوگو تم کہاں جا رہے ہو اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے جب کہ ہدایت کے بلند نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور تم ہو کہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہو جب کہ تمہارے نبی کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے، وہ حق کی باگیں دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں، پس تم لوگ قرآن کی تنزیل کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو. لوگوں کو ہی ان کے پاس پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سرچشمہ ہدایت پر لے آئو.

اے لوگو! حضرت خاتم الانبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد کو سنو کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا: ہم میں جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے، ہم میں سے بظاہر مردہ ہو کر بوسیدہ ہو جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ہے جو باتیں تم نہیں جانتے ہو ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لئے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ و نا آشنا ہو جس شخص کی حجت تم پر تمام ہو اور تمہاری حجت کوئی اس پر تمام نہ ہو اس کو معذور سمجھو اور وہ ہیں ہوں. کیا میں تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر(اہل بیت) کو تم میں نہیں رکھا.

۱۷۷

"انْظُرُوا أَهْلَ‏ بَيْتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ وَ اتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَأَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"

اپنے نبی کی ذریت یعنی اہل بیت کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو وہ تمہیں کبھی ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف جانے دیں گے، اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جائو اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو، ان سے آگے نہ بڑھ جائو ورنہ گمراہ ہو جائو گے اور نہ انہیں چھوڑ کر پیچھے رہ جائو ورنہ تباہ ہو جائو گے.(1)

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے یہ ارشادات خصوصا اہل بیت(ع) طاہرین سے متعلق ہیں کہ جن سے اللہ نے رجس و کثافت سے ایسے پاک رکھا ہے جو حق ہے.

اگرہم ان کی اولاد میں سے ہونے والے ان ائمہ کے اقوال کی چھان بین کرتے کہ جنہوں نے لوگوں کے درمیان خطبے دئیے ہیں. جیسے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)، زین العابدین(ع)، و جعفر صادق(ع)، اور امام علی رضا علیہم السلام تو ہمیں بالکل وہی کلام ملتا جو آپ(علی(ع)) کا ہے. اور وہ انہیں باتوں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ملتے جن کی طرف آپ اشارہ فرماچکے ہیں اور ہر زمانہ اور

____________________

1.نہج البلاغہ خطبہ نمبر95

۱۷۸

ہرجگہ کتاب خدا اور عترت رسول(ص) کی طرف لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں تاکہ انہیں گمراہی سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزان کردیں. یہاں میں اس بات کا اور اضافہ کردوں کہ عصمت اہلبیت(ع) پر تاریخ بہترین گواہ ہے، ان کا علم و تقوی اور زہد و ورع، جود و کرم و برد باری و عفو و بخشش اور وہ تمام افعال جسے خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں.

اسی طرح تاریخ اس بات پر بھی بہترین شاہد ہے کہ اس امت میں سے صوفی اور شیخ طریقت میں سے بعض افراد اور مذاہب کے پیشوا موجودہ اور گذشتہ زمانہ کے صالح علماء سب کو اہل بیت(ع) کی افضلیت کی اعتراف ہی اور علم و عمل کے لحاظ سے انہیں سب سے بلند قرار دیتے ہیں نیز رسول(ص) کے مخصوص قرابتدار کہتے ہیں.

ان تمام باتوں کے باوجود ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں،، ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور انہیں اس طرح پاک رکھا جو حق ہے. جنہیں رسول(ص) نے کسا کے نیچے کیا" ان میں نبی(ع) کی ازواج کا اضافہ کرے.

کیا تم نہیں دیکھتے کہ بخاری و مسلم و ترمذی، امام احمد اور نسائی نے اپنی اپنی صحاح اور مسانید میں احادیث فضائل نقل کرتے وقت اہل بیت کو ازواج نبی(ص) سے علیحدہ طور پر بیان کیا ہے.

جیسا کہ صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں بیان

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص130

۱۷۹

ہوا ہے کہ زید ابن ارقم نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

آگاہ ہو جائو میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑنے والا ہوں، ایک کتاب خدا کہ جو حبل اللہ ہے جس نے اس کی پیروی کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوا.

اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں. میں اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں.

ہم نے کہا کیا آپ کے اہل بیت(ع) میں آپ کی ازواج بھی ہیں؟ فرمایا: نہیں خدا کی قسم عورت مرد کے ساتھ ایک زمانہ تک رہتی ہے جب وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ کی طرف پلٹ جاتی ہے. ان کے اہل بیت(ع) ان کے خاندان والے وہ لوگ ہیں جن پر آپ(ص) کے بعد صدقہ حرام ہے.(1)

اسی طرح بخاری و مسلم میں نزول آیہ تیمم کے واقعہ کے ذیل میں یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ عائشہ ابوبکر کی اولاد ہیں نبی(ص) کی آل سےنہیں ہیں.(2) پس ان کینہ پروروں کو جن کی کوشش فتنہ پردازی اور ٹھوس حقائق کو پامال کرنا ہے انہیں اس بات پر اصرار کیوں ہے؟

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7 ص123 باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع)

2.بخاری جلد/1 ص86 مسلم جلد/1 ص190

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291